ھیلو۔۔۔ عدیل نے کال ریسو کی ھوگیا ہے کام شروع۔۔۔۔ احسن نے اسے کوڈوڈ میں بتایا
اور ملنے کا کہا۔۔۔
یار آج تو بہت ہی مشکل ہے۔۔۔ کل تو آریا ہے نا ولیمے میں تو۔۔۔۔ عدیل نے احسن کو جواب دیا۔۔۔
ٹھیک ہے یار۔۔۔ احسن نے کہا اور کال کاٹ دی۔۔۔
بارات میں سب گھر کے بچے اور نسیم بیگم، ملیحہ بیگم کی طرف سے تھیں۔۔۔
جبکہ منور صاحب اپنے بھائی کے ساتھ کھڑے ہو کر بارات کااستقبال کر رہے تھے۔۔۔
دولھا بنا عمر نظر لگنے کی حد تک پیارا لگ رہا تھا۔۔
ملیحہ بیگم نے بیٹے کی پیشانی چوم کر ڈھیروں دعائیں دیں۔۔۔
کنزیٰ گولڈن گھیر والی فراک اور چوڑی دار پاجامے میں آسمانی حور لگ رہی تھی۔۔۔
عمر کے ایک طرف تیمور تھا اور دوسری جانب عدیل نے ھاتھ تھاما ہوا تھا
منور صاحب اور دانیال صاحب نے آگے بڑھ کر عمر کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈال کر اسے گلے لگایا اور اسے
اسٹیج پر لے آئے۔۔۔
بشرئ دلہن کے لباس میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔۔
جوتا چورای کی رسم میں کنزیٰ نے مثال کے ساتھ مل کر نیگ وصول کیا۔۔۔
سب نے کنزیٰ کا مذاق اڑایا۔۔۔ مگر کنزیٰ نے مثال کا ساتھ دیا۔۔۔
ملیحہ نے بھائی سے رخصتی کی اجازت مانگی۔۔۔
دانیال صاحب لمحے بھر کے لیے منجمد ہو گئے۔۔
انھیں ایسا محسوس ہوا کہ بشرئ ان سے دور جارہی ہے۔۔۔
نکاح کے دو بول بیٹیوں کو پرایا کر دیتے ہیں۔۔۔
انکی بیٹی نی زندگی شروع کرنے جارہی تھی۔۔۔
دانیال صاحب نے بہن کو اجازت دی۔۔۔۔
اور رات کے آخری پہر بالآخر رخصتی ہوگئی۔۔۔اور بشرئ، بشرئ دانیال سے بشرئ عمر بن کر ملیحہ بیگم کے پورشن میں آگی۔۔۔
اگلے روز ریاض اپنے ساتھ کھانے کا کچھ سامان بھی لے گیا تھا۔۔۔ چوکیدار کو سلام کرکے بولا
آجاو خان صاحب مل کر کھاتے ہیں۔۔۔ ریاض نے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے کہا
آوے یارا یہ کیا لے آئے تم۔۔۔ چوکیدار نے ریاض کو دیکھتے ہوئے کہا
یہ کھانا لایا ہوں اکیلے کھانے کو دل نہیں کر رہا تھا
تو میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ مل کر کھاتا ہوں۔۔۔
ریاض نے جواب دیا۔۔۔
کہ اچانک ایک آدمی چوکیدار سے ملنے آیا۔۔۔
گل خان تم ھمارا پیسہ کب دو گے۔۔۔۔گل خان اس آدمی کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔۔۔
آو آو سمندر خان بیٹھو کھانا کھاو۔۔۔ چوکیدار نے خوشامدانہ انداز سے کہا۔۔۔
تم اپنا کھانا اپنے پاس رکھو ھم کو ھمارا پیسہ دے دو۔۔۔ سمندر خان نے غصے سے کہا
اگلے مہینے دے دونگا تم کو۔۔۔۔ چوکیدار نے لہجہ نرم بناتے ہوئے کہا
اوےتم ہر بار یہ ہی کہتا ہے۔۔۔ کب آئے گا تمہارا اگلا مہینہ۔۔۔۔ سمندر خان نے زور سے کہا
کتنے پیسے ہیں خان صاحب۔۔۔ ریاض نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔۔۔
3500۔۔۔ چوکیدار کے بجائے سمندر خان نے جواب دیا
چھ مہینے سے چکر لگوا رہا ہے۔۔۔۔ سمندر خان کا غصہ کم ہی نہیں ہو رہا تھا؛
ریاض نے جیب سے پیسے نکال کر سمندر خان کو دے دیئے
چوکیدار فطرتاً ایک لالچی آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ ریاض نے اس کا قرض اتار دیا ہے اور پیسے والا ہے تو فوراً اسکو کالج کے اندر گیٹ کے قریب بنے اپنے کمرے میں لے آیا۔۔۔۔
