عجوہ سکول سے آئی تو غصے سے بیگ اتار کر بیڈ پر اچھال کر خود بھی منہ پھلا کر ساتھ ہی بیڈ کی دوسری طرف بیٹھ گئی ۔
ارے آگئی میری رانی بیٹی گھر۔۔۔دیکھو آج میں نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لئے چکن پلاؤ بنایا ہے بہت پسند ہے نا میری عجی کو چکن پلاؤ عجوہ کی ماما حبیبہ صاحبہ نے مسکرا کر عجوہ سے کہا ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں نہیں کھانا مجھے کچھ بھی بولتے ہوئے عجوہ رو پڑی ۔ ارے کیا ہوا میری رانی بیٹی کو بتاؤ کسی بچے نے سکول میں کچھ کہا ہے بتاؤ مجھے ؟؟؟
ویسے بھی اسے کوئی اسے کوئی ٹیچر کچھ کہہ ہی نہیں سکتی تھیں کیونکہ وہ بہت اچھی اور لائق سٹوڈنٹ تھی اور کلاس میں ہمیشہ اوّل آتی تھی اس لئے حبیبہ صاحبہ کو یقین تھا کہ اسے کوئی ٹیچر ڈانٹ ہی نہیں سکتی کیونکہ سب ٹیچرز اسے اس کی ذہانت کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے پھر ضرور کوئی اور بات ہے حبیبہ صاحبہ نے سوچا۔
کیا بات ہے میری جان آپ کیوں اتنا غصہ ہو رہی ہو اب کچھ بتاؤ بھی ۔
ماما سب کے بہن بھائی ہوتے ہیں میرے کیوں نہیں ہیں ؟؟؟عجوہ نے معصومیت سے پوچھا
لو اتنی سی بات پر آپ رو رہی تھی حبیبہ نے مسکرا کر کہا ۔
اتنی سی بات نہیں ہے یہ ماما دیکھیں نہ میرے سب فرینڈز کے چھوٹے بہن بھائی ہیں جنکے ساتھ وہ کھیلتے ہیں میری فرینڈ مانو کا بھی چھوٹا بھائی آیا ہے کچھ دن پہلے اس نے مجھے بتایا وہ بھی اس سے کھیلتی ہے بس اک میرے پاس ہی کھیلنے کے لئے چھوٹا بہن بھائی نہیں عجوہ نے اداسی سے کہا۔
اوہ تو اس لئے آپ اداس ہو کہ آپکا چھوٹا بہن بھائی نہیں ہے جس سے آپ کھیل سکو تو خوش ہو جاؤ آپ کے سیم چاچو کا بے بی آنے والا ہے آپ اس سے کھیلنا ٹھیک حبیبہ صاحبہ نے اس کا ماتھا چوم کر کہا ۔
واقعی ماما سیم چاچو کا بے بی آنے والا ہے ؟؟؟ اب تو میں اس سے کھیلوں گی اور مانو کو بھی بتاؤں گی کہ میرا بھی چھوٹو بے بی آنے والا ہے یا ہوووووو
عجوہ پر جوش انداز میں کہتی اپنی ماں سے لپٹ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماویہ رحمان شہیر رحمان اور سمیر رحمان تین بہن بھائی تھے ۔سماویہ سب سے بڑی ان سے چھوٹے شہیر اور سب سے چھوٹے سمیر رحمان تھے ان کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا اور تینوں بہن بھائی شادی شدہ تھے ۔
سماویہ کے تین بچے رباب اور علشبہ جڑواں بہنیں جبکہ اشہاب دونوں بہنوں سے دو سال چھوٹا تھا ۔
ان سے چھوٹے شہیر رحمان کی اک ہی بیٹی عجوہ تھی جس کے بعد سب رپورٹس ٹھیک ہونے کے باوجود ابھی تک ان کے ہاں آگے اولاد نہیں ہوئی تھی اور اسی لئے عجوہ اکلوتی ہونے کی وجہ سے گھر بھر کی لاڈلی تھی خاص طور پر اپنے چاچو سمیر کی جنہیں پیار سے وہ سیم چاچو بلاتی تھی ۔
