زید فارغ ہوتے ہی اسے ہوسٹل لے گیا۔۔۔ وہ اس وقت وارڈن کے روم میں تھی جو اس سے مختلف قسم کے سوال کر رہی تھی۔۔۔ وہ جانتی تھی اس کے اسطرح غائب ہونے سے بہت سے سوال اٹھیں گے۔۔۔ اگر اسے تصویریں اور ڈائری نہ لینی ہوتی تو وہ دوبارہ کبھی یہاں نہ آتی۔۔۔ مگر آنا مجبوری تھی۔۔۔
اووہ باصفا آپ۔۔ آپ تو بازار کا کہ کر گئیں تھیں اور پھر وہیں سے کسی کے ساتھ چلیں گئیں۔۔۔ آپ کو ہوسٹل کے رولز نہیں معلوم کیا۔۔۔ وہ تو ثناء نے بتایا تھا کہ آپ وہاں سے کسی لڑکے کے ساتھ چلی گئیں ہیں۔۔۔وہ تو آپ کا اتنے سالوں کا صاف کیرئیر دیکھ کے ہم نے پولیس کو انوالو نہیں کیا۔۔۔ ورنہ آپ جانتی ہیں ان معاملات کوہینڈل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔
جی میم وہ میں۔۔۔
یہ میرے ساتھ ہی گئی تھیں۔۔۔سوری ہم کافی ایمرجنسی میں گئے تھے تو بتا نہ سکے۔۔ آپ کا بہت شکریہ آپ نے تعاون کیا
جی آپ؟؟؟؟
میں انکا تایا زاد ہوں۔۔۔ اور یہ آجکل ہمارے ساتھ ہی ہیں۔۔۔
باصفا نے تشکر بھری نظروں سے زید کو دیکھا جس نے بر وقت بات سنبھال لی۔۔۔
اووہ اچھا۔۔ لیکن پھر بھی آپ کو ایک فون کال کر کے انفارم کر دینا چاہیے تھا۔۔۔ ایکچوئلی میم میرا فون مس پلیس ہو گیا ہے۔۔ اور سب نمبرز اسی میں سیو تھے۔۔۔ اس لیے انفارم نہیں کر پائی۔۔۔
اوکے۔۔۔۔
میم وہ میرا سامان۔۔۔
ہم کافی دن آپ کا انتظار کرتے رہے پھر جب آپ نہ لوٹیں تو سامان اسٹور روم میں رکھوا دیا۔۔۔ آپ نجمہ کے ساتھ چلی جاؤ اور اپنا سامان اسٹور روم سے لے لو۔۔۔ میں اسے کہ دیتی ہوں۔۔۔
جی شکریہ۔۔۔
اس نے اپنا مختصر سا سامان لیا اور واپسی کے لیے چل دیے۔۔۔
وہ ڈائیری ہی اسکا کل اساسہ تھی۔۔۔ جس میں اسکے گزرے ماہ و سال کا ایک ایک اذیت ناک لمحہ درج تھا۔۔۔ اور اسی میں ہی اسکی فیملی کی تصویریں بھی تھیں جن کو اس نے فون میں سے ڈیولپ کروایا تھا۔۔۔
What????
شادی۔۔۔ اور وہ بھی باصفا سے۔۔ نو نیور۔۔۔ میں اس سے ہر گز شادی نہیں کروں گا۔۔۔
کیوں؟؟؟؟ مسلئہ کیا ہے اس سے شادی کرنے میں؟؟؟
جب شائستہ بیگم اور حیدر صاحب نے اس سے شادی کی بات کی تو وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گیا۔۔۔ اسکا تو دماغ ہی آؤٹ ہو گیا اس بات پہ۔۔۔
پتہ نہیں کون ہے۔۔۔ کن کن لوگوں سے اس کے تعلقات ہیں ۔۔۔ اور آپ چاہتے ہیں میں ایسی لڑکی سے شادی کر لوں۔۔۔ جسکا کریکٹر ہی میری نظروں میں مشقوق ہے۔۔۔
اشعر اب تم حد سے بڑھ رہے ہو۔۔۔تم باصفا کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہے مت بھولو وہ تمہارے چچا کی بیٹی ہے۔۔۔ ہمارے گھر کی عزت ہے وہ۔۔۔ آئیندہ اس کے بارے میں کچھ بھی الٹا بولنے سے پہلے یہ سوچ لینا۔۔۔
جو بھی ہے میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر تم بھی سن لو تمہاری شادی ہو گی تو صرف باصفا سے ہی ہو گی۔۔۔۔ حیدر صاحب ضد کرتے نہیں تھے مگر جس بات پہ اڑ جاتے تو پھر انہیں اس بات سے پھیرنا نا ممکن ہو جاتا۔۔۔
شائستہ بیگم کو یوں لگ رہا تھا جیسے چند سال پہلے والا واقعہ پھر سے دہرایہ جا رہا ہو۔۔۔ اب بھی وہ اپنی بات پہ اڑ گئے تھے۔۔۔ اگر اشعر نے انکی بات نہ مانی تو۔۔۔۔ ایک بار پھر عورت کا ہی امتحان تھا۔۔۔ ہر ماں کی طرح انکا بھی یہی دل تھا انکا بیٹا ہنستی مسکراتی زندگی گزارے۔۔۔ مگر یہ جو زبردستی کے رششتے ہوتے ہیں بعض دفعہ انہیں نبھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔
آپ بھی پھر سن لیں میں ساری زندگی شادی نہیں کروں گا۔۔۔ وہ یہ کہ کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔
مگر پھر شائستہ بیگم اور حیدر صاحب کی مسلسل ناراضگی پہ اسے ہاں کرتے ہی بنی۔۔۔
آمی آپ جانتی ہیں میں آپ دونوں کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے آپ لوگ ایسا کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔۔
تو تمہارے ابو جو کہ رہے ہیں تم مان لو نہ انکی بات۔۔ باصفا بہت اچھی ہے۔۔۔ تم دیکھنا تم اس کے ساتھ بہت خوش رہو گے۔۔۔۔
اوکے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ بتا دیں اپنے دبنگ ہسبنڈ کو میں راضی ہوں۔۔۔ مگر میری بھی ایک شرط ہے۔۔۔
اب وہ کیا؟؟؟
ابھی صرف نکاح ہو گا وہ بھی سادگی سے۔۔۔۔
لو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔۔ میں تو بڑی دھوم دھام سے اپنے بیٹے کی شادی کروں گی۔۔۔
آمی ابھی میں بہت مصروف ہوں۔۔۔ ابھی یہ سب افورڈ نہیں کر سکتا اگر آپ کو میری شرط منظور ہے تو ٹیھک ہے ورنہ۔۔۔۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے یہ رعب تم کسی اور کو جا کے دکھاؤ آفسر ہو گے اپنے تھانے میں۔۔۔۔ ماں کو دھمکیاں دیتے شرم نہیں آتی تمہیں۔۔۔ وہ مصنوعی خفگی سے بولیں۔۔۔
