یار عدیل میرے خیال سے اسے ہوش آرھا ہے ۔۔۔۔ احسن نے کمرے سے باہر نکل کر عدیل سے کہا
طے شدہ بات کے مطابق تینوں کے بعد اب عدیل کی باری آئی تھی
کیا وہ ہوش میں آگئی ہے؟ ؟ عدیل نے احسن سے پوچھا
نہیں مگر وہ ہوش میں آسکتی ہے ۔۔۔۔۔ احسن نے کہا
تو ایسا کر یہ بیہوشی کی دوا کی بوتل رکھ لے ۔۔۔۔ اگر وہ ہوش میں آنے لگے تو اسے پھر سے بیہوش کردینا ۔۔۔۔ احسن نے اسے ھدایت کی ۔۔۔۔
ٹھیک ہے یار ۔۔۔۔ عدیل نے جلدی سے جواب دیا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔۔۔
************
عدیل کہاں ہے؟ ؟؟ منور صاحب نے ایک دم پوچھا
جی اسکے کسی دوست کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا وہ اسکے پاس چلا گیا تھا ۔۔۔۔ ملیحہ نے بھائی کو تفصیل بتائی
اسے تو پتا بھی نہیں ہے کہ کیا قیامت ٹوٹ گئی ہے گھر پر ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم روہانیسی آواز میں کہا
مثال اس کے گروپ میں کوئی تو تمہاری کلاس کی ایسی لڑکی ہو گی جسے تم جانتی ہو ۔۔۔۔۔۔
تیمور نے بے بسی سے مثال سے پوچھا
جی تیمور بھائی میں نے معلوم کیا ہے راحیلہ ہے ۔۔۔ مگر اسکا موبائل نمبر بدل گیا ہے میں نے اسکا ایڈریس معلوم کر لیا ۔۔۔۔ ھم چل کر اس سے معلوم کر سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی اپنے ڈرائیور کا انتظار کرتی ہے شاید وہ بتا سکے کچھ
ٹھیک ہے چلو ۔۔۔۔ تیمور نے جلدی سے کہا اور اجازت طلب نظروں سے منور صاحب کی جانب دیکھا
ٹھیک ہے جاو ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے اجازت دیتے ہوئے کہا
مثال، تیمور اور ارسلان کے ھمراہ راحیلہ کے گھر جانے کے لئے نکل گئی
***********************
عدیل نے کمرے میں قدم رکھا تو اسے کمرے کی چھت خود پر گرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔۔
اور شدت غم سے چلانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔
کککککککککککننننننننزئ ۔۔۔۔۔، کنزیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ ۔۔۔۔۔ اسی نے دوڑ کر اس کے نیم برہنہ جسم پر بیڈ کے پاس پڑے صوفے پر رکھی ہوئی چادر اٹھا کر ڈالی
اور اسکے قریب زمین پر بیٹھ کر بین کرنے لگا
یا اللہ یہ کیا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔ اپنی بہن کو اس حالت میں دیکھ کر چلانے لگا سر کے بال نوچنے لگا
عباد، عمران اور احسن تینوں گھبرا کر دوڑتے ہوئے آئے ۔۔۔۔۔۔
عدیل زمین پر بیٹھا رو رہا تھا
اسکے بین سے پورا کمرہ گونج رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
تینوں حیران پریشان کھڑے تھے اور معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے
انھیں کھڑا دیکھ کر عدیل زمین سے اٹھا اور ان پر دھڑا کون لایا ہے اسکو یہاں ۔۔۔۔ عدیل نے سر کے بال دونوں ہاتھوں سے ناچتے ہوئے چلا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدیل پاگل ہو گئے ہو تمہارے ہی کہنے سے یہ یہاں لائ گئی ہے ۔۔۔۔ احسن نے عدیل کی حالت سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے یاد دلایا ۔۔۔۔۔
کیا یہ کنزیٰ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ عباد نے انجانے خوف سے عدیل کی طرف دیکھکر پوچھا
بہن ہے میری یہ کتوں۔۔۔۔۔۔۔۔ عدیل چنگھاڑا
یہ وہ کنزیٰ نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بہن ہے یہ ۔۔۔۔۔۔ عدیل نے پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے کہا
اسی لمحے کنزیٰ کو تھوڑا سا ہوش آیا تھا اس نے وہ سب الفاظ جو عدیل نے ان سے کہے تھے سن لئے
اور وہ صدمے سے پھر بیہوش ہوگئی
بہن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں کے ہوش اڑ گئے ۔۔۔۔۔
میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدیل چلاتے ہوئے ان پر جھپٹا
عباد اور عمران نے جلدی سے اسے قابو کر لیا اور تیمور
تقریبا عدیل کو گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لے گئے ۔۔۔۔۔۔۔
ھمارا کیا قصور ہے بولو عدیل ؟؟ احسن نے اسکے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر پوچھا
سارا پلان تیرا تھا ۔۔۔۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ تیری بہن کا کیا نام ہے؟ ؟ نہ ھم نے اس لڑکی کو دیکھا
تھا۔۔۔۔ نہ ہی تیری بہن کو ۔۔۔۔۔۔ احسن نے کہا
لڑکی لانے کے پیسے بھی تو نے بھرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عباد نے بھی اسکو سمجھایا
ھم میں سے کوئی بھی قصور وار نہیں ہے یار تو سوچ۔۔۔۔۔۔۔ احسن نے اسکے سامنے کھڑے ہو کر کہا
عدیل سکتے کے عالم میں سب سن رہا تھا احسن کے الفاظ اسے ایسے محسوس ہو رہے تھے جیسے کسی نے اس کے کانوں میں گرم گرم سیسہ پگلا کر ڈال دیا ہو ۔۔۔۔۔۔ اسی نے درد کی شدت سے آنکھیں بند کر لیں
اور یار یہ بھی تو سوچو کہ وہ بھی تو کسی کی بہن ہوگی جسکو ھم اٹھا کر لا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ عمران
کی بات سن کر تینوں نے چونک کر عمران کو دیکھا اور سکتے میں کھڑے رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ کو اٹھنے نہ دینا غیرت نہیں
بلکہ
اپنی نگاہوں کو کسی کی بہن کی طرف اٹھنے سے روک دینا غیرت ہے
عدیل کو پڑھی ہوئی اس عبارت کا مفہوم اب سمجھ آیا تھا
مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی
جو بھی ھوا غلط ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ عمران نے دکھ سے کہا
اور عدیل نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں
اب سوچنا یہ ہے کہ کیا جائے ۔۔۔۔۔ احسن نے تینوں کو دیکھتےہوئے کہا
یار میرا تو دماغ کام ہی نہیں کر رہا تو سوچ اور جیسا ٹھیک لگے ویسا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عباد نے کہا
ھھھھھھھھھھھھمممممممم ۔۔۔۔۔۔۔ احسن نے ہنکارا بھرا اور سوچنے لگا
*******************
راحیلہ کے گھر پہنچ کر تیمور نے مثال کو گاڑی سے اتر کر اسکے گھر جاکر کنزیٰ کے بارے میں معلوم کرنے کا کہا ۔۔۔۔۔
جی آپ کو کس سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔ مثال کے بیل بجانے پر ایک بوڑھی سی ملازمہ نے دروازہ کھول کر ادب سے پوچھا
مجھے راحیلہ سے ملنا ہے ۔۔۔۔۔۔ مثال نے دھیمے لہجے میں کہا
کون ہے بوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے سے کسی خاتون کی آواز آئی ۔۔۔۔۔
جی یہ کوئی لڑکی آئی ہے راحیلہ بٹیا کا پوچھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوا نے پلٹ کر جواب دیا
تو آپ اسے اندر بلائیں نا بوا کیا دروازے سے ہی لوٹا دیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر سے پھر انہیں خاتون کی آواز آئی ۔۔۔۔۔۔۔
آجائیں بٹیا راحیلہ بٹیا اندر ہیں ۔۔۔۔۔ بوا نے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے کہا
مثال نے پلٹ کر تیمور کی جانب اجازت طلب نظروں سے دیکھا
تیمور فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے سب بآسانی سن رہا تھا ۔۔۔۔ اسی وجہ سے اس نے سر کے اشارے
اسے اندر جانے کی اجازت دی ۔۔۔۔
ارے مثال تم کیسے آئیں ؟؟ راحیلہ نے اسے دیکھ کر خوشدلی سے کہتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا
یار بس بیٹھوں گی نہیں بس یہ معلوم کرنا ہے کہ آج کنزیٰ کے ساتھ تمھارا بھی پریکٹیکل تھا نا ؟؟
مثال نے بے صبری سے پوچھا
ہاں ھم دونوں ساتھ تھے آج۔۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟ ؟ راحیلہ نے پوچھا
