"کیا مسئلہ ہوگیا ہے، یہ کمرے میں اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے"
کمرے کا دروازہ کھولتے ہی وہ عدیل سے پوچھنے لگی مگر اُس کی نظریں بیڈ پر لیٹے ہوئے اُس وجود پر تھی جو اپنے ہاتھ پاؤں ہلانے سے قاصر تھا اور منہ سے عجیب عجیب سی آوازیں نکال کر شور برپا کر رہا تھا
"میم میں سر کا ڈریس چینج کرنا چاہ رہا ہوں مگر یہ مجھ پر غصہ کر رہے ہیں"
عدیل اپنے ہاتھ میں بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کا کپڑے تھامے،، کمرے میں داخل ہوتی ہوئی لڑکی کو بتانے لگا۔۔۔ وہ ایک بار پھر بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کو دیکھنے لگی، جو اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ مگر اپنے ہاتھ کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا، ایک بار پھر وہ اس لڑکی کو دیکھ کر منہ سے آوازیں نکالنے لگا۔۔۔ وہ سمجھ گئی تھی بیڈ پر لیٹا ہوا شخص اُس کو بلا رہا تھا۔۔۔ کل ہی وہ ہوش و حواس کی دنیا میں آیا تھا تب سے نہ وہ اپنے ہاتھ پاؤں کو حرکت دے پارہا تھا نہ ہی اسکے منہ سے لفظ ادا ہو پا رہے تھے
"کیا ہوا، کیا یہ کپڑے پسند نہیں تمہیں؟؟ دوسرے کپڑے پہنا چاہ رہے ہو"
وہ لڑکی بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کے پاس آکر اس سے پوچھنے لگی۔۔ بیڈ پر لیٹا ہوا شخص نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو حرکت دینے کی کوشش کرنے لگا
"کیا تم یہ کپڑے مجھ سے تبدیل کروانا چاہ رہے ہو"
لڑکی بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کی بات سمجھتے ہوئے اس سے بولی اور اس کے کانپتے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جس سے بیڈ پر لیٹے ہوئے شخص کے چہرے کے تاثرات نرم پڑے
"لائیں عدیل یہ کپڑے مجھے دے دیں اور جاتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کردیئے گا"
وہ عدیل سے کپڑے لیتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اوپر کرنے لگی تاکہ اس کو کپڑے آسانی سے تبدیل کروا سکے
"مم۔ ۔۔۔۔ ما۔۔ما"
وہ بہت احتیاط سے شرٹ تبدیل کروا رہی تھی تب وہ شخص اس لڑکی سے کچھ پوچھنے لگا
"وہ روشانے کے پاس حویلی میں موجود ہیں، روشانے کو بھی اس وقت اُنکی ضرورت ہے، آنٹی صرف تمہاری ماں تو نہیں ہیں، ویسے تمہارے بارے میں اطلاع کردی گئی ہے۔۔۔ تب سے کافی بےچین ہیں آنٹی،، ڈرائیور بھیج کر انکو یہاں بلوالیا ہے رات تک یہاں پہنچ جائے گیں وہ"
وہ جانتی تھی کہ وہ شخص اُس سے اپنی ماں کے بارے میں پوچھ رہا ہے اسلیے وہ اُسے تفصیل سے بتانے لگی۔۔۔ شرٹ تبدیل ہوچکی تھی، اب اس لڑکی کی نظریں صاف ستھرے تہہ شدہ ٹراوزر پر جمی تھیں۔۔۔ اسکی نظروں کو دیکھتے ہوئے بیڈ پر لیٹا شخص نظریں چرا گیا
"لیٹو یہ ٹراوذر چینج کروا لو"
وہ بولتی ہوئی فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے غرض سے مڑنے لگی۔۔۔ تب وہ شخص مُنہ سے آوازیں نکالتا ہوا نفی میں سر ہلانے لگا
"عدیل کو بلاؤ پھر"
