تاریک انجان گلیوں میں اندهادهند بهاگتے ہوئے اس نے خوفزدہ نظروں سے پلٹ کر پیچهے دیکها۔ خوفناک کتوں کی آواز سے اسکا سارا وجود کانپ اٹھا تھا ۔ ایک جھٹکے سے رخ موڑنے ھوئے اس نے خوفزدہ نظروں سے اردگرد موجود بند دروازوں کا جائزہ لیا ۔
اس نے مدد کے لیے چلا کر مدد کے لیے استدعا کی ۔
اسکی ٹانگیں بھاگ بھاگ کر شل ہونے لگی تھی ۔ بے تحاشا پھولتی سانس اور جلتا ہوا خشک حلق اسکی برداشت کو آخری حد تک لے آیا تھا ۔
اچانک اس کا پاوں خار دار جھاڑیوں میں الجھا اور وہ منہ کے بل گری
بیہوش ہونے سے پہلے اس نے ایک کھلے دروازے سے کسی کو اسکی مدد کے لیے اپنے قریب آتے دیکھا اور اسکا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔
اٹھارے گھنٹے سے بیہوش رهنے کے بعداسنے اپنے اطراف میں دیکها اسکی سانس دهونکتی کی طرح چل رهی تهی جبکہ ھونٹ بالکل سوکهے پڑے تهے ۔۔
اس نے بے قراری سے اپنے سر کو جنبش دینا چاہئ لیکن اس کوشش میں بے اختیار کراہ اس
کے لبوں سے نکل گئی
اس کی آواز پر اپنے کام میں مصروف نرس نے پلٹ کر اسکی طرف دیکها ۔۔۔
اسے ہوش میں آتا دیکهکر وہ تیزی سے اسکے قریب چلی آئ تهی ۔۔۔۔
وہ ہر طرح کی پہچان سے عاری خالی نظروں سے نرس کو دیکھتی ہوئی متوحش آواز میں بولی ۔۔۔
مجھے نکالو یہاں سے ۔۔۔ چھوڑ دو مجھے ۔۔۔۔ گھر جانے دو ۔۔۔۔۔
نرس نے تسلی آمیز انداز میں اسکا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔ اور بولی
ریلیکس
ریلیکس
کنزیٰ اچانک بے قابو ہو کر زور سے چلانے لگی
بچاو
بچاو
بچاو
اسکے ہسٹیریائ انداز نے نرس کے ہاتھ پاؤں پھلا دئے
اس نے سرعت سے آگے بڑھ کر ایمرجنسی کی بیل کا بٹن دبا دیا ۔۔۔۔
ایمرجنسی کی بیل بجتے ہی چند سیکنڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر مع اسٹاف وہاں بهاگے چلے آے تهے ۔۔۔۔اسکی بگڑی حالت کے پیش نظر ڈاکٹرنے اسے سکون آوار انجیکشن لگا دیا تها جس کے زیر اثر وہ تهوڑی میں ھوش و خرد سے بیگانہ ہو گئ تھی ۔۔
ڈاکٹر فرح اس نازک سی لڑکی کو بہت دکھ سے دیکھتی ہوئی نرم لہجے میں پوچھتی ہے
تمہارا نام کیا ہے؟ ؟
کنزی
وہ تکیوں کے سہارے نیم دراز تھی
ڈاکٹر فرح نے مسکراتے ہوئے پوچھا
کہاں رہتی ہو؟ ؟؟
یہ حادثہ کیسے پیش آیا؟ ؟؟
وہ کیسے بتاتی کہ یہ اسکے جان سے پیارے بھائی کے گناهوں کی سزا ہے
اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے
ڈاکٹر فرح کے بہت اصرار پر اس نے دھیرے دھیرے سے کہنا شروع کیا
کنزیٰ ۔۔۔
کیا مجھے موبائل فون مل سکتا ہے؟ ؟؟کنزیٰ نے ہچکچاتے ہوئے ڈاکٹر فرح کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں ۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنا موبائل کنزیٰ کی طرف بڑھا دیا ۔۔
ڈاکٹر فرح کے ھاتھ سے موبائل فون لے کر کنزیٰ نے کچھ سوچتے ہوئے منورصاحب کا نمبر پریس کیا ۔۔
