صبح فاخرہ بیگم ناشتہ بنا رہی تھیں جب وہ نیچے آیا۔عاشر پہلے سے نیچے موجود تھا سجاد صاحب ناشتہ کر رہے تھے۔۔وہ عاشر کے ساتھ والی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔کیسا ہے میرا بھائی۔وہ عاشر کو ناشتہ کرتا دیکھ کر مسکرایا۔۔۔ٹھیک ہوں بھائی۔۔ تو بھائی کی جان کیا ٹینشن پالی ہوئی ہے جو طبیعت اتنی خراب ہوگئی سجاد صاحب کے ہاتھ وہیں رک گئے۔۔عاشر کوباتیں یاد آگئیں ۔۔۔کچھ نہیں بھائی اسنے نوالہ توڑتے ہوۓ کہا۔۔فاخرہ باہر آکر خاموشی سے بیٹھ گئیں۔کچھ دیر چپ رہنے کے بعد آﺫر سے مخاطب ہوئیں۔۔آﺫر ناشتہ شروع کرو۔جی امی کرتا ہوں۔۔کہتے ہوۓ وہ عاشر کی طرف مڑا۔ اور ہستے ہوئے کہا لڑکی کا چکر۔۔۔اسنے بات نامکمل چھوڑدی۔۔سب اسکی بات پر چونک گئے۔۔ویسے امی جان اپکا بیٹا کہیں ہاتھ سے ناں نکل جائے۔۔چچا جان سے بات کر لیں۔۔کہتے ہوۓ اس نے پراٹھہ اٹھایا۔۔وہ ہمیشہ سے صبح کے ناشتے میں پراٹھہ لیتا تھا۔۔تینوں اسکا منہ تک رہے تھے کہ وہ کیا بول رہا ہے۔۔عاشر کے منہ پر آتی مسکراہٹ دیکھ کر آﺫر نے مکا بنا کر اسکی کمر میں رسید کیا۔۔وہ تڑپ اٹھا ۔۔اور دونوں زور سے ہنسے۔۔جبکہ فاخرہ بیگم اور سجاد صاحب اسکے رویہ پر حیران تھے ۔اس نے آنکھ کے اشارے سے ماں کو تسلی دی۔۔اور ناشتہ کرنے لگا
سجاد صاحب کام پر جا چکے تھے۔۔عاشر بھی یونیورسٹی جا چکا تھا۔۔آﺫر ابھی اپنی بائیک کے ساتھ لگا ہوا تھا جب فاخرہ اس کے پاس آئیں۔۔آﺫر ۔۔انھوں نے اسے پکارا۔۔جی امی جان ۔۔۔میرے بیٹے تم نے ابھی جو کہا۔۔۔وہ۔۔۔فاخرہ بیگم توڑ توڑ کر بولیں ۔امی میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔۔اسکی نظریں ابھی بھی بائیک پر تھی۔لیکن آﺫر تم انابیہ کو بہت پہلے سے پسند کرتے ہو میں ہی ہر بار تمھیں منا کرتی آئی ہوں۔میں کیسے عاشر اور انابیہ کی شادی کروا دوں۔۔وہ تڑپ کر بولیں۔ امی میرے لیے بھائی کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔وہ معصومیت سے بولا اور انابیہ کی بھی وہ دل ہی دل میں بولا کیا۔۔اور میرے لیے تم دونوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔آﺫر میں عاشر کی شادی کروا دوں وہ لڑکی اس گھر میں آجاۓ تم کیسے اسے بھائی کی بیوی کی صورت میں برداشت کرو گے۔۔امی میں نے اللہ سے رجو کیا ہے۔میرے اللہ کا شاید یہی فیصلہ ہے۔۔آپ کیوں فکر کر رہی ہیں۔۔آﺫر میری طرف دیکھو۔وہ پریشانی سے اسکی طرف بڑھی۔امی مجھے کام کرنے دیں۔آﺫر میری جان ۔فاخرہ نے اسکی ہلکی ہلکی بڑھتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔۔امی پلیز۔۔ اسکی سرخ ہوتی آنکھیں وہ دیکھ چکی تھیں۔میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا پلیز۔۔۔ آپ بھی اس بات کو ختم کریں۔۔اور خوشی خوشی اس رشتے کے لیے ہاں کر دیں۔۔۔کاش میں پہلے تم دونوں کی بات چلا دیتی آج میرا بیٹا اس حالت میں نا ہوتا۔وہ اپنے بیٹے کے صبر پر حیران تھیں اور دل ہی دل میں خود کو کوس رہیں تھی۔۔آﺫر جا چکا تھا۔لیکن فاخرہ بیگم کے پاس صرف پچتاوا تھا
۔۔۔۔۔۔
اگلہ دن چھٹی کا دن تھا۔فاخرہ بیگم اور سجاد صاحب باقاعدہ رشتہ لے کر آۓ تھے۔۔جہاں زینب بیگم حیران تھیں وہاں شارم کے لیے بھی سب کچھ عجیب تھا۔۔وہ ہمیشہ سے آﺫر کے ساتھ رہا تھا ۔وہ جانتا تھا آﺫر انابیہ کو پسند کرتا ہے۔وہ رشتہ بھی آﺫر کے لیے انابیہ کا سمجھا تھا۔۔جب سجاد صاحب نے عاشر کا نام لیا تو اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔زینب بیگم فاخرہ کے رویوں کی وجہ سے حیران تھیں۔۔وہ جانتی تھیں کہ فاخرہ کبھی بھی اسکی بیٹی کو بہو کہ طور پر قبول نہیں کریں گی۔لیکن ایسا کیا ہوا کہ وہ باقاعدہ رشتہ لے آئیں۔وہ سمجھ گئی تھیں کہ اسنے عاشر کے مجبور کرنے پر رشتہ مانگا ہے انابیہ کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔۔۔اسکے تو پاؤں ہی زمین پر نہیں تھے۔ماہین بار بار اسے چھیڑ رہی تھی۔۔۔فاخرہ بیگم نے اسے بلانے کا کہا تو ماہین اسے لے کر کمرے میں آئی۔۔ فاخرہ بیگم نے اسے اپنے پاس بیٹھا کر پیار کیا اور تو اور وہ خود تائی جان کے رویہ سے حیران پریشان تھی۔۔۔اللہ اللہ کر کے ان دونوں گھرانوں نے ہاں کردی۔۔۔سجاد اور سلیم صاحب تو دونوں گھروں کے دوبارہ سے قریب آجانےپر خوش تھے۔۔زینب بیگم کو بھی عاشر سے کوئی پریشانی نہیں تھی وہ بھی بیٹی کی مسکراہٹ اور اسکے کھلے چہرے کو دیکھ کر خوش ہوتی رہیں۔۔ بس اگر کوئی خاموش تھا تو وہ صرف شارم اور فاخرہ بیگم۔۔ کیونکہ وہ جانتے تھے آﺫر کی پسند انابیہ ہےکچھ دن بعد منگنی کی رسم رکھی گئی تھی۔۔انابیہ اور عاشر کے چہرے سے ہنسی نہیں جا رہی تھی۔انابیہ نے اپنی پسند کا منگنی کا سوٹ بنوایا۔سب کچھ ویسا کا ویسا تھا لہجے مسکراہٹیں ہنسی مزاح اور قہقہے۔کچھ بھی نہیں بدلا تھا اگر بدلا تھا تو صرف آﺫر۔۔ اسکے چہرے سے مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی۔۔۔باقاعدہ منگنی کی رسم کی گئی۔۔اور انابیہ کے گریجویشن کے بعد شادی کی ﮈیٹ فائنل کی گئی
