نکاح کے بعد حنان کواس کے ساتھ اور موحد کو عیشا کے ساتھ بٹھا دیا گیا البتہ سمعیہ بیگم اس کے پاس بیٹھی رہیں موحد اور عیشا کی انگوٹھیوں کے تبادلے کے بعد جب ان دونوں کی باری آئی تو سمائرہ نے رنگ نکال کر حنان کو تھمائی
میشا ہاتھ آگے کرو ۔سمائرہ نے حنان کو ہاتھ پھلائے بیٹھا دیکھ کر کہا تو میشا نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا
کیوں سانپ کی کھوہ میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہو ہمارا کام یہاں تک ہی تھا وہ خودپہنا لے گا ماں کو اسی لیے پاس بٹھایا ہے ۔فضہ نے اسے کہنی ماری
بیٹا ہاتھ آگے کرو۔ سمعیہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے کیا تو حنان نے اسے رنگ پہنائی
اب تم پہناؤ انہوں نے رنگ میشا کو دی تو اس نے اسکا ہاتھ پکڑے بغیر رنگ پہنا دی
یہ پہنائی ہے یا منہ پر ماری ہے ۔حنان نے اس کا موڈ چیک کرنے کے لیے اس کی طرف جھک کر سرگوشی کی مگر اس کی طرف سے جواب نہ پا کر گہری سانس لے کر رہ گیا
ماں میں بہت تھک گئی مجھے روم میں جانا ہے
ہاں کیوں نہیں بیٹا فضہ یہاں آؤ بہن کو کمرے میں لے جاؤ
جی ماں۔ فضہ نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا تو اس نے اس کا ہاتھ جھٹکا
میں اندھی نہیں ہوں چل سکتی ہوں اس لیے ایسے ڈرامے مت کرو
میشو مہمان بیٹھے ہیں۔ فضہ نے ادھر ادھر دیکھے کہا
اسی لیے تو ابھی تک تم اپنی یہ گندی شکل سلامت لے کر گھوم رہی ہو
کیا بات ہے بیٹا کھڑی کیوں ہو۔ اس کو کھڑا دیکھ کر سمعیہ بیگم نے کہا
کچھ نہیں ماں بس ایسے ہی چلو میشا۔۔ وہ اسے کمرے کے کےدروازے باہر ہی چھوڑ کر نو دو گیارہ ہو گئی
حنان مجھے لگتا ہے تم واقعی ہی اپنے آپ سے روٹھ چکے ہو تمہیں کیوں اپنی سلامتی اچھی نہیں لگ رہی ۔ فضہ نے اسے گھورا
جانتا ہوں یار وہ بہت غصے میں ہوگی مگربات توکرنی ہے نہ زیادہ سے زیادہ چیخے گی غصہ کرے گی یا پھر تھپڑ مار دے گی نو پرابلم میں کھا لوں گا
کتنا ہلکا لے رہے تم اسے ۔ تمہیں کیا لگتا ہم سب نے مل کر جو کیا ہے اس کا اتنا ٹھنڈا ری ایکشن دے گی۔
اچھا تم جاؤ نہ پتہ کر کہ آؤ کیسا موڈ ہے
اب اگر تمہیں ننگی تاروں کو چھونے کا شوق ہو رہا ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں فضہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی
میشا تمہیں کچھ چایئے تو نہیں ۔فضہ نے دروازے سے جھانک کر پوچھا۔البتہ اندر جانے کا رسک نہیں لیا تھا
نہیں اور تم بھی کوشش کرنا کہ جب تک مہمان ہیں تم مجھے میرے آس پاس نظر نہ آؤ ، ہاں جیسے ہی مہمان رخصت ہوں شرافت سے یہاں آجانا کیوں کہ اس کلائمکس کو سوچ سوچ کر جتنا میں ہلکان ہوتی رہوں گی اتنا ہی تمہاری صحت کے لیے مضر ہوگا ۔دوپٹہ اتار کرسائیڈ پر رکھتے ہوئے اس نے کہا تو وہ سو کی سپپیڈ سے واپس مڑی
ہاں کیا ہوا
مطلع خاصا ابر آلود ہےوہ جو کالے بادل ہوتے ہیں جن سے چھاجوں چھاج مینہ برستا ہے سیم ویسے ہی بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ گرج چمک کے ساتھ طوفانی
بارش کا امکان ہے ایسے میں اگر تم انٹری دو گے تو اولے بھی برس سکتے ہیں۔
میں دیکھتا ہوں
حنان اس کے کمرے میں آیا تو وہ جیولری اتارنے میں مصروف تھی
کیسی ہو۔ اس سے کچھ فاصلے پر رک کر پوچھا
میں بھی ٹھیک ہوں ۔پہلے نہیں تھا مگر اب ٹھیک ہوں اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے اپنی خیریت خود ہی بتائی
اااا ۔ویسے اچھی لگی رہی تھی ۔ میشا نے خاموشی سے جیولری اٹھا کر دراز میں ڈالی اور بالوں سے پنیں اتارنے لگی
نہیں اچھی نہیں بہت پیاری لگ رہی تھی باربی ڈول کی طرح، مگر اس کی طرف سے مسلسل خاموشی پا کر وہ بھی چپ ہوا
مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہمارا نکاح ہو گیا ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ بولا۔ غلط وقت پر غلط بات اس کے منہ سے نکلی تھی میشا نے برش ٹیبل پر پٹخا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔وہ جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹا
حنان ۔۔ میٹھا شہد ٹپکاتا لہجہ تھا
جی ۔۔وہ جی جان سے متوجہ ہوا
یہاں سے پانچ قدم پیچھے لو
ہیں۔۔۔ اس نے اس کی عجیب و غریب بات پر اسے دیکھا
لو نہ۔۔۔ مسکراتے ہوئے کہا گیا وہ پانچ قدم پیچھے ہوا
باہر نکلو ۔۔
اب ۔ اس نے باہر نکل کر ہوچھا
دروازہ بند کردو ۔اگلا آرڈر دیا گیا
تم مجھے روم سے نکال رہی ہو ۔ حنان منہ بسورتے ہوئے وہ دوبارہ اندر آیا
گیٹ آؤٹ۔ ابھی اس نے دوسرا پاؤں اندر رکھا ہی تھا کہ میشا نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں کہا تو وہ جلدی سے باہر نکلا
میشو بات تو سنو
آئی سیڈ آؤٹ۔۔۔ تمہاری شکل نظر نہیں آنی چایئے ورنہ منہ توڑ دوں گی
میشا ۔ اس کو وہیں کھڑا پا کر اس نے اٹھ کر زور سے دروازہ بند کیا ٹھاہ کی آواز پر وہ اچھلا
کمال ہے بھائی آپ اتنا ڈرتے ہیںابھی آپ تو بڑا کہہ ہرے تھے کہ تھپر بھی مارے گی تو کھا لوں گا ۔سمائرہ اور فضہ ہنستے ہوئے اس کے پاس آئیں انکے ساتھ ولید اور موحد بھی تھے
یار بہت غصے میں ہے کہہ رہی تھی منہ توڑ دے گی اگر دوبارہ سامنے آیا تو۔۔۔
کوئی نہیں ، یہ تو وقتاً فوقتا آپکی سروس ہوتی رہے گی ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ ۔فضہ نے اسے دلاسہ دیا
ایک منٹ یہ میں تمہیں دلاسے کیوں دے رہی ہوں وہ بھی اس صورت میں جب مجھے خود کو مورل اور میڈیکل سپورٹ کی اشد ضرورت ہے
کہاں جا رہی ہو اس کے تیور کافی خطرناک ہیں اسے کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر حنان نے روکا
میری پیشی ہے ۔ فضہ رونی صورت بنا کر بولی
کتنا ڈر رہے ہو تم لوگ ۔ولید نے مسکراہٹ دبائی
آپ کی بہن کا ابھی تک آپکو پتہ نہیں ۔ثابت بندہ کھا جائے اور پتہ بھی نہ چلے۔ فضہ نے منہ بنایا
نہ فضہ نہ ایک بندے سے اسکا کچھ نہیں بننے والا ،مجھے تو کوئی بدروح ٹائپ کی شے لگتی ہے پتہ نہیں آج کسی باری ہے۔موحد بھلا کہاں پیچھے رہ سکتا تھا
آف کورس میری ۔فضہ نے بند دروازے کو دیکھا
ایک بات بتاؤں۔ عیشا ان کے سامنے آتے ہوئے بولی
ہاں بولو۔۔۔۔
آپی سن رہی ہیں۔ اس نے موبائل ان کے سامنے کیا جس پر میشا کا نام جگمگا رہا تھا فون کی ٹائمنگ سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ سب سن چکی ہے کوریڈور میں ایک دم خاموشی چھا گئی
میں چلتا ہوں ۔۔
ارے رکو نہ موحد میں اندر جا رہی ہوں واپسی پر آپ سب کی ضرورت ہو گی پلیز یہیں کھڑے رہنا میرے سگنل پر میری ہیلپ کو پہنچ جانا وہ ان سب کو کھڑا کر کہ جل تو جلال تو آئی میشا ٹال تو کا ورد کرتی اندر داخل ہوئی
میشا جان کیا کر رہی ہو ۔
کچھ نہیں آؤ تمہارا انتظار ہی کر رہی تھی
یہ جو تم نے چاند چڑھایا ہے نہ اس کی مجھے پوری ڈیٹیل چایئے ۔اچھے سے سوچ بچار کر کہ صرف دو منٹ میں مجھے ساری بات بتاؤ کچھ بھی مس نہیں ہونا چایئے ۔ اس کے کہنے کی دیر تھی کہ فضہ نے واقعی ہی دو منٹ لگائے پوری بات بتانے میں
ہممم اور موحد کے گھر جا کر کونسی کہانیاں سنائی ہیں
اس کے لیے تمہیں فلیش بیک میں جانا پڑے گا
تو چلو اس کی الگ سے فرمائش کرنا پڑے گی کیا
سمی مجھے سمجھ نہیں آ رہا ہے کروں تو کروں کیا میں میشا کو ایسے نہیں دیکھ سکتی اللہ اللہ کر کہ تو کوئی اسے پسند آیا ہے اور وہ بھی ایسے ۔۔۔۔۔۔
تم اسے سمجھاؤ فضول کی ضد لگا بیٹھی ہے ایسا کیا ہو گیا اگر اسے حنان نے ریجیکٹ کر دیا
یہی تو اصل مسئلہ ہے ۔اسے غصہ ہی اس بات کا ہے کہ حنان نے اسے ریجیکٹ کیا ہے ،وہ شائد اس سے توقع نہیں کر رہی تھی
