"کیوں۔۔۔ کیوں آ جاتے ہیں آپ یہاں پر بار بار،، آخر چاہتے کیا ہیں آپ"
رات کے پہر روشانے نے بالکنی میں موجود تیمور خان کو دیکھ کر غُصے میں پوچھنا چاہا۔۔۔ تیمور خان چونکا، اس کے نڈر انداز اور لہجہ پر
"منع کیا تھا میں نے کہ اس کمینے کو اپنے قریب مت آنے دینا،، سمجھ میں نہیں آیا تمہیں"
تیمور خان کل رات والا منظر یاد کرکے اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا آنکھیں دکھا کر بولا
"تمیز سے بات کریں خان وہ شوہر ہیں میرے اور کیوں مانو میں آپ کی بات،، آپ ہوتے کون ہے مجھے یہ مشورہ دینے والے"
تیمور خان کے آنکھیں دکھانے پر ڈرنے کی بجائے روشانے الٹا اُسے سنانے لگی۔۔۔ خاموش رہنے سے ڈرنے سے وہ روشانے کو مزید پریشان کرتا اِس طرح بولنے سے کم ازکم وہ یہاں آنے کا دوبارہ تکلف نہ کرتا اور روشانے ایسا ہی چاہتی تھی
"بہت زیادہ بولنا نہیں آ گیا ہے، تمہیں اِس ایک ماہ میں، پر بھی نکل آئے ہیں شاید تم بھول گئی ہوں کہ میں کون ہوں"
تیمور خان نے آہستہ آواز میں غُراتے ہوئے اس کا بازو دبوچا
"خان آپ شاید بھول رہے ہیں کہ میں کون ہوں۔۔۔ ضیغم جتوئی کی بیوی ہوں میں،، اگر چاہو تو ابھی اِسی وقت اپنے شوہر کو یہاں بلا سکتی ہو۔۔۔ اِس کے بعد میرا شوہر اور اِس حویلی کے ملازم جو آپ کے ساتھ کریں گے اُس کا آپ کو بھی اچھی طرح اندازہ ہوگا۔۔۔۔ اگر میں خاموش ہوں تو صرف بڑے خان اور تائی ماں کی وجہ سے،، خدا کے لیے خان مجھے مجبور مت کریں کہ اپنی زندگی کے سکون کے لیے آپ کی موت کی دعائیں مانگو۔۔۔۔ آپ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی زحمت کرئیے گا"
روشانے تیمور خان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے ہوئے اس سے بولی تھی تیمور خاموشی سے روشانے کو دیکھنے لگا
ڈرائیونگ کے دوران کل رات والی روشانے کی باتیں یاد کرکے اُسے ڈھیر سارا غصّے آ رہا تھا۔۔۔ رات میں وہ وہاں سے وہ اپنے دوست کے پاس چلا گیا تھا۔۔۔ شام کے سائے گہرے ہوکر رات کی تاریخی میں ڈھل رہے تھے تب تیمور خان نے حویلی کا رخ کیا
"یہ تو اب طے شدہ بات ہے کہ تم دوبارہ اِس حویلی میں واپس آؤں گی،، پھر دیکھتا ہوں کیسے چلتی ہے تمہاری زبان میرے آگے"
تیمور خان ڈرائیونگ کرتا ہوا سوچوں میں روشانے سے مخاطب ہو کر بولا
مین گیٹ سے گاڑی اندر لے جاکر اس کی نظر حویلی کی طرف تھا خرم کی گاڑی پر پڑی۔۔۔ خرم کی گاڑی کو حویلی میں دیکھ کر اُس کا میٹر مزید گھوم گیا
گاڑی روک کر جبڑے بھینچتا ہوا وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر حویلی کے اندر داخل ہوا
اُسے سامنے ہی مسکراتی ہوئی ژالے نظر آئی جو خرم کی بات پر ہنس رہی تھی اور خرم کا بیٹا ژالے کی گود میں موجود تھا۔۔۔ یہ منظر تیمور خان کا مزید دماغ خراب کرنے لگا،، وہ دانت پیستا ہوا ان لوگوں کے پاس پہنچا
"ارے خان کیسے ہیں آپ،، میں ابھی ابھی ژالے سے آپ ہی کا پوچھ رہا تھا"
تیمور خان کو دیکھ کر خرم خوشدلی سے اُس سے مصافہ کرنے کو آگے بڑھا
"ہاں ہاں ٹھیک ہے وہی بیٹھو اور یہ بتاؤ کیوں آنا ہوا تمہارا یہاں"