ریاض اتنی جلدی اتنی بڑی کامیابی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا
ریاض نے واپس آکر احسن کو ساری صورتحال بتای۔۔۔ اب ریاض کا زیادہ تر وقت چوکیدار کے ساتھ گزرتا تھا۔۔۔
بشری اپنی زندگی میں خوش اور مسرور تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن ولیمہ تھا۔۔۔ عمر اور بشرئ کے ولیمے والے دن ہی تیمور اور کنزیٰ کی منگنی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ریاض صبح ہی چوکیدار کے پاس آکیا تھا۔۔۔۔۔
اسکے ہاتھ میں ناشتے کا شاپر تھا گرم گرم حلوہ پوری کی مہک سے چوکیدار کا چھوٹا سا کمرہ مہک اٹھا تھا۔
خان تم سے ایک کام تھا اگر تم راضی ہو جاو تو تم ایک اچھی خاصی رقم بھی ملے گی۔۔۔ ریاض نے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا کرنا ہے۔۔۔ چوکیدار نے رقم ملنے کا سن کر پوچھا۔
میں نے تم کو بتایا تھا نا کہ میں شام کو ایک گھر میں ڈرائیور کی نوکری کرتا ہوں۔۔۔
ہاں ہاں۔۔۔ چوکیدار نے کہا۔۔۔
یار انکا دل آگیا ہے اس کالج کی ایک لڑکی پر۔۔۔ ریاض نے چوکیدار کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اس کالج کی۔۔۔ چوکیدار نے حیرت سے چونک کر کہا
ہاں اور اس کام کے لیے وہ تم کو دولاکھ دیں گے۔۔۔ ریاض کو چونک کر دیکھا
تجھے کچھ نہیں کرنا نہ تیرا کوئی نام آئے گا۔۔۔ ریاض نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا
تجھے ان لڑکیوں کے نام تو پتا ہیں نا جن کو انکے گھر والے لینے آتے ہیں۔۔۔
ہاں جانتا ہوں جب ان کے گھر والے آتے ہیں تو میں ہی آواز دیتا ہون۔۔۔ چوکیدار نے کہا
بس تم کو کل یہ کرنا ہے کہ اسے جو بھی لینے آے اسکو بولنا ہے کہ وہ اپنی سہیلی کے ساتھ چلی گئی ہے۔۔۔
اور اس لڑکی کو بولنا ہے کہ ابھی تم کو لینے کوی نہیں آیا۔۔۔
ریاض نے چوکیدار کو سمجھاتے ہوئے کہا
جب کالج خالی ہوجائے گا تو میرے دو ساتھی آکر اسے پیچھے والے دروازے سے آکر اٹھا کر لے جائے جائیں گے۔۔۔۔ ریاض نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
اور اتنے سے کام کے تم کو دولاکھ ملیں گے
منظور۔۔۔ ریاض نے کہا
ٹھیک ہے۔۔۔ چوکیدار کے لہجے میں لالچ تھی
بس ایک بات کا خیال رہے کہ تم کو غالب نہیں ہونا
ورنہ سب کو شک ہوجائے گا۔۔۔ ریاض نے اسے سمجھاتے ہوے کہا
تھیک ہے۔۔۔۔ چوکیدار نےاسکی بات سمجھتے ہوئے کہا
چوکیدار کے پاس سے آٹھ کر ریاض سیدھا احسن کے پاس گیا
جیسا آپ نے کہا تھا صاحب میں نے ویسا ہی کیا ہے
چوکیدار راضےہو گیا ہے مگر جی اسے دو لاکھ دینے ہیں۔۔
ریاض نے انہیں دیکھ کر کہا
ٹھیک ہے کل اسے مل جائیں گے۔۔۔ احسن کے بجانے عدیل نے جواب دیا
ولیمے کے فنکشن سے واپسی پر سب بہت تھک چکے تھے۔۔۔
اور اپنے اپنے گھروں کی طرف جانے لگے۔۔۔
مما۔۔۔۔ عدیل کی آواز پر نسیم بیگم نے مڑ کر عدیل کو دیکھا
بولو بیٹا۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے شفقت سے بیٹے سے پوچھا۔۔۔
مما میرا دوست ہے نا احسن اسکے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔۔ بہت پریشان ہو رہا ہے مجھے بولا رہا ہے کیا میں جا سکتا ہوں اسکے پاس۔۔۔ عدیل نے سعادت مندی سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا
ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹا۔۔۔ نسیم بیگم نے اجازت دیتے ہوئے کہا
مگر ابھی تو کافی رات ہوجکی ہے واپسی کب تک آو گے۔۔نسیم بیگم نے عدیل کی طرف دیکھ کر پوچھا
مما میں اسکے پاس ہی رکوں گا۔۔۔ عدیل نے جواب دیا اور باہر کی جانب مڑ گیا۔۔۔
کنزیٰ کپڑے چینج کر کے آی تو ایک دم اسکے موبائل کی اسکرین پر کنزیٰ امتیاز کا نمبر جگمگا اٹھا
ھیلو۔۔۔ کنزی بے کال ریسو کرکے کہا
ھیلو کنزیٰ سوری تم کو اس وقت ڈسٹرب کر رہی ہوں
دوسری جانب کنزیٰ امتیاز نے معڈرت کرتے ہوئے کنزیٰ سے کہا
ارے کوئی بات نہیں۔۔۔ بتاو کیسے کال کی۔۔۔ کنزی نے اس سے پوچھا
یار کل جس گروپ کا پریکٹیکل ہونا ہے اس میں تم اور صبین اور رمشا شامل ہیں۔۔۔ آج ہی مس نے کنفرم کیا ہے کہ کنزیٰ امتیاز نہیں کنزی منور۔۔۔ تمہارا ہے یار
کل پریکٹیکل میرا تین دن بعد ہے۔۔۔
اوہ اچھا۔۔
تھینکس یار تم نے بتا دیا ورنہ میرا لوسی ہوجاتا۔۔
کوئی بات نہیں۔۔۔ اچھا اب تم آرام کرو
اللہ حافظ۔۔
مما عدیل کہاں ہے۔۔۔
کنزیٰ نے عدیل کو کمرے میں نہ پا کر نسیم بیگم کے کمرے میں آکر پوچھا
اسکے دوست کے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔ وہ وہاں گیا ہے۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کو تفصیل بتاتے ہوئے کہا
اوہ نو اب میں کیسے جَاوں گی کل پریکٹیکل ہے میرا
کنزیٰ نے پریشان ہو کر کہا
تم پریشان مت ہو بابا کی جان تم کو ڈرائیور لے جائے گا۔۔۔ نسیم بیگم کے بجائے منور صاحب نے کہا
ٹھیک ہے بابا۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا اور مثال کے پورشن میں گی مگر وہاں سب سو چکے تھے اس لیے
واپس اپنے کمرے کی طرف ای مگر بیڈ پر لیٹنے کا دل نہیں کر رہا تھا ایک نا معلوم سی بے چینی تھی
ایسی ہی کچھ کیفیت نسیم بیگم کی بھی تھی۔۔
پتہ نہیں کیوں دل گھبرا رہا ہے میرا۔۔۔ نسیم بیگم نے
منور صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا
شادی کی تھکن ہوگی ہے تم سو جاو صبحِ تک ٹھیک ہو جاو گی۔۔۔ منور صاحب نے نسیم بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا
حالانکہ دل بے چین انکا بھی ہورہا تھا
اسی وقت کنزیٰ نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا
کون ہے اجاو
منور صاحب کی آواز پر کنزیٰ نے دروازہ کھولا اور اندر آکر بولی
بابا میں آپ کے ساتھ سو جاو مجھے نیند نہیں آرہی
ہاں ہاں کیوں نہیں نسیم بیگم اور منور صاحب نے کنزیٰ کے لیے درمیان میں جگہ بناتے ہوئے کہا
کنزیٰ دونوں کے درمیان لیت گی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
اس بات سے بے خبر کہ کل اسے اپنے بھائی کے گناهوں کا بوجھ اٹھانا ہے۔۔۔
صبح جلدی جلدی بغیر ناشتہ کرے کنزیٰ کالج جانے کے لئے نکل رہی تھی کہ نسیم بیگم نے اس سے کہا
ناشتہ تو کرکے جاو۔۔۔۔۔
نہیں مما دیر ہو جائے گی۔۔۔ کنزی نے کہا اور بیگ اٹھا کر تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
پتا نہیں کیوں کنزیٰ کو آج کالج بھیجنے کا دل نہیں
کر رہا تھا۔۔۔ واپس کمرے میں آکر نسیم بیگم نے اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے منور صاحب سے کہا۔۔۔۔