ارے میری پیاری آمی خفہ کیوں ہوتی ہیں۔۔۔ وہ لاڈ سے انکے کاندھوں کے گرد بازو ہمائل کرتا بولا۔۔۔۔ اچھا اب بتائیں ناراضگی ختم نہ۔۔۔
لو بھلا میں تم سے ناراض ہو سکتی ہوں۔۔۔ وہ ممتا بھرے لہجہ میں بولیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائی آمی تایا ابو آپ۔۔۔ کوئی کام تھا تو مجھے بلوا لیتے۔۔۔۔
ہم اپنی بیٹی کے پاس نہیں آ سکتے کیا؟؟؟
کیوں نہیں آپ کا جب دل چاہے آ سکتے ہیں۔۔۔
اللہ میری بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔۔
باصفا۔۔۔
جی تائی آمی۔۔۔
بیٹا ہم یک ارضی لے کر آئے ہیں تمہارے پاس۔۔۔
تائی آمی آپ حکم کریں۔۔۔وہ انکے انداز پہ ٹھٹکی تھی۔۔۔ یا اللہ اب مزید آزمائش میں مت ڈالنا۔۔۔۔
بیٹا ہماری چھوٹی سی خواہش تھی کہ تمہارا اور اشعر کا نکاح ہو جائے۔۔۔
کیا؟؟؟؟ نکاح۔۔۔شادی کا سن کر تو وہ چکرا گئی۔۔۔ شادی کا لفظ تو وہ ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی سے نکال چکی تھی۔۔۔
مگر اب۔۔۔۔ کیا وہ انہیں انکار کر دے۔۔۔ جنہوں نے اسے اتنا پیار دیا۔۔۔ مان دی عزت دی۔۔۔
اسکی خاموشی پہ حیدر صاحب بولے۔۔۔ بیٹا ہم زبردستی نہیں کریں گے۔۔ اگر تمہیں ہمارا فیصلہ منظور نہیں ہے تو تم انکار کر سکتی ہو۔۔۔ دیکھو بیٹا ہم ہی اب تمہارے بڑے ہیں اس لیے اب تمہارے مستقبل کا فیصلہ ہمیں ہی تو کرنا ہے۔۔۔ بس میری یہ خوہش تھی کہ رحمان کی نشانی کو ہمیشہ کیلیے اپنے پاس رکھ لوں۔۔۔
آپ میرے بڑے ہیں جو بھی فیصلہ کریں گے میری بہتری کے لیے ہی کریں گے ۔۔۔۔
سدا خوش رہو۔۔۔ اللہ تم دونوں کی جوڑی سلامت رکھے ۔۔۔۔
وہ اسے پیار کرتی اور ڈھیروں دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔ اور اسے پھر سے سوچوں میں ڈال گئے۔۔۔
اب باصفا کو لگ رہا تھا اس نے اپنے بارے میں نہ بتا کر غلط کیا ہے۔۔۔ اسے وہ سب بتا دینا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن اگر وہ بتا دیتی اور وہ اسے نکال دیتے تو۔۔۔ مگر وہ جھوٹ کی بنیاد پہ ایک نیا رشتہ کیسے قائم کر سکتی تھی۔۔۔ ایسے تو وہ اشعر کو دھوکہ دے گی۔۔۔ اور کیا اشعر وہ ایسی لڑکی کو اپنی بیوی بنائے گا۔۔۔۔مگر میں انہیں سچ کیسے بتاؤں مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے۔۔۔۔ میں پھر سے در بدر ہو جاؤں گی۔۔۔
یا اللہ ایک مصیبت ختم نہیں ہوتی کہ دوسری آ جاتی ہے۔۔۔ آخر میری زندگی میں سکون کب آئے گا۔۔۔۔ اب وہ اللہ سے گلے شکوے کرنے لگی۔۔۔
اور وہ ڈریگن ہونہہ ویسے تو اس سے اسکے کمرے میں اس دن برداشت نہیں ہوئی تو ساری زندگی کیسے کرے گا۔۔۔ وہ تو منہ سے آگ اگل اگل کے ہی راکھ کر دے گا مجھے۔۔۔ وہ خود سے ہی بیٹھی الجھتی رہی۔۔۔
اور پھر جمعہ کو سادگی سے انکا نکاح ہو گیا۔۔۔
نکاح کے بعد بھی اشعر کا رویہ پہلے جیسا ہی تھا۔۔۔۔ وہ نہ تو اسے پہلے مخاطب کرتا تھا اور نہ ہی اب۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ معمول کے مطابق فجر کی نماز پڑھ کے لان میں آ گئی۔۔۔ موسم تبدیل ہو رہا تھا۔۔۔ سردیوں کی آمد تھی۔۔۔ اور ایسے موسم میں اسے لازمی بخار ہو جاتا تھا۔۔۔
آج بھی اسے اپنی طبیعت بوجھل سی لگ رہی تھی سر بھی بھاری ہو رہا تھا۔۔۔ اس لیے وہ گھاس پہ چلنے کی بجائے کرسی پہ ہی آنکھیں موند کر بیٹھ گئی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر جو کہ باصفا سے بات کرنے آیا تھا کتنے ہی پل اس معصوم چہرے کو دیکھتا رہا۔۔ دل میں ایک عجیب سا احساس جاگا جسے فی الوقت وہ کوئی نام نہ دے سکا۔۔۔ آج سے پہلے تو ایسا نہیں ہوا تھا پھر آج اسے دیکھ کر ایسی فیلنگ کیوں ہو رہی تھی۔۔۔ کیا یہ اس پاکیزہ رشتے کی وجہ سے تھا۔۔۔۔
سفید ڈوپٹے کے حالے میں اسکا دمکتہ چہرا کتنا پر نور لگ رہا تھا۔۔۔۔
اپنی سوچوں سے گھبرا کر اس نے باصفا کو آواز دی۔۔۔۔
سنو۔۔۔۔
باصفا نے کسی کے بلانے پہ آنکھیں کھولیں اور اشعر کو سامنے دیکھ فوراً کھڑی ہوئی۔۔۔۔
جی؟؟؟؟
وہ آج شام کو میرے کچھ دوستوں نے ہمارے نکاح کی پاڑتی رکھی ہے تو شام کو تیار رہنا۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔۔
اسکا بخار مزید تیز ہو گیا۔۔۔۔ جس پہ تائی آمی نے زبردستی دوا کھلا دی۔۔۔۔
تائی آمی مجھے شام کو جانا بھی ہے اگر دوا کھا لی تو میں سو جاؤں گی۔۔۔ اور پھر آنکھ نہیں کھلے گی۔۔۔۔
اس نے بہت احتجاج کیا۔۔۔ مگر تائی آمی نے اسے وقت پہ جگانے کا کہ کر دوا کھلا کر ہی دم لیا۔۔۔۔
وہ ڈر رہی تھی اگر وہ تیار نہ ہوئی تو اشعر سے یقیناً ڈانٹ پڑے گی۔۔۔۔
اور پھر ہوا وہی وہ دوا کھا کر سو گئی۔۔ کچھ رات بھی ٹھیک سے نہیں سوئی تھی تو جلد ہی گہری نیند میں چلی گئی۔۔۔
