رامین رات کی تاریکی میں بھاگتی ہوئ اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ دروازہ بند کرتے ہی وہ چند ساعتوں کے لیۓ، پشت دروازے سے ٹکاۓ اپنی تیزی سے تیرتی سانسوں کو سنے گئ۔ کئ لمحات کے لیۓ دل جیسے سکڑ کر پھیلا تھا۔۔ دل جیسے رکنے ہی لگا تھا۔۔ اسفند۔۔ اسفند لالہ کو کیا ہوگیا تھا۔۔؟ وہ ایسی باتیں کیوں کررہے تھے۔۔؟ وہ پہلے تو کبھی ایسے نہیں تھے۔۔! پھر وہ اب اسکی شادی کے عین موقع پر ایسے کیسے ہوسکتے تھے۔۔؟ یا پھر شاید وہ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے۔۔ وہ شاید۔۔ شاید۔۔ اور روانی کے ساتھ بہتے اگلے کئ لمحات تک وہ ساکت کھڑی رہی۔۔ اسکے آگے ماضی کا ایک بہت مبھم سا منظر لہرایا تھا۔۔ وہی منظر جب وہ لائبریری میں ایک کتاب ڈھونڈنے گئ تھی۔۔ رات کے پہر۔۔ ٹھنڈ سے سکڑتی۔۔ وہ جون ایلیاء کی کتاب تھی۔۔ شاید۔۔ یا پھر گمان۔۔ اسے ٹھیک سے یاد نہ تھا۔۔ یاد تھا تو بس وہ لمس جو لمحے بھر کو اسے چھو گیا تھا۔۔
دادا کی قدرے بڑی لائبریری میں دنیا جہان کی کتابیں رکھی تھیں۔ وہاں علم ایسے ایسے خزائن تھے کہ جن سے دل بھرتا تھا نہ طبیعت۔۔ وہ بھی جب لوگوں کی باتیں سن کر اکتانے لگتی تو اپنا فرار ان کتابوں میں پاتی۔۔ کورے اوراق پر دل سے لکھے گۓ الفاظ میں وہ کئ کئ دن الجھ کر اپنی ظاہری شکل و صورت کو فراموش کرنے لگتی تھی۔۔ یہی ان کتابوں کا مُنتج تھا کہ وہ آرام سے کئ ایام اپنی سانولی رنگت پر کڑھنے سے بچا کر گزار لیا کرتی تھی۔
اس رات بھی کہر برس رہا تھا۔ اسفند چند دن پہلے ہی چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔ اس کا اس سے زیادہ سامنہ نہ ہوتا تھا اور نہ اسے اسفند سے بے تکلف ہونا مناسب لگتا۔ وہ سنجیدہ لیکن دھیرج سی طبیعت کا مالک تھا۔ کوئ بھی کہیں سے بھی جا کر اس سے بات نہیں کرسکتا۔۔ وہ بھی انہی لوگوں میں سے تھی جو اس سے ذرا ایک فاصلے پر رہا کرتے تھے۔۔ لیکن اسکی موجودگی نے کبھی اسے غیر آرام دہ نہیں کیا تھا۔۔ وہ انسانوں کو غیر آرام دہ نہیں کیا کرتا تھا۔۔ شاید۔۔ شاید بس اسی لیے وہ اسے سمجھ نہیں پائ تھی۔۔
اس نے برف سے بے رحم دودھیا ٹائلز پر اپنے قدم رکھے اور پھر لائبریری کو جاتی راہداری کی جانب مڑ گئ۔۔ وہ بھی بہت سی راتوں کی مانند ایک بے کل رات تھی۔ ایک بے رحم رات۔۔ ڈستی سوچوں اور اپنی ذات کے کم مایہ ہونے کے احساس سے بھرپور رات۔۔
اس نے آہستگی سے دروازہ کھولا تھا پھر بھی پرانے طرز کے بنے اس قدِ آدم دروازے سے چرچراہٹ لمحے بھر کو ابھری تھی۔
