ڈرائیور اور فصی کا بھی یہ ہی حال تھا۔۔۔ دونوں مار کھا کھا کر بےحال تھے۔۔ مگر جاننتے وہ بھی کچھ نہ تھے۔۔
۔۔۔۔۔
اشعر نے ان تینوں کے متعلق معلومات اکھٹی نکر لیں تھیں۔۔۔
فصی چھوٹے موٹے جرائم میں ملوس تھا۔۔ مگر بحرحال بادشاہ سے ان تینوں کا کوئی تعلق نہیں نکلتا تھا۔۔۔ اور اس بات کی تصدیق بادشاہ خان کی فون کال نے بھی کر دی تھی۔۔۔
وہ اور ولی بیٹھے ان کوگوں کی ہسٹری فائیل ہی دیکھ رہے تھے کہ بادشاہ خان کی کال آئی۔۔۔
ہیلو۔۔۔
ہاں بھئی شہزادے کتنی معلومات دی ان لوگوں نے میرے متعلق۔۔ہاہاہاہا۔۔۔۔ بادشاہ خان کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ہے اشعر حیدر۔۔ ویسے یار مان گئے تمہیں اتنی قیامت چیز بھیجی تھی مگر تم۔۔۔۔
کیا تم نے یہی سب بکواس کرنے کیلیے فون کیا ہے۔۔۔
ہاہاہا یہ بکواس تھوڑی ہے۔۔۔ ویسے ابھی تک اس آفت کی پڑیا کو اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے۔۔ کب چھڑ رہے ہو اسے۔۔۔ تم نہیں تو ہم ہی کچھ۔۔۔۔
اشعر اس کی بات کاٹ کر بولا۔۔۔ بکواس بند کرو اپنی مجھے تمہاری اس گھٹیا گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس لیے فون رکھ رہا ہوں۔۔۔ آئیندہ اگر کوئی کام کی بات ہو تو ہی فون کرنا۔۔ اللہ حافظ۔۔۔۔
بادشاہ خان کی اس قسم کی گھٹیا گفتگو پہ اس کا خون کھول اٹھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
دو دن بعد باصفا کو ہوش آیا تھا۔۔۔
تشدد کے نشان ابھی بھی اسکے جسم پہ موجود تھے۔۔۔
پیاس کی ششدت سے گلا خشک ہو رہا تھا۔ اپنے چکراتے سر کو تھامتے اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔۔۔ اتنے میں نرس اندر آئی جس نے اٹھنے میں مدد دی۔ اور پانی پلایا۔۔ اور ڈاکٹر کو بلانے چل دی۔۔۔
Hows you feeling now???
fine..
وہ دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔
اتنے میں حیدر جہانگیر اندر آئے۔۔۔ انہیں دیکھتے ہی باصفا کی رنگت پیلی پڑھ گئی۔۔۔۔
کیا اب یہ دوبارہ مجھے ساتھ لے جائیں گے۔۔۔ وہ تششد یاد آتے ہی وہ ہواس باختہ سی بولی۔۔۔
میں دوبارہ جیل نہیں جاؤں گی۔۔میں سچ میں نہیں جانتی وہ لوگ کون ہیں۔میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔آپ پلیز میرا یقین کریں۔۔مجھے جیل نہیں جانا۔۔۔
ریلیکس بیٹا میں آپ کو جیل لیجانے نہیں آیا۔۔۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔
ہاں میں جان گیا ہوں آپ بے گناہ ہو۔۔ سو اب آپ ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔جیسے ہی آپ ٹھیک ہو جاؤ گی آپ جا سکتی ہو۔۔۔
باصفا نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔
میں چلتا ہوں اب آپ ریسٹ کرو۔۔۔
انکے جانے کچھ دیر بعد وہ بھی نیند کی وادی میں چلی گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔
حیدر صاحب کو اب اسکے ٹھیک ہونے کا انتظار تھا۔۔ وہ جلد از جلد اسے اسکے گھر والوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے۔۔۔ اتنے دن سے وہ لاپتہ تھی جانے اسکے گھر والے اسے کہاں کہاں تلاش کر رہے ہوں گے۔۔۔ اور پھر بادشاہ خان کی گھٹیا گفتگو بھی اشعر انہیں بتا چکا تھا جس کی وجہ سے وہ مزید پریشان ہو گئے تھے۔۔۔
جانے باصفا انہیں اپنی اپنی سی کیوں لگی تھی۔۔ وہ ایک نرم دل انسان ضرور تھے مگر اس لڑکی کیلیے وہ کچھ زیادہ ہی پوزیسو ہو رہے تھے اسکی شہد رنگ آنکھیں انہیں کسی بہت اپنے کی لگی تھیں۔۔ پھر وہ خود ہی اپنے خیالات کوجھٹکتے بولے۔۔۔اللہ نہ کرے یہ وہی ہو۔۔
میں بھی بھلا کیا سوچے جا رہا ہوں وہ یہاں کیسے ہو سکتی ہے۔۔۔ وہ جہں بھی ہوں اللہ انہیں اپنے حفظ و امن میں رکھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
دوبارہ جب اسکی آنکھ کھلی تو شام ہو چکی تھی۔۔۔ اب باصفا کو آگے کی فکر ہو رہی تھی۔۔ وہ تو بالکل خالی ہاتھ تھی۔۔ اب وہ یہاں سے کہاں جائے گی۔۔۔ انجانہ شہر تھا۔۔ اگر وہ پھر بادشاہ خان کے ہاتھ لگ گئی تو؟؟؟؟