کیا میں اپنے بھائی کو اندر بلوا سکتی ہوں ھمیں کچھ پوچھنا ہے کنزیٰ کے بارے میں وہ پلیز؟ ؟
مثال نے آنسو کو ضبط کرتے ہوئے پوچھا
ہاں کی نہیں ۔۔۔۔ راحیلہ کے بجائے اسکی امی نے جواب دیا ۔۔۔ اور بوا کو اشارہ کیا کہ انہیں اندر بلا لائے
بس بہن ھمیں آپ اتنا بتادیں کہ کنزیٰ کو آپ نے آج آخری دفعہ کتنے بجے دیکھا آپ نے کنزیٰ کو؟
جی 12 بجے تک ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ راحیلہ نے جواب دیا
12 بجے تک آپکا پریکٹیکل ختم ہوا تھا کیا؟؟ تیمور نے پوچھا
نہیں بھائی وہ تو 11:45 تک ہی ختم ہوگیا تھا 12 بجے تک تو میری گاڑی آگئی تھی۔۔۔۔۔۔ راحیلہ نے کہا
ہوا کیا ہے کچھ ھم کو بھی تو پتا لگے ۔۔۔۔۔ راحیلہ کی امی نے پوچھا
اور مثال نے انہیں سب بتا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
مثال کی بات سن کر راحیلہ اور اسکی امی حیران اور پریشان ہو گئے ۔۔۔۔۔۔
مگر کالج سے باہر نکلتے ہوئے میں نے خود اسکی گاڑی کھڑی دیکھی تھی ۔۔۔۔۔ راحیلہ نے حیرانی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔
تیمور اور مثال نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا
آپ نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ کر دی کیا؟؟ راحیلہ کی امی نے پوچھا
جی آنٹی۔۔۔۔۔ مثال نے مختصر جواب دیا ۔۔۔۔
بیٹا پلیز میری بیٹی کا نام نہیں لئے گا پولیس کے سامنے میں ایک بیوہ عورت ہو پولیس کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتی ۔۔۔۔۔ راحیلہ کی امی نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پریشان ہوکر کہا
آپ بے فکر رہیں آنٹی یہ ھماری بہنوں جیسی ہے ۔۔۔۔ تیمور نے دکھ سے جواب دیا
اور مثال کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بابر نکل گیا
اب تو مجھے پکا یقین ہو گیا ہے یہ ڈرائیور کا کام ہے ۔۔۔۔۔ تیمور نے گاڑی کے اسٹیرنگ پر غصے سے ہاتھ مار کر کہا ۔۔۔
بیٹیاں کھیلتے کھیلتے بڑی ہو جاتی ہیں
پتہ ہی نہیں چلتا
کب انکا کھیل ختم ہوا کب نصیب کا شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔
نسیم بیگم نے سوچتے ہوئے ایک سرد آہ لی
منور ۔۔۔۔۔۔ دھیرے سے انہوں نے شوہر کو پکارا
منور صاحب نے بیوی کے پکارنے پر چونکتے ہوئے دیکھا۔۔۔
صبح سے شام ھو گئی ہے میری بچی کا ابھی تک کچھ نہیں پتا ۔۔آپ اپنے دوست کو کال کر کے پوچھیں نا ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے آنسو کو پیتے ہوئے کہا
منور صاحب نے تسبیح کے دانے گراتے ہوئے کچھ کہنا چاہا اسی وقت گاڑی کی آواز آئی
کنزیٰ آگئی نسیم بیگم بولیں اور آٹھ کر باہر جانے ہی لگیں تھیں کہ مثال ، تیمور اور ارسلان اندر داخل ہوئے ۔۔۔۔۔۔
کیا ھوا کچھ پتا چلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دانیال صاحب نے بے تابی سے پوچھا
جی ماموں ڈرائیور کا کام ہی ہے یہ ۔۔۔۔ تیمور نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
کیا اس لڑکی نے دیکھا تھا کنزیٰ کو ڈرائیور کے ساتھ جاتے ہوئے ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے حیرانگی سے پوچھا
نہیں بڑے پاپا آپ خود سوچیں جب ڈرائیور وقت سے پہلے موجود تھا اور کنزیٰ کا پریکٹیکل بھی وقت پر ہوگیا تھا تو اس ڈرائیور نے کنزیٰ کو کیوں نہیں بلوایا چوکیدار سے کہ کر ۔۔۔۔۔ ارسلان نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
آپ ھمدانی انکل کو کال کر کے بتائیں تاکہ وہ اس سے سختی سے پوچھ گچھ کریں ۔۔۔۔ تیمور نے کہا
منور صاحب نے پر سوچ نظروں سے دیکھا کسی فیصلے پر پہنچ کر کال کرنے لگے ۔۔۔۔
******************
جو میں کہوں گا اب تم سب کو ویسا ہی کرنا پڑے گا ۔۔۔۔۔ احسن نے تینوں کو دیکھتےہوئے کہا
