موبائل میں بچنے والے الارم کو بند کرکے وہ جلدی سے اٹھی اور اپنے کمرے سے باہر نکلی تاکہ روشانے کے حویلی سے نکلنے سے پہلے اُس سے جاکر مل لے۔۔۔ نیند کے مارے اس کی آنکھیں ابھی بھی بوجھل تھی،، جبھی اُسے سامنے سے آتا ہوا تیمور خان نہیں دکھائی دیا اور ژالے اس کے سینے سے جا ٹکرائی
"اپنی آنکھیں کیا کمرے میں رکھ کر باہر نکلی ہو تم"
تیمور خان جو کہ اپنے کمرے سے نکل کر اپنی ہی دھن میں چلا جارہا تھا بری طرح ژالے سے ٹکرایا،، ساتھ ہی ناگواری سے اُس کو دیکھتا ہوا بولا
"میں اپنی آنکھیں کمرے میں رکھو یا پھر بند کرکے چلو مگر تمہارا اپنے آپ کے بارے میں کیا خیال ہے چھوٹے خان صاحب۔۔۔ کبھی اپنی آنکھوں کو بھی سر سے نیچے اتار لیا کرو تاکہ سامنے سے آتا ہوا بندہ تمہیں بھی دکھائی دے"
ژالے اپنی ناک سہلاتی ہوئی تیمور خان کو دیکھ کر بولی، وہ روشانے سے صرف دو سال ہی بڑی تھی مگر پھر بھی تیمور خان کو تم کرکے مخاطب کیا کرتی تھی
"میں صبح صبح تمہارے منہ لگنا ضروری نہیں سمجھتا چلو اپنا راستہ ناپو"
تیمور خان بگڑے ہوئے تیوروں کے ساتھ ژالے کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ کیونکہ وہ اُس سے بناء ڈرے الٹی سیدھی باتیں کیا کرتی تھی،، اور اسماعیل خان کی وجہ سے وہ ژالے کو کافی برداشت کرتا تھا
"بات تو تم ایسے کر رہے ہو جیسے لوگوں کو منہ لگانے کے اوقات مقرر کئے ہیں تم نے۔۔۔ منہ لگنا ضروری نہیں سمجھتے مگر جان بوجھ کر ٹکرانا ضروری سمجھتے ہو"
ژالے آخری جملہ منہ میں بڑبڑاتی ہوئی جانے لگی تبھی غُصّے میں تیمور خان نے اس کی کلائی پکڑی
"کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی"
تیمور خان غضیلے لہجے میں ژالے سے پوچھنے لگا، وہ اکثر اُسے غُصہ دلایا کرتی تھی
"میں نے کیا بکواس کردی ابھی تم ہی نے تو بکواس کی ہے میرا مطلب ہے بولا ہے کہ اپنا راستہ ناپو میں تو اپنے راستے جا رہی ہو"
ژالے اس کے غُصے کی پرواہ کیے بغیر اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی
"تم نے بولا میں تم سے جان بوجھ کر ٹکرایا ہو، اتنے بھی برے دن نہیں آئے ہیں تیمور خان کے ابھی"
تیمور خان اس کا ہاتھ چھوڑ کر استزائیہ ہنستا ہوا بولا
"انشاءاللہ وہ بھی بہت جلد آجائیں گا۔۔۔ بلکہ میری تو دعا ہے آج کی کوئی تمہیں چھٹی کا دودھ یاد کروا دے"
ژالے تیمور خان کو کہتی ہوئی فوراً وہاں سے بھاگ گئی جب کے تیمور خان ناگواری سے اُسے بھاگتا ہوا دیکھ کر سر جھٹک کر خود چلا گیا
ژالے سردار اسماعیل خان کے دوست کی اکلوتی بیٹی تھی جسے سردار اسماعیل خان اپنے دوست اور اسکی بیوی کے انتقال کے بعد حویلی لے کر آگیا۔۔۔ آٹھ سالہ ژالے بہت جلد سب سے مانوس ہو گئی تھی کبریٰ خاتون اور تیمور خان کے علاوہ۔۔۔
ژالے کی خالہ بھی موجود تھی، کبریٰ خاتون یا سردار اسماعیل خان کی اجازت سے مہینے دو مہینے بعد وہ اپنی خالہ سے ملنے جایا کرتی۔۔۔ بلوغت کی منزل طے کرنے کے ساتھ نہ جانے کب ژالے کا دل اس سے باغی ہوا جس کی ژالے کو خبر نہیں ہوئی۔۔۔ وہ دل ہی دل میں تیمور خان کو چاہنے لگی۔۔۔۔ مگر دل کی یہ بات وہ کسی کو بھی بتانے سے ڈرتی تھی
