آﺫر سے بھی اسکی بات ضرورت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی انابیہ یہاں بھی کمرے میں زیادہ وقت رہتی تھی آﺫر صبح کا جاتا شام میں واپس آتا تھا اس نے کاموں کے لیے میﮈ رکھ دی تھی انابیہ کافی حد تک عاشر کو بھلانے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن کبھی کبھار ہی سہی اسکی یاد اسے ضرور آتی تھی اسے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا وہ کہا ہے اور کس حال میں ہے انابیہ چچی جان کی کال ہے آﺫر نے سے موبائل پکڑایا ۔آﺫر نے کئ مرتبہ اسے موبائل دینے کی کوشش کی لیکن اسنے ہمیشہ لینے سے انکار کر دیا۔۔وہ جس مشکل سے نکلی ہے اس میں دوبارہ نہیں پھسنا چاہتی تھی۔۔ وہ جانتی تھی اگر اسکے پاس موبائل آیا تو عاشر اسے ضرور رابطہ کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ اسکا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اور جب سے اسکے پاس موبائل آیا تھا وہ کیسے اللہ سے دور ہوتی گئی تھی اسے سب یاد تھا۔۔اگر کبھی اسے بات کرنی بھی ہوتی تھی تو وہ آﺫر کے موبائل سے امی ابو سے بات کر لیتی تھی۔۔آج بھی زینب بیگم نے اسے شارم اور ماہین کے اسلام آباد آنے کی خبر دینے کے لیے کال کی تھی۔۔۔انابیہ تمھارے لیے کچھ بھیجنا ہے۔۔شارم اور ماہین اسلام آباد آرہے ہیں وہی سے مری گھومنے جارہے ہیں۔نہیں امی کچھ نہیں چاہیے ۔۔آپ اور ابو بھی آجائیں کتنے ماہ سے میں آپ سے نہیں ملی۔۔اسنے منت کرتے ہوۓ کہا۔۔آئیں گے میری جان سب تو اکھٹے نہیں آسکتے اور تمھارے تایا جان ہمارے ساتھ ہوتے ہیں گھر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے شارم بھی جا رہا ہے۔جب وہ آجاۓ گا پھر ہم آئیں گے۔۔۔اچھا امی آپ آتے تو مجھے بہت اچھا لگتا ۔۔وہ تائی کے بارے میں پوچھنا چا رہی تھی لیکن نہیں بول پائی کیونکہ آﺫر سامنے بیٹھا تھا اچھا امی ٹھیک ہے پھر بات ہوگی اس نے کہہ کر کال کاٹ دی
سب خیریت ہے اسنے آﺫر کو موبائل تھمایا تو اس نے پوچھا جی شارم بھائی اور بھابھی آرہے ہیں اچھا کب آﺫر نے اشتیاق سے پوچھا پتہ نہیں کچھ دن تک وہ کہہ کر باہر آگئی
۔۔ آج میﮈ نہیں آئی تھی وہ کچن میں کھڑی کھانا بنا رہی تھی۔۔انابیہ۔۔۔۔آزر ابھی گھر آیا تھا۔آج چھٹی کی تھی اسنے اور وہ شارم اور ماہین کو لینے ایئرپورٹ گیا تھا۔۔ جی اسکے پکارنے پر باہر آئی۔اسکے ساتھ شارم ماہین امی ابو کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔۔وہ بھاگ کر ابوکےگلے لگ گئی اور باری باری سب سے ملی۔۔اتنا بڑا سرپرائز وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی ۔۔چڑیل کیسا لگا ہمارا سرپرائز ۔۔شارم نے اسے سینے سے لگاتے ہوۓ کہا۔۔بہت اچھا بھائی۔۔ خوشی سے اسکی آنکھیں بھیگ گئی۔۔اندر بھی لے چلیں سب کو۔آﺫر کے کہنے پر وہ ہوش میں آئی۔۔ہاں بھئ تمھارا شوہر دیکھو قلعی بنا ہوا ہے شارم نے آﺫر سے سامان لیتے ہوۓ اسے چھیڑا۔۔بدتمیز شارم شرم کرو بہنوئی ہوں تمھارا۔۔آﺫر کہا پیچھے رہنے والا تھا۔۔انابیہ کا سن کر خون کھول گیا۔۔اسکے چہرہ بتا رہا تھا اسے مزاق اچھا نہیں لگا۔۔اندر آئیں۔۔وہ سب کو اندر لے گئی آﺫر نے سب کا سامان کمروں میں پہنچایا۔۔
