ثناء یہ رکشے والا ہمیں کہیں اور لے شکریہ ۔رہا ہے۔۔ یہ تو مارکیٹ کا راستہ نہیں ہے۔۔۔ روکو اسے۔۔۔
رکشے کو انجان راستوں پہ جاتے دیکھ وہ گھبرا کر ثناء سے بولی۔۔۔
یس سویٹی یہ واقعی مارکیٹ کا راستہ نہیں ہے۔۔ کیونکہ ہم مارکیٹ جا ہی نہیں رہے۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔ مارکیٹ نہیں جا رہے تو پھر کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔ بولو۔۔۔تہ۔۔۔ تم مجھے کہاں لے کر جا رہی ہو۔۔ مارے خوف کے اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا ہو کیا رہا ہے اسکے ساتھ۔۔اور ثناء کیا کہ رہی ہے۔۔۔۔
وہ تو تمہیں بہت جلد پتہ چل جائے گا۔۔
اب اسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔۔۔ مارے خوف سے اسکا چہرہ سفید پڑھ گیا۔۔۔ جیسے ہی اسے کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا اسنے رکشے سے چھلانگ لگانا چاہی کہ ثناء نے اسے اندر گھسیٹا اور ایک رومال اسکی ناک کے قریب کیا۔۔۔ اسکے بعد کیا ہوا اسے کچھ یاد نہیں۔۔۔
اسے جب ہوش آیا تو خود کو بند کمرے میں پایا۔۔ وہ ایک چھوٹا سا حبس زدہ کمرہ تھا جس میں کوئی کھڑکی کچھ نہیں تھا۔۔۔ زمین پہ ایک چٹائی تھی۔ جس پہ اسے لا کر پھینکا گیا تھا۔۔۔
کتنے ہی لمحے اسے یہ سوچنے میں لگے کہ وہ ہے کہاں۔۔ پھر اسے یاد آیا وہ اور ثناء مارکیٹ جا رہیں تھیں۔۔ اور پھر ثناء کا انداز اور اسکی باتیں یاد آئیں۔۔ اسکا سر چکرا گیا۔۔۔ اوووہ میرے اللہ۔۔ اب مزید کسی آزمائیش میں مت ڈالنا میرے مالا۔۔۔
وہ اپنے چکراتے سر کو تھامتی دروازے تک آئی اور اسے پیٹنے لگی۔۔ کوئی ہے۔۔ کھولو اسے۔۔۔ وہ کافی دیر چلاتے رہی مگر بے سود۔۔
آخر تھک کر وہ کمرے کا جائیزہ لینے لگی۔۔۔ تو اسے ایک اور دروازہ نظر آیا وہ فوراً اسکی طرف بھاگی مگر پھر مایوسی ہوئی۔۔ وہ واشروم تھا۔۔۔ وہاں موجود روشن دان اسے اندازہ ہوا کہ وہ رات کا پہر تھا۔۔۔
اسکا سر بہت بھاری ہو رہا تھا جیسے اسے کافی ڈوز دے کر بےہوش کیا گیا ہو۔۔ اور پیاس کی شدت سے ہلک میں بھی کانٹے اگ رہے تھے۔۔۔ جب کچھ نہ سمجھ آیا تو واپس چٹائی پہ آ کہ بیٹھ گئی۔۔۔
اچنک اے احساس ہوی کہ وہ بغیر دوپٹے کے ہے۔۔۔ بازار جاتے وقت جو عبایا اس نے پہنا تھا وہ اس وقت غائب تھا۔۔ وہ بغیر دوپٹے کے ہے یہ سوچتے ہی اسے گھٹن ہونے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا اور ایک ہٹہ کٹا بندہ اندر داخل ہوا جو دیکھنے میں ہی بدمعاش لگ رہا تھا۔۔۔ باصفا خود میں مزید سمٹ گئی۔۔۔
اسکے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔۔ جو اس نے باصفا کے سامنے رکھی اور خود باہر کی جانب چل دیا۔۔سنو۔۔ کون ہو تم لوگ اور مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہو۔۔۔وہ ڈری ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
مگر وہ آگے سے کچھ نہیں بولا اور خآموشی سے باہر چلا گیا۔۔۔
وہ جس گندی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔ باصفا کو حوصلہ ہی نہیں ہوا تھا مزید کچھ بولنے کا۔۔ اس نے تو اسکے وہاں سے جانے پہ شکر کیا تھا۔۔۔۔
اسے شدید بھوک اور پیاس لگ رہی تھی۔۔ مگر پانی کے چند گھونٹ ہی پی سکی۔۔۔