***
اسفند دوسری جانب اپنے بستر پر دراز ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے چھت کو تک رہا تھا۔ اسے یاد تھا کہ وہ اسے کب اچھی لگنے لگی تھی۔۔ وہ اسے کب اپنی لگنے لگی تھی۔۔ ہاں اسے وہ کہر برساتی رات یاد تھی۔۔ آنے والے کئ سال بھی اُس گزری رات کو اسکی یاد کے پردے سے مٹا نہیں سکے تھے۔۔ کیونکہ شاید وہ خود بھی اس رات کو مٹانا نہیں چاہتا تھا۔۔
وہ بھی اس رات لائبریری میں کھڑا کوئ کتاب تلاش کررہا تھا جب اسے دروازہ چرچرا کر کھلنے کی آواز آئ۔ اس نے چونک کر کتاب سے سر اٹھایا تھا۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ ایک شیلف کی اوٹ میں ہوگیا۔ رات کے اس وقت۔۔ لائبریری میں کون آسکتا تھا۔۔ یکدم ہی اسکے اعصاب چوکنا ہوگۓ تھے۔۔ اس نے محتاط سے انداز میں کتاب شیلف پر رکھی اور بنا چاپ پیدا کیۓ شیلف کی اوٹ سے جھانکا۔۔ اس نے آنے والی مخلوق کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن پھر آنے والا جو کوئ بھی تھا۔۔ آگے بڑھ گیا تھا۔۔ اس نے شیشے سے ڈھکی کھڑکی کے ساتھ لگی میز کی دراز سے ریوالور نکالا اور آنکھیں سکیڑ کر آگے بڑھ آیا۔
اسکی طبیعت میں شک کی کوئ بیماری نہیں تھی اور نہ ہی وہ زیادہ حساس ہورہا تھا۔۔ بس پٹھانوں کا ماحول اس وقت میں خاصہ متشدد تھا۔ بہت سی جگہوں پر واردات کا ہونا بے حد عام سی بات تھی۔ اس نے بھی احتیاط کے پیشِ نظر پستول دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے پہلو میں کر رکھی تھی۔ اور ابھی وہ ایک شیلف سے گزرتا دوسری جانب نکلا ہی تھا کہ کسی کی سسکیوں پر ٹھہر گیا۔۔ اسکی آنکھیں، جو تیکھے سے انداز میں سکڑی ہوئ تھیں پل میں پھیلیں۔۔ اسے کسی کی سسکیوں کی توقع ہرگز بھی نہیں تھی۔۔ اس نے ایک اور شیلف پار کیا اور پھر جیسے ہی اس نے سمٹی سے لڑکی کو دیکھا تو اپنی جگہ ہی ٹھہر گیا۔۔ وہ گھٹنوں میں سر دیۓ رورہی تھی۔۔ اسکے ہاتھ میں کوئ کتاب بھی تھی۔۔
"رامین۔۔"
اسکی حیران سی آواز پر لڑکی نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔۔ اور وہ خود بھی ایک جھٹکے ہی سے اٹھی تھی۔۔ اسکا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔۔ آنکھیں رو رو کر ہلکان ہورہی تھیں۔۔ اسفند کے ابرو حیرت سے اوپر کو اٹھے۔۔ اسکی سرمئ نگاہوں نے کبھی کسی آنکھوں کو اس قدر تکلیف میں نہیں دیکھا تھا۔۔ لائبریری میں زرد سی مدھم روشنی جگمگارہی تھی۔۔ کتابوں کی خوشبو میں کسی کے آنسوؤں کی نمی بھی تحلیل ہونے لگی تھی۔
"اس وقت تم یہاں کیا کررہی ہو۔۔؟ اور رو کیوں رہی ہو۔۔؟"
اس نے حیرت سے بس یہی پوچھا تھا۔ اس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔ پھر آنکھیں رگڑ کر کانپتی آواز میں بولی۔۔
"م۔۔ میں۔۔ کتاب لینے آئ تھی۔ مجھے مل نہیں رہی۔۔"
"تو کتابوں کے نہ ملنے پر کون روتا ہے۔۔؟"
