مایوں کی رسم کے اگلے دن عجوہ اپنی ماما سے ضد کر کے گھر سے باہر آئی تھی حالانکہ ان کے گھر میں مایوں کی رسم کے بعد لڑکیوں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی پھر بھی وہ ضد کر کے اک خاص دوست سے ملنے کا بول کر آئی تھی ساتھ میں اپنی شادی کا کارڈ بھی لے آئی تھی ۔ اسی پارک کے پاس سے گزرتے ہوئے جہاں اس غنڈے نے اس کا پیچھا کیا تھا وہ تنگ و تاریک گلیوں سے ہوتی ہوئی اک چھوٹے سے مکان کے باہر آکر رکی اور جیسے ہی بیل بجانے لگی تو دیکھا کہ بیل ٹوٹی ہوئی ہے پھر مجبورًا ہاتھ سے اسے دروازہ بجانا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماویہ کے کہنے پر اشہاب نے حبیبہ صاحبہ کو کال کی عجوہ کے جوتے کا سائز پوچھنے کے لئے تو حبیبہ صاحبہ کے منہ سے پتہ چلا کہ عجوہ کسی دوست سے ملنے گئی ہے ضد کر کے حالانکہ سب جانتے تھے کہ عجوہ کی ایسی کوئی خاص دوست ہے ہی نہیں جس کے لئے وہ اپنے خاندان کی رسم کو جھٹلائے
اور اشہاب کتنا بھی اچھا انسان تھا آخر تھا تو اک مرد ہی جسے اپنی بیوی کا یوں کسی انجان دوست کے ساتھ ملنے کے لئے ضد کر کے اکیلے جانا ہر گِز اچھا نہیں لگا تھا پر وقتی طور اس نے یہ بات حبیبہ صاحبہ پر ظاہر نہیں ہونے دی تھی کیونکہ جو بھی تھا وہ اس کے لئے ماں کی طرح ہی اہم تھیں وہ بچپن ہی سے ان کے بہت قریب رہا تھا اس لئے چپ رہا۔
عجوہ نے تین بار دروازہ کھٹکھٹایا اور چوتھی بار دروازہ بجانے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھل گیا وہ انسان اپنے اسی مخصوص انداز میں سفید رنگ کی مردانہ شال لپیٹے کھڑا تھا ۔کیسے ہیں بھائی اندر نہیں بلائیں گے ؟؟؟عجوہ نے مسکرا کر کہا ۔
ارے کیوں نہیں آؤ نہ بہن اندر اس شخص نے عجوہ کو راستہ دیا تو عجوہ اندر داخل ہو گئی۔کمرے میں جا کر اس نے عجوہ کو بٹھایا اور خود چائے بنانے چل دیا ۔ تھوڑی دیر میں جب وہ چائے لے کر لوٹا تو ساتھ میں گھر کی بنی ہوئی چپس بھی تھی اور عجوہ کو گھر کی بنی چپس بہت پسند تھی یہ لیں چائے پئیں اور چپس کھائیں ۔ارے واہ مجھے تو چپس بہت پسند ہے آئیں نہ ہم دونوں مل کے کھاتے ہیں عجوہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا جانے کیوں وہ پہلی ہی ملاقات میں اسے اپنا اپنا سا لگا تھا یہی وجہ تھی کہ دوسری ہی ملاقات میں کم گو سی عجوہ چہک رہی تھی ۔ جی زرور ہم بھی اپنی بہن کے ساتھ بیٹھ کر کھائیں گے
آپ کو پتہ ہے میں آپ سے کیوں ملنے آئی ہوں
عجوہ نے کھاتے کھاتے کہا ۔
جی نہیں آپ بتائیں اس نے مسکرا کر جواب دیا ۔
ہنننن آپ کی بہن کی شادی ہے۔عجوہ نے تھوڑا جھجکتے ہوئے بتایا۔
ارے یہ تو بہت خوشی کی بات ہے بہت بہت مبارک ہو
جی نہیں خالی مبارک سے بات نہیں چلے گی عجوہ نے شرارتی لہجے میں کہا ۔
مطلب ؟؟؟ اس شخص نے حیران ہو کر پوچھا ۔
مطلب یہ کہ میں اپنے بھائی کی دعاؤں میں رخصت ہونا چاہتی ہوں اور آپ کو ہر حال میں آنا ہے میری شادی پر۔
میری بہن مجھے پتہ ہے آپ بہت مان سے مجھے دعوت دینے آئی ہو پر یقین کرو میں کبھی کہیں نہیں گیا خاص طور پر کسی شادی پر یا ایسی جگہ جہاں بہت لوگ ہوں
میں رش سے بچتا ہوں ۔
پھر میں آپ سے ناراض ہوں میں نہیں بول رہی آپ سے عجوہ نے منہ پھلا لیا ۔
ارے ارے ناراض نا ہو بہن اچھا آپ کے لئے اک کام کر سکتا ہوں باہر ہی سے آپ کو دیکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دے کر آ جاؤں گا اب پلیز نا ضد کرنا نہ ناراض ہونا میری مجبوری سمجھیں میں کبھی نہیں جا سکا رش والی جگہ پر ۔
