بھول جانا بھی اسے یاد بھی کرتے رہنا۔۔۔
اچھا لگتا ہے اسی دھن میں بکھرتے رہنا۔۔۔
ہجر والوں سے بڑی دیر سے سیکھا ہم نے۔۔۔۔
زندہ رہنے کے کیے جاں سے گزرتے رہنا۔۔۔۔
کیا کہوں کیوں میری نیندوں میں خلل ڈالتا ہے۔۔۔۔
چاند کے عکس کا پانی میں اترتے رہنا۔۔۔۔
میں اگر ٹوٹ بھی جاؤں تو پھر آئینہ ہوں۔۔۔۔
تم میرے بعد ہر تور سنورتے رہنا۔۔۔
گھر میں رہنا ہے تو بکھرتے ہوئے سائے چن کر۔۔۔۔
زخم دیوار و دروبام کے بھرتے رہنا۔۔۔۔۔
شام کو ڈوبتے سارج کی عادت ہے محسن۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی میرے ساتھ ابھرتے رہنا۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کو لاہور آئے 9 ماہ 20 دن ہو گئے تھے۔۔۔ آج وہ اپنے پیروں پہ کھڑی تھی۔۔۔ چند ماہ قبل پارک میں جو اس نے فیصلہ کیا تھا اس پہ عمل بھی کر کے دکھایا تھا۔۔۔۔ جن مردوں نے اسے ٹھکرایا تھا اسے دھتکارا تھا۔۔ اس نے بھی ان مردوں کو ٹھکرا کر ایک نئی دنیا بنا لی تھی۔۔۔ حمزہ کے جانے کے بعد رات وہ بھی اشعر کے نام خط چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلیے اشعر اور اسکے شہر کو چھوڑ کر آ گئی تھی۔۔۔
"میرے ہاتھوں کی لکیروں میں یہ عیب ہے محسن
میں جس شخص کو چھو لوں وہ میرا نہیں رہتا"
جانے اس کی قسمت بھی اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہی تھی کہ خوشیاں پاس آنے سے پہلے ہی منہ موڑ جاتی تھیں۔۔۔ ابھی تو اس نے ٹھیک سے اس رشتہ کو محسوس بھی نہ کیا تھا کہ وہ ٹوٹنے کے دھانے پہ آن کھڑا تھا۔۔۔ ابھی تو اشعر کے دل میں اس کے لیے محبت جاگی ہی تھی کہ وہ محبت اس سے چھین گئی۔۔۔۔
ماں باپ بہن بھائی کا پیار ملا ہی تھا کہ سب پھر سے ختم ہو گیا تھا۔۔۔۔
. . . . . . . . . . . . .
وہ تو شکر تھا کہ وہ ہوسٹل سے اپنا سامان لے آئی تھی۔۔ ورنہ اسے دوبارہ ڈگری کی ضرورت بھی پڑھ سکتی ہے اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔۔
چونکہ اس نے بی۔بی۔اے کیا تھا تو یہاں آکر آفس میں جاب سٹارٹ کر لی تھی۔۔۔ جو کہ اس کافی مشکلوں سے ملی تھی کیونکہ نہ تو اسکی ایجوکیشن زیادہ تھی اور نہ ہی کوئی ایکسپیرینس تھا۔۔۔ مگر اس نے بھی ہمت نہ ہاری اور بلآخر جاب مل ہی گئی۔۔۔
اس دنیا میں اگر عورت سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ہے تو اس سے زیادہ مضبوط بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ جب خود کو منوانے پہ آتی ہے تو اچھے اچھوں کے کس بل نکال دے۔۔۔ مگر کون سمجھائے ان انا پرست مردوں کو کہ عورت کو اپنے پیروں پہ چلنا آتا ہے مگر انہیں مروں کے سہارے چلنا اچھا لگتا ہے ان کے ہمراہ اس سے ایک قدم پیچھے رہ کر دنیا کا نظاہر کرنا زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔۔۔۔
اب وہ کمپنی کی طرف سے ملے اپارٹمنٹ میں ہی رہ رہی تھی۔۔۔ جس میں اسکے ساتھ ایک اور لڑکی عائشہ تھی۔۔۔۔ جو اسکی کولیگ ہی تھی۔۔۔
"ضبط نے اب تو پتھر کر دیا ورنہ ،فراز
دیکھتا کوئی کہ جب دل کے زخم انکھوں میں تھے"
آفس میں اسکی بات چیت بس کام کی حد تک ہی تھی جس سے لوگ اسے پراؤڈی سمجھتے تھے۔۔۔۔ مگر اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کون اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر سائیڈ ٹیبل پہ پڑے طے شدہ کو دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔
یہ یہاں کس نے رکھا؟؟؟ اس نے یہ سوچتے کاغذ کھولا تو وہ باصفا کی ہینڈ رایٹنگ تھی اشعر نے جلدی سے پڑھنا شروع کیا۔۔۔
. . . . . . . . . . . . . .