اسفند کی حیرت اپنے عروج پر تھی۔ رامین نے اسے ایسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو۔۔ "آپکو یہ نہیں پتہ۔۔"
"کتابوں کے نہ ملنے پر بھی بہت سے لوگ روتے ہیں اسفند لالہ۔۔ جب کبھی انسان ساتھ نہیں ہوتے اور کتابیں بھی اپنے الفاظ اپنے اندر ہی سمیٹ کر دبیز خاموشی اوڑھ لیتی ہیں۔۔ تب رونا آتا ہے۔۔"
اسکے جواب پر وہ مزید حیران ہوا تھا۔
"کونسا انسان نہیں مل رہا تمہیں۔۔؟"
اب کہ حیرت کے ساتھ سنجیدگی بھی گھل گئ تھی۔۔ قدیم لائبریری میں وقت اپنے مدھم اقدام ثبت کیۓ جارہا تھا۔۔
"سب مل گۓ ہیں۔۔ پھر بھی نہیں ملے۔۔"
اسکا جواب بہت گہرائ لیۓ ہوۓ تھا۔ وہ ایک پل کو ٹھہر سا گیا۔۔ پھر چند قدم آگے بڑھ آیا۔ لیکن اس سے ایک فاصلے پر رک بھی گیا۔
"طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔؟"
"ج۔۔ جی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔۔ میں جاتی ہوں۔۔ مجھے سونا چاہیۓ۔۔"
اس نے کانپتے ہاتھوں سے کتاب شیلف کے اوپری حصے میں رکھنا چاہی۔۔ لیکن عجلت کے باعث بہت سی کتابیں ایک ساتھ ہی نیچے گریں تو اسفند بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا اور پھر ساری کتابیں رامین پر گرنے کے بجاۓ اس پر گریں۔ وہ آنکھیں بند کیۓ۔۔ اسکے ساتھ لگی کھڑی تھی۔۔ اسفند کا ایک شیلف پر جما تھا اور دوسرا رامین کے گرد تھا۔۔ اس نے اسے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔۔ لیکن پھر بھی وہ ان ساعتوں میں بہت کچھ محسوس کرنے لگا تھا۔۔
جب کتابیں گرچکیں تو وہ گہرا سانس لے کر پیچھے ہٹا۔۔ اپنا ہاتھ اسکے اطراف سے ہٹا لیا۔۔ وہ اس بے وقت کی آفتاد سے خوفزدہ ہوئ وہیں جمی تھی۔۔ جب اسفند کی نگاہ اسکے اوپری شیلف پر پڑی۔۔ وہاں ایک موٹی سی کتاب غلط رکھی ہوئ تھی۔۔ اور ۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ رامین کے سر پر گرتی اس نے بے اختیار ہو کر اسکی کلائ پکڑی اور اسے اپنی جانب کھینچا۔ وہ کتاب دھم سے زمین پر آگری۔۔ رامین نے چونک کر اپنے پیچھے گری کتاب کو دیکھا تھا۔۔ پھر اگلے ہی لمحے نگاہیں اسفند کی جانب پھیریں۔۔ سرمئ ارتکاز۔۔ پانی پانی سے ارتکاز کے ساتھ گڈ مڈ سا ہوگیا۔۔
"صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ کتابوں کا ساتھ بھی اکثر زخمی کردیتا ہے۔ بلکہ۔۔ انسانوں سے زیادہ زخمی اور بے رحم ساتھ ہوتا ہے یہ تو۔۔"
اس نے آہستگی سے کہا تھا۔ پھر وہ بے ساختہ ہی پیچھے ہوگیا۔ اسکی کلائ چھوڑدی۔۔
"انسان رلاتے ہیں۔۔"
اس نے اپنے پیچھے اسکی کمزور سی آواز سنی تھی۔ پھر سنجیدگی سے اسکی جانب مڑا۔ وہ کتابیں اٹھارہی تھی۔
"کتابیں اس سے بھی زیادہ رلاتی ہیں۔۔"
