"بڑے بڑے کمینے دیکھے ہیں میں نے مگر اپنے دامادوں سے بڑھ کر کمینہ کسی کو بھی نہیں پایا۔۔۔ پلورشہ کا شوہر دیکھو شکل سے کیسا معصوم نظر آتا تھا، زلیل اس عمر میں میری بچی پر سوتن لے آیا اور وہ جاوید، اُس کو اور اُس کے خاندان کو تو کیڑے پڑے منحوس کہیں کا۔۔۔ خود گھر کی نوکرانی کے ساتھ شرم ناک حرکتیں کرتا پکڑا گیا۔۔۔ بدچلنی کا الزام میری پاکباز بچی پر لگا کر اُسے گھر سے نکال دیا"
دلآویز اور پلورشہ کو اجڑی ہوئی حالت میں اپنے سامنے دیکھ کر کشمالا کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔ وہ کل سے ہی دلآویز اور پلورشہ کے شوہر اور اُن کے گھر والوں کو منہ بھر کر کوس رہی تھی
"مکافات عمل بھی کوئی چیز ہوتا ہے ماں، دوسروں پر ظلم کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔۔۔ ظلم کی عمر زیادہ طویل نہیں ہوتی دوسروں پر ڈھائے ستم تو انسان بھول جاتا ہے مگر جب اُس کی خود کی رسی کھینچی جائے تو وہ بلبلا اٹھتا ہے"
آرزو کشمالا کو دیکھتی ہوئی بولی
آرزو چند گھنٹے پہلے پلورشہ اور دلآویز کا شوہروں کے کارنامہ سن کر،، حویلی میں اپنی دونوں بہنوں سے ملنے آئی تھی، اِس وقت کمرے میں تینوں بہنوں کے علاوہ کشمالا بھی موجود تھی
"تو کہنا کیا چاہ رہی ہے آرزو ذرا کُھل کر بول"
کشمالا بھڑکتی ہوئی اُس سے پوچھنے لگی
"میرا اشارہ تو آپ ویسے بھی اچھی طرح سمجھ چکی ہیں ماں،، پھر بھی آپ واضح طور پر سننا چاہ رہی ہیں تو سنیں۔۔۔ جو آپ نے اپھو اور روشانے کے ساتھ کیا تھا آج وہی کچھ آپ کی اپنی بیٹیوں کے آگے بھی آگیا۔۔۔ آپ بھی تو ضیغم کی دوسری شادی کروانا چاہ رہی تھیں ناں پلورشہ آپی کی نند سے،، اب آپ کا اپنا داماد ہی آپ کی بیٹی پر سوتن لے آیا ہے تو آپ کو اتنا برا لگ رہا ہے۔۔۔۔ اپھو اور روشانے کو جس طرح اس حویلی سے ذلیل کر کے نکالا گیا تھا اب وہی کچھ جاوید بھائی دل آویز آپی کے ساتھ کرچکے ہیں تو آپ انہیں کوسنے پر اتر آئی ہو"
آرزو کے سچ بولنے پر کشمالا غُصے میں صوفے سے اُٹھ کر اس کے سامنے آئی
"تجھے کیا لگتا ہے رباب اور اس کی بیٹی کو میں نے اس حویلی سے نکلوایا آیا ہے، ارے ان ماں بیٹیوں کے تو خود لچھن ٹھیک نہیں تھے اپنے یاروں کو اس حویلی میں ان دونوں نے خود بلوایا تھا"
کشمالا غصے میں چیختی ہوئی بولی
دلآویز اور پلورشہ خاموش بیٹھی ہوئی تھی جبکہ آرزو کشمالا کی بات سن کر کمرے سے باہر نکلی اور تھوڑی دیر میں شانو کی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کمرے میں لائی
"چل سچ سچ بول ضیغم کی بیوی کو کیسے اس حویلی سے باہر نکالا اپنا کارنامہ بتا،"
آرزو مانو کے منہ پر تھپڑ جڑنے کے بعد اُس سے پوچھنے لگی
"باجی میں نے تو بی بی سائیں کے کہنے پر روشی بی بی کے فون سے میسج ٹائپ کیا۔۔۔۔ بی بی سائیں نے ہی مجھے اُس آدمی کے ساتھ روشی بی بی کی فوٹو اتارنے کو کہا تھا"
