"ہاں راشد جو ایڈریس میں نے آپ کو سمجھایا ہے وہی سے چھوٹی بی بی کو باحفاظت سیدھا حویلی لے کر آ جاؤ۔۔۔ بڑے خان سے یا کسی سے بھی کچھ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ورنہ سب آپ پر غُصہ کریں گے،، بس آپ روشی کو حویلی لے کر پہنچو، باقی سب میں خود سنبھال لوں گی"
زرین ڈرائیور سے اپنے کمرے میں چوری چھپے موبائل سے رازدارانہ انداز میں بولی
"اوہو کل بتایا تو تھا آپ کو ایڈریس، رکو میں ابھی دوبارہ دیکھ کر بتاتی ہوں"
ڈرائیور کے پوچھنے پر ایک بار پھر زرین اپنے پاس ڈائری میں لکھا ہوا شمروز جتوئی کے گھر کا ایڈریس اُسے بتانے لگی اور فون رکھ کر اطمینان کا سانس لے کر مڑی مگر دروازے پر کھڑے تیمور خان کو دیکھ کر وہ ایک دم ساکت ہوگئی
"کہاں ہے اِس وقت روشانے"
تیمور خان تیوری پر بل لیے زرین سے پوچھتا ہوا اُس کے پاس آیا
"شہر کے حالات ٹھیک نہیں تھے تو میری اجازت پر وہ اپنی دوست کے گھر رکی ہوئی ہے، واپس حویلی بلوا لیا ہے میں نے اُسے"
تیمور خان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر زرین کو اندازہ ہو گیا کہ وہ راشد سے اس کی موبائل پر گفتگو سن چکا ہے اس لئے زرین بغیر گھبرائے تیمور خان کو بتانے لگی
"پتہ بتاؤ آپ مجھے اُس کی سہیلی کا"
بولنے کے ساتھ ہی تیمور خان نے زرین کے ہاتھ سے اُس کی ڈائری چھینی
"یہ کیا بدتمیزی ہے تیمور واپس کرو ڈائیری"
زرین نے بولتے ہوئے تیمور کے ہاتھ سے ڈائری لینی چاہی مگر تیمور خان ڈائیری میں شمروز جتوئی کا ایڈریس دیکھ کر غُصّے میں آگ بگولہ ہو گیا
"کیا کھیل کھیل رہی ہو آپ اور روشانے اس خاندان کی عزت کے ساتھ،، کب سے رکی ہوئی ہے روشانے شمروز جتوئی کے گھر جواب دو مجھے"
تیمور خان ڈائری دور پھینک کر زرین کو دونوں بازووں سے پکڑتا ہوا کافی بدتمیزی سے چیختا
"تیمور خدا کا واسطہ ہے آہستہ بولو میں سب سچ بتاتی ہوں"
زرین کو ڈر تھا یہ بات کسی طرح کبریٰ خاتون تک نہ پہنچے اس لئے وہ اپنے بیٹے کے سامنے منت کرتی ہوئی بولی
"سچ تو میں اب وہاں جا کر میں خود معلوم کر لوں گا"
تیمور خان غُصّے میں پاگل ہوتا ہوا بولا اور زرین کا بازو کھینچ کر اسے کبریٰ خاتون کے کمرے میں لے جانے لگا۔۔۔ زرین تیمور خان کے سامنے گڑگڑا کر اُسے خدا کا واسطہ دینے لگی
"شہر میں دشمنوں کے گھر بیٹھی ہوئی ہے آپ کی پوتی دادی حضور، امی کو اس کے بارے میں سب خبر ہے۔۔۔ اب یہ بات آپ ان سے اپنے طریقے سے پوچھو، میں روشانے کو لے کر آتا ہوں"
تیمور خان نے شہر کے لیے روانگی سے پہلے کبریٰ خاتون کو حقیقت سے آگاہ کیا۔۔۔ کبریٰ خاتون سخت اور کاٹ دار نظروں سے زرین کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو مجرموں کی طرح سر جھکائے ان کے سامنے کھڑی تھی