اور سمیر کی 7 ماہ پہلے ہی اپنی کلاس فیلو فائزہ سے لو میرج ہوئی تھی اور اب فائزہ امید سے تھی گھر میں اتنی دیر بعد آنے والی خوشی سے گھر کا ہر فرد خاص طور پر عجوہ بہت خوش تھی جسے چھوٹے بہن یا بھائی کا بہت شوق تھا ۔رباب اور علشبہ تو عجوہ سے پانچ سال بڑی تھیں اس لئے وہ ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے تھوڑا ججھکتی تھی جبکہ اشہاب اس سے تین سال بڑا ہونے کے باوجود بہت اچھا اور ہمیشہ اس کے ساتھ کھیلتا تھا پر عجوہ کو اپنے سے چھوٹے بچے کے ساتھ کھیلنے کا شوق تھا اور اب اس کا یہ شوق اپنے سیم چاچو کے بچے کے ساتھ ہی پورا ہو سکتا تھا جس کا اسے اب شدت سے انتظار تھا ۔
جب سے اس کی ماما نے بتایا تھا کہ اس کے سیم چاچو کے ہاں اس کا چھوٹا بہن یا بھائی آنے والا ہے تب سے وہ بہت خوش تھی اور روز حبیبہ سے پوچھتی تھی کہ ماما بے بی کو آنے میں کتنے دن رہ گئے ہیں اور حبیبہ بھی ہنس کر اس کے جواب میں بس اتنا کہہ دیتیں تھیں کہ بس کچھ ہی دن میں آجائے گا اور 6 سال کی عجوہ بھی گن گن کے دن گزار رہی تھی کہ کب اس کا پیارا سا کزن آئے اور وہ دونوں کھیلیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیوانوں کی طرح بھاگ رہی تھی اک پاؤں سے جوتا بھی اتر چکا تھا اور ویسے ہی بھاگ رہی تھی خوف سے اس کا برا حال تھا اس وقت اسے اپنی عزت سے پیارا کچھ نہ تھا اس لئے اسے اپنے اک پاؤں کی چپل اتر جانے کی بھی پرواہ نہیں تھی۔ بس وہ بھاگتی ہی جا رہی تھی بھاگتے بھاگتے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ منہ کے بل گر گئی اور وہ غنڈہ اس کے سر پہ پہنچ گیا ۔
اوہ سوہنیو ہم سے بچ کے کیوں بھاگ رہی ہو ہم تو قدر دان ہیں آپ کے حسن کو خراج بخشیں اور چلے جائیں گے گھبراتی کیوں ہو جانِ من پاس تو آئیں نشے میں دھت غنڈے نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچنا چاہا لیکن اس سے پہلے کے وہ حد پار کرتا کسی نے زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور اس کے بعد اسے مکّوں اور گھونسوں پر رکھ لیا مارنے والے نے تب تک اسے ہلنے کا موقع نہیں دیا جب تک وہ نڈھال ہو کر بے ہوش نہیں ہوگیا
شہیر رحمان اور سمیر رحمان لان میں بیٹھے اپنی کسی بزنس ڈِیل کی بات کر رہے تھے جب عجوہ کھیلتی ہوئی آئی اور سمیر رحمان کے پیچھے سے ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کہ بولی کون؟؟؟ اپنے سیم چاچو کی نیلی آنکھوں والی ڈول عجی سمیر رحمان نے مسکرا کر کہا اور عجوہ کو اپنی گود میں بٹھا کر اس لے گول مول گالوں کو چٹکیوں میں پکڑ کر ڈھیر سارا پیار کر ڈالا ۔
کیا ہے سیم چاچو آپ ہمیشہ میری چکس کو زور سے کھینچ دیتے ہو اب آپ کا بےبی آئے گا نہ میں بھی اس کی چکس کو زور سے کھینچوں گی ہنہہہ عجوہ نے منہ بنا کر کہنے پر شہیر اور سمیر کا قہقہہ بلند ہوا ۔
