سارا آئے گی بلال کی طرف سے بات پکی کرنے کل
صابرہ بیگم نے رمیشہ کو بتایا
اور شادی 6 ماہ بعد ہے
تم نے پڑھائی تو چھوڑ دی تو میرا اور تمہارے پاپا کا خیال ہے شادی جلدی کردی جائے
دو مہینے گزر گئے امجد سے رمیشہ کی بات کم۔ہوتی تھی
ایک دن رمیشہ بیٹھی ہوئی تھی تب اس نے امجد کو کال کی
کیسے ہیں آپ؟
مختصر جواب ملا
ٹھیک
آپ کی امی اب تک نہیں آئی لاہور سے؟
آگئیں ہیں
امجد نے بتایا
تو آپ نے بات کی ہماری شادی کی
میں نے امی اور بھائی سے بات کی تھی وہ کہہ رہے ہیں ہمارے ہاں خاندان سے باہر شادی نہیں ہوتی اور میرے ابو نہیں مانیں گے
ہمارے گھر میں انکی ہی چلتی ہے
یہ الفاظ نہیں سیسہ تھا جو رمیشہ کے کانوں میں امجد نے ڈالا تھا
تو اب میں کیا جواب دوں اپنے گھر والوں کو رمیشہ نے بے بسی سے پوچھا
یہ میں نہیں جانتا
اور وہ فون بند کر چکا تھا
آج اس کو احساس ہوا تھا اپنی سب سے بڑی غلطی کا
جس کی وجہ سے رمیشہ کی عزت والد کی نظر میں گر گئی تھی
امین صاحب نے رمیشہ سے بات کرنی ختم کردی تھی
کاش وہ غلطی نا کرتی
غیر مرد پر بھروسہ نا کرتی
تو آج اس کی عزت اس کی والدین کی نظر میں کم نا ہوتی
بیٹی پر والدین کو سب سے زیادہ مان ہوتا ہے خاص کر ماں کو
ہر جگہ ماں کی تربیت پر انگلی اٹھتی ہے
جو غلطی وہ کر چکی تھی وہ ٹھیک نہیں ہوسکتی تھی
والدین کی نظروں میں دھول جھونکنا جھوٹ بول کر گھر سے جانا
آج اسکو اندازہ ہو رہا تھا
اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایف ایس سی کے پیپر کی تیاری بہت مشکل سے کی رمیشہ نے اور پیپر دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کے لیے بلال کے گھر سے کال آئی تھی وہ فون پر تاریخ رکھ رہے ہیں لاہور سے کراچی آنا مشکل ہے سارا بھی جرمنی جا چکی ہے شادی پر آئے گی
صابرہ بیگم رمیشہ کو بتا رہیں تھیں
جس نے جواب میں ٹھیک ہے کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی رسمیں شروع ہو چکیں تھیں
بارات کے رہنے کا انتظام رمیشہ کی پھوپھی کے گھر کیا تھا جن کا گھر ڈیفینس میں تھا
رمیشہ کی عمر 19 سال اور بلال کی 26 سال تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت رمیشہ کا نکاح ہورہا تھا اس کی حالت بہت عجیب تھی خواب امجد کے دیکھے تھے کتنا چاہا تھا اس کو مگر اس نے آخری وقت میں ساتھ چھوڑ دیا
ٹین ایج کی لڑکیاں فلمز اور موویز سے بہت انسپائیر ہوتی ہیں
ان کے زہن میں پیار کرنے والا ہیرو ساتھ گھومنا فلم دیکھنا
لانگ ڈرائیو پر جانا یہ خواب بن کے زہن میں رہتا ہے
وہ لڑکیاں یہ نہیں جانتی وہ فلم کے منظر ہیں ایسا فلموں ڈراموِں میں ہوتا ہے رئیل لائف میں نہیں
مگر ٹین ایج میں جس نے شیطان کو مات دی وہ جیت گیا