تیمور خان نے ہاتھ کے اشارے سے خرم کو اپنے پاس آنے سے روکا اور ڈائیریکٹ اس سے آنے کی وجہ پوچھی۔۔۔ تیمور خان کے رویہ پر جہاں خرم نے لب سکھیڑ کر اپنے قدم روکے۔۔۔ وہی ژالے حیرت سے اپنے کزن کے ساتھ تیمور خان کا رویہ دیکھنے لگی
"وہ یہاں میرے بلانے پر آیا ہے خان"
خرم کی بجائے ژالے تیمور خان کو جواب دینے لگی
"میں نے تم سے پوچھا، جب تم سے بات کرو تم تب بولنا۔۔۔ کیا نام ہے تمہارا؟؟ ہاں خرم تو کس لیے آنا ہوا تمہارا یہاں"
تیمور خان ژالے کو درشی سے بولتا ہوا دوبارہ خرم سے مخاطب ہوا
"فون پر ژالے نے بتایا تھا کہ اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور دانیال بھی ژالے کو یاد کر رہا تھا تو میں نے سوچا آ کر مل لیا جائے"
خرم اپنے چھوٹے سے بیٹے کو دیکھ کر تیمور خان کو اپنے حویلی میں آنے کا جواز بتانے لگا
"طبیعت اس کی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ طبیعت خرابی کا تو اِس نے بہانہ بنایا ہوگا تاکہ تم اِس سے ملنے آسکو اور تمہیں بھی اپنے بیٹے کی آڑھ میں یوں اِس سے ملنا زیب نہیں دیتا"
تیمور خان کی بات پر خرم شاکڈ انداز میں اس کو دیکھنے لگا جبکہ ژالے ملامت بھری نظروں سے تیمور خان کو دیکھنے لگی
"یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں خان، میں کچھ سمجھا نہیں"
خرم نے حیرت سے پہلے ژالے کو دیکھا اور پھر تیمور خان کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا
"ابھی بھی نہیں سمجھے، کافی چھوٹی عقل کے مالک ہو تم۔۔۔ خیر میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ مجھے تمہارا اور تمہارے اِس بیٹے کا ژالے سے ملنا بالکل پسند نہیں ہے آئندہ خیال رکھنا"
تیمور خان واضح لفظوں میں خرم کو سمجھاتا ہوا بولا تو کمرے میں ایک دم خاموشی پھیل گئی
"چلو بیٹا گھر چلتے ہیں"
چند سیکنڈ بعد خرم اپنے بیٹے دانیال سے مخاطب ہوا اور اُسے لیتا ہوا وہاں سے چلا گیا
"کیوں آپنی اوقات دکھائی تم نے خرم کے آگے۔۔۔ کیوں ایسی بکواس کی تم نے اُس سے جواب دے کر جاؤ مجھے"
خرم کے جانے کے بعد تیمور خان بھی اپنے کمرے میں جانے لگا تب ژالے اُس کے سامنے آئی۔۔غُصے کے مارے اس کی آنکھوں کے ڈورے سرخ ہونے لگے تھے وہ تیمور خان سے پوچھنے لگی
"تم بھی اپنی اوقات میں رہو ژالے،، اب کی بار اگر میں نے تمہیں اپنی اوقات دکھائی ناں تو تڑپ کر رہ جاؤ گی تم"
وہ پہلے ہی بہت زیادہ غُصے میں بھرا ہوا تھا انگلی اٹھا کر ژالے کو وارننگ دینے لگا
"تم میرے اپنوں کے ساتھ اِس طرح کا سلوک نہیں کر سکتے خان"
ژالے اس کی وارننگ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کو گریبان پکڑ کر غُصے میں بولی۔۔۔
تیمور خان نے ایک نظر ژالے کے ہاتھ پر ڈالی جو اُس کے گریبان پر تھا دوسری نظر وہاں سے گزرتی ہوئی ملازمہ کو دیکھا جو تیمور خان کے اپنی طرف دیکھنے پر سر جھکاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔ تیمور خان نے اپنے گریبان پر موجود ژالے کے دونوں کلائیاں پکڑی
"اپنے"۔۔۔۔۔ ویسے ابھی تک کتنا اپنا بنا لیا ہے تم نے اور خرم نے ایک دوسرے کو۔۔۔۔ ذرا یہ بات آج اپنے شوہر کو بھی بتا دو"