اوکے آپ کی خاطر مان لیتی ہوں عجوہ نے کچھ کچھ رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔
چلیں بھائی اب میں چلتی ہوں گھر میں ماما کو بہت مشکل سے منا کر آئی تھی ہمارے ہاں مایوں کے بعد گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی میں پھر بھی ضد کر کے آئی ہوں ۔
ارے بہت شکریہ میری بہن پر بڑوں کی بات مانا کرو دوبارہ ضد کر کے مت آنا کیوں کہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اپنوں کا پیار اور ساتھ نصیب ہوتا ہے بات کرتے اس کا لہجہ نم ہو گیا ۔
چلیں اب آپ جائیں گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے ۔اس نے بات کو بدل کر کہا کہ کہیں عجوہ اس کی اداسی کو دیکھ نہ لے پر اس کو یہ نہیں پتہ تھا کہ عجوہ اس کے نم لہجے کو دیکھ چکی تھی اور خود بھی اداس ہو گئی تھی چلیں بھائی اپنا خیال رکھنا میں آپ کی دعاؤں کی طلبگار رہوں گی۔
اللّہ حافظ کہہ کر عجوہ نے واپسی کی راہ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا لڑکیاں چہکتی پھر رہی تھیں اور لڑکے بھنگڑا کرنے کی تیاری کئے بیٹھے تھے کیونکہ آج عجوہ اور اشہاب کی مہندی تھی۔ چونکہ نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا اس لئے بڑوں کے فیصلے کے مطابق مہندی اک ساتھ ہی ہو رہی تھی ۔کالا کرتا پہنے اشہاب جب سٹیج پر آیا تو خاندان کی کئی لڑکیاں عجوہ کی قسمت پر رشک کئے بنا نہ رہ سکیں ۔تھوڑی ہی دیر میں عجوہ بھی پیلے اور ہرے
رنگ کا جوڑا پہنے چھوٹی بہن اور کزنز کے جھرمٹ میں سٹیج تک آئی تو اشہاب اک پل کے لئے پلک جھپکنا ہی بھول گیا دھلے دھلے نورانی چہرے کے ساتھ وہ اسے حور ہی تو لگی تھی ۔ عجوہ کو اشہاب کی بغل میں لا کر بٹھا دیا گیا اور سب نے مہندی لگائی کزنز نے خوب شور مچا کر ہلا گلا کیا ۔تقریب کے آخر میں چند خوجہ سرا آئے اور دلہا دلہن کو ڈھیر ساری دعائیں دیتے شہیر رحمان سے بدھائی مانگنے لگے اور شہیر رحمان نے بھی کھلے دل سے پیسے دے کر ان کو نہ صرف خوش کیا بلکہ ان کو کھانا کھا کر جانے کی بھی درخواست کی ۔ عجوہ کو جہاں اپنے بابا کا یہ حسن ِسلوک بہت اچھا لگا وہاں اپنے کزنز کا پر شدید غصہ آیا جو ان کو دیکھ کر دبی دبی ہنسی میں مذاق بنا رہے تھے ان کا ۔
خیریت سے مہندی کی تقریب ختم ہوئی تو سب ہال سے اٹھ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے عجوہ بھی اپنی چھوٹی بہن اور کزنز کے ساتھ واپسی کے لئے گاڑی میں بیٹھی تو پوچھے بنا نا رہ سکی سنو گرلز اک بات بتاؤ ۔
سب عجوہ سے چھوٹی تھیں اس لئے اس کی بہت عزت کرتی تھیں اسی لئے سب اک ساتھ بولیں جی آپی ۔۔۔
اک بات بتاؤ مجھے تم سب تم سب کا ایمان کتنا مضبوط ہے؟؟؟ میرا یہ سوال صرف اپنی پیاری بہنوں سے نہیں بلکہ اپنے پیارے بھائیوں سے بھی ہے جو میرے ساتھ بیٹھے ہیں عجوہ کا اشارہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور کزنز کی طرف تھا ۔
الحمد اللّہ بہت مضبوط ہے آپی سب نے اک ساتھ جواب دیا ۔
اچھا مثال کے طور پر؟؟؟ عجوہ کے سوال پر سب حیران ہو کر اک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
ارے آپی اس میں پوچھنے والی کیا بات ہم سب الحمداللّہ مسلمان ہیں ہمارا ایمان ہے کہ اللّہ ایک ہے اور ہمارے نبی محمد آخری نبی ہیں اور نماز روزہ حج زکوٰۃ کلمہ طیبہ ,اب کی بار عجوہ کی چھوٹی کزن فرح بولی تھی۔ باقی سب نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی ۔
اچھا بس یہی باتیں ہیں اور کچھ نہیں عجوہ نے اک اور سوال کیا ۔
آپی ہم سمجھے نہیں آخر آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں اس بار عجوہ کا چھوٹا بھائی حارث بولا ۔
