وہ انہیں لے کر ہوسپیٹل پہنچی ۔اپنی باری پر وہ رافعہ بیگم کی وہیل چئیر گھسٹتے ہوئے اندر داخل ہوئی تو ایک چوبیس پچیس سالہ خوش شکل سی لڑکی بیٹھی فائل دیکھ رہی تھی انکو دیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی ۔
انکی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں حیران ہوں کہ ابھی تک انکا ٹریٹمنٹ کیوں نہیں شروع کروایا گیا۔لاپرواہی کی حد ہے ۔آپ لوگوں نے .ڈاکٹر میشا انکی رپورٹس تفصیل سے سٹڈی کرنے کے بعد بولیں
ہم تو انہیں کئی بار کہہ چکے ہیں ڈاکٹر مگر یہ مانتی ہی نہیں ہیں اب بھی پتا نہیں بھائی نے کن شرطوں پر انہیں منوایا ہے
ارے یہ تو بہت بری بات ہے ۔۔ساری زندگی معذوری کے ساتھ تو نہیں گزاری جا سکتی نہ وہ بھی اس صورت میں جب آپ ٹھیک ہو سکتے ہوں۔ ابھی تو آپکے بچے آپکو سپورٹ کرتے ہیں خیال رکھتے ہیں مگر کل جب یہ اپنے گھر بار والے ہو جائیں گے تو انکی توجہ بٹ جائے گی پھر آپ کے لیے ہی مشکل ہو گی کون آپ کو ہر وقت سنبھالے گا ۔میشا نے ٹیبل پر کہنیاں رکھتے ہوئے نرمی سے کہا
بہت سے ڈاکٹرز کو دکھا چکی ہوں مگر کچھ فرق نہیں پڑتا اور ویسے بھی اب زندگی رہ ہی کتنی گئی ہے جو ہے جیسی گزر رہی ہے بس اتنا کافی ہے
آپ تو ماشاءاللہ سے پڑھی لکھی باشعور خاتون ہیں۔ اس کے باوجود مایوسی والی باتیں کر رہی ہیں ۔آپ کو پتہ ہے نہ مایوسی کفر ہے انسان کو آخری لمحے تک کوشش کرنی چایئے ۔ کم از کم اس بات کا قلق تو نہ رہے کہ اس نے ایک آخری کوشش بھی نہیں کی تھی ۔
اور پھر جب آپ کل کو بہو لائیں گی تو آپکو تو نہیں پتہ ہوگا کہ اس کی نیچر کیسی ہے ہو سکتا ہے وہ آپکی زمہ داری نہ لے اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کل کلاں کو آپ کا بیٹا ہی تنگ آ جائے ۔۔۔
میم ہم اولاد کا اتنا حوصلہ نہیں ہوتا کہ اپنے بوڑھے بیمار والدین کی زیادہ دیر تک خدمت کر سکیں بہت جلد جھنجھلا جاتے ہیں۔ یہ صرف ماں باپ کا ہی کلیجہ ہوتا ہے کہ اولاد اگر نقص زدہ بھی ہو تو ساری عمر کسی قیمتی شے کی مانند اسے سینے سے لگائے زمانے کی سرد و گرم ہوا سے محفوظ رکھتے ہیں ۔۔۔
کبھی سنا ہے کہ کوئی والدین اپنے بیمار یا معذور بچے کو دارالامان یا کسی چائلڈ سنٹر چھوڑ آئے ہوں البتہ ہمارے اولڈیج ہوم اور ایدھی سنٹرزمیں آپکو کئی بزرگ مرد و خواتین ملیں گے جن کی اولاد انہیں ناکارہ اور خود پر بوجھ سمجھتے ہوئے چھوڑ جاتے ہیں ۔
ہو سکتا ہے کہ آپکو میری باتیں پسند نہ آ رہی ہوں مگر آپ ایک بار سوچئیے گا ضرور۔
باقی میں آپکو فورس نہیں کر رہی کیونکہ میرے یا کسی دوسرے کے کہنے سے آپ ٹھیک نہیں ہوسکتیں ، جب تک آپ خود نہ چاہیں۔اسکے لہجے کی حلاوت اور نرمی انہیں اپنے اندر اترتی محسوس ہو رہی تھی
ٹھیک ہے بیٹا میں تیار ہوں۔۔ افق رافعہ بیگم کے چہرے پر سکون دیکھ کر چونکی
آر یوشیورمیم ۔۔ڈاکٹر میشا ہلکا سا مسکرائی۔۔
یہ خود پیاری ہے یا اس کی مسکراہٹ زیادہ پیاری ہے ۔افق نے بے اختیار سوچا
یس ڈاکٹراور پلیز آپ مجھے بار بارمیم نہ کہیں۔ آنٹی کہہ کر بلا سکتی ہیں