جس کے اوپر شیطان حاوی ہوا وہ ہار گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح ہوچکا تھا اب وہ بلال کی بیوی بن گئی تھی
اسی دن کی فلائٹ تھی واپسی بارات کی لاہور کی
رخصتی کے وقت رمیشہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے امین صاحب نے دعا دی
رمیشہ کا دل چاہا کہ وہ روئے اور روتی رہے جب تک امین صاحب اس کو معاف نہ کریں
وہ والد تھے معاف کب کا کر چکے تھے
مگر اعتبار نہیں کر سکتے تھے اب رمیشہ پر
رمیشہ اپنا اعتبار کھو چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور پہنچ کے طاہرہ نے اس کو کمرے میں بٹھایا
اور فریش ہونے کا کہا
وہ فریش تو ہوگئی مگر سارا دن کی تھکن تھی اس لیے جیسے ہی لیٹی وہ سو چکی تھی
بلال جب کمرے میں آیا رمیشہ سو چکی تھی
اس نے بھی اس کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور خود بھی سو گیا
صبح جب ریشہ جاگی بلال جاگ چکا تھا
کیسی ہیں آپ؟
بلال نے پوچھا
جی ٹھیک ہوں
بلال نے محسوس کیا رمیشہ اس سے ڈر رہی ہے
اس نے اپنے نرم روپے سے رمیشہ کے پاس آنے کی کوشش کی دل میں جگا بنانے کی کوشش کی بیوی تھی وہ اسکی اسنے یہ ہی سوچا ارینج میرج ہے تھوڑا ٹائم اس کو دیا جائے دونوں ایک دوسرے کو سمجھیں گے تو قریب آجائیں گے
وہ جانتا تھا رمیشہ چھوٹی ہے اور آہستہ آہستہ بلال سے مانوس ہوجائے گی
اور یہ ہی ہوا بلال کے لیے رمیشہ کے دل میں جگہ بن رہی تھی
وہ ہر بات بلال سے شئیر کرنے لگی تھی
مگر کبھی کبھی اکیلے میں امجد کی یاد آجاتی اور ایک آنسو نکل کے گال پر بہہ جاتا
وہ دل میں یہ ہی کہتی تھی امجد تمہیں میں کبھی معاف نہیں کروں گی
بلال سمجھ دار تھا
ایجوکیٹڈ تھا میچور تھا وہ تو سمجھ گیا کہ میری بیوی کو توجہ اور وقت چاہیے
مگر ہر مرد بلال۔۔۔۔۔۔۔۔ بلال نہیں ہوتا
رمیشہ کی قسمت اچھی تھی جو اس کو بلال جیسا شوہر ملا
ورنہ کوئی اور اس کی قسمت میں ہوتا
تو پتہ نہیں کیا
ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمیشہ اور بلال ٹیرس پر کھڑے بارش دیکھ رہے تھے
لاہور کا موسم کافی خوبصورت ہوگیا تھا
سردیوں کی بارش شروع ہوگئی تھی
کل رمیشہ اور بلال کراچی جا رہے تھے
صابرہ بیگم۔اور امین صاحب سے ملنے
اور کراچی سے انکی اسپین کی فلائٹ تھی بلال رمیشہ کو اپنے ساتھ اسپین لے جارہا تھا
آئی لو یو
رمیشہ نے بلال کو دیکھتے ہوئے کہا
بلال نے رمیشہ کی طرف دیکھ کے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہا؟ دوبارہ کہو
آئ لو یو
اور رمیشہ فوراً بلال کے سینے سے سے لگ گئی
ایک بارش باہر ہورہی تھی
ایک رمیشہ کی آنکھوں سے جاری تھی
بلال نے رمیشہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کے اس کے آنسو صاف کیے
ماتھے پر پیار کی مہر لگائی
اور رمیشہ کوسینے سے لگا کے کہا آئی لو یو ٹو
ختم شد