اسکی آنکھ کسی کے جھنجھوڑنے پہ کھلی۔۔۔ اس نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے کھڑے اشعر کو دیکھا۔۔۔ جو قہر برساتی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔۔۔ تمہیں سونے کے علاوہ بھی کوئی کام آتا ہے۔۔ صبح کیا کہ کر گیا تھا میں۔۔۔۔
اشعر جو کہ اسے لیجانے آیا تھا۔۔۔ مگر باصفا کو یوں سوتا دیکھ کر اس پہ چڑھ دوڑا۔۔۔ پہلے ہی دیر ہو رہی ہے اور یہ محترمہ بڑے مزے سے سو رہی ہیں۔۔۔
تمہارے پاس صرف دس منٹ ہیں اگر تم دس منٹ میں باہر نہ آئی نہ تو پھر دیکھنا۔۔۔
اور باصفا پورے دس منٹ بعد اشعر سے سامنے تھی۔۔۔۔
اشعر بلیک شلوار قمیض جس کے گلے پہ نفیس سا سلور تلے کا کام تھا۔۔۔ اور ساتھ میں بلیک ہی ویسکٹ پہنے بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔
جبکہ باصفا بھی بلیک ڈریس جس پہ وایٹ نگینوں کا کام تھا۔۔۔ اسکے ساتھ ڈایمنڈ جیولری پہنے ہلکے سے میک آپ میں بھی بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔۔
بخار کی وجہ سے آنکھوں میں سرخ ڈورے اسکے حسن کو اور بھی دوآتشہ بنا رہے تھے۔۔۔ اشعر دم بخود سا کتنے ہی لمحے اسے دیکھتا رہا۔۔۔ جانے کنبخت دل کو بھی کیا ہو گیا تھا۔۔۔ اسے دیکھ کر عجیب انداز میں دھڑکنے لگتا۔۔۔ باصفا اسے مسلسل اپنی طرف دیکھتا پا کر کافی کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔ آخر جب وہ یوں ہی تکتا رہا تو مجبوراً با صفا کو ہی بولنا پڑا۔۔۔
چلیں؟؟؟؟
اور پھر وہ دونوں اجازت لینے شائستہ بیگم کے پاس گئے۔۔۔ آمی ہم جا رہے ہیں۔۔۔۔
شائستہ بیگم نے اپنے دونوں بچوں کی نظر اتاری جو ایک ساتھ کتنے پیارے لگ رہے تھے۔۔۔
اللہ تم دونوں کی جوڈی سلامت رکھے۔۔۔۔
اور وہ ان سے دعایئں لیتے جانے کے لیے باہر آئے۔۔۔ باصفا نے جھٹ نقب کیا جو اس نے گھر سے نکالے جانے کے بعد ہی کرنا شروع کیا تھا اور پورچ کی طرف بڑھی جہاں اشعر اس کے لیے فرنٹ ڈور کھوکے کھڑا تھا۔۔۔
وہ اسے اسطرح نقاب میں دیکھ کر کافی حیران ہوا۔۔۔ اسے باصفا کا خود کو ڈھانپنا بہت اچھا لگا۔۔۔۔
پارٹی چونکہ انکے نکاح کے آنر میں تھی تو مین فوکس وہ دونوں ہی تھے۔۔۔۔
وہاں بہت سے لوگ موجود تھے باصفا اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر کافی کنفیوز ہو رہی تھی۔۔۔ اس واقعے کے بعد تو اس میں جو تھوڑا بہت اعتماد تھا وہ بھی ختم ہو چکا تھا۔۔ جانے کتنے عرصے بعد وہ اس طرح کی کسی گیدرنگ میں آئی تھی۔۔۔ گو کہ اس نے ڈوپٹے سے اچھی طرح خود کو ڈھانپ رکھا تھا مگر اسے پھر بھی لگ رہا تھا جیسے وہ ننگے سر سب کے بھیچ کھڑی ہے۔۔۔ اور یہاں موجود ہر شخص اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہو۔۔۔۔
وہ کوشش کر رہی تھی اشعر کے ساتھ ساتھ رہے مگر کب تک۔۔۔ آخر اشعر اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور وہ فریحہ(ولی کی فیانسی) کے ساتھ کورنر والی ٹیبل پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔
فریحہ بہت ہی باتونی لڑکی تھی۔۔ یا باصفا کم بولتی تھی اس لیے اسے ہر کوئی ہی باتونی لگتا تھا۔۔۔ وہ ہی بول رہی تھی اور وہ بس ہوں ہاں میں ہی جواب دے رہی تھی۔۔۔ اب وہ پچھتا رہی تھی کہ کیوں اس لڑکی کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔ جس کے سوال و جواب ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔
اللہ اللہ کر کے کھانا لگا اور باصفا نے شکر کیا کہ کچھ دیر ہی سہی اس لڑکی سے جان تو چھوٹے گی۔۔۔ مگر وہ کھانا ڈال کر پھر سے اسکے پاس آ گئی۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کو سر ڈھانپے دیکھ اشعر کو بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔۔ وہ جگہ جگہ پھرنے والا مرد تھا اسے مورڈنیزم کے نام پہ جسموں کی نمائش کرتی کڑکیاں بہت بری لگتی تھیں۔۔۔ اس نے اپنی شریکِ حیات کے لیے ایسی لڑکی ہی چاہی تھی۔۔۔ اسکا ماننا تھا عورت کی اصل خوبصورتی پردے میں ہی ہے۔۔۔ مگر آجکل کی جنریشن عریاں لباس پہن کہ مردوں کی داد وصول کرنے کو خوبصورتی گردانتی ہے۔۔۔۔ وہاں موجود مردوں کی نظروں میں اسکی بیوی کے لیے عزت تھی ہوس نہیں۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آہم۔۔۔۔ آہم۔۔۔۔۔ یقین جانو آج تو پورے مجنوں لگ رہے ہو بس لیلیٰ لیلیٰ پکارنے کی کسر باقی ہے۔۔۔ ولی جو کب سے اشعر کو نوٹ کر رہا تھا جس کی نظریں باصفا کا ہی طواف کر رہی تھیں آخر اسے چھیڑتے ہوئے بولا۔۔۔۔ وہ دونوں بھی کھانا ڈال کے سب سے الگ کھڑے تھے۔۔۔
بکواس نہیں کر۔۔۔ وہ تو بس باصفا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔ بات کرتے کرتے اسنے باصفا کی جانب دیکھا مگر اسکی زرد رنگت دیکھ کر بات منہ میں ہی رہ گئی۔۔۔