اوکے۔ اس نے سر کو خم دیا ۔ بھائی نے سہی کہا تھا یہ ماما کو تیار کر لیں گی واقعی انہیں دل جیتنے اور قائل کرنے کا فن آتا ہے ۔کسی کو خاطر میں نہ لانے والی افق دل ہی دل میں اسکی معترف ہو رہی تھی
میں آپکو ایک ڈاکٹر ریکمنڈ کر دیتی ہوں آپ ان سے مل لیں یا پھر اگر آپ چاہیں تو کسی بھی اسپیشلسٹ کو چیک کروا لیں۔ انشاءاللہ کچھ ہی منتھ تک آپ پھر سے چلنا پھرنا شروع ہوجائیں گی
انشاءاللہ۔۔۔۔۔ آپ کا پرسنل نمبر مل سکتا ہے اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو۔۔ افق کچھ جھجکتے ہوئے بولی
شیور وائے ناٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہوئے اس نے اپنا نمبر لکھوایا
تم سچ کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔
ہاں بھائی بلکل سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا کہ ماما اتنی آسانی سے مان گئیں۔ موحد بے یقین تھا
یقین تو مجھے بھی نہیں آیا تھا جب ماما نے ہاں کی تھی ۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک بات ہے اسکا کریڈٹ تو ڈاکٹر میشا کو جاتا ہے ۔جس طرح سے وہ بات کرتی ہیں نہ دل کرتا ہے بندہ سنتا ہی رھے ۔مجھے تو وہ بہت پسند آئی
یااللہ خیر آج تو مجھے شاک پر شاک مل رہے ہیں پہلے مام اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں وہ پسند آئی جسے اپنے علاوہ کوئی اچھا ہی نہیں لگتا
آپ ان سے ملیں گے تو آپ بھی یہی کہیں گے۔ یار بھائی انکی تو مسکراہٹ ہی جان لیوا ہے ۔افق تو جی جان سے فدا ہوچکی تھی
چلو دیکھتے ہیں پھر ۔۔۔اور تم مام کو ریگولر اور ٹائم پر میڈیسن دینا،خدا خدا کر کے تو وہ تیار ہوئی ہیں میں یہ چانس مس نہیں کر سکتا ۔
آپ فکر مت کریں میں پورا خیال رکھوں گی ۔۔۔۔۔
………………………………………….
واٹ۔۔۔۔ ماما یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں
بیٹا اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے تمہیں کسی نہ کسی تو شادی کرنی ہے تو پھر زینی کیوں نہیں
ماما یہ آپ کہہ رہی ہیں وہ ال مینرڈ پینڈو لڑکی ہی میرے لیے رہ گئی ہے۔ صائم نے بے یقینی سے رفعت بیگم کو دیکھا
آہستہ بولو کوئی سن لے گا
کوئی سنتا ہے تو سنے مجھے پراوہ نہیں ہے میں حیران ہوں کہ آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے
یہ میری ہی نہیں تمہارے چاچو کی بھی خواہش ہے اور انہوں نے زینی کو بلایا ہی اس لیے ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کو جان لو سمجھ لو تو پھر کوئی چھوٹی سی تقریب رکھ کر منگنی کر دیں گے
اوہ تو یہ بات ہے ۔۔۔چاچوساری زندگی کیے گئے احسانوں کا بدلہ اپنی جاہل گنوار بیٹی کو میرے پلے باندھ کر لیں گے واہ کیا پلانگ ہے۔۔میں آپ سے کہتا تھا نہ انکی خود غرضی ایک دن کھل کر سامنے آ جائے گی ۔ صائم استہزایہ ہنسا
ایسی بات نہیں ہے بھائی صاحب سے میں نے ہی بات کی تھی
مام پلیز مجھے نہیں کرنی ہے اس سٹوپڈ لڑکی سے شادی ،جسے نہ اٹھنے بیٹھنے کی تمیز ہے اور نہ بات کرنے کی ۔
تم جن چکروں میں ہو مجھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے ۔اپنی بھابھی کو میں تم سے زیادہ جانتی ہوں وہ جو تمہارے صدقے واری جاتیں ہیں نہ تمہارے بابا کی ڈیتھ کے بعد آٹھ دن سے زیادہ برداشت نہیں کیا تھا انہوں نے تب تمہارے اسی چاچو نے آگے بڑھ کر تم دونوں بہن بھائیوں کے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔ میری ایک بات یاد رکھنا وہ ماں بیٹی نہ تو تمہیں گھر کا چھوڑیں گی اور نہ گھاٹ کا ۔
