عاشر کو ﮈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔ﮈاکٹر کے مطابق وہ ٹھیک تھا اب۔اسے گھر لایا گیا۔۔کسی نے اسے کوئی ٹینشن دینے والی بات نہیں کی تھی۔۔فاخرہ بیگم اسکے کمرے میں آئی اور اسکے سرہانے بیٹھ گئی۔۔ وہ سورہا تھا۔اسے کتنی دیر تک دیکھتی رہیں۔دل ہی دل میں اللہ سے دعا کرنے لگیں۔۔یا اللہ کیسی آزمائیش ہے ۔میرے دونوں بیٹے ایک لڑکی کے لیے پاگل ہیں میں کیا کروں مجھے راستہ دکھا۔۔انکا ایک آنسو عاشر کے ماتھے پر گرا۔ امی ۔۔۔وہ آہستہ سے بولا۔جی میری جان فاخرہ بیگم نے پیار سے اسکے سر پر بوسا دیتے ہوۓ کہا۔۔امی انا۔۔۔۔بیہ ۔۔تم آنکھیں بند رکھو عاشر تمھیں آرام کی ضرورت ہے۔۔وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوۓ اسے سلانے لگیں جب وہ نیچے آئیں توسجاد صاحب اور آزر باتوں میں مصروف تھےمجھے سمجھ نہیں آرہا عاشر کے ساتھ یہ ہوا کیسے۔۔کبھی اس نے کسی بات کو اتنا سر پر نہیں لیا۔۔سجاد صاحب پریشانی سے بولے۔۔آﺫر اسکی کسی سے لڑائی تو نہیں ہوئی وہ آﺫر کی طرف پلٹے۔۔نہیں ابو ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔اور اسکے پاس اتنا ٹائم کہاں ہوتا ہے۔۔صبح یونیورسٹی جاتا ہے پھر تین بجے سے رات تک سینٹر آتا ہے۔جاب بھی اسلیۓ چھوڑ دی تھی۔۔آﺫر نے سجاد صاحب کو اسکی روٹین بتائی۔۔۔گھر میں تو کچھ نہیں ہوا فاخرہ بیگم۔۔ کوئی بات جو میرے علم میں ناں ہو۔ایسس۔۔۔ا تو ک۔۔کچھ نہیں ہے۔فاخرہ بیگم ہچکچا کر بولیں ۔سجاد صاحب کو ان پر شک ہو گیا تھا کہ گھر میں کوئی بات ہوئی ہے ماں بیٹے کے درمیان ۔۔لیکن خاموش ہو گئے میں چائے بناتی ہوں وہ کہتے ہوۓ کچن میں آگئیں لیکن سجاد صاحب کو اب یقین ہو گیا تھا کوئی ناں کوئی بات ضرور ہے جو وہ چھپا رہی ہیں۔۔۔
رات کا کھانا کھانے کے بعد سجاد صاحب کمرے میں آگئے اور اسکا انتظار کر رہے تھے۔۔فاخرہ بیگم جانتی تھیں کہ وہ ضرور پوچھیں گے اس لیے وہ کوئی نا کوئی کام میں خود کو مصروف کر رہی تھیں تاکہ سجاد صاحب سوئیں تو وہ کمرے میں جاۓ۔لیکن آخر کب تک ان سے چھپاؤں گی کبھی نا کبھی تو پتا چلنا ہے سوچتے ہی وہ کمرے میں آگئیں۔آپ سوۓ نہیں وہ کمرے میں آئیں تو سجاد صاحب کو پلنگ پر بیٹھے کچھ سوچتے پایا۔۔نہیں مجھے آپ سے ہی بات کرنی ہے وہ فاخرہ بیگم سے مخاطب ہوئے۔کیا بات کرنی ہے۔۔۔فاخرہ جانتی تھی لیکن جان بوجھ کر بات بڑھا رہیں تھیں۔یہی کہ آپ کچھ چھپا رہی ہیں مجھ سے۔۔وہ اٹھے اور فاخرہ کے پاس آبیٹھے۔میں کیوں چھپاؤں گی بھلا آپ سے فاخرہ بیگم نے نظریں نیچی کر لیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں مجھ سے کترا رہی ہیں۔۔میری طرف دیکھیں۔۔وہ انکا ہاتھ پکڑ کر بولےفاخرہ بیگم منہ جھکاۓ بیٹھی رہیں۔بتائیں کیا بات ہے۔