اے ابنِ آدم سنو۔۔۔۔ سنو اور جان لو۔۔۔۔
کہ عورت کیا ہے۔۔۔ میں آئینہ ہوں تمہارا۔۔۔
اس میں وہ سب دیکھتے ہو جو تم مجھے دیتے ہو۔۔۔۔
محبت۔۔۔ پیار۔۔۔ عزت۔۔۔ شفقت۔۔۔ الفت۔۔۔ اعتماد۔۔۔ اعتبار۔۔۔ قربت۔۔۔ حسنِ سلوک۔۔۔۔ وفا۔۔۔ سوچ۔۔۔ دیانت۔۔۔ شراکت۔۔۔ نفرت۔۔۔ ذلت۔۔۔ گھٹن۔۔۔ شک۔۔۔ بداعتمادی۔۔۔۔ بدسلوکی۔۔۔
میں تمہارے رویے کی آئینہ دار ہوں۔۔۔ میں وہ کورا کاغذ ہوں جس پر تم وہی پڑھتے ہو۔۔۔۔ جو تم خود اپنے قلم سے تحریر کرتے ہو۔۔۔۔ تمہارے ثبت کیے بوسے۔۔۔ تمہارے ثبت کیے تمانچے۔۔۔۔ تمہارے اعتماد کا سکون۔۔۔ تمہارے شک کی لکیریں۔۔۔ میرا فخر اور اعتماد سے اٹھا سر تمہارے اعتبار کی نشان دہی کرتا ہے۔۔۔۔ میرے چہرے پہ بکھرا سکون تمہاری محبت کی غمازی کرتا ہے۔۔۔۔ میرے چہرے پہ موجود فکر اور پریشانی تمہارے لیے ہے۔۔۔۔ میری آنکھوں سے بہتے آنسو تمہارے لیے ہیں یا تمہاری دین ہیں۔۔۔ میرے اٹھتے قدم کی سمت کا تعین تمہارے لہجوں سے ہوتا ہے۔۔۔ تمہاری تعریف میرا حوصلہ بڑھاتی ہے۔۔۔ اور تمہاری تنقید مجھے کھڑے قد سے زمین بوس کر دیتی ہے۔۔۔ میں عورت کہلاتی ہوں مگر درحقیقت میں ذات کے آئینہ میں نظر آتا مرد ہوں۔۔ مجھے دیکھنے والے جان جاتے ہیں کہ اس حوا کا آدم کیسا انسان ہے۔۔۔ یہ تم جانو آدم کہ تم اس قرتاس پہ کیا تحریر کرنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔!!!!!
. . . . . . . . .
السلامُ علیکم۔۔۔!
