اچھا امی میں جا رہی ہوں شام تک واپس آ جاؤں گی خدا حافظ ۔زینی خالدہ بیگم سے بولی۔ ولید کو اچانک کہیں جانا پڑ گیا تھا اس لیے وہ راحم کے ساتھ جا رہی تھی
آپی مجھے بھی جانا ہے ۔ عیشا فٹ سے تیار ہوئی
ٹھیک ہے آ جا بس جلدی کر لو ابھی ہمیں فضہ کو بھی لینا ہے
خیر سے جاؤ اللہ کی امان۔ خالدہ بیگم نے انہیں الوداع کیا ابھی انہیں گئے ہوئے آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ افق آ گئی
کیسی ہیں پھپھو ۔۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو بھابھی کیسی ہیں انکو بھی ساتھ لے آتی۔
آپکو پتہ تو ہے وہ کسی مجبوری کی حالت میں بھی بڑی مشکل سے نکلتی ہیں
بھائی کی ڈیتھ کے بعد بھابھی نے خود کو بلکل ہی اکیلا کر لیا ہے خالدہ بیگم نے گہری سانس لی
پھپھو گھر میں اتنی خاموشی کیوں ہے میشا اور راحم کہاں ہیں
وہ تو زینی کے ساتھ گاؤں چلے گئے ہیں
بڑی کوئی ڈیش لڑکی ہے مجھے بلا کر خود چلی گئی ہے ۔افق بڑبڑائی
تم بیٹھو میں چائے بنواتی ہوں
نہیں میں پھر آجاؤں گی عیشا کہہ رہی تھی کہ زینی آپی آئی ہوئی ہیں تو میں نے سوچا ان سے مل لوں بس ایک بار بچپن میں ملی تھی ان سے۔ اب تو مجھے شکل بھی بھول گئی ہے
ہاں بیٹا وہ کافی دنوں کی آئی ہوئی ہے ۔ شام تک آ جائیں گے
ٹھیک ہے میں چلتی ہوں ۔
چلو جیسے تمہاری مرضی۔۔۔ بھابھی کو سلام دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم کیسی ہیں۔ زینی سمعیہ بیگم کے گلے ملی
میں ٹھیک ہوں اور اب تو آگئی ہے تو اور بھی ٹھیک ہو جاؤں گی انہوں نے اسکا ماتھا چوما
میں بھی آئی ہوئی ہوں ۔ فضہ نے انہیں ایک دوسرے میں مگن دیکھ کر منہ بسورا تو وہ مسکراتے ہوئے اسے بھی پیار کرنے لگیں
ماں میرے کو بھوک لگی ہے یہ فضہ کی بچی کی وجہ سے صبح سے ناشتہ بھی نہیں کیا
بسم اللہ ماں واری تمہارے آنے کا سن کر کھانا بنوا لیا تھا میں ابھی لگواتی ہوں ۔۔۔ سجیلہ بچے آگئے ہیں ،دسترخوان لگاؤ ۔انہوں نے ملازمہ کو آواز لگائی
راحم پترتم لوگ بھی منہ ہاتھ دھو کرآ جاؤ
جی چچی ۔ان سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا کھانا کھانے کے بعد وہ کافی دیر تک سمعیہ بیگم کے پاس بیٹھے رہے عیشا اور راحم کے کہنے پر وہ اسے گاؤں دکھانے لے گئے تھے
تمہیں پتہ ہے میرا اور فضہ کا زیادہ تر ٹائم یہاں گزرتا تھا بلکہ اب بھی جب ھم فارغ ہوتی ہیں تو یہاں آ جاتی ہیں ۔ زینی نے نہر کے کنارے لگے درختوں پر لگے جھولوں کی طرف اشارہ کیا
ہم دونوں یہاں بیٹھتےہیں پلیز آپ ہماری تصویریں لیں عیشا نے کہا وہ سب باری باری تصویریں لینے لگے کچھ دیر مزید گاؤں میں ٹھہر کر وہ لوگ واپسی کے لیے نکلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے آؤ آوروما ان سے ملو یہ ہماری کزن ہے سونیا نے زینی کو لاونج میں داخل ہوتے دیکھ کر اسے بلایا اور پاس بیٹھی روما سے تعارف کروانے لگی
اور زینی یہ میری کزن روما ہے ماموں کی بیٹی۔ تمہیں پتہ پورے خاندان کی لڑکیاں انکا سٹائل اور فیشن سینس فالو کرتی ہیں،زینی نے سونیا کے پاس بیٹی لڑکی کا بغور جائزہ لیا بلیک پھٹی جینز جو کہ پنڈلیوں تک آ رہی تھی پر ریڈ سلیولیس ٹاپ پہنے فل میک اپ کیے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی
اوہ تو یہ میک اپ کی فیکٹری تیری کزن ہے۔۔ سہی۔۔۔ یہ جینز پر سلائی تو لگا لیتی، پھٹی ہوئی ہی پہن کر آگئی ہے ۔ چل کوئی نہیں جلدی میں ہو جاتا ہے ،لا میرے کو دے میں ٹانکا لگا دیتی ہوں ۔ زینی نے چیونگم چباتے ہوئےہمدردی سے کہا ، تو روما کو شاک لگا کہاں وہ جہاں بھی جاتی لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی اسکے آگے پیچھے گھومتی تھیں
اسے فیشن کہتے ہیں مگر تم جیسی جاہل پینڈو کو کیا پتہ ۔۔۔۔۔ روما نے غصے سے سر جھٹکا
اے لو ۔۔۔ آج کل تو فیشن بھی بڑے ہی عجیب آ گے ہیں ۔کہیں بازو غائب ہیں تو کہیں پاجامے پھٹے ہوئے ہیں اور جینز بھی تُو نے کتنی چھوٹی پہنی ہوئی ہے ۔ دکان والے بھی نہ ، پیسے پورے لے لیتے ہیں مگر کپڑے آدھے پونے دیتے ہیں۔
یوایڈیٹ سٹوپڈ گرل ۔۔۔۔۔۔ روما نے غصے کی شدت سے بات ادھوری چھوڑی
تھینک یو تھینک یو۔۔زینی نے تپانے والی مسکراہٹ اسکی طرف اچھالی تو وہ تن فن کرتی باہر نکل گئی سونیا بھی اسے آوازیں دیتی اسکے پیچھےگئ
آپی یہ آپ نے کیا کیا ۔وہ ناراض ہوگی ہے ۔۔عیشا نے خفگی سے کہا
ہوتی ہے تو ہوتی رہے ،میرے کو پرواہ نہیں اور تو بھی اس سے زرا دور رہا کر ۔کوئی لوڑ نہیں سر پہ چڑھانے کی ۔۔منہ بگاڑتے ہوئے وہ ٹی وی آن کر کہ بیٹھ گئی
چلو بھی سارے پیچھے پیچھے ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔زینی نے چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھی
چائے تو اچھی بنی ہے ۔ ولید نے چائے کا گھونٹ لیا تو بے اختیار بولا
آخر کو بنائی کس نے ہے اور آپکو پتہ ہے میں نہ کھانا بھی بڑا اچھا بناتی ہوں ماں کہتی ہے مجھ سے اچھا کھانا کوئی نہیں بناتا کسی دن آپکو بنا کر کھلاؤں گی
ہاں بھئی گاؤں کی لڑکیوں کو کھانا بنانا برتن دھونا ہی تو آتا ہے ۔ایک یہی کام تو وہ اچھے سے کر سکتی ہیں ۔ سونیا نے روما کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ دبائی
ویسے آپ اس کے علاوہ کیا کرتی ہیں۔روما کے بھائی فرحان نے پوچھا
ہسپتال میں نوکری کرتی ہوں۔۔ اس نے نامحسوس انداز میں ولید کو دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا
کیا جاب کرتی ہیں
کم آن فرحان تم تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے یہ ڈاکٹر لگی ہوئی ہےآف کورس کوئی چھوٹی موٹی نرس ہی ہو گی ۔گاؤں کی لڑکیاں یا تو سکول ٹیچر ہوتی ہیں یا پھر نرسز ۔ سونیا نے ہنستے ہوئے اپنی ہی بات کا لطف لیا
ہاں سہی کہہ رہی ہے سونیا۔۔ زینی نے تردید نہیں کی تھی
لو پھر تو سبھی تمہیں سسٹر سسٹر کہتے ہوں گے نہ۔ آج سے ہم بھی کہیں گے تمہیں برا تو نہیں لگے گا۔ روما سونیا کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسی تو ولید نے ناگواری سے انہیں دیکھا
ہاں کیوں نہیں ویسے بھی جن کا اوپر کا خانہ خالی ہوتا ہے ان لوگوں کی باتوں کا برا نہیں مناتی بلکہ میری ساری ہمدردیاں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ زینی نے ایک جھٹکے سے پراندہ پیچھے پھینکا جو صائم کے منہ پر لگا
یو فول ایڈیٹ ۔۔۔ صائم نے اپنی پیشانی مسلی
اسکا کیا مطبل ہوتا ہے ۔زینی نے معصومیت سے پوچھا
اسکا مطلب ہے تم بہت اچھی ہو روما جلدی سے بولی