اتنا تو اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اسکو یہاں کسی غلط مقصد کیلیے ہی لائے ہیں۔۔ مگر وہ اکیلی اس بند کمرے کیسے نکل سکتی تھی۔۔ اوپر سے وہ صدا کی ڈرپوک اور بزدل کڑکی تھی۔۔۔
جب دل زیادہ گھبرانے لگا تو اس نے وضو کیا اور نوافل ادا کرنے لگی۔۔۔ اسے وقت کا اندازہ نہیں تھا تو نہیں جانتی تھی کہ کونسی نماز کا وقت ہوا ہے اس لیے اس نے دل کے سکون کیلیے نوافل کی نیت کی اور وہیں چٹائی پہ ہی نوافل ادا کرنے لگی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اشعر بادشاہ خان والے کیس کا کیا بنا۔۔ پتہ لگا کچھ انکے ٹھکانوں کا۔۔۔اشعر اور ولی آفس میں بیٹھے کیس دسکس کر رہے تھے جب حیدر جہانگیر انکے پاس آئے۔۔
ابو ابھی تک تو زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوئی۔۔ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں انشااللہ جلد ہی ثبوت اکھٹے کر لیں گے۔۔۔
اے ایس پی اشعرحیدر، حیدر جہانگیر سے بولے۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا جو کرنا احتیاط سے کرنا۔۔۔
جی۔۔۔ ابو آپ پریشان نہ ہوں۔۔ انشا اللہ ۔۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔۔۔
انشااللہ۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے انفورم کرتے رہنا۔۔۔ جی اچھا۔۔
۔۔۔۔۔
تین دن ہو گئے تھے اسے یہان آئے ہوئے۔۔ اور وہی شخص ہی آکر اسے دو وقت کا کھانا دے جاتا۔۔ آخر وہ کب تک بھوکی رہتی چپ چاپ کھانے لگی۔۔۔ اس کے علاوہ اندر کوئی اور شخص نہیں آیا تھا۔۔۔ اب باصفا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی اسے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں۔۔ ایک دو بار اس نے اس غلیض شحص سے پوچھا بھی مگر وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔۔
اففف اسکی غلطی کی جانے اسے اور کتنی سزا ملنی تھی۔۔ جانے اسکی یہاں سے رہائی ممکن تھی بھی کہ نہیں۔۔۔
اب آگے کیا ہونے والا تھا یہ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔ بلآخر وہ سب کچھ اپنے اللہ پہ چھوڑ کے پر سکون ہو گئی۔۔۔ جو ہو گا اسکی رضا سے ہی ہو گا۔۔ اب اسکی عزت کا محافظ اسکا رب ہی تھا۔۔۔ اب اسنے بالکل سوچنا چھوڑ دیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔
بادشاہ خان کا فون ہے۔۔۔ وہ اس وقت بادشاہ خان کے فون کا ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔
ہیلو۔۔ اے-ایس-پی اشعر سپیکنگ۔۔۔ اشعر اپنی مخصوص بھاری آواز میں بولا۔۔۔۔
ہاں بھئی اے-ایس-پی کیا سوچا ہے پھر میری آفر کے بارے میں۔۔۔۔
ٹھیک ہے بادشاہ خان مجھے آفر منظور ہے۔۔ ۔ پرسوں لڑکی کے ہاتھ فائیل بھیج دینا سائین ہو جائے گی۔۔۔
ہاہاہاہا یہ ہوئی نہ بات۔۔۔ وقت اور جگہ طے کر کے وہ اب اپنے اگلے پلین تو ترتیب دینے لگے۔
ہمیں سب کام ہوشیاری سے کرنا ہوگا۔۔۔بادشاہ خان یقیناً اپنی کسی ماہر لڑکی کو ہی اس کام کیلیے بھیجے گا۔۔۔ بس ایک بار وہ لڑکی قابو آ جاۓ پھر اس سے سب اگلوانہ کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔۔۔
بس اس بات کا خیال رہے لڑکی قابو آنے تک کام ہوشیاری سے ہو بادشاہ خان کو اس بات کی بھنک بھی نہ پڑے۔۔۔
Dont worry sir..