اشعر نے فوراً باصفا کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں انسپکٹر دانیال کھڑا کسی سے فون پہ بات کر رہا تھا۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آئی کہ باصفا انسپکٹر دانیال کو دیکھ کر یوں زرد کیوں پڑھ گئی ہے۔۔۔
وہ فوراً باصفا کی جانب آیا جسکے ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے۔۔۔
باصفا۔۔، باصفا۔۔ کیا ہوا تم ٹھیک ہو۔۔۔
باصفا اشعر کو دیکھ کر فوراً اسکے سینے میں چھپ گئی۔۔۔
اش۔ اشعر۔۔۔۔ اشعر مجھے بچا لیں ۔۔ وہ۔۔۔ وہ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔۔۔۔ پلیز اشعر مجھے بچا لیں۔۔۔
کون کہاں لے جائے گا ہوا کیا ہے؟؟؟ آخر کچھ پتہ بھی تو چلے۔۔۔۔
وہ۔۔۔ اس نے اس جگہ اشارہ کیا جہاں کچھ دیر پہلے دانیال کھڑا تھا۔۔
وہ وہ وہاں تھا میں نے خود دیکھا تھا۔۔۔۔ وہ جانے بے ربط سا کیا بولے جو رہی تھی اشعر سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔
اب سب لوگ انکی جانب متوجہ ہونے لگے تھے۔۔۔۔
اشعر تم انہیں لے کر گاڑی میں جاؤ اور وہاں اطمینان سے پوچھو۔۔۔۔۔
ولی نے سب کی توجہ ان کی جانب دیکھ کر اشعر سے کہا۔۔۔
وہ اسے لیے گاڑی میں آ گیا۔۔۔
ہاں اب بولو تم دانیال کو کیسے جانتی ہو اور اسے دیکھ کر گھبرا کیوں گئی۔۔۔۔
اشعر وہ جنہوں نے مجھے کڈنیپ کیا تھا وہاں یہ بھی تھا۔۔۔ میں نے خود دیکھا تھا اسے وہاں۔۔۔۔
اب اشعر کو ساری بات سمجھ میں آ گئی تھی۔۔۔۔
اشعر۔۔۔ اشعر۔۔۔ انہوں نے مجھے آپ کے ساتھ دیکھ لیا ہے یہ لوگ مجھے پھر سے لے جائیں گے۔۔۔ پلیز مجھے ان سے بچا لیں۔۔۔ وہ کسی خوفزدہ بچے کی طرح اسکے سینے میں چھپی ہوئی تھی۔۔۔۔
باصفا۔۔۔ ریلیکس۔۔۔ جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا۔۔۔ سو گھبراؤ نہیں۔۔۔
تم یہں رکو میں آتا ہوں۔۔۔ آ۔۔۔ آپ کہاں جا رہے ہیں۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑ کر مت جائیں۔۔۔۔
اشعر جو کہ ولی کے پاس جا رہا تھا باصفا کی کنڈیشن دیکھ کر جانے کا ارادہ ترک کرکے اسے کال کر کے اپنے پاس ہی بلا لیا۔۔۔
ولی ہم جا رہے ہیں تم یہاں سب ہینڈل کر لینا۔۔۔ اوکے۔۔۔۔
تم فکر نہ کرو بھابی کو لے کر جاؤ گھر۔۔ میں سب ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔
باصفا کی کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے اشعر نے اسے نیند کی گولی کھلا دی تھی اور پھر کافی دیر تک اسکے پاس بیٹھا رہا۔۔۔۔ وہ نیند میں بھی کافی مضطرب لگ رہی تھی۔۔۔ وہ اسکی حالت سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔
وہ اس وقت اتنے ذہنی دباؤ میں تھی کہ اسے چینج کرنے کا بھی ہوش نہیں تھا۔۔۔۔۔
اشعر نے اسکی جیولری اتری کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی پھر اسکی نظر باصفا کی نگینوں سے بھری شرٹ پہ پڑی۔۔۔ وہ بغیر کچھ سوچے اٹھا
صفا کی وارڈروب سے سادہ شرٹ نکالی لائٹ آف کر کے نائٹ بلب جلایا اور اسے پہنا دی۔۔۔۔ پھر اس پہ جھکا اور اسکے ماتھے پہ بوسہ دیتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
وہ نہیں جانتا تھا نکاح کے دو بول میں اتنی طاقت ہوتی ہے۔۔۔۔ جو دو اجنبیوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لے آتی ہے۔۔۔
صبح جب باصفا کی آنکھ کھلی تو اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی اپنی جیولری دیکھی۔۔۔۔ جہاں تک اسے یاد تھا وہ تو ایسے ہی سو گئی تھی۔۔۔ اس نے اپنی شرٹ دیکھی وہ بھی چینجڈ تھی۔۔ تو کیا اشعر نے۔۔۔ یہ سوچ ہی اسے شرم سے پانی پانی کر گئی۔۔۔۔ اف میں بھی نہ۔۔۔۔
وہ واشروم سے باہر آئی تو اشعر کو اپنا منتظر پایا۔۔۔
اسلامُ علیکم۔۔۔ اس سے آہستہ آواز میں سلام کیا۔۔
وَعلیکم السلام۔۔۔ کیسی طبیعت ہے اب؟؟؟؟
جی ٹھیک۔۔۔۔ اسکی نظریں مسلسل نیچی ہی تھیں۔۔۔ مارے شرمندگی کے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔۔۔
البتہ اشعر اسکی حالت سے کافی محفوظ ہو رہا تھا۔۔۔۔
آپ پلیز بیٹھ جائیں مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔
جی۔۔۔
دیکھیں آپ مجھے کڈنیپنگ سے لے کر ساری تفصیل دوبارہ سے بتائیں۔۔۔
اور باصفا نے اسے شروع سے سب بتا دیا۔۔۔۔
رستہ یاد ہے آپ کو؟؟؟
نہیں رستہ تو مجھے نہیں یاد کیوں کہ میں اس شہر سے ناواقف ہوں۔۔۔
ہوں۔۔۔ کوئی نشانی وغیرہ۔۔ یا بل بورڈ یا ایسی کوئی اور نشانی۔۔۔ اور پھر جو جو نشانی اسے یاد تھی اس نے وہ سب اشعر کو بتا دی۔۔۔۔
چونکہ تب اسکی آنکھوں پہ پٹی نہیں بندھی تھی۔۔ اور وہ جگہ کو پہچاننے کی کوشش بھی کر رہی تھی تو اس نے وہاں موجود چیزوں کو کافی غور سے دیکھا تھا۔۔۔۔