آزر نے آرمی جوائن کرنے کا فیصلہ رد کر دیا تھا اب اس کو اسلام آباد میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی تھی اب وہ شہر سے باہر جا چکا تھا۔
منگنی کے بعد عاشر کی طرف سے انابیہ کو پابندیاں بھی لگ گئی تھی کیونکہ اسکے دماغ میں جو شک اور فطور فاخرہ بیگم نے بھرا تھا وہ بڑھ گیا تھا۔ یہاں جانا ہے یہاں نہیں جانا یہ کرو یہ نا کرو ایسا پہنو نیز ہر چیز کے لیے اسکی اجازت لینا لازمی تھا۔۔انابیہ کبھی کبھار اسکی پابندیوں سے تنگ آجاتی تھی ۔۔پھر کچھ بولتی توعاشر کی ناراضگی۔۔ایک تو اسے منانا بھی بہت مشکل تھا۔عائشہ کے لیے رشتہ آیا تھا لڑکا اچھا کماتا تھا گھر بار بھی اچھا تھا سو مریم آنٹی کی فیملی نے ہاں کر دی تھی۔عائشہ کی شادی قریب تھی تو مریم آنٹی نے انابیہ کو اپنے پاس رکنے کا کہلوا بھیجا تھا۔وہ ابھی عاشر سے بات کر رہی تھی کہ اسے وہاں رکنا ہے۔۔لیکن عاشر مان ہی نہیں رہا تھا۔عاشر پلیز مجھے پرمیشن دے دو۔میری بیسٹ فرینﮈ کی شادی ہے۔وہ بضد تھی کہ جانا ہے مطلب جانا ہے۔تو جانا میں نے کب منع کیا ہے۔بس وہاں رہو گی نہیں۔وہ تھا کہ مان ہی نہیں رہا تھا۔لیکن عاشر آنٹی نے کہلوایا ہے۔امی ابو کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔وہ روہانسی ہوئی۔لیکن مجھے مسئلہ ہے بات کو سمجھو۔وہ اب کی بار چلایا تھا۔عاشر میں انھیں انکار نہیں کر سکتی ۔۔امی بھی فورس کر رہی ہیں۔وہ معصومیت سے بولی۔ انابیہ ضد نہیں کرو وہ خود پر قابو رکھ کر بولا۔۔عاشر۔۔۔۔۔۔ کہا نا نہیں مطلب شادی میں بھی نہیں جاؤ گی۔وہ روہانسی ہوئی جانا ضرور جانا لیکن ابھی نہیں وہاں انکا جوان بیٹا ہے مجھے نہیں پسند کوئی تمھیں دیکھے بھی۔ویسے بھی سننے میں آیا ہے کہ مریم آنٹی کو تم بہت پسند تھی اور ان کے بیٹے کو بھی۔اب کی بار عاشر نے چوٹ کی تھی ۔تم شک کر رہے ہو مجھ پر۔انابیہ افسوس سے بولی۔بیا میری جان تم پر نہیں۔۔ اس لڑکے کا کیا بھروسہ۔۔سہی ہے نہیں جاتی۔۔وہ غصے میں کہتی ہوئی کال کاٹ کر نیچے چلی آئی۔۔امی میں مریم آنٹی کے گھر نہیں جارہی آپ بتا دینا۔۔اسنے زینب بیگم کو آگہا کیا۔کیوں نہیں جا رہی انابیہ۔۔ بیٹا اگلے ماہ تمھاری شادی کرنی ہے میں اکیلی جان کیسے سمبھالوں گی سب۔۔وہ بھی وہاں اکیلی ہیں۔انکی ہلپ کرو گی تو وہ بھی کل کام آئیں گے۔امی پڑھائی زیادہ ہے اور فائنل ایئر ہے ۔۔میں ﮈسٹرب ہوں گی پیپر سر پر ہیں۔ٹھیک ہے میں کہہ دوں گی۔۔۔تم نے شاپنگ نہیں کرنی کیا۔۔۔کرنی ہے امی۔۔وہ فریج سے جوس کا ﮈبا نکالتے ہوئے بولی۔۔تو کب جاؤ گی۔۔