انابیہ گھر سے باہر نہیں نکلی تھی اور ﮈاکٹر بھی گھر آکر اسکا علاج کر رہا تھا۔۔چہرہ کافی حد تک بہتر ہوچکا تھا۔ اسے سلیم صاحب سے بھی نہیں ملنے دیا تھا۔کیونکہ ﮈاکٹروں نے انہیں پریشانی سے بچانے کا کہا تھا۔سلیم صاحب گھر آچکے تھے۔وہ گھر آۓ اور پہلے انابیہ کے کمرے میں گئے۔۔انابیہ آنکھیں بند کیے منہ کھڑکی کی طرف کرے بیٹھی تھی۔اسے ماہین نے سب بتا دیا تھا۔۔مسلسل رو رو کر اسکی آنکھیں لال ہورہی تھی۔۔انابیہ۔۔ میری جان ۔۔میری شہزادی وہ اسکے قریب گۓاور اسے سینے سے لگا لیا۔۔انابیہ نے بھی اپنا ضبط کھو دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔ابو میں نے کچھ نہیں کیا۔۔میرا بھروسہ کریں۔میں جانتا ہو میری جان مجھے اپنے خون پر اپنی پرورش پر بھروسہ ہے۔۔میری بیٹی کوئی غلط کام نہیں کر سکتی۔۔وہ اسے سینے سے لگاۓ بیٹھے رہے۔۔انابیہ سمبھالو خود کو۔۔تمھارے ابو کی طبیعت بھی نہیں ٹھیک ۔۔زینب بیگم نے دونوں باپ بیٹی کو الگ کیا۔۔وہ جانتی تھی انابیہ اور روۓ گی اور سلیم صاحب اور ٹینشن لیں گےانابیہ پانی پیو۔۔ماہین نے اسے گلاس تھمایا۔۔اور خود سے لگا لیا۔۔۔آپ کمرے میں چلیں سلیم۔زینب نے انہیں اٹھایا اور کمرے میں لے آئیں ۔انابیہ کافی حد تک سمبھل چکی تھی لیکن اس نے پیپر نہیں دیے تھے۔۔زینب اور باقی سب نے کافی کوشش کی تھی لیکن وہ کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی۔۔جہاں جہاں انویٹیشن کارﮈ جا چکے تھے انہیں منع کروا دیا تھا۔۔۔سلیم صاحب کی بیماری کا بہانہ بنا کر۔۔زینب بیگم ناشتہ لگوا رہیں تھیں۔ماہین کچن میں تھی۔۔سلیم صاحب معمول کے مطابق اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ انابیہ آج کتنے دن بعد کمرے سے باہر نکلی تھی۔اٹھ گئی ہے میری چڑیل۔شارم نے اسے دیکھا تو مسکراتا ہوا اسکی طرف بڑھا اور اسکے سر پر بوسہ دیا۔۔چلو آؤ ناشتہ کریں۔بہت بھوک لگی ہے۔۔وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے آیا ۔سلیم صاحب اور زینب نے اسے آتا دیکھا تو سکون کا سانس لیا۔۔۔کسی نے اسے احساس ہی نہیں ہونے دیا۔کہ کچھ ہوا بھی ہے۔۔وہ سر جھکاۓ ﮈائنگ ٹیبل پر بیٹھی رہی۔۔لو بیا کھاؤ۔۔تمھارا فیورٹ آلو کا پراٹھہ بنایا ہے۔امی نے بتایا تھا تمھیں بہت پسند ہے۔۔ماہین نے اسکی پلیٹ میں پراٹھا اٹھا کر رکھا اسکی آنکھیں بھیگ گئی۔۔پرانی باتیں یاد آنے لگی۔اسے پراٹھے بلکل نہیں پسند تھے۔عاشر کو پسندتھا آلو کا پراٹھا۔ اسلیے اسنے بھی زبردستی اسے خود کی پسند بنایا تھا۔۔نہیں بھابھی مجھے نہیں پسند پراٹھے۔۔اسنے پلیٹ دور کر دی۔۔