اوہ شکریہ سیم ٹو یو سیم ٹو یو ۔زینی نے سر کو ہلکا سا خم دیا تو سب کےہونٹوں پر دبی دبی ہنسی دیکھ کر صائم کا پارہ ہائی ہوا
شٹ اپ ۔اس نے کپ پٹخا اور اٹھ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمی کیا کر رہی ہو ۔حنان سمائرہ کے روم میں داخل ہوتے ہوئے بولا
کچھ نہیں بس ایسے ہی کیوں تمہیں کوئی کام تھا ۔۔۔۔۔۔
نہیں اور سناؤ کیا چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
بس وہی روٹین کا کام ۔۔۔۔ سمائرہ مسکرائی جانتی تھی اسے کوئی کام ہے
اچھا ۔۔۔۔۔۔۔
حنان کام کی بات کرو ۔۔۔۔
وہ میں کہ رہا تھا کہ تم اس سے بات کرو نہ ۔حنان ادھر ادُھر دیکھتے ہوئے بولا
کس سے۔۔ سمائرہ مصنوعی سنجیدگی سے بولی
سمی پلیز ۔ حنان نے بے بسی بالوں میں ہاتھ پھیرا
اوکےاوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔ویسے میرے پاس اسکا نہیں اسکی دوست فضہ کا نمبر ہے
تو تم اسے کال کر کہ لے لو
اچھا بابا کرتی ہوں کتنے بے صبرے ہو رہے ہو ۔ سمائرہ نے کہتے ہوئے نمبر ملایا
فضہ تمہاری کال آ رہی ہے ۔ ٹیرس پر بیٹھی زینی نے اسکا موبائل بجتے دیکھ کر آواز لگائی
کون ہے الماری میں سر دیے۔ فضہ نے پوچھا
پتہ نہیں کوئی ان نون نمبر ہے۔۔۔
اٹھا لو۔۔۔۔
نہ میرا ناول پیک پر ہے ہیرو ہیروئن کو پرپوز کرنے کی تیاری کر رہا ہے اس لیے میں بلکل بھی بریک نہیں لے رہی ۔ اس نے ناول سے سر اٹھائے بغیر جواب دیا
پلیز نہ میشو اٹھا لو ہو سکتا ہے کوئی ایمرجنسی ہو ۔۔
آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت الماری سیٹ کرنے میں مصروف ہے اور میرا ہیرو اس وقت اپنی ہیروئن پٹانے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے اس لیے میں بھی آپ سے بات نہیں کر سکتی ، اگر آپ کو ایمرجنسی نہیں ہے تو برائے مہربانی دس منٹ بعد کوشش کریں شکریہ ۔ کہتے ہوئے اس نے دوسری طرف کی سنے بغیر فون رکھ دیا
ہیں ۔۔سمائرہ نے فون کو گھورا ۔اسکی آواز سن کر حنان بے ساختہ مسکرایا ۔
تم دوبارہ کرو پلیز یہ پتہ کر دو وہ کہاں ہاوس جاب کر رہی ہے تھوڑی دیر گزرنے کے بعد حنان نے کہا ، سمائرہ نے دوبارہ کال ملائی تو دوسری طرف میشا نے بیل کی آواز سن کر بک پر سے نظریں ہٹائے بغیر ڈسکنکٹ بٹن پر ہاتھ مارا کال کٹنے کی بجائے ریسو ہوگئی
فضو تمہاری کال آ رہی ہے آ کہ اٹھا لو ورنہ میں نے موبائل ٹیرس سے نیچے پھینک دینا
اوئے نہیں میں آ رہی ہوں۔ فضہ نے جلدی سے کہا اسکے الٹے دماغ کا کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ واقعی ہی پھینک دیتی
ایک بات تو بتاؤ یہ تمہیں بڑے آدھی آدھی رات کو فون آنے لگے ہیں خیر ہے نہ۔کہیں کسی سے اکھیاں تو نہیں لڑا بیٹھی
بندے کی شکل اچھی نہ ہو تو بات ہی اچھی ہی کر لیتا ہے
الحمدللہ بہت کیوٹ ہوں کسی فیری کی طرح ۔۔ اس نےفخر سے کالر جھاڑے ۔انکی باتیں سنتے حنان نے دل و جان سے اسکی بات سے ایگری کیا
کسی لعنت برسی ہوئی فیری کی طرح کہو نہ ۔۔فضہ جل کر بولی
جلنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے ۔ زینی نے اطمینان سے کہا
بلکل جیسے تمہارا جل جل کر ہو گیا۔فضہ کہاں پیچھے رہنے والوں میں سے تھی