ہاں ہاں ہم دونوں مل کر آپ کے سیم چاچو کے بےبی کی چکس کھینچیں گے شہیر رحمان عجوہ کے بابا نے شرارتًا کہا جی با با بلکل عجوہ نے بھی ان کا ساتھ دیا ۔
ہاہاہا جی جی آپ کے دل میں جو آئے وہ کرنا بےبی ساتھ آخر آپ اس کی پیاری سی آپی جو ہوگی سمیر رحمان نے عجوہ کو پیار کرتے ہوئے کہا ۔
اچھا یہ بتائیں آپ نے آپ نے بےبی کے لئے کوئی گفٹ لیا ؟؟؟سمیر نے عجوہ سے پوچھا ۔
گفٹ لیا نہیں میرے پاس پہلے سے ہے چاچو یہ دیکھیں یہ جو میرا لاکٹ ہے نہ میرے گلے میں اللّہ والا یہ میں بےبی کو دوں گی ۔
پر عجوہ بیٹا یہ تو آپ کا لاکٹ ہے سمیر رحمان نے حیران ہو کر پوچھا تو چاچو پھر کیا ہوا بےبی بھی تو میرا ہی ہوگا نہ عجوہ کے مسکرا کر کہنے پر سمیر رحمان کو اس کی معصومیت پر بہت پیار آیا ۔چلیں پھر اسی خوشی میں آئسکریم کھانے چلیں سمیر رحمان کے کہنے پر عجوہ بہت خوش ہوگئی اور اپنے بہت پیار کرنے والے سیم چاچو کے ساتھ لپٹ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ بعد:
عجوہ سکول سے لوٹی اسے نیچے والے پورشن میں کوئی نظر نہیں آرہا تھا لگتا ہے سب سیم چاچو کے روم میں گئے ہیں میں بھی وہیں جا کے دیکھتی ہوں یہ سوچ کر عجوہ اوپر سمیر رحمان کے کمرے میں چل دی ۔اوپر پہنچ کر عجوہ نے دیکھا سب گھر والے اک جگہ اکٹھے بیٹھے ہیں اور سب کے چہروں پر پراسرار سی خاموشی ہے ۔فائزہ چچی بیڈ پر لیٹی بے آواز رو رہی ہیں اور ان کی بغل میں اک بہت ہی حسین بچہ لیٹا تھوڑی تھوڑی آنکھیں کھول کر بہت ہی آہستہ آہستہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا ہے ,عجوہ چھوٹے سے بچے کو دیکھ کر اتنی خوش ہوئی کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ اور بھاگ کر اس بچے سے لپٹ گئی سیم چاچو کا بےبی آگیا سیم چاچو کا بے بی آگیا عجوہ خوشی سے اچھل رہی تھی ارے واہ چاچو دیکھیں نہ اس کی آنکھیں تو نیلی ہیں بلکل میرے جیسی اس نے میری آنکھوں کا رنگ چرایا ہے یہ کتنا پیارا ہے نہ چاچو عجوہ نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا اور اپنا سونے کا اللّہ والا لاکٹ اتار کر اس کو پہنا دیا ۔
بسسسس عجوہ چپ کرو اور جاؤ اپنے کمرے جاؤوووسمیر رحمان نے چلا کر کہا عجوہ جس نے کبھی اپنے اتنے پیار کرنے والے چاچو کا یہ روپ دیکھنا تو دور سوچا بھی نہیں تھا
خوفزدہ ہو کر وہیں دیوار کے ساتھ لگ گئی۔
سمیر رحمان جس کے پاؤں اپنے بچے کے دنیا میں آنے سے پہلے باپ بننے کی خوشی میں پاؤں زمین پر نہیں لگتے تھے اب وہی سمیر رحمان اپنے اسی بچے کو خونخوار نظروں سے
دیکھ رہا تھا ۔