****
اچھا لگا تو اسے اپنا یہ کزن خوش مزاج سا۔۔۔ تھوڑا تھوڑا غصہ دکھانے والا مگر غُصّہ بھی وہ تمیز کے دائرے میں رہ کر کرتا۔ ۔۔۔ روشانے کو اُس سے باتیں کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا،،، جیسے وہ تیمور خان سے خوف کھاتی
تیمور خان اور ضیغم جتوئی میں زمین آسمان کا فرق تھا کل رات جب ضیغم اس سے دوبارہ ملنے کا پوچھ رہا تھا تب اس کی آنکھوں میں ایک امید سی تھی مگر روشانے اُسے کوئی جھوٹی امید نہیں دلانا چاہتی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور آنے والا تھا پھر اُسے یہاں سے چلے جانا تھا،، اُس کے صبح بیدار ہونے سے پہلے ہی ضیغم آفس جا چکا تھا،، یہ بات جب اُسے شمروز جتوئی سے پتہ چلی تو روشانے کا دل بُجھ سا گیا۔۔۔ ابھی وہ ضیغم کے بیڈروم میں کھڑی ہوئی،، دیوار پر نسب اُس کی تصویر دیکھ رہی تھی۔۔۔ جس میں وہ شمروز جتوئی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا
ژالے کی بات یاد کرکے روشانے کے چہرے پر ایک دم مسکراہٹ آئی جو اُس کے حویلی آنے پر ہمیشہ اُس سے کسی ہینڈسم لڑکے سے ٹکراؤ کا پوچھتی۔۔۔ اب یہاں سے جانے کے بعد اُس کے پاس ژالے سے شیئر کرنے کے لیے ڈھیر ساری باتیں تھی مگر یہاں سے جانے پر اندر کہیں دل بھی اداس تھا اس بے نام سی اداسی کی وجہ سے اسے معلوم نہیں تھی
"کون زیادہ ہینڈسم لگ رہا ہے تصویر میں"
شمروز جتوئی روشانے کے پاس آکر اُسے دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"آف کورس ماموں آپ"
روشانے ایک دم سٹپٹاتی ہوئی بولی اور ساتھ ہی شرمندہ ہونے لگی وہ ناشتہ کرنے کے بعد یوں ضیغم کی غیر موجودگی میں بنا اجازت اس کے کمرے میں آگئی تھی
"اگر کوئی دوسری لڑکی تمہاری جگہ ہوتی تو وہ یقیناً سچ بولتی"
شمروز جتوئی اس کے گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا تو روشانے مزید گھبرا گئی
"میں بھی بالکل سچ بول رہی ہو ماموں،، ویسے بھی تصویر میں،، میں نے اِن جناب پر تو غور ہی نہیں کیا۔۔۔ غور کرنے والی بات بھی بھلہ کیا ہو بلاوجہ غصہ ہی کرتے رہتے ہیں"
روشانے شمروز جتوئی کو مزید صفائی دیتی ہوئی بولی مگر حقیقت تو یہی تھی کہ ضیغم کی پرسنیلٹی کافی شاندار تھی
"اگر تم نے واقعی ضیغم کی تصویر پر غور نہیں کیا پھر تو تمہاری بات مان لیتا ہو۔۔۔ مگر اُس کے غُصہ کرنے والی بات تو درست نہیں ہے بلا جواز تو وہ کبھی بھی غُصہ نہیں کرتا"
شمروز جتوئی مسکرا کر روشانے سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا کیونکہ ڈور بیل بجی تھی روشانے بھی شمروز جتوئی کے پیچھے چل دی
"کون ہو تم لوگ،، اندر کیوں آ رہے ہو۔۔۔ یہ کون سا طریقہ ہے"
شمروز جتوئی اس آدمی کو بولا جو ہاتھ میں گن لیے زبردستی گھر میں گھسا اور اس کے پیچھے دوسرا شخص، جو کہ ضیغم کا ہم عمر تھا اور کافی غُصے میں دکھ رہا تھا