یہ پکڑ اپنا فون اور دفع ہو جا یہاں سے۔فون اٹھا کر اسے پکڑانے لگی تو کال چلتی دیکھ کر اسکا منہ کھلا اس نے جلدی سے سکرین فضہ کے سامنے کی تو وہ فون لے کر روم میں چلی گئی
ہیلو ۔۔۔۔۔۔کون بات کر رہا ہے
میں سمائرہ بات کر رہی ہوں اپکو یاد ہو گا ہم کچھ دن پہلے ریسٹورینٹ میں ملے تھے
اوہ ہاں کیسی ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔ فضہ نے بے اختیار میشا کی طرف دیکھا جو ناول میں سر دیے بیٹھی تھی وہ کمرے سے نکل کر لان میں چلی آئی
آپ کی وہ کزن میشا کیسی ہے
وہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔
آپ کہیں انگیجڈ وغیرہ ہیں۔۔کچھ دیر تک تعارف کے بعد سمائرہ مدعے پر آئی
آپ جس کا پوچھنا چاہ رہی ہیں ڈائریکٹ اسی کا پوچھ لیں ،ویسے وہ بھی ابھی تک سنگل ہے اسکےپیرنٹس اس کے لیے رشتہ دیکھ رہے ہیں ۔اسکی بات سن کر حنان نے کب کی روکی ہوئی سانسیں بحال کیں
اچھا ایک بات پوچھوں اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو ۔ سمائرہ ہچکچاتے ہوئے بولی
جی پوچھیں۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس دن میشا ایسے بیہیو کیوں کر رہی تھی لائک پنجابی گرل۔۔۔
وہ ایکچولی تایا جان آئی مین میشا کے بابا اسکا رشتہ اپنے بھتیجے سے کرنا چاہ رہے تھے وہ خود سیدھا انکار کر نہیں سکتی تھی اس لیے اس نے ان ایجوکیٹڈ ہونے کا ڈرامہ کیا چونکہ وہ بچپن سے ہی گاؤں میں رہی ہے تو اسکے کزنز وغیرہ کو نہیں پتہ کہ وہ ڈاکٹر ہے اس لیے اسکا ڈرامہ کامیاب رہا اور اس لڑکے نے اسکا لائف سٹائل دیکھتے ہوئے خود ہی انکار کر دیا
اوہ ہ ہ آئی سی ۔۔کچھ دیر تک ادھر ادھر کی باتوں کے بعد سمائرہ نے اس سے ہوسپیٹل کا نام پوچھ کر فون بند کر دیا
تو پھر باربی ڈول کل ملتے ہیں ۔ حنان آنکھیں بند کرتے ہوئےمسکرایا
یوں مسکرانے سے کچھ نہیں ہوگا اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں مل جائے۔ بے شک وہی دینے والا ہے
اس میں کوئی شک نہیں اور تھینک یو سو مچ میری ہیلپ کے لیے ۔۔۔سو جاؤ گڈ نائٹ باہر جاتے ہوئے حنان نے کہا
گڈ نائٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یارکوئی آئیڈیا دو ، میں کیسے اس سے ملوں ۔ رمیز کو ساتھ لیے اسکےہوسپیٹیل کے باہر پہنچ چکا تھا
ملنے کیا ضرورت ہے تم نے کہا تھا بس اسکو دیکھنا ہے تو وہ تو تم دور سے بھی دیکھ سکتے ہو
نہیں مجھے ملنا ہے ۔ اسکے رو برو بیٹھ کر دیکھنا ہے
تم پاگل ہو چکے ہو، علاج کرواؤ اپنا ۔۔۔۔۔۔ ویٹر کا حشر بھول چکے ہو،کیوں جوتے کھانے ہیں۔ رمیز نے سر جھٹکا ۔ یکدم حنان کی آنکھیں چمکیں
واہ یار کیا آئیڈیا دیا ہے چل آ جا ۔ حنان نے گاڑی کے بونٹ سے چھلانگ لگائی
کدھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تم نے ہی بولا نہ مجھے علاج کی ضرورت ہے
ہاں تو۔۔۔۔۔
تو یہ کہ آجاؤ چیک اپ کروا کر آتے ہیں ۔حنان ہوسپیٹیل کےاندر کی طرف بڑھا
میں دروازے کی سائیڈ پر بیٹھوں گا اگر بھاگنا پڑا تو آسانی رہے گی ۔ رمیز اس کے پیچھے آتے ہوئے بولا ۔ ریسپیشن پر جا کہ میشا کا روم پوچھ کر دوسرے فلور پر پہنچا تو سامنے سے اسے فضہ آتی دکھائی دی
آپ لوگ یہاں ۔ فضہ نے انکے پاس آتے ہوئے پوچھا
ہاں وہ ہم چیک اپ کے لیے آئے ہیں