کتنے ہی سوالیہ نشان تھے جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔
وہ اپنی انہیں سوچوں مین گم تھی کہ حیدر جہانگیر روم میں داخل ہوئے۔۔۔
اس نے چونک کر آنے والے کو دیکھا۔۔۔
کیسی طبیعت ہے بیٹا اب آپ کی۔۔۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ میں اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔
ہمممم گڈ۔۔۔ تو اب آپ گھر جانے کے قابل ہیں۔۔۔
کہ، کیا میں رات یہاں رک سکتی ہوں پلیز۔۔ میں صبح ہوتے ہی چلی جاؤں گی۔۔۔ وہ جانے کے نام پہ گھبرا گئی۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپ رات یہاں رک سکتی ہیں۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اپنے گھر والوں کا ایڈریس دیں تاکہ میں انہیں مطلع کر سکوں۔۔۔
گھر والے، ایڈریس۔۔۔وہ عجیب سے انداز میں بولی۔۔۔
لگتا ہے یہ ابھی بھی شارک میں ہی ہے۔۔۔حیدر صاحب کو اسکی ذہنی حالت ٹھیک نہیں لگی۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے گھر لیجانے کا فیصلہ کیا۔ تا کہ اسکی حالت سنبھلنے پہ اسے اسکے گھر والوں کے حوالے کریں۔۔۔ ابھی وہ ایسی حآلت میں نہیں تھی۔۔۔
لڑکی کا معاملہ تھا اس حالت میں اسکے گھر والے کیا سمجھتے۔۔ وہ اسے مزید سنبھلنے کا موقع دینا چاہتے تھے۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھ کر باہر آئے اور اپنے گھر فون کرکے شائستہ بیگم کو ساری صورتِ حال سمجھائی اور انہیں کپڑے لیکر ہوسپٹل آنے کو کہا۔۔۔
وہ حیرت سے اپنے سامنے کھڑی اس نفیس سی خاتون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
بیٹا یہ میری مسز ہیں ہم آپکو اپنے ساتھ اپنے گھر لے کر جانا چاہتے ہیں اگر آپکو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔۔۔
جی۔۔۔ آپ کے گھر مگر میں آپکے گھرکیسے جا سکتی ہوں۔۔۔ وہ گھبرا کر بولی۔۔۔
بیٹآ گھبراؤ نہیں۔۔۔ مجھے اپنے ابو کی طرح ہی سمجھو۔۔ تم ہمارے گھر بالکل محفوظ ہو۔۔۔
حیدر صاحب اسکی گھبراہٹ سمجھ سکتے تھے۔۔۔
شائستہ بیگم نے بھی اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر نرمی سے سمجھایا۔۔۔ باصفا کے پاس اور کوئی آپشن بھی تو نہیں تھا۔۔ وہ اس وقت پوری طرح سے انکے رحم و کرم پہ تھی۔۔۔
ویسے بھی اس حالت میں وہ اور جاتی بھی تو کہاں۔۔۔ سو وہ انکے ساتھ انکے گھر
چلی آئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جانے اور کیا کیا دیکھنا باقی ہے۔۔۔ اسکی ایک چھوٹی سی خطا اسے کہاں سے کہاں لے آئی تھی۔۔ اب جانے یہاں سے کہاں جانا تھا۔۔۔
اے قسمت تیری مہربانی کہ ہم کہاں سے کہاں چلے آئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انھیں گھر پہنچتے رات ہو گئی تھی۔ وہ جھجکتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئی جہاں سب لوگ انہیں کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
وہ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔۔
ارے گھبراؤ نہیں آؤ میں سب سے تمہارا تعارف کرواتی ہوں۔۔۔
حیدار صاحب کے تین بیٹے تھے۔۔۔ بڑآ کاشان جو کہ بزنس میں تھا، اس سے چھوٹا اشعر جو پولیس میں تھا۔ اور سب سے چھوٹا زید جو کہ ڈاکٹر تھا۔۔۔
اس کے علاوہ انوشے جو کہ کاشان کی بیوی تھی۔۔اور انکا دو سالہ بیٹا عدن۔۔۔
سب ہی اس سے بہت محبت سے ملے۔۔۔ وہ ان سادہ دل لوگوں کی دل سے معترف تھی جو اتنے بڑے عہدوں پہ فائز ہونے کے باوجود کتنے سادہ اور اچھے تھے۔۔۔ ان سے پہلی دفعہ ملنے پہ بھی یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سب ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہوں۔۔۔ اتنے ملنسار لوگ اس نے پہلی دفعہ دیکھے تھے۔۔۔
کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔۔ سوائے اشعر کے اسکی ملاوقات باقی سب سے ہو گئی تھی۔۔۔
