اس غنڈے کو بہت پیٹنے کے بعد جب اس مسیحا نے مڑ کر دیکھا تو عجوہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔
آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟ اس انسان کے سوال پر عجوہ نے جھکی نظروں کو اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ انسان اسے بہت عجیب لگا کیونکہ اس نے اپمے چہرے کو اک مردانہ شال میں لپیٹ رکھا تھا جس کی وجہ سے عجوہ اس کے چہرے دیکھ نہیں پا رہی تھی اور وہ ویسے ہی اتنی خوف زدہ تھی کہ کچھ بول ہی نہ پائی اور بس خالی خالی نظروں سے سامنے کھڑے انسان کو دیکھے جا رہی تھی جو اگر اسے بروقت نا بچاتا تو آج اس کی سب سے قیمتی چیز اس کی عزت مٹّی میں مل جاتی۔
آپ ٹھیک ہیں ؟؟؟ اس کے دوبارہ سوال کرنے پر عجوہ نے کانپتی آواز کے ساتھ جی کہا اور کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی اور جیسے ہی وہ کھڑی ہوئی اسے چکر آیا اور وہ لڑ کھڑا کر گر گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجوہ کو کچھ سال بعد اللّہ نے جڑواں بہن بھائی دیے اور سیم چاچو کے گھر بھی دو بیٹے اور اک بیٹی ہوئی زندگی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی پر عجوہ کو ان سب کے ہونے کے باوجود نہ تو اپنا وہ نیلی آنکھوں والا بھائی بُھولا جس کی آنکھیں بلکل عجوہ جیسی نیلی تھیں اور نہ ہی وہ سیم چاچو کا ڈانٹنا۔ اس کے ننھے سے دماغ میں اپنے چاچو کا وہ انداز ایسا بیٹھا کہ اس کے بعد سمیر رحمان کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کبھی ان کے قریب نہ آ پائی ۔بہت ہوتا تو ہوں ہاں میں ان کی بات کا جواب دے کر وہاں سے اٹھ کر چلی جاتی جہاں سمیر رحمان بیٹھے ہوتے۔عجوہ کے کسی بہن بھائی یا کزن نے اس کی نیلی آنکھیں نہیں چرائی تھیں اسے لمبا وقت گزرنے کے بعد بھی کبھی نہیں بھولا پر اس نے دوبارہ کبھی گھر کے کسی بھی فرد سے اس بچے کے بارے میں نہیں پوچھا پر کبھی اس کو بھول بھی نہیں پائی ۔وقت سرکتا رہا اور عجوہ بچپن سے نکل کر جوانی کی دہلیز پر آگئی اب چھوٹی سی معصوم سی عجی ماشاءاللّہ مستقبل کی ڈاکٹر عجوہ شہیر رحمان تھی ۔
عجوہ اندر آ جاؤ باہر کیوں کھڑی ہو حبیبہ صاحبہ کے بلانے پر عجوہ گھبراتے ہوئے اندر آئی جی ماما عجوہ نے جھکے سر کے ساتھ کہا ۔بیٹا آپ کو اشہاب آفس جاتے ہوئے کالج چھوڑ دے گا ۔جی ماما عجوہ کے منہ سے بمشکل اتنا ہی نکلا ویسے بھی اس وقت اس کے لئے اشہاب کے سامنے کھڑے رہنا دنیا کا مشکل ترین کام تھا او کے ممو اجازت دیں پھر ملاقات ہوگی اشہاب نے جھک کر ان سے سر پر پیار لیا اور باہر کی جانب چل دیا عجوہ بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی باہر پہنچ کر اشہاب نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا تاکہ عجوہ بیٹھ جائے اور خود جا کر ڈرائونگ سیٹ سنبھال لی۔ جیسے ہی عجوہ پچھلی سیٹ پر بیٹھی اشہاب نے گاڑی سٹارٹ کر لی حبیبہ صاحبہ بچوں کو دروازے تک چھوڑنے آئیں تھیں اور گاڑی کو جاتا دیکھ کر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک مار کر بچوں کو اللّہ کی سپرد کر کے اندر کی جانب چل دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجوہ کو جب ہوش آیا تو اس کے کان میں پہلی آواز قرآن کریم کی تلاوت کی آئی کوئی بہت میٹھی آواز میں تلاوت کر رہا تھا ۔عجوہ
نے پوری آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ اک چھوٹے سے کمرے کے اک خستہ حال بیڈ پر پڑی تھی ۔اس نے ارد گرد نظر گھما کر دیکھا اگرچہ کمرہ بہت پرانے زمانے کی تعمیر لگ رہا تھا پر صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا گیا تھا بہت ہی نفاست سے سادہ سے کمرے کو سجایا گیا تھا ۔کمرے کی دائیں جانب سنگل بیڈ تھا جس پر عجوہ لیٹی تھی بائیں جانب چھوٹی سی لوہے کی الماری تھی الماری کے ساتھ ہی اک لکڑی کا میز پڑا تھا جس پر اک چھوٹا سا گلدان رکھا تھا جس میں تازہ پھول لگائے گئے تھے ساتھ ہی کچھ پرانے زمانے کی بنی ہوئی کرسیاں پڑی تھیں ۔