امی عاشر نے کہا ہے کہ میں اسکے ساتھ جاؤں۔۔اسکی پسند کا سوٹ لوں۔۔انابیہ بیٹا ایک بات یاد رکھنا مرد کبھی بھی اس عورت کا نہیں ہوتا جو نکاح سے پہلے اس سے ملے۔اسکی نظر میں اس عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔۔وہ نصیحت کرتے ہوۓ بولیں۔واہ امی یہ تو کل میں نے ایک پوسٹ پڑھی تھی ۔۔بس لفظوں کا فرق تھا ۔۔وہ یہ تھا کہ مرد کبھی اس عورت کا نہیں ہوتا جس سے وہ چھپ چھپ کر ملاقاتیں کر چکا ہو۔تو بیٹا کچھ ہوش کے ناخن لو۔۔امی ہم چھپ کر تو نہیں مل رہے ناں۔۔بولتے ہوۓ اسکا ہاتھ رک گیا۔۔انابیہ کو چھت پر کافی شاپ پر کی گئی ملاقاتیں یاد آنے لگی۔۔۔انابیہ تم عاشر کو منع کرو۔۔وہ امی کی بات پر چونک گئی۔۔سواۓ ہممم کے کچھ ناں بول سکی وہ اٹھی اور کچن میں آئی جہاں زینب بیگم کھانا بنانے میں مصروف تھیں۔امی میں اپنی شادی کے لیے ﮈارک ریڑ کلر کا گھیر دار لہنگا بنواؤں گی اور ساتھ میں ویلوٹ کی چولی بھی۔۔وہ زینب بیگم کے گلے میں بازو پھلا کر پیار سے بولی۔ہاں بنوا لینا۔بلکہ کل جا کر پسند کرو ۔۔امی عاشر بھی ساتھ جاۓ گا۔انابیہ میں بتا چکی ہوں پہلے بھی بیٹا۔انکا دل انجانے خوف میں مبتلا تھا امی میں منع نہیں کر سکتی پلیز۔لیکن بیٹا
امی میری خاطر وہ آخر کیا کرتیں۔آخر وہ انکی اکلوتی بیٹی تھی کیسے اس کی فرمائشیں پورے نا ہونے دیتی۔انکی خود کی شادی جن حالات میں ہوئی تھی وہ اپنے سارے ارمان انابیہ کی شادی میں پورے کرنا چاہتی تھیں۔۔اسکی پسند کی ہر چیز دینا چاہتی تھیں اسے۔۔۔اسلیۓ اسے ساتھ ساتھ ہدایات اور نصیحتیں بھی کر رہی تھیں۔۔
سلیم صاحب صبح سے حساب کتاب میں لگے ہوۓ تھے۔اب انکا معمول بن گیا تھا ناشتہ کے بعد حساب کرنا کہ انابیہ کو کیا دینا ہے۔اور کیا کیا لینا رہ گیا ہے۔انھوں نے دل کھول کر پیسا خرچ کیا تھا آخر انکی اکلوتی بیٹی کی شادی تھی۔ فرنیچر کا آرﮈر دے دیا تھا ۔۔وہ انابیہ نے خود پسند کیا تھا۔۔کپڑے وغیرہ سب لےچکے تھے۔۔سجاد صاحب نےجہیز لینے سے منع کردیا تھا لیکن سلیم صاحب ضد پر تھے کہ بیٹی کو سب دینا ہے۔۔۔سجادصاحب نے انابیہ اور عاشر کے لیے الگ فلیٹ خریدا تھا ان دونوں نے خود پسند کیا تھا۔۔اب آہستہ آہستہ ان دونوں نے مل کر سیٹ کرنا بھی شروع کر دیا تھا
