عاشر نے اسے گھر سے تھوڑے فاصلے پر اتارا تھا۔وہ امی کے بتاۓ وقت پر گھر پہنچ گئی تھی۔امی پہلے سے تیار تھیں۔اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔اتنی دیر لگا دی تم نے بیٹا۔جلدی کرو ہمیں نکلنا ہےانھوں نے افراتفری مچا دی۔۔امی مجھے سانس تو لینے دیں۔وہ جھنجھلا کر بولی۔لے لو سانس تم میں پرس لے کر آتی ہوں۔سات بجے پہنچنا ہے ان کے گھر۔تم جانتی ہو اپنے ابو کو وقت کے کتنے پابند ہیں۔ابھی انکی کال آئی ہے کہ پہنچنے والے ہیں وہ اور شارم ۔میں نے بتا دیا کہ تم کوچنگ گئی ہو۔آؤ گی تو جائیں گے۔زینب بیگم نے تفصیل بتائی۔ابو بھی جائیں گے کیا۔نہیں وہ تنک کر بولی ظاہر سی بات ہے انھوں نے اکمل بھائی کی فیملی کو ٹائم دیا ہوا ہے۔تمھارے ابو اور عاشر ابھی آئیں گے۔پھر ہمیں پہنچنا ہے۔امی مجھے پوری بات تو بتائیں پہلے۔بیٹا انھوں نے رات کے کھانے کے لیے انوائٹ کیا ہے اب۔پہلے ہم صرف ملنے جا رہے تھے لیکن ابھی کال آئی تھی تمھارے ابو کی۔کہ ﮈنر ان کے ساتھ کرنے کا کہہ رہے ہیں اکمل بھائی۔دیکھاؤں تم نے کونسے کپڑے پہنے ہیں۔انھوں نے انابیہ کا عبایا ہٹا کر اسکے کپڑے دیکھے۔یہ پہننے کا ﮈریس ہے۔جاؤ چینج کرو۔صرف بیس منٹ ہیں بیٹا جلدی کرو اور کوئی ﮈھنگ کے کپڑے پہننا۔وہ نصیحت کرتی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔انابیہ نے بیگ اٹھایا اور اپنے کمرے میں آگئی۔۔جلدی جلدی چینج کیا اور اپنے ہلکا پھلکا میک اپ کیا۔نیچے پہنچی تو تب تک ابو اور بھائی بھی آگۓ تھے۔اسلام و علیکم ابو ۔اسنے سر پر دوپٹا ٹھیک کرتے ہوۓ سلام کیا ۔وعلیکم اسلام ۔ماشاء اللہ میری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے۔۔۔سچی ابو جان۔۔ہاں بلکل۔۔۔کوئی نہیں چڑیل لگ رہی ہے۔شارم سے رہا نہیں گیا۔اور بول پڑا۔ابو دیکھیں بھائی کو انابیہ نے ابو کو اسکی شکایت لگائی۔چپ کرو تم سلیم صاحب نے اسے ٹوکا۔۔میں نے کیا کیا
وہ چیخ پڑا ۔۔۔سب ایک ساتھ ہنس پڑے۔۔چلو اب۔۔۔گاڑی نکالو شارم جاؤ۔۔وہ جی کہتا ہوا فرمانبرداری سے باہر چلا گیا۔تقریبا ساڑھے سات تک وہ ان کے گھر پر موجود تھے۔۔احمد فیملی کے استقبال کےلیے اکمل فیملی کے ممبر دروازے پر موجود تھے۔۔لگ نہیں رہا تھا کہ پہلی مرتبہ ملے ہیں
۔اکمل صاحب کے گھر میں پانچ فرد تھے جن میں وہ انکی بیگم ایک بیٹی اور ایک بیٹا بہو شامل تھے۔اکمل انکا بیٹا معاﺫ اور سلیم صاحب اور شارم سیاسی باتوں میں مصروف تھے۔جبکہ انکی بیگم سلمہ اور زینب الگ اپنی باتوں اور گھر کے خاندان کے قصے سنانے میں مصروف تھے۔وہ بور ہورہی تھی تو کچن میں آگئی جہاں انکی بہو فرح اور بیٹی ماہین کھانے کی تیاری میں مصروف تھے۔میں کچھ ہلپ کروں انابیہ نے کچن میں آتے ہی پوچھا۔ارے نہیں جانی آپ بیٹھو بس ہو گیا ہے سب بس رائتہ بنانا ہے وہ ماہین بنا رہی ہے۔