اس کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو گی۔۔
گڈ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو لڑکی اٹھو۔۔۔
کہ، کہاں لے کر جا رہے ہو مجھے۔۔۔ باصفا پریشان سی بولی۔۔۔
مگر وہ جواب دینے کی بجائے اس کے ہاتھ پیچھے لیجا کر باندھنے لگے۔۔۔
چھوڑو مجھے۔۔۔ تم لوگ مجھے کہاں لے جا رہے ہو کچھ بولتے کیوں نہیں ہو۔۔۔
مگر وہ اپنا کام خاموشی سے کرتے رہے۔۔
ہاتھ باندھ کر اسکے منہ پے ٹیپ لگائی اور آنکھوں پہ پٹی باندھ دی۔۔۔
وہ لوگ اسے لیے ایک کشادہ سے کمرے میں آئے جہاں ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی جدید تراش خراش کے ساتھ مغربی لباس پہنے پہلے سے وہاں موجود تھی۔۔۔
ہمممم لڑکی تو بہت ہی پیاری ہے۔۔۔ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑے گی۔۔۔ ویسے ماننا پڑے گا ثناء کو لڑکی تو ایک سے بڑھ کر ایک چنتی ہے۔۔۔ وہ باصفا کے رخصاروں کو چھوتے ہوئے بولی۔۔۔۔
چلو لڑکی یہ سوٹ پکڑو اور جلدی سے شاور لے کے آؤ۔۔۔
باصفا نے اس ساڑھی کو دیکھا۔۔۔ جسکا بلاؤز انتہائی چھوٹا اور آستینیں غائب تھیں۔۔۔
ڈریس دیکھ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بہت غلط جگہ پھنس گئی ہے۔۔۔جس عزت کو بچاتے وہ یہاں تک پہنچی تھی وہ عزت تو اب بھی محفوظ نہیں تھی۔۔۔
میں یہ کیوں پہنوں۔۔ تم لوگ کرنے کیا والے ہو میرے ساتھ۔۔۔
دیکھو مجھے تمہیں تیار کرنا ہے ٹائم کم ہے جلدی کرو۔
میں ہر گز یہ بے ہودہ لباس نہیں پہنوں گی۔۔۔
دیکھو لڑکی اگر تم یہاں سے چھٹکارا چاہتی ہو تو جیسا ہم کہ رہے ہیں ویسا کرو۔۔تمہیں بس ایک فائیل سائین کروانی ہے اس کے بعد تم آزاد ہو۔۔۔ اگر زیادہ بک بک کرو گی تو نقصان تمہارا اپنا ہے۔۔۔
باصفا جان گئی تھی کہ اسے ہر حال میں انکی بات ماننا ہی پڑے گی۔۔۔ اس لیے خاموشی سے جو وہ کہتے گئے کرتی گئی۔۔۔
کبھی کبھی ہم کتنے مجبور و بے بس ہو جاتے وہ سب بھی کرنا پڑتا ہے جسکا کبھی تصور بھی نہ کیا ہو۔۔۔ ایسا لباس جسے بازار میں دیکھ کر وہ نفرت سے منہ موڑ لیا کرتی تھی آج اسے اسی قسم کا لباس زیب تن کرنا تھا اپنی رہائی کیلیے۔۔۔ جانے رہائی پھر بھی
نصیب ہونی تھی کہ نہیں مگر وہ ناامید ہونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
وہ بت بنی اسکے سامنے بیٹھی تھی اور وہ جانے اسکے منہ پہ کیا کیا لگا رہی تھی۔۔۔بیوٹیشن کے ہاتھوں نے ایسا کمال کیا کہ چند لمحے تو باصفا بھی خود کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔۔۔