ارے کیوں کیا ہوا۔؟ منور صاحب نے چونک کر اخبار
سے نظر ہٹا کر نسیم بیگم سے پوچھا
پتا نہیں کیوں۔۔۔ نسیم بیگم نے بے چینی سے جواب دیا۔۔۔
تمہاری مہندی بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔۔۔ اسکی کلاس نے کنزیٰ کے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر کہا
ہاں میری کزن کی شادی ہوئی ہے نا۔۔۔ کنزی نے دانستہ
اپنی منگنی کا ذکر گول کرتے ہوئے بتایا
شکر ہے میرا پریکٹیکل بہت اچھا ہوا ہے۔۔۔ اب میں سکون سے گھر جاکر سو گی۔۔۔ کنزی نے اپنی کلاس فیلو کو دیکھتے ہوئے کہا
ہاں میرا بھی بہت اچھا ہوا ہے۔۔۔ اس نے کہا اور کنزیٰ کو اللہ حافظ کہتی ہوئی چلی گئی
آج کالج میں زیادہ رش نہیں تھا صرف وہ ہی لڑکیاں آی تھیں جنکا پریکٹیکل تھا
کنزیٰ ڈرائیور کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
اتنی دیر ہوگئی کہاں رہ گیا یہ۔۔۔ کنزی نے گھڑی میں ٹائم دیکھا اور خود سے کہا
چوکیدار سے پوچھتی ہوں۔۔۔ اس نے سوچا اور چوکیدار کی طرف بڑھ گئی
لالا میری گاڑی ا گی۔۔۔ کنزی نے چوکیدار سے پوچھا
نہی بی بی ابھی آپ کی گاڑی نہیں ای ہے۔۔۔ چوکیدار
نے ریاض کا سکھایا ہوا سبق کنزیٰ کے سامنے دھرایا
آپ گیٹ کے پاس سے ہٹ جاو ورنہ میڈیم صاحبہ ھم کو ڈانٹے گی۔۔۔ چوکیدار نے کنزیٰ کو گیٹ کے قریب دیکھ کر کہا
چوکیدار عدیل کی بہن کنزیٰ کو ہی اسکے نام سے جانتا تھا۔۔۔ دوسری کنزی کو چوکیدار امتیاز صاحب کی بیٹی کی حیثیت سے جانتا تھا
کیوں کہ امتیاز جب بھی اپنی بیٹی کو لینے آتے تو چوکیدار سے کہتے میری بیٹی کو بلانا اور چوکیدار
اسکے قریب جا کر بولتا امتیاز صاحب کی بیٹی کون ہے۔۔۔
جبکہ عدیل ھمیشہ کنزیٰ کا نام لے کر بلواتا تھا
اور یہ ہی غلطی کنزیٰ کی زندگی کا روگ بن گی
شاید گھر میں بشرئ آپی اور عمر بھائی کی دعوت کی تیاری کی وجہ سے ڈرائیور کو کہیں بھیجا ہو گا۔۔۔
کنزیٰ نے خود کو تسلی دی
کال کر پوچھتی ہوں مما سے۔۔۔ کنزیٰ نے سوچ کر بیگ میں ہاتھ ڈالا مگر یہ کیا
اوہ نو موبائل کہاں ہے۔۔۔ بیگ میں ڈھونے کے بعد کنزیٰ نے روہانسی ہوکر سوچا
اسے یاد آیا کہ رات جب کنزیٰ کی کال آئی تھی تو
اسنے موبائل بیڈ پر رکھا تھا اور وہ رات کو مما بابا
کے کمرے میں سوی تھی اس لئے صبح دیر سے آنکھ کھولنے کی وجہ سے وہ موبائل اٹھانا بھول گی تھی۔۔۔
اللہُ کہاں رہ گیا یہ ڈرائیور۔۔۔ کنزیٰ نے کوفت سے سوچا۔۔۔
اس بات سے انجان کہ ڈرائیور تو اپنے وقت پر ہی آیا تھا مگر چوکیدار نے اسے یہ کہہ کر بھیج دیا تھا کہ
کنزیٰ بی بی تو اپنی دوست کے ساتھ چلی گئی ہیں۔۔۔
ڈرائیور نے گھر پہنچ کر نسیم بیگم کو بتانے کی غرض سے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا اسکا سامنا بد قسمتی سے بشرئ سے ہوگیا۔۔۔
بشرئ پالر سے آی تھی۔۔۔ ڈرائیور کو اس طرح گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر بولی
اندر کہاں جارہے ہو۔۔۔ تم لوگوں کو گھر کے اندر جانے سے بڑے پاپا( منور صاحب) نے منع کیا ہے نا
وہ جی میں تو بڑی بیگم صاحبہ کو کنزیٰ بی بی کے بارے میں بتانا تھا۔۔۔ ڈرائیور نے منہ نیچے کر کے بشرئ کو جواب دیا
کیا ہوا کنزیٰ کو۔۔۔ بشرئ نے پوچھا