میں جانتی ہوں اشعر خط دیکھ کر آپ حیران ہوں گے۔۔ مگر مجھے اپنے الفاظ آپ تک پہنچانے کا حل یہ خط ہی لگا۔۔۔ کیونکہ آپ کے روبرو یہ سب کہنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔۔۔
میں جانتی تھی اشعر آپ بھی مجھے ہی غلط سمجھیں گے حمزہ بھائی کی طرح۔۔۔ اس لیے سچائی بتانے کا حوصلہ نہیں کر پائی۔۔۔ کیونکہ اس وقت میرا واحد ٹھکانہ وہ گھر ہی تھا۔۔۔۔ میں بادشاہ خان سے بہت ڈر گئی تھی کہ کہیں پھر سے وہ مجھے۔۔۔۔ اس لیے سچائی چھپانی پڑی۔۔۔ میں آپ کو دھوکہ دینا نہیں چاہتی تھی مگر بہت بے بس اور مجبور تھی۔۔۔۔
میں مانتی ہوں مجھ سے غلطی ہوئی تھی میں بھٹک گئی تھی مگر کیا اس میں صرف میرا اکیلی کا ہی قصور تھا۔۔۔۔ مجھے اس موڑ تک پہنچانے والے کیا قصور وار نہیں تھے۔
حمزہ بھائی جنہوں نے اگر میرے سر پہ کبھی ہاتھ رکھا ہوتا مجھے زمانے کے سرد و گرم سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید یہ سب نہ ہوتا۔۔۔۔
اور زاویار جس نے اپنی ہوس کے لیے میرا استعمال کرنا چاہا۔۔۔۔
مرد خطا کرے تو معاف کیوں کہ وہ مرد ہے عورت خطا کرے تو اسے سنگسار کر دو یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔ ہمیشہ عزت، غیرت کے نام پہ عورت کو ہی سزا کیوں دی جاتی ہے۔۔۔۔
غیرت کے نام پہ عورت کا قتل کر دینا اسے رسوا کرنا کیا یہ مردانگی ہے؟؟؟ اللہ نے مرد کو عورت محافظ بنا کے بھیجا ہے اسکا سائیبان بنایا ہے۔۔۔ کیا سائیبان ایسے ہوتے ہیں؟؟؟؟
آپ نے تو ساری زندگی میرا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا نہ تو کیا ہوا اس وعدے کا۔۔۔ آپ تو پہلے موڑ پہ ہی ساتھ چھوڑ گئے ساری عمر کیا ساتھ نبھائیں گے۔۔۔۔
خیر آپ اپنی زندگی میں آزاد ہیں اپنے لیے جو چاہیں بہتر فیصلہ کریں۔۔۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں آپ مجھ جیسی بد کردار لڑکی کو ڈیزرو نہیں کرتے۔۔۔اس لیے میں جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے۔۔۔ اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔ آمین۔۔۔
آپکی بد کردار بیوی باصفا رحمان۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سردوں کا موسم پھر سے شروع ہو رہا تھا۔۔۔ اور باصفا کا بخار بھی پھر سے جاگ اٹھا تھا۔۔۔ آج بھی اتوار کا دن تھا۔۔۔ آفس سے چھٹی تھی سو وہ قسلمندی سے بستر میں ہی گھسی وی تھی۔۔۔ جبکہ عائشہ صبح ہی صبح جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔۔۔ وہ جانے اور کب تک ایسے ہی پڑی رہتی کہ دروازے پہ ہونے والی مسلسل بیل نے اسے اٹھنے پہ مجبور کر دیا۔۔۔ پہلے تو وہ نظر انداز کیے لیٹی رہی مگر جب مقابل بیل پہ ہاتھ رکھ کر ہٹانا بھول گیا تو وہ جھلاتی ہوئی دروازہ کھولنے اٹھی۔۔۔ افففف ہو کیا مصیبت آن پڑی ہے جو۔۔۔۔۔ مگر آگے کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔۔۔ کیونکہ مقابل جو شخص کھڑا تھا اس کے تو وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس وقت یہ یہاں ہو سکتا ہے۔۔۔ اشعر۔۔۔ آپ۔۔۔۔