مانو اپنے گال پر ہاتھ رکھتی ڈر کر بولی۔ ۔۔۔ اُس کے انکشاف پر دلآویز اور پلورشہ حیرت سے کشمالا کو دیکھنے لگی۔ ۔۔ کشمالا نے آگے بڑھ کر غُُصے میں مانو کے منہ پر تھپڑ جڑا
"کم نسل نمک حرام دفعان کار اپنی منحوس شکل یہاں سے۔۔۔ خبردار جو تُو نے ضیغم کے سامنے اپنی زبان کھولی ورنہ اُسی وقت تیری یہ زبان کاٹ کر تیرے ہاتھ پر رکھ دونگی"
کشمالا نے بولنے کے ساتھ ہی مانو کو دھکا دے کر کمرے سے باہر نکالا
"آپ کو احساس ہے میں آپ نے ضیغم کے ساتھ کیا کیا ہے۔۔۔ اپھو سے بلاوجہ کی نفرت کے چکر میں آپ نے نہ صرف اُن کی معصوم بیٹی کو رسوا کر کے یہاں سے نکلوایا بلکہ خود اپنے بیٹے کا بھی گھر اجاڑ دیا۔۔۔ ایک پل کے لیے آپ کا دل نہیں دکھا، نہ آپ کو ذرا پچھتاوا ہوا"
دلاویز افسوس کرتی ہوئی کشمالا سے بولی تو کشمالا اس کی بات سن کر پھٹ پڑی
"چپ کر،، اپنے چھچھورے شوہر کے سامنے تو تیری زبان چلتی نہیں ہے۔۔۔ آئی بڑی مجھے شرم دلانے والی۔۔۔۔ تم تینوں کان کھول کر سن لو اگر تم میں سے کسی نے بھی ضیغم کے سامنے کچھ بھی بولا تو میرا مرا ہوا منہ دیکھو گی تم تینوں"
کشمالا غُصے میں اُن تینوں کو بولتی ہوئی کمرے سے جا چکی تھی
"جب جب ماں نے میری نند سے ضیغم کی دوسری شادی کی بات کرنی چاہی تب تب میں نے اُن کو سمجھایا کہ روشانے میں کوئی کمی نہیں ہے اور ضیغم۔ ۔۔ اس کی آنکھوں میں روشانے کے لیے کتنا پیار تھا کتنا خوش تھا وہ اُس کے ساتھ،، میرے منع کرنے کے باوجود ماں اپنی ضد پر اڑی رہی اور میرے سسرال میں جاکر بقائدہ کرن کا رشتہ مانگا۔۔۔ ماں نے جو بھی کچھ کیا اُس کا بھگتان ہم دونوں کو بھگتنا پڑے گا اب شاید"
پلورشہ آنکھیں خشک کرتی ہوئی بولی تو دلآویز اور آرزو بھی افسردہ ہونے لگیں
****
طے شدہ وقت یعنٰی پورے سوا مہینے بعد آج وہ روشانے اور حازم کو اپنے ساتھ لے کر جانے کے لئے سردار اسماعیل خان کی حویلی میں آیا تھا۔۔۔ ویسے تو وہ روشانے اور حازم کو اسپتال سے ہی اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا مگر تب سردار اسماعیل خان کی شرط پر کہ وہ روشانے کے سوا مہینے کے بعد لے کر چلا جائے۔۔۔ تو آج وہ یہاں آیا تھا ضیغم یہ بھی جانتا تھا یہ شرط سردار اسماعیل خان نے ضرور روشانے کے ضد پر رکھی ہوگی
اُسی کے کہنے پر سردار اسماعیل خان نے اُس کے بیٹے کا نام حازم رکھا تھا،، وہ اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھا اور شاید اپنی غصے میں بھری بیوی کو دیکھنے کے لئے بھی،، جس کے مزاج ابھی تک نہیں مل رہے تھے۔۔۔ دو دن پہلے ہی وہ شہر سے حویلی آگیا تھا اور اپنے اس اقدام کے بارے میں شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کو آگاہ کردیا تھا۔۔۔ جس پر اُن دونوں نے کوئی خاص اعتراض نہیں اٹھایا تھا
گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ حویلی میں داخل ہو رہا تھا تب اسے وہیل چیئر پر تیمور خان بیٹھا ہوا نظر آیا۔۔۔ جِسے دیکھ کر ضیغم کے ماتھے پر شکنیں واضح ہوئی،، تیمور خان کو اِس حالت میں دیکھ کر بھی اسے بالکل ترس نہیں آیا تھا کیونکہ اس نے شمروز جتوئی اس کے چچا کی جان لی تھی
