ہائے میرے اللہ ابھی کچھ دن پہلے گھر میں کیسی شادی کی خوشیاں منائیں جارہی تھیں اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذکیہ بیگم نے سر آہ کھینچ کر مثال سے کہا
پتہ ہی نہیں کس کی نظر لگ گئی ھمارے ہنستے بستے گھر کو ۔۔۔۔۔ مثال کے کوئی جواب نہ دینے پر انہوں نے پھر کہا
مما عدیل ٹھیک ہو جائے گے نا ۔۔۔۔۔ مثال نے ماں کی گود میں سر رکھ کر آنسو کو ضبط کرتے ہوئے پوچھا
انشاء اللہ بیٹا ۔۔۔۔ ذکیہ بیگم کو خود کی آواز کھوکھلی لگی
کیا یہ کنزیٰ ھمارے ہنی مون پر جانے کے بعد گم نہیں ہوسکتی تھی ۔۔۔۔۔ بشری نے بے زاری سے کہا
خدا کے لئے بشری خاموش ہوجاو ۔۔۔۔۔ سوچ سمجھ کر تو بولا کرو ۔۔۔۔ ذکیہ بیگم نے بیٹی کو غصے سے ڈانٹا اور کمرے سے نکل کر باہر چلیں گئیں
ایسا کیا کہ دیا میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ بشری نے مثال کی طرف دیکھ کر پوچھا
مثال نے بہن کی طرف دکھ اور افسوس سے دیکھا اور ماں کے پیچھے باہر نکل گئی
************
کنزیٰ کو ہوش آچکا تھا ۔۔۔
میں کہاں ہوں؟ ؟
یہ کون سی جگہ ہے؟ ؟ کنزیٰ نے چاروں طرف نظریں گھما کر دیکھا
اسے ہر طرف اجنبیت نظر آئ
اسنے اٹھنے کی کوشش کی مگر اسے اپنا پورا وجود زخمی لگا
اسنے خود کو گھسیٹ کر بمشکل بیڈ پر بیٹھا یا
بیڈ کے برابر رکھا پانی کے جگ کو اٹھا کر اسنے اپنے پیاسے لبوں سے لگا لیا اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پینے کی کوشش کرنے لگی
پانی پی کر وہ کچھ سوچنے کی پوزیشن میں ہوئی
میں تو کالج میں تھی اور ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک وہ آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ میرے خدا کیا مجھے اغوا کر لیا گیا ہے؟ ؟ اس نے خود سے سوال کیا
یہ وہ کنزیٰ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ میری بہن کنزیٰ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے کانوں میں عدیل کی آواز گونجی جو اس نے تھوڑی دیر کے لیے ہوش میں آنے کے بعد سنی تھی
تو کیا عدیل نے مجھےاغوا کروایا تھا؟ ؟ اسنے خود سے پوچھا
نہیں مجھے نہیں وہ کسی اور کنزیٰ کو اغوا کروانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ لیکن کسکو اور کیوں؟ ؟
اسے ایک دم خود سے وحشت ہوئ ۔۔۔۔۔۔ اسکا دل کرا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے ۔۔۔۔۔
اس نے اپنی سوچ پر عمل کرنے کے لئے اٹھ کر بھاگنا چاہا مگرایک درد کی لہر نے اسے ایسا نہیں کرنے دیا
اس نے خود کو سنبھلا اور پوری طاقت سے وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور جو چادر عدیل نے اس پر ڈالی تھی اسے اپنے وجود پر اچھی طرح لپیٹا اور دروازے کی جانب بڑھی
دروازہ باہر سے لاک نہیں تھا
اسنے آہستہ سے دروازے کو باہر کی جانب دھکیلا دروازہ کھل گیا
کمرے سے باہر آکر کنزیٰ کو سناٹے کا احساس ہوا ۔۔۔۔ اس نے پوری قوت سے باہر کی جانب دوڑ لگا دی
باہر گیٹ پر بھی کوئی موجود نہیں تھا وہ بھاگتی رہی اور بھاگتے بھاگتے سڑک پر آگئی
تیز بھاگنے کی وجہ سے اسکی سانس پھول ر(ہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہیں رکی نہیں اور کچھ آگے جاکر اسے گھر نظر آئے ۔۔۔۔۔۔
بھاگتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اسی نے گھروں کے بند دروازوں کو دیکھتےہوئے مدد کے لئے پکارا ۔۔۔۔۔
بچاو
بچاو
اسکی ٹانگیں بھاگ بھاگ کر شل ہوچکی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے تحاشا پھولتی سانس اور جلتا ہوا
خشک حلق اسکی برداشت کو آخری حد تک لے گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک اسکا پاوں خاردار جھاڑیوں میں الجھا اور وہ منہ کے بل گری
بیہوش ہونے سے پہلے اس نے ایک کھلے دروازے سے کسی کو مدد کے لئے اپنے قریب آتے دیکھا اور اسکا
ذہن تاریکی میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسن کے وفادار چوکیدار نے مالک کے حکم کے مطابق کنزیٰ کا پیچھا کیا اور جب لوگ کنزیٰ کی مدد
کے پکارنے پر اس کے قریب آئے اور اسے بیہوشی کی حالت میں اٹھا کر قریب ہسپتال میں میں لے گئے تو
اس نے احسن کو کال کر کے ساری صورتحال سے آگاہ کیا
احسن نے اسے واپس بنگلے میں جانے کا کہا اور کال بند کر کے عباد اور عمران کو ساری صورتحال
بتائ ۔۔۔۔ اور پھر عدیل کا نمبر پریس کرنے لگا ۔۔۔۔۔
دوسری جانب سے صرف بیل جارہی تھی کوئی کال ریسو نہیں کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پریشان ہو کر پھر کال کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کال ریسو کرلی گئی ۔۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔۔۔۔ احسن نے کہا
جی کون بول رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ دوسری جانب ذکیہ بیگم تھیں
آنٹی یہ عدیل کا نمبر نہیں ہے کیا؟ ؟ احسن نے کسی خاتون کی آواز سن کر گڑ بڑا کر پوچھا
بیٹا یہ اسی کا نمبر ہے مگر اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ وہ بات نہیں کرسکتا آرام کر رہا ہے ۔۔۔
آپ بعد میں کال کر لینا ۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر ذکیہ بیگم نے کال کاٹ دی اور مثال کو آوازیں دینے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال ۔۔۔۔۔مثال ۔۔۔۔۔ ذکیہ بیگم نے آواز دی
جی مما ۔۔۔۔۔۔۔ مثال نے آکر پوچھا
بیٹا عدیل کا موبائل آف کر کے رکھ دو جب وہ ٹھیک ہو کر آئے گا تو اسے دے دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے مما مثال نے کہا اور موبائل آف کردیا ۔۔۔۔۔۔۔
******************
یار میں نے عدیل کو کال ملائ تھی ۔۔۔۔۔۔ مگر اسکی شاید امی نے کال اٹھائ تھی کہ رہیں تھیں کہ اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ احسن نے دونوں کو دیکھتےہوئے کہا
تو جو کچھ اسکے ساتھ ہوا اس کے بعد اسکی طبیعت تو خراب ہونی تھی ۔۔۔۔۔ عباد نے کہا
یار جو ہوا اسکے بعد میں اب دوبارہ عدیل سے نظریں نہیں ملا سکوں گا ۔۔۔۔۔۔میں اب کبھی پھر تم لوگوں سے نہیں مل سکتا ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر عمران نے اپنی بائیک اسٹارٹ کی اور چلا گیا
عباد اور احسن نے حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر سڑک کی جانب دیکھا جہاں سے ابھی ابھی عمران کی بائیک گئی تھی ۔
***********
عدیل ہوش میں آنے کے بعد اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا
وہ صرف بار بار ایک جملے کی تکرار کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