جی ہاں محترمہ میں ہی ہوں۔۔ اور تمہاری یہ گدھے گھوڈے بیچ سونے والی عادت کب جائے گی۔۔۔۔ کب سے بیل بجا رہا ہوں۔۔۔ اب ہٹو بھی سامنے سے۔۔۔ باصفا کو سٹل دروازے میں ایتسادہ دیکھ کر بولا۔۔۔
وہ تو یوں بول رہا تھا جیسے دونوں کے درمیان کتنے خوشگوار تعلقات ہوں۔۔۔ وہ حیران سی دروازہ بند کرتی پلٹی۔۔۔
جبکہ اشعر بڑے مزے سے صوفے پہ براجمان ہو چکا تھا۔۔۔
تمہارے ہاں مہمان کی خاطر تواضح کا کوئی رواج ہے؟؟؟؟
ناشتہ ہی بنا دو ظالم لڑکی۔۔۔ صبح کا بغیر ناشتہ کیے نکلا ہوا ہوں اب تو بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔۔
اور وہ خاموشی سے ناشتہ بنانے لگی۔۔۔ ساتھ ساتھ سوچ کے گھوڑے بھی دوڑا رہی تھی۔۔۔
اب یہ یہاں کیوں آیا ہے۔۔۔ اففف لگتا ہے میری زندگی میں کبھی سکون آ نا ہی نہیں ہے۔۔۔ جب بھی ذرا سیٹل ہونے لگتی ہوں کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہو جاتا ہے جو میری پوری ہستی ہی ہلا کر رکھ دیتا ہے۔۔۔۔ جانے مجھے اپنے حصے کی خوشیاں کب نصیب ہوں گی۔۔۔
باصفا نے ناشتہ بنا کر سامنے پڑی ٹیبل پہ لگا دیا۔۔ اور خود اپنا چائے کا مگ اٹھا کر سامنے صوفے پہ جانے لگی کہ اشعر نے اسکا ہاتھ پکڑ کے اپنے پاس ہی بیٹھا لیا۔۔۔
آؤ نہ تم بھی کھاؤ۔۔۔ آفر کی گئی۔۔۔
باصفا نے نفی میں گردن ہلائی اور وہ کندھے اچکاتا کھانے لگا۔۔۔
باصفا تو اس کے انداز دیکھ کہ حیرت میں تھی۔۔۔ یہ اسے کیا ہو گیا۔۔۔
اور وہ اسکی حالت سے محفوظ ہو رہا تھا۔۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ بڑے تحمل سے بولا۔۔۔۔ ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس پیکنگ کر لو۔۔۔ اگر کچھ رہ گیا تو میں بعد میں لے کر آنے والا نہیں۔۔۔۔
پیکنگ کیوں۔۔۔ باصفا کو سمجھ نہیں آیا وہ ایسا کیوں کہ رہا ہے۔۔۔
کیوں کہ تم میرے ساتھ واپس جا رہی ہو۔۔۔ اطمنان سے بولا گیا۔۔۔
میں کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ صاف جواب آیا۔۔۔
باصفا میں یہاں بحث کرنے نہیں آیا۔۔۔ جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔
میں نے کہ دیا میں نہیں جا رہی تو نہیں جا رہی۔۔ اس کا انداز بے لچک تھا۔۔۔
یور ٹئم سٹاٹس ناؤ۔۔۔
آخر مسلئہ کیا ہے آپکا۔۔۔ جب دل کیا نکال باہر کیا۔۔ اور اب اتنے مہینوں بعد یاد آ گیا ایک عدد بیوی بھی ہے۔۔۔۔ وہ غصے سے بولی۔۔۔
اووہ تو اس بات کا غصہ ہے کہ دیر سے کیوں آیا۔۔یعنی پہلے آ جاتا تو آپ باآسانی مان جاتی۔۔۔ وہ مسکرا کر بولا
اس کے مسکرانے پہ گویا باصفا سلگ اٹھی۔۔۔