گولڈن بلاؤز کے ساتھ بلیک ساڑھی پہنے وہ کسی کے بھی ہوش اڑانے کی طاقت رکھتی تھی۔۔۔
ساتھ میں متناسب میک آپ اور جیولری نے اسے اور ہوش ربا بنا دیا تھا۔۔۔۔
اتنے میں ایک درمیانی عمر کا شخص کمرے میں داخل ہوا۔۔ جس کی آنکھیں باصفا کے جسم میں ہی گڑ گئیں تھیں۔۔ جسے وہ نیٹ کی ساڈھی سے ڈھانپنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
اللہ نے مسلمان عورت کو پردے کا حکم کیوں دیا ہے یہ بات اس وقت باصفا کو اس ہوس زدہ نظروں سے باخوبی سمجھ آ گئی۔۔ اور اسے اپنے رب پہ بے انتہا پیار آیا جس نے ایک خبصورت موتی کو سیپ میں بند کر اسکی قیمت واضح کر دی۔۔۔
ماننا پڑے گا ثانیہ تمہارے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔۔۔
دیکھتے ہیں اے-ایس-پی تم کیسے اس دیوی سے بچتے ہو۔۔۔بادشاہ نے دل میں سوچا۔۔۔
تھینک یو سر۔۔۔ وہ پروفیشنل انداز میں بولی۔۔۔
فصی ٹائم ہو گیا ہے لے جاؤ اسے۔۔۔
اور فصی آگے بڑھ کر اسکی آنکھوں پہ پٹی باندھنے لگا۔۔۔
ارے یہ تم کیا کر رہے ہو اس سے اسکا میک آپ خراب ہو جائے گا۔۔۔
فصی نے اپنے باس کی طرف دیکھا۔۔۔ جس نے اسے ایسے ہی لیجانے کا اشارہ کیا۔۔۔
وہ جگہ رہائیش سے تھوڑا دور تھی جیسے ہی گاڑی رہائیشی علاقہ میں آئی باصفا کو وہ جگہ انجان لگی۔۔ رات کا وقت تھا اس لیے بھی اسے جگہ پہچاننے میں مشکل ہو رہی تھی۔۔۔وہ جو راستوں کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی اسے شدید جھٹکا لگا۔۔۔ وہ اس وقت ملتان میں نہیں اسلام آباد میں تھی۔۔۔
اففف۔۔۔ یعنی وہ لوگ اسے اسلام آباد لے آئے تھے۔ وہ تو اس شہر سے بالکل ناواقف تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تو سب لوگ تیار ہو نہ۔۔ اشعر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔۔۔
جی سر۔۔۔
ولی تم لوگوں کی گاڑی میرے پہنچنے سے آدھے گھنٹے بعد وہاں آئے۔۔ میں وہاں ٹائم سے پہلے پہنچوں گا۔۔۔ دیکھو سب کام ہوشیاری سے ہو ان لوگوں کو ذرا بھی شک نہ ہونے پائے۔۔۔۔
متخب کردہ جگہ بادشاہ خان کی ہی ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ انکی گاڈی کو بھی فوکس میں رکھنا۔۔۔اور جیسے ہی میں بولوں فوراً انہیں اریسٹ کر لینا۔۔۔
اوکے سر۔۔۔ چلو پھر
Move to your positions And best of luck...