سلیم صاحب اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔یہی انابیہ تھی جو شارم سے پراٹھے کے لیے لڑتی تھی۔۔اب ۔۔۔۔۔وہ خود پر ضبط کرے بیٹھے تھے انابیہ نے ابو کی آنکھیں دیکھ لی تھی۔۔خود پر قابو کیا۔۔لاؤ بھئی ہر چیز چڑیل کو دو گے یہ میرا ہے۔۔شارم نے پلیٹ اپنے آگے کر لی۔۔اسنے پہلا نوالہ بنایا تھا کی انابیہ نے پلیٹ اپنے آگے کر لی نہیں یہ میرا ہے۔۔میرا ہے۔۔شارم ﮈرامائی انداز میں رویا۔۔۔نہیں میرا ہے۔۔بھوکے ۔۔وہ بھی چلائی۔۔چپ ہو جاؤ دونوں۔۔۔سلیم صاحب دونوں کو دیکھتے رہے ۔۔پھر ہمیشہ کی طرح چلاۓ۔۔کسی کا نہیں ہے۔۔میرا ہے۔کہتےہوۓ اپنے آگے کر لیا۔۔انابیہ اور شارم ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے۔۔خبردار آپ نے ہاتھ لگایا تو خیر نہیں ﮈاکٹر نے منع کیا ہے آپکو۔۔زینب بیگم چاۓ لاتے ہوۓ بولیں۔۔ان دونوں بہن بھائی کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آگئی۔۔یپییییی۔۔۔شارم چلایا۔۔اور بھوکوں کی طرح آگے بڑھا اور پراٹھہ اٹھا کر ہمیشہ کی طرح دو ٹکڑے کیے۔۔ایک انابیہ کو دیا ایک خود رکھا۔۔۔سالے تیری تو۔۔سلیم صاحب اسے مکا بنا کر دیکھاتے ہوئے ہنس دیے۔۔۔ساتھ سب نے قہقہہ لگایا۔۔آج کتنے دن بعد انکے گھر خوشیاں آئی تھیں۔زینب بیگم نے الحمدللہ پڑھا اور ان سب کی بلائیں لیں۔۔اور دل ہی دل میں سب کے ایسے ہستے مسکراتے رہنے کی دعا کی
*_____________*
انابیہ اپنی الماری ٹھیک کر لو بیٹا۔۔فارغ بیٹھی ہو۔۔اپنے کام کر لیا کرو۔۔زینب اس کے ہر وقت گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھے رہنے سے تنگ آگئی تھیں۔۔اسنے سر اوپر اٹھایا اور سوالیاں نظروں سے دیکھنے لگی۔۔کیا دیکھ رہی ہو۔میں تم سے ہی مخاطب ہوں۔۔زینب اسکے پاس آکر بیٹھیں اور اسکے بال چہرے سے ہٹانے لگیں۔۔دیکھو بالوں کا حال ۔۔کتنے خراب ہو رہے ہیں۔کل جاو پارلر ماہین کے ساتھ اور کٹنگ کرواؤ بالوں کی۔۔وہ اسے معمول پر لانے کی نا کام کوشش کرنا چا رہی تھیں۔۔اور یہ۔۔اسکے پاس پڑے ﮈبے پر ان کی نظر پڑی تو ان کی بات منہ میں رہ گئی۔۔یہ لہنگا کیوں نکالا ہے تم نے۔۔لاؤ دو مجھے۔وہ اسے ﮈبہ لینے لگیں۔۔امی اسے یہی رہنے دیں۔۔میں رکھ دوں گی۔۔۔آج کے دن اسکا عاشر کے ساتھ نکاح کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔۔وہی عاشر جس کے لیے پاگل تھی وہ۔۔اسی کی پسند کا لہنگا ۔۔جب اسنے پک سینڑ کی تھی تو وہ خوشی سے سب کو دکھا رہی تھی۔۔اور اسی کے ساتھ جا کر آرﮈر کر کے آئی تھی۔۔اسنے لہنگے پر ہاتھ پھیرا اور منہ دوبارہ گھٹنوں میں چھپا لیا
تمہیں ، اتنا سا کہنا ہے۔
وفائیں يُوں نہیں ہوتیں۔۔۔!