"میں۔ ۔۔۔ معاف، ، معافی۔۔۔ وہ روشانے اس نے کچھ نہیں کیا اُس نے نہیں"
تیمور خان میں ہاتھ جوڑنے کی سکت نہیں تھی مگر وہ ٹوٹے ہوئے لفظوں سے ضیغم کو بتانے لگا
"نام نہیں لینا میری بیوی کا اپنی زبان سے اور تم اس لائق نہیں ہو کہ تمہیں معاف کیا جائے"
ضیغم تیمور خان کو بولتا ہوا آگے بڑھ گیا
****
"آؤ ضیغم جتوئی میں آج سوچ ہی رہا تھا کہ تمہارا آنا ہوگا"
سردار اسماعیل خان اُسے مہمان خانے میں آتا ہوا دیکھ کر صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا
"بیٹھو گا نہیں آپ روشی اور حازم کو بلوا دیں،، شہر پہنچتے پہنچتے شام ہو جائے گی"
ضیغم کے بولنے پر سردار اسماعیل خان نے ملازمہ سے کہہ کر روشانے کو بلایا مگر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ملازمہ سردار اسماعیل خان کے پاس آتی ہوئی سرگوشانہ انداز میں اسے کچھ بتانے لگی تو ضیغم سردار اسماعیل خان کے تاثرات دیکھنے لگا
"تھوڑی دیر بیٹھو میں خود لے کر آتا ہوں روشانے کو"
سردار اسماعیل خان نے ضیغم کو دیکھ کر ایک بار پھر بیٹھنے کو بولا
"میں بھی آپ کے ساتھ ہی چلتا ہوں" وہ اب بھی بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھا اس لیے سردار اسماعیل خان بنا کوئی جواب دیئے روشانے کے کمرے میں جانے لگا ضیغم بھی اُس کے پیچھے چل دیا
****
"روشی اب کیو ضد کر رہی ہو جب یہ طے ہو گیا تھا کہ سوا مہینے کے بعد تمہیں جانا ہے پھر کیو بات بگاڑ رہی ہو بچے تمہارا شوہر تمہیں خود لینے کے لیے یہاں آیا ہے"
زرین روشانے کو ایک دفعہ پھر سمجھانے لگی وہ اسے سمجھانے کا کام آج صبح سے ہی کر رہی تھی
"بات میں نے نہیں بگاڑی کی تائی ماں بات وہاں سے بگڑی تھی، اب میں وہاں نہیں جاؤں گی"
روشانے حازم کے دھلے ہوئے کپڑے تہہ کرتی ہوئی زرین سے بولی وہ حازم کے سب کام اپنے ہاتھ سے ہی کرنے کی عادی تھی۔۔۔ جبکہ حازم بیڈ پر لیٹا ہوا ابھی ابھی نیند سے جاگا تھا
"روشانے اپنا اور حازم کا سامان جلدی سے پیک کرو"
سردار اسماعیل خان روشانے کے کمرے میں آتا ہوا اس سے بولا
اس کے پیچھے ہی ضیغم کو کمرے میں آتا دیکھ کر روشانے ایک دم خاموش ہو گئی مگر وہ اسے دیکھے بنا بیڈ پر لیٹے ہوئے حازم کی طرف بڑھا،، روشانے کا دل ایک دم رکا مگر وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔ اُس نے حازم کا گال اپنی انگلی کے پوروں سے چھوا تو حازم مسکرانے لگا۔۔۔ ضیغم نے بھی مسکرا کر اپنے بیٹے کو احتیاط سے گود میں لیا اور اس کا گال چوما۔ ۔۔ ضیغم خوش تھا اس کے بیٹے نے دوسری بار مسکرا کر اسے خوشامدید کیا تھا
"روشانے میں کیا کہہ رہا ہوں سن رہی ہو تم"
سردار اسماعیل خان نے دوبارہ بول کر روشانے کی توجہ اپنی طرف دلائی جو باپ بیٹے کو دیکھ رہی تھی