تیمور خان طنزیہ انداز میں ژالے سے پوچھنے لگا جس پر ژالے نے اُس سے اپنی دونوں کلائیاں چھڑوانی چاہی
"تم ایک پست ذہنیت رکھنے والے گھٹیا شخص ہو خان،، تمہارے منہ لگنا یا تمہیں اپنے منہ لگانا ہی بیکار ہے۔۔ ہاتھ چھوڑ دو میرے اپنے کمرے میں جانا ہے مجھے"
آج صبح ہی اُس نے سوچا تھا کہ وہ سب کچھ بھولنے کی کوشش کرتے ہوئے تیمور خان کے ساتھ ایک نئی شروعات کرے گی۔۔۔۔ لیکن اس وقت اُسے تیمور خان کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ پر بھی غُصہ آنے لگا
"تم صرف اُس دو ٹکے کے خرم کو منہ لگانا پسند کرتی ہوں۔۔۔ لیکن آج تمہارا خان تمہیں خود اپنی منہ لگائے گا مگر یہاں نہیں بلکہ اپنے کمرے میں لے جا کر"
تیمور خان بولتا ہوا ژالے کو کھینچ کر اپنے کمرے میں لے جانے لگا۔ ۔۔ گھر کے ملازم تماشہ دیکھ رہے تھے مگر کسی میں کچھ بولنے کی ہمت نہیں تھی۔ ۔۔۔ اس وقت کبریٰ خاتون اپنے کمرے میں جبکہ سردار اسماعیل خان اور زرین باہر کسی کام سے نکلے ہوئے تھے
ژالے نے جان توڑ کوشش کی تھی کہ وہ اپنا آپ تیمور خان سے چھڑوا سکے،،، لیکن اگر اس وقت ژالے غصے میں تھی تو تیمور خان بھی اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔۔۔ کمرے میں لانے کے بعد وہ ژالے کو بیڈ پر پھینک چکا تھا
"تم ہوش و حواس میں تو ہو اپنے"
وہ بیڈروم کا دروازہ لاک کرنے لگا تب ژالے اُس کے خطرناک تیور دیکھ کر زور سے چیخی
"اس دن اپنے حواسوں میں نہیں تھی مگر آج پورے ہوش و حواس میں ہوں"
تیمور خان بولتے ہوئے ژالے کی طرف قدم بڑھائے تو ژالے تیری واش روم کا رُخ کرنے لگی تاکہ اندر جا کر اپنے آپ کو لاک کر سکے۔۔۔ تیمور خان اُس کا ارادہ بھانپنے کے ساتھ ہی اُسے اپنے حصار میں جکڑ چکا تھا
"کیا ہوگیا ہے میری جان،، لگتا ہے تم تو ڈر گئی ہو اپنے خان سے"
تیمور خان ژالے کو بیڈ پر لٹا کر اُس کے اوپر جھکتے ہوئے پوچھنے لگا کیوکہ خوف کی پرچھائیاں ژالے کے چہرے پر رقصاں تھی
"خان مجھے یہاں سے جانے دو نہیں تو تمہیں مار ڈالوں گی"
ژالے کو اندازہ ہو گیا تھا اب وہ مزاحمت کرنے کے باوجود اُس کی گرفت سے نہیں نکل سکتی،، اس لیے تیمور خان کو دھمکاتی ہوئی بولی
"اپنوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے میری جان،، غور کرو ذرا میں بھی تمھارا اپنا ہو۔۔۔ بلکہ اُس خرم سے زیادہ اپنا ہوں۔۔۔ جب تک میں تمہیں اپنے پن کا احساس نہیں دلاو گا تب تک تم اپنی من مانیاں کر کے اپنے خان کا خون جلاو گی"
تیمور خان نے بولنے کے ساتھ ہی اُس کا دوپٹہ اتار کر دور پھینکا
"اگر تم نے میرے ساتھ کچھ بھی کیا تو میں اپنی جان لے لوں گی خان"
تیمور خان کی سانسوں کی گرمائش اپنے چہرے پر محسوس کرتی ہوئی وہ بے بسی سے بولی
"جان تو تمہاری میں لے لوں گا اگر تم دوبارہ اُس خرم سے یا اُس کے بیٹے سے ملی تو۔۔۔ خان تمہیں یہاں اپنے کمرے میں لے کر آ گیا ہے،، اب تم واپس اپنے کمرے میں نہیں جاسکتی۔۔۔ اگر آج تم نے اپنا آپ اپنے خان کو نہیں سونپا تو تمہارا یہ خان حیوان بننے میں صرف دو منٹ لگائے گا"
وہ ژالے کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا ہوا اس پر جھک چکا تھا
