موحد عیشا سے ملنے آیا مگر اسے موجود نہ پا کر واپس جانے لگا تو زینی کو لان میں بیٹھے دیکھ کر اسکی طرف بڑھا ۔
کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
بنک ڈکیتی کا پروگرام بنا رہی ہوں تیرے کو بھی شامل ہونا ہے تو آ جا۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی دو لوگ ہوں گے تو آسانی رہے گی۔۔۔۔اس کے جواب پر موحد نے خود پر لعنت بھیجی ۔کیا ضرورت تھی خوامخواہ اوکھلی میں سر دینے کی۔
تم کسی بات کا سیدھا جواب نہیں دے سکتی ۔۔۔۔
نہ تو تیرے کو بھی تو کوئی پوچھنے والی بات پوچھنی چایئے ۔تیرے سامنے لان میں بیٹھی موبائل استمعال کر رہی ہوں تو پھر پوچھنے کی کیا تک بنتی ہے ۔
تمہیں پتا ہے تم بہت کیوٹ ہو
تیرے کو میں شکل سے پاگل لگتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
شکل سے تو نہیں مگر حرکتوں سے سو فیصد لگتی ہو ۔موحد نے مسکراہٹ دبائی
میرے ساتھ مشکولے نہ لگا ۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں تیرے کو کوئی کام ہے اس لیے سیدھا مدعے پر آ ۔۔۔۔۔۔۔
جتنی بیوقوف دکھتی ہے اتنی ہے نہیں۔ موحد نے بڑبڑاتے ہوئے دانت پیسے
ایک دوست کی مسز بیمار ہیں انکی عیادت کو جانا ہے مجھے اکیلا جانا اچھا نہیں لگ رہا ہے افق بھی گھر پر نہیں ہے اس لیے عیشا کو لینے آیا تھا وہ بھی نہیں ہے تو کیا تم میرے ساتھ چلو گی
ٹھیک ہے چلتی ہوں تم بیٹھو میں چینج کر کہ آتی ہوں ۔
پلیز اپنا حلیہ تھوڑا چینج کر کہ آنا ۔ زینی اسے گھورتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔وہ وہیں بیٹھ کر اسکا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے آتی دکھائی دی لیمن کلر کی شرٹ کے ساتھ سفید کیپری پہنے سفید دوپٹہ نفاست سے کندھوں پر پھیلائے بالوں کو اپنا مخصوص سٹائل یعنی ہیر بینڈ لگا کر کھلے چھوڑے ایک ہاتھ میں موبائل پکڑے کندھے پر چھوٹا سا کلچ نما بیگ لٹکائے پروقار سی چلتی ہوئی اس کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ موحد آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا
چلیں۔ اسکو یوں حیران بیٹھا دیکھ کر اس نے اس کے آگے چٹکی بجائی
اں ہاں چلو ۔۔۔۔۔
ویسے اچھی لگ رہی ہو۔ موحد فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے بولا
تھینک یو ایکچولی کافی دیر کا یہ ڈریس پڑا تھا تو میں نے سوچا پہن ہی لیتی ہوں آؤٹ آف فیشن ہو رہا ہے ۔۔ گاڑی سٹارٹ کرتے موحد کا ہاتھ تھما
میرا مطبل ہے شکریہ جی شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس یو ٹوب سے دیکھا تو میں نے بھی ویسے ہی کپڑے لے لیے ۔ موحد کو چونکتے دیکھ کر وہ جلدی سے اپنی پرانی ٹون میں آئی
یو ٹوب نہیں ، یو ٹیوب ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے میں نے کیا لینا ہے ۔۔۔۔۔۔
اچھا سنو تم بس خاموش بیٹھی رہنا حال احوال کے علاوہ زیادہ بات مت کرنا سمجھی
میرے کو ساتھ لے جاتے ہوئے شرم آ رہی ہے تو نہیں لانا تھا ۔
نہیں زینی اصل میں وہ لوگ خاصے سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے ہیں تو پلیز تھوڑا کنٹرول کرنا
اچھا اچھا میرا ابا نہ بن میرے کو سب پتہ ہے ۔ زینی نےناک چڑھائی۔ باتوں باتوں میں وہ لوگ ہوسپیٹل پہنچ گئے ۔ موحد نے سب سے اسکا تعارف کروایا ۔اسکی ہدایت کے مطابق وہ بس ہوں ہاں سے ہی کام لے رہی تھی جسے دیکھتے ہوئے موحد بھی مطمئن ہو گیا مگر میشا کے اطمینان کو ڈاکٹر ثمامہ نے اندر آ کر غارت کیا اس نے جلدی سے چہرے پر ہاتھ رکھا مگر وہ اسے دیکھ چکی تھیں
ارے تم یہاں ۔۔انہوں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا
ہاں وہ میں اپنے کزن کے ساتھ آئی ہوں ۔۔آپ یہاں کیا کر رہی ہیں
میں یہاں جاب کرتی ہوں اور تم یہاں کیا کر رہی ہو ہوسپیٹل نہیں گئی
میری آج سے نائٹ ڈیوٹی شروع ہو رہی ہے
اوہ اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ایک دوسرے کو جانتی ہیں۔موحد نے پوچھا
جہاں میں جاب کرتی ہوں یہ بھی وہیں ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر ثمامہ کے بولنے سے پہلے ہی میشا جلدی سے بولی
چلیں کافی ٹائم ہو گیا ہے میشا اٹھ کھڑی ہوئی