"گستاخی معاف بڑے خان میں نے آپ کی بات سنی لیکن اس پر عمل نہیں کروں گی میں واپس نہیں جانا چاہتی تو پھر سامان پیک کرنے کا کیا فائدہ"
روشانے نظر جھکا کر سردار اسماعیل خان کو جواب دینے لگی۔۔۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا جب اس نے سردار اسماعیل خان کی کسی بات سے انکار کیا تھا شاید اب وہ واقعی گستاخ ہو گئی تھی
"بڑے خان روشی اگر چند دن اور یہاں ہمارے پاس رک جاتی ہے تو"
زرین نے سردار اسماعیل خان کو بھولنا چاہا تو سردار اسماعیل خان نے اسے ٹوکا
"زرین تم بیچ میں مت بولو اور روشانے فوراً اپنا اور حازم کا سامان پیک کرو"
سردار اسماعیل خان نے زرین کو ٹوکنے کے ساتھ ہی روشانے کو بھی حکم دیا جبکہ ضیغم ان تینوں سے لاتعلق اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے اس کے ننھے ننھے ہاتھ چوم رہا تھا
"بڑے خان اگر میری جگہ آپ کی سگی بیٹی ہوتی، آپ تب بھی اس کے لئے یہی فیصلہ کرتے"
روشانے کے بولنے پر صرف ایک نظر ضیغم نے اُسے دیکھا اور دوبارہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہو گیا
"تم میری بیٹی ہی ہو، میں نے تمہیں ہمیشہ اپنی سگی اولاد جانا ہے اور اب دوبارہ کوئی فضول بات میں تمہارے منہ سے نہیں سنو گا۔۔۔ بیٹیاں اپنے گھر میں آباد ہو تو ماں باپ ان کو دیکھ کر خوش رہتے ہیں، تمہارا شوہر سب کچھ بھول کر تمہیں لینے آیا ہے اب تمہیں اس کے ساتھ جانا چاہیے"
سردار اسماعیل خان روشانے کو بولنے لگا جبکہ ضیغم نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکال کر دیکھا جس طرح پھر فیروز جتوئی کی کال آ رہی تھی وہ کال کاٹنے کے بعد دوبارہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہو گیا
"ایسے آباد ہونے کا کیا فائدہ ہے بڑے خان، جب آپ کی اپنی بیٹی اندر سے ناخوش ہو،، میں ان کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔۔۔ ان کا دل چاہا تو انہوں نے مجھے حویلی سے نکال دیا،، ان کا دل چاہا تو یہ مجھے لینے کے لیے آ گئے۔۔۔ میری اپنی کوئی حیثیت کوئی اوقات نہیں ہے۔۔۔ اُن کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو یہ سب کچھ بھول گئے ہیں مگر میرا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا ہے اور نہ ہی میں سب بھولی سکتی ہو"
روشانے کی بات سن کر سردار اسماعیل خان بالکل خاموش ہوگیا ہے،، ضیغم حازم کو بیڈ پر لٹا کر چلتا ہوا روشانے کے پاس آیا
"ختم کرو یہ بلاوجہ کے ڈرامے،، فضول کی بحث چھوڑ کر، خاموشی سے جاکر گاڑی میں بیٹھو
ضیغم روشانے کو آنکھیں دیکھاتا ہوا بولا۔۔۔۔ حازم بیڈ پر لیٹا ہوا رونے لگا تو زرین نے آگے بڑھ کر حازم کو گود میں اٹھا لیا جبکہ سردار اسماعیل خان ضیغم کی بات سن کر بیچ میں بولا
"ایک منٹ جو بھی بات کرنی ہے زرا تحمل سے کرو،، اگر یوں غصہ دکھاو گے یا زبردستی کرو گے تو میں خود بھی اُسے یہاں سے جانے نہیں دوں گا۔۔۔ اِس سے وجہ پوچھو وہ کیوں خفا ہے تم سے،، بیویاں کوئی باندھی یا غلام نہیں ہوتی ہیں۔۔۔ زرین حازم کو لے کر کمرے سے باہر آجاؤ"