"خان"
شمروز جتوئی کے زور سے بولنے پر روشانے باہر نکلی مگر سامنے تیمور خان کو دیکھ کر اُس کی رُوح فنا ہونے لگی وہ کانپتے ہوۓ لہجے میں "خان" بولی تو شمروز جتوئی چونک کر روشانے کی اڑی ہوئی رنگت دیکھنے لگا۔۔۔ اس کے منہ سے خان لفظ سن کر وہ سمجھ گیا کہ وہ تیمور خان تھا
تیمور خان چلتا ہوا روشانے کے پاس پہنچا اور زور دار تھپڑ روشانے کے گال پر رسید کیا جس سے وہ اوندھے منہ فرش پر جا گری
"خبردار جو تم نے اس پر ہاتھ اٹھایا" شمروز جتوئی بلند آواز سے تیمور خان سے بولا جبکہ روشانے گال ہر ہاتھ رکھے خوف کے مارے کانپنے لگی۔۔۔ تیمور خان نے گن مین کو اشارہ کیا اس نے اپنی گٙن شمروز جتوئی کے سینے پر رکھ دی
"اگر اب اسکی آواز نکلے تو اُڑا دینا اسے"
تیمور خان گن مین کو بولتا ہوا دوبارہ روشانے کی طرف بڑھا
ڈر کے مارے روشانے نے زمین سے اٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ تیمور خان مٹھی میں اُس کے بالوں کو پکڑ کر اُسے اٹھانے لگا
"خان پلیز نہیں" روشانے تیمور کی کلائی پکڑ کر ڈرتی ہوئی اُس سے بولی
"یہاں نہیں تُجھے تو میں گھر جاکر بتاؤ گا، چل"
تیمور خان غُصے میں سرخ آنکھوں سے روشانے کو دیکھ کر کہتا ہوا اُس کے بالوں کو مٹھی سے آزاد کر کے،، اس کا بازو کھینچتا ہوا گھر سے باہر نکلنے لگا
روشانے آنکھوں میں آنسو بھرے بے بسی سے روتی ہوئی شمروز جتوئی کو دیکھنے لگی،، مگر وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اُس کی پرورش اُن لوگوں نے کی تھی وہ کس حق سے اسے روک سکتا۔۔۔ گن میں بھی تیمور خان کے پیچھے چل دیا
****
"چٹاخ۔ ۔۔۔ چٹاخ۔ ۔۔۔ چٹاخ۔ ۔۔۔ دو راتوں سے موجیں کر رہی تھی شمروز جتوئی کے بھتیجے کے ساتھ،، بول کیا کیا اُس کمینے نے تیرے ساتھ۔۔۔ چھوئے بغیر تو تجھے نہیں چھوڑوں گا اُس نے"
کمرہ بند کر کے منہ پر تھپڑ مارنے کے بعد فرش پر گری ہوئی روشانے کو وہ لاتوں سے مارتا ہوا اپنے ذہن میں بھرا ہوا گند اس پر انڈیل رہا تھا۔۔۔ روشانے اپنی بےگناہ ہونے کی قسم کھاتی ہوئی اُس سے معافی مانگ رہی تھی
"تیمور چھوڑ دے اسکو، وہ بےقصور ہے میرے کہنے پر وہ بدنصیب وہاں رک گئی تھی، مت کر اُس پر ظلم، میں معاف نہیں کرو گی تجھے"
دوسری طرف کھڑکی سے کمرے میں جھانکتی ہوئی زرین اپنے بیٹے کی درندگی دیکھ کر چیخ چیخ کر اسے کوس رہی تھی
"آ لینے دے آج اسماعیل خان کو تیری چٹیا میں بھی بل ڈلواتی ہوں،۔۔۔ تو نے ہمارے دشمنوں کے گھر بھیج دیا زریاب کی لڑکی کو، اچھا نہیں کیا زری، بالکل اچھا نہیں کیا تو نے"
کبریٰ خاتون کو روشانے کی چیخنے یا رونے کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی وہ زرین کو دیکھتی ہوئی بولی