جی وہ میں انکو لینے کالج گیا تھا جی وہ اپنی سہیلی کے ساتھ آرہی ہیں۔۔۔ ڈرائیور نے کہا
اچھا ٹھیک ہے تم میرے لیے گجرے لینے جاو یہ لو پیسے میں بتا دوں گی بڑی مما کو۔۔ بشرئ نے اسے پیسے دیتے ہوئے کہا
جی اچھا۔۔۔ ڈرائیور نے اسکے ہاتھ سے پیسے لیکر اسے جواب دیا اور گاڑی کی جانب مڑ گیا
اوہ تو اپنی سہیلی کے ساتھ آرہی ہیں بیگم صاحبہ کل کی منگنی کے قصے سنا رہی ہوں گی۔۔۔ ہنہ میں
کیوں بتاؤں۔۔۔ آرہی ہو گی۔۔۔ بشرئ نے جل کر سوچا
آہستہ آہستہ پورا کالج خالی ہونے لگا تھا۔۔ کنزیٰ کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی
یا اللہ پورا کالج خالی بونے لگا ہے کہاں رہ گیا ہے ڈرائیور۔۔۔ کنزی نے خود سے سوال کیا
میں خود ہی چلی جاتی ہوں رکشہ لے کر۔۔۔ کنزی نے سوچا
اسی لمحے دو بندے کالج کے گیت سے اندر آنے اور چوکیدار سے کچھ بات کرتے ہوئے کنزیٰ کی جانب
مڑ کر دیکھنے لگے
مجھے کالج سے باہر نکل کر سو چنا چاہیے کہ کیا کرنا ہے اس نے لمحے میں فیصلہ کیا اور بیگ اٹھانے کے لئے مڑی اور اسی لمحے کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ کر اس کے منہ پر رومال رکھ دیا
تھوڑی سی دیر میں کنزی کا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔۔۔
نازک سی کنزیٰ کو اٹھا کر کالج کے پیچھلے گیٹ سے وہ لوگ گاڑی میں ڈال کر لے گئے
دوپہر کا ایک بج رہا ہے اور کنزیٰ ابھی تک نہیں آی۔۔۔ نسیم بیگم نے سوچا اور ملازمہ کو آواز دینے لگیں
صفیہ۔۔ صفیہ
جی بڑی بیگم صاحبہ۔۔۔ ملازمہ نے نسیم بیگم کے کمرے میں داخل ہو کر کہا
جاو ڈرائیور کو دیکھو کنزیٰ بی بی کو ابھی تک لینے کیوں نہیں گیا
جی اچھا۔۔۔ ملازمہ نے جواب دیا اور باہر کی جانب مڑ گئی
جی وہ بول رہا ہے کہ وہ گیا تھا کنزیٰ بی بی کالج میں نہیں تھیں اپنی کسی سہیلی کے ساتھ چلی گئیں تھیں۔۔۔
کون سی سہیلی کے ساتھ چلی گئی۔۔۔
ذکیہ۔۔ ملیحہ۔۔۔ منور کو بلاو۔۔۔ نسیم بیگم نے دل تھام کر وحشت زدہ ھو کر کہا
کیا ہوا بھابھی بیگم۔۔۔ ذکیہ اور ملیحہ بوکھلای ہوئی نسیم بیگم کے کمرے میں داخل ہوئیں۔۔
میری کنزیٰ۔۔۔ منور کو بلاو۔۔۔ نسیم بیگم نے ھکلاتے ہوئے کہا
کیا ہوا کنزیٰ کو بھابھی بیگم۔۔۔ ذکیہ نے نسیم بیگم کی بے ربط بات کو نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
وہ ابھی تک کالج سے نہیں آی ہے
نسیم بیگم کو خود کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا
مثال تم منور بھائی کو کال ملاو اور انھیں گھر آنے کا بو لو۔۔
ملیحہ نے مثال کو ھدایت دی؛ اور ملازمہ سے ڈرائیور کو بلانے کا کہا
جی بیگم صاحبہ۔۔۔ ڈرائیور نے ادب سے نظریں جھکائے کمرے میں داخل ہوکر پوچھا
تم کنزیٰ کو کب لینے گئے تھے۔۔۔ ملیحہ بیگم نے ڈرائیور سے سوال کیا
جی کنزیٰ بی بی نے 12 بجے کا وقت دیا تھا میں 5منٹ پہلے پہنچا تھا جی۔۔ جب میں نے چوکیدار سے کہا کہ کنزیٰ بی بی کو بلا دو تو جی وہ اندر گیا اور معلوم کرکے آیا جی ک کنزیٰ بی بی اپنی کسی سہیلی کے ساتھ چلی گئیں ہیں۔۔۔ ڈرائیور نے ملیحہ بیگم کو تفصیل سے بتای
تو تم نے اسی وقت آکر گھر میں کسی کو کیوں نہیں بتایا؛ ملیحہ بیگم نے پوچھا
ڈرائیور جواب دینے ہی والا تھا کہ اسی وقت منور صاحب، دانیال صاحب، عمر اور تیمور کمرے میں داخل ہونے۔۔