اسے دیکھتے ہی فرح نے بتایا۔اوہ لیکن میں وہاں بور ہورہی ہوں سب اپنی باتوں میں مصروف ہیں۔کوئی بات نہیں آپ یہاں بیٹھ جائیں۔اسکی بات سن کر ماہین نے کرسی اسکے آگے رکھ دی۔۔بھابھی آپ ٹیبل دیکھیں میں رائتہ بناتی ہوں۔ماہین نے فرح کو تسلی دی جو پریشان حالت میں یہاں وہاں جلدی جلدی کام ختم کرنے میں مصروف تھی۔آپکو کھانا بنانا آتا ہے۔انھیں کام میں مصروف دیکھ کر انابیہ مسکرائی۔۔جی مما نے کچھ سکھایا ہے کچھ بھابھی سے سیکھایا ہے۔۔ماہین مسکرا کر بولی۔واو آپ تو زیادہ امریکا میں رہ کر آئی ہیں پھر بھی۔انابیہ نے حیرت سے پوچھا۔
ہماری فیملی زیادہ عرصہ وہی رہی ہے۔بھائی بھابھی کی شادی بھی وہی ہوئی تھی۔۔بھابھی کزن ہیں میری۔ ہمارے وہاں سب پاکستانی فوﮈ بنتے تھےآئی مین مما اور بھابھی کھانا بنانے میں ماہر ہیں تھوڑی بہت میں بھی ہوں بس بابا کے کچھ بزنس کلیشز کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا ماہین انابیہ کو بتا رہی تھی اور وہ منہ کھولے حیرت سے سن رہی تھی۔
حیرت کی بات ہے ویسے میں نے سنا ہے وہاں کے لوگ کافی تیز ہوتے ہیں وہ بےخیالی میں بول گئی لیکن اب پچتا رہی تھی بدلے میں ماہین اسکا منہ دیکھتی رہ گئی اسے برا لگا تھا مگر کچھ بولی نہیں صرف مسکرا دی انابیہ کو شرمندگی محسوس ہوئی تو وہ بول پڑی آئی ایم سو سوری پلیز میراوہ مطلب نہیں تھا
اٹس اوکے ﮈیئر آئی نیور مائنڑ ماہین نے مسکرا کر جواب دیا کچھ دیر خاموش رہی اور بولی اینڑ یو نو میں نے بھی یہی سنا تھا کہ امریکا کے لوگ تیز ہوتے ہیں ماہین نے آنکھ دبائی اور انابیہ کی شرمندگی کو کم کیا دونوں ایک ساتھ ہنس پڑی تو فرینڑز انابیہ نے ہاتھ بڑھایا شور ماہین نے مسکرا کر اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
سب کھانے کا ویٹ کر رہیے ہیں ماہین۔
فرح کہتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی ۔جی بھابھی لگاتے ہیں۔ویسے نام کیا ہے آپکا میں بھول گئی ہوں وہ انابیہ سے مخاطب ہوئی۔انابیہ نام ہے میرا۔۔انابیہ نے مسکرا کر جواب دیااوہ اچھا انابیہ بہت پیارا نام ہے آپ آجائیں ہم کھانا لگاتے ہیں۔۔میں بھی کچھ ہلپ کروں۔۔انابیہ نے پلٹ کر فرح سے پوچھا۔۔ارے نہیں آپ جاؤ ہم لا رہے ہیں انابیہ باہر آگئی۔زبردست ﮈنر کے بعد وہ لوگ تقریبا بارہ بجے تک گھر آگۓ تھے۔مجھے تو بہت اچھی لگی ہے ماہین ماشاءاللہ بیت پیاری اور سلجھی ہوئی بچی ہے۔بس ہماری طرف سے تو ہاں ہے۔آپ اکمل صاحب سے کہیں وہ اور انکی فیملی آکر ہمارا گھر بار دیکھ جائیں زینب بیگم نے سلیم صاحب کو اپنی بات بتا دی۔بلکل مجھے بھی بہت اچھی لگی ہے ماہین آپی انابیہ نے ماں کی ہاں میں ہاں ملائی۔بھائی آپکا کیا خیال ہے۔۔اسنے شارم کو تنگ کیا۔۔بہت نیک خیال ہے بہنا ویسے امی پہلے اسکی بدائی کریں تاکہ ہم سب تھوڑا سکون کا سانس لیں بیس سال سے اسے برداشت کر رہے ہیں۔