اور کیا یہ بار بار تم اسے جاہل گنوار بول رھے ہو جانتے بھی وہ ایک ۔۔۔۔۔
میرے کو اندازہ نہیں تھا کہ تیرے اندر اتنا زہر بھرا ہے۔ سہی کہتے ہیں بیگانی اولاد کے لیے جتنا بھی کر لو رہتی وہ بیگانی ہی ہے اور تُو نے تو کم ظرفی اور احسان فراموشی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں
میرے بابا کی ساری عمر کی محنت اور ریاضت کو خود غرضی کا نام دے دیا۔کافی دیر سے دروازے پر کھڑی زینی کہتے ہوئے اندر داخل ہوئی تو رفعت بیگم کی رنگت پھیکی پڑی
نہیں بیٹا اس کا وہ مطلب نہیں تھا
خوب جانتی ہوں اسے بھی اور اسکے مطلب کو بھی۔۔۔
ہاں تو کیا غلط کہہ رہا ہوں میں خود کو دیکھو اور مجھے دیکھو زمین آسمان کا فرق ہے ۔وہ خود کو آسمان اور اسے زمین کہہ رہا تھا۔
تو کیا چاچو کو یہ فرق نظر نہیں آ رہا یا پھر وہ جان کر انجان بن رہے ہیں ظاہر سی بات تمہارے لیے مجھ سے اچھا لڑکا انہیں کہاں ملے گا
صائم بہت ہو گیا بس کرو ۔رفعت بیگم نے اسکی زہر اگلتی زبان کو لگام دینی چاہی
بولنے دیں اسے چاچی میں بھی تو سنوں کیا سوچتا ہے یہ ہمارے بارے میں اور جہاں تک رہی بات تم سے شادی کی تو تمہیں کیا لگتا ہے میں تجھ جیسے خود پسند انسان سے شادی کروں گی تو بھول ہے تیری زینی تیرے جیسے گھٹیا زہنیت رکھنے والے انسان کے ساتھ ایک پل نہ گزارے کجا ساری زندگی۔۔۔۔۔ کسی بھول میں نہ رہنا
اور میری ایک بات کان کھول کر سن لو یہ جو تمہارے دماغ میں خناس بھرا ہوا ہے نہ اسکو خود تک ہی محدود رکھنا میرے ڈیڈ کے کانوں تک نہیں پہنچے ۔۔۔۔ زینی نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا اور پراندہ جھلاتی باہر نکل گئی صائم نے سر جھٹکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیشا زینی کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ شیشے کےسامنے کھڑی بال برش کر رہی تھی
واو آپی آپکے بال کتنے لمبے اور پیارے ہیں ۔۔۔۔ عیشا نے اسکے لمبے گھنے بالوں کو ستائشی نظروں سے دیکھا
آپی انہیں کھلا چھوڑ دیں نہ اچھے لگ رہے ہیں خوامخواہ یہ پراندہ پہن کر گھومتی ہیں
مجھ سے نہیں کھلے بال سنبھلتے اور پھر ماں کہتی ہیں لڑکیوں کو بال باندھ کر رکھنے چاہیں نظر لگ جاتی ہے ۔ زینی نے پراندہ لگاتے ہوئے جواب دیا
آپی اپکو پتہ ہے صائم بھائی نے انکار کر دیا ہے ابھی تائی جان نے بابا کو جواب دیا ہے
صیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکو برا نہیں لگا انہوں نے اپکوریجیکٹ کر دیا
نہیں بلکہ اس نے میری خواہش پوری کی ہے اور میں جانتی تھی وہ انکار ہی کرے گا ۔۔
آپ ایسا کیوں چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔
پہلی ملاقات میں ہی اس کی فطرت سمجھ گی تھی اور تُجھے اندازہ نہیں کہ اسکا انکار سننے کے لیے میرے کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔ زینی متسبم لہجے میں بولی