اور جو اس نے بتایا تھا اشعر کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔۔۔۔
اب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ریڈ کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔ اس ریڈ میں اسنے صرف ان لوگوں کو ہی شامل کیا تھا جس پہ اسے پورا بھروسہ تھا۔۔۔۔
وہ پچھلے چند دن سے بہت مصروف تھا تو دوبارہ باصفا کی خیریت معلوم نہ کر سکا۔۔۔ آج دوپہر میں ہی گھر آ گیا تھا تو سوچا پہلے باصفا سے مل لے اس نے ادھر اُدھر دیکھا مگر وہ نظر نہ آئی تو کچن میں چلا آیا۔۔۔ بھابی وہ باصفا کدھر ہے۔۔۔۔
ہائے میرے کان تو نہیں بج رہے کہیں۔۔۔ اشعر اور باصفا کا پوچھ رہا ہے۔۔۔
ہاں تو بیوی ہے میری اسکا نہیں پوچھوں گا تو کس کا پوچھوں گا۔۔۔۔
وہ بھی ڈھٹائی سے بولا۔۔۔
خیر ہے جناب۔۔۔ یہ اینگری ینگ مین لوّر مین کب سے بن گیا۔۔۔ اوہوووو بھابی آپ رہنے دیں میں خود ہی دیکھ لیتا ہوں۔۔۔۔
اچھا اچھا میرے سڑیل دیور روم میں اپنے وہ۔۔۔
شکریہ پیاری بھابی جی۔۔۔۔۔ وہ جل کر بولا۔۔۔۔
وہ ناک کر کے اندر آیا تو دیکھا باصفا بیڈ کراؤن سے ہی ٹیک لگائے سو رہی تھی۔۔۔
وہ واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا اس کی نظر نیچے گری ڈائری پہ پڑی۔۔۔ جو یقیناً باصفا کے ہاتھ سے ہی گری تھی۔۔۔۔
اسنے آگے بڑھ کے جیسے ہی ڈائری اٹھائی اس میں سے چند تصویریں نیچھے گریں۔۔۔ اشعر وہ تصویریں اٹھا کر دیکھنے لگا۔۔۔ جس میں موجود باصفا اب کی باصفا سے بالکل مختلف لگ رہی تھی۔۔۔۔ وہ تو کوئی اور ہی شوخ و چنچل سی لڑکی لگ رہی تھی۔۔۔ اس کے ساتھ یقیناً چچا ، چچی تھے۔۔۔ جب سے باصفا یہاں آئی تھی اسے نہیں یاد پڑتا اس نے باصفا کو بے فکری سے قہقہ لگا کر ہنستے دیکھا ہو۔۔۔ جیسا کہ اس عمر میں اکثر لڑکیاں ہوتی ہیں باصفا ویسی ہر گز نہیں تھی۔۔۔وہ بہت سنجیدہ اور کچھ خوفزدہ سی تھی۔۔۔ اس نے اسے مسکراتے بھی کم ہی دیکھا تھا۔۔۔۔
اپنی بیوی کو جاننے کے تجسس میں اس نے وہ ڈائری پڑھنی شروع کر دی۔۔۔۔ چونکہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی جو کہ اشعر زندگی میں پہلی دفعہ کر رہا تھا۔۔۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا یہ حرکت اسے بہت مہنگی پڑنے والی ہے۔۔۔۔
شروع کے چند صفحات میں شعرو شائری تھی۔۔۔ مگر آگے باصفا کی زندگی کی کہانی تھی۔۔۔
جیسے جیسے اشعر ڈائری پڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ اسکا چہرہ غصے سے لال ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
پیارے ریڈرز آپ کی بھر پور فرمائش پہ آپ سب کے لیے سرپرائیزنگ ایپیسوڈ۔۔۔ اب دوبارہ یہ مت کہنا ایک بھی سرپرائز نہیں دیا۔۔۔
آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا
کُچھ دن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش
پھریوں ہُوا کہ خُود مِرا چہرا بدل گیا
جب اپنے اپنے حال پہ ہم تم نہ رہ سکے
تو کیا ہوا جو ہم سے زمانہ بدل گیا
قدموں تلے جو ریت بچھی تھی وہ چل پڑی
اُس نے چھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا!
اِک سر خوشی کی موج نے کیسا کیا کمال!
وہ بے نیاز، سارے کا سارا بدل گیا
اٹھ کر چلا گیا کوئی وقفے کے درمیاں
پردہ اُٹھا تو سارا تماشا بدل گیا
حیرت سے سارے لفظ اُسے دیکھتے رہے
باتوں میں اپنی بات کو کیسا بدل گیا
کہنے کو ایک صحن میں دیوار ہی بنی
گھر کی فضا، مکان کو نقشہ بدل گیا
شاید وفا کے کھیل سے اُکتا گیا تھا وہ
منزل کے پاس آکے جو رستہ بدل گیا
قائم کسی بھی حال پہ دُنیا نہیں رہی
تعبیرکھو گئی، کبھی سَپنا بدل گیا
منظر کا رنگ اصل میں سایا تھا رنگ کا
جس نے اُسے جدھر سے بھی دیکھا بدل گیا
اندر کے موسموں کی خبر اُس کی ہوگئی!
اُس نو بہارِ ناز کا چہرا بدل گیا
آنکھوں میں جتنے اشک تھے جگنو سے بن گئے
وہ مُسکرایا اور مری دُنیا بدل گیا
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھو نڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
باصفا کی آنکھ کھلی تو اپنے سامنے کھڑے اشعر کو دیکھ کر حیران ہوتی اٹھی مگر اسکے ہاتھ میں موجود ڈائیری دیکھ کر وہیں ساکت ہو گئی۔۔۔۔ باصفا کو اسکی سرخ انگارہ آنکھوں سے بے انتہا خوف آیا۔۔۔۔۔ اس کے اندر کی کیفیت اسکے چہرے سے صاف عیاں تھی۔۔۔۔
آآآآہ تو نزاع کا وقت آن پہنچا تھا۔۔۔ ابھی چند لمحوں میں اسکی دنیا پھر سے تہہ و بالا ہونے والی تھی۔۔۔۔
وہ اپنے خشک ہلک کو تر کرتی بولی۔۔۔۔
اش۔۔ اشعر۔۔۔۔ وہ۔۔۔ الفاظوں نے بھی ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔
What the hell is this????