*****
"برا مان گیا تُو میری بات کا، ناراض ہو کر جائے گا مجھ سے"
وہ صبح کا حویلی سے نکلا شام میں واپس پہنچا تو روشانے کمرے میں موجود نہیں تھی،، کشمالا ضیغم کے پاس آتی ہوئی اُس سے بولی
"ماں پلیز میں ابھی ایسی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا جس کی وجہ سے بات بڑھے۔۔۔ صحیح ہے روشی آپ کو پسند نہیں ہے،، میں آئندہ خیال کرو گا کہ وہ حویلی میں آج کے بعد نہیں آئے"
ضیغم بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا اِس لئے کشمالا کو دیکھ کر سنجیدہ انداز میں گویا ہوا
"تو شروع سے ایسا ہی ہے،، بچپن میں اُس رباب کے پیچھے مجھے اکثر نظر انداز کر دیا کرتا تھا،، اب اُس کی بیٹی کے آگے تجھے کچھ نہیں نظر آتا۔۔۔ اپنی ماں سے تو تجھے پیار ہی نہیں ہے ضیغم"
کشمالا افسوس کرتی ہوئی ضیغم سے بولی تو ضیغم لب بھینچ کر اُسے دیکھنے لگا
"مجھ سے پیار کا ثبوت چاہیے آپکو۔۔۔۔ ماں کیا یہ ثبوت کم ہے کہ چند سال بعد ہی یہ حقیقت جاننے کے باوجود کہ آپ نے اپھو کا نکاح چھپایا تھا۔۔۔۔ میں نے اِس راز سے پردہ نہیں ہٹایا،، صرف اِس وجہ سے کہ اگر بابا سائیں کو یہ بات معلوم ہو جاتی تو وہ آپ کو کھڑے کھڑے اِس حویلی سے نکال دیتے۔۔۔ جانتی ہیں آپ،، آپکے اِس عمل سے زریاب خان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔۔۔ کم از کم اُس دن اگر اپھو کے پاس نکاح نامہ موجود ہوتا تو انکی زندگی یوں نہ اُجڑتی۔۔۔۔ پلیز اب آپ بے بنیاد الزام لگا کر میرے اور روشی کے رشتے میں نااتفاقی مت پیدا کریں"
ضیغم کشمالا کا شرمندہ چہرہ دیکھتا ہوا بولا
"میں مانتی ہو آج سے اٹھارہ سال پہلے جو مجھ سے ہوا وہ غلط تھا،، لیکن آج صبح جو میں نے بولا وہ غلط نہیں تھا ضیغم، تیری بیوی اِسی کمرے کی بالکونی میں اپنے تایا زار کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی، وہ برابر والے گھر کی چھت کے ذریعہ یہاں آیا تھا روشی سے ملنے، یہ سب میں تیرے سر کی قسم کھا کر بولتی ہو"
کشمالا ضیغم کے سر پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتی ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ ضیغم کمرے میں کھڑا کشمالا کے لفظوں پر غور کرنے لگا
*****
آج شام اُن دونوں کو شہر کے لیے روانہ ہونا تھا مگر ضیغم نے باہر سے آنے کے بعد واپسی کی کوئی بات نہیں کی۔۔۔ روشانے کے پروگرام پوچھنے پر ضیغم نے اُسے فی الحال شہر واپس جانے سے منع کردیا تھا
روشانے نے محسوس کیا جب سے وہ باہر سے واپس حویلی آیا تھا تب سے ہی خاموش تھا رات کو کھانا کھانے کے بعد وہ کشمالا کمرے میں جانے کے بجائے اپنے کمرے میں موجود تھا اور مسلسل صوفے پر بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ میں بزی تھا
"سائیں آج رات سونا نہیں ہے کیا آپ نے"
اُسے مسلسل مصروف دیکھ کر بلآخر روشانے ضیغم سے بولی
"تم انتظار مت کرو میرا،، نیند آرہی ہے تو سو جاؤ"
ضیغم نے ایک نظر روشانے پر ڈالی،، وہ جواب دیتا ہوا دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا روشانے بیڈ سے اٹھ کر ضیغم کے پاس آکر صوفے پر بیٹھی