یار وہ انجانے میں غلطی کر بیٹھا ہے تو بھگت بھی تو رہا ہے اب بس بھی کر دے ۔۔سمائرہ جھنجھلائی اور موحد بھی تو آئیں بائیں شائیں کر رہا ہے اس کا کیا وہ بھی تو نہیں کرنا چاہتا
صیح کہہ رہی ہو فضہ نے جوس پیتے ہوئے کہا
سمائرہ وہ کرنا نہیں چاہتا اسے فورس کیا جا رہا ہے تو مطلب وہ ہماری بات آسانی سے سمجھ جائے گا فضہ جوس کا کین ٹیبل پر رکھتے ہوئے پرجوش ہوئی
مطلب
مطلب تم مجھ پر چھوڑو ،تمہارے پاس موحد کا نمبر ہے
ہاں ہے
مجھے دو فضہ نے موبائل اس کے سامنے کیا تو اس نے نمبر ڈائل کر کے سپیکر پر ڈاالا
موحد میں فضہ بات کر رہی ہوں تم سے ضروری بات کرنی ہے کیا ہو سکتی ہے
ہاں بولو۔۔۔
ایک بات بتاؤ تم واقعی ہی میشا سے شادی نہیں کرنا چاہتے
یہ بات میں پچھلے کئی دنوں سے اپنے گھر میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر کوئی سمجھے بھی تو نہ
میں نہ صرف سمجھ گئی بلکہ میرے پاس سیولیوشن بھی ہے اس کا بس تمہارا ساتھ چایئے
بولو۔۔۔۔۔۔
دیکھو موحد حنان میشا کو پسند کرتا ہے اس کو لے کر کافی سرئیس بھی ہے ۔۔۔۔۔ اب بتاؤ تم کیا کہتے ہو۔ فضہ نے اسے ساری بات بتانے کے بعد پوچھا
دیکھو فضہ ٹو بی ہونیسٹ اس سے اختلاف اپنی جگہ میشا اچھی لڑکی ہے پڑھی لکھی ہے شکل و صورت کی بھی اچھی ہے میرے انکار کی ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں ہے بس اس کا میرا جوڑ نہیں ہے مجھے اپنی طرح ہی کوئی خاموش طبع لڑکی چایئے ۔مام نے اصرار کیا تو مجھے ہامی بھرنا پڑی اب اس صورت میں جب حنان اسے لے کر اتنا سرئیس ہے تو میرا یوں بیچ میں آنا بیوقوفی ہی ہو گی تم آجاؤ گھر میں بھی آتا ہوں مام سے بات کرتے ہیں
ٹھیک ہے میں آتی ہوں
ایک محاذ تو سر ہوا ۔ فضہ نے کال کاٹ کر کہا
تم دونوں کا دماغ ٹھیک ہے بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو۔رافعہ بیگم ان کی بات سن کر بھڑک اٹھیں تھیں
پلیز آنٹی بات سمجھنے کی کوشش کریں اس سے ایک نہیں تین تین زندگیاں خراب ہوں گی موحد کو تو کوئی بھی لڑکی مل جائے گی مگر حنان کی خوشی میشا ہے پلیز آپ اس کی خوشی مت چھینں اور کیا پتہ میشا بھی اسے پسند کرتی ہو تو کیا وہ موحد کوخوش رکھ سکے گی ۔نہیں آنٹی آپکا بیٹا بھی خوش نہیں رہے گا ،آپ کا ایک ہی بیٹا ہے تو کیا آپ چاہیں گی کہ کہ وہ ساری زندگی تنہا کڑھتا رہے
اور ایکٹینگ ہو رہی ہے فضہ۔۔ موحد نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا تو وہ ڈھیلی پڑی
تم ٹھیک کہہ رہی ہو گی مگر میں خاندان رشتے داروں کو کیا جواب دوں گی
یہ وقت آپکو اپنے گھر کے بارے میں سوچنے کا ہے نہ کہ رشتے دار اور خاندان کے بارے میں زندگی آپ کے بیٹے نے گزارنی ہے خاندان والوں نے نہیں تو آپ اپنے گھر کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیجیے
مگر لوگ باتیں تو بنائیں گے نہ کہ نکاح سے ایک دو دن پہلے منع کیوں کر دیا اور نکاح کیوں نہیں ہوا ، اس صورت حال میں انگلیاں لڑکیوں پر اٹھتی ہیں ۔ان کی بات پر فضہ چپ سی ہو گئی کہہ تو سہی رہیں تھیں
عیشا ہاں تو آپ میشا کی بجائے عیشا سے کیوں نہیں کر دیتی نکاح موحد کا
واٹ ،تم جانتی ہو کیا کہہ رہی ہو ۔موحد نے بے یقینی سے اسے دیکھا
ہاں بیٹا ایسا کیسے ہو سکتا ہے
کیوں نہیں ہو سکتا آپ نے موحد کی شادی ہی کرنی ہے نہ چاہے وہ میشا ہو یا عیشا ۔ایک ہی بات ہے اور وہسے بھی موحد جیسی لڑکی چاہتا ہے عیشا بلکل ویسی ہی ہے کم گو سلجھی ہوئی نرم طبعیت کی ۔فضہ نے چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت اور سمجھداری سجائی تو موحد اس کی مکاری پر دانت پیس کر رہ گیا
لیکن بھائی صاحب اور آپا کیسے مانیں گے انکو منانا سمائرہ کا کام ہے آپ بس اپنی بات کریں