وہ کہاں پیچھے رکنے والا تھا۔مجھ سے تنگ ہیں آپ سب۔انابیہ چلائی۔۔ہاں بلکل ہم بہت تنگ ہیں تم سےاور کم چیخو ہم بہرے نہیں ہے۔۔۔وہ مزید تنگ کرنے کے موﮈ میں تھا۔کبھی بھی سکون سے نہیں رہنے دوں گی تمھیں۔انابیہ اب باقاعدہ اسکے کان کے پاس آکر چیخی۔۔وہ چڑ کر دور ہوگیا۔چپ ہو جاو دونوں۔سلیم صاحب نے دونوں کو ﮈانٹا دونوں پھر کہیں سکون سے بیٹھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکمل صاحب کی فیملی ان سے ملنے آئی تھی سواۓ ماہین کے۔۔ان سب نے بھی رشتے کے لیے ہاں کر دی تھی۔کچھ دن بعد دھوم دھام سے منگی رکھی گئی۔منگنی میں سب نے شرکت کی تھی۔سلیم صاحب اور اکمل فیملی سجاد فیملی سے اور باقی مہمانوں سے ایک دوسرے کا تعارف کراتے رہے۔۔۔کچھ دن بعد شادی کی ﮈیٹ فائنل کرنی تھی۔انابیہ نے ہنگامہ برپا کر دیا کے اسکے فائنل اگزیمز کے بعد کی ﮈیٹ رکھی جاۓ۔تاکہ وہ شادی خوب اچھے سے انجواۓ کر سکے۔اسکے علاوہ اکمل صاحب کے امریکا سے بھی مہمان آنے تھے۔تو شادی دو ماہ تک ﮈیلئے کردی گئی۔۔اللہ اللہ کر کے شادی کے دن قریب آرہے تھے گھر میں شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔اور ساتھ ساتھ عاشر کی شرارتیں بھی۔کسی نا کسی بہانے وہ انابیہ کو پکڑ لیتا۔انابیہ بچ بچاو میں لگی ہوئی تھی سلیم صاحب سجاد صاحب آزر عاشر سب کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے ۔اور تو اور شارم کو بھی کسی نا کسی بہانے کاموں میں گھسیٹا جارہا تھا۔آزر نے کئی دفعہ اسکی طرف داری کی دلہا ہے تو کیا کام کون کرے گا سلیم صاحب باتوں باتوں میں اسے سنا دیتے تھے۔۔۔گھر کے کاموں میں زینب مریم اور فاخرہ بیگم جبکہ شاپنگ میں انابیہ اور عائشہ پیش پیش تھیں۔۔شادی والا گھر تھا کام پر کام نکل آتے تھے کبھی دلہن اور دلہا کے کپڑے چھوٹے بڑے ہو جاتے کبھی انابیہ کا لہنگا نہیں آتا درزی کے چکر ختم نہیں ہورہے تھے۔۔۔نیز ان کاموں کے لیے عامر آگے آگے تھا۔۔مہمانوں کی آمد عروج پر تھی۔اللہ اللہ کر کے مہندی کا دن آن پہنچا۔نیچے عامر کرسیاں لگوا رہاتھا۔اور لائٹس ٹھیک کروا رہا تھا جبکہ عاشر میٹھائی کی ٹوکریاں اٹھواتا اندر باہر آرہا جارہا تھا اور ساتھ ساتھ بڑبڑا بھی رہا تھا۔شارم وائٹ کلر کے ﮈریس کے اوپر بلیک واسکٹ پہنے گلے میں یلو دوپٹہ لیےتیار ہوا روم میں انٹر ہوا۔۔آزر نے لائٹ کو اوپر سے ٹھیک کرنے کے لیے اسٹک ساتھ رکھی تھی۔صحیح سے کام کر کہتے ہوۓ شارم نے وہی اسٹک اٹھا کر عاشر کمر پر رسید کی۔وہ تڑپ اٹھا۔اور پلٹ کر شارم کو مکا رسید کرنے کی ایکٹنگ کی ۔انابیہ لہنگا سمبھالتی سہل سہل کر سیڑھیاں اترتی نیچے آرہی تھی۔۔۔انابیہ کو دیکھتے رک گیا نظریں وہی جم گئی تھی دل پر ہاتھ رکھ کر بولا۔بیٹا دلہا ہے معاف کر رہا ہوں کچھ دن بعد زرا باہر مل۔میں بھی اپنی شادی میں کام نہیں کروں گا اور دیکھنا بڑا سا ﮈنڑا ساتھ رکھوں گا اور شارم سے کام کرواوں گا۔اسکی بات پر سب نے زور دار قیقہہ لگایا۔۔جلدی کرو سب کتنا وقت لگے گا