صبح حسبِ معمول اسکی آنکھ فجر کی آذان پہ کھل گئی تھی۔۔ نماز پڑھنے کے بعد وہ باہر آ کر گھر کا جائزہ لینے لگی۔۔۔
حیدر ولا بہت ہی خوبصرت تھا۔۔۔ کسی محل جیسا۔۔۔ سب سے خبصورت حصہ اسے لان کا لگا تھا جہاں رنگ بھرنگے پھولوں میں جیسمین کی حسین کلیاں بھی تھے۔۔۔۔ اسے جیسمین کی خوشبو بے حد پسند تھی۔۔۔۔ لان کے ایک حصے میں بہت ہی خوبصورت فاؤنٹین بھی تھا۔۔۔ جسکا پانی صاف شفاف تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
انوشے بہت ہی فرینڈلی نیچر کی تھی جلد ہی باصفا کی اس سے دوستی ہو گئی۔۔۔ سارا دن بہت اچھا گزر گیا۔۔۔ اتنے اچھے ماحول میں اسکی حالت بھی جلد سنبھل گئی۔۔۔رات کھانے کے بعد اسے نیند نہیں آ رہی تھی تو وہ لان میں آ گئی اورنرم گھاس پہ چہل قدمی کرتے آگے کے بارے میں سوچنے لگی۔۔۔
اسے سب لوگ بہت اچھے لگے تھے یہاں اس کی عزت بھی محفوظ تھی۔۔۔ آنٹی اتنی اچھے دل کی ہیں اگر میں انہیں سچ بتا کر یہاں رہنے کی درخواست کروں تو کیا وہ مجھے یہاں رکھ لیں گی۔۔۔ ماشااللہ سے اتنا بڑا گھر ہے کام والی بنا کر ہی رکھ لیں۔۔۔ اگر ان لوگوں نے نہ رکھا تو؟؟؟؟
وہ اپنے ہی خیالوں میں گم مڑی تھی کہ کسی سے بہت بری طرح سے ٹکرا گئی۔۔۔
اشعر جو کہ ابھی ابھی گھر آیا تھا اس وقت کسی کو گھاس پہ ٹہلتے دیکھ سیدھا ادھر ہی آ گیا کیونکہ ان کے گھر میں اس وقت تو کوئی بھی باہر نہیں آتا تھا تو پھر یہ کون تھا۔۔۔
وہ ابھی قریب پہنچا ہی تھا کہ سامنے والا وجود یک دم مڑا اور اس سے ٹکرا گیا۔۔۔ اس سے پہلے کہ باصفا گرتی اشعر نے بروقت اس تھام کر گرنے سے بچایا۔۔۔
مڑنے سے اسکے چہرے پہ لایٹ پڑی جس سے اسکا چہرہ واضح ہوا۔۔۔
وہ جو اس افتاد پہ بوکھلا گئی تھی ٹکرانے والے کو دیکھ اور بھی ہواس باختہ ہو گئی۔۔۔
آ۔۔۔آپ۔۔۔۔
تم۔۔۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟ وہ اسے خشنگیںن نظروں سے گھر رہا تھا۔۔۔
جہ۔۔۔جہ۔۔۔جی۔۔۔ میں۔۔۔ میں وہ۔۔۔۔ گھبراہٹ کے مارے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کیا بولے۔۔۔ اس نے تو کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا دوبارہ اس شخص سے سامنا ہو گا۔۔۔ اس دن کا سارا واقعہ پھر سے آنکھوں کے سامنے آ گیا۔۔۔ اور جو اسکا حلیہ تھا۔۔۔
صاف، صاف بتاؤ اب یہاں کس مقصد سے آئی ہو۔۔۔؟؟؟
مہ۔۔ میں۔۔۔میں۔۔۔ خود نہیں آئی۔۔ وہ۔۔ وہ سر لے کر آئے تھے۔۔۔ قسم سے میں تو جانتی بھی نہیں یہ۔۔۔ یہ آپ کا گھر ہے۔۔۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنی بات ختم کی۔۔۔ جن نظروں وہ اسے دیکھ رہا تھا اچھے بھلے بندے کا اعتماد ہوا ہو جائے وہ تو پھر پہلے سے ہی گھبرائی ہوئی تھی۔۔۔
اشعر کا تو یہ سن کر پارہ ہائی ہو گیا۔۔ ابو ایسے کیسے کسی کو بھی اٹھا کر گھر لا سکتے ہیں۔۔ اس کے ساتھ نرمی کرنا اور بات تھی کجا اسکو گھر لا بیٹھایا حد ہو گئی۔۔۔ وہ غصے سے کھولتا سیدھا حیدار صاحب کے پاس گیا۔۔۔
ابو آپ اس تھرڈ کلاس لڑکی کو کیسے گھر لا سکتے ہیں۔۔ جانے اب یہاں کس نیت سے آئی ہے۔۔۔ آپ سب جانتے ہیں پھر بھی۔۔۔
اشعر یہ بات کرنے کا کونسا طریقہ ہے۔۔۔اور میں سب جانتا ہوں اسی لیے ہی لایا ہوں اسے۔۔۔
بیٹھو۔۔۔ انہوں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پیار سے سمجھانے لگے۔۔۔
دیکھو بیٹا وہ اس وقت ایسی حالت میں نہیں تھی کہ ہم اسے تنہا چھوڈ دیتے۔۔۔ تم نے خود ہی تو ساری معلومات اکھٹی کی تھیں۔۔ وہ اس شہر کی نہیں ہے تو اکیلے کہاں جاتی۔۔ اور پھر وہ بادشاہ خان اللہ نہ کرے اگر پھر سے اس کے ہاتھ لگ جاتی تو۔۔۔ لڑکی ذات ہے اور پھر اتنے عرصے سے لاپتہ ہے ایسے میں گھر والے جانے کیسا سلوک کریں ہم ا سے مل کے انہیں خود ساری بات بتائیں گے تو یہ اس لڑکی کیلیے بھی بہتر ہو گا تم سمجھ رہے ہو نہ میری بات۔۔۔۔
جی ابو۔۔۔
ہر کام جوش سے کرنے والا نہیں ہوتا اشعر۔۔۔ کتنی دفعہ سمجھاؤں تمہیں۔۔۔
میں کیا کروں ابو خود ہی غصہ آ جاتا ہے۔۔۔