انکار کرنے پر وہ اُس شخص سے پوچھنے لگی جس پر وہ مزید نفی میں سر ہلانے لگا ساتھ ہی اسکی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے۔ ۔۔۔ وہ لڑکی تھوڑی دیر خاموشی سے اپنے سامنے بیٹھے شخص کو روتا ہوا دیکھنے لگی پھر اُس کی پُشت سے تکیہ نکال کر (جو تھوڑی دیر پہلے اس نے سہارے کے غرض سے لگایا تھا) فولڈنگ بیڈ کو اسٹریٹ کرنے کے بعد اس کا ٹراوذر تبدیل کرنے لگی۔ ۔۔ وہ جانتی تھی بیڈ پر لیٹا ہوا شخص اس وقت بےبسی کی تصویر بنا ہوا آنسو بہا رہا تھا جو کل تک دنیا کو اپنی ٹھوکر پر رکھتا تھا آج خود دوسروں کو محتاج ہوچکا تھا
"تمہاری دوا کا ٹائم ہوگیا ہے مگر اس سے پہلے ڈاکٹر کے دیے گئے چارٹ کے مطابق تمہیں ڈائیٹ لینی ہے اپنی"
میلے کپڑے باسکٹ میں رکھنے کے بعد وہ سامنے ٹیبل پر رکھئے فوڈ کمپلیمنٹ کا ڈبہ کھولنے لگی جو کہ کمرے میں ہی موجود تھا۔۔۔ اُس میں حلق سے کچھ نگلنے کی طاقت نہیں تھی اِس لیے اُسے کل سے اوورل ڈائیٹ دی جارہی تھی۔۔۔ بیڈ پر لیٹا ہوا شخص ایک بار پھر اس لڑکی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھانے لگا۔۔۔ مگر ناکامی کی صورت میں ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے
"تم یہ غذا عدیل کی بجائے میرے ہاتھ سے لینا چاہ رہے ہو ایسا ہی ہے ناں"
پیالے میں موجود غذا، وہ چمچے کی مدد سے اس شخص کے منہ میں ڈالنے لگی۔ ۔۔ وہ شخص اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ اس لڑکی کا چہرہ غور سے دیکھ رہا تھا جو وقفے وقفے سے چمچا اس کے منہ میں ڈال کر ہر تھوڑی دیر بعد رومال سے اس کا منہ صاف کرتی اور مسکرا کر اُس کو دیکھتی
"اب بیس منٹ کے وقفے کے بعد عدیل تمہیں دوا دے گا۔۔۔ پلیز خاموشی سے کھا لینا میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہ رہی ہو"
خالی برتن وہ ٹرے میں رکھتی ہوئی بولی۔۔۔ تو اُس شخص کی آنکھوں میں بےچینی اُترنے لگی
"اب کیا ہوا۔۔۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تھوڑی دیر آرام کرو"
وہ لڑکی اُس شخص سے پوچھنے لگی۔۔۔ جس کے چہرے پر اُس لڑکی کے جانے کا سن کر بے چینی کے تاثرات نمایاں ہونے لگے۔۔۔ بے بسی کے احساس سے ایک بار پھر اُس شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی اُس سے دور جائے
"اچھا بار بار یوں پریشان مت ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے پاس رہو کوئی دوسرا تمہارے کام نہیں کرے۔۔۔ تو ایسا ہی ہوگا میں ہر وقت تمہارے پاس رہو گی اور تمہارے سارے کام خود اپنے ہاتھ سے کیا کروں گی ایسا ہی ہے نا"
وہ اُس شخص کے آنسو صاف کرتی ہوئی۔۔۔۔ نرمی سے اُسی کے دل کی ساری باتیں بول رہی تھی۔۔۔ اب اُس شخص کے لبوں پر اطمینانیت بھری مسکراہٹ رینگی
"ابھی تم جیسا چاہتے ہو میں بالکل ویسا ہی کروں گی لیکن جب تم مکمل صحت یاب ہو جاؤ گے تب تم وہ کرو گے جو میں چاہوں گی"
وہ آہستگی سے اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔۔۔ تو وہ شخص تجسُس سے اس لڑکی کو دیکھنے لگا جیسے جاننا چاہ رہا ہوں کہ وہ کیا چاہتی ہے
"آزادی۔۔۔۔ تمہیں مجھے اس رشتے سے آزادی دینی ہوگی"