ہیں ۔۔۔۔عیشا نے الجھ کر اسے دیکھا
خیر اسے چھوڑ یہ بتا تُوکہیں جا رہی ہے۔عیشا کی تیاری دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا
ہاں میں افق کے ساتھ شاپنگ کے لیے جا رہی ہوں آپ چلیں گی
دیکھ لے میرے ساتھ جانے سے تجھے شرمندگی نہ ہو
آپی آپ ایسا کیسے سوچ سکتی ہیں ۔ میری بڑی بہن ہیں آپ، اور کیا ہے آپکو جو آپ کے ساتھ شرمندگی ہو گی ،اتنی پیاری تو ہیں ۔عیشا نے اسے نارضگی سے دیکھا
اچھا بابا سوری۔زینی نے کان پکڑے
آپ نے آج تو یہ بات کی ہے آئندہ مجھ سے ایسا کچھ مت کہیے گا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی
اوکےاوکے۔ زینی نے ہاتھ کھڑے کیے
ایسا ہے کہ آج تو میرے کو فضہ کے ساتھ جانا ہے اسکو کچھ کام ہے ۔ تیرے ساتھ پھر کبھی چلی جاؤں گی ایسا کرنا میری کچھ چیزیں ختم ہوگئی ہیں وہ لیتی آنا
چلیں ٹھیک ہے لسٹ بنا کر دے دیں میں لے آؤں گی
یہ تم نے اتنے سارے آئلز کیا کرنے ہیں ۔ افق نے اسکو چار پانچ مختلف ہیر آئلز کی بوتلیں اٹھاتے دیکھ کر پوچھا
زینی آپی نے منگوائے ہیں
گاؤں بجھوانے ہیں ۔۔افق نے پوچھا
وہ آج کل یہاں آئی ہوئی ہیں ماما نے بتایا نہیں
میں آوٹ آف سٹی گئی ہوئی تھی کل ہی واپس آئی ہوں شائد مام کو پتہ ہو
تو تم چلو گھر مام سے بھی مل لینا اور آپی سے بھی
نہیں آج مام کی اپائینٹمنٹ ہے تو مجھے انکے ساتھ جانا ہے پھر کبھی آؤں گی
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری جاب کیسی جا رہی ہے زینی بیٹا ۔ فاروق صاحب نے موبائل میں سر دیے بیٹھی زینی سے پوچھا۔
اچھی جا رہی ہے ۔اس نے مختصر جواب دیا
ہاوس جاب کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے ۔ان کی بات پر ولید نے حیرت سے زینی کو دیکھا۔
کسی ہوسپیٹل میں جاب کروں گی ۔۔۔۔۔
سیپشلائزیشن یا پھر اپنے ہوسپیٹل کے بارے میں کیا خیال ہے
خیال تو بہت اچھا ہے۔ بابا بھی کہہ چکے ہیں مگر میں انہیں تنگ نہیں کرنا چاہتی ۔اور میری ابھی ہاوس جاب چل رہی ہے تو میرے پاس بھی اتنا پیسہ نہیں ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی چوز کر سکوں
تمہارے پاس نہیں ہے تو کیا ہوا ۔تمہارے ڈیڈ کے پاس تو ہے ۔دونوں میں سے جو بھی کرنا چاہو مجھے بتا دینا۔
جانتی ہوں میرے ڈیڈ کے پاس بہت پیسہ ہے مگر انکا پیسہ اور وقت صرف انکے بھتیجوں کے لیے ہے انکی اپنی اولاد اس سے مستشنی ہے آپ فکر مت کریں میں خود ہی دیکھ لوں گی ۔آپ اپنی زمہ داریاں نبھائیں۔ زینی سپاٹ لہجے میں کہتی اٹھ گئی۔خالدہ بیگم نے افسوس سے انہیں دیکھا جنہوں نے اپنے بھائی کی اولاد کے لیے اپنی اولاد کو پس پشت ڈال دیا ۔اور جن کے لیے اپنی اولاد کو خود سے دور کیا وہ انہیں خود غرض اور مطلبی سمجھتے ہیں۔۔
یقین نہیں آ رہا میری یہ جھلی سی بہن ڈاکٹر ہے ۔ ولید اسکے پاس بالکنی میں آ کھڑا ہوا زینب نے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کیں
کیوں مجھے کیا ہے ۔زینی نے اسے خفگی سے دیکھا۔
نہیں وہ تمہارا جو لائف سٹائل اور لینگویج تھی تو مجھے لگا شائد تم ۔۔ولید نے بات
ادھوری چھوڑی۔
شائد تم ان پڑھ جاہل گنوار ہو ۔۔ بات پوری کریں نہ .زینی نے اسے گھورا تو ولید ہنسا