سردار اسماعیل خان بیچ میں مداخلت کرتا ہوا بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا اس کے پیچھے زرین بھی حازم کو گود میں اٹھائے کمرے سے چلی گئی
"کیا ثابت کرنا چاہتی ہو اپنے گھر والوں کے سامنے یوں تماشا کر کے، میں نے تمہیں خوش نہیں رکھا،، بے وقوفی تم نے کی، بے ایمانی تم نے کی،، جھوٹ تم نے مجھ سے بولا۔۔۔ ان سب باتوں کے باوجود، سب چیزوں کو بھول کر میں تمہیں لینے آیا ہوں اور تم بات کر رہی ہوں کہ تم بھول نہیں سکتی آخر ایسا کیا ہے جو تم بھول نہیں سکتی"
ضیغم غُصے میں روشانے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"میں نے جھوٹ بولا تاکہ ہمارے رشتے میں دراڑ نہ پڑے۔۔۔ مگر میں نے بےایمانی کوئی نہیں کی"
روشانے دکھ سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی
"میرے پیچھے تم نے تیمور خان کو میسج کیا جبکہ تمہیں اندازہ ہے کہ میں تیمور خان کو پسند نہیں کرتا"
ضیغم دانت پیستا ہوا اسے یاد دہانی کروانے لگا
"وہ میسج میں نے نہیں کیا تھا میرا موبائل مامی کے پاس موجود تھا" روشانے کو دوبارہ بتاتے ہوئے اذیت محسوس ہوئی وہ ساری باتیں دل میں رکھا ہوا پھر آخر کیوں اسے لینے آیا تھا
"میرے اور اپنے بیچ میں ماں کو مت لے کر آؤ روشی۔۔۔۔ میں نے پہلے بھی حقائق جانے بغیر ماں کو غلط بول کر تمہارا دفع کیا اور بدلے میں مجھے کیا دیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔۔۔"
ضیغم طنزیہ انداز میں ہنس کر بات ادھوری چھوڑ گیا
"میرے اور آپ کے رشتے میں آپ کی ماں خود بیچ میں آئیں ہیں سائیں۔۔۔ آپ کو یہ لگتا ہے وہ میسج میں نے خان کو کیا تھا۔۔۔ کیا سوچ رہے ہیں آپ،، کیو بلایا ہوگا میں نے خان کو آپ کے پیچھے،، وضاحت دیں مجھے"
روشانے ہاتھ باندھ کر ضیغم سے پوچھنے لگی تو ضیغم سنجیدہ تاثرات چہرے پر لیے اسکے قریب آیا
"جب پہلی بار تیمور خان میرے فلیٹ میں آیا،، تو یہ بات تم نے مجھ سے کیوں چھپائی،، کیا وجہ تھی اِس کے پیچھے وضاحت دوں گی مجھے،، میرے ارام سے سب پوچھنے کے باوجود تم نے جھوٹی قسم کھائی اس کے پیچھے کیا وجہ تھی وضاحت دوگی مجھے"
ضیغم اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب کرکے سوال پوچھنے لگا روشانے اپنے چہرے کا رخ دوسری سمت کیا پھر ضیغم کو دیکھنے لگی
"میں آپ کو ساری وضاحت دے چکے ہیں اب کوئی وضاحت نہیں دو گی لیکن اب بات ساری یہ ہے کہ، جب تک مامی یہاں آکر خود ساری بات کلیر نہیں کرتی۔۔۔ میں آپ کے ساتھ جانے والی نہیں ہوں،، انگلی میرے کردار پر اٹھی ہے یہ بات میں نہیں بھول سکتی ہوں"
روشانے ضیغم کو بولتی ہوئی کمرے سے نکلنے لگی کیونکہ باہر حازم کے رونے کی آواز آرہی تھی روشانے کو معلوم تھا اُسے بھوک لگ رہی ہے مگر ضیغم اس کا بازو پکڑ کر چکا تھا