عجوہ نے آہستہ آہستہ اپنے وجود کو حرکت دی اور اٹھ کر بیٹھ گئی یوں ہی تھوڑی دیر کمرے کا جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنی چادر ٹھیک کی اور اس جانب چل پڑی جدھر سے اسے تلاوت قرآن کی آواز آ رہی تھی ۔کمرے کے باہر اک چھوٹا سا صحن تھا جس کے بیچ و بیچ بیٹھا اک شخص بہت ہی پیاری آواز میں آنکھیں موندے تلاوت کر رہا تھا ۔
علایہ پہلے حیران ہوئی اس انسان کے ہاتھ میں تو قرآن پاک بھی نہیں پھر یہ تلاوت کیسے کر رہا ہے پھر اسے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سمجھ آئی کہ ہو سکتا ہے وہ حافظ ِقرآن ہو۔عجوہ کے گھر میں بھی سب صوم صلوٰۃ کے پابند تھے پر پھر بھی اس نے آج سے پہلے کسی کو اتنی پیاری آواز میں تلاوت کرتے نہیں سنا تھا جتنی مٹھاس اس انسان کی آواز میں تھی۔
عجوہ غور سے اس انسان کو دیکھ رہی تھی وہ شاید سردی کی وجہ سے مردانہ شال لپیٹے جائے نماز پر بہٹھا سورٰۃ بقرٰہ کی تلاوت کر رہا تھا اس کے چہرے پر اک ایسا نور تھا جو عجوہ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ دکھنے میں بہت معصوم تھا پر پھر بھی اس کے چہرے میں کچھ ایسا تھا کہ اسے دیکھ کر عجوہ کو کچھ عجیب لگ رہا تھا وہ عام انسانوں جیسا بلکل نہ تھا۔
اسے دیکھتے دیکھتے عجوہ نے آنکھیں بند کرلیں اور سکون سے تلاوت سن نے لگی وہ اس کی آواز کے سحر میں ایسا کھوئی کے اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی تلاوت ختم ہوئی اور وہ چل کر عجوہ کے پاس آگیا ۔
اوہ شکر ہے آپکو ہوش آگیا جیسے ہی وہ پاس آکر بولا تو عجوہ نے فورًا آنکھیں کھول دیں ۔
جی ابھی آیا ہے ہوش آ آ آپ کون؟؟؟ میں یہاں کیسے آئی ؟؟؟ عجوہ اک دم جیسے حقیقت کی دنیا میں لوٹی۔۔
اشہاب کی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی جب اشہاب نے مرر سے پیچھے بیٹھی عجوہ کو دیکھا جو سر جھکائے شاید درود شرہف کا ورد کر رہی تھی۔ اشہاب کو اسی لمحے اپنے انتخاب پر فخر ہوا ۔اس نے فاڑی میں تلاوت لگادی تاکہ عجوہ کے ساتھ وہ اپنا یہ چھوٹا سا سفر یادگار بنا سکے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ عجوہ کو تلاوت بہت پسند ہے اور وہ خود بھی کہیں جاتے ہوئے زیادہ تر کہیں جاتے ہوئے صرف تلاوت ہی سنتا تھا جو ہمیشہ اس کے دل و دماغ کو سکون پہنچاتی تھی اور بے شک میرے ربّ کا کلام ہی دل ودماغ کے راحت کا باعث ہے ۔
جیسے ہی تلاوت شروع ہوئی عجوہ نے سر اٹھا کے اشہاب کو دیکھا وہ عجوہ سے نظر ہٹا کر فورًا سامنے دیکھنے لگا اور عجوہ کے دل نے بے اختیار کہا کے دیکھو اللّہ نے کتنا اچھا ساتھی لکھا ہے میری قسمت میں جو میری اتنی عزت کرتا ہے کہ نظر ملانے سے گریز کرتا ہے کیوں کہ ابھی نکاح کا جائز رشتہ نہیں بنا اور عجوہ کی طرح ہی اللّہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔وہ انہیں سوچوں میں گم تھی کہ جھٹکے سے گاڑی رکی اور اشہاب نے گاڑی سے نکل کر گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور خود سائیڈ پر ہٹ گیا ۔عجوہ نے اپنا بیگ اٹھایا کیونکہ اس کا کالج آ چکا تھا اور گاڑی سے نکلتی ہوئی دھیمی آواز میں جھکے سر کے ساتھ شکریہ کہتی کالج کے اندر کی جانب بڑھ گئی اور اشہاب اس کے اس معصوم انداز پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا اور سر جھٹک کر گاڑی میں بیٹھا اور اپنے آفس کی۔جانب چل دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