وہ اسکی ڈائیری دور اچھالتے ہوئے بولا۔۔۔۔
کیا ہے یہ؟؟؟؟
بولو۔۔۔۔ جواب دو۔۔۔
وہ اسے دونوں بازؤں سے پکڑے جھنجوڑ رہا تھا جبکہ گرفت اتنی سخت تھی کہ باصفا کو اسکی انگلیاں اپنے جسم میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
اشعر۔۔۔ بے اختیار اسکے منہ سے کراہ نکلی۔۔۔
مگر اس پہ کسی بھی چیز کا کوئی اثر نہیں تھا۔۔۔ اس لمحے وہ یہ بھی بھالا بیٹھا تھا کہ یہ وہ ہی لڑکی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔۔۔ یا اسے اس سب سے اتنی تکلیف ہی اس لیے ہوئی تھی کہ وہ ایک بد کردار لڑکی سے محبت کر بیٹھا تھا۔۔۔
اتنا بڑا دھوکہ۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس پردے کے پیچھے اتنا مکروہ چہرہ چھپا ہو گا۔۔۔
اشعر میری بات تو سنیں۔۔ اسنے اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہا مگر وہ تو جیسے کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھا۔۔۔
کیا سنوں ہاں؟؟؟ بے غیرت مرد کی طرح یہاں بیٹھ کر اپنی بیوی کے معشوقی کے قصے سنوں۔۔۔ نہیں باصفا بی بی اتنا بے غیرت نہیں ہوں میں۔۔۔۔
جانے کس کس کے ساتھ منہ کالا کیا ہو گا۔۔۔
اور باصفا کو لگا جیسے دھڑام سے پوری عمارت اسکے سر پہ آن گری ہو۔۔۔ الفاظ تھے یا چابک جو وہ پے در پے مار رہا تھا۔۔۔۔ اور وہ درد کی شدت سے بلبلا بھی نہ سکی۔۔ کیوں کہ یہ چابک اسکے جسم کو نہیں بلکہ روح کو گھایل کر رہے تھے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکالوں بہتر ہو گا خود ہی یہاں سے چلی جاؤ۔۔۔
کنتا اذیت ناک ہوتا ہے نہ وہ لمحہ جب آپکو صفائی کا موقع دیے بغیر ہی سزا سنا دی جاتی ہے۔۔۔۔
اور باصفا کی زندگی میں یہ لمحہ دوسری دفعہ آیا تھا۔۔۔۔
وہ اس کی ذات کے پرخچے اڑا کر جا چکا تھا۔۔۔ اور وہ وہیں بیٹھی سوچ رہی تھی کیا اسکی خطا اتنی بڑی تھی۔۔۔
مرد ہر طرح کی عیاشی کر سکتا ہے مگر عورت کا ایک غلط قدم اسکی ساری زندگی تہہ و بالا کر دیتا ہے۔۔۔ عورت کو اس مقام پہ لانے والا بھی ایک مرد ہی تھا۔۔۔ اوراسے تعنہ دے کر چھوڑ جانے والا بھی مرد ہی تھا۔۔۔۔
اچانک باصفا کو اس کمرے سے اس گھر سے گھٹن ہونے لگی۔۔۔ اور وہ بغیر سوچے سمجھے اُس کمرے سے اور پھر اُس گھر سے بھی نکل آئی۔۔۔ اس وقت اسے نہ اپنے حلیے کا ہوش تھا اور نہ ہی بادشاہ خان کا۔۔۔ گھر سے نکل کر وہ قریبی پارک میں آ گئی۔۔۔ اور قدرے سنسان گوشے میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔
کچھ دیر خوب رو لینے کے بعد اب اسے آگے کی فکر ہونے لگی۔۔۔۔
اففف۔۔۔ اب کیا ہو گا۔۔۔ میں کہاں جاؤں گی۔۔۔؟؟؟؟ وہ ہی دو سوال جنکے جواب ڈھوڈتے جانے کتنا عرصہ ہو گیا تھا مگر جواب نہ مل سکا۔۔۔ اس سے پہلے کہ اشعر سب کے سامنے ذلیل کر کے نکالے مجھے خود ہی یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔۔ سب کے ہوتے ہوئے بھی اس بھری دنیا میں بالکل تنہا ہو گئی ہوں۔۔۔ ایک کے بعد ایک آزمائش اور ہر آزمائش پہلے سے بھی زیادہ کڑی۔۔۔ اب تو دل چاہ رہا ہے خود کو ہی ختم کر ڈالوں ایک ہی دفعہ جان چھوٹے۔۔۔۔
اففف یہ میں کیا سوچے جا رہی ہوں خود کشی کرنا اللہ کو کتنا نا پسندیدہ عمل ہے اور میں اس بارے میں سوچ بھی کیسے سکتی ہوں میں کیسے اپنے خالق کو ناراض کر سکتی ہوں۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔۔ اللہ جی پلیز معاف کر دیں میں نے ایسا سوچا بھی۔۔ سوری آئندہ کبھی ایسا سوچوں گی بھی نہیں۔۔۔۔
وہ خود سے ہی بیٹھی الجھ رہی تھی۔۔۔ وہاں کیا ہو رہا ہے اس سے بے خبراپنے ہی سوچوں کے گرداب میں پھنسی تھی۔۔۔
کیسے وہ میرے کردار کے پرخچے اڑا گیا اور میں کھڑی سنتی رہی منہ کیوں نہ توڑ دیا میں نے اس ڈریگن کا۔۔۔ جسے آگ اگلنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں ہے۔۔۔ اب اسے خود پہ ہی غصہ آ رہا تھا۔۔۔
نہیں رکھتا تو نہ رکھے جس اللہ نے اب تک میری مدد کی ہے آگے بھی کرے گا۔۔۔۔ تم مرد جانے خود کو سمجھتے کیا ہو اب مجھے بھی کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں اب مزید کسی کو خود کو ایکسپلوئٹ کرنے کا موقع نہیں دوں گی۔۔۔ اس مردوں کے معاشرے میں خوش و خرم جی کر دکھاؤں گی۔۔۔۔ وہ مسمم ارادہ کر چکی تھی۔۔۔
وہ جس وقت یہاں آئی تھی دوپہر ڈھل رہی تھی۔۔۔ سردیوں کے دن تھے تو شام کے سائے بھی جلد ہی ہر سوں پھیل رہے تھے۔۔۔
ٹھنڈ لگنے سے اسے احساس ہوا کہ کتنا وقت ہو گیا ہے یہاں بیٹھے۔۔۔ رات کے سائے ہر سو پھیل چکے تھے اور پارک بھی تقریباً خالی ہو گیا تھا۔۔۔۔ جیسے ہی وہ جانے کے ارادے سے اٹھنے لگی کسی نے پیچھے سے اسکی ناک کے قریب رومال کیا۔۔۔ اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشعر نے غصے میں باصفا کو اتنا کچھ کہ تو دیا تھا۔۔۔ مگر اب اسے اپنے الفاظ کے سخت ہونے کا اندازہ ہو رہا تھا۔۔۔۔ اسے باصفا کو اپنی صفائی میں بولنے کا ایک موقع تو دینا چاہیے تھا نہ۔۔۔ اب جب اس نے ٹھنڈے دماغ سے ڈائیری میں لکھے باتوں پہ غور کیا تو اسے باصفا بے قصور ہی لگ رہی تھی۔۔۔ وہ اب اسکی بیوی تھی اسکی عزت۔۔۔۔ کیسے اسنے اسے جانے کا کہ دیا اگر وہ سچ میں چلی گئی تو؟؟؟؟