میں جو کہنا چاہ رہی ہوں وہ بہت سادہ سی پر بہت اہم بات ہے آپ سب کا کہنا ہے کہ اللّہ کو ایک ماننا ہمارے ایمان کا حصّہ ہے پر میں کہتی ہوں اللّہ کو ایک ماننے کے اور اپنے پیارے میٹھے میٹھے نبی محمد کو آخری نبی ماننے کے ساتھ اللّہ کی بنائی ہر چیز کی قدر اور عزت بھی ہمارے ایمان کا حصّہ ہیں ۔
اچھا بتاؤ کہ تم سب کو اللّہ پاک سے کتنا پیار ہے ؟؟؟ عجوہ نے اک اور سوال کر ڈالا ۔
بہت زیادہ سب اک بار پھر اک ساتھ بولے ۔
بہت اچھے ہر مسلمان کو ہونا بھی چاہیے اپنے ربّ سے پیار عجوہ نے مسکرا کر کہا۔
تو پھر اس کا مطلب اللّہ پاک کی بنائی ہوئی ہر چیز اور ہر مخلوق سے بھی بہت پیار ہوگا سب کو؟؟؟ عجوہ کے پوچھنے پر سب نے اک ساتھ ہاں میں گردن ہلائی ۔
تو بتاؤ آج جن کو دیکھ کر تم سب ہنس رہی تھی لڑکیو , اور تم سب شور شرابے کے ساتھ مذاق بنا رہے تھے بوائز۔۔۔۔ کیا وہ تمہارے رب کی بنائی ہوئی مخلوق نہیں ۔۔۔۔۔۔ بولو
عجوہ کے آخری سوال پر گاڑی میں بیٹھے تمام افراد کو جیسے سانپ سونگھ گیا کسی کے پاس دینے کو کوئی جواب نہیں تھا اور ہوتا بھی کیسے انہوں نے ہمیشہ اللّہ کی بنائی اس مخلوق کو مذاق کی نظر سے ہی دیکھا تھا انسان تو ان کو کسی نے کبھی سمجھا ہی نہ تھا ۔
اللّہ پاک نے کسی کو فضول نہیں بنایا اگر وہ ہمارے جیسے نہیں تو ان میں ان کا کوئی قصور نہیں وہ جو بھی ہیں انسان تو ہیں آپ نے کبھی سوچا کہ آپ کا رویہ ان کو تکلیف پہنچاتا ہوگا پر وہ بیچارے مسکرا کر ہم جیسوں کی خوشیوں میں شامل ہونے آتے ہیں ۔اگر ہم جیسے لوگ ان کو بھی اپنی طرح عام سمجھیں اور عزت دیں تو وہ بھی سکولوں میں جائیں پڑھنے اور کچھ بن کر عزت سے روزی کمائیں نہ کہ بیچارے لوگوں کے گھروں میں شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر ناچ کر مانگنے آئیں ۔ان بیچاروں کو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا اس لئے نہ تو سکولوں میں پڑھتے ہیں بیچارے نہ پڑھ لکھ کر اپنی روزی روٹی کما سکتے بس اک واحد ذریعہ لوگوں کی شادی بیاہ میں میں ناچ کر پیسہ کمانا ہے۔
بس کریں اللّہ کا خوف کریں یہ بھی اللّہ کی بنائی مخلوق ہیں انسان ہیں یہ بھی اور کسی انسان کا دل دکھانا بہت بڑا گناہ ہے وہ بیچارے منہ سے نہیں کہتے پر دل تو دکھتا ہوگا نہ جب ہم جیسے مکمل لوگ ان کے نامکمل ہونے پر ہنستے ہیں پلیز خوفِ خدا کریں اگر اللّہ پاک نے آپ کو مکمل بنایا تو اس پر خدا کا شکر ادا کریں یہ نہ ہو کہ اللّہ پاک اس کی بنائی مخلوق کا مذاق اور ناقدری کرنے پر ناراض ہو جائے مجھے امید ہے کہ آپ سب میری بات کا برا ماننے کی بجائے میری بات میں چھپے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے عجوہ کے مسکرا کر کہنے پر سب نے وعدہ کیا کہ آج کہ بعد اللّہ کی بنائی ہر مخلوق کی عزت اور قدر کریں گے اور ایسے لوگوں کا کبھی مذاق نہیں بنائیں گے ۔۔۔
آج عجوہ کی رخصتی کا دن تھا شہیر رحمان اور حبیبہ صاحبہ جہاں بیٹی کی شادی پر بہت خوش تھے وہاں بیٹی کی جدائی کے خیال سے بار بار آنکھیں بھی بھیگ رہی تھیں اور سمیر رحمان ہال سے باہر اداس بیٹھے تھے وجہ ان کی لاڈلی بھتیجی کا یوں ناراضگی کے ساتھ ہی رخصت ہونا تھا وہ اتنے اداس تھے کے اندر مہمانوں میں بھی نہیں جا سکے وہ یوں ہی چلتے چلتے ہال سے تھوڑا آگے سڑک پر آگئے وہ اپنی سوچوں میں گم آسمان کی طرف دیکھ کر آنسو بہا رہے تھے کہ اچانک اک تیز رفتار ٹرک آیا اور ان کو کچلتا ہوا گزر گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