اس لڑکی نے جتنے نارمل انداز میں کہا اس شخص کے چہرے کے تاثرات یکلخت تبدیل ہوئے۔۔۔ خوف سے اس شخص نے اپنا ہاتھ جھٹکا تھا ایسا کرتے ہو اُسے کافی تکلیف ہوئی۔۔۔ ایک بار پھر وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر اُس ظالم لڑکی کو دیکھنے لگا جو ٹیبل پر رکھی میڈیسن اٹھا رہی تھی تاکہ اُسے دوا دے سکے
****
رات کا پہر تھا ہال میں موجود گھڑیال میں گھنٹی کی آواز آئی تو اپنے کمرے میں بیٹھی رباب نے گھڑی میں ٹائم دیکھا رات کے دو بج چکے تھے رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رباب نے اپنے کمرے میں آکر چند کپڑے اپنے سرٹیفکٹ وغیرہ ایسی تمام ضروری اشیاء کو ایک بیگ میں رکھ دیا تھا مگر سب سے اہم چیز اُسے کمرے میں نہیں مل رہی تھی یعنی اس کا نکاح نامہ
زریاب خان نے نکاح نامہ کی ایک کاپی اس کو بھی دی تھی جو رباب نے بڑی حفاظت سے سنبھال کر اپنے پاس رکھی تھی مگر وہ شام سے اپنے نکاح نامہ کی کاپی کو ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔۔ گھڑی میں ٹائم دیکھنے کے بعد رباب نے بڑی سی چادر سے خود کو اچھی طرح ڈھکا اور بیگ چادر کے اندر چھپا کر کمرے سے باہر نکلنے لگی کتنا ہی اچھا ہوتا وہ فیروز لالا کو بھی دیکھ لیتی شمروز جتوئی تو تھا ہی شہر میں، مگر فیروز جتوئی بھی صبح سے ہی ڈیرے پر موجود تھا۔۔۔۔ یہ بات شمشیر جتوئی کے پوچھنے پر کشمالا نے سُسر کو بتائی تھی تو رباب کو بھی خبر ہوئی،
دروازہ کھول کر بغیر آہٹ کے وہ سیڑھیوں سے اُترنے لگی احتیاط کے طور پر وہ اپنا منہ چادر سے ڈھک چکی تھی۔۔۔ گیٹ پر بیٹھا پہرے دار آج گیارہ بجے ہی اپنے گھر کو رخصت ہو گیا تھا۔۔۔ زریاب خان باہر کھڑا اس کا انتظار کر رہا ہوگا اسے معلوم تھا کہ وہ غلط قدم اُٹھا رہی ہے مگر وہ مجبور تھی۔۔۔ سال گزرنے کے بعد وہ شمروز جتوئی سے کانٹیکٹ کرلے گی۔۔۔ رباب آگے کے بارے میں سوچتی ہوئی باہر نکلنے لگی تبھی پورے ہال میں روشنی ہوئی اپنے سامنے شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کو دیکھ کر اس کا دل سُوکھے پتے کی طرح لرزنے لگا
"اپنے باپ بھائی کی عزت کا جنازہ نکالنے بھاگ رہی تھی تُو"
فیروز جتوئی غُصّے میں بولتا ہوا رباب کی طرف بڑھا اور اس کے منہ پر لگاتار چار سے پانچ تھپڑ مارے جس سے وہ فرش پر جا گری
شور کی آواز سن کر کشمالا بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئی مگر وہ آگے بڑھ کر رباب کو بچانے کی بجائے خاموش کھڑی تماشہ دیکھنے لگی، فیروز جتوئی رباب کو بالوں سے کھینچ کر اٹھاتا ہوا ایک بار پھر اُس کے منہ پر تھپڑ مارنے لگا
"کیوں مل دی تُو نے ہمارے منہ پر کالک، یہ صِلہ دیا ہے تُو نے ہماری محبتوں کا۔۔۔ ہمارے ہی دشمن سے ناجائز تعلق رکھ کر اس کے ساتھ بھاگ رہی تھی، رباب میں آج تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا"
فیروز جتوئی غُصّے میں چیختا ہوا بولا اور ساتھ ہی رباب کا گلا دبانے لگا تب کشمالا آگے بڑھی
"کیا کر رہے ہو سائیں، جان سے مار دوں گے بہن ہے تمہاری چھوڑ دو اِسے"