نہیں وہ اس وقت کہاں جائے گی یہں ہی ہو گی۔۔۔
اپنی سوچوں کو جھٹکتے توجہ کیس کی جانب کی۔۔۔۔ اور اٹھ کر میٹنگ روم کی طرف بڑھا۔۔۔ انہوں نے دو دن بعد ریڈ کرنی تھی اور اس وقت کیس پہ توجہ دینا زیادہ ضروری تھا۔۔۔
وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ڈسکشن کر رہا تھا جب پیون نے اسے اطلاع دی کہ حیدر صاحب نے اپنے پاس بلایا ہے۔۔ وہ حیران تو بہت ہوا جانے ایسی کون سی ضروری بات تھی جو ابو نے اس وقت بلایا وہ جانتے بھی ہیں ہم ڈسکشن کر رہے ہیں پھر بھی۔۔۔ وہ یہ سب سوچتا حیدر صاحب کے پاس گیا۔۔۔
جی ابو آپ نے بلایا۔۔۔ سب خیریت تو ہے نہ۔۔۔۔
وہ انہیں پریشان دیکھ کر ٹھٹکا۔۔۔
اشعر وہ تمہاری آمی کا فون آیا تھا باصفا گھرپہ نہیں ہے۔۔۔ دوپہر کو ملازمہ نے اسے باہر جاتے دیکھا اس کے بعد وہ گھر نہیں آئی۔۔۔
کیا؟؟؟؟
مطلب وہ سچ میں چلی گئی۔۔۔ اووہ گاڈ۔۔۔ بے وقوف لڑکی یہ کیا کِیا۔۔۔
ابو اسے کسی نے باہر جانے ہی کیوں دیا۔۔۔
بیٹا یہ سب چھوڑو رات ہو گئی ہے پتہ کرواؤ اسکا وہ تو یہاں کے رستوں سے بھی ناواقف ہے جانے کہاں ہو گی۔۔۔
ابو آپ پریشان نہ ہوں میں کرتا ہوں کچھ۔۔۔
اشعر واپس میٹنگ روم کی طرف بڑھا اور اشعر کو باہر بلایا۔۔۔
کیا ہوا اشعر سب خیریت تو ہے نہ پریشان لگ رہے ہو۔۔۔۔
ہاں ولی وہ باصفا۔۔۔ باصفا پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے۔۔۔
اتنے میں اشعر کا سیل وائیبریٹ ہوا۔۔۔ دیکھا تو بادشاہ خان کا فون تھا۔۔۔ وہ اس وقت باصفا کو لے کر پہلے ہی پریشان تھا۔۔۔۔ اوپر سے بادشاہ خان کا فون۔۔۔۔ اشعر نے اگنور کر دیا اس وقت اسکے پاس بادشاہ خان کی بکواس سننے کا وقت نہیں تھا۔۔۔۔
مگر پھر اشعر کے دماغ میں کچھ کلک ہوا اس نے فوراً کال پک کی۔۔۔
ہاں بھئی شہزادے کیسے ہو۔۔۔ ارے شہزادہ ٹھیک کیسے ہو گا شہزادے کی شہزادی تو ہمارے پاس ہے۔۔۔۔ بادشاہ خان مقرہ ہنسی ہنستے بولا۔۔۔
بادشاہ خان مرد بنو مرد۔۔ کیوں ہجڑوں والی حرکتیں کر کے اپنی مردانگی کو مشقوق کرتے ہو۔۔۔ اشعر دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔ بادشاہ خان سے اس قسم کی حرکت کی توقع کی جا سکتی تھی۔۔۔
بکواس مت کرو اشعر۔۔ کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچ لینا تمہاری بیوی میرے پاس ہے۔۔۔ اپنی مردانگی کا ایسا ثبوت دوں گا نہ کہ ساری زندگی یاد کرو گے۔۔۔
بادشاہ خان اگر کسی نے اسے غلط نگاہ سے دیکھا بھی نہ تو اشعر حیدر اسکی آنکھیں نوچ لے گا۔۔۔۔ وہ دھاڑا تھا۔۔۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا بادشاہ خان کا منہ نوچ لے۔۔۔
آواز نیچی رکھو۔۔۔ میں نے صرف یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا اگر اپنی بیوی صحیح سلامت واپس چاہتے ہو تو کل فائل بھجواؤں گا سائن کر دینا۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔۔۔۔
ولی جو پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا اندازہ تو اسے بھی ہو گیا تھا کہ بادشاہ خآن کیا کہ رہا ہے۔۔۔
اشعر اب کیا کرنا ہے؟؟؟؟
ہم آج رات ہی ریڈ کریں گے تیاری کرو۔۔۔
لیکن اشعر۔۔۔۔
ولی ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔ اگر باصفا کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔
اچھا اچھا ریلیکس تم ایک دفعہ انکل سے بھی مشورہ کر لو۔۔۔
ہوں ٹھیک ہے۔۔۔
حیدر صاحب نے بھی سب سن کے اشعر کے فیصلے کو درست کہا تھا۔۔۔۔
اب انہوں نے رات کے اس پہر ان کافروں پہ حملہ کرنا تھا جس پہر وہ بے خبری کی نیند میں ہوتے ہیں۔۔۔۔
بے شک ہمارے نبی نے ہمارے لیے بہت سے کام آسان بنا دیے ہیں۔۔۔ اگر ہم سنتِ نبوی پہ عمل کریں تو دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ٹھہریں۔۔۔
انہوں نے رینجرز کی بھاری نفری کو اپنے ساتھ لیا جو سب اپنے کام میں ماہر تھے۔۔۔ اور پھر سب کام باآسانی ہو گیا۔۔۔ بادشاہ خان اور اس کے ساتھی پکڑے گئے اور ساتھ میں ان سے اسلحہ بھی برامد کیا جا چکا تھا۔۔۔
باصفا بھی ایک کمرے میں کرسی کے ساتھ بندھی مل گئی تھی۔۔ مگر وہ شاید خوف کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔ اشعر اسے لیے فوراً ہوسپٹل کی جانب دوڑا۔۔۔
باصفا کو جب ہوش آیا تو سب اسکے پاس موجود تھے جس میں اس کا بھائی بھی تھا۔۔۔۔
حمزہ کو دیکھ کر اسے کیا کچھ یاد نہیں آیا تھا۔۔۔۔ اذیت کا ہر وہ لمحہ۔۔۔۔
کیسی ہو باصفا۔۔۔۔
کیا بتاؤں بھائی آپ کی بہن کیسی ہے۔۔۔ جو بظاہر تو بالکل ٹھیک ہے مگر کبھی اس کے اندر جھانکنے کی کوشش کریں تو آپ شاید یہ پوچھنے کا حوصلہ ہی نہ کر سکیں کہ "کیسی ہو باصفا۔۔۔۔"
اگر آپ نے ہی میری روح چھلنی نہ کی ہوتی تو آج شاید میں سچ میں ٹھیک ہوتی۔۔۔ مگر قصور آپ کا بھی نہیں تھا۔۔۔ غلطی تو میری تھی جس کی سزا بھگتنی تھی۔۔۔۔
مگر بولی تو بس اتنا "ٹھیک ہوں۔۔۔۔"