"کیسے سو سکتی ہوں،، آپ کو معلوم تو ہے ایسے نیند نہیں آتی مجھے"
وہ ضیغم کا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔۔ ضیغم نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اصرار تھا کہ وہ بیٹھ پر چلے
سونے سے پہلے ضیغم اُس کا سر اپنے سینے پر رکھ کر اُس سے تھوڑی دیر باتیں کرتا تھا۔۔۔ اُس کے بعد ہی وہ دونوں سوتے تھے،، روشانے کی بات سن کر ضیغم لیپ ٹاپ بند کر کے ایک سائیڈ پر رکھتا ہوا بیڈ پر آ کر لیٹ گیا۔۔۔ روشانے نے مسکرا کر اُس کے سینے پر سر رکھا۔۔۔ وہ آنکھیں بند کر کے ضیغم کی شرٹ سے اٹھتی سگریٹ اور پرفیوم کی مکس خوشبو محسوس کرتی اس کے سینے پر اپنا مرمریں ہارتھ پھیرنے لگی۔۔۔ روشانے نے محسوس کیا وہ روز کی طرح اُس کے بالوں میں انگلیاں پھرتا ہوا روشانے سے باتیں نہیں کر رہا تھا
"اتنے خاموش کیوں ہیں سائیں، کیا کوئی بات ہوئی ہے"
روشانے ضیغم کی خاموشی محسوس کرکے یونہی اُسکے سینے پر اپنا سر ٹکائے ضیغم سے پوچھنے لگی
"کچھ خاص نہیں ویسے ہی سر میں درد ہو رہا تھا"
ضیغم اُسے ٹالتا ہوا بولا مگر یہ سچ بھی تھا کشمالا کی باتیں سوچ کر اب اس کا سر درد کر رہا تھا
"سر میں درد ہو رہا ہے تو پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے"
روشانے نے بولتے ہوئے اُس کے سینے سے سر اٹھایا
اب وہ ضیغم کی پیشانی پر اپنا نازک ہاتھ رکھ کر اُس کا سر دبانے لگی۔۔۔ ضیغم غور سے روشانے کا چہرہ دیکھنے لگا
"کیا سوچ رہے ہیں"
سر دباتی ہوئی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ ضیغم سے پوچھنے لگی جو خاموش نظروں سے بہت غور سے اُسے دیکھ رہا تھا
"صبح ماں نے جو بات کہی تھی اُس میں کتنی حقیقت ہے روشی"
ضیغم کے سوال پر نہ صرف روشانے کا ہاتھ تھما بلکہ مسکراہٹ بھی اُس کے ہونٹوں سے غائب ہوچکی تھی ضیغم اُس کے چہرے کا ایک ایک تاثر خاموشی سے دیکھ کر رہا تھا
"آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ صبح والی بات حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے"
روشانے دھڑکتے دل کے ساتھ ضیغم سے نظریں چراتی ہوئی پوچھنے لگی تبھی ضیغم نے اپنی پیشانی سے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پر رکھا
"ماں کی بات میں واقع حقیقت نہیں تھی"
ضیغم لیٹا ہوا یونہی اُس کا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگا۔۔۔ روشانے کو گھبراہٹ ہونے لگی مگر وہ ضیغم پر ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی
"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،، مامی کو غلط فہمی ہوئی ہوگی"
جھوٹ بولتے ہوئے روشانے کا دل پر بوجھ سا پڑ گیا تھا
اُس نے جلدی سے ضیغم کے سر سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور واپس اُس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔۔۔ ضیغم کے سر کی جھوٹی قسم کھاتے ہوئے اس نے اپنے آپ پر ڈھیر ساری ملامت کی تھی مگر وہ ضیغم کو سچ بتا کر یہاں حویلی میں،، اس سے ناراضگی بھی نہیں مول سکتی تھی
