تمہاری پھوپھی کی کال آئی تھی بلال کے لیے تمہارا رشتہ مانگا ہے بلال کی امی نے کال کی تھی تمہاری پھوپھو کو
صابرہ بیگم رمیشہ کو بتا رہیں تھیں جو کچن میں برتن دھو رہی تھی
مجھے اور تمہارے پاپا کو بلال اچھا لگا
فیملی سے بھی مل چکے ہیں
اچھی فیملی ہے ہمیں پسند ہے
تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں
صابرہ بیگم نے رمیشہ سے پوچھا
نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے جہاں آپ کی اور پاپا کی مرضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے نو بجے رمیشہ اور امبر گھر پہنچیں تھیں
دروازہ صابرہ بیگم نے کھولا،تھا
اندر جاتے ہی صابرہ بیگم نے رمیشہ سے سوال جواب شروع کردیے تھے اور رمیشہ نے سب بتا دیا امجد کے بارے میں
وہ لڑکا،اگر اتنی غیرت والا،ہوتا تو تمہیں ایسے لے کے نہیں گھومتا رشتہ بھیجتا پہلے جھوٹ بول کے تم اس،لڑکے کے ساتھ گئیں ایسے لڑکے شریف نہیں ہوتے
صابرہ بیگم غصے سے کہہ رہیں تھیں
اور تم بھی اس بے غیرت لڑکی کے ساتھ ملی ہوئی تھیں انھوں نے امبر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
امی صبح امجد آجائے گا آپ لوگوں سے ملنے پھر رشتہ بھی بھیج دیں گے
رشتہ بھجنے والا،ہوتا تو پہلے بھیج دیتا
صابرہ بیگم نے رمیشہ کو دیکھتے ہوئے کہا
فون دو مجھے اب تمہیں فون نہیں دے سکتی میں صابرہ بیگم نے رمیشہ سے فون مانگا
امی میں امجد کو بتا دوں وہ کل مل لے گا آپ سے اس کے بعد آپ مجھ سے فون لے لیجئے گا رمیشہ روتے ہوئے بولی
اسی وقت امین صاحب کمرے میں داخل ہوئے
اور زندگی میں پہلی بار انہوں نے رمیشہ اور امبر کو تھپڑ. مارا تھا
پاپا پلیز ہیمں معاف کردیں
امبر اور رمیشہ دونوں نے امین صاحب سے معافی مانگی
امین صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا چپ کرکے کمرے سے نکل گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح صابرہ بیگم نے رمیشہ کو کہا بلاؤ اس لڑکے کو اور
ساتھ اپنے ماں باپ کو لائے
میں نے تمہارے پاپا،سے بات کی ہے فون کرو اسکو بلاؤ
ہیلو امجد
کہاں ہیں آپ؟
میں تو کار لے کے نکلا ہوں
آپ آرہے ہیں گھر میرے امی پاپا،سے ملنے
ہاں تھوڑی دیر بعد بتاتا ہوں
آپ نے گھر میں بات کی اپنے؟
رمیشہ نے بے صبری سے پوچھا
میری امی لاہور گئی ہوئی ہیں تین دن پہلے
امجد نے جواب دیا
پھر آپ خود آجائیں
رمیشہ نے کہا
آتا ہوں ویٹ کرو
امجد نے کہہ کے فون رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سے دو دو سے تین گھنٹے ہوگئے امجد نہیں آیا
رمیشہ کی کال بھی ریسیو نہیں کررہا تھا
صابرہ بیگم رمیشہ سے دو تین مرتبہ پوچھ چکیں تھیں
جب رات ہوگئی صابرہ بیگم رمیشہ کے روم میں آئی
کیوں نہیں آیا وہ لڑکا وہ آفس کے کام میں بزی تھے اسلیے رمیشہ نے جواب دیا
رمیشہ کی انکھیں سوجی ہوئیں تھیں رو رو کے
اس کو بولو اپنے گھر والوں کو بھیجے خود نہیں آنا چاہتا تو صابرہ بیگم سمجھ گئیں تھیں رمیشہ جھوٹ بول رہی ہے
صابرہ بیگم نے رمیشہ کو کہا جو دیکھ رہیں تھیں رمیشہ کی آنکھیں سوج گئیں ہیں مگر بولی کچھ نہیں
وہ ماں تھیں انکو بہت تکلیف ہوئی تھی ان بچیوں کی حرکت سے وہ چاہتی تھیں رمیشہ کو غلطی کا احساس ہو
میں نے بولا ہے امجد کی امی لاہور گئی ہیں جیسے آئیں گی وہ بھیجیں گے
رمیشہ نے جواب دیا
امبر سے اسلیئے ناراضگی تھی کیونکہ امبر نے یہ بات ماں باپ سے چھپائی اور رمیشہ کا بھر پور ساتھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مینہ ہوگیا تھا مگر امجد نے نہیں بتایا کہ امی آگئیں ہیں رمیشہ کی زیادہ بات بھی نہیں ہوتی تھی امجد سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ماہ ہوگیا ہے کب آئیں گے امجد کے گھر والے صابرہ بیگم نے پوچھا
میں پوچھوں گی امجد سے آج
اسکو بولو جلدی بھیجے آئی نہیں اسکی والدہ اب تک واپس کراچی؟
صابرہ بیگم نے ایک اور سوال کیا
پتہ نہیں پوچھا نہیں میں نے
صابرہ بیگم پہلے ہی سمجھ گئیں تھیں لڑکا مخلص نہیں ہے مگر وہ یہ بات خود کہتیں تو رمیشہ یقین نا کرتی وہ چاہتی تھیں رمیشہ کو خود احساس ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