کیا ھوا کنزیٰ کو۔۔ منور صاحب نے کمرے میں موجود خواتین کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
منور کنزیٰ ابھی تک گھر نہیں آی ہے۔۔۔ نسیم بیگم نے روتے ہوئے منور صاحب سے کہا
تم گیے کیوں نہیں اسے لینے۔۔ منور صاحب نے ڈرائیور سے دریافت کیا
جی صاحب میں تو جی وقت سے 5منٹ پہلے ہی گیا تھا مگر جی کنزیٰ بی بی اپنی کسی سہیلی کے ساتھ چلی گئیں تھیں۔۔۔ ڈرائیور نے ایک بار پھر تفصیل بتای
تو تم نے یہ بات اسی وقت آکر گھر میں کسی کو کیوں نہیں بتائی۔۔ ذکیہ بیگم دھڑیں
جی میں نے بشرئ بی بی کو بتای تھی۔۔۔ ڈرائیور نے جواب دیا اور تائید طلب نگاہوں سے بشرئ کی جانب دیکھا
م مجھے کب بتایا تھا۔۔۔ بشرئ نے ہکلاتے ہوے کہا
بی بی جی جب آپ گاڑی سے نکل رہی تھیں اور آپ نے مجھے گجرے لینے بھیجا تھا تب میں نے آپ سے کہا بھی تھا کہ میں پہلے بڑی بیگم صاحبہ کو بتا کر آتا ہوں کہ کنزیٰ بی بی اپنی کسی سہیلی کے ساتھ آرہی ہیں تو آپ نے کہا تھا کہ میں جاوں آپ بتا دیں گی۔۔۔ ڈرائیور نے تفصیل سے یاد دلایا۔۔۔
اوہ۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔ سوری میں بتانا بھول گئی۔۔۔ بشرئ کو ماننا ہی پڑا
بشرئ تم اتنی لاپرواہی کیسے کر سکتی ہو۔۔۔ ذکیہ بیگم نے بیٹی کی اس حرکت پر سر پیٹ لیا
کنزیٰ کے کو کال کی آپ لوگوں نے۔۔۔ تیمور نے ماں کی جانب دیکھ کر پوچھا
نہیں۔۔۔ ملیحہ بیگم نے مختصر جواب دیا
تیمور کنزیٰ کے نمبر پر کال کرتا ہے مگر دوسری جانب سے بیل جارہی ہوتی ہے اور کال ریسور نہیں ہورہی ہوتی ہے۔۔۔
کیا ہوا نسیم بیگم نے بے صبری سے تیمور سے پوچھا
وہ کال ریسو نہیں کر رہی۔۔
تیمور نے انکی طرف دیکھ کر مایوسی سے جواب دیا
مثال تم اس کی سب سہیلیوں کو کال کر کے معلوم کرو کہ کنزیٰ کس کے ساتھ گی ہے۔۔
اور اگر یہ جھوٹ ہوا تو میں تجھے پولیس کے حوالے کر دوں گا۔۔ دانیال صاحب نے بیٹی کو ہدایت دیتے ہوئے ڈرائیور کو غصے سے دیکھے ہوئے کہا
صاحب میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا؟ ڈرائیور نے گھگیا کر کہا
آپ چاہیں تو میرے ساتھ کالج چل کر پوچھ سکتے ہیں۔۔۔ ڈرائیور نے التجا آمیز لہجے میں جواب دیا
نہیں بابا کنزیٰ ھمارے گروپ کی کسی لڑکی کے ساتھ نہیں گی کیوں کہ ان میں سے کسی کا بھی آج پریکٹیکل نہیں تھا۔۔۔
مثال کے یہ الفاظ سب گھر والوں کے سر پر بم بن کر پھٹے تھے
تیمور اور دانیال صاحب نے غصے سے ڈرائیور کو دیکھا
جبکہ منور صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا
صاحب قسم سے میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں آپ چاہیں تو میرے ساتھ کالج چل کر چوکیدار سے پوچھ لیں۔۔۔ ڈرائیور نے منور صاحب کے پیر پکز کر روہانیسی آواز میں کہا
ہاں میرے خیال سے یہ مناسب رہے گا۔۔۔۔ عمر نے کمرے میں موجود سب کو دیکھتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے تم اٹھو اور عمر کے ساتھ جاو۔۔۔ دانیال صاحب نے کہا
عمر تم ارسلان کو اپنے ساتھ لے جاو۔۔۔ دانیال صاحب نے عمر کو ہدایت کی
میں بھی جاوں گا ماموں جان ان لوگوں کے ساتھ
تیمور نے کہا
ٹھیک ہے۔۔۔ دانیال صاحب نے اسکی پیٹھ تھپ تھپاءی