"وہ یہاں پر کبھی نہیں آئے گیں یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو۔۔۔ میں تمہیں حویلی لے کر نہیں جا رہا ہم لوگ شہر جا رہے ہیں اس لیے بات کو یہی ختم کرو اور نخرے دکھانا بند کرو"
ضیغم اب اپنا غُصہ دباتا ہوا بولا
"آپ بھی تو یہی سمجھتے ہیں نہ کہ خان کو میں نے میسج کرکے بلایا ہے پھر مجھے اپنے ساتھ لے کر جانے پر بضد کیوں ہیں صرف اپنے بیٹے کی وجہ سے،،، سائیں میری ذات اتنی ارزاں نہیں ہے۔ ۔۔۔ اب میں آپ کے ساتھ تبھی جاؤگی جب ساری باتیں کلیر ہوگی"
روشانے کی بات سن کر ضیغم نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مزید سخت کردی وہ اُسے غصے میں دیکھ رہا تھا
"حازم کو بھوک لگ رہی ہے سائیں بازو چھوڑ دیں میرا"
روشانے اپنے بازو پر ضیغم کے ہاتھ کی سختی محسوس کرتی تھی بولی تو ضیغم نے اس کا بازو چھوڑ دیا، ایک بار پھر فیروز جتوئی کی کال ضیغم کے موبائل پر آنے لگی
"کب، کیسے"
ضیغم پریشان ہو کر موبائل پر کہہ رہا تھا تو روشانے نے پلٹ کر اسے دیکھا
"میں دس منٹ میں پہنچتا ہوں"
ضیغم موبائل پر بولتا ہوا روشانے کو دیکھے بنا کمرے سے باہر نکل گیا
*****
مہینہ بھر ہو چکا تھا اسے تیمور خان کے ساتھ واپس حویلی میں آئے ہوئے۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ژالے اُسے دوا دے کر اپنے سونے کا کہتی ہوئی کمرے سے نکلی تھی مگر اب وہ ڈاکٹر کی ساری گفتگو سن کر، اپنا موبائل ٹیبل پر رکھتی ہوئی واپس تیمور خان کے کمرے میں آئی
وہ بیڈ پر آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹا تھا،، آنکھوں میں پڑتی روشنی کی وجہ سے تیمور خان نے آنکھیں کھول کر ماتھے پر بل لیے کمرے میں آنے والے کو دیکھا مگر اپنے سامنے دوبارہ ژالے کو دیکھ کر اُس کے ماتھے کے بل خود ہی جاتے رہے
"فوراً اٹھو خان"
ژالے کمرے میں موجود وہیل چیئر کو بیڈ کے قریب لائی اور تیمور خان کو سہارا دے کر اٹھانے لگی۔۔۔ اس کام میں ژالے کی کافی محنت صرف ہوتی تھی کیوکہ اتنے دن گزر جانے کے باوجود تیمور خان کی طبیعت میں کوئی خاص بہتری نہیں دکھائی دے رہی تھی ژالے جب سے ہی اُس کے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی رہی تھی
"ہم کہاں جا رہے ہیں"
ژالے اسے حویلی سے باہر لان میں لائی تو تیمور خان اس سے پوچھنے لگا ابتدا میں اس سے بولا نہیں جاتا تھا مگر اب وہ کافی حد تک صحیح بولنے لگ گیا تھا
"تم نے کیا بیوقوف سمجھا ہوا ہے مجھے یا پھر گھر والوں کو"
ژالے لان میں وہیل چیئر روک کر تیمور خان کے سامنے آ کر اس سے پوچھنے لگی تو تیمور خان اسے کنفیوز ہو کر دیکھنے لگا
"میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے، ایک ماہ سے زائد گزر چکا ہے تمہیں کو وہاں سے واپس آئے،، ڈاکٹرز کے مطابق اب تمہاری کنڈیشن بہتری کی طرف آنی چاہیے کیونکہ تمہارے ٹریٹمنٹ میں کوئی کمی بیشی نہیں آرہی ہے لیکن اگر تمہاری کنڈیشن بہتری کی طرف نہیں آرہی ہے تو اس میں تمہارا ہی قصور ہے یا تو تم خود ہی ٹھیک نہیں ہونا چاہتے ہو یا ٹھیک ہونے کی کوشش نہیں کرتے مجھے اصل بات بتاؤ خان تم ایسا کیوں کر رہے ہو، کیا تمہیں ترس نہیں آتا اپنے ماں باپ پر دادی حضور پر"