ھیلو ۔۔ دوسری جانب سے کال فورن ریسو کر لی گئی ۔
ھیلو بابا ۔۔ کنزیٰ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔۔
کنزیٰ
کنزیٰ میری جان یہ تم ہو نا؟ ؟؟
کنزیٰ کی آواز ھچکیوں میں تبدیل ہوگئی
کیا ہوا ہے بابا کی جان کہاں ہو تم؟ ؟؟
کنزیٰ کی بگڑتی ہوئی حالت کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر فرح نے موبائل کنزیٰ کے ہاتھ سے لے لیا
اور منور صاحب کو ھسپتال کا نام بٹاتے ہوئے جلد ھسپتال آنے کا بول کر کنزیٰ کو ٹریٹمینٹ دینے لگی ۔۔
کنزیٰ مل گئی ہے اور ھسپتال میں ہے ۔۔ منورصاحب کا یہ جملہ پورے گھر میں زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کر گیا ۔۔
کہاں ہے میری بچی؟ ؟نسیم بیگم نے منورصاحب سے بے تابی سے پوچھا
ھسپتال میں ۔۔۔ منورصاحب نے مختصر جواب دیتے ہوئے عمر اور دانیال صاحب کو ھسپتال چلنے بولا
میں بھی آپکے ساتھ چلتا ہوں ماموں جان ۔۔ تیمور نے التجائ انداز میں بولا ۔۔
ٹھیک ہے چلو ۔۔۔ منورصاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔۔۔
آن لوگوں کے جانے کے بعد نسیم بیگم ،ذکیہ بیگم اور بشرئ کے ساتھ عدیل کے کمرے میں آگئں جہاں ملیحہ بیگم اور مثال پہلے سے موجود تھیں ۔۔۔
بڑی امی کنزیٰ کہاں ہے؟ ؟؟ مثال نے نسیم بیگم سے آہستہ سے پوچھا
ھسپتال میں ۔۔۔ نسیم بیگم نے بھی آہستہ سے کہا اور اپنے بیہوش بیٹے عدیل کو دیکھا جو اپنی بہن کنزیٰ کے کھو جانے کی وجہ سے اپنے حواس کھو چکا تھا ۔۔
منورصاحب نے ھسپتال میں داخل ہوتے ہوئے عمر سے ریسیپشن پر کنزیٰ کا معلوم کرنے کا بولا
عمر کنزیٰ کا کمرہ معلوم کرو ۔۔۔۔ منورصاحب کی آواز میں بے تابی تھی ۔۔۔
جی اچھا ماموں ۔۔۔۔ عمر نے ادب سے جواب دیا اور ریسیپشن کی جانب بڑھ گیا ۔۔۔
جی میں کیا مدد کرسکتی ہوں آپ کی؟ ؟؟؟ ڈیوٹی پر موجود نرس نے مہذبانہ انداز میں عمر سے پوچھا
جی ابھی تھوڑی دیر پہلے ہمیں یہاں سے کنزیٰ کی کال آئی تھی ۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے بات کی تھی ۔۔۔ کیا آپ مجھے کنزیٰ کے بارے میں بتا سکتی ہیں کہ ان کا کمرہ نمبر کیا ہے؟ ؟؟؟
وہ جو کل رات بیہوشی کی حالت میں لائی گئی تھی؟ ؟؟ نرس نے عمر کو دیکھتے ہوئے پوچھا
جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔
عمر کے جی کہنے کے بعد نرس نے عمر کو جواب دینے کے بجائے انٹرکام پر ڈاکٹر فرح کو ان کے آنے کی
اطلاع دی ۔۔۔۔
دوسری طرف سے ھدایت سنے کے بعد انٹرکام واپس رکھتے ہوئے عمر کی طرف متوجہ ہوکر اس نے اسے
ڈاکٹر فرح کا انتظار کرنے کا کہتے ہوئے اسے سامنے صوفے پر بیٹھنے کا کہا۔۔۔۔