یہ میری بہن کنزیٰ ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ میری بہن کنزیٰ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدیل کنزیٰ سے بہت پیار کرتا تھا اور اسی لئے وہ کنزیٰ کی گمشدگی کو برداشت نہیں کر پایا ۔۔۔۔۔۔
دیکھئے گا ماموں جب کنزیٰ گھر آجائے گی عدیل اسے دیکھ کر بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر نے منور صاحب اور دانیال صاحب کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا
انشاءاللہ ۔۔۔۔۔ دانیال صاحب نے بھائی کے کاندھے کو دباتے ہوئے یقین دلایا
منور صاحب نے خاموشی سے سر جھکا لیا
انھیں کیا خبر تھی کہ انکا لاڈ لا بیٹا اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہا ہے اور ساری زندگی کاٹتا رہے گا ۔۔۔۔
*****************
عدیل کو گھر میں شفٹ کردیا گیا تھا ۔۔۔
تب ہی منور صاحب کے موبائل پر کنزیٰ کی کال آئی تھی اور ڈاکٹر فرح سے بات کرنے کے بعد منور صاحب اپنے بھائی اور دونوں بھانجوں کے ساتھ ہسپتال پہنچے جہاں انہیں کنزیٰ کی حالت کے بارے میں پتہ چلا
عمر کے سمجھانے اور منور صاحب کی حالت کے پیش نظر تیمور انھیں لیکر گھر آگیا ۔۔۔۔۔
میری بچی کہاں ہے آپ کیوں نہیں لائے اسے ساتھ ۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے انہیں کنزیٰ کے بغیر آتا دیکھکر
پوچھا
بھابھی آپ اندر تو چلیں ھم بتاتے ہیں ۔۔۔۔۔ منور صاحب کے بجائے دانیال صاحب نے جواب دیا
اسے کیا ہوا ہے وہ ہسپتال میں کیوں ہے ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم کو صبر کرنا مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
بیگم ہماری بیٹی لٹ گئی برباد ہو گئی ۔۔۔۔ منور صاحب نے ضبط کھوتے ہوئے چلا کر کہا
نسیم بیگم ، ذکیہ بیگم اور ملیحہ بیگم نے منور صاحب کی بات سن دل تھام لیا
ذکیہ بھابھی بیگم کو سنبھالو ۔۔۔۔۔ دانیال صاحب نے نسیم بیگم کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھتےہوئے کہا
ذکیہ بیگم اور مثال تیزی سے آگے بڑھیں اور نسیم بیگم کو سنبھال کر کمرے میں لے گئیں
بشری جلدی سے پانی لے آئ ۔۔۔۔۔۔
مجھے میری بچی کے پاس لے چلو ۔۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے منور صاحب سے التجا کی
صبر کرو بیگم کل وہ گھر آجائے گی ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا
منور وہ میری بیٹی ہے اسے اس وقت صرف اور صرف میری ضرورت ہے وہ راہ دیکھ رہی ہوگی میری بار بار۔۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے روتے ہوئے کہا
بھابھی بیگم ٹھیک کہہ رہی ہیں بھائی صاحب ۔۔۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بھائی کو سمجھاتے ہوئے کہا
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منور صاحب نے اجازت دیتے ہوئے کہا
میرے خیال سے ذکیہ آپ بھی بھابھی بیگم کے ساتھ چلی جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے ذکیہ بیگم سے کہا
ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔ دانیال صاحب نے بہن کے فیصلے کی تائید کی
ارسلان ان دونوں کو لیکر دانیال صاحب کے بتائے ہوئے ہسپتال پہنچا ۔۔۔۔۔ عمر انکا ہسپتال کے گیٹ پر ہی