ژالے اس کے سامنے کھڑی غُصے میں اس سے پوچھنے لگی
"ڈاکٹر بکواس کر رہا ہے ایسا کچھ نہیں ہے"
تیمور خان اس کی بات سن کر اپنا منہ پھیر کر دوسری طرف کرتا ہوا اس سے بولا تبھی ژالے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کا رخ دوبارہ اپنی طرف کیا
"ڈاکٹر بکواس نہیں کر رہا ہے، بکواس تم کر رہے ہو، میں نے پہلے بھی بہت بار نوٹ کیا ہے، دوا لیتے ٹائم تم مجھے کسی نہ کسی کام میں لگا دیتے ہو یا پھر کمرے سے باہر بھیج دیتے ہو۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے تم اپنی دوا ٹھیک سے نہیں لے رہے ہو اور عرفان مجھے بتا رہا تھا تم فزیوتھراپی کرتے وقت تم اس پر غصہ کرتے ہو، اپنی فیزیوتراپی بھی ٹھیک سے نہیں کرتے"
وہ کسی سخت استانی کی طرح تیمور خان کو ٹریٹ کر رہی تھی تیمور خان کو اپنا آپ کوئی نالائق اسٹوڈنٹ جیسا محسوس ہوا
"تمھیں مجھ سے ایسے سختی سے بات نہیں کرنا چاہئے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے"
تیمور خان ژالے کی بات گول کرتا ہوا، اس کی توجہ اپنی طبیعت پر مندمل کرتا ہوا معصومیت سے بولا
"یوں سارا دن بیڈ پر لیٹے رہنے سے یا وہیل چیئر پر بیٹھے رہنے سے تمہاری طبعیت کبھی ٹھیک ہو بھی نہیں ہو سکتی خان۔۔۔۔ آج تمہیں خود سے کھڑے ہونے کی کوشش کرنا ہوگی، وہ بھی بغیر کسی سہارے کے"
ژالے تیموں خان کو دیکھتی ہوئی بولی تو وہ حیرت سے ژالے کو دیکھنے لگا
"تمہیں معلوم ہے میں ایسا نہیں کر سکتا، درد ہوتا ہے مجھے ہاتھ پاؤں ہلانے میں۔۔۔ اندر لے کر چلو،، اپنے کمرے میں جانا ہے مجھے"
تیمور خان ژالے کو دیکھتا ہوا جلدی سے بولا اب اسے ژالے سے ڈر لگ رہا تھا
"اچھی بات ہے دوسروں کو درد دینے والے کو خود بھی، تکلیف کا اندازہ ہونا چاہیے۔۔۔ جب تک تم اپنے پیروں پر خود سے کھڑے ہو کر نہیں دکھا دیتے اندر نہیں جاؤ گے اور خبردار جو تم نے وہیل چیئر پر کوئی بٹن دبا کر خود اندر جانے کی کوشش کی"
ژالے اس طرح بولتی ہوئی تیمور خان کو بہت ظالم لگی
"ژالے تم سمجھنے کی کوشش کرو پلیز، میں اب اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا،، میری طبیعت بگڑ رہی ہے پلیز مجھے کمرے میں لے چلو"
وہ پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ بے بسی سے بولا ژالے خاموشی سے اسے دیکھنے لگی
"خان مجھے لگتا ہے ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا تھا تم خود ٹھیک نہیں ہونا چاہتے،، تم واپس زندگی کی طرف نہیں آنا چاہتے تم اپنے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہو بتاؤ مجھے"
ژالے کو اب تشویش لاحق ہونے لگی وہ جھک کر تیمور خان کو دونوں شانوں سے پکڑتی ہوئی اس سے پوچھنے لگی