****
"امتحان کب شروع ہو رہے ہیں تمہارے" تیمور خان کار ڈرائیور کرتا ہوا روشانے سے پوچھنے لگا،، ڈرائیور کی بجائے وہ خود صبح ہی صبح روشانے کو ہاسٹل تک چھوڑنے نکل آیا تھا۔۔۔ روشانے پہلے بھی اس سے کبھی خود سے مخاطب نہیں کرتی تھی مگر وہ کل رات والے تیمور خان کے رویے سے خوفزدہ ہوگئی تھی
"دو ماہ بعد"
روشانے نے سرجھکائے اُسے مختصر سا جواب دیا
"اُس کے بعد خاموشی سے گھر بیٹھ جانا کوئی ضرورت نہیں ہے آگے بڑھنے کی"
تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا بولا تو روشانے سر اٹھا کر تیمور خان کو دیکھنے لگی
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو مجھے، صحیح تو کہہ رہا ہوں مزید پڑھ لکھ کر کرنا کیا ہے تمہیں،، زیادہ پڑھائی ویسے بھی لڑکیوں کا دماغ خراب کرتی ہے اور میرے ساتھ آگے زندگی گزارنے کے لئے تمہیں اپنا دماغ درست رکھنا پڑے گا ورنہ تو تم مجھے اچھی طرح جانتی ہی ہو"
اب کی بار تیمور خان روشانے کو دیکھ کر بولا روشانے نے دوبارہ سر جھکا لیا وہ پلکیں جھپک کر آنکھوں کی نمی اپنے اندر اتارنے لگی
"اب ایسی تو کوئی بات نہیں کی تمہارے خان نے جو تم آنسو بہانے بیٹھ گئی۔۔۔۔ کہیں میری کل رات والی حرکت سے تو نہیں ڈر گئی"
تیمور خان اس کا جھکا ہوا سر دیکھ کر بولا اور گود میں رکھا ہوا روشانے کا نازک ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا جبکہ اپنے دوسرے ہاتھ سے وہ اسٹیئرنگ وئیل گھما رہا تھا
"کل رات میں مینا بائی کے کوٹھے پر تھا وہاں دوستوں نے کچھ زیادہ ہی پلا دی اس لئے نشے میں تمہارے ساتھ بدسلوکی کر بیٹھا"
تیمور خان بالکل نارمل لہجے میں روشانے کو بتانے لگا جبکہ اس کی بات سن کر روشانے حیرت اور افسوس سے تیمور خان کو دیکھنے لگی
"اب تم سے تھوڑی نہ کچھ چھپاؤں گا، شادی تمہی سے کرنی ہے تو پھر تم سے کیسا پردا"
تیمور خان نے ابھی بھی اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا وہ اسے آنکھ مارتا ہوا بولا۔۔۔
وہ اپنا کارنامہ بنا کسی خوف یا شرمندگی کی خود اپنے منہ سے اُسے بتا رہا تھا۔۔۔ جس شخص کے ساتھ وہ چند لمحے نہیں گزار سکتی تھی پوری زندگی بھلا کیسے گزارتی روشانے کا دل چاہا وہ کار سے اتر جائے مگر وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی اس لئے تیمور خان سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی مگر ایسا کرنے پر تیمور خان نے اس کا ہاتھ مزید سختی سے پکڑے رکھا
"خان پلیز میرا ہاتھ چھوڑیں"
روشانے ہمت جمع کرتی ہوئی اُس سے بولی
"خان نے تو تمہارا پیچھا قیامت تک نہیں چھوڑنا ہے تم اس ہاتھ کی بات کرتی ہو، ایک بار خان کے کمرے میں آجاؤ۔۔۔ پھر دیکھنا یہ خان تمہارے پر پُرزے کیسے کاٹتا ہے"
تیمور خان روشانے کی آنکھوں میں اپنے لیے ناپسندیدگی دیکھتا ہوا بولا جو اس کی مردانگی کو بری طرح ٹھیس پہنچا رہی تھی
وہ جانتا تھا روشانے اس سے بچنے کی خاطر پڑھائی کے بہانے شہر میں جائے پناہ تلاش کرتی ہے۔۔۔ تیمور خان اسے مزید زچ کرنے کے لیے ڈرائیونگ کے دوران روشانے کا ہاتھ اپنے ہونٹوں تک لے جانے لگا
"خان پلیز"