انابیہ کی تو خوشی دیکھنے قابل تھی آخر تین ماہ بعد ملی تھی امی ابو سے۔۔۔سب نے کھانا کھایا اور اپنے کمروں میں چلےگئے سواۓ امی کے وہ دونوں ابھی نیچے ہی بیٹھے تھے۔۔۔امی آپ بھی آرام کر لیں۔۔آرام کس بات کا بیٹا ۔باۓ ایئر آۓ ہیں کونسا ہل چلاۓ ہم نے تم ادھر آؤ میرے پاس۔مجھے میری بیٹی سے بہت باتیں کرنی ہے۔۔وہ تو ہے مجھے بھی امی۔۔ان کی بات پر وہ ہنس دی۔۔اور ان کے پاس آبیٹھی کیسی ہو انابیہ آﺫر کیسا ہے تمھارے ساتھ۔۔شکر ہے امی ٹھیک ہوں میں۔۔ سہی ہے اسکا سلوک بھی۔۔کچھ کہا آﺫر نے تم سے۔۔نہیں امی اسنے آج تک مجھے کسی بات کا طعنہ نہیں دیا۔۔نا ہی ہمارے درمیان کوئی ایسی بات ہوئی ہے کہ وہ پچھلی باتیں دھراۓ۔۔وہ تو ٹھیک ہے انابیہ۔۔ لیکن تم دونوں کے درمیان۔۔۔انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔۔نہیں امی۔۔انابیہ نے انہیں ٹالنے والی کی۔۔کیا مطلب انابیہ ۔۔کچھ نہیں چاۓ لیں گی آپ۔۔چاۓ پیوں گی لیکن تم بیٹھو یہاں میری بات کا جواب دو۔۔زینب نے بازو سے پکڑ کر اسے بیٹھایا۔۔
امی میرے کمرے میں چلیں۔وہ انہیں اپنے کمرے میں لے آئی۔۔تم دونوں الگ رہتے ہو۔۔انھوں نے کمرے کو دیکھ کر اندازہ کر لیا۔جی امی۔امی میں عاشر کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔۔انابیہ کیا کہہ رہی ہو تم بیٹا۔۔شوہر ہے وہ تمھارا۔۔بھول جاؤ عاشر کو۔۔امی میں نہیں بھول سکتی اسے اسکی انکھیں بھیگنے لگی۔۔زینب نے اسے خود سے لگا لیا۔انابیہ جو بھی ہوا اب اسے بھول جاؤ۔۔اور آﺫر کو اپناؤ۔اللہ تعالی نے شوہر بیوی کا رشتہ بہت مضبوط بنایا ہے وہ تمھیں کبھی اکیلا نہیں کرے گا مجھے اتنا تو بھروسہ ہے اپنے آزر پر۔۔امی میں نے بہت غلط فیصلے کیے ہیں ۔۔مجھے نہیں معلوم آگے کیا ہوگا۔۔کوشش کرو بیٹا۔۔میں کوشش بھی نہیں کر پارہی ہو۔عاشر نے جو بھی کیا میرے ساتھ اگر آﺫر نے بھی وہی کیا تو۔۔نہیں مجھے ﮈر لگتا ہے۔۔انابیہ عاشر اورآﺫر میں زمین آسمان کا فرق ہے اور عاشر تمھارا غلط فیصلہ تھا۔۔تمھیں اتنا بھی نہیں پتہ چلا۔۔وہ اسے پیار سے سمجھا رہیں تھی اور وہ سر جھکاۓ انکی باتیں سن رہی تھی۔۔اچھا یہ بتائیں کتنے دن کے لیے آۓ ہیں ۔۔ایک ماہ تو رکیں گے نا میرے پاس۔۔ایک ماہ ۔۔نہیں بیٹا ہم صرف ایک ہفتے کے لیے آۓ ہیں۔۔ایک ہفتہ وہ چلائی۔۔۔ہاں وہاں بھائی جان اکیلے ہیں ۔۔انکا کھانا پینا کون دیکھے گا۔۔
تایا جان آپ لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں کیا۔۔ہاں بھابھی اسی دن چلی گئی تھیں عاشر کو لے کر اپنے بھائی کے گھر۔۔ابھی تک نہیں آئی۔۔ابھی تک