تھوڑی ہی دیر بعد عجیب سے دکھنے والے لوگ آئے اور سیم چاچو کے بےبی کو اٹھا کر لے گئے ۔سب خواتین نے نم آنکھوں کے ساتھ بچے کو رخصت کیا اور مردوں نے سر جھکا کر ۔ جبکہ سمیر رحمان کی آنکھوں میں تو خون اترا تھا نفرت سے انہوں نے منہ دوسری طرف کر لیا اور عجوہ خوفزدہ ہو کر اس سارے منظر کو دیکھ رہی تھی ۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ کہ ان سے اپنا نیلی نیلی آنکھوں والا پیارا سا بےبی چھین لے پر وہ سمیر رحمان کے غصے سے اتنا ڈر گئی تھی کہ اس کی اپنی جگہ سے ہلنے کی ہمت تک نہ ہوئی اور وہ لوگ اسکی بےبی کو لے کر کب کے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے پر اس کا دل اپنے اس چھوٹے سے بھائی میں رہ گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کالج کے لئے تیار ہو رہی تھی کہ حبیبہ صاحبہ کی آواز پر پلٹی یہ لو بیٹا ناشتہ کر لو
کل بھی تم ناشتہ کئے بغیر ہی چلی گئی تھی ۔
اوہ میری پیاری ماما میرے ٹیسٹ ہو رہے ہیں نہ اس لئے میں بہت بزی ہوں اس لئے کھانے کا وقت کم ملتا ہے آپ پریشان نہ ہوں میں کالج کے کنٹین سے کھا لیا کروں گی ۔
جی نہیں آپ ایسا کچھ نہیں کروں گی آئی سمجھ زیادہ بات ہے تو میں روز لنچ باکس دے دیا کروں گی خبردار جو باہر سے اول فول کھایا تو اب چپ چاپ یہ ناشتہ کرو اور میں آپ کے لئے لنچ باکس تیار کرتی ہوں حبیبہ صاحبہ بیٹی کو پیار بھرا ڈانٹ کر کچن کی جانب چلی گئیں اور عجوہ ان کے پیار بھرے انداز پر مسکرا کر رہ گئی ۔
ناشتہ کر کے عجوہ اپنے کمرے سے باہر آئی تو حبیبہ صاحبہ کو اپنا منتظر پایا ۔ماما بابا کہاں ہیں عجوہ نے پوچھا ۔
اوہ سوری بیٹا میں آپ کو بتانا ہی بھول گئی
کہ آپ کے بابا رات ہی کسی کام کے سلسلے میں کراچی گئے ہیں ۔اف ماما اب میں کالج کس کے ساتھ جاؤں گی آج تو میرا ٹیسٹ بھی ہے اگر میں لیٹ ہو گئی تو بہت پرابلم ہو جائے گی عجوہ نے پریشانی سے کہا ۔
ارے میری جان اس کا بھی حل ہے میرے پاس
آپ کی سماویہ پھپھو نے صبح ہی اپنے ہاتھ کا اچار بھیجا ہے آپ کے بابا کے لئے ان کو بہت پسند ہے نہ آپ کی پھپھو کے ہاتھ کا اچار اس لئے ۔
ارے واہ کون لایا ہے اچار عجوہ نے خوش ہو کر پوچھا
اپنا اشہاب اور کون حبیبہ صاحبہ نے مسکرا کر کہا ۔
اوہ ہ ہ اچھا اشہاب کا نام سن کر اک دم سے اسکی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں تھی جب سے وہ اشہاب کے نام سے منسوب ہوئی تھی اس نام سن کر جھینپ سی جاتی تھی حالانکہ وہ اشہاب کے ساتھ کھیل کر بڑی ہوئی تھی پھر بھی جب سے اس کے نام کی انگوٹھی پہنی تھی اک عجیب سی کیفیت تھی جو اس کا نام سن کر ہوتی تھی ۔
کہاں کھو گئی حبیبہ صاحبہ نے بیٹی کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرا کر پوچھا ۔
جی ی ی ی کہیں نہیں ماں کی آواز پر عجوہ نے گھبرا کر کہا ۔ماما بتائیں نہ اب میں کس کے ساتھ کالج جاؤں؟؟؟ بابا تو ہے نہیں یہاں عجوہ نے پریشان ہو کر کہا ۔
ارے اشہاب کے ساتھ اور کس کے ساتھ حبیبہ صاحبہ نے مسکرا کر کہا ۔۔۔۔