عمر ، منصور صاحب کی طرف بڑھا اور انہیں ڈاکٹر فرح کا پیغام دیا ۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر فرح نے ریسیپشن پر موجود نرس سے کنزیٰ سے ملاقات کیلئے آنے والے کے بارے میں معلوم کیا ۔۔۔۔
نرس نے عمر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فرح کو بتایا کہ وہ ہیں ۔۔۔۔
ڈاکٹر فرح کو اپنی جانب آتا دیکهکر منورصاحب، دانیال صاحب ، عمر اور تیمور جلدی سے ڈاکٹر فرح کی
جانب بڑھ گئے ۔۔۔
کیسی ہے میری بچی؟ ؟؟؟ منورصاحب نے بے تابی سے پوچھا
اسکی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے دکھ سے آہستہ سے کہا
کیا ھوا ہے میری بچی کو؟ ؟؟؟ منورصاحب نے پوچھا
آپ کون ہیں کنزیٰ کے؟ ؟؟؟ منورصاحب کو جواب دینے کے بجائے ڈاکٹر فرح نے منورصاحب اور عمر سے ایک ساتھ پوچھا ۔۔۔۔
جی یہ کنزیٰ کے والد ہیں اور یہ کنزیٰ کے منگیتر ہیں اور میں کنزیٰ کا کزن ہوں
اور یہ کنزیٰ کے چچا ہیں عمر سب کا تعارف ڈاکٹر فرح سے کروایا ۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ کو اس وقت آپکی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے تیمور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
مگر اسے ہوا کیا ہے؟ ؟؟؟ آپ بتاتی کیوں نہیں ہیں؟ ؟؟ منورصاحب نے ایک انجانے خوف سے گھبراتے
ہوئے ڈاکٹر فرح سے پوچھا
آپ لوگ آئیں میرے ساتھ ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے نرم لہجے میں کہا ۔۔۔
اور انھیں لے کر ڈاکٹر روم میں چلی آئیں ۔۔۔
بیٹھیں پلیز ۔۔۔۔ ڈاکٹر روم میں موجود کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
خدا کے لیے آپ بتائیں کہ میری بچی کو ہوا کیا ہے ۔۔۔۔ منورصاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
اسکا __گینگ _ _ ریپ _ _ ہوا _ _ہے ۔۔۔۔۔ڈاکٹر فرح نے بمشکل اٹک اٹک کر جملہ مکمل کیا ۔۔۔
منورصاحب کو اپنے اطراف میں آندھرا ہوتا محسوس ہوا ۔
تیمور کی حالت بھی منورصاحب سے مختلف نہیں تھی ۔۔۔
دانیال صاحب نے ھسپتال کی چھت خود پر گرتی ہوئی محسوس کی ۔۔۔۔۔۔
عمر کی حالت بھی ان سے مختلف نہیں تھی ۔۔۔۔۔
کتنے ہی گھنٹے ڈاکٹر روم میں موت کی سی خاموشی رہی
ڈاکٹر فرح نے ان سب کو اکیلا چھوڑ دیا تھا وہ جانتی تھی کہ یہ سب کچھ برداشت کرنا اتنا آسان نہیں تھا ۔۔۔۔
میں کنزیٰ سے مل کر آتا ہوں ۔۔۔۔۔ کئی گھنٹے کی خاموشی عمر نے توڑی۔۔۔
کسی کو تو حوصلہ دکھانا تھاسب کچھ سنبھالنے کیے لئے ۔۔۔۔یہی سوچ کر عمر نے خود پر کنٹرول کیا اور
منور صاحب اور دانیال صاحب کی جانب دیکھ کر بولا ۔۔
میں کیسے دیکھوں گا اپنی بیٹی کو اس حال میں ۔۔۔۔۔ منورصاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں دانیال صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
حوصلہ کریں بھائی صاحب ہمیں ہمت سے کام لینا ہے ۔۔۔۔ کنزیٰ کو بھی تو ایسے اکیلے نہیں چھوڑ سکتے ۔۔۔۔ دانیال صاحب کو اپنا لہجہ کھوکھلا لگا ۔۔۔