کیوں کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان موصوف کو عارضہ قلب لاحق ہو گیا ہے اور کسی نے انہیں ڈاکٹر میشا کا نام تجویز کیا ہے۔۔ رمیز نے طنز کیا
اوہ ہ ہ ۔۔۔۔ فضہ نے ہونٹ سکیڑے
چلیں مل لیں وہ اندر ہی ہیں، بس تھوڑی احتیاط کیجیے گا ۔ایسا نہ ہو دل کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کا مسئلہ بھی بن جائے ۔آج تو ویسے بھی وہ ہیل پہن کہ آئی ہے
آپ پلیز ہمیں اندر تک چھوڑ دیں۔ رمیز جو ویسے ہی ڈرا ہوا تھا اوپر سے فضہ کی بات نے اسے مزید دہلایا
آئیں ۔وہ ان دونوں کو لیے اندر آئی
میشا پیشنٹس ہیں انہیں زرا چیک کر لینا اور پلیز اچھے سے کرنا میرے جاننے والے ہیں۔۔ فضہ نے کہا تو فون پر بات کرتی میشا نے سر ہلایا
آپ لوگ بیٹھیں میں چائے بھجواتی ہوں۔۔۔
اوکے ماما میں راحم یا ولی بھائی کے ساتھ آ جاؤں گی بائے۔۔ فون کاٹ کر وہ انکی طرف متوجہ ہوئی
ہاں تو مسٹر آپ میں سے پئشنٹ کون ہے
حنان نام ہے ۔۔ وہ جلدی سے بولا
اوکے مسٹر حنان ۔۔۔۔۔۔۔
آپ صرف حنان کہہ کر بلا سکتی ہیں ۔اس نے جلدی سے اسکی بات کاٹی
آپ یہاں آ جائیں میشا نے اپنے پاس رکھے مریضوں کی چئیر کی طرف اشارہ کیا ۔ حنان تو پہلے ہی دل و جان سے راضی تھا سو فوراً اُٹھ کر آ گیا اورہتھیلیوں پر گال ٹکائے فرصت سے اسے دیکھنے لگا
یہ کمینہ خود تو پٹے گا ہی ساتھ مجھے بھی پٹوائے گا ۔رمیز کیا ضرورت تمہیں ساتھ آنے کی ۔رمیز بڑبڑایا
حنان۔۔ میشا نسخے پر اسکا نام لکھتے ہوئے بولی
حنان جی کرے ۔ اس نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے جواب دیا تو رمیز کی آنکھیں اور منہ بیک وقت کھلا۔ اس نے جلدی سے میشا کی طرف دیکھا مگر اس کو متوجہ نہ پا کر گہرا سانس لیتے ہوئے حنان کے پاؤں پر اپنا پاؤں مارا تو وہ سیدھا ہوا
جی بتائیں کیا پرابلم ہے ۔۔۔۔۔۔
کچھ سمجھ نہیں آ تا ڈاکٹر۔۔۔۔۔ نہ نیند آتی ہے نہ ہی بھوک لگتی ہے، بیٹھے بیٹھے کہیں کھو سا جاتا ہوں ۔۔۔۔ ایک دم دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے
کب سے ہو رہا ہے ۔۔۔
جب سے آپ کو دیکھا ہے ۔۔۔۔
جی ۔ اس کی علامات نوٹ کرتی میشا نے سر اٹھایا تو وہ گڑبڑایا
مم میرا مطلب ہے تین چار دن سے ۔۔۔
ہممم ۔۔۔۔۔ بلڈ پریشر چیک کرنے کے لیے اس نے سفیگمومنومیٹر اسکے بازو کے گرد لپیٹا اور نبض چیک کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھایا اس نے جھٹ سے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔ رمیز نے کھانستے ہوئے اسے تنبیہ مگر وہ وہاں ہوتا تو سنتا۔
نہیں ہاتھ نہیں ،نبض چیک کرنی ہے ۔میشا مسکرا کر بولی اور اسکی نبض پر اپنا ہاتھ رکھا تو ایک دم حنان کی دھڑکنوں نے سپیڈ پکڑی
بلڈ پریشر تو نارمل ہے مگر حیرت کی بات ہے ہارٹ بیٹ اتنی زیادہ تیز ۔۔۔۔۔۔۔
خیر یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے زیادہ تر فاسٹ فوڈ کھانے سے ہو جاتا ہے میں کچھ میڈیسن لکھ دیتی ہوں آپ ریگولر لیں انشاء اللہ ٹھیک ہو جائیں ۔میشا نے نسخہ اس کی طرف بڑھایا
اتنی جلدی چیک اپ ہو بھی گیا
آپ غالباً چیک اپ کے لیے آئے تھے آپریٹ کروانے نہیں ۔۔۔۔ بظاہر مسکراتے ہوئے اس نے دانت پیسے
پھر کب آؤں ۔حنان نے جلدی سے پوچھا
اسکی ضرورت نہیں ہے ۔اسی میڈیسن سے ٹھیک ہو جائیں گے