اس کی گھٹیا حرکت پر روشانے تقریباً چیختی ہوئی بولی۔۔۔ تب اچانک سامنے سے آتی ہوئی گاڑی تیمور خان کی گاڑی سے ٹکرا گئی
****
ضیغم شمروز جتوئی کی کال اٹینڈ کرتا ہوا ڈرائیونگ کے دوران اس سے بات کر رہا تھا۔۔ تب اچانک سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر اس نے بریک لگائی مگر سامنے سے آتی ہوئی گاڑی اس کی گاڑی سے ٹکرا گئی
"اے کون ہے سالے تو آندھے کی اولاد"
تیمور خان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلتا ہوا سامنے گاڑی والے پر چیخا
"کس کو اندھا بولا تم نے"
ضیغم اس فضول انسان کے چیخنے میں پر خود بھی گاڑی کا دروازہ کھول کر غُصے میں گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔ اس نے تو بروقت بریک لگا بھی دی تھی جبکہ وہ شخص خود رونگ سائیڈ سے نہ صرف اپنی گاڑی لا رہا تھا بلکہ اس کی گاڑی کا بونٹ بھی ڈیمج کر چکا تھا
تیمور خان نے غور سے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا۔۔۔ سال بھر پہلے ہی تو اس نے اس شخص کو شہر میں دیکھا تھا تب نوشاد (ملازم) نے تیمور خان کو اس کے بارے میں بتایا تھا
"ضیغم جتوئی شمشیر جتوئی کا پوتا۔۔۔ یعنی میرے چچا زریاب خان کے قاتل کا بیٹا"
تیمور خان ضیغم کو دیکھتا ہوا بولا تو ضیغم کے غصے میں تنے ہوئی نقوش ڈھیلے ہوئے
وہ سمجھ گیا سامنے کھڑا شخص سردار اکبر خان کا پوتا ہے جس کے بارے میں صرف اس نے سنا ہی تھا کہ وہ کافی غضیلا اور بدتمیز طبیعت کا مالک ہے وہ آج اُسے پہلی بار دیکھ رہا تھا جب کہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی روشانے گھبرا کر اس اجنبی شخص کو دیکھ رہی تھی جس کی گاڑی سے ٹکر ہونے سے کم از کم تیمور خان اپنی گھٹیا حرکت میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا اس نے سر پر اوڑھی ہوئی چادر سے اپنا منہ چھپایا۔۔۔ باہر آنے جانے میں یا کسی غیر مرد کی گھر میں موجودگی پر اکثر کبریٰ خاتون اسے چہرہ چھپانے کا حکم دیتی تھی
"یو پیٹھ دکھا کر کہا جارہا ہے، صرف دھوکے بازی اور پیٹھ پیچھے وار کرنے کی عادت ہے تم سالو کی۔۔۔ اس وقت بندوق میرے ہاتھ میں ہوتی تو ساری کی ساری گولیاں تیرے سینے میں اتار دیتا *** کی اولاد"
ضیغم تیمور خان کو دیکھ کر کچھ بولے بنا اپنی گاڑی کی طرف مڑا ہی تھا تو اسے تیمور خان کی آواز سنائی دی۔۔۔
ضیغم نے واپس آکر، اسکے گالی دینے پر زوردار مُکّا تیمور خان کے جبڑے پر جڑا،، اس کے منہ پر مُّکا مارنے کے بعد ضیغم کا ہاتھ نہیں رکھا تھا اس نے ایک کے بعد ایک مُکّا تیمور خان کے منہ پر مارنا شروع کر دیئے،، خود بھی اس کو دو تین بار تیمور خان کے مُکے پڑے مگر وہ اس پر بری طرح پِل پڑا تھا۔۔۔
صبح کی وجہ سے سڑک پر لوگ نہ ہونے کے برابر تھے اور جو لوگ موجود تھے وہ دور سے ہی تماشہ دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ لوگ یہاں کے رہائشی تھے اور دونوں کو جانتے تھے اس لئے بیچ بچاؤ کروائے بغیر خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے
روشانے اپنا سانس روکے ہوئے سامنے تیمور خان اور اس اجنبی کو جانوروں کی طرح لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھی مگر تھوڑی دیر بعد ہی وہ اجنبی تیمور خان کو مار مار کر اُس کے منہ سے خون نکال چکا تھا