چلو۔۔ ٹھیک ہے اسجد ، ہم چلتے ہیں خدا حافظ ۔میشا تو اس کے نکلنے سے پہلے ہی نکل آئی تھی مبادا ڈاکٹر ثمامہ کوئی بات ہی نہ کر دیں
یہ ایسے کیوں بی ہیو کر رہی تھی جیسے جانتی نہ ہو۔۔۔۔۔۔ ان کے جانے کے بعد ڈاکٹڑ ثمامہ بڑبڑائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زینی خالدہ بیگم کے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب سونیا کے کمرے سے آتی آواز سن کر رکی ۔وہ شائد اپنی دوست سے بات کر رہی تھی اسکی باتیں سن کر وہ ٹھٹکی پھر کچھ سوچتے ہوئے سیدھی لاونج میں بیٹھے فاروق صاحب کے پاس پہنچی جہاں ولید، راحم اور عیشا پہلے سے موجود تھے۔
بابا مجھے شاپنگ کرنی ہے ، آپکا کریڈٹ کارڈ چایئے ۔اسکی بات سن کر ان تینوں نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا سب سے زیادہ حیرانی ولید کو ہوئی ۔ابھی کچھ دن پہلے ہی تو وہ کہہ رہی تھی کہ اسے ڈیڈ کا کوئی احسان نہیں چایئے ۔انہوں کارڈ نکال کر اسکی طرف بڑھایا کہ چلو اس نے سیدھے منہ بات تو کی زینی نے کاڑد لے کر موبائل کے کور میں رکھا اور وہیں بیٹھ گئی
چاچو اپنا کریڈٹ کارڈ دیں۔ سونیا نے انکے سامنے ہتھیلی پھیلائی۔ ولید نے بے اختیار زینی کی طرف دیکھا تو اس نے مسکراہٹ پاس کی
وہ تو ابھی زینی کے پاس ہے اسے کچھ شاپنگ کرنی ہے تو تم اس سے لے لینا
کیوں چاچو اسے کیوں چایئے جہاں سے اس نے شاپنگ کرنی ہے وہاں کارڈز نہیں یوز ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہوں تو اسے کونسا استمعال کرنا آتا ہے ۔سونیا نخوت سے بولی
بیٹا اسے ضرورت ہے تو اس نے لیا ہے تم بعد میں اس سے لے لینا
نہیں مجھے ابھی چایئے ۔۔
تمہیں پیسے ہی چاہیں نہ تو چیک یا کیش لے لو
نہیں مجھے کارڈ چایئے اور وہ بھی ابھی کہ ابھی ۔ آپ مجھے اس سے لے کر دیں۔
فاروق صاحب نے زینی کی طرف دیکھا جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے ان سے لاتعلق بنی بیٹھی ٹی وی کی طرف متوجہ تھی جیسے بات اسکے نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں ہو رہی ہو
بیٹا ٹرائے ٹو انڈرسٹینڈ ۔ وہ بے بس ہوئے ۔جانتے تھے اگر انہوں نے واپس مانگا تو انکی بیٹی طوفان کھڑا کر دے گی
نو چاچو مجھے کچھ نہیں سمجھنا آپ جلدی سے دیں میری فرینڈز ویٹ کر رہی ہیں ،مجھے جانا ہے
سونیا ابھی زینی کے پاس ہے تم یا تو بعد میں لے لینا یا پھر کیش لے لو
بلاوجہ کی ضد مت کرو ۔فاروق صاحب کو بے بس دیکھ کر رفعت بیگم نے سونیا کو جھڑکا
مام یہ جاہل پینڈو کارڈ کا کیا کرے گی اس نے صرف مجھے نیچا دکھانے کے لیے لیا ہے ۔بہت اچھے سے جانتی ہوں میں اسے ۔۔۔۔
یہ تم کیسے بات کر رہی ہو ۔ وہ ایسا کیوں کرے گی اور تم سے پہلے ہی وہ لے چکی تھی ۔ فاروق صاحب نے حیرانی سے اسے دیکھا
کوئی بات نہیں بابا یہ لیں اسے دے دیں میں بعد میں لے لوں گی۔ زینی نے کارڈ نکال کر انکی طرف بڑھاتے ہوئے ریکارڈ توڑ معصومیت دکھائی
نہیں بیٹا اسکی ضرورت نہیں ہے تم رکھ لو اور یہ ابھی پرسوں ہی شاپنگ کر کہ آئی ہے خوامخواہ فضول خرچی کرتی ہے یہ لڑکی۔رفعت بیگم نے کہا
تو اس نے جھٹ ہاتھ پیچھے کیا ۔سونیا منہ بسورتی اپنے کمرے میں چلی گی
یہ لو عیشو ڈارلنگ آج کی شاپنگ میری طرف سے جم کر عیش کرنا ۔رفعت بیگم اور فاروق صاحب کے اٹھنے کے بعد زینی نے ہاتھ میں پکڑا کارڈ عیشا کی طرف اچھالا جیسے راحم نے راستے میں کیچ کر لیا
یہ اکیلی کیوں میں بھی جاوں گا ۔راحم نے کارڈ جیب میں رکھا وہ دونوں اچھلتے ہوئے باہر نکل گئے
بیٹا یہ سب کیا ہے تمہیں نہیں چایئے تھا تو لیا ہی کیوں۔ خالدہ بیگم نے خفگی سے کہا
بابا کو انکی اصلیت دکھانی ہے ۔یہ جو منہ پر جھوٹا پیار دکھا کر ہمدردیاں بٹورتے ہیں اور دل میں زہر بھرا ہوا ہے بس وہی زہر اب انکی زبانوں پر بھی لانا ہے
مگر بیٹا اس طرح بات بہت بگڑ جائے گی