اشعر اسکی آنکھوں میں موجود اذیت کو محسوس کر سکتا تھا۔۔اسے اندازہ تھا باصفا بے قصور ہے اور حمزہ کی زبانی ساری روداد سن کر اب اسے اپنے الفاظ پہ بہت شرمندگی ہو رہی تھی۔۔ کیا کچھ نہیں کہ دیا تھا اس نے باصفا کو۔۔۔ آخر اس میں اور حمزہ میں کیا فرق ہوا۔۔۔ وہ بھی اسکی حفاظت نہیں کر سکا۔۔۔ جانے اس نازک سی لڑکی نے اکیلے اتنا سب کیسے سہا ہو گا۔۔ اور وہ بجائے اس کی دیوار بننے کے اسکے سر سے چھت چھین رہا تھا ۔۔۔۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر باصفا کی طبیعت کے پیشِ نظر ابھی خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔۔۔ مگو وہ نہیں جانتا تھا یہ خاموشی اسے مہنگی پڑنے والی تھی۔۔ اور وہ اسے منانے کا موقع دیے بغیر ہی چھوڑ کر جانے والی ہے۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلے دن اسے ڈسچارج کر دیا تھا۔۔۔ حمزہ نے بھی اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگ لی تھی۔۔۔۔
انہیں یہ سب حیا سے ہی معلوم ہوا تھا۔۔۔ حیا سے ان کی ملاقات یوکے میں ہی ہوئی تھی۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حمزہ ہاتھ جوڑے باصفا کے سامنے موجود تھے۔۔ مجھے معاف کر دو باصفا میں نے تمہارے ساتھ بہت غلط کیا۔۔ مجھے تم پہ بھروسہ کرنا چاہیے تھا۔۔۔ مگر میں نے حرم کی باتوں میں آکر تمہارے ساتھ بہت زیادتی کر دی۔۔۔ وہ اس واقعے سے پہلے بھی مجھے تمہارے بارے میں ہر وقت کچھ نہ کچھ غلط کہتی رہتی اور میں بجائے اس کا منہ توڑنے کے بےغیرت بنا سب سنتا رہا۔۔۔
اس دن میں نے غصہ میں تمہیں گھر سے نکل جانے کو کہا ضرور تھا۔۔ مگر پھر مجھے اپنی غلطی کا جو احساس ہوا اسے بھی حرم کی باتوں نے اپنے آپ مار دیا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
حرم مجھے باصفا کو اس طرح نہیں نکالنا چاہیے تھا۔۔۔
ارے بالکل ٹھیک کیا آپ نے۔۔۔ آج ایک کے ساتھ سامنے آئی ہے کل نہ جانے اور کون کون اسکا
عاشق نکلے گا۔۔۔
حرم میری بہن ایسی ہر گز نہیں ہے۔۔۔
اپنی آنکھوں سے سب دیکھ کر بھی آپ یہ کہ رہے ہیں۔۔۔ ارے جب سب کو اس کے کرتوت پتہ چلیں گے تب سوچیں کیا ہو گا۔۔۔ ہماری عزت تو مل گئی نہ خاک میں۔۔۔
ارے میں تو سوچ رہی ہوں خالہ کو کیا جواب دوں گی۔۔۔
تم ان سے باصفا کے متعلق کچھ نہیں کہوں گی بس کہ دینا باصفا کو ابھی آگے پڑھنا ہے۔۔۔
نہ وہ یہ نا کہیں گے پہلے باصفا کو نہیں پڑھنا تھا۔۔۔ چلو انہیں تو میں سنبھال لوں گی۔۔ جو باقی پڑوس والے ہیں انہیں کیا جواب دیں گے۔۔۔
میں تو کہتی ہوں اپنے دوست کی آفر قبول کریں اور نکلیں یہاں سے۔۔۔
مگر حرم میں باصفا کو یہاں اکیلے چھوڑ کر کیسے چلا جاؤں۔۔۔
ارے وہ تو چلی گئی ہمارے منہ پہ کالک مل کے اس نے سوچا ہمارا جو آپ کو بہن سے زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے۔۔۔۔
اور پھر ایسے ہی باتیں کر کر کے بلآخر اس نے حمزہ کو منا ہی لیا۔۔۔ اور اسے فوراً ہی یوکے جانا پڑا۔۔۔ کہ اگر وہ اب نہ جاتا تو یہ موقع اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یقین جانو باصفا اگر مجھے پتہ چل جاتا تم بعد میں بھی آئی تھی تو میں تمہیں کبھی واپس نہ جانے دیتا۔۔۔ آمی ابو تمہاری ذمہ داری مجھے سونپ کر گئے تھے اور میں اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکا۔۔۔۔ ان کو کیا جواب دوں گا میں باصفا۔۔۔
جب سے انہوں سے اشعر کی زبانی باصفا کے ساتھ گھر سے نکالے جانے کے بعد کی روداد سنی تھی انہیں مزید پپچھتاؤں نے گھیر لیا تھا۔۔۔
بھائی جو کچھ ہوا اس میں آپ کا کیا قصور میری قسمت میں سب ہونا لکھا تھا۔۔۔ لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔۔۔
تم نے مجھے معاف کیا نہ باصفا۔۔۔
بھائی میں نے آپ کے لیے اپنے دل میں کبھی کوئی میل نہیں رکھا۔۔ پھر بھی آپ کی تسلی کے لیے کہتی ہوں میں نے آپ کو معاف کیا۔۔۔
بہت شکریہ۔۔۔۔ اور انہوں نے اسے گلے لگا کر خوب پیار کیا۔۔۔
باصفا ایک ریکویسٹ کروں تم سے مانو گی؟؟؟
میں وعدہ نہیں کر سکتی اگر میرے بس میں ہوا تو ضرور۔۔۔
باصفا میں ایک دفعہ پھر خود غرض بن رہا ہوں مگر کیا کروں مجبور ہوں۔۔۔
وہ سوالیہ نظروں سے حمزہ کی طرف دیکھ رہی تھی جو اتنی بات کہ کر باقی بات کہنے کی ہمت مجتمہ کر رہا تھا۔۔۔
باصفا میں حرم کی طرف سے بھی تم سے معافی مانگتا ہوں ہو سکے تو اسے بھی معاف کر دینا۔۔
باصفا اسے بھی احساس ہوگیا ہے اس نے تمہارے ساتھ غلط کیا ہے۔۔۔ وہ اس حالت میں ہے کہ اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتی۔۔۔ اور جب سے اسے پتہ چلا ہے کہ بیٹی ہے۔۔۔ وہ اپنے کیے پہ بہت پچھتاتی ہے باصفا۔۔۔ میں اگر آج یہاں ہوں تو اسکی وجہ سے ہی ورنہ شاید میں تمہارا سامنا کرنے کا حوصلہ کبھی نہ کر پاتا۔۔۔ پلیز باصفا اسے معاف کر دو۔۔۔۔
انسان کتنا خودغرض ہوتا ہے نہ۔۔۔۔ دوسرے کی بہن بیٹی کے ساتھ کچھ کرتے ذرا رحم نہیں آتا۔۔۔ مگر جب بات خود کی بہن بیٹی کی آئے تو کیسے تڑپتا ہے۔۔۔۔
بھائی میں نے انہیں بھی معاف کیا۔۔۔۔ مجھے آپ دونوں سے کوئی گلہ نہیں ہے۔۔۔۔
وہ اسے ڈھیر ساری دعائیں دیتے چلے گئے۔۔۔