اور حیدر صاحب اس کے انداز پہ بے اختیار مسکرا دیے۔۔۔ اور پھر اس سے اس کیس کے متعلق پوچھنے لگے جس سلسلے میں وہ شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔۔۔
پہلے تو اس نے سوچا تھا آنٹی کو سب سچ بتا کر ان سے ان کے ہاں رہنے کی بھیک مانگ لے گی۔۔ مگر اشعر کو دیکھنے کے بعد اس نے اپنا ارادہ بدل لیا۔۔۔۔
" صبح انکل کے جانے کے بعد میں بھی یہاں سے چلی جاؤں گی۔۔۔ اس سے پہلے وہ مجھ سے دوبارہ سے گھر والوں کے مطعلق پوچھیں مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔۔۔۔ مگر میں جاؤں گی کہاں۔۔۔ کہیں بھی جاؤں مگر یہاں نہیں رہوں گی۔۔اففف کیسے گھور رہا تھا مجھے جانے کیا سوچ رہا ہو گا میرے بارے میں۔۔۔" خود سے باتیں کرنے کی عادت تو بہت پرانی ہو چکی تھی۔۔۔ باصفا کے خیال کے مطابق خود سے بہتر اور کوئی سامع ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔
خود سے اچھی طرح باتیں کر لینے کے بعد وہ عشاء کی نماز ادا کرنے اٹھ گئی۔۔۔ اور اپنے رب سے مدد طلب کی۔۔۔ بے شک وہ سب سے بڑا مددگار ہے۔۔
اگلی صبح سب کے جانے کے بعد وہ بھی جانے کی اجازت لینے شائستہ بیگم کے پاس آئی۔۔۔
آنٹی اب میں پہلے سے کافی بہتر ہوں۔۔ تو میں جانے کی اجازت چاہوں گی۔۔۔ آپ سب نے مشکل وقت میں میرا بہت ساتھ دیا۔۔۔ میں جتنا شکریہ ادا کروں کم ہے۔۔۔ میں ہمیشہ آپ کی احسان مند رہوں گی۔۔۔
پہلی بات بیٹا ہم نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔۔۔اس لیے ایسا کہ کر ہمیں شرمندہ مت کرو۔۔۔ ارے نہیں نہیں آنٹی میرا وہ مطلب نہیں تھا میں تو۔۔۔ وہ اور بھی کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔۔۔۔ اور دوسری بات میں تمہیں جانے کی اجازت نہیں دوں گی۔۔۔ رات کو تمہارے انکل آئیں گے انھی سے پوچھنا۔۔۔ لیکن آنٹی میں۔۔۔۔ بس کہ دیا نہ تم ابھی کہیں نہیں جا رہی۔۔۔ ان کے مان بھرے انداز پہ اسے رکنا پڑا۔۔۔
مگر اب اسے انکل کے پوچھے جانے والے سوالوں سے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے بارے میں انہیں کیا بتائے گی۔۔۔
اللہ جی ہلیز ہیلپ می۔۔۔ وہ اپنے ہونٹ کاٹ کر رہ گئی۔۔۔
رات کھانے کے بعد انکل نے اسے اسٹدی میں بلایا۔۔۔
وہ ناک کر کے اندر آئی۔۔۔
انکل آپ نے مجھے بلایا۔۔۔
وہ جانتی تو تھی ہی انہوں نے کیوں بلایا ہے۔۔
ہاں بیٹا آؤ بیٹھو۔۔۔ انہوں نے اسے پاس پڑی چئیر پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔۔۔۔
بیٹا آپ کی آنٹی بتا رہی تھیں کہ آپ جانا چاہتی ہو۔۔۔ انہوں نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
جی وہ اب میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں تو اب جانے کی اجازت چاہتی ہوں۔۔۔
ہاں ماشااللہ سے اب تو ہماری بیٹی پہلے سے ٹھیک لگ رہی ہے۔۔۔ تو بیٹا آپ مجھے کسی ریلیٹو کا کوئی کونٹیکٹ نمبر دیں میں ان سے بات کر کے آپ کو خود انکے حوالے کروں گا۔۔۔
وہ چند لمحے خاموش رہی پھر ہمت کر کے بولی۔۔۔
میرا کوئی ریلیٹو نہیں ہے۔۔۔
کیا مطلب کوئی تو ہو گا اپ کے فادر یا مدر کے کوئی بہن بھائی کزن کوئی تو ہو گا۔۔۔
وہ پھر خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔۔۔ نروسنس اسکے ہر ہر انداز سے ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔ جسے حیدر صاحب نے بھی نوٹ کیا تھا
کیا بات ہے باصفا آپ اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔۔۔ جو بات ہے کھل کر کہیں۔۔۔۔ اس کے انداز پہ اب حیدا صاحب بھی پریشان ہو گئے تھے۔۔۔
اب باصفا کے پاس سچ بولنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔ وہ اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرتی بولی۔۔۔۔