"ہاتھ میں ہتھیار پکڑ کر اپنے آپ کو طاقتور سمجھنا دلیری نہیں ہوتی، سنا تھا کے سرداروں نے بہت خطرناک کُتے پالے ہیں مگر آج اندازہ ہوا۔۔۔ وہ کتے کاٹتے کم اور بھونکتے زیادہ ہیں"
گاڑی کے بونٹ پر بےسود پڑے تیمور خان پر ضیغم نے مُکّا مارتے ہوئے کہا تبھی اُس گاڑی میں سے ایک لڑکی باہر نکلی
"پلیز اُن کو چھوڑ دیں میں آپ سے معافی مانگتی ہوں غلطی ہماری تھی۔۔۔ ہماری کار کے ٹکرانے سے آپ کی کار کو نقصان پہنچا ہے"
روشانے نے جب دیکھا کہ تیمور خان بالکل ڈھیر ہو گیا ہے کوئی بھی آگے بڑھ کر اس شخص کو روک نہیں رہا تب وہ کھبرا کر گاڑی سے اُترتی ہوئی بولی
ضیغم تیمور خان کا گریبان چھوڑ کر بہت غور سے روشانے کو دیکھنے لگا یقیناً وہ اسکی اپھو کی بیٹی تھی وہی چہرہ وہی رنگ روپ وہی نین نقش وہ بالکل اپھو جیسی دکھتی تھی۔۔۔۔ اس کی پیدائش کے وقت ضیغم نے اسے دیکھا تھا اور اب 18 سال بعد دیکھ رہا تھا
روشانے نے دیکھا وہ اجنبی شخص اُسے کچھ بولے بنا بس گھورے چلے جا رہا تھا تو روشانے نے جلدی سے اپنی چادر سے چہرہ چھپایا جو گاڑی سے اترنے کے بعد جلدی میں بوکھلاہٹ کی وجہ سے چھپانا بھول گئی تھی
"جا کر گاڑی میں بیٹھو فوراً"
تیمور خان نے بھی ضیغم کا روشانے کو گھورنا محسوس کیا جبھی روشانے کو جھڑکتا ہوا بولا۔۔۔ روشانے جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئی ضیغم ایک نظر روشانے پر ڈال کر تیمور خان کو گھورتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
****
"کیا ضرورت ہے تمہیں بلاوجہ اس سے جھگڑنے کی،، فیروز لالا نے سال بھر پہلے بتایا تھا مجھے سردار اکبر خان کا پوتا کافی جھگڑالو اور بدتمیز ٹائپ کا ہے، ایسے لوگوں سے بلاوجہ الجنھا نہیں چاہیے"
شہر پہنچنے کے بعد ضیغم نے شمروز جتوئی کو رات میں سرسری انداز میں آج صبح والا قصّہ بتایا تو شمروز جتوئی اُسے سمجھاتا ہوا بولا
رباب کے جانے کے بعد ضیغم شمروز جتوئی سے کافی اٹیچ ہو گیا تھا اور یہ وابستگی شمروز جتوئی کی بیوی یا بچوں کو بالکل بری نہیں لگتی تھی وہ اسے بھی اپنی فیملی سمجھتے تھے
"چاچو میں اس سے بلاوجہ نہیں جھگڑا غلطی اسی کی تھی اور پھر وہ خود ہی مجھ سے الجھنے لگا تب میں اس کی دادا گیری نکلتا ہوا یہاں پہنچا مگر اہم بات یہ نہیں ہے جس کی وجہ سے میں نے آپ کو یہ سارا قصہ سنایا ہے اہم بات تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں، میں نے اپھو کی بیٹی کو دیکھا"
ضیغم کو صبح سے ہی بار بار روشانے کا چہرہ یاد آرہا تھا تب ہی وہ شمروز جتوئی کو سارا قصّہ بتانے لگا، شمروز جتوئی کے ساتھ ساتھ وہاں بیٹھی ہوئی رمشا بھی چونکی جو کہ کافی دیر سے خاموشی سے اُن دونوں چچا بھتیجے کی باتیں سن رہی تھی
"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ رباب کی بیٹی تھی، ہوسکتا ہے وہ کوئی دوسری لڑکی ہو"
ضیغم کے اتنے وثوق سے کہنے پر شمروز جتوئی اس سے پوچھنے لگا