۔۔۔وہ رو نہیں رہی تھی۔لیکن اسکی آنکھیں صاف بتا رہیں تھیں کہ وہ رونا چاہتی ہے۔۔۔وہ رونا ہی تو چاہتی تھی لیکن اب تو آنسو بھی ختم ہو گئے تھے۔۔زینب بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا اور آنسو صاف کرتی اسکے پاس سےاٹھ گئیں
آپ انابیہ کو کچھ سمجھائیں۔۔ہر وقت کمرے میں بند رہتی ہے۔بس بریک فاسٹ لنچ اور ﮈنر کے لیے باہر آتی ہے۔۔زینب بیگم نے کمرے میں آتے ہی پریشان ہو کر سلیم صاحب کو بتایا۔۔میں کیسے سمجھاؤ زینب۔اس پر گزری ہے۔۔سمبھلنے میں وقت لگے گا۔جب لوگ مجھ سے اسکی شادی کا پوچھتے ہیں۔میرے پاس جواب نہیں ہوتا۔وہ کیسے فیس کرے گی سب۔وہ سر جھکا کر بولے۔لیکن ہم اسے نہیں سمجھائیں گے تو کون سمجھاۓ گا۔ہمیں اسے حوصلہ دینا چاہیے۔۔بجاۓ اسے کمزور کرنے کے۔۔وہ پریشانی ہوگئیں۔کیا چاہتی ہیں آپ۔۔میں یہی چاہتی ہوں کہ آپ اسے سمجھائیں وہ اپنی اسٹڑی کمپلیٹ کرے خود کو سمبھالے اب۔۔فیس کرے سب کو۔ورنہ ایسے تو ﮈرتی رہے گی سب سے۔۔ اچھا۔۔میں کروں گا اسے بات ۔۔کوشش کرو گا۔۔۔وہ پھر رو پڑی تو۔۔زینب مجھ میں اور سکت نہیں ہے اپنی لاﮈلی بیٹی کی بھیگی آنکھیں دیکھ سکو۔۔۔وہ ٹھنڑی سانس لے کر تکیے پر سر رکھتے ہوۓ بے بسی سے بولے۔۔
اگلا دن چھٹی کا تھا اسلام وعلیکم سجاد صاحب نے گھر میں داخل ہوتے ہی اونچی آواز میں سلام کیا۔وعلیکم اسلام زینب کمرے سے نکل رہی تھی۔۔انکے پاس آئی اور سر پر ہاتھ رکھوایا۔۔سلیم گھر پر ہے زینب۔۔ جی بھائی جان اپنے کمرے میں ہیں۔۔میں بلاتی ہوں۔نہیں میں وہی مل لوں گا۔۔مجھے کام ہے اس سے۔۔وہ آگے بڑھیں تھیں جب انھیں سجاد صاحب نے روک دیا۔۔تم بھی آؤ بیٹا۔وہ سنجیدگی سے کہتے آگے بڑھے۔۔انشاء اللہ خیر ہوگی سب۔۔۔ماہین تم سالن دیکھو میں آتی ہوں۔۔جی امی۔۔وہ بھی حیران پریشان کھڑی تھی۔جب شارم کچن میں آیا تھا ۔کیا ہوا ہے۔پتہ نہیں تایا جان آئے ہیں امی ابو سے ضروری بات کرنی ہے۔۔اچھا وہ گلاس اٹھاتے ہوۓ بس یہی بولا تھا۔۔آپکو پتہ ہے کیا بات کرنی ہے۔۔ہاں پتہ ہے۔۔وہ مسکراتا ہوا پانی پی کر جا چکا تھا۔۔
۔۔سلیم صاحب نے رات میں انابیہ کو اپنے روم میں بلوایا تھا۔اسنے دروازہ ناک کیا۔اور اندر آنے کی اجازت لی آو بیٹا۔وہ اسکے لیے جگہ بناتے ہوۓ بولے۔تم سے بات کرنی ہے۔۔انھوں نے لفظوں کی جوڑ توڑ کرتے بات شروع کی۔۔بیٹا تم باہر کیوں نہیں آتی ۔۔سنا ہے ہر وقت کمرے میں رہتی ہو۔کیوں بیٹا جو ہوا اب اسے بھول جاؤ آگے بڑھو ۔کب تک خود کو ایسے چھپا کر رکھو گی۔باہر نکلو فیس کرو سب کو۔وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار سے بولے۔۔۔ابو مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں ہے۔۔وہ رونے لگی۔۔ہمت کرو میری جان۔تم غلط نہیں ہو پروو کرو سب کو ایسے کمرے میں بند رہو گی کسی سے ملو گی نہیں سب یہی سمجھے گے کہ تم غلط ہو وہ خاموشی سے انکی باتیں سنتی رہی اور سر جھکا کر بیٹھی رہی انابیہ۔۔۔وہ خاموش ہو گئے۔اور کچھ دیر بعد بولے۔۔۔بیٹا مجھے ایک اور بات بھی کرنی ہے۔۔جی ابو۔۔