وہ۔۔ دراصل انکل میرے پاپا نے مما سے لو میرج کی تھی۔۔ جسکی وجہ سے ان کے گھر والوں نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا اور پھر کبھی ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔۔۔ ان کی ڈیتھ کے بعد میں اور بھائی ہی تھے۔۔ حمزہ بھائی کو یو-کے میں بہت اچھی جاب آفر ہوئی وہ وہاں چلے گئے اور میں ہوسٹل میں۔۔۔ اس لیے اب میرا یہاں کوئی نہیں ہے۔۔۔ وہ ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔۔۔
تمہارے فادر کا پورا نام کیا ہے۔۔۔ وہ بمشکل بول پا رہے تھے۔۔۔۔ دل انجانے خوف سے لرزا۔۔۔
رحمان جہانگیر۔۔۔
اور مدر شگفتہ حسن۔۔۔ حیدر صاحب نے استفسار کیا۔۔۔
جی۔۔۔
اور حمزہ۔۔۔ میرا حمزہ۔۔۔ جانتی وہ چار سال کا تھا جب میں نے اسے پہلی دفعہ دیکھا تھا اور آخری دفعہ بھی۔۔۔ وہ شاکڈ سی انکی باتیں سن رہی تھی۔۔۔
تمھاری آنکھیں بالکل رحمان جیسی ہیں۔۔۔ میں جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا مجھے تب ہی لگا تھا مگر پھر میں نے اپنے خیال کو جھٹلا دیا کہ تم بھلا کیسے ہو سکتی ہو۔۔۔ مگر مجھے ٹھیک لگا تھا یہ تم ہی تھی میرے رحمان کی بیٹی۔۔ میری بیٹی۔۔۔ وہ بے ربط سا بول رہے تھے۔۔۔
آپ کیا کہ رہے ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔۔ وہ حیرت زدہ ہی بولی۔۔۔
بیٹا میں تمھارا تایا ہوں رحمان کا بھائی۔۔۔ رحمان مجھے بالکل اپنے بیٹوں کی طرح ہی تھا۔۔۔
رحمان صاحب کی بات بچپن سے ہی شائستہ کی بہن سے طے تھی۔۔۔ مگر انہوں نے اپنی کلاس کی لڑکی شگفتہ سے شادی کر لی تھی۔۔۔ حیدر صاحب نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔۔ان کے لیے اپنی زبان سے مکرنہ بہت شرمندگی کی بات تھی۔۔۔ اس لیے غصہ میں آ کر رحما صاحب کو گھر سے نکال دیا اور ان سے تمام تعلق توڑ دیے۔۔۔
وہ کافی دفعہ آتے رہے بھائی سے معافی مانگنے مگر انہوں نے معاف نہ کیا۔۔۔۔ شائستہ کا دل بھی بہت تڑپتا تھا آخر بیٹا سمجھتی تھی انہیں مگر حیدر صاحب نے کسی کی نہ سنی۔۔۔۔ آخری بار رحمان چار سالہ حمزہ کو بھی ساتھ لائے کہ بھائی کا دل پگھل جائے مگر ناکام ہی لوٹ گئے۔۔۔پھر اس کے بعد انہوں نے دوبارہ ادھر کا رخ نہ کیا۔۔۔ اور زندگی کی مشکلات میں گم ہو گئے۔۔۔
پچھلے چار سال سے حیدر صاحب کسی کو بھی بتائے بغیر رحمان کو ڈھونڈ رہے تھے مگر وہ انہیں کہیں نہ ملے۔۔۔۔
میرارڑحمان مجھ سے ملے بغیر ہی اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ کتنا بد بخت ہوں نہ میں اپنے بھائی کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔۔۔ وہ مجھ سے روٹھا ہی اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹی میں۔۔۔انہوں نے آگے بڑھ کر باصفا کو سینے سے لگانا چاہا مگر وہ انکے ہاتھ جھٹکی انکی بات کاٹتے بولی۔۔۔
آپ نے ہمارے ساتھ بہت غلط کیا میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔ آپ نے بابا کو تو سزا دی ہمیں بھی اپنوں سے، انکی محبت سے دور رکھا۔۔۔ کیا پسند کی شادی کرنا اتنا بڑا گناہ تھا جسکی آپ نے انہیں اتنی بڑی سزا دی۔۔۔ آپ ہم سب کے گنہگار ہیں جس کے لیے میں اپکو معاف نہیں کروں گی۔۔۔ وہ روتے ہوئے وہاں سے جانے کیلیے دروازے کی جانب بڑھی۔۔۔ مگر دروازہ کھولتے ہی سامنے کاشان بھائی کو کھڑے پایا۔۔۔
کیا ہوا باصفا تم اس طرح کیوں رو رہی ہو۔۔۔ کاشان جو کہ حیدر صآحب سے بات کرنے آئے تھے وہ اسے اس طرح روتا دیکھ پریشان ہو گئے۔۔۔ مگر وہ کوئی جواب دیے بنا وہاں سے چلی گئی۔۔۔ وہ حیران سے اندر کی جانب بڑھے مگر اندر کا منظر اور بھی جان لیوہ تھا۔۔۔حیدر صاحب اپنے بائیں جانب دل پہ ہاتھ رکھے ڈھے سے گئے تھے۔۔۔ کاشان فوراً انکی طرف لپکا۔۔۔
ابو، ابو کیا ہوا آپ کو۔۔۔۔ ابو۔۔۔
مگر جواب ندارد۔۔ وہ انکی خراب حالت دیکھ کر فوراً انہیں لیے ہوسپٹل دوڑے۔۔۔حیدر صاحب کو اٹیک ہوا تھا۔۔۔۔ مگر اٹیک زیادہ سوئر نہیں تھا۔۔۔ دو دن بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔۔ باصفا نے انکا بہت خیال رکھا وہ اس سب کے لیے خود کو قصور وار سمجھ رہی تھی۔۔۔ اسے ان سے اس طریقے سے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔۔۔ بعد میں اس نے اپنے رویے کی معافی بھی مانگی تھی۔۔۔