ٹھیک ہے ماما کوئی مسئلہ نہیں گو کہ مجھے میشا بہت پسند ہے مگر فضہ کی بات بھی درست ہے جب دل نہ راضی ہو تو زبردستی کے رشتوں کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور بھائی بھی راضی نہیں ہے افق نے کہا
یہ کیا ہے میری کوئی مرضی نہیں ہے جب چاہے ادھر کر دیا جب چائے ادھر موحد نے کڑھتے ہوئے کہا
تمہارا مسئلہ کیا ہے میشا بھی نہیں پسند عیشا بھی نہیں تو کیا آسمان سے حور اترے گی چپ چاپ کھڑے رہو اب تمہاری آواز نہ آئے ۔رافعہ بیگم نے اسے جھڑکا
تم نے اچھا نہیں کیا اس نے فضہ کو گھورا
چلیں آنٹی ابھی چلئیے میرے ساتھ ۔ سمائرہ لوگ وہاں آپ لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں
بس اتنی ہی کہانی تھی۔ فضہ نے اسے دیکھا جو اسے شعلہ بار نظروں سے دیکھ رہی تھی
مہمانون کے سامنے نکاح کا آئیڈیا کس کا تھا
میرا۔۔فضہ نے کھلے دل سے قبول کیا
اور ماں بابا کو ساتھ رکھنے کا
وہ بھی میرا
پھر
پھر کیا ۔فضہ جھٹ سے اٹھ کر کھڑی ہوئی
تم اچھے سے جانتی ہو
یہ ابھی تک آئی کیوں نہیں اور آواز وغیرہ بھی نہیں آ رہی ۔حنان نے بے چینی سے پیشانی مسلی
آ جائے گی آواز نہیں آ رہی مطلب سب سیٹ ہے۔ سمائرہ نے اسے حوصلہ دیا
راحم جاؤ نہ پتہ کر کہ آؤ۔ افق نے کہا
نہ بابا میں نہیں جا رہا آپی کا میٹر کتنا شاٹ ہوتا ہے یہ میں اس دن دیکھ چکا ہوں ۔اتنے میں فضہ روم سے باہر نکلی اس کی حالت دیکھ کر سب نے بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ روم میں جاتے وقت جن بالوں کو خوبصورت سا سٹائل بنا ہوا تھا اس وقت کسی گھونسلے کا منظر پیش کر رہے تھے ۔ کاجل پھیل کر گالوں پر بہہ چکا تھا ۔ سارے چہرے پر لپ سٹک سے نقش و ونگار بنے ہوئے تھے۔کمر پر ہاتھ رکھے وہ کراہتی ہوئی ان کے پاس آ کھڑی ہوئی
یہ کیا ہوا ہے ۔افق اور سمائرہ جلدی سے اس کے پاس آئیں
حنان کے نکاح کے چھوارے ملے ہیں
آپ میرے ساتھ آئیں ۔عیشا اسے اپنے کمرے میں لے گئی شیشے میں اپنا حشر دیکھ کر فضہ کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی
تمہارا اتنا برا حشر ہوا ہے مگر ایک کراہ کی بھی آواز نہیں آئی۔ تمہاری قوت برداشت کی داد تو دینی پڑے گی ۔ موحد نے تھوڑی پر انگلی رکھتے ہوئے کہا
اس میں میری قوت برداشت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اگر میری آہ بکاہ تم تک نہیں پہنچی تو صرف اس لیے کے کہ میرا منہ بندھا ہوا تھا۔
پس ثابت ہوا کہ باندھ کہ مارا گیا ہے۔ عیشا نے سمجھداری سے سر ہلایا
عیشا ۔ولید نے اسے گھورا
نہیں بھائی میں تو نتیجہ اخذ کر رہی تھی
فضہ بتاؤ تو سہی کہ ہو کیا ہے
دیکھ سمائرہ میری بہن میری حالت دیکھ مجھ میں اب فلیش بیک میں جانے کی ہمت نہیں ہے ۔حالت دیکھتے ہوئے اپنے اپنے حساب سے فرض کر لو
بہت غصے میں تھی کیا ۔حنان کو اپنی فکر لاحق ہوئی
نہیں اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ایک بار اس کا کچھ غصہ نکل گیا ہے تو اب ذیادہ رئیکٹ نہیں کرے گی
کیا مطلب۔ افق نے پوچھا
بچپن سے جانتی ہوں اگر بہت غصے میں ہو توجب تک وہ غصہ نکل نہ جائے پاگل ہوئی رہتی ہے ایک بار نکل جائے تو دھیمی پڑ جاتی ہے ۔اب بھی کافی ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی
آپ کو درد ہو رہا ہو گا۔ عیشا نے اس کی گال پر پھونک مارتے ہوئے کہا
ارے نہیں ایسی بہت مار کھائی ہے اس سے ،اور مارا بھی ہے ۔ ہمیں عادت ہے ایک دوسرے کے بال نوچنے کی اور ویسے بھی اگر میری تھوڑی سی تکلیف سے اسکی زندگی بھر کی خوشیاں مل جائیں گی میرے لیے اتنا ہی کافی ہے باقی رہی یہ مار، یہ تو کسی دن میں کسر نکال لوں گی۔ فضہ آخر میں ہنسی
سچ میں دوستیں ہوں تو تم دونوں جیسی ۔۔ ایم ایمپریسڈ۔۔ سمائرہ نے بے اختیار کہا