انتظار کر رہا تھا
وہ انھیں لیکر کنزیٰ کے کمرے میں آگیا ۔۔۔۔۔
کنزیٰ میری بچی ۔۔۔۔ نسیم بیگم سے صبر نہیں ہو رہا تھا انکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کنزیٰ کو ویسے ہی بانہوں میں بھر لیں جیسے بچپن میں بھر لیا کرتی تھیں
یہ بول کیوں نہیں رہی عمر ۔۔۔۔۔ انہوں نے بے چینی سے عمر سے پوچھا
ممانی جان کنزیٰ کو سکون کا انجکشن لگایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ یہ جتنا سوئے گی اتنی جلدی ٹھیک ہوگی ۔۔۔۔
عمر نے نسیم بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا
نسیم بیگم کنزیٰ کے سر ہانے کھڑے ہوکر آہستہ آہستہ اسکے بال سہلانے لگیں
ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے
مقدروں کے کھیل بھی
کتنے عجیب ہوتے ہیں
لاڈوں کے پلنے والے بھی
قدموں کی دھول ہوتے ہیں
آپ بیٹھ جائیں نا ممانی ۔۔۔۔ عمر نے نسیم بیگم سے کہا
نہیں میں یہاں ہی ٹھیک ہوں ۔۔۔ انہوں نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا
عمر مسکرایا اور پاس پڑی کرسی اٹھا کر انکے قریب رکھتے ہوئے انہیں زبردستی بٹھایا
****************
تیمور ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے تیمور کے کمرے کا دروازہ دھیرے سے بجاتے ہوئے اسے آواز دی
تھوڑی دیر میں دروازہ کھول گیا ۔۔۔۔
اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر انکا کلیجہ منہ کو آگیا
کیا ہوا میرے بچے ۔۔۔۔۔ انھوں نے تڑپ کر پوچھا
امی جان ایسا میرا ساتھ ہی کیوں ہوا ۔۔۔۔۔۔ تیمور نے ماں کے گلے لگ کر اپنا ضبط کھوتے ہوئے کہا
حوصلہ رکھو میرے بچے یہ تمھاری برداشت کا امتحان ہے ۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بیٹے کو حوصلہ دیتے کہا
آپ مجھے بتائیں امی میں کیا کروں ۔۔۔۔ تیمور نے ماں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
نہیں بیٹا یہ فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے میں نہیں چاہتی کہ تم یہ فیصلہ کسی بھی دباؤ میں آکر کرو
یہ تمھاری محبت کا امتحان ہے ۔۔۔۔۔
ملیحہ بیگم نے بیٹے کی پیٹ تھپتھپاتے ہوئے کہا اور آنسو پہنچتے ہوئے کمرے سے باہر چلیں گئیں
تیمور نے ماں کو باہر جاتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس لی
اور کسی نتیجے پر پہنچ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا
بھابھی ۔۔۔ بھابھی ۔۔۔۔۔۔۔ تیمور نے زور سے بشری کو آواز دی
تیمور کی آواز نے نہ صرف گھر کے سناٹے کو توڑا بلکہ منور صاحب ، دانیال صاحب اور ملیحہ بیگم کو بھی حیران کردیا ۔۔۔۔
کیا ہوا تیمور کیوں چلا رہے ہو ۔۔۔۔۔ بشری نے حیرت سے تیمور کو دیکھتےہوئے کہا
کچھ تو خیال کریں آپ بھابھی رات کے آٹھ بج رہے ہیں میری ہونے والی بیوی ہسپتال میں بھوکی ہوگی
اسکے لئے رشیدا سے کہہ کر کھانا پیک کروادیں ۔۔۔۔ تیمور کے لہجے میں پرانی والی بشاشت دیکھ کر نہ صرف
بشری حیران رہ گئی بلکہ عدیل کے کمرے میں موجود سب افراد کو حیران کر گئی
ملیحہ بیگم اور منور صاحب کو تیمور کے اس جملے
میری ہونے والی بیوی ۔۔۔۔۔۔
نے سکون بھر دیا۔۔۔۔ منور صاحب نے تشکرانہ نظروں سے بہن کو دیکھا
ملیحہ بیگم بھائی کا ہاتھ تھام کر آنکھوں سے ہوئے رو پڑیں