وہاں پہنچنا بھی ہے۔سجاد صاحب کہتے ہوتے کمرے میں داخل ہوۓ۔۔۔خیریت سے سب لوگ آٹھ بجے تک وہاں پہنچے۔اکمل صاحب نے ﮈنر کا ارینجمنٹ کروایا تھا سب کے لیے۔مہندی لگا کر واپسی میں بارہ بج چکے تھے۔۔سب تھک کے چور ہوۓ وے تھے۔آتے ہی تھوڑے بہت دھوم دھڑاکے کے بعد سب مہمان اپنے گھروں میں چلتے بنے۔انابیہ نے عائشہ کو روک لیا تھا اور اب پاؤں پکڑ کر بیٹھی تھی۔ﮈانس کر کر کے اسکے پاؤں سوج گئے تھے۔کس نے کہا تھا کہ اتنا ناچو۔فاخرہ بیگم اسکی آہ آہ سن کر تپ کر بولی۔تائی جان میرے اکلوتے بھائی کی شادی ہے میں نا ناچتی تو کون ناچتا وہ معصومیت سے بولی۔۔لو کل کے لیے کچھ چھوڑ دیتی اب بیٹھی رہو پاؤں لے کر۔وہ تپ کر بولی۔۔امی جان میرے پاؤں۔۔ وہ ابھی تک پاؤں کا رونا لیے بیٹھی تھی۔عائشہ بیٹا اٹھو اسکے پاؤں کی سکائی کر دو مریم نے بیٹی کو کہا۔اب تیرے کام مجھے کرنے پڑیں گے۔۔وہ انابیہ کو چٹکی کاٹ کر اٹھی ۔انابیہ پہلے پاؤں لیے بیٹھی تھی اب بازو سہلا رہی تھی۔۔۔موبائل وائبریٹ ہوا ۔۔ ون نیو میسج۔ دیکھ کر مسکرا دی۔میسج کھولا تو عاشر کا میسج تھا اوپر آؤ وہیں جہاں ملتے ہیں۔۔کیوں اسنے ریپلائی کیا۔۔آؤ تو۔۔دوبارہ میسج آیا ۔۔نہیں آسکتی پاؤں میں درد ہے انابیہ نے وجہ بتائی۔۔کچھ دیر تک ریپلائی نہیں آیا تو اٹھ کر چھت پر بھاگی۔۔عاشر دیوار کے اس پار کرسی پر بیٹھا اسکا منتظر تھا۔۔اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔اور قریب آگیا۔۔کہاں رہ گئی تھی تڑپ کر بولا۔پاؤں میں درد ہو رہا ہے بہت دیکھو سوج گئے ہیں۔۔ انابیہ بچوں کی طرح پاؤں دیکھاتے ہوۓ بولی بدلے میں اس نے انابیہ کا پاؤں پکڑ لیا اور مسکرا دیا۔۔لاؤ دبا دوں۔۔تم پورے جورو کے غلام بنو گے۔انابیہ ہستے ہوۓ بولی۔جب جورو اتنی خوبصورت ہو تو غلام کیسے نہیں بنوں گا۔وہ بھی ہنس دیا۔ اور مزید قریب ہوا۔بیا میری جان۔۔۔عاشر نے سرگوشی کی اور اسے بازوں کے حصار میں لیا
جی وہ شرما کر بولی۔۔۔اور کتنا انتظار کہتے ہی اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔۔تھوڑا اور ۔۔انابیہ اسکی بڑھتی گستاخی سے پریشان ہونے لگی۔عاشر۔۔۔۔آزر کی آواز پر دونوں چونک گئے۔انابیہ اسے ہاتھ چھڑاتی نیچے بھاگ گئی جبکہ عاشر بھائی کو دیکھ کر گڑبڑا گیا۔۔۔عاشر۔۔۔جی بھائی۔۔۔تم یہاں اکیلے کیا کر رہے ہو۔۔۔بھائی مم۔۔۔میں
کیا میں آزر نے پوچھا۔شاید بھائی نے انابیہ کو نہیں دیکھا سوچتے ہی اسکی جان میں جان آئی۔۔جاؤ سو جاؤ کل جلدی اٹھنا ہے۔جی بھائی وہ فرمانبرداری سے کہتا سیڑھیاں اترتا نیچے آگیا۔۔دوسری طرف کمرے میں آکر انابیہ نے بھی سانس بحال کی۔۔اب اسکے دل میں اک ہی ﮈر تھا کہیں آزر بھائی نے دیکھ تو نہیں لیا