"میں اگر ٹھیک ہوگیا تو تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤں گی،، ایسا کچھ بولا تھا ناں تم نے مجھ سے"
وہ اتنا بڑا مرد اس کے سامنے بولتے ہوئے ایک دم بچوں کی طرح رونے لگا۔۔۔
ژالے خاموشی سے اسے روتا ہوا دیکھنے لگی وہ جو دوسروں کو اپنے سامنے چاروں خانے چت کر دیتا تھا آج وہ ایک کمزور سی لڑکی کے سامنے آنسو بہا رہا تھا
"اگر آج تم نے بغیر کسی سہارے کے، خود سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش نہیں کی تو میں تمہیں اسی وقت چھوڑ کر چلی جاؤنگی خان"
ژالے تیمور خان کو دھمکی دیتی ہوئی بولی
وہ بے چارگی سے اسے دیکھنے لگا ژالے اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر اس کے کھڑے ہونے کا انتظار کرنے لگی
تیمور خان بے بس نظروں سے ژالے کو دیکھ رہا تھا ژالے نے باہر گیٹ کی طرف اپنا رخ کیا اور آگے قدم اٹھایا
"ژالے"
تیمور خان نے ڈر کر اسے پکارا جیسے وہ واقعی چلی ہی نہ جائے ژالے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی
تیمور خان نے بہت مشکلوں سے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ وہیل چیئر کے دونوں ہینڈل تھامنے چاہے، اسے اپنے ہاتھ کی ہڈیاں جام اور زنگ آلود محسوس ہونے لگی۔۔۔ وہیل چیئر کے ہینڈل پکڑتے ہوئے اس کا چہرا پسینے سے تر ہو چکا تھا،، تکلیف کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو حرکت دینے میں اس کی بہت محنت صرف ہو رہی تھی۔۔۔ اس نے اپنے پیروں پر وزن ڈال کر اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔ جس کے نتیجے میں وہ بری طرح ہانپ گیا
"نہیں، نہیں کھڑا ہو سکتا میں، بالکل بھی نہیں کھڑا ہو سکتا"
وہ درد سے کراہتا ہوا پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ نفی میں گردن ہلاتا ہوا بولا تو ژالے اس کی بات سن کر گیٹ کی طرف بڑھنے لگی
"ژالے نہیں۔۔۔۔ ژالے رکو، ،، مت کرو میرے ساتھ ایسا سلوک، میں نہیں رہ سکوں گا تمہارے بغیر"
وہ بے بسی سے کہتا ہوا رونے لگا اور ژالے سے فریاد کرنے لگا مگر ژالے اس کی طرف دیکھے بغیر جیسے گیٹ کی طرف بڑھے جارہی تھی
"ژالے"
وہ گیٹ کی طرف پہنچی تبھی اسے تیمور خان کی چیختی ہوئی آواز ائی۔۔۔۔ ژالے نے مڑ کر تیمور خان کو دیکھا جوکہ وہیل چیئر سے اٹھ کر کھڑا ہو چکا تھا،، اس نے اپنا ہاتھ ژالے کی طرف آگے کو بڑھایا اور جیسے ہی قدم بڑھانا چاہا تو وہ گھاس پر گر گیا
ژالے بھاگ کر اس کے پاس آئی تیمور خان کو سہارا دینے کے لیے وہ خود بھی نیچے بیٹھ گئی تیمور خان کے چہرے پر اب بھی خوف کے آثار نمایاں تھے کہ ژالے اسے چھوڑ کر نہ چلی جائے جبکہ ژالے کے چہرے پر اطمینان تھا
"کہیں نہیں جا رہی خان، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہی"
ژالے اس کا چہرہ تھامتی ہوئی بولی اور تیمور خان کو سہارا دیتی ہوئی دوبارہ وہیل چیئر پر بیٹھانے لگی
****