وہ حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔ہاں۔۔ان کے بھائی نے عاشر کو امریکا بھیج دیا ہے۔۔اور وہ وہاں ہوتی ہیں۔۔۔اور بھائی جان یہاں۔۔تایا جان گئے نہیں انھیں منانے۔۔گۓ تھے بھائی جان بھابھی نےآنے سے انکار کر دیا۔۔اور انہیں پتہ ہے ہماری شادی کا کیا کیا۔۔ہاں پتہ ہے۔۔بھائی جان تمھارے نکاح کے لیے بھی لینے گۓ تھے۔۔اسکے بعد سے انہوں نے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔۔ان سے بھی امی اسے ساری بات تفصیل سے بتاتے ہوۓ بولیں۔۔اور آﺫر نے مجھے آج تک نہیں بتایا۔۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔۔بتاتا بھی کیسے کبھی بات ہوئی نہیں ہماری تفصیلی۔۔دماغ نے بھی لقمہ دیا۔۔آﺫر سے بھی ناراض ہیں وہ۔۔۔امی کی بات پر وہ چونک گئی۔۔ اور اچھا کہ علاوہ کچھ نا بول سکی۔۔۔
اگلے تین چار دن ان کے گھومنے پھرنے میں لگے۔۔ان کے گھر کے پاس پبلک پارک تھا۔۔وہ رات میں کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر ٹہلنے کو جاتے تھے۔۔۔آج بھی وہ چاروں وہیں گئے ہوۓ تھےزینب اور سلیم صاحب گھر میں ہی رکے ہوۓ تھے۔۔سلیم صاحب کے ٹانگ کے درد کی وجہ سے وہ دونوں نہیں آۓ تھے۔ پارک میں تھوڑا ٹہلنے کے بعد انابیہ اور ماہین قریبی بینچ پر بیٹھ گئے۔۔جبکہ آﺫر اور شارم تھوڑا آگۓ نکل گئے۔۔انابیہ ایک بات پوچھو ۔۔۔آﺫر اور شارم کو آگے جاتے دیکھ کر ماہین نے موقع پا کر اسے پوچھا۔۔جی بھابھی۔۔تمھارہ اور آﺫر بھائی کا ریلیشن کیسا ہے
ٹھیک ہے بھابھی وہ مصنوعی مسکراہٹ سے بولی لگ تو نہیں رہا انابیہ آﺫر بھائی تم سے بہت پیار کرتے ہیں عاشر کے تمھیں پرپوز کرنے سے بھی پہلے جانتی ہو۔۔کیا۔۔۔وہ حیرت سے اسکا منہ دیکھنے لگی۔۔۔بھابھی۔۔کیا کہہ رہی ہیں آپ ۔۔اسکا دل زور سے دھڑکا تھا۔۔شارم جانتے ہیں اور میں بھی
تمھارے بھائی کی اور میری لو میرج ہے۔۔ماہین نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔کیا۔۔۔وہ حیرانگی سے اسے تکتی رہی۔میں آﺫر بھائی اور شارم کو جانتی تھی۔۔یاد ہے تمھارے بھائی اور آزر بھائی ایک ماہ کے لیے امریکا اسٹﮈی ٹوئر کے لیے گئے تھے۔۔میری ان سے ملاقات تب ہوئی تھی یونیورسٹی میں۔۔اور میں تب انہیں جانتی ہوں۔پھر میں نے اور شارم نے ہماری فیملیز کو شادی کے لیے راضی کیا تھااور اسپیشلی تمھارے ابو سے آﺫر بھائی نے ہمارے رشتہ کی بات کی تھی۔لیکن ہماری لو میرج سے تم اور امی لاعلم تھے یقین مانو انابیہ میں نے کبھی آزر بھائی کو کسی اور لڑکی کی طرف آنکھ اٹھاتے نہیں دیکھا۔۔جبکہ میں تو ہمیشہ سے انہیں تمھارے نام سے چھیڑتی تھی۔۔ وہ تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔بھابھی۔۔۔۔انابیہ کی زبان کوتالے لگ گئے تھے۔
جانتی ہو آﺫر بھائی تمھارے میٹرک کرنے کے بعد سے تائی جان کو راضی کر رہے تھے۔۔اسکا مطلب وہ اور کسی کو نہیں مجھے پسند کرتے تھے۔۔اسلیے شادی کے لیے راضی نہیں ہو رہے تھے۔۔۔اسنے دل ہی دل میں سوچا۔۔اور تو اور انہوں نے آرمی بھی جوائن نہیں کی کیونکہ وہ اس وقت مینٹلی ﮈسٹرب تھے۔تمھارے اور عاشر کے رشتہ کی وجہ سے اور جانتی ہو اس وقت عاشر کہا ہے کہاں انابیہ نے سوال کیا وہ اور ماہم امریکا سیٹ ہوگیے ہے تائی جان نے اسکا نکاح ماہم سے کرا دیا ہے ۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہیں بھابھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاامی نےمجھے نہیں بتایا عاشر کے بارے میں صرف یہی بتایا کہ وہ چلا گیا ہے نکاح کب کیا اسنے وہ بھری آنکھوں سے پوچھنے لگی امی کو بلکہ سب لو منع کیا تھاتایا جان نے کہ تمھیں کچھ نا بتائیں کیا کہہ رہی ہیں آپ کیابتانا چاہ رہی ہیں میں بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ عاشر کو بھول کر نئی زندگی شروع کرو