کیوں پریشان ہیں آپ فاخرہ بیگم جو کافی دیر سے اپنے آنسو پر کنٹرول کرے بیٹھی تھی مزید برداشت ناں کر سکیں۔۔اور رو دیں۔رو کیوں رہی ہیں۔۔ وہ پریشان ہوگئے ۔میں آﺫر اور عاشر کی وجہ سے پریشان ہوں۔۔وہ روتے ہوۓ بولیں۔۔لیکن کیوں۔۔چلیں عاشر کا سمجھ آتا ہے آﺫر کی بات میں نہیں سمجھا۔۔آﺫر جو پانی لینے کے لیے کمرے سے نکلا تھا اپنا نام سن کر وہی رک گیا۔۔آﺫر انابیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔سجاد صاحب حیران نہیں ہوۓ کیونکہ یہ اتنی اہم بات نہیں تھی اگر آﺫر پسند کرتا ہے انابیہ کو تو کیا۔۔وہ رو رہی تھی۔۔ لیکن آﺫر کے لے آپ نے ماہم کو پسند کیا ہے۔تو اسمیں رونے کی کیابات ہے۔وہ پسند کرتا ہے تو۔۔وہ پسند نہیں کرتا پاگل ہے اسکے لیے۔۔۔اور عاشر بھی انابیہ کے لیے پاگل ہے ۔۔ایک دھماکہ ہوا۔کیا سجاد صاحب نے انکا ہاتھ چھوڑ دیا۔میں نے منع کیا عاشر کو۔ اسکی یہ حالت ہو گئی ہے۔مجھے بتائیں میں کیا کروں۔۔میں ماں ہوں میرے ایک بیٹے کے لیے ہاں کرؤں تو دوسرا خود کا غرق کر لے گا۔۔وہ مسلسل روۓ جا رہی تھی۔۔۔سجاد صاحب خود پریشان ہوگئے تھے۔۔آﺫر کا منہ حیرت سے کھل گیاوہ چھوٹے قدم اٹھاتا کچن میں آگیا اسنے گلاس اٹھایا اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا۔۔اسنے گلاس دوبارہ رکھ دیا وہ جو کچھ سن کر آیا تھا اسے قبول نہیں کر پا رہا تھا۔۔۔کچھ دیر سر پکڑ کر وہی بیٹھا رہا عاشر بھی انابیہ کے لیے پاگل ہے۔ اسکے ﺫہین میں امی کے روتے ہوۓ بولے گئے الفاظ چل رہے تھے۔۔۔اسنے خود کو سمبھالا۔۔اٹھا اور اوپر چھت پر آگیا۔ٹھنڑی ہوا میں اسنے اپنا سانس بحال کیا اور آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔
۔۔۔وہ اِک شخص جو کسی طور مل جاتا مجھے
مجھ کو منظور تھے پھر جتنے بھی خسارے ہوتے
اسے تھوڑے دور گملوں کے پاس کسی کے رونے کی آواز سنائی دی۔وہ اٹھا اور گملوں کی طرف چل دیا۔۔انابیہ کتنی دیر سے وہاں بیٹھی رو رہی تھی۔۔انابیہ آﺫر کے پکارنے پر اس نے سر اوپر اٹھایا اور وہ بجلی کی سی رفتار میں اٹھ کر اسکے پاس آئی۔۔دونوں گھروں کی چھتوں پر ایک چھوٹی سی دیوار بنائی گئی تھی۔۔ فاخرہ بیگم نے اوپر کمرے بنانے کا سوچ رکھا تھا۔جبکہ زینب اور سلیم نے کچھ گملے اوپر رکھواۓ تھے۔۔اور کافی اچھا رکھا ہوا تھا چھت کو۔۔عاشر ٹھیک ہے ناں آﺫر بھائی مجھے امی نہیں آنے دے رہیں ۔۔عاشر کا موبائل بھی آف ہے پلیز مجھے بتائیں۔۔وہ روتے ہوۓ اس کے پاس آئی اور اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔وہ بے یقینی سے اسے روتا ہوا دیکھ رہا تھا اسے بخار ہورہا تھا۔ہاں ٹھیک ہے عاشر۔۔آرام کر رہا ہے۔آﺫر نہیں جانتا تھا اس نے کیسے اسے تسلی دی تھی۔۔اس نے خود کو عجیب سے بوجھ تلے محسوس کیا۔۔دماغ میں امی کے الفاظ چل رہے تھے۔۔۔۔