روشانے نے تیمور خان کو اچھی خاصی باتیں سنائی تھی اُسے پوری امید تیمور خان اب دوبارہ کبھی یہاں کا رُخ نہیں کرے گا۔۔۔ دوسرا وہ ضیغم کا ردعمل،، اپنی نوٹ بک پر لکھے تیمور خان کے نام پر بھی دیکھ چکی تھی۔۔۔ وہ کوئی بھی بات ضیغم کو بتا کر دونوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی،،، وہ جب سے حویلی میں آئی تھی تب سے اُس کا اور ضیغم کا رشتہ خراب ہوا جا رہا تھا۔۔۔ اُسے انتظار تھا ضیغم کے ساتھ واپس جانے کا۔۔۔ شہر جا کر یقیناً سب کچھ ٹھیک ہوجاتا۔۔۔ روشانے ضیغم کے سینے پر سر رکھے ہوئے سوچ رہی تھی تب ضیغم اُس کا سر اپنے سینے سے ہٹاتا ہوا بیڈ سے اٹھ گیا
"کیا ہوا سائیں"
ضیغم کے اس طرح اٹھنے پر روشانے بےساختہ اُس سے پوچھنے لگی
"کچھ نہیں تم سو جاؤ"
ضیغم روشانے سے بولتا ہوا سگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر لے کر بالکونی میں چلا گیا
روشانے کے قسم کھانے کے بعد وہ مزید اُلجھ چکا تھا۔۔ ضیغم کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کچھ بھی ہو جائے کشمالا اُس کے سر کی کبھی بھی جھوٹی قسم نہیں کھائے گی
****
"خیریت صبح کہاں جا رہے ہیں آپ"
کل رات سے ہی ضیغم کا انداز کچھ کھنچا کھنچا سا تھا اور اب وہ صبح صبح اُسے کچھ بتائے بغیر تیار ہو رہا تھا جیسے آفس جانے کی تیاری کرتا تھا روشانے کے پوچھنے پر وہ اُسے دیکھنے لگا
"ہاں آفس جانا ہے مجھے ضروری کام سے"
الماری میں سے کوئی چیز ڈھونڈتا ہوا ضیغم، روشانے کو جواب دینے لگا۔۔۔ روشانے حیرت سے اُسے دیکھنے لگی
"کیا مجھے چھوڑ کر جا رہے ہیں سائیں"
روشانے پریشان ہوتی ہوئی ضیغم سے پوچھنے لگی۔۔۔وہ الماری کا دروازہ بند کرتا ہوا روشانے کے پاس آیا
"پہلے کبھی تمہیں آفس لے کر گیا ہوں اپنے ساتھ"
وہ سنجیدہ لہجے میں روشانے کو دیکھتا ہوا پوچھنے لگا۔۔۔ اُس کی آواز، اُس کے لہجہ میں مذاق کی رمق تک نہ تھی
"میرا مطلب وہ نہیں تھا۔۔۔ یہاں میں اکیلی کیسے رہ سکتی ہوں آپ کے بغیر"
روشانے اسے اپنی بات کا مفہوم سمجھاتی ہوئی بولی
"دوسری لڑکیاں کیسے رہتی ہیں اپنے سُسرال میں شوہروں کے بغیر"
ضیغم اب بگڑے تیورں کے ساتھ اُلٹا روشانے سے سوال کرنے لگا۔۔۔ چند سیکنڈ روشانے خاموشی سے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر بولی
"سائیں میرا کالج، میرا مطلب ہے آپ دس منٹ مجھے دیں میں بھی آپ کے ساتھ۔۔۔۔
روشانے بولتی ہوئی بیڈ سے اٹھی تو ضیغم اُس کی بات کاٹتا ہوا بولا
"بچوں کی طرح ری ایکٹ مت کیا کرو روشی،، تم میری بیوی ہو کوئی چھوٹی بچی نہیں، جو میں تمہیں اپنے ساتھ ساتھ لٹکائے پھرو۔۔۔۔ ویسے بھی کالج تو تمہارا بند ہونے والا ہے پیپرز کی وجہ سے،، خاموشی سے دو دن یہی رہو آفس میں ضروری کام ہے پرسوں تک نبھٹا کر آ جاؤں گا"
ضیغم روشانے کو ٹوکتا ہوا بولا تو وہ بالکل خاموش ہوگئی
کہیں کچھ غلط ضرور ہوا تھا مگر کہاں۔۔۔ وہ روشانے کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔ وہ سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ناشتے کی ٹیبل پر اُسے معلوم ہوا کہ ضیغم کے ساتھ فیروز جتوئی بھی اپنے چیک اپ کے لیے ضیغم کے ساتھ شہر جا رہا ہے
*****