بگڑنے دیں ایسے تو ایسے ہی سہی۔ ساری زندگی انہوں نے ان احسان فراموشوں کے لیے اپنی اولاد فراموش کیے رکھی اور آج یہی انہیں پیٹھ پیچھے کیا کچھ نہیں کہتے ۔اور آپ بھی تھوڑی سٹرونگ بنیں اپنی اولاد کے لیے سٹینڈ لیں یا پھر اپنے شوہر کی طرح دیورانی اور انکے بچوں کی چاکری ہی کرنی ہے زینی نے سنجیدگی سے کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسرے دن وہ پھر سے اسکے ہوسپیٹل میں کھڑا تھا ابھی وہ ریسپیشن پر کھڑا کوئی بہانہ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے میشا آتی دکھائی دی اس نے جلدی سے اپنا رخ پھیرا
ہائے ڈاکٹر میشا کیسی ہیں ۔ ریسپیشن پر کھڑی نرس نے پوچھا
میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو
میں بھی ٹھیک ہوں
آپ آج پھر ایسے ہی گھوم رہی ہیں فرید سر نے دیکھ لیا نہ تو اتنا لمبا لیکچر دیں گے
ہی ہی ہی وہ آج چھٹی پر ہیں
آپ آئے دن انکی ڈانٹ سنتی ہیں آخر کو آپ کو کارڈ اور کوٹ پہننے میں کیا پرابلم ہے
یار ثوبیہ میں نے کبھی کالج میں یہ دونوں چیزیں نہیں پہنی اب تو پھر بھی پریکٹس کر رہی ہوں الجھن سی ہوتی ہے کوٹ ، کارڈ پھر گلے میں سٹیتھوسکوپ ۔۔۔۔اففف یہ فرید سر اور انکے رولز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرید سر ۔۔۔
ہاں ان ہی کی بات کر رہی ہوں ۔ بڑے ہی کوئی ہٹلر ٹائپ کے ڈاکٹر ہیں۔ جب ایک بندہ پوسپیٹل میں مریض دیکھ رہا ہے تو ظاہری سے بات ہے وہ ڈاکٹر ہی ہے پر نہ جی ان کے بقول ایک بندہ اپنے پروفیشن سے پہچانا جاتا ہے اسکا پروفیشن ہی اس کا ٹیگ ہوتا ہے اور وہ ٹیگ نظر آنا چایئے بلا بلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیچھے دیکھیں وہ آ رہے ہیں ثوبیہ کی بات پر اس نے پلٹ کر پیچھے دیکھا ۔مگر تب تک وہ قریب پہنچ چکے تھے۔وہ جلدی سے واپس پلٹی
ڈاکٹر میشا۔۔ اسے کھسکتا دیکھ کر انہوں آواز لگائی تو ناچار اسے رکنا پڑا
یس سر ۔۔۔۔۔۔۔
وئیر از یور کارڈ اینڈ کوٹ
وہ سر۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے روم میں ہیں
روم میں کیوں ہیں ابھی جائیں اور دونوں چیزیں پہن کر آئیں
اوکے سر ۔وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگی دو منٹ بعد ہی واپس آئی تو سفید کوٹ اور کارڈ پہن رکھا تھا
یو آر اے ڈاکٹر اینڈ شڈ بیہیو لائک ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔۔ انڈر سٹینڈ
یس سر . اس نے زور و شور سے سر ہلایا
اوکے سی یو سون ۔۔۔۔۔۔
دیکھو تو کیسے میری باربی کو ڈانٹ رہا ہے ،بہت جلد میں اپنی باربی کے لیے اس سے اچھا اور بڑا ہوسپیٹل بنوا دوں گا ۔۔۔ہنہ پاس کھڑے حنان سر جھٹکا
تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ میشا کی نظر اس پرپڑی تو اس کے پاس آ کر پوچھا
وہ میں ۔۔۔۔ وہ میں ۔۔اس کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے حنان بوکھلایا
کیا میں ۔۔۔۔
اوہ اچھا کہیں تم بلڈ ڈونیٹ کرنے تو نہیں آئے ۔۔میشا کی نظر دیوار پر لگے بلڈ ڈونیشن چارٹ پر پڑی تو اسے شرارت سوجھی
ہاں ۔۔۔ہاں اسی کے لیے ہی تو آیا ہوں
مگر ھم تو ابھی بلڈ نہیں لے رہے ۔میشا مصنوعی پریشانی سے بولی
اوہ ۔۔۔۔ حنان نے سکھ کا سانس لیا
مگر میں تو ہر دو ماہ بعد بلڈ ڈونیٹ کرتا ہوں ۔مجھے کسی نے بتایا ہے کہ اس ہوسپیٹیل میں ضرورت ہے تو یہاں آ گیا
چلو تم پریشان نہ ہو اب آ گئے ہو تو ہم لے لیتے ہیں۔میشا نے مسکراہٹ دبائی
نہیں آپ تردود نہ کریں میں کہیں اور چلا جاتا ہوں
ارے نہیں تم آؤ میں ارینج کرواتی ہوں ۔بلکہ میں خود ہی دیکھ لیتی ہوں ۔۔میشا روم کی طرف جاتے ہوئے بولی
آؤ نہ کھڑے کیوں ہو ۔ جب تک بوتل بھر نہ گئی وہ وہیں اس کے سامنے بیٹھی رہی ۔وہ بے بسی سے کبھی خود کو دیکھتا تو کبھی میشا کو جس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ نرس بلڈ ڈرپ اتار کر درازے کی طرف بڑھی
کسی کو بھیج کر جوس منگواؤ ۔۔ میشا نے نرس کو آواز دے کر کہا تو وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی
میرا اتنا خون لے لیا اور صرف ایک جوس پر ٹرخا رہی ہے لنچ تو بنتا ہے جو کہ میں کروں گا ۔سوچتا ہوا وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چکراہ کر سٹریچر پر بیٹھا
آر یو اوکے ۔۔میشا اٹھ کر اس کے پاس آئی
ہاں بس ٹھیک ہو صبح ناشتہ نہیں کیا تھا شائد اسی وجہ سے چکر آگیا
واٹ ۔۔۔ تم ناشتے کے بغیر گھوم رہے ہو اور اوپر سے بلڈ بھی دیا ہے ۔۔ دماغ ٹھیک ہے۔۔۔ ۔ میشا نے اسے گھورا