اسکی بات سن کر اسکے چلتے ہاتھ ساکت ہوۓ تھے۔ یہ اسکا انداز نہیں تھا۔۔ وہ کسی سے ایک سے زائد بات نہیں کرتا تھا لیکن ابھی۔۔ اس وقت۔۔ وہ اسے جواب دے رہا تھا۔۔
"ظاہر ہے۔۔ کتابیں بھی تو انسان ہی لکھتے ہیں۔۔ بھلا ان میں بے رحمی کی کاٹ کیوں نہ ہو۔۔"
اب کہ وہ تلخ ہوئ تھی۔ اسفند پہلی بار ہولے سے مسکرایا تھا۔۔ پھر جھک کر اسکے ساتھ کتابیں اٹھانے لگا۔
"میں نے خدا کی کتاب پڑھتے بھی بہت سے لوگوں کو روتے دیکھا ہے رامین۔۔ جو زمینی نہیں آسمانی ہے۔۔ جو اتاری گئ ہے۔۔ وہ بھی رلاتی ہے۔۔ رلاۓ گی نہیں تو اتارنے والے سے کیسے جوڑے گی۔۔؟"
اگلے ہی لمحے رامین نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ بھی ایک گھٹنا زمین پر رکھے کتابیں اٹھاتا، رکا تھا۔۔
"آپ مجھے میری کتابوں سے بدظن کررہے ہیں۔۔؟"
اسکے لہجے میں۔۔ اسکی نم آنکھوں میں۔۔ ہر جگہ خفگی پھیلنے لگی تھی۔ وہ ٹھہر ہی تو گیا تھا۔۔ اس نے کبھی کسی کو ایسے خفا ہوتے نہیں دیکھا تھا۔۔
"حسنِ ظن رکھ کر بھی تکلیف ہی ملے تو کیا فائدہ بھلا!"
"بات تکلیف کی نہیں ہوا کرتی لالہ۔۔ بات محبت کی ہوا کرتی ہے۔۔ مجھے اپنی کتابوں سے محبت ہے۔۔ اور جن سے محبت ہو۔۔ انکی دی گئ تکلیف بھی قبول ہوتی ہے۔۔"
اور اس سے پہلے کہ اسفند کوئ اور دلیل رکھ کر اسے لاجواب کردیتا وہ وہاں سے بھاگ آئ۔۔ اسفند اپنی جگہ ہی جما رہا۔۔ پھر اس نے اپنی ہتھیلی نگاہوں کے سامنے کی۔۔ معصوم سا نرم لمس اسکی ہتھیلی پر سلگنے لگا تھا۔۔ اس نے پستول ایک طرف رکھا اور بالوں کو یونہی ماتھے پر مزید بکھیرا۔۔
بیڈ پر دراز اسفند نے آج جان لیا تھا کہ وہ کونسا لمحہ تھا جو اسکے اور رامین کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ اس نے دوبارہ پلٹ کر اسکی جانب دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔۔ پھر وہ باہر پڑھتا رہا اور رامین کا رشتہ کہیں اور طے ہوگیا۔۔ وہ واپس پلٹا تو حیران رہ گیا کہ وہ کسی اور کی ہوچکی ہے۔۔ چند دن تو وہ بے حد سن رہا لیکن پھر دھیرے دھیرے اس نے یہ حقیقت بھی قبول کر ہی لی کہ وہ اب اسکی نہیں ہوسکتی۔ وہ اس سے پیچھے ہوگیا۔۔ انکے یہاں رشتے توڑنا ناقابلِ قبول عمل تھا۔۔ پٹھان لوگ رشتہ کر کے توڑنے کو خود پر حرام کیۓ رکھتے تھے۔۔ اس نے بھی روایات کے آگے گردن جھکادی۔۔ لیکن پھر یہ سب لالہ رُخ کب جان گئ۔۔ کب وہ اسکی آنکھیں پڑھ گئ۔۔ کب وہ اسکی بے حد پوشیدہ سی خواہش کو یوں سامنے لے آئ۔۔ کچھ پتہ ہی نہ چلا۔۔
اس نے گہرا سانس لیا اور بوجھل دل کے ساتھ بستر پر اٹھ بیٹھا۔۔ اس میں کچھ شک نہیں تھا کہ رُخ اسکی شاگرد رہی تھی۔۔ وہ اس جیسی کیوں نہ ہوتی۔۔ لاپرواہ اور بیک وقت باریک بین۔۔!