"کل ہی اس بےشرم کا تیمور خان سے نکاح کرواؤں گی، تاکہ ہمارے منہ پر کالک نہ مل دے۔۔۔ جیسے بھری جوانی میں اُس کی ماں نے اپنے گھر والوں پر ملی تھی"
تیمور خان کمرے سے باہر نکلا تو اسے دیکھ کر کبریٰ خاتون زرین سے بولی
"اور اب یہ کالج تو کیا اِس کمرے سے باہر نہیں نکلے گی،، کل ہی میری بیوی بن کر یہ میرے کمرے میں آئے گی اور ضیغم جتوئی اس کو تو میں اچھی طرح دیکھ لوں گا"
تیمور خان بولتا ہوا حویلی سے باہر نکل گیا جبکہ زرین روتی ہوئی کمرے کے بند دروازے کو دیکھنے لگی اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ روشانے کے پاس جا کر اس کے وجود کو گلے لگاتی
****
ضیغم شام میں آفس سے گھر آیا تو اُسے شمروز جتوئی سے روشانے کے جانے کا علم ہوا۔۔۔ ایک عجیب اُداسی کی کیفیت اسے اپنے اندر اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ شمروز جتوئی بھی بالکل خاموش تھا اور شام سے ہی اپنے کمرے میں موجود تھا
جبکہ ضیغم ٹیرس میں کھڑا، سگریٹ کے دھوئیں سے مرغولے بنا رہا تھا وہ اپنی دلی کیفیت کو خوب سمجھتا تھا مگر اب اُسے اپنے دل کو سمجھانا تھا دل میں برپا شور کو دبانا تھا۔۔۔ وہ اپنا دل ہار بیٹھا تھا، ایسی چیز پر،، جس کے حصول کی خواہش ناممکن تھی۔۔۔ سگریٹ کا ٹکڑا فرش پر پھینک کر اُسے جوتے سے مسلتا ہوا وہ شمروز جتوئی کے کمرے میں اُس سے بات کرنے کے غرض سے آیا
"چاچو۔۔۔ چاچو کیا ہوا۔۔۔ پلیز بتائیں مجھے سب ٹھیک ہے نا"
ضیغم نے شمروز جتوئی کے کمرے میں آکر اُسے روتا ہوا دیکھا تو وہ ایک دم پریشان ہوا۔۔۔ اس کا دھیان رمشا اور بچوں کی طرف گیا
"وہ رو رہی تھی ضیغم، بہت اُمید بھری نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جیسے کہنا چاہ رہی ہوں کہ مجھے بچا لو مگر میں بےبس تھا، اُسے تیمور خان زبردستی اپنے ساتھ لے گیا اور میں چاہ کر بھی اسے روک نہیں سکا"
شمروز جتوئی آنسووں سے تر چہرہ صاف کرتا ہوا ضیغم کو بتانے لگا
"مطلب روشی کو ڈرائیور نہیں لے کر گیا، یہاں تیمور خان آیا تھا صبح"
ضیغم آنکھوں میں حیرت لیے شمروز جتوئی سے پوچھنے لگا
"وہ بہت خوفزہ تھی ضیغم، تیمور خان کا رویہ اس کے ساتھ بالکل اچھا نہیں تھا، اُس نے روشانے پر ہاتھ بھی اٹھایا، روشانے بہت معصوم ہے ضیغم، نہ جانے اب اُس بچی کے ساتھ وہاں کیا سلوک کیا جائے"
شمروز جتوئی نے جیسے ضیغم کی بات سنی ہی نہیں تھی وہ بس اپنی ہی بات بولے چلا جا رہا تھا جبکہ شمروز جتوئی کی باتیں سن کر ضیغم کے اندر کی بےچینی مزید بڑھنے لگی، تیمور خان نے روشانے پر ہاتھ اٹھایا یہ سوچ ضیغم کا خون کھولانے لگی