وہ ان کے لیے سوپ بنا کر لائی تھی۔۔۔ جب انہوں نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ باصفا مجھے حمزہ کا نمبر دو میں ذرا اس کے کان کھینچوں اتنا لا پرواہ ہو گیا کہ اکیلی بہن کو چھوڑ کے پردیس چلا گیا۔۔۔
جی۔۔۔ جی حمزہ بھائی کا نمبر۔۔۔۔ اسے اس سب کی توقع نہیں تھی اس لیے گھبرا گئی۔۔۔ اور سوچنے لگی کیا جواب دے۔۔۔
ہاں اس کا نمبر تو ہو گا ہی نہ تمہارے پاس جس سے وہ بات کرتا تھا۔۔۔
آں۔۔۔ ہاں۔۔۔ جی فون کرتے تھے نا بھائی۔۔۔ مگر نمبر تو میرے فون میں تھا اور وہ تو گم ہو گیا۔۔۔ اب انتا لبما نمبر تھا زبانی یاد نہیں ہے۔۔۔ جھوٹ بولتے جیسے بچوں کی زبان لڑکھڑاتی ہے ویسے اسکی بھی لڑکھڑائی تھی۔۔ مگر وہ بچی نہیں تھی نہ سو قابو پا گئی۔۔۔
جیسے ہی انکی حالت سنبھلی اس نے جانے کی اجازت مانگی۔۔۔ اب وہ ہمیشہ کے لیے تھوڑی نہ یہاں رہ سکتی تھی۔۔۔
مگر اسکی بات سنتے ہی حیدر صاحب غصے سے بولے۔۔۔۔ کہیں نہیں جا رہی تم میں ہر گز تمہیں یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔۔ اور ہوسٹل تو بالکل بھی نہیں۔۔ پہلے نتیجہ بھگت چکے ہیں۔۔ اللہ نہ کرے اگر کچھ ہو جاتا تو۔۔۔ میرے پاس اس حمزہ کا نمبر نہیں ہے ورنہ اسکی ایسی خبر لیتا کہ ساری عمر یاد رکھتا۔۔۔ لو بھلا اکیلی لڑکی کو چھوڑ گیا یہاں۔۔۔ نہیں تایا ابو وہ تو لیجانہ چاہتے تھے مگر میں نے ہی انکار کر دیا۔۔ مجھے اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرنی تھی۔۔۔
ارے تم تو بچی ہو وہ کوئی بچہ تھوڑی ہے۔۔۔ جو تمہاری بات مان کر چھوڑ گیا اکیلی۔۔۔ اسے کیا پتہ نہیں ہے یہاں کے ہوسٹلز کا۔۔انکا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔ اس وقت وہاں شائستہ، انوشے، باصفا اور حیدر صاحب ہی تھے۔۔۔
اور خبر دار جو دوبارا جانے کا نام لیا تو۔۔۔
اگر تایا ابو کو پتہ چل جائے میں ہوسٹل کیسے پہنچی تو کیا سوچیں گے میرے بارے میں۔۔۔ انہوں نے تو ابو کو نکال دیا تھا تو کیا مجھ جیسی لڑکی کو رکھیں گے؟؟؟ یقیناً یہ لوگ بھی بھائی کی طرح مجھے نکال باہر کریں گے۔۔۔۔
یا اللہ میرا بھرم رکھنا۔۔۔ مجھے یہ چھت دے کر مجھ سے چھیننیے گا مت اللہ پلیز۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اسے یہاں آئے دو ماہ ہو گئے تھے۔۔۔ وہ سب کے ساتھ بہت گھل مل گئی تھی۔۔۔ سب اسکا بہت خیال رکھتے۔۔۔ اس نے بھی خود کو جلد ہی ایڈجسٹ کر لیا تھا۔۔۔ اسے کھانا بنانا نہیں آتا تھاا۔۔۔ تائی آمی اتنا مزے کا کھانا بناتی تھیں تو اس نےان سے فرمائیش کی کہ اسے بھی سکھا دیں۔۔۔ یہ شاید خود کو فضول سوچوں سے بچانے کی لاشعوری کوشش تھی۔۔۔
وہ اس کام بالکل اناڑی تھی اس لیے اسے بہت مشکل ہوئی مگر آہستہ آہستہ بناتےاب وہ کافی بہتر ہو گئی تھی۔۔۔اس کی مما کے ہاتھوں میں بہت ذائقہ تھا جو کہ اسکے ہاتھوں میں بھی تھا۔۔۔ چانکہ اس نے پہلے کبھی کچھ بنایا ہی نہیں تھا تو اسے اندازہ نہین تھا وہ اتنا اچھا کھانا بنا سکتی ہے۔۔۔۔
کچن کا کام انوشے اور شائستہ بیگم ہی سنبھالتی تھیں جب سے باصفا نے کوکنگ سیکھی تھی اس نے شایستہ کی ذمہ داری اپنے سر لی لی تھی انہوں نے بھت احتجاج کیا مگر ان دونوں نے انکی ایک نہ سنی آخر انہیں مانتے ہی بنی۔۔۔
آج بھی وہ کچن میں کھانا بنانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔ انوشے چونکہ اپنے میکے گئی ہوئی تھی تو سب باصفا کو اکیلے ہی کرنا تھا۔۔۔
باصفا۔۔
جی تائی آمی۔۔۔
بیٹا یہ کپڑے ذرا اشعر کی الماری میں تو رکھ آؤ۔۔ ابھی آتا ہی ہو گا۔۔ اس نے جانا ہے کہیں اگر الماری میں کپڑے نہ ملے تو سارا گھر سر پہ اٹا لے گا۔۔۔
جی تائی آمی میں؟؟؟؟ اس نے انگلی اپنی طرف کر کے پوچھا۔۔۔