کنزیٰ کے نام پر منورصاحب کی آنکھیں بھیگ گئیں
آہ۔۔۔۔ میری معصوم بچی ۔۔۔۔۔
منورصاحب نے تیمور کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
تیمور ابھی تک وہاں دیکھ رہا تھا جہاں کھڑے ہو کر ڈاکٹر فرح نے یہ قیامت خیز خبر دی تھی
عمر نے تیمور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس کو پکارا
تیمور ۔۔۔۔
تیمور ایک دم نیند سے ایسے چونکا جیسے گہری نیند سے بیدار ہوا ہو ۔۔۔۔
اور بنا کچھ بولے خالی نظروں سے بھائی کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔
تم منور ماموں اور دانیال ماموں کو گھر لے جاو میں کنزیٰ کے پاس ہو ۔۔۔اور ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھ کر
اسے ساتھ لے کر آتا ہوں ۔۔۔۔ عمر ضبط کی آخری حد پر کھڑا تھا اور بڑے ہونے کے ناطے سب کو سنبھالنے کے لئے خود کو تیار کرچکا تھا ۔۔۔
نہیں میں روکو نگا یہاں بھائی آپ ان لوگوں کو لے کر گھر جائیں ۔۔۔۔
تیمور کی آواز نے نا صرف دانیال صاحب اور عمر کو حوصلہ دیا بلکہ منورصاحب نے احسانمندی اور محبت کے ساتھ اپنے بھانجے کو دیکھا جس کے دو دن پہلے انہوں نے اپنی بیٹی کی منگنی بڑی دھوم دھام سے کی تھی ۔۔۔۔
یہ صرف بڑوں کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ کنزیٰ اور تیمور بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور یہ بات گھر کے سبھی افراد جانتے تھے۔ ♧♧♧♧♧♧♧♧
منورصاحب اور دانیال صاحب کا شمار شہر کے نامی گرامی کامیاب بزنس مینوں ہوتا ہے
منورصاحب اور نسیم بیگم کے دو بچے کنزیٰ اور عدیل ہیں ۔۔۔
ارسلان، مثال اور بشرئ دانیال صاحب اور ذکیہ بیگم کی اولاد ہیں ۔۔
جبکہ عمر اور تیمور منورصاحب کی بیوہ بہن ملیحہ بیگم کے بچے ہیں جو کہ منورصاحب اور دانیال صاحب کے ساتھ ہی ان کے گھر میں اوپر والے پورشن میں رہتی ہیں ۔۔
منور صاحب کے گهر کی خواتین نے اپنے گهر کی بچیوں
کی تربیت بہت ہی اسلامی طریقے سے کی تهی۔۔۔۔
ادب ولحاظ والی یہ لڑکیاں نہ صرف اپنے ظاہری حسن و
جمال کے لیے اپنی مثال آپ تهیں ۔۔بلکہ انکے تعلیمی قابلیت کے بهی خاندان بهر میں چرجے تهے۔۔۔
کنزیٰ اور مثال هم عمر ہونے کے ساته ساته ان دونوں
میں کافی ذہنی هم آمنگی تهی یہ ہی وجہ تهی دونوں
کی بنتی بہت تهی۔۔۔۔
جبکہ ارسلان اور عدیل بهی هم عمر تهے مگر دونوں کے مزاج ۔۔۔دونوں کے شوق اوز پسند میں زمین آسمان کا فزق تها۔۔۔ یہ هی وجہ تهی کہ دونوں کا جب آمنا سامنا ہوتا کسی نہ کسی بات پز بحث ہوتی زہتی تهی۔۔۔
عمر اور تیموز دونوں اپنی تعلیم مکمل کز چکے تهے اور اب منور صاحب اوز دانیال صاحب کے بزنس میں انکا هاته بٹاتے تهے۔۔۔