واقعی ۔۔۔۔۔۔کاش میری بھی کوئی ایسی ہی دوستیں ہوتی ۔ایک دوسرے کی خوشیوں کے لیے کچھ بھی کر جانے والی۔ بس اب سے تم دونوں مجھے اپنی بیسٹ والی فرینڈ لسٹ میں شامل کر لو۔ افق اس کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی
ہوسپیٹل جا رہی ہو ۔لاونج سے نکلتے ہیخالدہ بیگم نے اسےروکا
جی مام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتہ تو کرلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے بھوک نہیں ہے
ایسے کیسے بھوک نہیں ہے رات بھی تم نے کھانا نہیں کھایا تھا
مجھے لیٹ ہو رہا ہے وہاں سے کچھ کھا لوں گی
ادھر آؤ یہاں بیٹھو ۔ کیا ہوا ہے
کچھ نہیں ہوا .....مجھے کیا ہونا ہے
تو پھر منہ کیوں پھولا ہوا ہے
آپ کوکونسا فرق پڑتا ہے اس نےمنہ بسورا
لو بھلا کیوں نہیں پڑتا ۔میری بیٹی ہو تم بتاؤ کیا بات ہے
آپ لوگوں نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا اور، اور آپ نے بھی مجھ سے چھپایا
دیکھو میشا میں جانتی ہوں جو ہوا وہ ایسے نہیں ہونا چایئے تھا تم ہرٹ ہوئی مگر تم جانتی ہو نہ ،جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہی ہوتا ہے۔ کیا پتہاس میں تمہارے لیے کوئی بہتری ہو سمجھ رہی ہو نہ اور ابھی ٹائم نہیں تم لیٹ ہو رہی ہو ۔ ہم پھر اس پر بات کریں گے
جی مام
صرف جی مام کرنے سے کچھ نہیں ہوتا اپنا منہ سیدھا کرو رات بھی تم نے بے چاری فضہ کا بہت برا حال کیا ہے
کوئی بےچاری نہیں ہے سب اسی کا کیا دھرا ہے
اچھا سب بھول جاؤ چلو آؤ میں ناشتہ لگواتی ہوں کر کہ جانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے جب وہ ہوسپیٹل سے نکلی تو گاڑی کے ٹائر پنکچر دیکھ کر گاڑی وہیں چھوڑی اور خود وہاں سے پیدل ہی نکل آئی
آؤ میں چھوڑ دوں۔حنان نے گاڑی لا کر اس کے سامنے روکی۔ایک پل کے لیے اس نے رک کر اسے دیکھا پھر اسے نظرانداز کرتے ہوئے چل پڑی
آ جاؤ نہ کتنا لیٹ ہو گیا ہے ۔ دیکھو اندھیرا چھا رہا ہے، کیسے جاؤ گی وہ گاڑی سے باہر نکل کر اس کے پیچھے آیا
سنو تو ۔ جلدی اس کے سامنے آ کہ رکا
حنان کیوں روڈ پر تماشا بنا رہے ہو
میں کچھ نہیں کر رہا ۔۔۔۔۔ پلیز گاڑی بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈراپ کر دیتا ہوں پلیز اس کےسامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئےملتجیانہ انداز میں کہا ۔ میشا نے نظر اٹھا کر پہلے اسے دیکھا پھر اس کے بڑھے ہاتھ کو اور اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔اپنے اندر کی خوشی کو دباتے ہوئے حنان نے محض ہلکا سا مسکرا کر اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور گاڑی تک لایا
تھینکس میری بات ماننے کے لیے
۔ایم سوری میری وجہ سے تم ہرٹ ہوئی ،بٹ آئی سوئیر جو ہوا بے خبری میں ہوا میرا ہرگز ایسا کوئی مقصد نہیں تھا
تم سن رہی ہو نہ ۔ اسے موبائل میں مصروف پا کر کہا مگر وہ چہرے پر نولفٹ کا سائن سجائے بیٹھی تھی
کچھ کھاؤ گی ۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا تھے۔۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔گول گپے کھاؤ گی
نہیں ۔جواب مختصر مگر کافی روکھا آیا تھا۔حنان نے بات کرنے کی غرض گاڑی سائیڈ پر روکی اور اس کی طرف مڑا
میشو یوں تو نہ کرو نہ۔۔ تم بات بھی نہیں کر رہی ہو نہ ہی میری طرف دیکھ رہی ہو۔ ڈانٹ لو چاہے تو مار بھی لو مگر بات تو کرو نہ ۔کچھ تو کہو مگر یوں غصہ نہ کرو
کیا لگتا ہےتم لوگوں کو، میں کوئی مذاق ہوں کوئی فیلنگز نہیں ہیں میری یا پھر میں انسان نہیں ہوں مجھے تکلیف نہیں ہوتی ۔ جب جی چاہا دھتکار دیا جب چاہا اپنا لیا سب کے سامنےمیرا تماشا بنا کر رکھ دیا ۔تم سب نے مل کر جو کیا ہے وہ چھوٹی بات نہیں ہے۔