ابو جان میں نے لہنگا پسند کیا ہے دیکھیں۔۔وہ انھیں تصویر دکھاتے ہوۓ بولی۔۔واو بہت پیارا ہے۔۔وہ خوش ہو کر بولے۔مجھے بھی دکھاؤ۔ماہین جو چاۓ لا رہی تھی جوش سے بولی۔یہ دیکھیں بھابھی ۔۔واو بہت پیارا ہے واقعی ہی بیا۔۔۔تھینکیو تھینکیو بیٹھ جائیں سب۔۔انابیہ نے کھڑے ہو کر ﮈرامائی انداز میں کہا تو دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ابو جان اسکی ایڑوانس پیمنٹ کرنی ہے۔۔وہ جوش سے اچھل کر انکے پاس آئی اور بولی۔ویسے کتنے کا ہے۔۔ماہین نے اشتیاق سے پوچھا۔بھابھی دو لاکھ کا ۔۔دو لاکھ ۔۔ان کے ہاتھ سے کپ چھوٹتے بچا۔۔۔کیا کرو گی ایک دن پہننا ہے۔۔بھابھی بولیں۔۔ارے لینے دو ماہین بیٹا۔۔میری بیٹی کی پسند ہے۔ایﮈوانس کتنا دینا ہے ابو ففٹی پرسنٹ۔۔اوکے بیٹا کل لے لینا مجھ سے۔مجھے کہتی تھی میں تیز ہوں خود کم تیز ہے ماہین دل ہی دل میں کڑھ گئی۔۔آخر تھی تو بھابھی
آﺫر کو کچھ دن کی چھٹی ملی تھی وہ گھر آیا ہوا تھا۔عائشہ کی شادی کے دن قریب تھے۔۔انابیہ زینب بیگم کے ساتھ عائشہ سے ملنے گئی تھی مریم آنٹی نے اسے وہی روک لیا۔کل مہندی کا فنکشن ہے رک جاو وہ بضد تھیں۔آنٹی میرے پپر قریب ہیں تیاری بلکل بھی نہیں ہے۔کچھ نہیں ہوتا ایک دن سے ۔۔انھوں نے اسے وہی روک لیا۔اسکے دل میں صرف عاشر کا خوف تھا ۔۔باقی اسے کسی چیز کی فکر نہیں تھی۔۔۔
آﺫر رات کے وقت چچی چچا سے ملنے آیا تھا اسکے ساتھ عاشر اور سجاد صاحب بھی آۓ تھے۔۔۔
کیسے ہو بیٹا آﺫر ناراض مت ہونا عائشہ کی شادی میں بزی ہوں۔۔تم سے ملنے بھی نہیں آسکی۔۔چچی جان نے اسے گلے لگاتے ہوۓ اپنی مصروفیات بتائیں۔۔کوئی بات نہیں چچی جان ۔۔آپ بڑی ہیں اصولأ مجھے آنا چاہیے تھا سو میں آگیا۔ارے میری انابیہ بیٹی کہاں ہے۔۔۔۔کچھ دیر باتوں کے بعد انابیہ نظر نا آئی تو سجاد صاحب نے پوچھا ۔بھائی جان عائشہ کی شادی ہے نا ۔آج گئی تھی میرے ساتھ مریم نے روک لیا ہے وہ تو رک نہیں رہی تھی ایک دن کی بات ہے میں نے کہا رک جاؤ۔انابیہ کے نام پر آﺫر کا دل ﺫور سے دھڑکا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔لیکن ساتھ بیٹھے عاشر کی آنکھیں لال سرخ ہو گئیں۔وہ قابو کر کے خاموشی سے بیٹھا رہا۔اور سناو آزر بیٹا۔۔چھٹیاں کتنے دن کی ملی ہیں اور شادی میں تو آو گے ناں۔۔زینب بیگم آﺫر سے مخاطب ہوئی۔ چچی جان بس کچھ دن کی چھٹیاں ملی ہیں سوچا آپ لوگوں سے مل لوں۔اگلے ماہ شادی میں نہیں آسکوں گا۔۔چھٹی نہیں ملے گی۔۔اس نے معصومیت سے تفصیل بتائی۔اور مسکرا دیا۔تو بیٹا تب چھٹی لے لیتے۔۔وہ اسے چاۓ کا کپ پکڑاتے ہوۓ بولیں۔۔چچی جان ہماری چھٹیوں کے دن مقرر ہیں۔ اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے۔۔پھر بھی بیٹا۔۔سجاد صاحب سلیم کے ساتھ مصروف ہوگۓ۔۔عاشر معزرت کرتا کام کے بہانے گھر آگیا۔