دیکھو جو کچھ ہوا وہ سب انجانے میں ہوا ۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ اس نے تم کو نہیں دیکھا وہ بیہوش ہے ۔۔۔۔ تو میری بات سن رھا ھے نا ۔۔۔۔ احسن نے عدیل کو دیکھتےہوئے کہا
دیکھو سب پلان کے مطابق ہی ہوگا ۔۔۔۔ بس ایک تبدیلی کی ہے وہ یہ کہ میں نے چوکیدار کو سمجھا دیا ہے کہ جب وہ ہوش میں آئے گی اور بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے بھاگنے دے اور چھپ کر اسکا پیچھا کرے اور موقع دیکھ کر اسے کے سامنے آکر اسے گھر پہنچا دے ۔۔۔۔ احسن نے سب کی طرف دیکھ کر کہا
ٹھیک ہے عدیل؟ ؟ احسن کے بجائے عبادنے عدیل کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا
عدیل نے کوئی جواب نہیں دیا بس خالی نظروں سے اسکی جانب دیکھتا رہا
میرے خیال سے پہلے تم سب اپنے اپنے حلیے درست کر لو ۔۔۔۔۔ احسن نے کہا
نہیں یار بس اب نکل اس جگہ سے مجھے وحشت ہورہی ہے ۔۔۔۔ عمران نے احساس جرم سے کہا
چلو پھر چلتے ہیں ۔۔۔۔ احسن نے کہا اور چوکیدار کو آواز دینے لگا
خان ۔۔۔ خان
تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا پٹھان دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا
جی صاحب ۔۔۔۔ اس نے احسن سے پوچھا
ھم لوگ جارہے ہیں اور جیسا تم کو سمجھایا ہے ویسا ہی کرنا سمجھے ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ احسن نے اسے دیکھ کر پوچھا
جی صاحب سمجھ گیا ہوں میں آپ بے فکر ہو جاو ۔۔۔۔۔ خان نے جواب دیا
چلو ۔۔۔۔ احسن نے کہا
تینوں جانے کے لئے کھڑے ہوئے ۔۔۔۔۔
عباد عدیل کو سنبھال ۔۔۔۔ عدیل کو لڑ کھڑاتا ہوا دیکھ کر احسن چلایا
عباد نے اور عمران نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر عدیل کو تھاما
سنبھالو خود کو یار احسن نے کہا
میں سمجھ سکتا ہوں یار مشکل ہے مگر جو غلطی ھم چاروں کر چکیں ہیں اسکو حل بھی ھمیں ملکر
کرنا ہے ۔۔۔۔ فی الحال یہاں سے چلو پھر کل ملتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا کریں ۔۔۔ احسن نے عدیل کو سمجھاتے ہوئے کہا
چلیں اب؟ ؟ احسن نے عدیل سے پوچھا
عدیل نے جواب دیئے بغیر موڑ کر اس کمرے کی جانب دیکھا جس میں اسکی جان سے پیاری بہن اب لٹی پٹی حالت میں بیہوش پڑی تھی
اور پھر کرب سے تینوں کی طرف دیکھا اور خود کو سنبھالتے ہوئے بابر کی جانب قدم بڑھا دیئے
احسن نے گاڑی عدیل کے گھر کے سامنے روک دی
عدیل خود کو سنبھالتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا
گھر کا سناٹا عدیل کو اپنے اندر محسوس ہوا
وہ سب کی نظروں سے چھپ کر اپنے کمرے میں چھپنا چاہتا تھا
عدیل ۔۔۔۔۔ مثال نے پکارا
عدیل آگیا ۔۔۔۔ سب کی آوازیں اسکے کانوں سے ٹکرائیں وہ سب کیا بول رہے تھے اسے کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا بس شور تھا اور اس میں اسے بس ایک بات سنائی دی کنزیٰ
اور پھر اسے لگا کہ زمین گھوم رہی ہے ۔۔۔۔ اور وہ چکرا کر گر پڑا ۔۔۔
انکو کوئی بہت گہرا صدمہ پہنچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے آئی۔ سی ۔ یو سے باہر آکر منور صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا
اسکو کب تک ہوش آجائے گا ڈاکٹر صاحب ۔۔۔۔۔ عمر نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا
انہیں دعاؤں کی سخت ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے عمر سے کہا
کیا مطلب؟ ؟منور صاحب نے صدمے سے پوچھا
ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا
بعض دفعہ اس کرب کو بیان کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے ھم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
*******************