کالج کا گیٹ بند تھا۔۔۔ ڈرائیور نے زور سے گیٹ کو کھٹکھٹایا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد چوکیدار نے دروازہ کھولا
جی بھائی کیا بات ہے۔۔ چوکیدار نے پوچھا
خان صاحب آپ کو یاد ہوگا میں چھٹی کے وقت آیا تھا کنزیٰ بی بی کو لینے اور آپ نے کہا تھا کہ وہ نہیں ہے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ چلی گئی ہے۔۔۔۔ ڈرائیور نے چوکیدار کو یاد دلاتے ہوئے کہا
کون ہو تم بھائی اور ھم کو کیا معلوم کہ کون کنزیٰ تم پاگل تو نہیں ہو ھم کیا یہاں سب لڑکیوں کو نام سے جانتا ہوں جو تم کو ایسے بولوں گا۔۔۔ چوکیدار نے ریاض کی ہدایت پر طے شدہ بات کو دہراتے ہوئے کہا
خان صاحب خدا کے واسطے جھوٹ مت بولو۔۔ ڈرائیور کو اپنے اطراف میں زمین گھومتی ہوئی نظر آی۔۔۔
یہ آیا تھا یہاں کسی لڑکی کو لینے عمر نے چوکیدار سے پوچھا
آیا ھوگا صاحب۔۔۔ ھم کو نہیں پتا۔۔ ہمکو سب کی شکل یاد تو نہیں رہتا ہے
ویسے ھم نے تم کو پہلے تو کبھی نہیں دیکھا تم روز تو نہیں آتا۔۔۔ چوکیدار نے ڈرائیور سے پوچھا
نہیں آج ہی آیا تھا۔۔۔۔ ارسلان نے کہا
ٹھیک ہے خان صاحب اپکا شکریہ۔۔۔ ارسلان نے کہا اور یہ لوگ مایوسانہ مایوسانہ انداز میں گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف چل پڑے
دوسری جانب
ریاض اور اسکے بندے کنزیٰ کو گاڑی میں ڈال کر شہر سے باہر ایک کم آبادی والے علاقے میں احسن کے پرانے بنگلے میں لے کر پہنچے اور بے ہوش کنزیٰ کو گاڑی سے نکال کر ایک کمرے میں بیڈ پر لیٹا دیا
اور کمرہ کا دروازہ باہر سے بند کر کے۔۔۔
احسن کو کال کرنے لگا۔۔
صاحب جیسا آپ نے کہا تھا کام ہو گیا ہے۔۔۔
مبارک ہو یار کام ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ احسن نے عدیل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
چلیں پھر ھم یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔۔ عدیل نے ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہآ
ہاں چلتے ہیں پر ایک فیصلہ ہوجائے پہلے ۔۔۔۔۔ احسن کے بجائے عباد نے عدیل کی جانب دیکھتے ہوئے
کہا ۔۔۔۔۔
کیسا فیصلہ ۔۔۔۔ عدیل نے عباد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
یاد ہے نا پہلے جو ھم نے شکار کیا تھا تو تم پہلے کمرے میں گئے تھے ۔۔۔ عباد نے عمران اور احسن کو اپنا حمایتی بنا کر عدیل کی جانب دیکھ کر اسے یاد دلاتے ہوئے کہا
ہاں ہاں یاد ہے تومیں کب بول رہا ہوں کہ میں پہلے جاؤں گا تم پہلے چلے جانا میں سب سے آخر میں جاؤں گا ۔۔۔ عدیل نے تینوں دوستوں کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
جواباً وہ تینوں بھی مسکرانے لگے ۔۔۔
اسی وقت عدیل کا موبائل بجا ۔۔۔ عدیل نے موبائل جیب سے نکالا تو اس پر مثال کا نام جگمگا رھا تھا
اوہ نو بعد میں بات کرتا ہوں مائی ڈیر فیونسی ۔۔۔ عدیل نے سوچا اور موبائل آف کردیا
کبھی کبھی قدرت ہمیں موقع دیتی ہے اپنی غلطی سدھارنے کا مگر ھم سمجھ ھی نہیں پاتے
احسن کے اس بنگلے میں ریاض انکا منتظر تھا ۔۔۔۔
سلام صاحب ۔۔۔ ریاض نے انہیں مشترکہ سلام کیا ۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔ کہاں ہے وہ ۔۔۔۔ احسن نے جواب دیتے ہوئے پوچھا