آپ اب جا سکتے ہیں۔ اسکو اٹھتا نہ پا کر اس نے تحمل سے دروازے کا راستہ دکھایا اس کی حرکتیں دیکھ کر اپنے اندر کی زینی کو وہ کیسے دبائے بیٹھی تھی وہی جانتی تھی۔ اس وقت اسے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ کاش یہ ہوسپیٹل ماریہ کی بجائے اس کے باپ کا ہوتا تو وہ ریپوٹیشن کو تنور میں جھونکتے ہوئے ایک بار اس کے دل و دماغ پر چھائی گرد و غبار کی تہہ اتار کر رکھ دیتی
ااااا۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں مجھے پوچھنا تھا کہ پرہیز کیا ہے
کچھ خاص نہیں ، بس کچھ دن فاسٹ فوڈ سے گریز کریں
اچھا ۔۔۔حنان نے سر ہلایا اور نا چار اٹھ کھڑا ہوا مگر اگلے ہی لمحے وہ جھٹ سے بیٹھا
آپکی فیس کتنی ہے
میں فیس نہیں لیتی ۔اس نے گویا جان چھڑائی اور رمیز کی طرف دیکھا
تھینک یو ڈاکٹر وہ جلدی سے آگے بڑھا اور حنان کو بازو سے پکڑ کر باہر لے گیا
سب ٹھیک ہے نہ۔ دروازے کے باہر ٹہلتی فضہ انکے پاس آئی
اس نے اپنی طرف سے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر بچت ہو گئی ۔۔ رمیز گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولا
ٹھیک ہے ابھی تم لوگ جاؤ اس کا راؤنڈ ٹائم ہے تو وہ نکلنے والی ہو گی پھر ملیں گے۔اور ہاں میڈیکل سٹور یہاں سے دائیں طرف ہے
وہاں تک کون جائے گا اتنا ہی کافی ہے ۔اب کل ملیں گے
واٹ ۔۔۔ میں کل نہیں آنے والا آج پتہ نہیں کیسے جان بخشی ہو گئی ورنہ اس کے تیور مجھے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے
کس چیز کا اجلاس ہو رہا ہے یہاں پر ۔ میشا کی آواز پر وہ اچھلے
وہ ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ میڈیکل سٹور کا پوچھ رہے تھے کہ کس سائیڈ پر ہے ۔فضہ نے جلدی سے بات بنائی
یہاں سے سیدھا جا کر لیفٹ سائیڈ پر مڑ جایئے گا سامنے ہی ہے
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ حنان نے اطمینان سے سر ہلایا
جائیں۔۔ انکو کھڑا دیکھ کر بولی
وہ اصل میں میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اتنی مہنگی میڈیسن میں افورڈ نہیں کر سکتا اگر آپ میڈیسن دلوا دیں تو ۔۔۔۔۔ میرے پاس جیسے ہی ہوں گے میں لوٹا دوں گا ۔۔حنان نے خود پر بے بسی اور یتیمی طاری کی
رئیلی۔۔۔ میشا نے ابرو اچکاتے ہوئے برانڈڈ کپڑے اور جوتے پہنے ہاتھ میں رولیکس کی گھڑی باندھے اس مجبور اور لاچار کو دیکھا
میشی لے دو نہ کیسے بیچارے کے چہرے پر یتیمی برس رہی ہے ،اور تم تو ویسے بھی مستحق لوگوں کا فری علاج کرتی رہتی ہو۔ فضہ نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا
ہاں واقعی یہ مستحق ہے ۔رمیز مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا
پلیز پلیز میں آپکا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا ۔ وہ جلدی سے اس کی طرف بڑھا
اچھا اچھا وہی رکو ۔۔۔جاؤ فضہ اس کو لے دو ۔۔۔۔ دائم سے کہنا میں شام میں پیسے دیتی جاؤں گی
نہیں مجھے شبینہ آنٹی(ماریہ کی مما) بلا رہی ہیں وہیں جا رہی تھی کہ یہاں رک گئی تم چلی جاؤ۔فضہ نے حنان کا نفی میں ہلتا سر دیکھ کر انکار کیا
آؤ۔۔ میشا سٹور کی طرف بڑھی تو حنان بھی بازو ہوا میں بلند کر کہ بے آواز یس بول کر خود کو داد دیتا اسکے پیچھے چل دیا
…………….