پریشان مت ہو میں ٹھیک ہوں
تم ایٹ لیسٹ بتا تو سکتے تھے نہ ۔ چلو آؤ کینٹین سے کچھ کھلاتی ہوں
نہیں تم رہنے دو میں گھر جا کر لنچ کر لوں گا ۔ اپنے بھنگڑا ڈالتے دل کو سنبھالتے ہوئے مصنوعی انکار کیا
آر یو شیور۔ اس نے فکر مندی سے پوچھا تو حنان نے اثبات میں سر ہلایا وہ دوبارہ اٹھا اور اگلے ہی لمحے ہی لڑکھڑایا اورسہارے کے لیے جلدی سے میشا کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اب تو میشا کو بھی تشویش ہونے لگی ۔اسے اپنا مذاق میں بھاری پڑتا معلوم ہو رہا تھا
ایم سوری مجھے نہیں پتہ تھا کہ تمہیں اتنی ویکنیس ہو جائے گی۔ آؤ یہاں پاس ہی ریسٹورینٹ ہے کھانا کھلاتی ہوں
ارے نہیں تم شرمندہ مت ہو میں ٹھیک ہوں ۔ حنان نے اسکی شرمندہ صورت دیکھ کر خود کو ملامت کیا اور پھر بظاہر اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود میشا نے اسے کھانا کھلایا
تم چلے جاؤ گے یا میں گھر چھوڑ دوں ۔میشا کے لہجے میں بلا کی نرمی تھی۔اس وقت وہ سب کچھ بھلائے ایک ڈاکٹر کی مانند اسے ٹریٹ کر رہی تھی
نہیں تمہیں تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں چلا جاؤں گا ۔وہ اسے اس سے زیادہ پریشان نہیں کر سکتا تھا
میں تمہیں اس حال میں ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں دوں گی
میں نے کہا نہ اب ٹھیک ہوں
ڈاکٹر کون ہے تم یا میں ۔۔۔۔ اور اس وقت اس ڈاکٹر کا آرڈر ہے کہ تم اکیلے گھر نہیں جاؤ گے
اچھا میں ڈرائیور کو کال کر کہ بلا لیتا ہوں
ہاں یہ ٹھیک رہے گا تم اسے کال کرو۔ تب تک میں چائے پی لیتی ہوں دس پندرہ منٹ ویٹ کرنے کے بعد اسے ڈرئیور کے ساتھ بجھوا کر اس نے سکون کا سانس لیا
تم بھی پاگل ہو میشا اگر کچھ ہو جاتا تو لمبے عرصے کے لیے جیل میں چکی پیس رہی ہوتی ۔۔وہ بڑبڑاتے ہوئے ہوسپیٹل کی طرف بڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آؤ صاحب زادے کہاں آوارہ گردیاں کرتے پھر رہے ہو ۔۔تین دن سے آفس سے بھی غائب ہو کن چکروں میں ہو آج کل۔۔۔ حنان مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو حسن صاحب لاونج میں بیٹھے تھے
کہیں نہیں ڈیڈ یہی ہوں میں نے کہاں جانا ہے
میں تو کہتی ہوں اسے اب بیڑیاں ڈال ہی دیتے ہیں بہت عیش کر لی ہے بیوی آئے گی تو کچھ زمہ داریوں کا احساس بھی ہو گا ۔ نوشابہ بیگم چائے کا کپ حسن صاحب کو تھماتے ہوئے بولیں
یہ ٹوٹلی آپ کا ڈیپارٹمنٹ ہے آپ خود ہی سنبھالیں
تو پھر ٹھیک ہے میں نے آپا سے بات کی ہے حنان کے لیے ،انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے کسی دن ہم دونوں باقاعدہ رشتہ لے کر چلے جاتے ہیں اور بات پکی کر آئیں گے ۔انکی بات سن کر پاس بیٹھا حنان اچھلا
ہرگز نہیں مام مجھے نہیں کرنی آپکی کسی بھانجی وانجی سے شادی ۔۔اپنے لیے لڑکی میں پسند کر چکا ہوں
مگر بیٹا میں آپا سے بات کر چکی ہوں
تو آپ کو مجھ سے تو بات کر لینی چایئے تھی۔ مجھے نہیں پتہ آپ انکار کر دیں
حنان تم کل کی ملی لڑکی کے لیے اپنی ماں کو شرمندہ کرواؤ گے
پلیز مام آپ خالہ کو کچھ بھی کہہ کر منع کر دیں
حنان تم ایک بار ملو تو سہی وہ بہت اچھی اور پیاری بچی ہے۔ تمہارے ساتھ پرفیکٹ میچ ہے اور تمہیں پتہ وہ ایک ڈاکٹر ہے
ڈاکٹر کیا جج ہی کیوں نہ ہو میری نہ ہے اور آپ کو ڈاکٹر بہو لانی ہے تو جسے میں پسند کرتا ہوں وہ بھی ایک ڈاکٹر ہے ۔آپکو پتہ ہے آپکی سوچ سے زیادہ پیاری اور اچھی ہے
حنان ۔۔۔۔۔
پلیز مام آپ اس سے ایک بار مل تو لیں پلیز میری خاطر
اوکے لیکن اگر مجھے پسند نہ آئی تو میں بتا رہی حنان میں اسے اس گھر کی بہو ہرگز نہیں بناؤں گی ۔۔انہوں نے بلا آخر ہتھیار ڈالے
آپ کو ضرور پسند آئے گی ملیں تو سہی ۔۔سمائرہ بھی مل چکی ہے اس سے آپ اس سے پوچھیے گا
لو تو جب بہن بھائی خود ہی ڈیسایڈ کر چکے ہو تو ماں باپ کی بھلا کیا ضرورت ،بیاہ کر بھی لے آتے۔
ایسی بات نہیں ہے مام بس ریسٹورینٹ میں ملے تھے
اچھا بس بس ذیادہ صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں ۔ کب سے جانتے ہو ایک دوسرے کو۔ کہاں رہتی ہے