ماما وہ میں بس سے نہ چلی جاؤں؟؟؟ عجوہ نے گھبرا کر کہا ۔نہیں بیٹا جب گھر پر اک چھوڑنے والا موجود ہے تو بس والا جنجھٹ کیوں ؟؟؟ چلیں آئیں اشہاب چھوڑ آئے گا وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہےآئیں وہیں چلتے ہیں ۔
پر ماما عجوہ اک بار پھر بولی تو حبیبہ صاحبہ نے اس کی بات کاٹ کر اسے سمجھایا بیٹا میں جانتی ہوں جب سے تمہاری منگنی ہوئی ہے تم اشہاب سے تھوڑا دور ہی رہتی ہو اور اچھے گھروں کی بیٹیوں کو کرنا بھی ایسے ہی چاہیے ۔پر بیٹا خود آپکی ماں آپ کو اجازت دے رہی ہے کیونکہ اشہاب دیکھا بھالا اپنے ہی گھر کا بچہ ہے اور کتنا شریف ہے یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ اشہاب اتنا اچھا بچہ ہے کہ اس نے منگنی ہونے کے بعد بھی کبھی آپ سے بات کرنے یا ملنے کی کوشش نہیں کی ۔ہمیشہ جب بھی آتا ہے نظر جھکا کر بیٹھتا ہے آپ گھبرائیں نہیں اور جائیں حبہبہ صاحبہ کے بات کرتے کرتے ڈرائنگ روم آگیا ۔
سوری بیٹا میں عجوہ کا لنچ باکس تیار کر رہی تھی اس لئے دیر ہوگئی آنے میں حبیبہ صاحبہ نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا اور عجوہ ڈرائنگ روم کے باہر ہی رک گئی
اندر جانا اسے دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا ۔
اور سنائیں بیٹا آپ کی ماما کیسی ہیں؟؟؟ سب فٹ ہیں ممّو آپ سنائیں کیسی ہیں ؟؟؟
میں بھی ٹھیک ٹھاک میرے بچے ۔اشہاب بچپن سے ہی اپنی نرم مزاج ممانی سے بہت پیار کرتا تھا اور ان کو پیار سےممّو بلاتا تھا اور اب بڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان کو ممّو ہی کہہ کر بلاتا تھا ۔چلیں ممّو میں چلتا ہوں میں نے آفس بھی جانا ہے اشہاب نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ۔
اچھا سنو بیٹا جاتے جاتے عجوہ کو کالج چھوڑ دو پلیز دراصل آپ کے ماموں کسی کام سے کراچی گئے ہیں اور باقی سب بھی اپنے سکول کالجز کو گئے ہیں اس لئے اکیلی بچی کو بھیجنے کو میرا دل نہیں مانا آپ چھوڑ آٰؤ ۔
جی چھوڑ آتا ہوں ممّو ,عجوہ کا نام سن کر اشہاب کے چہرے کا رنگ بدلا تھا پر اس نے ممّو پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا وہ شرمیلی۔سی نرم مزاج لڑکی اسے بچپن سے ہی بہت اچھی لگتی تھی اور بچپن میں ان دونوں کی بہت دوستی بھی تھی پر جیسے جیسے عجوہ بڑی ہوئی وہ کم گو ہو گئی اور منگنی کے بعد تو وہ باقاعدہ اشہاب سے پردہ کرنے لگی تھی اور اشہاب بھی اس کی اتنی ہی عزت کرنے لگا تھا دل میں بہت سے ارمان ہونے کے باوجود کبھی بھی اسے نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا اسے بہت اچھا لگتا تھا اللّہ نے اس کی قسمت میں ایسی لڑکی کو لکھا جس کے لئے پردہ اس کی ذات کا حصہ ہے اور اسے باپردہ عورت ہی پسند تھی اپنے جیون ساتھی کے طور پر۔۔۔ اور معصوم سی عجوہ تو اسے ویسے بھی بچپن سے ہی پیاری لگتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