انابیہ تمھارے اور آزر بھائی بھائی کے درمیان جو ریلیشن ہے وہ کسی سے چھپے ہوۓ نہیں ہیں۔۔تم دونوں الگ رہتے ہو۔وہ سر جھکا کر بیٹھی تھی۔اور جانتی ہو انابیہ عاشر نے تمھارے بارے میں کیا کیا کہا تھا۔۔جانتی ہوں بھابھی۔۔پھر بھی تم عاشر کے بارے میں سوچ رہی ہو وہ تمھیں بھول گیا ہے ماہم کے ساتھ خوش ہوگا تمھیں اسکے بجاۓ تمھیں بھائی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔میں اسے بھول چکی ہوں بھابھی میں نے جو غلط فیصلہ کیا تھا مجھے احساس ہے۔۔تم اسے بھولی ہوتی تو تم دونوں الگ نہیں ہوتے انابیہ تم جانتی ہو اسلام میں شوہر بیوی کا رشتہ۔۔۔۔غلط فیصلہ کا مطلب یہ نہیں کہ تم غلط ہو ۔۔اسکا مطلب یہ ہے کہ تم نے اپنے فیصلہ سے سیکھا۔۔اور جب تک تم سیکھو گی نہیں تم آگے کیسے بڑھو گی۔۔انابیہ جو بھی ہوا ۔۔اب اسے بھول جاو ۔اب آگے بڑھو۔۔عاشر تمھارا ماضی تھا۔۔آﺫر مستقبل ہے۔۔تم ایک قدم بڑھاو گی وہ دو قدم بڑھاۓ گا۔۔اس کے لیے قدم بڑھاؤ ۔۔اسے موقع دو۔میں اتنا تو جانتی ہوں کہ وہ تمھیں کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑے گا۔۔کیونکہ میں نے اس کی آنکھوں میں تمھارے لیے عشق دیکھا ہے۔۔تم جانتی ہو عشق دیوانگی کی آخری حد ہے وہ صرف پھٹی آنکھوں سے انکا چہرہ دیکھ رہی تھی
لیڑیز کیا باتیں کر رہی ہیں شارم کی آواز پر وہ دونوں ہوش میں آئیں
کچھ بھی تو نہیں۔۔ ماہین ﮈالنگ سچ بتاؤ۔۔شارم نے پیار سے ماہین کے گال کو چھوا۔۔توبہ ہے بھائی تھوڑی شرم کرلیں۔انابیہ شرما کر بولی۔ارے بھئی شرم کیسی۔۔۔یہاں میری بہن ہے اور بہنوئی ہے۔۔کوئی غیر تھوڑی ہیں۔۔ویسے بھی تم دونوں میرﮈ ہو۔۔بچے نہیں ہو۔۔شارم نے بے شرمی سے آﺫر کو کہنی مارتے ہوۓ کہا۔آﺫر نے شرما کر سر کھجانا شروع کر دیا۔انابیہ نے پہلی مرتبہ آزر کی طرف اتنے غور سے دیکھا اور اسکے انداز پر جھنپ سی گئی۔۔استغفار ۔میں جارہی ہوں گھر۔۔انابیہ چڑ کر بولی۔ارے رک چڑیل ہم بھی آرہے ہیں۔۔وہ اس کی سنی ان سنی کرتی چلی گئی۔۔وہ بھی اسکے پیچھے پیچھے چل دیے۔۔
وہ لوگ ابھی گھر پہنچے تھے۔۔زینب اور سلیم صاحب باہر ﮈرانگ روم میں بیٹھے چاۓ کے مزے لے رہے تھے۔۔آزر ۔۔۔جی چچا جان۔۔بیٹا یہ تمھارے ابو نے چیک دیا تھا اور یہ کچھ پیسے میری طرف سے۔۔۔تاکہ تم یہں گھر لے لو۔۔کب تک تم لوگ کرایہ دو گے۔۔چچا جان اسکی ضرورت نہیں ہے۔کیوں نہیں ہے ضرورت۔۔ بھئ یہ ہم سب کی طرف سے شادی کا تحفہ ہے۔زینب بیگم نے ان پر زور ﮈالا تاکہ وہ انکار نا کرے۔۔چچی جان۔۔بس چپ۔۔تم لوگ اپنی پسند کا لے لو ۔۔۔کچھ کمی بیشی ہو تو بتانا۔۔میں بھیج دوں گا۔۔ارے نہیں یہی کافی ہے چچا جان۔۔وہ شرمندہ سا بولا۔۔
بیٹا بہتر ہوتا تم اپنے کاروبار کو دیکھتے کیا ان نوکریوں کے چکر میں پڑ گئے ہو