وہ جو تقریب میں مہمان آئے ہوئے تھے کیا وہ نہیں جانتے ہوں گے کہ رشتہ کس سے طے ہوا اور نکاح کس سے ہو رہا ہےانہوں نے تو یہی سوچا ہوگا نہ کہ لڑکی میں ہی کوئی برائی ہوگی جو لڑکے نے انکار کر دیا
کسی نے تمہارا تماشا نہیں بنایا ہے یار۔ کوئی کچھ نہیں کہہ رہا تھا
اور تمہیں حنان تمہیں اتنے سارے لوگوں کی واہ واہ مل گئی ہو گی کہ دیکھو کتنا مہان انسان ہے جو ایسی لڑکی کتنے کھلے دل سے اپنا رہا ہے ۔ سکون مل گیا ہوگا نہ۔۔بات کرتے کرتے اس کی آنکھ سے آنسو گرا
تم غلط سمجھ رہی ہو ایسا کچھ نہیں ہے
اور پھر تم کہہ رہے ہو کہ میں غصہ نہ کرو ۔میرا اتنا بھی حق نہیں ہے
تو کرو نہ غصہ۔ کون منع کر رہا ہے ۔مگر یوں منہ مت پھیرو اور پلیز رو تو نہیں
اگر تمہارا ہو گیا ہو تو گھر چلو ۔اپنا چہرہ صاف کرتی وہ سیدھی ہوئی
نہیں جب تک تم مجھ سے بات نہیں کرو گی میں گاڑی سٹارٹ نہیں کروں گا
جیسے تمہاری مرضی وہ کندھے اچکاتی کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف ہو گئی اور وہ اسے دیکھنے میں
سوری نہ ۔۔۔ جب کافی دیر تک اس نے رخ نہ موڑا تو حنان نے اس کا کندھا ہلایا
میرا دماغ خراب مت کرو اور گھر چھوڑ کر آؤ ۔ منحوس گاڑی کے دونوں ٹائر عین وقت پر دھوکہ دے گے ورنہ کبھی نہ آتی تمہارے ساتھ۔ اس نے کاٹ کھانے والے لہجے میں کہا
دونوں ۔۔۔۔۔ مگر میں نے تو ایک ہی کیا تھا دوسرا کیسے ہو گیا ۔حنان نے سر کھجاتے ہوئے کہا
ہاں ۔۔ میشا کا منہ پورے کا پورا کھلا اس کے متوجہ ہونے پر اسے احساس ہوا کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے
تو تم نے ٹائر پنکچر کیے ہیں میں بھی کہوں ابھی آدھہ گھنٹہ پہلے میں باہر سے آئی تھی تب تو ٹھیک تھے ۔اپنی خونخوار نظریں اس پر گاڑتے ہوئےبولی
ہاں ۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہاں۔.بوکھلاہٹ میں وہ ایک ہی گردان کیے جا رہا تھا
تم نے چیٹینگ کی ہے حنان ۔۔۔۔۔شرم تو نہیں آئی تمہیں
آئی تھی یار مگرکیا کرتا تمہیں منانا بھی تو تھا نہ
منانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے مناتے ہیں ،گاڑی کے ٹائر پنکچر کر کہ ۔میشا نے گود میں رکھا ہوا کلچ نما بیگ اس کے سر میں دے مارا
میشو کیا کر رہی ہو ۔میں نے تو بس ایک ہی کیا تھا
نکلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نکلو گاڑی سے
تم مجھے میری ہی گاڑی سے نکلنے کو بول رہی ہو حنان نے صدمے سے اسے دیکھا
تم ایسے نہیں نکلو گے ۔ بیگ اس کے منہ پر پھینکتے ہوئے وہ گاڑی سے نکلی
کہاں جا رہی ہو ۔ اسنے آواز دی مگر وہ ان سنی کرتی ہوئی سامنے سے گھوم کر اسکی طرف آئی
باہر آؤ ۔۔۔۔فرنٹ ڈور اوپن کرتے ہوئے اس نے سنجیدگی سے کہا
میں نہیں آ رہا ۔اچھی زبردستی ہے ۔
میں کہہ رہی ہوں باہر آؤ ورنہ میں نے یہاں لوگوں کو اکھٹا کر لینا ہے کہ تم مجھے چھیڑ رہے تھے اور لوگوں کا تو تمہیں پتہ ہی ہے شغل شغل میں ہی اچھا خاصا ہاتھ صاف کر لیتے ہیں
میں نے کب چھیڑا ہے تمہیں اور تم چھیڑنے ہی کب دیتی ہو ۔منہ بسورتے ہوئے اس نے شکائیت کی
اوہ۔۔ تمہیں اس بات کی بھی شکائیت ہے ۔ اس نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھورا
نہیں میں تو جسٹ بات کر رہا تھا
تم وقت ضائع کر رہے ہو ،نکلو
میں نہیں۔ اس نے سٹیرنگ مضبوطی سے پکڑا
تم باہر آتے ہو یا نہیں ۔اس نے اسے بازو سے پکڑ کر باہر کھینچا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی
میری گاڑی ریکور کروا کر کل ہوسپیٹل چھوڑ جانا اور اپنی لے جانا
میں کیسے جاؤں گا گھر تک لفٹ تو دے دو