***
اسی رات شہر کے دوسری طرف، ایک سرسبز سے بنے گھر میں تمام قمقمے رات کی تاریکی کے باعث بجھے ہوۓ تھے۔ محض گھر کی پچھلی جانب بنی بالکنی کی زرد بتی روشن تھی۔ وہ خاموشی سے تاریکی کو تک رہی تھی۔ ساتھ ساتھ اپنے چہرے پر گھر آتی لٹوں کو بھی کان کے پیچھے اڑستی رہتی۔ آج اسے خلافِ توقع نیند نہیں آرہی تھی۔۔ اسے بس ہر آن بے چینی سی محسوس ہورہی تھی۔ اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سن کر وہ چونکتی ہوئ پلٹی۔۔ اسکے پیچھے ارسل آنکھیں مسلتا کھڑا تھا۔ اسکے چہرے پر، اسے رات کے اس وقت جاگتا دیکھ کر حیرت بھی ابھری تھی۔
"تم رات کے اس وقت کیوں جاگ رہی ہو۔۔؟"
اسکے پوچھنے پر اس نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا اور پھر اسکے ساتھ سے نکلتی اپنے بستر کی جانب چلی آئ۔
"کیا ہوا۔۔؟ سو کیوں نہیں رہی ہو تم۔۔؟"
ارسل کے ایک بار پھر سے کیۓ گۓ استفسار پر وہ جھنجھلائ تھی۔
"بس ویسے ہی نیند نہیں آرہی مجھے۔۔"
اس نے قدرے بیزار ہو کر کہا لیکن وہ اب اسے بغور دیکھ رہا تھا۔۔
"اتنی چڑی ہوئ کیوں ہو۔۔؟ کوئ بات ہوئ ہے کیا۔۔؟"
"ارسل مجھے نیند آرہی ہے پلیز آپ لائٹ آف کردیں۔ رات کے وقت کبھی انسان کو نیند نہیں بھی آتی ہے۔۔"
"رات کے وقت نیند نہ آنے کی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں رُخ۔ رات کی نیند کبھی یوں بے وجہ نہیں اڑا کرتی۔۔"
وہ بھی لائٹ آف کر کے اب اپنے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ کمرے میں پھیلی تاریکی کے باعث وہ اسے بہت مدھم سی دکھائ دے رہی تھی۔
"کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔۔"
اسکی چھوٹی سی آواز ابھری۔ پھر بہت باریک سی نمی اسکی آنکھوں میں تیرنے لگی۔ اسے جانے کیوں بے وقت رونا آرہا تھا۔ آنکھیں رگڑ کر وہ جیسے ہی لیٹنے لگی تو ارسل نے اسکی کلائ پکڑ کر اسے روک لیا۔ وہ ٹھٹک کر رک گئ۔۔ پھر وہ ساتھ رکھے لیمپ کی لائٹ جلاتا اسکے سامنے بیٹھا۔۔ اب کہ رُخ کی آنکھوں میں چمکتی نمی واضح تھی۔
"تم ٹھیک ہو رُخ۔۔؟"
اس نے پوچھا اور رُخ نے کمزور سا سر بھی ہلادیا۔
"مجھے تو ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ کیا ہوا ہے۔۔؟"
وہ بہت سنجیدہ تھا۔ رُخ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔
"کیوں رونا آرہا ہے اتنا۔۔؟"
اس نے ایک ہاتھ بڑھا کر اسکے رخسار بھی خشک کیۓ تھے۔
"گھر والے یاد آرہے ہیں۔۔؟"
اسکے پوچھنے پر اس نے ایک بار پھر آہستگی سے سر ہلایا تھا۔ وہ ایسے روتے ہوۓ ارسل کو بالکل چھوٹی سی لگی۔ کیونکہ وہ روتی جو نہیں تھی۔۔ رلاتی جو تھی۔۔
"میں تو سمجھا تھا کہ جھانسی کی رانی کو محض رلانا آتا ہے لیکن اوہ۔۔ دیکھو۔۔ اسے تو رونا بھی آتا ہے۔۔"