زیادہ نہیں بس ایک ہفتہ ہی ہوا ۔کہاں رہتی ہے یہ تومجھے بھی نہیں پتہ حنان کان کجھاتے ہوئے بولا
حنان مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو چکے ہو جس لڑکی سے ملے ہوئے تمہیں ایک ہفتہ سے زیادہ نہیں ہوا،اتہ پتہ تمہیں معلوم نہیں پتہ نہیں کون ہے کس نیچر کی ہے اور تم چلے ہو اس سے شادی کرنے ۔نوشابہ بیگم نے اسے گھورا۔حسن صاحب خاموشی چائے پیتے ہوئے ماں بیٹے کی باتیں سن رہے تھے
مام بہت اچھی لڑکی ہے بہت پیاری، بلکل آپ کی سوچ کے عین مطابق۔ نخریلی سی نک، چڑی ، شرارتی سی آپ کو پتہ ہے ہر روپ اس پر چجتا ہے ۔ ایک اس کی مسکراہٹ دیکھتے ہوئے ہی نثار ہونے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
شرم تو نہیں آتی ماں کے سامنے پرائی بچی کے بارے میں یوں بات کرتے ہوئے ۔ نوشابہ بیگم نے اس تھپڑ مارا
یار مام اسی لیے تو کہہ رہا ہوں پرائی بچی کو اپنی بچی بنانے کی سوچیں
نام کیا ہے یا پھر وہ بھی نہیں جانتے
میشا زینب
ہممم۔۔۔۔۔ میشا زینب۔۔۔۔۔۔۔ کوئی تصویر ہے اس کی ۔۔کسی خیال کے تحت انہوں نے پوچھا
کہاں یار سیدھے منہ بات تو کرتی نہیں تصویر کہاں دے گی
اچھا تم اس سے گھر کا اتہ پتہ معلوم کرو میں بھی تو دیکھوں کون ہے جس کے لیے میرا بیٹا دیوانہ ہوا جا رہا ہے
ابھی نہیں آپ پلیز تھوڑا ویٹ کر لیں ابھی تک تو اسے بھی نہیں معلوم کہ میں کس وجہ سے اس کے ہوسپیٹل جاتا ہوں
ٹھیک ہے مگر جو بھی کرنا ہے جلدی کرو میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتی
شیور مام
ہوں تو اتنے دن سے اسی لیے غائب ہو ۔۔۔۔کل سے ٹائم پر آفس آجانا کہیں ایسا نہ ہو کہ آفس سے نکال دیے جاؤ اور پھر لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کا سسر بھی پٹانا پڑ جائے کیونکہ جاب کے بغیر تو تمہیں کوئی اپنی بیٹی دے گا نہیں
پلیز ڈیڈ کچھ دن اور چھٹیاں دے دہیں ۔۔آپ کی بہو کو بھی تو منانا ہے جو کہ مجھے کوئی آسان بات نہیں لگ رہی فورا سے پہلے جوتا اتار لیتی ہے
اوہ تو پٹ بھی چکے ہو ۔حسن صاحب مسکراتے ہوئے بولے تو نوشابہ بیگم نے آنکھیں پھاڑیں
ابھی نہیں ڈیڈ مگر مجھے یقین ہے کہ جیسے ہی اس سے بات کروں گا پیٹنے میں ایک منٹ نہیں لگائے گی ۔حنان نے انہیں بتانے لگا کیسے اس دن وہ ویٹر پر برس رہی تھی اس کے چہرے کی چمک اور خوشی کو دیکھتے ہوئے نوشابہ بیگم سوچنے لگیں کہ انہیں آپا کو کیسے منع کرنا ہے
میشا تم سے ملنے کوئی لڑکا آیا ہے ۔میں نے ویٹینگ روم میں بٹھایا ہے جا کر مل لو۔فضہ اسے کہتی وہیں کرسی گھسیٹ کر ٹیبل پر سر رکھے بیٹھ گئی
کون ہے۔۔ پئشنٹ کے اٹھنے کے بعد میشا نے پوچھا تو فضہ جھٹ آنکھیں کھولتی سیدھی ہوئی
یہ تو نہیں جانتی کون ہے مگر جو بھی ہے۔۔۔۔ کمال ہے۔۔۔۔۔۔۔ دھمال ہے۔۔۔۔ لاجواب ہے
واٹ ۔۔۔ میشا اچھلی
ہاں نہ سفید رنگت یہ اونچا لمبا سرو جیسا قد بت،بھوری آنکھیں ، اوپر کو اٹھی ہوئی مغرور ناک ، بات کرتا ہے تو پھول جھڑتے معلوم ہوتے ہیں ۔ اسے یوں زمین آسمان ایک کرتے دیکھ کر میشا نے آنکھیں پھاڑیں
تبھی میں کہوں یہ ہوسپیٹل اچانک سے مہکنے کیوں لگا ہے اور تم بھی آتے ہوئے کچھ پھول اکھٹے کر کہ لے آتی گلقند بنانے کے تو کام آتے ۔اب اس کے آنے کا کچھ تو فائدہ ہوتا
تم مانو یا نہ مانو بندہ ہے بڑا شاندار ۔چلتا ہے تو کسی شہزادے کا سا گمان ہوتا ہے
اوہ تو چلا کر بھی دیکھا ۔۔۔تمہیں نہیں لگتا کچھ زیادہ ہی گہرائی میں جا کر مشاہدہ کر آئی ہو ۔۔۔۔۔
سچ کہہ رہی ہوں۔ قدیم یونانی دیوتاؤں کی طرح یہ زمین پر قدم جما جما کر چلتا ہے
اوہ بی بی سب ہی زمین پر قدم جما کرہی چلتے ہیں۔کبھی کسی کو لیٹ کر بھی چلتے دیکھا ہے
ایک بات بتاؤں ۔۔۔ اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس کی طرف جھکی
بولو ویسے بھی بتائے بغیر تو ٹلنے والی شے نہیں ہو ۔میشا پانی کا گلاس لبوں کو لگاتی ہوئی بولی
تمہاری دوست پلس کزن پر رہ گیا ہے۔۔اس کی بات پر میشا کو زبردست اچھو لگا
تم بھی نہ مذاق سوچ سمجھ کر کیا کرو ابھی مجھے کچھ ہو جاتا تو ۔۔میشا کھانستے کھانستے دہری ہو رہی تھی