چچا جان میں کراچی نہیں آنا چاہتا کوشش کروں گا یہں اپنے کاروبار کو شروع کروں ہاں یہ اچھا ہے تم کوشش کرو سجاد بھائی سے بات کرتا ہو کہ تمھیں ہم یہں کاروبار کر دیں انھوں کچھ سوچ کر جواب دیا نہیں چچا جان میں خود کوشش کرنا چاہتا ہوں کب تک آپ دونوں پر ﮈیپینﮈ کروں گا وہ تو سہی ہے لیکن ہم کچھ تو مدد کرے گے ناں وہ دونوں کاروباریطباتوں میں لگے ہوۓ تھے۔
انابیہ میں نے سب کی چاۓ بنائی ہے جاؤ لے آؤ۔زینب بیگم نے اسے بتایا۔۔جی امی لاتی ہوں۔وہ کہتی کچن میں چلی گئی۔۔
اگلے دن ان سب کی روانگی تھی۔۔انابیہ کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔انابیہ کونسا ملک سے باہر جا رہی ہیں ہم۔تم لوگ آنا اب کراچی۔۔ پاگل رو کیوں رہی ہو۔۔زینب بیگم اسے دلاسہ دیتے خود رو پڑی۔۔بس مادر اب رونا بند کریں۔شارم نے ان دونوں کو الگ کیا اور انابیہ کو سینے سے لگا لیا۔۔دیر ہورہی ہے بھئ سلیم صاحب سب کو ٹوکتے ہوۓ آگے بڑھے اور دونوں کو پیار کیا انابیہ میری بات پر غور کرنا میری جان۔۔ماہین نے اسے گلے لگاتے ہوۓ یاد دلایا۔۔جی بھابھی۔۔وہ صرف اتنا کہہ سکی۔۔وہ سب ان دونوں کو دعائیں دیتے روانہ ہو گئے
*_______*
انابیہ اور آزر ان سب کو ایئر پورٹ تک چھوڑنے گۓ۔۔انابیہ کے دماغ میں ماہین کے الفاظ چل رہے تھے۔۔۔وہ کمرے میں آئی اور اندر بند ہو گئی۔انابیہ بھائی صرف تم سے محبت کرتے ہیں۔۔۔انہوں نے کبھی کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔عشق دیوانگی کی آخری حد ہے۔۔۔۔انابیہ نے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔اگر وہ مجھ سے پیار کرتا بھی ہے تو اسنے آج تک اقرار کیوں نہیں کیا۔۔نہیں یہ جھوٹ ہے۔ماہین جھوٹ کہہ رہی تھی وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔۔وہ مینٹلی ﮈسٹرب تھا۔تمھارے اور عاشر کے رشتے کی وجہ سے۔۔دماغ میں وہی باتیں چل رہی تھی۔۔۔وہ آنکھیں بند کے لیٹ گئی لیکن نیند آنکھوں سے غائب تھی کب اسکی آنکھ لگی اسے معلوم ہی نہیں ہوا
ہمیشہ کی طرح آج بھی اسکی آنکھ نماز کے وقت کھل گئی تھی ۔ اس نے اسی وقت اٹھ کر وضو کیا اور نماز کی ادائیگی کی اور باہر آگئی باہر کچن کی طرف جا رہی تھی چاۓ بنانے کچن کی لائٹ پہلے سے جلتی دیکھ کر اسے تھوڑی سی بھی حیرت نہیں ہوئی اندر داخل ہوئی تو وہ پہلے سے موجودچاۓ بنا رہا تھا اٹھ گئی آپ اس نے سوال کیا جی انابیہ نے مختصر سا جواب دیا ۔چاۓ پییں گی۔۔بنائی ہے میں نے آپکی۔اس نے انابیہ کو کپ تھماتے ہوۓکہا مجھے پتا ہے آپ شوقین ہیں چاۓکی۔
آپ کو کس نے بتایا۔انابیہ نے حیرت سے پوچھا۔بس پتا ہے۔ٹیسٹ کر کے بتائیں کیسی بنی ہے۔
اچھی بنی ہے۔انابیہ نے مختصر جواب دیا اور پلٹ گئی
سنیں ۔اس نے آواز دی۔جی۔۔انابیہ رک گئی۔