تیموز ایک کم گو اوز چها جانے والی شخصیت کا مالک تها اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے نہ صرف وہ منور صاحب اور نسیم بیگم کو پسند بلکہ انکی لاذلی بیٹی بهی اسکو دل وجان سے چاہتی تهی۔۔۔۔
تیمور بهی اسکے لیے پسند کے جذبات رکهتا تها۔۔۔۔
عمز اوز تیمور کی طرح ازسلان نے بهی اپنی تعلیم مکمل کر کے آفس جانا شروع کردیا تها۔۔۔
جبکہ عدیل ابهی اتنی جلدی آفس جانے کے جهنجهٹ میں نہیں پڑنا چاہتا تها۔۔۔۔
اس لیے منور صاحب نے کنزیٰ اوز مثال کو کالج لانے اور لے جانے کی ذمہداری عدیل کو سونپ رکهی تهی۔۔۔۔
عدیل باپ اور چچا کے بعد کسی کی بات مانتا تها وہ تهی اسکی بہن کنزیٰ۔۔۔
کنزیٰ پر وہ جان چهڑکتا تها۔۔۔۔
دونوں بہن بهائیوں کا مثالی پیا ر تها۔۔۔۔۔
عدیل گهر والوں کی نظر میں ایک شراتی , مہذب اور ادب ولحاظ والا لڑکا تها جبکہ اسکا ایک اور روپ تها جو صرف علم صرف اسکے قریبی دوستوں کو تها وہ تها
ایک عیاش اور بگڑے ہوئے لڑکے کا۔۔۔۔
باپ کے پیسے وہ اکثر اپنی اور اپنے دوستوں کی عیاشی پوری کرنے کے لیے استعمال کرتا تها۔۔۔۔ اسکا یہ روپ اس لیے ابهی تک اسکے گهر والوں سے چهپا تها کیوں کہ وہ اسی خوہشات
پوری کرنے کے لیے گهر سے دوستوں کے ساته شہر
سے باہر جاتا تها۔۔۔۔
حد ہوتی ہے ہر بات کی یہ دونوں تو ہر وقت ہی لڑائ جهگڑا کرتے رہتے ہیں۔۔۔ذکیہ بیگم نے غصے سے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے غصے سے دانیال صاحب اور دانیال صاحب کے ساته بیهٹی بشرئ سے کہا۔۔۔۔
خیریت کس کی لڑائی ہو گئی ؟؟ دانیال صاحب نے غصے سے بهری بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ارسلان اور عدیل کی۔۔۔۔ ذکیہ بیگم نے جواب دیا
مگر کس بات پر ہوئی آخر۔۔۔۔ دانیال صاحب نے حیرت سے پوچها۔۔۔۔۔
آپکو تو پتا ہے کہ عدیل کنزیٰ اور مثال کو کالج چهوڑ کر آکر پهر سو جاتا ہے۔۔۔۔ ذکیہ بیگم نے کہا
ہاں تو پهر۔۔۔ دانیال صاحب نے جهنجهلاتے ہوئے پوچها انہیں ذکیہ بیگم کی ہر بات کے تفصیل میں جانے والی عادت سے
سخت چڑ تهی۔۔۔
پهر کیا آج اسے اٹهنے میں دیر ہوگئی تهی وہ جلدی سا اٹها اور پہنے والی شرٹ بیڈ پر رکه کر باته گیا منہ ہاته دهونے
ارسلان نے اسکے کمرے میں گهس کر اس سے بغیر پوچهے اسکی شرٹ اٹها کر پہن لی۔۔۔
ایک تو بے چارے کو پہلے ہی دیر ہو رہی تهی اوپر سے ارسلان کی اس حرکت کی وجہ سے اور دیر ہوگئی
پهر کیا ہوا۔۔۔ ذکیہ بیگم جب سانس لینے کو روکیں تو بشرئ نے جلدی پوچها
ہونا کیا تها دونوں کے بیچ جنگ ہوگئ وہ تو بهابهی بیگم بیچ میں آگیں ورنہ تو هاتا پائی ہوجانی تهی۔۔۔
یہ تو بہت غلط کیا ارسلان نے ۔۔۔۔ دانیال صاحب کو بهی بیٹے کی حرکت پر افسوس ہوا۔۔۔
اور نہیں تو کیا بہت غلط کیا ہے ارسلان نے۔۔۔ ذکیہ بیگم
ایک بار پهر غصے میں آگیں
تم کیوں اپنا بی پی ہائ کر رہی ہو۔۔۔۔ بیوی کو پهر غصے میں آتا دیکه کر دانیال صاحب نے کہا