میری طرف بار بار دیکھ رہا تھا ، جیسے انکھوں ہی آنکھوں میں منت کر رہا ہو ،میں نے بھی جوابا آنکھوں کے ذریعے ہی منع کر دیا کہ مجھ سے امید مت رکھنا۔ ایسی کوئی گری پڑی لڑکی نہیں ہوں۔ الحمدللہ بہت نایاب ہوں ۔ میرا انکار سن کر اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی ابھری جس میں ایک بار تو میں ڈوب ہی گئی تھی۔
تو بی بی ڈوبی ہی رہتی باہر آنے کیا ضرورت تھی وہیں کہیں مر کھپ جاتی ، جب تمہاری لاش میں کیڑے پڑ جاتے تو نکال کر دفنا دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسےمجھے سمجھ نہیں آئی اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں تم پوری کیسے آ گئی ۔ میرا مطلب ہے کہاں دو آنکھیں اور کہاں تم ۔ماشاءاللہ سے اپنا حُجم دیکھا ہے
اوہو سنو تو سہی ۔۔ اس کی بار بار کی مداخلت فضہ کو زہر لگ رہی تھی
بولو۔۔۔۔۔۔
ہاں تو میں کہاں تھی ۔۔۔
تم اس کی آنکھوں میں غوطے کھا رہی تھی
ہاں ایسا ہی کچھ ہوا مگر میں نے خود کو روک لیا تم تو جانتی ہو ان معاملات میں ، میں کتنی شریف النفس اور سخت گیر ہوں
بلکل ۔میشا نے مصنوعی داد دینے والے انداز میں سر دھنا
میرے بار بار منع کرنے کے باوجود اس کی چہرے پر ایک ہی التجا رقم تھی ،باز ہی نہیں آ رہا تھا بیچارہ دل کے ہاتھوں مجبور لگ رہا تھا۔جب میں آنے لگی تو سینے پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا جھک کر اشارے سے گویا الودعی سلام کیا ۔میں تو شرم کے مارے سرخ ہی ہو گی تھی ۔تم تو جانتی ہو میں کتنی حیا والی ہوں
نہیں اس میں تو کوئی شک نہیں شرم و حیا تو تم پر ہی ختم ہوتی ہے بلکہ ختم ہی ہے ۔ تمہاری ساری باتیں سن کر مجھے گمان سا ہونے لگا ہے کہ کہیں وہ گونگا بہرہ تو نہیں تھا جو کبھی آنکھوں سے التجائیں کر رہا تھا تو کبھی اشاروں سے سلام ۔منہ سے پھوٹنے کی زحمت ہی نہیں کی
ایک راز کی بات بتاؤں میشا اٹھ کھڑی ہوئی ۔تم نہ مریضوں کے درمیان رہ رہ کر مریض بن چکی ہو وہ بھی دماغی ۔۔۔۔۔اسی لیے کب سے بہکی بہکی باتیں کر رہی ہو ۔۔۔۔میرا مخلص مشورہ ہے کوئی اچھا سا پاگل خانہ دیکھ کر چار دن ایڈمٹ ہو جاو۔۔ جب کچھ افاقہ ہو جائے گا تو میں تمہیں لے آؤں گی ۔ٹریٹمنٹ کا خرچا میں دے دوں گی ۔ بس میری بہن تم اپنے علاج پر توجہ دو ،کل کلاں کو تمہارے ہاتھ بھی تو پیلے کرنے ہیں ،گو کہ پہلے ہی کالے پیلے ہیں مزید کی گنجائش نہیں مگر اب کیا ،کیا جا سکتا ہے کرنے تو ہیں۔
تم تو ہمیشہ سے میری خوبصورتی اور حسن سے جلتی رہی ہو۔کبھی خود کو دیکھا ہے کہاں تم جیسی سانولی سلونی معمولی شکل و صورت والی لڑکی اور کہاں میرے لال قندھاری انار جیسے گال، ۔۔میں نے تو کبھی خود کو آئینے میں بھی نظر بھر کر نہیں دیکھا واللہ کہیں میری اپنی ہی نظر نہ لگ جائے ۔۔کہاں تم کہاں میں ،مجھے تو تمہارے ساتھ اپنا تقابل کرنا بھی اچھا نہیں لگ رہا چاند کا بھی کبھی کسی نے مقابلہ کیا ہے بھلا ۔۔ فضہ بھی اس کے پیچھے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اللہ کی شان ہے جو تم جیسی کھسکی ہوئی لڑکی مجھے باتیں سنا رہی ہے ۔اور تقابل کی بھی تم نے خوب کہی ،واقعی ہیرے اور کنکر کا کیا مقابلہ اور جہاں تک چاند کی بات ہے تو میشا چلتے چلتے رک کر اس کی طرف گھومی۔
چاند تو تم واقعی ہی ہو اور وہ بھی ایسا جس کی چاندنی ددھیا کی بجائے پیلی یرقان زدہ ہو گئی ہو اور تمہارے اس جھریوں زدہ چاند سے چہرے پر جو یہ چھوٹے چھوٹے ٹمٹماتے تارے نکلے ہوئے ہیں واللہ ان کا تو کوئی ثانی ہی نہیں ۔ یوں ہی باتیں کرتی وہ دونوں ویٹینگ روم کے باہر پہنچ گیئں
میں تو کہتی ہوں تم اندر مت جاؤ ۔۔ بیچارے نے بڑی مشکل سے دل کو سنبھالا ہو گا یوں پھر سے اس کے سامنے جا کر اس کے زخموں پر کیچپ مت لگاؤ ۔مگر میشا کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی وہ دروازہ کھول کر جلدی سے اندر داخل ہوگئی اس کے پیچھے میشا بھی آئی تو ولید کو بیٹھے دیکھ کر چونکی
ولی بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں
میں تمہیں لینے آیا تھا کہ مل کر کہیں لنچ کرتے ہیں مگر اتنا ویٹ کرنا پڑا ۔۔ ولید خفگی سے بولا تو میشا نے فضہ کی طرف دیکھا