دیکھو تم میری اکلوتی بیٹی ہو۔میں تمھارے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا۔۔وہ کچھ دیر رکے۔۔ابو جان جو بات ہے آپ کہیں۔۔بیٹا کل تمھارے تایا جان آئے تھے بتا رہے تھے کہ آﺫر کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمھاری اور آﺫر کی شادی کروا دی جاۓ۔۔۔انابیہ انکا چہرہ دیکھتی رہی۔وہ چپ ہوۓ پھر لمبی سانس لے کر بولے۔آﺫر بلکل مختلیف ہے اپنے بھائی سے۔کبھی نا کبھی تمھاری شادی کرنی ہے۔میں تمھیں غلط ہاتھوں میں نہیں دوں گا۔۔۔وہ میرے ساتھ زیادہ رہا ہے میں جانتا ہوں اسے وہ تمھیں بہت خوش رکھے گا۔۔۔۔ابو۔۔اسکی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا۔۔میں نے ابھی ہاں نہیں کہا انھیں۔۔جب تم کہو میری بیٹی ۔۔میں تب ہاں کہوں گا۔۔وہ سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔۔۔مجھے وقت چاہیے۔۔ٹھیک ہے اپنی امی کو بتا دینا۔۔اب جاو آرام کرو
۔۔۔۔۔
انابیہ۔۔ امی ابھی اسکے کمرے میں آئی تھیں۔۔جی امی ۔۔انابیہ عائشہ آئی ہوئی ہے اپنی امی کے گھر۔۔مریم کا کل فون آیا تھا۔۔وہ تم سے ملنا چاہتی ہے۔میں نے کہا آئیں گے کسی دن۔آج جانا ہے۔۔اچھا امی۔۔کیا اچھا۔۔چلو کچھ دیر میں واپس آجائیں گے بعد میں شارم کے پاس ٹائم نہیں ہوگا کس کے ساتھ جائیں گے۔۔امی میں نہیں جانا چاہتی۔انابیہ بیزار ہو کر بولی۔ کیوں بیٹا۔۔اسکی شادی میں بھی تم نہیں گئی تھی۔۔اب تو مل لو۔۔اور میں ساتھ چلو گی۔۔امی۔۔کوئی بہانہ نہیں تیار ہو جاو شارم جاتے ہوئے ہمیں چھوڑ دے گا۔۔وہ زبردستی اسکا سوٹ الماری سے نکالتے ہوۓ بولیں۔۔۔جاؤ جلدی منہ دھو لو اور جلدی نیچے آؤ۔۔ میں چادر لے لوں۔۔وہ کہتی ہوئی باہر چلی گئی اور انابیہ منع کرتی رہ گئی۔
شارم نے ان دونوں کو گھر کے پاس ﮈراپ کیا تھا۔۔ابھی وہ گھر میں داخل ہوئیں تھیں کہ اندر کمرے سےعائشہ کی آواز سنائی تھی۔۔بچاری کے ساتھ بہت برا ہوا ہے۔۔ہاں بلکل۔۔سارا چہرہ سوج گیا تھا ۔۔یہ مریم آنٹی کی آواز تھی۔۔زینب بیگم نے آگے جانا چاہا لیکن اسنے انکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر روک لیا۔۔میں تو عامر سے کہہ رہی تھی کہ ہامی بھرے تو اسکی بات کروں انابیہ کے لیے زینب اور سلیم بھائی سے۔امی میں بتا چکا ہوں اتنی گری ہوئی لڑکی کو میں کبھی اپنی بیوی نہیں بناؤ گا۔جو ہوا بہت اچھا ہوا۔۔۔میں نے خود اسے اور عاشر کو منگنی سے پہلے ہاتھوں میں ہاتھ لیے بے شرمی سے کھلے عام چومتے دیکھا تھا۔جو لڑکی ایک کی نہیں ہوئی میری کیا ہوگی۔۔بکواس بند کرو عامر۔۔وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔عائشہ نے اسکی بات کاٹی تمھیں لگتا ہے وہ بہت پارسا ہے ہر ایک کی زبان پر اسکا نام ہے عامر کی آواز اس پر بم بن کر گررہی تھی۔اسکا دل چاہا زمین کھلے اور وہ اس میں سما جاۓ۔۔وہ زینب کا ہاتھ چھڑاتی باہر بھاگی۔۔انابیہ انابیہ ۔۔زینب کی آواز پر وہ سب بھی باہر آگئے۔۔مریم کا چہرہ شرمندگی سے لال ہوگیا تھا۔۔وہ زینب کے پیچھے گئی ۔لیکن تب تک وہ جا چکے تھے۔۔