آپ ارسلان کو سمجهائیں ۔۔۔ انهوں نے شوہر کی طرف دیکه
کر کہا۔۔۔
اچها ٹهیک ہے میں بات کروں گا۔۔۔۔ دانیال صاحب نے ان سے
کہا۔۔
ارسلان ہے کہاں۔۔۔۔ انہوں نے بیوی سے پوچها
باہر گیا ہے ابهی نکل کر۔۔۔۔
اور عدیل ۔۔۔۔ وہ بچیوں کو لینے گیا ہے۔۔۔۔
اللہ یہ عدیل ابهی تک آئے کیوں نہیں ۔۔۔۔ مثال نے اپنی ہینڈ واچ پر نظر ڈالتے ہوے کنزیٰ دے کہا
رکو میں بهائی کو کال کر کے پوچهتی ہوب۔۔۔۔ کنزیٰ نے چپس کهاتے ہوئے مثال کو جواب دیا
اور بیگ سے موبائل نکالنے لگی۔۔۔
شکر ہے تم لوگ بهی ابهی یہں ہو۔۔۔ انکی کلاس فیلو اور کنزیٰ کی هم نام لڑکی کنزیٰ امتیاز نے ان کے قریب آکر بولا
ہاں یار پتا نہیں بهائی کہاں رہ گئے ہیں روکو میں انہیں کال کر لوں ۔۔۔
چلو چلو لڑکیوں جاو تمهارا بهائ آگیا ہے اور تمهارا بهی ابو بولا رہا ہے ۔۔۔کالج کے چوکیدار گل خان نے انکے قریب آکر بولا۔۔۔
تینوں ایک ساته باہر کی جانب بڑہیں ۔۔۔۔۔
عدیل کی نگاہ سامنے سے کنزیٰ اور مثال کے ساته آتی لڑکی پر پڑی۔۔۔ اتنا حسین چہرہ۔۔۔۔
عدیل نے دل ہی دل میں اسکے حسن کی داد دی۔۔۔
وہ لڑکی عدیل کی حالت سے بے خبر اپنے والد امتیاز صاحب کے ساته بائیک پر بیٹه کر جا چکی تهی۔۔۔۔
اتنی دیر کیوں ہو گئ آج۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کهولتے ہوئے گاڑی میں بیٹهتے ہوئے عدیل سے پوچها
آنکه ہی دیر سے کهولی اوپر سے ارسلان کے بچے نے میری شرٹ پہن لی ۔۔۔ عدیل نے گاڑی چلاتے ہوئے تفصیل
دے بتایا۔۔۔
اللہ مثال هم کو آج کالج سے گهر جاتے ہوئے تهوڑی
دیر کیا لگ گئی ارسلان کے تو بچے بهی ہو گئے ۔۔۔
ہی ہی ہی۔۔۔۔۔ مثال کنرئ کے اسطرح کہنے پر کهلکهلا کر ہنس پڑی۔۔۔۔
عدیل نے گهور کر مصنوعی غصے سے بہن کو دیکها
کنزیٰ نے ڈرنے کی اداکاری کرتے ہوئے بهائ کی طرف دیکهتے ہوئے پوچها۔۔۔
اچها یہ ہی بتا دو کہ بچے ہیں کتنے۔۔۔
ہا ہا ہا۔۔۔۔ مثال سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا تها۔۔۔۔
عدیل بهی اسکی اس انداز سے پوچهنے پر مسکرا دیا۔۔۔
تم پٹ جاو گی میرے ہاتهوں سے عدیل نے ہنستے ہوئے پیار سے بہنن کو دیکها۔۔۔
آپ اور مجهے ماریں گے ۔۔۔ اس نے اپنی گهنی پلکوں کو جهپکاتے ہوئے بهائ سے حیران ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے پوچها
کبهی نہیں۔۔۔ ایسا میں سوچ بهی نہیں سکتا۔۔۔ عدیل نے جلدی سے اپنی جان سے پیاری بہن کو دیکه کر کہا
عدیل کے اسطرح کہنے سے کنزیٰ نے غرور اور محبت سے اپنے پیارے بهائ کو دیکها۔۔۔ اور گاڑی سے باہر دیکهنے لگی۔۔۔۔۔
اس بات سے بے خبر کہ جو بهائ اپنی بہن کو تکلیف دینے کا سوچ بهی نہیں سکتا وہ ہی اپنی اس بہن کو اتنے بڑے عذاب میں مبتلا کر دے گا کہ اسکی کسک زندگی بهر اسکی جان سے پیاری بہن سہتی رہے گی۔۔۔۔۔