مام آپکو ڈاکٹر میشا کیسی لگی ۔افق رافعہ بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی
بہت پیاری بچی تھی بات کر رہی تھی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی سحر پھونک رہا ہو
مام مجھے بھی وہ بہت اچھی لگی ،ایک بات بتائیں بھائی کے لیے کیسی رہے گی
بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر موحد بھی مانے تو نہ ۔۔
اوہو مام بھائی کو آپ چھوڑیں اور ویسے بھی مجھے لگتا آپ اپنی شرط بھول گئی ہیں بھائی نے کہا تھا اگر آپ ٹریٹمنٹ کے لیے مان جائیں تو وہ آپکی بات مان جائیں گے تو اب منوائیں نہ ان سے ۔۔۔۔ میں نے ڈاکٹر میشا سے اس دن نمبر لے لیا تھا ۔بس میں بات کرنے لگی ہوں۔ ۔موبائل اٹھا کر اس نے کال ملائی
کیا ہوا کال اٹینڈ نہیں کی اسکو فون رکھتا دیکھ کر رافعہ بیگم نے پوچھا
نہیں مام کال اٹھا نہیں رہیں ہیں
کون نہیں اُٹھا رہا کال موحد انکے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا
ڈاکٹر میشا کو کر رہی تھی
کیوں خیریت مام کی طبعیت تو ٹھیک ہے
ہاں بھائی وہ بلکل ٹھیک ہیں ایکچولی ہم نے یعنی میں نے اور مام سوچا ہے کہ اب اس گھر کی بہو آ جانی چایئے اس لیے انہیں کال کر رہی تھی
تو اسکا اس بات سے کیا لینا دینا
اسی کا ہی تو لینا دینا ہے اس سے بات کروں گی نام پتہ پوچھوں گی اور پھر رشتہ لے جائیں گے پھر آپکی شادی ہو گی ۔۔ سمپل
وہ تو جیسے تمہارے ہی انتظار میں بیٹھے ہوں گے ۔۔ تم اور تمہارے پلانز ۔۔ موحد نے اس کے سر پر چیت لگائی
دیکھ لیجیے گا ایسا ہی ہو گا آخر کو میرے بھائی میں کس چیز کی کمی ہے
چلو دیکھتے ہیں ابھی تو تم کھانا گرم کرواؤ مجھے بھوک لگی ہے
بس دو منٹ میں ریڈی کرواتی ہوں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو ڈاکٹر میشا ایک ایمرجنسی ہو گئی ،ڈاکٹر ماریہ اور فضہ کیمپ کے ساتھ گئی ہوئی ہیں اور ڈاکٹر فیضان بھی آؤٹ آف سٹی ہیں پلیز آپ جلدی سے آ جائیں ۔ سیپکر سے آتی سنئیر نرس کی پریشانی سے بھرپور آواز آئی تو وہ بے اختیار اٹھی
کیا ہوا خیریت ہے نہ سسٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ڈاکٹر روم نمبر فورٹین کے مریض کی حالت بگڑ رہی ہے اور وہ کسی بھی صورت میں انجیکشن نہیں لگوا رہی۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ۔ پلیز آپ آ جائیں
اوکےاوکےریلیکس میں دس منٹ میں آتی ہوں ۔اسے تسلی دیتے ہوئے فون رکھا۔ تیار ہو کر نیچے آئی تو کوئی بھی گھر پر نہیں تھا ۔ روڈ پر کھڑی کنوینس کا انتظار کر رہی تھی کہ راحم کی گاڑی آتی دکھائی دی ۔
خیریت زینی آپی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں ۔راحم نے اس کے پاس رک کر پوچھا
ہاں وہ مجھے ہوسپیٹل جانا ہے تم چھوڑ دو گے ۔۔ زینب موبائل پر انگلیاں چلاتے ہوئے مصروف انداز میں بولی ۔وہ اسکا لب و لہجہ سن کر ٹھٹکا ۔وہ کہیں سے بھی پینڈوزینی نہیں لگ رہی تھی
کیا ہوا ڈراپ کر دو گے ۔ اس نے اسے حیرانی سے خود دیکھتے پایا تو اس کے سامنے ہاتھ لہرایا
ہاں کر دیتا ہوں بیٹھیں ۔راستے میں اسے نرس کی دوبارہ کال آئی تو اس نے راحم کو سپیڈ تیز کرنے کہا ہوسپیٹل پہنچ کر وہ جلدی سے اتری اور تقریباً بھاگتے ہوئے اندر چلی گئی ۔راحم گاڑی ریورس کرنے لگا تو اسکی نظر ڈیش بورڈ پر پڑے موبائل پر پڑی
اوہ یہ اپنا موبائل یہی چھوڑ گئی ہیں اس نے موبائل اٹھایا گاڑی لاک کرتا ہوا وہ ہوسپیٹل کے اندر گیا
سسٹر زینب کہاں ملیں گی ۔اس نے رسیپشن پر بیٹھی لڑکی سے پوچھا
یہاں پر اس نام کی کوئی نرس نہیں ہیں۔ریسپشنسٹ پیشہ وارنہ مسکراہٹ سے بولی
انکا پورا نام میشازینب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوری سر اس نام کی بھی کوئی نرس نہیں ہیں، ہاں ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر میشازینب
آر یوشیور یہی نام ہے ۔راحم کو لگا اس نے شائد غلط سنا ہے
جی سر
یہی ہیں نہ راحم نے عیشا کے ساتھ کھڑی زینب کی پکچر اس لڑکی کے سامنے کی تو اس نے اثبات میں سر ہلایا
کہاں ملیں گئ