کیب سے آجانا۔ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے یہ جا وہ جاہ ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولید تم نے آفس نہیں جانا کل بھی چھٹی کی ہے ۔ناشتہ کرتے ہوئے فاروق صاحب نے ولید سے کہا
ڈیڈ میری طبعیت خراب ہے شائد نہ جا پاؤں
تمہیں یاد ہو تو آج فارن ڈیلیگیشن کے ساتھ میٹینگ ہے جو تمہیں اٹینڈ کرنی ہے ۔تیار ہو کر ٹائم پر پہنچ جانا ، کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔ فاروق صاحب سختی سے بولے تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا
اس میں بہانے والی کیا بات ہے ۔بھائی کی طبعیت واقعی ہی بہت خراب تھی ۔ رات بھی بہت تیز بخار تھا انہیں مکمل ریسٹ کی ضرورت ہے ۔یہ صائم بھی تو فارغ سارا دن آوارہ گردی کرتا ہے اگر ایک دن آفس چلا جائے گا تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی اسے لے جائیں ۔میشا ولید کی زرد رنگت دیکھتے ہوئے کہے بغیر نہ رہ سکی
تم خاموشی سے ناشتہ کرو۔ خالدہ بیگم نے اسے ٹوکا
ماں میں کیا غلط کہہ رہی ہوں ۔صائم کی تعلیم بھی بھائی کے ساتھ ہی ختم ہوچکی ہے ۔اصولاً تو اسے بھی ساتھ ہی آفس جوائن کر لینا چایئے تھا آخر اکیلے ڈیڈ کب تک سنبھالیں گے۔
ویسے بھی کچھ دن پہلے یہ خود ہی ولی بھائی سے کہہ رہا تھا وہ آفس چاچو کا اکیلے کا نہیں ہے اسکے بابا کا بھی ہے۔تو صرف مالکانہ حقوق جتا لینا ہی کافی نہیں ہوتا نہ ہاتھ بھی ہلانا پڑتا ہے ۔
ساری زندگی ڈیڈ نے ہی تو نہیں پالنا تمہیں ۔ٹھیک ہے پہلے تم لوگ چھوٹے تھے تم دونوں کی زمہ داری اٹھانا انکا فرض بھی تھا اور تم لوگوں کا حق بھی، مگر اب عاقل بالغ ہو، اپنی زمہ داریاں اٹھا سکتے ہو میشا نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے جیسے اس نے نارمل سی بات کی ہو۔ یوں اسکے سب کے سامنے منہ کھولنے پر صائم دانت پیس کر رہ گیا
وہ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہے ۔۔ اسے اب آفس جوائن کر لینا چایئے ۔ ولید اور بھائی صاحب کی مدد بھی ہو جائے گی اور یہ کچھ سیکھ بھی لے گا۔ رفعت بیگم نے بھی ہاں میں ہاں ملائی تو ناچار اسے ہامی بھرنا پڑی۔
مام کیا ضرورت تھی سب کے سامنے یوں اس جاہل لڑکی کی ہاں میں ہاں ملانے کی صائم کمرے میں جا کر رفعت بیگم پر برسا
کیا مطلب تم نے کوئی کام دھندا نہیں کرنا یوں ہی فارغ بیٹھ کر روٹیاں توڑنی ہیں۔اور وہ کہاں غلط تھی پہلے تم لوگ چھوٹے تو انہوں نے اپنی سگی اولاد کی جگہ رکھ تم دونوں کو پالا ہے اب جب تم اس قابل ہو گئے ہو تو انکا ہاتھ بٹاؤ آفس جایا کرو اور کیا ضرورت تھی ولید سے بکواس کرنے کی
تو کیا غلط کہا ہے میں نے ۔ چاچو نے ہمیں پالا ہے تو کوئی احسان نہیں کیا ساری زندگی ہمارے بابا کی پراپرٹی پر عیش بھی تو انہوں نے ہی کی ہے۔ صائم کے زہرخند لہجے پر رفعت بیگم نے سکتے میں آئی ۔ساکت تو باہر کھڑے فاروق صاحب بھی ہوئے تھے وہ جو میشا کی بات پر رفعت بیگم سے معذرت کرنے آئے تھے صائم کی باتیں سن کر بے یقینی کی سی کیفیت سے کھڑے تھے
صائم بکواس بند کرو کوئی سن لے گا تو کیا سوچے گا
ہاں تو کوئی سنتا ہے تو سن لے جو بات سچ ہے وہ ہے اگر اتنا ہی انہیں ہم سے پیار ہوتا تو بابا کے شئیرز ہمارے نام کر دیتے ، کیوں اب تک قبضہ کیے بیٹھے ہیں اوپر سے اپنی گنوار بیٹی میرے سر پر مسلط کرنے کا پلان کیے بیٹھے تھے
ماننا تو پڑے گا چاچو کو کیسے اپنی وہ سٹوپڈ سی بیٹی حنان جیسے ڈیشنگ بندے کے پلے باندھ دی اور دوسری کا بھی جھٹ پٹ نکاح کر دیا ۔
ویسے تو بڑا کہتے ہیں کہ سونیا یہ سونیا وہ اور اب اپنی بیٹیوں اور بیٹے کا رشتہ کرتے وقت میں نظر نہیں آئی ۔کیا لڑکے ڈھونڈے ہیں اپنی بیٹیوں کے لیے۔ میں بھی دیکھتی ہوں یہ پینڈو کیسے خوش رہتی ہے۔ اس کے لہجے میں حسد کی بو صاف محسوس کی جا سکتی تھی