ویسےتو پیچھلے تین ماہ سے دونوں ایک دوسرے کے نکاح میں تھے ۔ مگر ابھی تک ان کے درمیان کوئی تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ناں اس نے کبھی بات کرنے کی کوشش کی تھی ناں ہی انابیہ نے کبھی ضروری سمجھا تھا۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔وہ قدم اٹھاتا اس تک آیا انابیہ کو ایسے لگا جیسے وقت رک سا گیا ہو۔ وہ آج اتنے عرصے بعد اسے اپنے اتنا قریب کھڑا دیکھ رہی تھی۔اسکے چہرے پہ رقم تھا کہ وہ بڑی لمبی مسافت کرکے اس تک آیا ہے۔۔تین ماہ پہلے جو بھی ہوا۔وہ مجھے بات کرنی ہے۔۔مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی ہے ہمارا نکاح بھلے بڑوں کی مرضی سے ہوا ہے لیکن میری ہمیشہ سے یہی خواہش تھی انابیہ مجھے پتا ہے آپ اس نکاح کو اسیپٹ نہیں کر پا رہیں لیکن شرعی طور پر ہم دونوں گنہاگار ہورہے ہیں میں دباؤ نہیں ﮈال رہا آپ پر لیکن بس ایک منت کر رہا ہوں ہمارے رشتہ کے بارے میں سوچ کر دیکھیں ۔وہ ابھی کچھ اور کہنے لگا تھا انابیہ نے کپ اٹھایا اور اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے کچن سے باہر آگئی۔وہ پھٹی آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔اسنے آگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہی لیکن بے سود انابیہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئی اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔
یا اللہ مجھے کیا ہورہا ہے میں کیسے اعتبار کروں وہ اپنے اندر آنے والی تبدیلیوں پر پریشان تھی تھوڑی دیر تک وہ ویسی حالت میں بیٹھی رہی اور پھر اسکی باتیں دماغ میں چلنے لگی اور وہ اس پر مسکرا دی اور چاۓ کا کپ اٹھا کر اپنے ہلکے گلابی ہونٹوں سے لگا لیا
انابیہ ۔۔وہ جانے سے پہلے اسکے پاس آیا تھا۔۔جی۔۔۔وہ کچن میں برتن سیٹ کر رہی تھی اسکی آواز پر چونک گئی۔انابیہ میں نے کچھ فلیٹ اور گھر دیکھے ہیں ۔آج جلدی آجاؤ گا آپ چلیں گی ناں۔اسنے معصومیت سے پوچھا۔۔جی۔۔اسنے سر اوپر اٹھاۓ بغیر جواب دیا۔کھانا بھی گھر آکر کھاؤ گا۔بس ایک فائل کا کام ہے امپارٹنٹ ہے۔جلدی آؤں گا۔آپ ریڑی رہنا۔۔ٹھیک ہے۔انابیہ نے اس پر ایک نظر ﮈالی اور دوبارہ مصروف ہو گئی۔۔
آﺫر کے جاب پر جانے کے بعد اس نے الماری کھولی اور ﮈارک پرپل کلر کا سوٹ نکالا اور استری کروایا۔۔دوپہر تک اسنے سارے کام ختم کر لیے اور کھانا بنا کر تیار بیٹھی آﺫر کا انتظار کرنے لگی۔۔۔وہ جلدی گھر آگیا انابیہ کو دیکھتے ہی اسکی نظریں اس پر رک گئ ﮈارک پرپل کلر کے سوٹ پر کلر فل دوپٹہ ہونٹوں پر ہلکے کلر کی لپ اسٹک اور ہونٹ کے نیچے کا تل جس میں اسکی جان بسی ہوئی تھی وہ اس پر غضب ﮈھا رہی تھی۔اسکا اس طرح دیکھنا انابیہ کو شرمندہ کر گیا۔زیادہ تیار ہو گئی۔وہ گھبرا کر بولی۔نہیں نہیں۔۔وہ گڑبڑا گیا۔۔ میں فریش ہو کر آتا ہو آپ کھانا لگا دیں پلیز وہ کہتا اور بھاگتا بنا۔
وہ نیچے آیا تو انابیہ کھانا ٹیبل پر لگاۓ اسکا انتظار کر رہی تھی۔دونوں نے کھانا ساتھ کھایا تھا۔وہ نظریں جھکاۓ کھانا کھاتی رہی جبکہ آﺫر کی نظر بار بار اسکے ہونٹ کے نیچے تل پر رک رہی تھی۔اور وہ بار بار نظروں کو قابو کر رہا تھا۔