ظاہری سی بات ہے جس طرح کا تمہارا فرسٹ امپریشن تھا ،تو یہی لگا۔ ولید بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا
ہمارا المیہ ہی یہی ہے کسی کو جانے پرکھے بغیر ہی صرف اس کے ظاہری حلیے کو دیکھتے ہوئے جج کرتے ہیں اور پھر ساری زندگی اس کے اسی خاکے کو لے کر چلتے ہیں ۔ بے شک چمک دھمک اور دیدہ زیب پیکنگ کے اندر چیز خراب ہی کیوں نہ ہو مگر چوز وہی کرنی ہے
کہاں جاب کر رہی ہو ۔ولید نے پوچھا
میری ایک کالج فیلو ہے ڈاکٹر ماریہ اسکے مام ڈیڈ کا ہوسپیٹیل ہے وہیں ہوتی ہوں میرے ساتھ فضہ بھی ہے
فضہ کون ۔۔۔
کیا ہو گیا بھائی ہارون بابا کی بیٹی فضہ کی بات کر رہی ہوں
اوہ اچھا۔۔۔۔
ہاں آپکو کیا پتہ آپ اپنی سگی بہن سے غافل رہے ہیں وہ تو پھر کزن ہے۔زینی نے شکوہ کیا تو ولید خجل ہوا
اور اسکے بعد ۔۔۔۔۔۔
انکل کہہ رہے تھے کہ اگر ہم اپنی جاب جاری رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں ۔
ڈیڈ کہہ تو رہے ہیں اگر تم چاہو تو وہ ہوسپیٹل بنوا کر۔۔۔۔۔۔۔
پلیز بھائی جب انکی ضرورت تھی تب انہوں نے کچھ کیا نہیں تو اب مجھے بھی انکے احسان کی ضرورت نہیں ہے۔ زینی نے اسکی بات کاٹی
گاؤں میں رہنے کا فیصلہ تمہارا اپنا تھا ۔اس بات سے تم انکار نہیں کر سکتی
بھائی کوئی بھی انسان چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا وہیں جاتا ہے جہاں اسے محبت اور شفقت ملتی ہے جو کہ مجھےاپنے ڈیڈ کی بجائے چاچو میں نظر آئی ۔ ٹھیک ہے تایا جان کی ڈیتھ کے بعد ان پر تائی لوگوں کی بھی زمہ داری آ گئی تھی وہ نبھاتے اپنی زمہ داریاں مجھے کبھی بھی اس بات سے کوئی پرابلم نہیں رہی ہے مگر کم از کم اپنی اولاد کو تو اگنور نہ کرتے ۔اپنے بچوں کے حصے کا پیار بھی انہوں نے بھائی کے بچوں پر لٹا دیا ۔ولید نے گہری سانس لی اس بات کا شکوہ تو اسے بھی ہمیشہ سے رہا ہے
آپکو نہیں پتہ جب کبھی میں سکول کالج میں لڑکیوں کو اپنے باپ بھائیوں کے ساتھ آتے جاتے دیکھتی تھی تو مجھے کتنی شدت سے کمی محسوس ہوتی تھی اس لحاظ سے راحم اور عیشا خوش قسمت ہیں، آپ لوگوں کے ساتھ تو رہے ہیں ۔ زینی نے آنکھوں میں آئی نمی صاف کی
آئی ایم سوری ۔تم دل چھوٹا مت کرو تمہارا بھائی ہے نہ ۔۔۔ولید نے اسے نرمی سے اپنے بازو کے حصار میں لیا
واہ بھئ بڑی لاڈیاں چل رہی ہیں عیشا کی آواز پر دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کمر پر ہاتھ رکھے انہیں گھور رہی تھی
تم جیلس ہو رہی ہو ۔ولید ہنستے ہوئے بولا
کیوں نہ آئس کریم کھانے چلیں۔عیشا نے آنکھیں گھمائیں
ہاں کیوں نہیں تم لوگ تیار ہو کر آ جاؤ اور راحم کو بھی بلا لاؤ میں نیچے ویٹ کر رہا ہوں ۔ولید ان سے کہتا نیچے چلا گیا
آپ لوگ کہیں جا رہے ہیں سونیا نے ولید اور عیشا کو تیار کھڑا دیکھ کر پوچھا
ہاں ہم لوگ باہر جا رہے ہیں۔ ولید نے جواب دیا
ٹھیک ہے پھر میں بھی آپکے ساتھ چلتی ہوں۔سونیا فوراً تیار ہوئی
ان بہن بھائیوں نے رنگ میں بھنگ ضرور ڈالنا ہوتا ہے۔ عیشا راحم کہ کان میں گھسی۔۔۔
نہ کیوں۔۔۔۔ تو ہمارے ساتھ کیوں جائے گی ۔۔۔۔ تو نہیں جا سکتی ۔ سیڑھیاں اترتی زینی نے اسے ساتھ لے جانے سے صاف انکار کیا