مثال اور دانیال صاحب کی بھی آنکھیں بھیگ گئیں
اسی وقت تیمور ہسپتال جانے کی اجازت لینے کمرے میں آیا اور سب کو روتا دیکھ کر حیران رہ گیا
کیا ہوا؟ ؟ تیمور نے ماں سے پوچھا
کچھ نہیں ۔۔۔۔ مجھے آج اپنی تربیت پر فخر ہورھا ہے۔۔۔۔ تم نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔ملیحہ نے پیار سے بیٹے کا ماتھا چومتے ہوئے کہا
اماں اب آپ بھی ماموں کو اپنا فیصلہ سنادیں ۔۔۔۔۔۔ تیمور نے ماں کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے کہا
بیٹا میرا بھی وہ ہی فیصلہ ہے جو تمھارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے خوشی سے جواب دیا
دانیال صاحب نے اپنے بھائی کے چہرے پر بکھری ہوئی خوشیوں کے رنگ دیکھ کر سکون کا سانس لیا
وہ بہت خوش تھے کہ گھر میں خوشیاں لوٹ آئ ہیں ۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ کو دیکھ کر عدیل بھی ٹھیک ہو جائے گا پھر ھم مثال اور عدیل کی شادی کردیں گے ۔۔۔۔۔۔ دانیال صاحب نے مسکراتی ہوئی بیٹی کو دیکھتےہوئے سوچا
جاو بیٹا تم ھسپتال کھانا لیکر جاو ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بیٹے کو دیکھتےہوئے کہا
جی امی جان ۔۔۔۔ تیمور نے سعادت مندی سے کہا اور ھسپتال جانے کے لئے نکل گیا
ملیحہ مجھے بھی بھوک لگی ہے پلیز کھانا لگوا دو ۔۔۔۔ دانیال صاحب نے خوشی سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
اچھا میں ابھی لگواتی ہوں ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بھائی کو دیکھتےہوئے کہا
بشری ۔۔۔۔ بشری ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بشری کو آواز دی
جی پھوپھو ۔۔۔۔ بشری نے جواب دیا
بیٹا راشدہ سے کہہ کر کھانا لگوا دو سب کو بہت بھوک لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
جی اچھا ۔۔۔۔ بشری نے آہستہ سے جواب دیا
اللہ کا شکر ہے میرے بیٹے نے مجھے میرے بھائیوں کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے خوشی سے بشری کو دیکھتےہوئے کہا
بشری نے کوئی جواب نہیں دیا بس خاموشی سے سر جھکا لیا
کیا بات ہے بشری تم خاموش کیوں ہو ۔۔۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بشری کو خاموش دیکھتےہوئے پوچھا
مجھے سمجھ نہیں آرہی پھوپھو آپ تیمور کے فیصلے سے خوش کیوں ہیں؟ ؟؟؟؟ آپ کو اسے سمجھانا
چاہئے۔۔۔ کیا کمی ہے اس میں؟ ؟؟؟؟ کیوں آپ اسے مجبور کر رہی ہیں اس فیصلے پر؟ ؟؟؟ بشری نے ملیحہ بیگم کو دیکھتےہوئے زہر اگلا
خاموش ہو جاو تم ۔۔۔۔ میں مجبور نہیں کر رہی بلکہ یہ تیمور کا خود کا فیصلہ ہے ۔۔۔۔۔ سمجھیں تم ۔۔۔۔
ملیحہ بیگم نے تاسف سے بھتیجی کو دیکھا
بہت افسوس ہوا ہے مجھے تمہاری سوچ پر بشری ۔۔۔۔۔ پیچھے سے دانیال صاحب کی آواز آئی
ملیحہ بیگم اور بشری نے دانیال صاحب کی آواز پر چونکتے ہوئے دیکھا
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری بیٹی کی سوچ اتنی گھٹیا ہو سکتی ہے ۔۔۔۔ دانیال صاحب نے بشری کو غصے سے گھور کر کہا
چھوڑو دانیال بچی ہے ابھی سمجھ جائے گی وقت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بات ختم کرتے ہوئے کہا اور بشری کو جانے کا اشارہ کیا۔
**************