میں تو آ رہی تھی یہ ہماری کزن کی کہانیاں شروع ہو گئی تھی بڑے ہی دلچسپ چٹکلے چھوڑتی ہے اس لیے وہیں بیٹھ کر سننے لگی آپ بھی سنیں گے تو داد دیے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔میشا فضہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی جو آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی
اوہ تم لوگ غالبا ایک دوسرے کو نہیں جانتے بھائی یہ فضہ ہے ہارون بابا کی بیٹی اور فضہ یہ میرا بھائی ولید ہے ، اس نے میرا پر خاصا زور دیا مقصد کچھ دیر پہلے کی گئی گفتگو پر شرمندہ کرنا تھا مگر سامنے بھی فضہ تھی میشا کا ہی پر تو، شرمندہ ہونا اس نے کیا دونوں نے ہی نہیں سیکھا تھا وہ سلام دعا کے بعد ایسے لاتعلق ہو گی جیسے کوئی بات ہوئی ہی نہ ہو ۔لنچ کے بعد ولید انہیں ہوسپیٹل چھوڑ کر چلا گیا
ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھی ۔ولید کے جانے کے بعد میشا فضہ سے بولی
میرے پاس اتنا ٹائم نہیں جو تمہارے ساتھ فضول گوئیوں میں صرف کرتی رہوں۔ سو کام پڑے ہیں ۔۔۔تمہاری طرح ہڈ حرام نہیں ہوں۔ فضہ جھٹ سے غائب ہوئی میشا اس کی پشت دیکھتے ہوئے کچھ سوچ کر مسکرا دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرے کو اپنے گھر میں چین نہیں پڑتا جب دیکھو یہاں ٹپکا ہوتا ہے ۔۔۔۔ کافی کا مگ ہاتھ میں لیے وہ پلٹی تو موحد سے ٹکراتے ٹکراتے بچی
تمہیں کیا مسئلہ ہے میری پھپھو کا گھر ہے جب چاہے آؤں
اوہ بھائی یہاں تیری پھپھی کے علاوہ اور لوگ بھی رہتے ہیں کجھ ان کا ہی خیال کر لیا کر
مجھ سے تو کسی کو کوئی پرابلم نہیں ہوتی البتہ تم سے جو لوگ تنگ ہیں اس لسٹ میں سب سے پہلے نمبر پر میں آتا ہوں ۔موحد نے اسے تپایا اور حسبِ توقع وہ تپ بھی گئی
نہ میرے سے کسی کو کیا تکلیف ہے میں نے کون سا توپیں اٹھائی ہوئی ہیں۔ زینی نے ہاتھ نچاتے ہوئے اسے گھورا
توپیں اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے تمہاری یہ زبان ہی کافی ہوتی ہے۔
جب تیری زنانی آئے گی نہ تو میں تب پوچھوں گی تجھ سے۔ شہری لڑکیوں کی تو ویسے بھی بڑی لمبی زبان ہوتی ہے
ہاں مگر تم سے زیادہ نہیں ہوگی ۔ ماشاءاللہ سے دو دھاری تلوار سے زیادہ تیز ہے
تو نہ خصماں نوں کھا ۔ زینی کو اور کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ اس پر دو حرف بھیجتی ہوئی چلی گئی
ارے میدان چھوڑ کر کیوں بھاگ رہی ہو ۔ موحد نے پیچھے سے ہانک لگائی
ویری بیڈ موحد بھائی میں کب سے دیکھ رہی ہوں آپ میری آپی کو تنگ کر رہے تھے
ہاہاہاہا عیشا تمہاری آپی اتنی اچھی نہیں ہے کہ کسی بات سن لے اینٹ کا جواب پتھر سے دیتی ہے
ہی ہی ہی یہ تو ہے ۔ آپکو ایک بات بتاؤں وہ رازداری سے گویا ہوئی ،میری آپی نہ ڈاکٹر ہیں ۔عیشا کے پیٹ میں بھلا کب زیادہ دیر تک کوئی بات ٹک سکتی تھی
واقعی ۔موحد نے حیرانگی سے اسے دیکھا
ہاں ہمیں بھی کچھ دن پہلے ہی پتہ چلا ہے میں اور راحم ان کے ہوسپیٹل گئے تھے ۔عیشا کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا اکثر اوقات زینی کو دیکھ کر اسے بھی محسوس ہوتا کہ جو وہ ظاہر کر رہی ہے وہ ہے نہیں مگر وہ اپنا وہم سمجھ کرجھٹک دیتا۔
تو یہ محترمہ ڈاکٹر ہے اسی لیے اتنی نک چڑی ہے۔ وہ بڑبڑایا
ویسے بھائی آپ کو میری آپی کیسی لگتی ہیں
اچھی ہے بس زرا مزاج کی تیز ہے
ارے میں وہ والی پوچھ رہی ہوں کہ کیسی لگتی ہیں عیشا نے آنکھیں مٹکائیں
وہ والی ۔موحد نے ناسمجھی سے اسے دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس نے بے یقینی سے عیشا کو گھورا
توبہ کرو عیشا میں تمہیں زمین پر چلتا پھرتا اچھا نہیں لگتا ۔ تمہاری آپی نے مجھے اپنی باتوں سے ہی تروڑ مروڑ دینا ہے ۔۔۔۔۔ تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے۔۔۔۔۔۔۔ فوراً اپنی بات واپس لو۔۔۔۔۔۔ کوئی گھڑی قبولیت کی بھی ہوتی ہے ۔ عیشا نے اسے اسکی بساط سے کچھ زیادہ ہی بڑا جھٹکا دے دیا تھا
بھائی۔۔۔۔
نہیں مطلب تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو۔۔۔۔۔ بھائی کہتی ہو نہ مجھے ،تو پھر یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہو۔۔۔۔مطلب کچھ بھی ۔۔۔۔۔ اوہ گاڈ۔۔۔۔