کشمالا بہت مشکل سے رباب کو چھڑواتی ہوئی فیروز جتوئی کو پیچھے ہٹا کر بولی جبکہ خاموش کھڑے شمشیر جتوئی کو آج جیسے سانپ سونگ چکا تھا وہ غُصّے میں کھڑا سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کا غرور اور تکبر جیسے آج مٹی میں مِل چکا تھا
"میرا گلا دبا کر مجھے مار ڈالیں لالا مگر اتنی بڑی گالی دے کر مجھے شرمسار نہ کریں۔۔۔ میرا زریاب خان سے ناجائز تعلق نہیں ہے نکاح کیا ہے انہوں نے مجھ سے"
رباب جب بولنے کے قابل ہوئی تو اپنے نکاح کا اعتراف کرتی ہوئی بولی
"اپنے گناہ کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا مت لے رباب، میں آج واقعی تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا" فیروز جتوئی ایک بار پھر غُصے سے میں چیختا ہوا بولا اور لفظ گناہ بولتے ہوئے اس نے رباب کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا
"اس کُتے کو بھی یہی بلواؤ فیروز وہی سچ اُگلے گا"
فیروز جتوئی کشمالا سے اپنا آپ چھڑا کر رباب کو مارنے کے لئے آگے بڑھا تو شمشیر جتوئی اپنے بیٹے سے بولا
تھوڑی دیر بعد چار آدمی زریاب خان کو پکڑتے ہوئے حویلی کے اندر لائے۔۔۔ ذریاب خان کی حالت دیکھ کر رباب کا دل بری طرح کانپ اٹھا۔۔۔ اُس کے سر، چہرے اور ہاتھوں سے خون بہہ رہا تھا وہ چلنے کے قابل بھی نہیں تھا اُسے پکڑ کر سہارا دیتے ہوئے فیروز جتوئی کے آدمی ہال میں لا رہے تھے
ہال کے بیچ و بیچ اُس کے وجود کو لا کر پھینکا گیا۔۔۔۔رباب زریاب خان کی حالت دیکھ کر بری طرح رونے لگی مگر وہ آگے بڑھ کر زریاب کے پاس جا کر اپنے باپ بھائی کے سامنے دیدہ دلیری نہیں دکھا سکتی تھی کیونکہ اُس کا مزید بھیانک انجام ذریاب خان کو ہی بھگدنا پڑتا جو رباب کو گوارا نہیں تھا
"غلام، تُو یہی رک، تم لوگ باہر جاؤ"
غلام رسول ان کے گھر کا خاص ملازم تھا جس کو گھر کے اندر آنے کی اجازت دی جبکہ کشمالا اور رباب کی موجودگی میں فیروز جتوئی نے باقی تینوں آدمیوں کو گھر سے باہر جانے کا حکم دیا
"میرے گھر کی عزت کو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی تیری ہمت کیسے ہوئی جواب دے مجھے"
فیروز جتوئی نے بولتے ہوئے ذریاب خان کے وجود کو سیدھا کرتے ہوئے اس کے سینے پر اپنے بھاری بھرکم جوتوں سے لاتے مارنا شروع کر دی۔۔۔ دس سالہ ضیغم شور کی آواز سن کر اپنے کمرے سے باہر نکلا اور ہال کا منظر دیکھنے لگا اُس کا باپ کسی آدمی کو بری طرح پیٹ رہا تھا، دادا اور ماں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ اسکی اپھو بری طرح چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔۔۔ دل آویز اور پلورشہ بھی جاگ چکی تھی مگر وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی
"تمہاری بہن میری بیوی ہے فیروز"
زریاب خان مشکلوں سے مار کے درمیان فیروز جتوئی سے بولا
"رکو فیروز یہ اتنی بڑی بات بغیر کسی ثبوت کے نہیں بول سکتا۔۔۔۔ ثبوت دے کہ یہ تیری بیوی ہے آج ہی اِس سے سب تعلق ختم کرکے اسے تیرے ساتھ چلتا کرو گا"
شمشیر جتوئی گرجدار آواز میں بولا تو زریاب خان سر اٹھا کر روتی ہوئی رباب کو دیکھنے لگا کیونکہ اس کے پاس موجود نکاح نامہ یہاں نہیں بلکہ شہر والے گھر میں موجود تھا