بیٹا انوشے ہے نہیں اور میرے گھٹنوں میں درد ہے سیڑھیاں نہیں چڑھا جائے گا۔۔۔
تائی آمی آپ کسی مازم سے کہ دیں نہ۔۔۔ اگر انہوں نے مجھے اپنے روم میں دیکھ لیا تو بہت غصہ کریں گے۔۔۔مجھے بہت ڈر لگتا ہے ان سے۔۔۔ اتنے عرصے میں اس کے غصے سے تو وہ واقف ہو ہی گئی تھی۔۔۔
اس کی بات سنتے شائستہ بیگم ہنس دیں۔۔۔ ارے بیٹا کچھ نہیں ہوتا ابھی وہ کونسا گھر پہ ہے۔۔۔۔ کسی اور کو بھیجا اگر کوئی چیز ادھر اُدھر ہو گئی تو پھر چلائے گا۔۔۔۔ تم ذرا احتیاط سے رکھ آؤ گی۔۔۔
دیکھ لیں تائی آمی۔۔۔ پکا نہ کچھ نہیں ہو گا نہ۔۔۔ وہ ابھی بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔۔
ہاں نہ کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔
اور وہ کپڑے لیے اوپر آ گئی۔۔۔ کپڑے رکھ کر ابھی وہ مڑی ہی تھی کہ اپنے بالکل پیچھے کھڑے اشعر کو دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔ جس بات سے ڈر رہی تھی وہ ہی ہوا تھا۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔ وہ اپنی بھاری رعبدار آواز میں بولا۔۔۔ اسکی آواز میں ایسا رعب ہوتا سامنے والا تو ویسے ہی گھبرا جاتا۔۔۔
میں۔۔ میں اپکے کپڑے رکھنے آئی تھی۔۔۔
مگر وہ اپنی شکی نظریں اس پہ گاڑے بولا۔۔۔ کیا تم اپنی آمد کا اصل مقصد بتاؤ گی۔۔۔
کیا مطلب ہے آپکا میں آپکے روم میں چوری کرنے آئی ہوں۔۔۔ وہ چڑ کر بولی۔۔۔
ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم یہاں کسی پلین کے تحت آئی ہو۔۔۔
مطلب وہ ابھی تک اسے مشقوق ہی سمجھ رہا تھا۔۔۔
اففف ایک تو یہ پولیس والے۔۔۔۔
آپ کو میری بات پہ یقین نہیں ہے تو آپ تائی آمی سے پوچھ لیں انہوں نے ہی بھیجا ہے مجھے۔۔
آئیندہ مجھے تم یہاں نظر نہ آؤ سمجھی وہ انگلی اُٹھائے اسے اسے وارن کر رہا تھا۔۔۔ اب کھڑی کیا ہو نکلو یہاں سے۔۔
اور باصفا تو موقع ملتے ہی وہاں سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوئی۔۔
ہونہہ سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔ جب بھی بولے گا منہ سے آگ ہی برسائے گا۔۔۔ ڈریگن نہ ہو تو۔۔۔
۔۔۔۔۔
ہیلو لیڈیز کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہ ابھی نائٹ شفٹ دے کر گھر آیا تھا۔۔۔ اور کچن میں پانی پینے آیا تھا۔۔۔
لگتا ہے ڈاکٹر صاحب کو کچھ زیادہ ہی نیند آ رہی ہے جو سامنے کی بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔ اب اس وقت کچن میں ناشتہ ہی بنا رہی ہوں گی نہ۔۔۔ انوشے بولی۔۔۔
ہائے بھابی نیند کی مت پوچھیں بہت نیند آئی وی ہے۔۔۔
زید تم تو آج کل نظر ہی نہیں آتے کہاں گم ہو؟؟؟
باصفا نے پوچھا۔۔۔ زید کے ساتھ اسکی کافئ فرینکنس ہو گئی تھی۔۔۔
بس یار آجکل ہوسپٹل میں ایمرجنسی ہے۔۔ پچھلے دنوں جو بلاسٹ ہوا تھا اسی سلسلے میں۔۔۔ اوووہ اچھا۔۔
وہ تم فارغ کب ہوں گے؟؟؟؟
کیا بات ہے سویٹ سسٹر کوئی کام ہے؟؟؟؟
ہاں۔۔ وہ مجھے ہوسٹل لے چلو گے۔۔ مجھے وہاں سے اپنا کچھ سامان لینا ہے۔۔۔
کیا۔۔۔ کیا۔۔۔ کیا۔۔۔؟؟؟؟ میں ہر گز ملتان نہیں جانے والا۔۔۔ زید میرے پیارے بھائی نہیں۔۔۔
ہر گز نہیں۔۔۔ آپ مجھے مسکے نہ ہی لگائیں۔۔۔ جو چاہیے مجھے بتاؤ میں لا دوں گا۔۔۔۔ایسا بھی کونسا سامان ہے جسے لینے تمہیں ملتان جانا ہے۔۔
ہاں باصفا زید ٹھیک کہ رہا ہے۔۔ تمہیں جو چاہیے یہیں سے لے لو۔۔۔
وہ انوشے باجی۔۔۔ میرے سامان میں مما، پاپا کی تصویریں ہیں مجھے وہ چاہیے۔۔۔ مجھے انکی بہت یاد آ رہی ہے۔۔۔ بہت ضبط کے باوجود بھی آنسو آنکھوں سے بہ نکلے۔۔۔
انوشے نے فوراً آگے بڑھ کر اسے تسلی دی۔۔۔
اچھا چڑیل لے چلوں گا اب خوش۔۔۔ اس نے اسکا موڈ ٹھیک کرنے کو شرارتی لہجے میں بولا۔۔۔اؤؤؤے یہ چڑیل کسکو بولا؟؟؟
تمہیں اور کسکو۔۔۔ وہ اطمنان سے بولا۔۔۔
تم نے مجھے چڑیل بولا رکو ذرا ابھی بتاتی ہوں تمہیں۔۔۔
اس نے پراٹھے بنانے کیلیے نکالے آٹے میں سے دونوں مٹیوں میں آٹآ بھرا اور زید کی طرف بڑھی۔۔۔