تم دونوں بہن بھائی جن کی زبان بول رہے ہو میں بخوبی جانتی ہوں ۔بات کرتی ہوں میں بھابھی سے تمہارے رشتے کے لیے، دیکھتی ہوں جن کی باتوں میں آ کر تم ابھی تک کسی کام دھندے پر نہیں لگے کیسے دیتے ہیں تمہیں اپنی بیٹی ۔ یہ بھائی صاحب کا ہی دل ہے جو ابھی تک ماتھے پر بل ڈالے بغیر تم لوگوں کو کھلا پلا رہے ہیں
سب جانتا ہوں انکا سو کالڈ پیار۔ صائم نے سر جھٹکا فاروق صاحب خاموشی سے واپس پلٹ گئے
میں تمہارے لیے دعا ہی کر سکتی ہوں صائم بس اتنا خیال رکھنا کہ ان لوگوں کی نفرت میں اتنا آگے مت نکل جانا کہ واپسی کے سارے راستے بند ہوجائیں
بابا کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں نہ ۔میشا جو ہوسپیٹل جانے کے لیے تیار ہو کر نکل رہی تھی فاروق صاحب کی پیلی پڑتی رنگت دیکھ کر چونکی اور آگے بڑھ کر انہیں سہارا دے کر لاونج میں لا کر بٹھایا
عیشا پانی لاؤ ۔ اسنےعیشا کو آواز دی
جی آپی کیا ہوا
کدھر مر گئی تھی پانی لاؤ۔ اس نے چیختے ہوئے کہا
یہ کیسی آوازیں ہیں۔ شور کی آواز سن کر رفعت بیگم باہر نکلیں اور انکے پیچھے صائم اور سونیا بھی آئے
بابا آر یو اوکے۔۔ پلیز ریلیکس۔۔۔۔۔۔۔ کام ڈاؤن ۔۔ اس نے عیشا سے پانی کا گلاس لے کر انہیں پلایا
کیا ہوا بیٹا۔ رفعت بیگم نے پوچھا
پتہ نہیں لگتا ہے بی پی ہائی ہو گیا ہے
عیشا جاؤ میرے روم ایمرجنسیِ کٹ پڑی لے کر آو۔۔ ہری اپ
مائی گاڈ اتنا ہائی بلڈ پریشر ۔۔۔۔۔ میشا انکا بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے کہا
مام یہ ٹیبلٹ دیں انہیں اور عیشو میرے روم کے بائیں ڈرار میں انجیکشن پڑا ہو گا ۔ وہ لے آؤ ۔ صائم کو فاروق صاحب کی حالت سے زیادہ میشا کا انداز اور لب لہجہ چونکا رہا تھا ۔یہ وہ پینڈو ال مینرڈ زینی نہیں تھی
ڈیڈ کیا کرتے ہیں آپ۔ اتنا زیادہ بلڈ پریشر کون بڑھاتا ہے یار۔ ابھی کچھ ہو جاتا تو ہماری چھوٹی سی کیوٹ سی مام کا کیا ہوتا۔ میں نے ہرگز انہیں دوسری شادی نہیں کرنے دینی ۔ایک طوفان کھڑا کر دینا ہے ہاں نہیں تو۔ انکی حالت کچھ سنبھلی تو انجکیشن دیتے ہوئے میشا ہلکے پھلکے انداز میں بولی تو وہ مسکرا دیے
ہاں بھئی یہ تو تمہاری ماننے والی ہے ۔طوفان کیا سونامی بھی لا سکتی ہو
ڈیڈ میں آپکو لڑاکا لگتی ہوں ۔اس نے مصنوعی انداز میں انہیں گھورا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلا دیا
کیا ڈیڈ بندہ دل رکھنے کے لیے ہی نہ کہہ دیتا ہے
اچھا چلیں اب آپ کمرے میں جا کر ریسٹ کریں میں آپکی میڈیسن منگواتی ہوں مام ،عیشا آپ انہیں لے جائیں ۔ان سے کہتی اس نے نمبر ڈائل کر کہ فون کان سے لگایا
دائم مجھے کچھ میڈیسن چایئے نوٹ کرو
کون بات کر رہا ہے دوسری طرف سے دائم نے پوچھا
اوہو بھئ ڈاکٹر میشا زینب بات کر رہی ہوں ۔ میڈیسن کا نام لکھواور ریڈی کر کہ رکھو، میں دس منٹ تک کسی کو بھیجتی ہوں۔ صائم اور سونیا نے بے ساختہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا
ولی بھائی میرے ہوسپیٹل کے میڈیکل سٹور پر جائیں وہ آپکو میڈیسن دیں گے وہ لے آئیں ۔ ولید کو بھیج کر وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھی
مام یہ زینی۔صائم نے شاک کی سی کیفیت سے پوچھا
پورا نام میشا زینب ہے۔۔۔۔ ایم بی بی ایس ہے۔۔۔۔۔۔ ہاوس جاب کر رہی ہے
ہاؤ از اٹ پوسیبل، یہ پاگل ملنگ ٹائپ سی لڑکی ڈاکٹر کیسے ہو سکتی ہے ۔ سونیا شاک کی سی کیفیت سے بولی
کیوں پوسیبل نہیں ہے ۔ اور صائم تم کتنا سمجھایا تھا تمہیں پڑھی لکھی سلجھی ہوئی لڑکی ہے ۔ مگر تم لوگوں نے تو خدا واسطے کا بیر باندھ رکھا ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے میں کہہ رہی ہوں سنبھل جاؤ ورنہ بہت بڑی ٹھوکر کھاؤ گے ۔ رفعت بیگم ان دونوں کو حیران کھڑا چھوڑ کر چلی گئیں