اگلی صبح کل کے دن سے زیادہ مصروف تھی ۔سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی تھی۔۔کسی کو پارلر جانا ہے تو کسی کو ابھی بھی مارکیٹ۔۔انابیہ سو کر اٹھی موبائل اٹھایا اور نیچے آئی تو زینب بیگم سب کو ناشتہ کرانے میں مصروف تھیں۔اسے دیکھتے ہی بولیں۔۔اٹھ گئی بیا۔۔جی امی ۔۔آجاو ناشتہ کرو پھر تمھیں پارلر بھی جانا ہے ماہین کے کپڑے اور جولری لے کر جلدی کرو۔اچھا ناں امی آرہی ہوں۔۔وہ موبائل میں کچھ لکھتے ہوتے بولی۔چھوڑ دو اس موبائل کو ۔۔آؤ ۔۔زینب نے اسے بلا کر ناشتہ کرایا اور کپڑے تھما کر سلیم صاحب کے ساتھ پارلر بھیج دیا۔انابیہ بھی وہی تیار ہوئی اس نے پہلے سے بکنگ کروا رکھی تھی۔وہ لہنگوں کی شوقین تھی۔اسلیےاس نے دونوں دن کا لہنگا بنوایا تھا۔۔وہ تیار ہو کر گھر آگئی تھی۔کیونکہ اسے بارات کے ساتھ جانا تھا۔تھوڑی دیر بعد بارات نے نکلنا تھا۔
میرج ہال میں بارات کا روایتی طریقے سے استقبال کیا گیا۔شارم کے چہرے سے تو مسکراہٹ ہی نہیں جا رہی تھی۔۔۔۔کسی نا کسی دوست کے چھیڑنے پر وہ لال گلابی ہو رہا تھا۔وہ بھی مسلسل بات بے بات مسکرا کر دوستوں کو جیلس کر رہا تھا۔عاشر بھی شارم کے ساتھ اسٹیج پر آگیا تھا۔۔جہاں انابیہ مہرون کلر کے لہنگے میں نفاست سے تیار ہوۓ تیکھے نین نقش کے ساتھ غضب ﮈھا رہی تھی ۔وہ پہلے سے وہاں موجود تھی۔عاشر تو اسے دیکھتا رہ گیا۔۔جان عاشر جان لوگی کیا۔دیکھنا کچھ مہینوں بعد تم اور میں انکی جگہ پر ہونگے اسکے کان کے پاس آکر سرگوشی کی اور ہنس دیا۔۔انابیہ شرارت سے اسکی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔کچھ دیر بعد نکاح پڑھا گیا۔اور دلہن کو باہر لایا گیا۔ماہین کسی شہزادی کی طرح دونوں طرف سے اپنا لہنگا پکڑ کر سمبھل سمبھل کر چلتی اسٹیج تک آئی۔جہاں شارم نے اسکا ہاتھ تھام کر اسٹیج پر آنے میں مدد کی اور لڑکیوں لڑکوں نے شور برپا کردیا اور پھولوں کی پتیاں برسائی۔۔شارم اور ماہین کی جوڑی کسی شہزادہ شہزادی کی جوڑی سے کم نہیں لگ رہی۔زینب بیگم بار بار بیٹے بہو کی بلائیں لے رہی تھیں۔کچھ دیر میں کھانا لگایا گیا۔دلہا دلہن کے ساتھ فوٹوسیشن ہوا اور کچھ رسموں کے بعد پھر رخصتی میں آنسو بہاتی ماہین ہمیشہ کے لیے ماہین شارم بن کر احمد فیملی کا حصہ بن گئی۔۔۔اگلے دن ولیمہ کا فنکشن رکھا گیا تھا۔۔اللہ اللہ کر کے فنکشن ختم ہوئے تو انابیہ نے پڑھائی دوبارہ اسٹارٹ کی۔نئی کلاسز اسٹارٹ ہوئی تھی اب وہ صرف پڑھائی پر توجہ دینا چاہتی تھی۔انابیہ نے دوبارہ کوچنگ جوائن کر لی ۔۔اسکی اور عاشر کی محبت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی روز بروز کی ملاقاتیں عاشر کی دیوانگی بڑھا رہی تھی