ارے ارے کڑکی یہ کیا کر رہی ہو۔۔ وہ اس کے خطرناک ارادے بھانپ کر فوراً باہر کی طرف بھاگا۔۔۔ اور باصفا بھی اسکے پیچھے دوڑی۔۔۔ اب بھاگ کہاں رہے ہو۔۔۔ مجھے چڑیل کہ رہے تھے نہ اب اس چڑیل نے تمہیں بھوت نہ بنایا تو کہنا۔۔۔ وہ آگے آگے دوڑ رہا تھا اور باصفا اس کے پیچھے۔۔۔
اچھا اچھا سوری معاف کر دو اب نہیں کہتا۔۔۔۔
باصفا نے آٹا زید کے اوپر پھینکا مگر یہ کیا آٹا آفس جانے کیلیے نک سک سے تیار کاشان بھائی پہ گرا۔۔۔ زید چونکہ برقرفتاری سے پیچھے ہٹ گیا اور سارا آٹا کاشان پہ جا گرا۔۔ جو اس آفتاد پہ بوکھلا گئے۔۔۔ انوشے اور شائستہ بیگم بھی وہاں آ گئیں اور نک سک سے تیار کاشان کو آٹے میں لیتو پیتو دیکھ سب کا مشترکہ قہقہ گونجا۔۔۔
جبکہ باصفا منہ پہ ہاتھ رکھے شاکڈ سی کھڑی تھی۔۔۔
یہ تم نے کیا کیا لڑکی۔۔۔
آئم سوری۔۔ آئم سو سوری کاشان بھائی میں تو زید پہ۔۔۔ باصفا کو لگا اب اسکی خیر نہیں۔۔۔
اوووہ نو یہ کیا ہو گیا مجھ سے۔۔۔
مگر یہ کیا کاشان بھائی بجائے غصہ کرنے کے مسکرا رہے تھے۔۔۔۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی جو اسے ڈانٹنے کی بجائے خود بھی سب کے ساتھ مل کر ہنس رہے تھے۔۔۔ اگر انکی جگہ حمزہ بھائی ہوتے تو اس حرکت پہ ایک آدھ تو لگا ہی دیتے۔۔۔ اسےوہ دن یاد آیا جب حمزہ بھائی کو چائے پکڑاتے ہوئے غلطی سے تھوڑی سی چائے ان کے کپڑوں پہ گر گئی تھی اور انہوں نے کتنا ڈانٹا تھا۔۔۔ جانے کس احساس کے تحت اسکی آنکھیں بھر آئیں۔۔۔
بعض دفعہ ہم ایسے چوراہے پہ کھڑے ہوتے ہیں جہاں سے ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔۔ مگر اللہ ااسی اندھی راہ میں سے ایسی روشن راہ ہموار کرتا ہے جو ہمیں سیدھا ہماری منزل تک لے جاتی ہے۔۔۔ جہاں اس کے پروردگار نے اسے رہنے کو محفوظ ٹھکانہ دیا تھا وہیں اتنے سارے لوگوں کا پیار بھی ملا تھا۔۔۔ وہ اپنے رب کی جتنی شکرگزار ہوتی کم تھا۔۔۔
ارے ارے باصفا پلیز رؤ مت میں جانتا ہوں تم نے جان کے نہیں کیا۔۔۔ ریلیکس چندہ۔۔۔ ۔ کاشان بھاائی شفقت سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔۔۔
تھینک یو بھائی۔۔۔
اچھا ویسے یہ تو بتاؤ یہ جنگ ہو کیوں رہی تھی؟؟؟؟
دیکھیں نہ بھائی زید نے مجھے چڑیل بولا۔۔۔ وہ بھی مان بھرے لہجے میں اترا کے بولی۔۔۔ اب اسکا بھی بھائی تھا جو اس کے لئے بازپرس کرتا۔۔۔
انسان بھی جانے کس مٹی سے بنا ہے۔۔ جو چیز اسکے پاس نہ ہو اسے اسی کی حرس ہرتی ہے۔۔۔ کسی کو دولت کی کسی کو شہرت کی اس سب کے لیے انسان اپنے بہترین رشتوں کو بھی کھو بیٹھتا ہے۔۔۔ اور جس کے پاس یہ سب ہو اسے پیار کی کمی رہتی ہے۔۔۔
کیا۔۔۔۔ چڑیل؟؟؟؟ کاشان اسکی بات پہ قہقہ لگا کہ ہنسا۔۔۔
او ہو ہنسنا نہیں ہے اس سے پوچھیں اس نے ایسا کیوں بولا مجھے۔۔۔ وہ معصومیت بھرے انداز سے بولی۔۔۔
اس کے اتنے معصومیت بھرے انداز پہ شائستہ کو بےاختیار اس پہ پیار آیا۔۔۔ وہ اسے اپنی بازؤں کے حصار میں لیتی بولیں۔۔۔
خبردار جو آئندہ کسی نے میری بیٹی کو تنگ کیا تو۔۔۔
اؤؤے ڈاکٹر لگتا ہے تیری آئی سائیڈ ویک ہو گئی ہے جا پہلے جا کر اپنا چیک آپ کروا۔۔ کاشان نے بھی اسے ڈانٹا۔۔۔
دس از ناٹ فئر آپ سب اس چڑیل کی سائیڈ لے رہے ہو۔۔ زید نے جیسے دہائی دی۔۔۔
ہاں تو تم اتنی خوبصورت لڑکی کو جو چڑیل بولو گے تو تمہاری سائیڈ کوئی کیوں لے گا۔۔
ویسے باصفا یقین جانو کام تمہارے چڑیلوں والے ہی ہیں۔۔۔ آخر میں کاشان اپنی طرف اشارہ کرتے شرارت سے بولا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔ ویسے یقین جانیں بڑے ہی ہینڈسم لگ رہے ہیں ایسے ہی آفس جائیں سب دیکھتے رہ جائیں گے۔۔۔ وہ بھی جواباً شرارت سے بولی۔۔۔
زید بالکل ٹھیک کہتا ہے تم واقعی چڑیل ہو۔۔ وہ جل کر بولے۔۔
چلو اب بس کرو یہ سب۔۔۔ جاؤ کاشان جلدی سے چینج کر کے آؤ تمہیں دیر وہ رہی ہے۔۔۔ اور تم لوگ بھی جاؤ ناشتہ لگاؤ ٹیبل پہ۔۔۔
انکی یہ محفل شائستہ بیگم نے ہی برخواست کروائی۔۔