آﺫر بھائی پلز مجھے اسے ملنا ہے۔۔میری مدد کریں ۔۔انابیہ جا کر سو جاؤ وہ ٹھیک ہے تمھیں بخار ہے آرام کرو ۔۔پلیز وہ التجائی ہوئی۔۔۔میں نے کہا نا جاؤ۔وہ اسے روتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔بھلے وہ اسے ملتا نہیں تھا اسکے سامنے کم آتا تھا لیکن وہ ہمیشہ سے اسے چاہتا تھا۔۔۔اسنے ہاتھ چھڑا لیا اور جانے لگا۔۔۔انابیہ وہی روتی رہی۔۔۔وہ سیڑھیوں پر تھا اسے اپنے چہرے کچھ گرم سا محسوس ہوا۔وہ رو رہا تھا۔وہ کمرے میں آگیا۔پہلی دفعہ وہ رویا تھا۔۔ایک لڑکی کے لیے رو رہا تھا۔۔جس سے ناں کبھی اس نے اقرار محبت کیا تھا نا کبھی زیادہ بات کی تھی۔ ایسی لڑکی جو اسکے چھوٹے بھائی کو پسند کرتی ہے۔۔وہ بچپن میں اسے پریشان کرتی تھی تنگ کرتی تھی اور وہ اسکی حرکتوں پر خوش ہوتا تھا۔۔جبکہ عاشر سے اسکی ہمیشہ لڑائی رہتی تھی۔وہ ہر ایک بات کو سوچ رہا تھا۔۔ہر چھوٹی بڑی بات۔۔اسے یاد آرہا تھا جب انابیہ میٹرک میں تھی وہ چچی جان کے کہنے پر اسکی مدد کرتا تھا۔اسے اسکول لے آنا لے جانا سب اس کے ﺫمے تھا۔۔اسنے چچا جان کو کہہ کر اسکو اچھے سے اچھے اسکول میں داخل کروایا تھا۔ اسکا اسکول آﺫر کی یونیورسٹی کے راستے میں تھا۔اسکی ہر فرمائش پوری کرتا تھا۔لیکن انابیہ اسے ہمیشہ سڑو کہتی تھی کیونکہ وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔وہ اسےصرف چار سال ہی بڑا تھا اور شارم سے ایک سال ۔اسنے امی کو کتنی مرتبہ انابیہ سے شادی کروانے کا کہا تھا۔لیکن امی اپنی پرانی باتیں لے بیٹھتی تھیں۔اسکی خالہ اور چچا جان کی شادی کے قصے۔وہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا انابیہ اسے بھائی کب سے کہنے لگی تھی وہ سب کو نام سے پکارتی تھی۔۔وہ سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا تھا۔ رات کے تین بج رہے تھے۔۔وہ اٹھا اور وضو کرنے چلا گیا وہ ہمیشہ سے نماز کا پابند تھا لیکن تہجد کبھی کبھار ادا کرتا تھا وہ جانتا تھا کہ بہترین عشق وہ ہے جو آپ کو اپنے رب سے ملوا دے اپنے رب سے قریب کر دے اسنے تہجد کے نفل ادا کیے اور اللہ سے دعا کرنے لگا۔یا اللہ میں نے کچھ غلط کیا ہے کیا۔میں نے ہمیشہ سے صرف اسے پسند کیا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ میرے مقدر میں کیا ہے بے شک تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے مجھے معاف کر دیے۔۔میرے دل کو سکون دے مجھے صبر دے ۔۔اے اللہجو میرے مقدر میں نہیں لکھا اُسکی کوشش اور تمنا میں مجھے مبتلا نہ کر ،اور جو میری تقدیر میں لکھ دیا ہے اُسے آسان بنا دے اسنے دعا ختم کی اور دونوں ہاتھ چہرہ پر پھیرے اسنے اپنے دل میں ارادہ کیا۔۔اور وہ جس فیصلہ پر پہنچا تھا اگلی صبح امی کو اسے آگاہ کرنا تھا۔