اس نے گھر انابیہ کی پسند کا لیا تھا۔۔اگرچہ وہ زءادہ تر خاموش تھی لیکن اس کے سوال پر جواب دے رہی تھی۔۔۔کچھ دن میں گھر کی رجسٹری کروا کر اپنے نام کروا لیا۔۔اور اگلا مرحلہ گھر کی سیٹنگ تھا۔۔۔تین کمروں کا چھوٹا سا لیکن خوبصورت گھر تھا۔دو کمروں کے ساتھ اٹیچ باتھ ایک کیچن اور چھوٹا سا اسٹور نما کمرہ تھا۔۔ان دونوں کے لیے یہی کافی تھا۔۔۔ہم ایک کمرے کو بیﮈ روم بنائیں گے۔جبکہ دوسرے کو گیسٹ روم اور باہر ﮈرائنگ روم ہوگا۔۔اسنے گھر کو دیکھا اور آﺫر کو تفصیل سے بتایا۔۔۔وہ اسکی بات پر چونکا تھا۔۔لیکن دل میں خوش تھا۔۔کہ انابیہ اس کی طرف قدم بڑھا رہی ہے جو تم چاہو گی وہی ہوگا کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا تمھیں انابیہ وہ مسکرا کر اسے دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں اس سے عہد کیا تھا۔۔
آج پہلی رات نئے گھر ایک کمرے میں۔انابیہ میری جان آج تو تمھیں میری سننی ہوگی۔۔ وہ دل ہی دل میں سوچ کر مسکرایا اور کمرے میں آگیا۔۔۔انابیہ ابھی چینج کر کے باتھ روم سے نکلی تھی۔اسے دیکھ کر مسکرا دی۔۔وہ جانتا تھا انابیہ آج بہت خوش ہے وہ کبھی انکار نہیں کرے گی اس کے اظہار محبت پر۔وہ اسکی طرف ہی آیا اور مسکرا کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔۔بیا ایک بات کہوں۔۔اسنے آہستہ سے اس کے پاس آکر سرگوشی کی۔۔جی انابیہ مسکرا کر بولی تھی۔۔وہ کچھ دیر اسکے سامنے کھڑا رہا۔۔پھر دھڑکنوں پر قابو پا کر بولا۔انابیہ جانتی ہو میرے دل میں تم کب سے ہو۔۔کب سے۔انابیہ شرارتی انداز میں بولی۔جب سے میں نے ہوش سمبھالا ہے شاید تب سے کہتے ہوۓ اسکا ماتھا پر بوسہ دیا۔۔انابیہ اب اس کے اس رد عمل سے حیران ہوگئی۔۔۔اسکا ہاتھ ابھی بھی آﺫر کے ہاتھ میں تھا۔۔آئی لو یو بیا۔وہ کہہ کر رک گیا اور اسکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔۔اتنا کھلا اقرار ۔وہ حیران کھڑی اسے دیکھتی رہی ۔عاشر نے بھی اقرار کیا تھا لیکن اس طرح سے تو نہیں۔موبائل پر اور کتنے دن میں ۔۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی آزر اتنے آرام سے اقرار کرے گا۔۔آﺫر۔۔۔ وہ کچھ بولنا چا رہی تھی۔۔آﺫر نے اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی لیکن نظریں اسکے اس سیاہ تل پر تھی۔۔جو انابیہ کے مسکرانے پر اسکے ساتھ مسکراتا تھا۔۔صرف سنو میری۔۔۔میرا انتخاب ہمیشہ سے تم تھی میری پسند میری چاہت میری محبت صرف تم ہو بیا ایک ایک لمحہ تڑپا ہوں تمھارے لیے۔۔اب تم سے دور ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتاپلیز اور امتحان نا لو میرے صبر کا۔وہ التجائی ہوا بیا میں نے تمھیں وقت دیا ۔۔نکاح میں ہوتے ہوۓ تم سے دور رہا تین ماہ کم نہیں تھے میری جان۔۔تمھیں میرا ساتھ پسند نہیں آیا کیا۔۔اسنے تھوڑا دور ہو کر پوچھا۔۔انابیہ کچھ نا بولی۔ٹھیک ہے جتنا وقت چاہے لے لو۔وہ مسکرایا اور پلٹا۔۔انابیہ نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اسکے سامنے آٹھہری۔۔آﺫر مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہےلیکن میرا ماضی داغدار ہے سب کی نظر میں میں قصور وار ہوں بدکار کہا جاتا ہے مجھے ۔۔وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔اور اسکی آنکھیں بھر گئی بس اتنی سی بات میں ہوں ناں تمھارے ساتھ اپنے قیمتی آنسوؤں کو کیوں بہا رہی ہو لوگوں کی فضول باتوں پر وہ اسکے پاس آیا انابیہ سر جھکا کر آنسو بہاتی رہی۔۔وہ مزید آگے بڑھا اور اسے اپنے مضبوط چوڑے سے سینے میں چھپا لیا