جی وہ اس کمرے میں ۔۔۔ ریاض نے اس کمرے کی طرف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں کنزیٰ موجود تھی۔۔۔۔۔
ہوش میں آگئی ہے کیا؟ ۔۔۔۔ عباد نے پوچھا ۔۔۔
نہیں جناب ابھی تک ہوش میں نہیں آئی ہے۔۔۔۔ ریاض نے جواب دیا ۔۔۔
یہ لو اپنا انعام شاباش ۔۔۔۔ عدیل نے ہزار کے نوٹوں کی گڈیاں ریاض کی جانب بڑھانے ہوئے کہا
تم نے چوکیدار کو اپنے بارے میں کچھ سچ تو نہیں بتایا نا؟ ؟۔۔۔۔۔ احسن نے ریاض سے پوچھا
نہیں صاحب وہ اگر پکڑا بھی گیا تو پھر بھی میرے بارے میں کچھ نہیں بتا سکے گا ۔۔۔ ریاض نے جواب دیا ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے تم اب یہاں سے نکل جاو ۔۔۔۔ احسن نے ریاض سے کہا ۔۔۔
مثال تم نے عدیل کو کال کرو اسے تو بتاؤ یہ سب ۔۔۔۔ نسیم بیگم مثال سے کہا
بڑی مما میں نے کی تھی اسے کال ۔۔۔ اسکا نمبر آف جارھا ہے ۔۔۔۔ مثال نے نسیم بیگم کے سرد ہاتھوں کو تھام کر دھیمے لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔
یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا۔۔۔ نسیم بیگم نے اللہ سے فریاد کی
کیوں کہ وہ جانتی تھیں کہ
عزت کے موتی پر اگر ایک بار میل آجائے تو سینکڑوں دریا بھی اسے نہیں دھو سکتے ۔۔۔۔
منور صاحب اور دانیال صاحب کو چپ لگ گئی تھی وہ پریشان تھے کہ یہ سب کیا ہو گیا
زندگی نام ہی تغیر کا ہے ۔۔۔ مگر کبھی کبھی یہ تغیرات ایسے طوفان کی صورت میں آتے ہیں کہ مضبوط تناور درخت بھی زمین بوس ھوجاتے ھیں ۔۔۔۔۔
عمر اور تیمور مایوسانہ انداز میں گھر میں داخل ہونے
چوکیدار نے تو ڈرائیور کو پہچانے سے ہی انکار کر دیا ۔۔۔۔ ارسلان نے کمرے میں داخل ہو کر منور صاحب کو بتایا ۔۔۔۔۔
ماموں جان آپ ڈرائیور کو پولیس کے حوالے کردیں دو منٹ میں کنزیٰ کا پتہ بتادے گا ۔۔۔ تیمور نے منور صاحب کو مشورہ دیا
نہیں ۔۔۔ پولیس تک بات نہیں جانی چاہئے ۔۔۔ دانیال صاحب نے کہا
تو میں کیا ہاتھ پرہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں ۔۔۔۔ منور صاحب نے کرب سے بھائی کو دیکھتےہوئے کہا
میرا یہ مطلب نہیں تھا بھائی صاحب ۔۔۔ دانیال صاحب کو جلد اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔۔۔۔
ہر انسان کی زندگی میں دشواریاں، کھٹنائیاں آتیں ہیں مگر ان گھبرا نہیں جاتا ۔۔۔۔ منور صاحب نے کمرے میں موجود ہر شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
تم ٹھیک کہہ رہے ہو تیمور میں ابھی اپنے دوست آئی۔جی پولیس کو کال کرتا ہوں ۔۔۔
یہ کہہ کر مخاطب منور صاحب ملا کر بات کرنے لگے
تھوڑی دیر میں انکے دیرانہ دوست جو کہ پولیس فورس میں آئ-جی تھے خود تشریف لے آئے
منور صاحب نے انہیں ساری تفصیل فون پر بتادی تھی ۔۔۔۔
انہوں نے آتے ہی ڈرائیور کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور منور صاحب کو دلاسہ دیتے ہوئے موبائل سے اپنے ماتحت افسروں کو کچھ ھدایتیں دیں ۔۔۔۔
چل پھر تو پہلے جا عدیل نے عباد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے کمرے کی طرف جانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ کو اٹھنے نہ دینا غیرت نہیں
بلکہ اپنی نگاہوں کو کسی کی بہن کی طرف اٹھنے سے روک دینا غیرت ہے