ماضی میں جو بھی کچھ ہوا شمروز جتوئی آج تک رباب سے اپنا دل برا نہیں کر سکا،، وہ رباب کی باتیں اکثر رمشا اور ضیغم سے نارمل انداز میں کیا کرتا البتہ حویلی میں رباب کا ذکر نہیں کیا جاتا۔۔۔ رباب کی موت کی خبر سن کر وہ کافی دنوں غم زدہ رہا تھا۔۔۔ رباب کی بیٹی کو دیکھنے کے لیے اکثر شمروز جتوئی کا دل مچل جاتا۔۔۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی بات کو لے کر دونوں خاندانوں میں دوبارہ کوئی تضاد اٹھے
"چاچو ہنڈریڈ پرسنٹ وہ اپھو کی بیٹی تھی بالکل بنی بنائی اپھو، اگر آپ خود اس کو دیکھتے تو آپ کو یقین آجاتا"
ضیغم دوبارہ شمروز جتوئی کو اپنی بات کا یقین دلاتا ہوا بولا تو شمروز جتوئی خاموش ہوگیا اسے اپنی بہن کی یاد آنے لگی
"ویسے کتنی حیرت کی بات ہو شمروز،، جس بہن سے آپ آج تک اتنی محبت کرتے ہیں،، آپ نے پلٹ کر اس کی بیٹی کی خبر تک نہیں لی"
رمشا شمروز جتوئی کو خاموش دیکھ کر بولی تو شمروز جتوئی سمیت ضیضم بھی رمشا کو دیکھنے لگا
"اگر میں پلٹ کر اس کی خبر لیتا اور یہ خبر اکبر خان یا بابا سائیں کو لگ جاتی تو بہت برا ہوتا رمشا، ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں ایک ڈرپوک انسان ہوں مگر میں نہیں چاہتا کہ ہمارا سردار قبیلے سے دوبارہ کسی بات کو لے کر جھگڑا شروع ہو، تمہیں نہیں معلوم ان لڑائی اور جھگڑوں میں صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے کسی ایک طرف کا نہیں بلکہ دونوں طرف کا اور ضیغم جو آج تم نے کیا ہے وہ کوئی اچھی حرکت نہیں تھی آئندہ میں نہ سنو پھر تم اس لڑکے سے یا سردار قبیلے کے کسی دوسرے فرد سے لڑے ہو"
شمروز جتوئی رمشا کو بول کر ساتھ ہی ضیغم کو بھی تنبہی کر کے صوفے سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ شاید وہ ضیغم کے منہ سے رباب کی بیٹی کا ذکر سن کر کافی ڈسٹرب ہو گیا تھا
"ویسے ضیغم اگر رباب کی بیٹی بالکل اُسی کے جیسی لگتی ہے پھر تو وہ بھی بہت خوبصورت ہوگی، رباب کی میں نے تصویریں دیکھی ہیں وہ تو کافی خوبصورت تھی"
رمشا ضیغم کو دیکھتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی۔ ۔۔ ضیغم کو ایک بار پھر روشانے کا چہرا یاد آیا
"اس میں کوئی شک نہیں وہ بہت خوبصورت تھی اس کا چہرا اس کی آنکھیں۔۔۔ اسکی آواز، بات کرنے کا لب و لہجہ اس کا پریشان ہونا گھبرایا سا ڈرا سہما روپ اور خاص کر اس کا اچانک اپنے آنچل سے چہرہ چھپا لینا"
ضیغم رمشا کو بتاتے بتاتے خود کہیں کھو سا گیا تھا جبکہ رمشا اس کی کیفیت کو دیکھ کر مسکرانے لگی
"یعنی میں یہ سمجھوں کہ وہ تمہیں تمہاری اپھو سے زیادہ اچھی لگی اور ہمیں سرداروں سے دوستی میں پہل کر لینی چاہیے"
رمشا شرارتاً بولی۔۔۔
پہلے تو ضیغم رمشا کو بے خیالی میں دیکھنے لگا
"کیا ہوگیا آپ کو،، مجھے کیا پٹوانے کا ارادہ ہے اپنے شوہر سے"
رمشا کی بات کا مفہوم سمجھ کر اور اس کے معنی خیز مسکراہٹ دیکھ کر ضیغم اُسے گھورتا ہوا بولا اور اٹھ کر کمرے سے باہر جانے لگا
"میری دل سے دعا ہے جلدی کوئی نہ کوئی وسیلہ بنے اور رباب کی بیٹی واپس ہمارے پاس آجائے تمہاری دلہن کے روپ میں"
آخری بات رمشا نے مزاق میں بولی جس پر ضیغم اپنی بے خیالی میں بولے ہوئے لفظوں پر شرمندہ ہوتا ہوا اسے آنکھیں دکھا کر کمرے سے باہر نکل گیا
****