بس کر دیں خواہ مخواہ میں اور ریکٹ کر رہے ہیں۔ اب میری آپی اتنی بھی بری نہیں ہیں کتنی پیاری ہیں اور اوپر سے ڈاکٹر بھی ہیں ۔۔ عیشا خفگی سے بولی تو اس نے سر جھٹکا
میں گھر جا رہا ہوں پھپھو کو بتا دینا۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے مطلب میں اور زینی ۔۔نہ اللہ پلیز ایسا کچھ مت کرنا ۔ بڑبڑاتا ہوا وہ باہر نکلا ۔اندر آتے ولید نے حیرت سے اسے دیکھا
یہ موحد کو کیا ہوا ہے خود سے بڑبڑاتا ہوا جا رہا تھا اور اپنے حواسوں میں بھی نہیں لگ رہا تھا ۔ولید نے ہونق بنی کھڑی عیشا سے پوچھا
کچھ نہیں بھائی ایک بات کی تھی لیکن لگتا ہے دل پر لے بیٹھا ہے
مجھے تو تم بھی ٹھیک نہیں لگ رہی ہو خیر زینی کو بلاؤ اس نے میرے ساتھ جانا تھا
جی بھائی میں بلاتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔مام آپ نے منع کر دیا خالہ کو ۔حنان کو آج کل ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی
نہیں بیٹا ابھی تک تو میری ان سے کوئی بات نہیں ہوئی
تو مام کب کریں گی آپ آج ہی جائیں اور انکار کر کہ آئیں
بیٹا مجھے بہت مشکل لگ رہا ہے پہلے خود ہی بات کی اور اب یوں منہ پھاڑ کر کہہ دوں کہ میرا بیٹا آپکی بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہتا ۔ ایک بیٹی کی ماں ہو کر کیسے صاف منع کر دوں
ٹھیک ہے میں خود خالہ سے بات کر لوں گا
نہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گے میں خود ہی دیکھ لوں گی
آپ آیک دو دن تک دیکھ لیں نہیں تو میں جا کر انکار کر دوں گا
تم روڈ ہو رہے ہو حنان۔ نوشابہ بیگم سختی سے بولیں
ایم سوری مام میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا
دیکھو میں پھر کہہ رہی ہوں تم ایک بار مل لو اس سےپھر کوئی فیصلہ کرنا
نو مام نیور مجھے جب اس سے شادی ہی نہیں کرنی تو ملنے کا کیا فائدہ ہاں اگر آپ دو ہفتے پہلے تک یہ بات کہتی تو ڈیفینینٹلی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوتا مگر اب نہیں ۔۔پلیز نہ مام آپ سمجھیں تو
حنان ایک بار ملنے میں کیا حرج ہے
پلیز مام میں منع کر چکا ہوں اور اگر آپ نے زبردستی کرنے کی کوشش کی نہ تو میں بتا رہا ہوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لندن شفٹ ہو جاؤںگا ۔اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گا آپکو
حنان ۔۔نوشابہ بیگم نے بے یقینی سے اسے دیکھا
مام حنان سہی کہہ رہا ہے آپ خالہ کو منع کر دیں۔کونسا کوئی باقاعدہ رشتہ یا منگنی ہوئی تھی زبانی کلامی بات ہی کی تھی اور آج کل تو لوگ منگنی تک ختم کر دیتے ہیں ۔سمائرہ بھی حنان کی مدد کو میدان میں آئی
اب اس عمر میں تم دونوں ماں کو شرمندہ کرواؤ گے ٹھیک ہے کرتی ہوں میں آپا سے بات
تھینک یو سو مچ مام لو یو
بس بس زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ تمہاری اس لڑکی سے بات ہوئی کیا نام تھا اسکا
میشا ۔۔حنان جلدی سے بولا
ہاں اسی سے
نہیں مام ابھی نہیں آفس میں کچھ کام تھا تو اس سے مل نہیں سکا ،مگر میں جلدی ہی آپ سے ملواؤں گا
اچھا ٹھیک ہے ابھی مجھے اور سمائرہ کو شاپنگ پر جانا ہے تو ہمارے ساتھ چلو
کیا یار مام میں نہیں جا رہا آپ لوگ اتنا ٹائم لگاتے ہو
ڈرائیور چھٹی پر ہے اور سمائرہ کی ڈرئیونگ پر مجھے زرا برابر بھی بھروسہ نہیں ہے اس لیے تم ہم دونوں کو لے کر جاؤ گے
کچھ نہیں ہوتا زیادہ سے زیادہ ایکسیڈینٹ ہی ہو جائے گا نہ اور کیا ہوگا۔۔ حنان نے ہنستے ہوئے کہا تو نوشابہ بیگم نے اسے گھورا
اوکے اوکے کب جانا ہے
بس کچھ دیر تک چلتے ہیں میں چینج کر لوں ۔
تھینک سمی میری ہیلپ کے لیے ۔ان کے اٹھنے کے بعد حنان سمائرہ سے بولا
مینشن ناٹ اپنی ہیر سے ملے ہو
کہاں یار آج سوچا تھا کہ جاؤں گا مگر اب تم لوگ اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہو باقی کا دن تو شاپنگ کی خواری میں نکل جائے گا ۔۔اس نے منہ بنایا
چلے لو ہمارے ساتھ کوئی گفٹ لے لینا اس کے لیے ۔سمائرہ کی بات پر اس کی آنکھیں چمکیں
جیو میری بہن ۔۔۔۔ کیا آئیڈیا دیا ہے ۔۔۔ اللہ تمہیں خوش رکھے، لمبی عمر دے اور اس کے بعد ساحل کی زندگی آسان فرمائے۔حنان شرارت سے کہتا ہوا باہر کی طرف بھاگا ۔پیچھے وہ دانت کچکچا کر رہ گئی