سکینڈ فلور پر جا کر بایئں سائیڈ پر تیسرا روم ہے
اوکے تھینک یو ۔وہ تیز تیز قدموں سے دوسرے فلور پر پہنچا اسکے روم میں پہنچا تو روم خالی تھا اس نے عیشا کو کال کر کہ دس منٹ میں وہاں پہنچنے کا کہا اور خود وہ وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا پندرہ منٹ کے بعد عیشا بھی آ گی اور مسلسل اس سے پوچھ رہی تھی کہ اسے یہاں کیوں بلایا ہے جس پر اس نے سرپرائز کا بولا ۔کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو وہ بے اختیار اٹھ کھڑی ہوئی۔میشا سفید کوٹ میں سٹیھتو سکوپ گلے میں لٹکائے نرس سے باتیں کرتی اندر آئی ، راحم اور عیشا کو کھڑا دیکھ کر چونکی ۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہے ہو ۔راحم تم گئے نہیں ۔اسکا انداز نارمل تھا
آپی آپ ۔۔۔آپ۔۔ عیشا شدید شاک کی حالت میں تھی اس لیے بات پوری نہ کر سکی
کیا میں ۔۔۔ اس نے ہلکا سا مسکرا کر اس کے بال بگاڑے
آپ ڈاکٹر ہیں اور ۔۔اور ہمیں جھوٹ کہا کہ آپ نرس ہیں ۔عیشا نے خفگی سے اسکا ہاتھ جھٹکا
میں نے کب کہا اور تم نے کب پوچھا مجھ سے جو میں نے جھوٹ بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اس دن آپ کہا تھا آپ نرس ہیں اور آپکا رہن سہن بھی تو ہم سے الگ تھا ۔۔۔۔
نہیں گڑیا میں نے کہا تھا ہوسپیٹل میں جاب کرتی ہوں اور مجھے سنے بغیر ہی تم لوگوں نے فرض کر لیا ۔ جہاں تک رہا سوال میرے رہن سہن کا تو وہ سیکرٹ ہے
گھر میں ماما بابا اور چاچی جانتے ہیں ۔۔۔۔۔اب اگر تم لوگ نہیں جانتے تو یہ تم لوگوں کا قصور ہے اپنے سے جڑے لوگوں کی خبر رکھنی چایئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم سب نے مجھے ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی رائے قائم کر لی تو میں نے بھی تردید نہیں کی ۔ اس نے اسے آئینہ دکھایا تو عیشا ڈھیلی پڑی
آئم سوری آپی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ہمیں جاننا چایئے تھا آپکو۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد عیشا نے اعتراف کیا
کوئی بات نہیں ۔۔ وہ اپنے ازلی انداز میں ہلکا سا مسکرائی اور فون اٹھا کر چائے کا کہا
اگین سوری عیشا سر جھکاتے ہوئے بولی
کم آن میرے لیے یہ ایک ایڈوینچر سے کم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔پھر انکی طرف تھوڑا سا جھکی کچھ دن اور یہ ایڈوینچر جاری رکھنے کے بارے میں کیا خیال ہے
بہت اچھا ہے ۔۔مزہ آئے گا ۔۔راحم ہنسا
ویسے آپ کو یہ پینڈو لڑکی بننے کا خیال کیسے آیا۔۔راحم نے دلچسپی سے پوچھا
جب ماما مجھے لینے گئی تھیں تو میں نے انکی اور ماں کی باتیں سنی تھیں کہ وہ میرا رشتہ صائم سے کرنے کے بارے میں بات کر رہی تھی ۔مجھے یقین تھا کہ اگر میں اپنے اصل حلیے میں اس کے سامنے جاؤں گی تو وہ کوئی اعتراض نہیں کرے گا ، اس لیے لک چینج کرنی پڑی کیونکہ میں اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولایتی باندر سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ عیشا نے ہنستے ہوئے بات پوری کی تو کمرہ ان تینوں کے قہقوں سے گونج اٹھا
سیریسلی آپی ولایتی باندر۔۔ راحم نے ہنستے ہوئے دائیں بائیں سر ہلایا
واہ بھئی یہاں پر تو گیسٹ آئےہوئے ہیں ۔ فضہ اندر آتے ہوئے بولی
تم لوگ کب آئے ۔ میشا اٹھ کر اس سے گلے ملی
ہم نہیں بس میں ہی آئی ہوں خالہ کی طبعیت خراب ہوگی تھی اس لیے میں واپس آ گئی ہوں۔
اوہ اب کیسی ہیں آنٹی
اب ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔۔اور تم لوگ آج یہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہو
چھاپہ مارا ہے انہوں نے
اچھا آپی میں چلتی ہوں مجھے راحم نے یونی سے بلوایا ہے۔ عیشا اٹھ کھڑی ہوئی
میں بھی چلتا ہوں
میں تم لوگوں سے امید رکھوں کہ اپنا اپنا منہ بند رکھو گے۔
بلکل اور اگر آج شام اچھا سا ڈنر ہو جائے تو پکے والابند ہو جائے گا راحم شرارت سے بولا
اوکے باس مجھے پک کر لینا یہیں سے۔
ٹھیک ہے بائے ۔۔ان دونوں کے جانے کے بعد میشا نے مسکراتے ہوئے کرسی پر ٹیک لگائی