اللہ ہمارا ہامی و ناصر۔۔۔وہ انہیں تھمز اپ کرتا اپنی منزل کی جانب چل دیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریباًب آدھے گھنٹے بعد گاڑی ایک ہوٹل کے آگے رکی۔۔۔
اسے فائیل تھما کر فصی روم سے چلا گیا۔۔۔
اندر کا خوابناک ماحول دیکھ کر باصفا کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔
کمرے کی سجاوٹ اور اسکا ماحول اپنی کہانی آپ سنا رہے تھے۔۔۔
کمرہ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔ کمرے کے درمیان میں جہازی سایئز بیڈ پڑا تھا جس پہ سرخ مخملی چادر پہ درمیان میں سفید گلاب کی پتیوں سے ہارٹ بنا تھا۔۔۔ سائیڈ ٹیبلز پہ بھی پھولوں کے خوبصورت بکے تھے۔۔۔ داہنی طرف سفید صوفہ سیٹ تھا جس کے آگے پڑی میز پہ پھولوں کی پتیاں اور کینڈلز جلائی گئی تھیں جس میں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔۔۔ کھڑکیوں پہ سفید اور سرخ ہی پردے پڑے تھے۔۔۔ اس طرح کے ماحول میں تو کوئی بھی اپنے ۃحواس کھو بیٹھتا۔۔۔
وہ فوراً گھبرا کر پلٹی اور دروازہ کھولنا چاہا۔۔ مگر دروازہ تو لاکڈ تھا۔۔۔ اب اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔۔۔ یا اللہ میری عزت کی حفاطت جیسے پہلے کی تھی اب بھی کرنا۔۔۔ سب آپ کے ہاتھ میں ہے اللہ۔۔۔ مجھ سے میرا وقار مت چھیننا۔۔۔۔ وہ زاروقطار آنسو بہاتی اللہ سے مدد مانگ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔
اتنے میں دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔۔۔ اور قدم قدم چلتا اسکے قریب آیا۔ باصفا کا سانس اٹکنے لگا ہلق میں آواز جیسے پھنس گئی۔۔۔
وہ قدم قدم آگے بڑھتا جا رہا تھا اور باصفا بے اختیار سی قدم قدم پیچھے ہٹتی جا رہی تھی۔۔۔ مگر پھر اسکے قدم رکے پیچھے دیوار تھی۔۔۔ اشعر نے اپنے دونوں ہاتھ اسکے دائیں بائیں رکھے اور اس پہ جھکا۔۔۔ وہ اسے پیچھے دھکیلنا چاہتی تھی مگر اسکا جسم مارے خوف کے حرکت کرنے سے انکاری ہو گیا۔۔۔ آخر جب کچھ سمجھ نہ آیا تو آنکھیں زور سے میچ لیں جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں میچ لیتا ہے۔۔۔۔
لیکن آنکھیں بند کر لینے سے حقیقت تھوڑی نہ بدل جاتی ہے۔۔۔
مگر یہ کیا وہ چند لمحوں بعد دور ہٹ گیا۔۔۔ باصفا نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو وہ دور کھڑا اسکا جائیزہ لے رہا تھا۔۔۔
ہونہہ۔۔ مال تو بادشاہ خان نے کمال بھیجا ہے مگر وہ جانتا نہیں اس کا پالا اشعر حیدرسے پڑا ہے۔۔۔ اس جیسے کسی حیوان سے نہیں۔۔۔۔
وہ ششدر سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
یعنی اسکے رب نے ایک مرتبہ پھر اسکی عزت کی حفاظت کی تھی۔۔۔
اتنے میں کچھ لیڈیز کانسٹیبل اندر آئیں۔۔لے چلو اسے تھانے۔۔ باصفا کو جیسے ۃہوش آیا دماغ نے کچھ کام کیا۔۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا آپ لوگ مجھے کیوں لیجا رہے ہیں۔۔ میں تو یہاں یہ فائیل سائین کروانے آئی تھی۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ وہ اپنی صفائی پیش کرنے لگی۔۔۔
اوو بی بی ڈرامے بند کرو اپنے۔۔ اور تم لوگ سنا نہیں لے کر چلو اسے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کیمروں کی مدد سے ادھر کا سارا منظر دیکھتا بادشاہ خان مسکرا رہا تھا اس نے اشعر کے مطعلق بہت سن رکھا تھا مگر پھر بھی بادشاہ خان کو لگا اس مرتبہ وہ نہیں بچے گا۔۔ کیونکہ جس ہیرے کو انھوں نے بھیجا تھا وہ کسی بھی مضبوط بندے کو جھکا سکتا تھا۔۔ مگر اشعر واقعی نہیں ڈگمگایا۔۔۔