آپ کے لیے مزاق ہے یہ سب۔۔۔ میں بھی انسان ہوں اشعر مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔ وہ اپنے آنسؤں کو کیسے پیے ہوئے تھی یہ صرف باصفا ہی جانتی تھی۔۔۔ وہ کمزور پڑنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ بس بہت ہو گیا تھا۔۔۔ اب وہ مزید کسی کی باتوں میں نہیں آنا چاہتی تھی۔۔۔
میں اب یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی۔۔۔ اگر آپ یہاں مجھے لیجانے آئے ہیں تو سن لیں اشعر حیدر میری زندگی میں اب کسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔۔ کتنا سفاک لہجہ تھا۔۔۔۔
اور اشعر اس کے انداز دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔ وہ تو اسکے سامنے بولتی تک نہ تھی اور کہاں آج نڈر ہو کے بول رہی تھی۔۔۔
باصفا۔۔۔۔ کتنا درد تھا اشعر کے لہجے میں۔۔۔
دیکھو باصفا میں جانتا ہوں میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے۔۔۔ اس دن نا جانے میں کیا کیا بول گیا۔۔۔ تمہیں صفائی کا اک موقع بھی نہ دیا اور فیصلہ سنا دیا۔۔۔ تم پہلے ہی جس قرب سے گزر کے یہاں تک آئی تھی میں نے بھی وہ ہی درد دیے تمہیں۔۔۔ مجھ میں اور حمزہ میں کوئی فرق نہ رہا۔۔۔ لیکن باصفا کیا تم مجھے اپنی غلطی سدھارنے کا ایک موقع نہیں دے سکتی۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں تم سے آئیندہ میری ذات سے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی تمہیں۔۔۔ پلیز ایک موقع۔۔۔۔
اور بس باصفا کا ضبط ٹوٹا تھا۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے زار و قطار رو دی۔۔۔ اس مٹھاس بھرے لہجے کے لیے تو وہ ترس گئی تھی۔۔۔ وہ ترس گئی تھی کسی اپنے کو۔۔ کوئی ایسا جو اسکی پلکوں سے اس سے سارے آنسو چن لے۔۔ کوئی تو ہو جو کہے باصفا حالات چاہے کیسے ہوں میں ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔۔
عورت چاہے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، کتنا ہی ضبط کرنا جانتی ہو اسکو ایک ایسی نگاہ کی طلب ضرور ہوتی ہے جو دیکھتے ہی آنکھوں میں چھپے درد پہچان لے۔۔۔۔
اشعر نے اپنی قیمتی متاع کو خود میں سمو لیا۔۔۔
کافی سارا رونے کے بعد اس نے خود کو اشعر کے حصار سے نکالا۔۔۔۔
بس رو لیا۔۔۔۔ اشعر نے پاس پڑا ٹشو باکس اسکی جانب بڑھایا۔۔۔۔
باصفا نے آہستگی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔
اتنی دیر کیوں کی آنے میں؟؟؟ محبت بھرا شکوہ آیا۔۔۔
میں چاہتا تھا تمہیں منانے سے پہلے تمہارے گناہ گار کو اس کے انجام تک پہنچا کر آؤں جس کی وجہ سے میری نازک سی پری نے اتنی تکلیفیں جھیلیں۔۔۔۔ اور پھر مجھے اندازہ نہیں تھا کوئی میرا اس قدر بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔۔۔ بات کے آخر میں وہ شرارت سے بولا۔۔۔
خوش فہمی ہے آپ کی۔۔۔
وہ تو دیکھ ہی رہا ہے محترمہ۔۔۔
چلو اب اٹھو۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔ میں عائشہ کو کال کر کے بتا دوں تب تک وہ بھی آ جائے گی۔۔۔