"نکاح نامہ نہ جانے کہاں کھو گیا ہے بابا سائیں مجھ سے، میں آپ کے سر کی قسم کھا کر کہتی ہوں میں سچ بول رہی ہوں۔۔۔ خدا کا واسطہ ہے ِان کو بخش دیں"
رباب زریاب خان کے دیکھنے پر شمشیر جتوئی کے پاس آکر اس کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوئی اپنے شوہر کی زندگی کی بھیگ مانگنے لگی
"دشمن کو بخشنے کا مطلب اپنی روایات سے بغاوت کرنا ہے۔۔۔ لوگ ہنسے گے ہم پر مذاق اڑائیں گے ہمارا، اگر آج اسے یہاں سے زندہ جانے دیا تو"
فیروز جتوئی نے کہتے ہوئے غلام رسول سے بندوق لے کر ذریاب خان کے سینے پر گولی چلائی
"لالا"
گولی کی آواز کے بعد رباب کی بھیانک چیخ پوری حویلی میں گونجی، وہ خود بھی اپنا دل پکڑ کر وہی بیٹھتی چلی گئی۔۔۔ رباب کی آنکھوں کے سامنے اس کے بھائی نے اس کی شوہر کی جان لی
"غلام اس کُتے کی لاش کو اِس کے محل کے پاس پھینکوا دے تاکہ اس کے باپ اور بھائی کو بھی اس کے انجام سے عبرت حاصل ہو"
فیروز جتوئی غلام رسول سے بولتا ہوا بندوق وہی پھینک کر اپنے کمرے میں چلا گیا
رباب وہی گر کر بے ہوش ہو چکی تھی جب کہ شمشیر جتوئی بیٹی پر نظر ڈال کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ غلام رسول زریاب خان کی لاش کو کھینچتا ہوا باہر لے جانے لگا
"چل اپنے کمرے میں جا"
کشمالا ضیغم کو بولتی ہوئی خود فیروز جتوئی کے پاس چلی گئی
ضیغم پہلے غلام رسول اور پھر اُس لاش کو دیکھنے لگا اس کے بعد اپنی اپھو کے پاس آیا جو کہ اس وقت فرش پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی
وہ گولی چلتا ہوا دیکھ کر نہ تو ڈرا تھا اور نہ ہی گھبرایا تھا کیونکہ جرگے میں ہونے والے فیصلوں میں اکثر کشمالا کے منع کرنے کے باوجود فیروز جتوئی "یہ مرد ہے" کہہ کر اسے اپنے ساتھ لے کر جایا کرتا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے سزا اور جزا کے فیصلے دیکھا کرتا تھا
****
تین دن سے آنسو بہا کر اس کی آنکھیں اب بالکل خشک ہو چکی تھی۔۔۔ نہ جانے زریاب خان کی خون میں لت پت لاش دیکھ کر اُس کے گھر والوں پر کیا قیامت گزری ہوگی رباب کو ابھی تک یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ تین دن سے کیسے سانس لے رہی ہے، اُس کی اپنی سانس رُک کیوں نہیں گئی شاید اپنے اندر پروان چڑھتے وجود کی وجہ سے۔۔۔ ہاں یہی وجہ ہوسکتی ہے جو وہ زندہ تھی زریاب خان کے مرنے کے بعد بھی
تین دن سے اس کے کمرے میں کوئی نہیں آیا تھا شانو(ملازمہ) اور ضیغم کے علاوہ۔۔۔۔ شانو کمرے آکر اسکو کھانا اور ناشتہ دے جاتی جبکہ ضیغم رباب کے پاس بیٹھ کر اپنی اپھو کا دل بہلانے کے لیے اس سے باتیں کرلیتا اس کی اپھو اس کی باتوں پر مسکراتی نہیں تھی نہ جانے وہ اچانک سے اتنی خاموش کیوں ہو گئی تھی
ضیغم سے بڑی آرزو نے بھی رباب کے کمرے میں آنے کی کوشش کی تھی لیکن کشمالا آرزو کو مارتی ہوئی وہاں سے لے گئی مگر ضیغم کو کشمالا نہیں روک سکتی تھی کیونکہ وہ چھوٹی عمر سے ہی کشمالا کی بانسبت رباب کے پاس رہا تھا وہ ہفتے ہفتے بھر شہر میں شمروز اور رباب کے پاس رہ لیتا تھا