اس نے تو اسے چھوا تک نہیں تھا۔ اس نے کیمرے اسی لیے نصب کیے تھے کہ وہ اسکی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کریں گے۔۔ مگر اسکا پلان فلاپ ہو گیا تھا اب اسے جلد ہی کوئی اور پلان ترتیب دینا ہو گا۔۔۔ باصفا کے اریسٹ ہونے کی اسے کوئی فکر نہیں تھی۔۔۔ وہ تو خود اس سب سے بے خبر تھی اس نے انھیں کیا بتانا تھا۔۔۔ اور وہ دونوں بندے بھی نئے تھے۔۔۔بادشاہ خان بھی ایک ماہر کھلاڑی تھا۔۔۔ْ
۔۔۔۔۔۔۔
میں کتنی دفعہ کہوں میں نہیں جانتی وہ لوگ کون تھے۔۔۔ مجھے نہیں پتہ نہیں پتہ۔۔۔ وہ ہزیاتی انداز میں چیخی۔۔۔ وہ جب سے یہاں آئی تھی ایک ہی بات کہ کہ کے تھک گئی تھی۔۔ مگر انہیں اسکی کسی بات کا بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔
اسکی چیخ کا گلا منہ پہ پڑنے والے زوردار تھپڑ نے دبایا تھا۔۔۔
افففف۔۔۔ ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں پھنس گئی تھی۔۔۔
دیکھو لڑکی میں آخری دفعہ پوچھ رہی ہوں شرافت سے بتا دو ورنہ ہمیں اگلوانہ آتا ہے۔۔۔
تمہیں جو کرنا ہے کر لو جو سچ تھا میں بتا چکی ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
بادشاہ خان بارودی مواد کی اسمگلنگ کرتا تھا۔۔۔ اور یہ کام وہ سبزیوں کے ٹرکوں کے ذریعے کرتا تھا۔۔۔ اپنا مخصوص ٹرک بغیر کسی رکاوٹ کزارنے کیلیے اسے اشعر کے سائن کی ضرورت تھی۔۔ اشعر کے انکار کرنے پہ بادشاہ خان نے اسے بہت سی آفرز دیں جس پہ بلآخر اس نے حامی بھر لی۔۔۔ مگر اشعر نے یہ حامی کسی اور نیت سے بھری تھی۔۔ اسے بادشاہ خآن کے خلاف ثبوت چاہیے تھا۔۔۔ جسکے لیے اس نے لڑکی کیلیے حامی بھری تھی۔۔ مگر پلان ناکام رہا۔۔۔
بادشاہ خان اس بار بھی بچ گیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
اب ان لوگوں کا تشدد شدید ہو گیا۔۔ جسے سہنا باصفا جیسی لڑکی کے بس سے باہر تھا۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ ایسا کیا کہے جس سے اسکے بےگناہی ثابت ہو جائے۔۔۔
کتنی اذیت دیتی ہے وہ سزا جب آپ بےقصور ہوں اور پھر بھی آپ سزا کے مستحق ٹھریں۔۔۔
حیدر جہانگیر جو کہ کمیشنر تھے اور یہ انکا آخری کیس تھا جس کے بعد انہوں نے ریٹائر ہو جانا تھا۔۔ انہوں نے خود باصفا کے پاس جا کر بات کرنے کا سوچا۔۔۔ جانے کیوں انہیں یہ لڑکی نے قصور لگی تھی۔۔ اور کچھ وہ دل کے بھی بہت نرم تھے سو معاملہ آرام سے ہی حل کرنا چاہا۔۔۔ ورنہ پولیس والوں کے تششد سے کون ناواقف ہے۔۔۔ وہ تو شاید یہ بھول جاتے ہیں اگلا بندہ انسان ہے۔۔۔
دیکھو بیٹا آپ کو اُن لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ ہمیں سچ بتائیں ہم آپکو حفاظت کی گارنٹی دیتے ہیں۔۔۔
سر میں نے جو انہیں بتایا ہے وہ بالکل سچ ہے اب میں آپ لوگوں کو کیسے یقین دلاؤں۔۔۔
آپ مجھے ساری بات دوبارہ بتائیں۔۔ باصفا نے روتے ہوئے انہیں ہوسٹل سے لیکر اب تک کی ساری بات دوبارہ بتائی اس امید سے کہ کسی کو تو یقہن آئے۔۔۔
کچھ مار کا اثر تھا کچھ ذینی اذیت تھی کہ وہ روتے روتے بےہوش ہو گئی۔۔۔
اس کی حالت اسکے بےقصور ہونے کی گواہ تھی مگر وہ اس وقت کسی اور جگہ نہیں جیل میں تھی جہاں ثبوت زیادہ اہمیت رکھتے تھے۔۔۔