****
کافی دیر رونے کے بعد اب اُس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھی مگر اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی وہ مسلسل سِسک رہی تھی، تیمور خان نے اُسے حویلی میں لا کر بہت بری طرح مارا تھا۔۔۔ اس کے چہرے پر مارے گئے تھپڑوں سے روشانے کے گال ابھی تک جل رہے تھے۔۔۔ بازو اور پیٹ پر ماری گئی لاتوں سے، اس کے پورا جسم میں اٹھتا ہوا درد کا احساس ابھی بھی تازہ تھا
اس کے برابر میں بیڈ پر بیٹھی ہوئی زرین مسلسل اپنی آنکھوں سے نمی صاف کرتی ہوئی روشی کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی،، گالوں پر تو انگلیوں کے نشانات زرین کے بھی واضح نظر آرہے تھے۔۔۔ لیکن کمرے میں موجود روشانے یا ژالے، کسی میں بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ زرین سے کچھ پوچھتی، مگر وہ دونوں ہی جانتی تھیں یہ کام کبریٰ خاتون کے علاوہ اور کسی کا نہیں ہوسکتا تھا
زرین کے سامنے بیٹھی ہوئی ژالے ابھی بھی شاک کی کیفیت میں روشانے کو سِسکتا ہوا دیکھ رہی۔۔۔ اُسے تھوڑی دیر پہلے ہی کبریٰ خاتون کے حکم سے اُس کی خالہ کے گھر سے واپس حویلی میں بلایا تھا مگر یہاں پہنچ کر اسے اندازہ ہوا تھا کہ حویلی میں کیا طوفان آچکا ہے
ژالے کو رہ رہ کر تیمور خان پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اگر وہ اس وقت حویلی میں موجود ہوتا تو ژالے اس کا کا دماغ درست کر دیتی۔۔۔۔ اُس نے کل ژالے سے جھوٹ کہا تھا کہ وہ روشانے کو پسند کرتا ہے، کیوکہ چاہے جانے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے وہ مان ہی نہیں سکتی تھی
"کب تک یونہی سسکتی رہو گی روشی، آنکھیں بند کرلو تاکہ گولی اثر کرسکے"
زرین روشانے کی کُھلی ہوئی آنکھیں دیکھ کر بولی۔۔۔۔ زرین کے کہنے پر ہی تھوڑی دیر پہلے ژالے نے اُس کو زبردستی کھانا کھلا کر نیند کی گولی دے تھی تاکہ نیند اسکے حواسوں پر حاوی ہوجائے اور جسم میں اٹھتا ہوا درد زیادہ محسوس نہ ہو
"نیند کی گولی کیوں دی آپ نے مجھے، جو خبر آپ نے مجھے سنائی ہے اِس سے بہتر تو یہ ہے آپ مجھے سیدھا سیدھا زہر دے دیتی۔ ۔۔۔ تائی ماں مجھے خان سے شادی نہیں کرنی ہے،، وہ مجھے مار ڈالے گیں۔۔۔ خوف آتا ہے مجھے ان کو دیکھ کر، خدا کا واسطہ ہے مجھے اُن سے بچا لیں"
روشانے اٹھ کر بیٹھی تھی زرین کے دونوں ہاتھ پکڑ کر بولتی ہوئی وہ ایک بار پھر رونے لگی
روشانے کو روتا ہوا دیکھ کر زرین نہ صرف اس سے نظریں چرانے پر مجبور تھی بلکہ وہ ژالے سے بھی نظریں نہیں ملا پا رہی تھی
ژالے خاموشی سے روشانے کو روتا ہوا دیکھ رہی تھی،، وہ روشانے کے رونے سے اس کی بے بسی کا اندازہ لگا سکتی تھی۔۔۔ شاید اِس حویلی میں بسنے والی ہر عورت ہی بےبس تھی سوائے کبریٰ خاتون کے۔ ۔۔ ژالے خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ جبکہ زرین روشانے کو بیڈ پر دوبارہ لٹاکر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی
****