"بی بی سائیں آپ کا سامان باندھ دیا ہے جرگے سے فیصلہ آیا ہے سردار اکبر خان نے زریاب خان کے خون کے بدلے فیروز لالا کی بجائے آپ کو مانگا ہے"
شانو کی بات سن کر رباب خالی نظروں سے شانو کو دیکھنے لگی
آج فیصلے کے لیے جرگہ بیٹھا تھا جہاں اس کی قسمت کا فیصلہ ہوا تھا۔۔۔ وہاں پر ذریاب خان کے خون کے بدلے،، نکاح نامہ دکھاتے ہوئے،، رباب کو ذریاب خان کی بیوہ قبول کرتے ہوئے مانگا گیا تھا۔۔۔ شانو اس کے کپڑے بیگ نے رکھ چکی تھی کیونکہ سردار اکبر خان کا ڈرائیور باہر گاڑی میں رباب کے انتظار میں کھڑا تھا
"اپھو میں آپ کو کہیں نہیں جانے دوں گا، کیو کیا آپ نے یہ گناہ جس کی وجہ سے یہ لوگ آپ کو لے کر جا رہے ہیں"
ضیغم کو جب سے معلوم ہوا تھا کہ اس کی اپھو ہمیشہ کے لئے جانے والی ہے تب سے وہ رباب کے کمرے میں ہی موجود تھا اب وہ روتا ہوا رباب سے پوچھنے لگا
"میں نے گناہ نہیں کیا ضیغم، ،، غلطی سرزد ہوگئی تھی مجھ سے جس کی سزا دی جا رہی ہے مجھے۔۔۔ مجھ سے وعدہ کرو کہ تم آگے بہت سارا پڑھو گے اور اپنی اپھو کو کبھی غلط نہیں سمجھو گے میں سب کی آنکھوں میں نفرت دیکھ لو مگر تمہارے آنکھوں میں اپنے لیے نفرت نہیں دیکھ سکتی"
رباب کو معلوم تھا وہ اب اِس حویلی سے جارہی ہے مشکل ہی تھا کہ وہ واپس آتی
اس کے پیچھے سب لوگ ہی حقارت سے اسے اس کو پکاریں گے نفرت کیا کریں گے اس لیے وہ ضیغم سے وعدہ لیتی ہوئی اسے اپنے گلے لگاکر رو پڑی
"میں آپ کو نہیں جانے دوں گا آپ کو کوئی بھی نہیں لے جاسکتا"
ضیغم اور رباب دونوں گلے لگ کر رو رہے تھے جبکہ شانو رباب کا بیگ تیار کرکے وہی کھڑی تھی
"اے بی بی جلدی دفعان ہو یہاں سے باہر جو ڈرائیور تیرا انتظار کر رہا ہے وہ تیرے باپ کا نوکر نہیں ہے۔۔۔۔ اپنا گندا وجود لے کر نکل جا اس حویلی سے"
کشمالا رباب کے کمرے میں آ کر تحقیر امیز لہجے میں بولی اور ضیغم کو اس سے الگ کیا
کشمالا کے اس طرح بولنے پر رباب اسے افسوس سے دیکھنے لگی وہ جانتی تھی کشمالا اسے شروع سے ہی ناپسند کرتی تھی مگر اس قدر نفرت اس کے دل میں موجود تھی یہ آج اس کو معلوم ہوا تھا
"توبہ ہے بھئی گندے عمل کرکے ناجائز بچہ پیٹ میں رکھ کر کس قدر ڈھٹائی سے دیکھ رہی ہے اور تُو کیو رو رہا ہے اپنی اپھو کے لیے، اچھے کردار کی عورت نہیں ہے تیری اپھو چل اپنے کمرے میں"
کشمالا قہر برساتی نظروں سے رباب کو دیکھ کر روتے ہوئے ضیغم پر چیخنے لگی اور اسے کھینچتی ہوئی کمرے سے باہر لے گئی
اپنے سفید دوپٹے کو اچھی طرح سر پر جما کر وہ کمرے سے باہر نکلی شانو اس کا بیگ پکڑے رباب کے پیچھے چل رہی تھی پہلے رباب کے دل میں آیا کہ وہ اپنے بابا سائیں کو دیکھ لے مگر یہ سوچ کر وہ باہر نکل گئی، رخصت ہوتے وقت شمشیر جتوئی کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت شاید وہ برداشت نہ کر سکے گی
اتنا بڑا حادثہ اس کی زندگی میں پیش آ گیا تھا مگر اس کا بھائی شمروز جتوئی ابھی تک شہر سے یہاں نہیں آیا تھا بقول کشمالا کے کہ شمروز اب اس کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں تھا رباب خاموشی سے باہر کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئی
****