کیا؟؟؟؟ عائشہ۔۔۔ آپ اسے کیسے جانتے ہیں۔۔۔
کہیں آپ نے ہی تو اسے۔۔۔۔
مجھے اپنی عزت کی حفاظت کرنا آتا ہے۔۔۔۔ وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔۔
تو یہ جاب بھی۔۔۔۔
اچھا اب باقی کی انکوائری گھر جا کے کر لینا۔۔۔ ابھی چلو مجھے واپس جا کر ضروری کام بھی کرنا ہے۔۔۔۔
آپ جا کر کریں اپنے ضروری کام۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔ وہ منہ پھلا کر بولی۔۔۔
اففف۔۔۔ تم ایسے ہی چلو۔۔۔ وہ اسے اپنے بازؤں پہ اٹھاتا بولا۔۔۔
کیا کر رہے ہیں میں گر جاؤں گی۔۔۔
میں ہوں نہ تمہیں گرنے نہیں دوں گا۔۔۔۔ یقین دلایا گیا۔۔۔
اور پھر وہ باصفا کے سنگ واپس حیدر ویلاز آ گیا۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زاویار نے امریکہ میں کسی امیرو قبیر خاندان کی لڑکی سے نشے میں دھت زیادتی کی تھی۔۔۔ جس کے والدین نے اس پہ کیس کر دیا تھا۔۔۔ جس کے نتیجے میں اس کے باقی کے کیس بھی کھلے۔۔۔۔۔
جب اشعر کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے پورے اسرو رسوخ لگا دے۔۔۔ اور بلآخر زاویار کو سزا دلوا کر ہی چھوڑی۔۔۔ آج وہ امریکہ میں سلاخوں کے پیچھے تھا۔۔۔۔ اب وہ اتنی جلدی باہر آنے والا نہیں تھا۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس تاریخ کو انکا نکاح ہوا تھا آج ایک سال بعد اسی تاریخ کو اسکی رخصتی ہوئی تھی۔۔۔
آج وہ سرخرو ہو گئی تھی۔۔۔ اسکے بھائی نے بڑے مان سے اسے اسکے اپنے گھر سے رخصت کیا تھا۔۔۔ جہاں نے کبھی اسے نکالا گیا تھا۔۔۔
لال عروسی جوڑے میں وہ اشعر کے دل میں اسکی زندگی پہ راج کرنے کو سب ہتھیاروں سے لیس اسکے سامنے موجود تھی۔۔۔ اور وہ بس مبہوت سا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
باصفا کیا یہ حقیقت ہے۔۔۔ تم سچ میں میرے سامنے ہو۔۔۔۔ وہ گھمبگھیر لہجہ میں اس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔
باصفا نے بڑی محنت سے اسکا ہاتھ تھاما اور۔۔۔ اور پھر اسکی ہاتھ کی پشت پہ ذوردار چٹکی کاٹی۔۔۔
اففف یہ کیا کر رہی ہو ظام لڑکی۔۔۔۔
آپ کو خواب سے جگا رہی ہوں۔۔۔ باصفا ذوردار قہقہ لگاتی بولی۔۔۔
اشعر نے اپنی جیب سے ڈایمنڈ رنگ نکالی اور باصفا کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں پہنا کہ اسکا ہاتھ لبوں سے لگایا۔۔۔ اور پھر اسنے ایک اور رنگ نکالی اور اسکی دائیں ہاتھ کی انکلی میں پہنا کہ اسے بھی لبوں سے لگاتا بولا۔۔۔
"Happy Marriage Aniversery My Life"
اور پھر وہ اسکی محبت کی بارش میں بھیگتی چلی گئی۔۔۔۔
بلآخر اس کے رب نے اسکی خطا معاف کر دی تھی اور بدلے میں اسے اشعر جیسا مضبوط سائیبان دیا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے رب کا جتنا شکر کرتی کم تھا۔۔۔ بے شک جب وہ نوازنے پہ آتا ہے تو انسان کی اوقات نہیں دیکھتا۔۔۔۔
ختم شد۔