نا جانے رات کا کونسا پہر تھا ﺫرا سا ہلنے پر اسکی آنکھ کھل گئی۔۔اسنے خود کو آزر کے مضبوط بازوں میں پایا۔۔امی ٹھیک کہتی تھیں۔۔عورت کی عزت کا بہترین محافظ اسکا شوہر ہے۔شوہر کے پاس ہمیشہ عورت محفوظ رہتی ہے۔۔آزر کی بانہوں میں اسے اس وقت اس بات کا احساس ہورہا۔عجیب احساس تھا نا کوئی خوف نا کوئی ﮈر۔۔نا کسی ﺫلت کا نا ہی کسی رسوائی کا۔۔وہ غور سے اسے دیکھتی رہی۔۔وہ مسکرا دی اسے آج احساس ہوا تھا جسے وہ اتنا خروس اور سڑو سمجھتی تھی وہ اصل میں اسکا بھلا چاہتا تھا۔۔وہ ہمیشہ سے ہی تو اسے اپنے ہونے کا احساس دیتا تھا بس وہ سمجھی نہیں تھی آج تک۔۔۔اسنے آہستہ سے اسکی ہلکی ہلکی بڑھتی داڑھی پر ہاتھ پھیرا۔۔چوڑا ماتھا بڑی آنکھیں خوبصورت سی اٹھی ہوئی ناک ہلکے گلابی سے ہونٹ وہ بھی کسی سے کم تو نہیں تھا۔۔اور مسکرا دی۔۔کیا غور کر رہی ہو۔۔۔آزر نے بند آنکھوں سے اسے ٹوکا۔۔کچھ بھی تو نہیں انابیہ جھنجھلا گئ اور ہاتھ پیچھے کر لیا۔۔۔ اسنے آنکھیں کھول دی تھی اور بازوں میں مزید اسے قریب کر لیا۔۔تو اسے دیکھ کر مسکرانے کا مقصد۔۔سڑو ہی رہیں گے ہمیشہ۔۔وہ شرارتا بولی۔۔کون کسے کہا سڑو۔۔میں سڑو۔۔اسنے حیران ہو کر اسے گھورا اور اپنی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔۔جی ہاں آپ ہی۔۔وہ کیسے۔۔ہر وقت غصہ ناک پر رکھتے ہیں۔۔اسکی ناک پر شرارت سے انگلی رکھ کر ہنسی۔۔وہ اسے دیکھتا رہا۔پھرشرارتا بولا ۔تمھارے ہونٹ۔۔اور یہ تل۔۔یہ تمھارے ساتھ ہستا ہے۔۔وہ اس پر نظریں گاڑھے ہوۓ تھا۔۔کتنا پیار کرتے ہیں مجھ سے۔۔اتنا کہ تمھاری اسکول کی فیلوز تمھاری کالج کی سہیلیاں,اور تو اور تمھارا بھائی بھی میرا جاسوس ہے۔۔آزر نے آنکھ دبائی اور ہنس دیا۔۔کیا۔۔۔برلے میں وہ صرف منہ کھولے دیکھتی رہی۔۔یہ تو جاسوسی ہوئی محبت تھوڑی ہوئی۔۔محبت تو نہیں کرتا۔۔عشق کرتا ہوں۔۔تو پہلے کیوں نہیں اقرار کیا۔۔سنا تھا تمھیں سرپرائزیز پسند ہیں۔۔تو سوچا تھا پہلی رات ہی اقرار محبت کرو گا وہ پیار سے اسکے گالوں کو چھوتے ہوۓ بولا۔۔تہجد نہیں پڑھو گی میرے ساتھ۔۔مجھے میرے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔اسنے مجھے میری محبت سے نواز دیا کہتے ہی اسنے حصار کم کر دیا۔۔۔۔پڑھوں گی۔۔مجھے بھی شکر ادا کرنا ہے۔۔کہ اسنے مجھے بچا لیا اور اتنے بہترین ہمسفر سے نوازا۔۔اسنے دل ہی میں سوچا تھا۔۔وہ اٹھا اور غسل کرنے چلا گیا۔۔انابیہ کے کانوں میں اسکے اقرار محبت کے الفاظ چل رہے تھے بے شک محبت کی بہترین صورت وہ ہے جو آپ کو عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف مائل کر دے اور
بے شک میرا اللہ رحم کرنے والا اور محبت کرنے والا ہے اسنے شکر ادا کیا
ختم شد۔۔۔