اسکی بات سن کر وہ روتے روتے ہی ہنسی تھی۔ چمکتے آنسوؤں کے ساتھ نم سی ہنسی لیۓ وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔
"میرا مزاق اڑارہے ہیں آپ۔۔؟"
"میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں رات کے اس پہر تمہارا مزاق اڑاؤنگا۔۔ مجھے اس کمرے میں ابھی زندہ رہنا ہے۔۔ ایک صوفہ مل گیا ہے سونے کے لیۓ غنیمت نہیں۔۔ اگر تم نے یہ بھی مجھ سے چھین لیا تو پھر میں غریب کہاں جاؤنگا۔۔؟"
اور اسکی بیچاری سی شکل دیکھ کر وہ یکدم اور ہنس پڑی تھی۔ ارسل اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔
"اتنی بھی ظالم نہیں ہوں اب میں۔۔"
اس نے زکام زدہ سی سانس اندر کھینچ کر کہا تھا۔ ارسل نے "بالکل" والے انداز میں سر ہلایا تھا۔۔
"سچ بتاؤ۔۔ کیوں رو رہی تھیں۔۔ دیکھو مجھے عجیب لگتا ہے جب کوئ میرے آس پاس روتا ہے تو۔۔ یہ بھی عجیب سی بات ہے لیکن مجھے بھی آگے والے کو دیکھ کر رونا آجاتا ہے۔۔ اور تم نے رُخ۔۔ تم نے ابھی مجھے روتے ہوۓ نہیں دیکھا۔۔ میں بہت خوفناک لگتا ہوں روتے ہوۓ۔۔ تم چاہتی ہو تمہاری رات کی نیند واقعی اڑجاۓ۔۔"
اور اب اس کی ہنسی ہرگز بھی نہیں رک رہی تھی۔ وہ چہرہ چھپا کر ہنسنے لگی تھی۔ پھر ہاتھوں سے چہرہ اٹھایا۔۔ سامنے بیٹھے میمنے کو دیکھا۔۔ وہ بہت کئیرنگ تھا۔۔ کوئ تو اسے بتاۓ کہ وہ ایسے نہ کرے۔۔ وہ ایسے کرے گا تو کیسے چلے گا۔۔؟
"میں بس رامین کی وجہ سے پریشان تھی۔ میں آج تایا کے گھر گئ تھی انہیں بلانے۔۔ تو میں نے دیکھا ارسل کہ وہ۔۔ وہ اپنے کمرے میں جاۓ نماز پر بیٹھے رو رہے تھے۔۔ میں نے انہیں ہمیشہ بہت۔۔ بہت مضبوط دیکھا تھا۔۔ انہوں نے کبھی کسی بھی دکھ پر اف تک نہیں کہا لیکن آج۔۔ آج انہیں اس قدر شکستہ دیکھ کر۔۔ میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا ارسل۔۔ میری ہمت نہیں ہوئ کہ میں اندر جا کر انہیں بلاسکوں۔۔ بس تب سے میرے دل پر بوجھ ہے۔۔ مجھے پتہ نہیں کیوں رونا آۓ جارہا ہے۔۔"
اسکی آواز ایک بار پھر سے بھرائ تو ارسل نے اپنے ہاتھ میں قید اسکا ہاتھ ہولے سے دبایا۔ پھر مسکرا کر اسے دیکھا۔۔
"ہوتا ہے ایسے۔۔ پتہ ہے۔۔ میری چھوٹی پھپھو تھیں نازنین۔۔ بہت پیار کرتی تھیں مجھ سے وہ۔۔ میں انکے لیۓ بالکل چھوٹا سا تھا۔۔ بلکہ دوسرے الفاظ میں کہنا چاہیۓ کہ انہوں نے ہی بڑا کیا تھا مجھے۔۔ وہ بابا کی اکلوتی بہن تھیں۔۔ چھوٹی تھیں تو انکی شادی بھی نہیں ہوئ تھی۔۔ میں انکے بغیر کچھ کھاتا نہیں تھا۔۔ کہیں جاتا نہیں تھا۔۔ کچھ کرتا نہیں تھا۔۔ اور پھر ایک دن۔۔ وہ مرگئیں۔۔"
اسے لگا گویا اسکے اوپر سے کوئ ٹرک سا گزر گیا ہو۔ وہ کتنے آرام سے بتارہا تھا۔۔ شاید وہ اپنے حصے کا غم رو چکا تھا۔
"ک۔۔ کیوں۔۔ کیسے۔۔؟"
اس نے بے یقینی سے بس یہی پوچھا تھا۔ ارسل کی آنکھوں میں سرخی سی ابھری۔۔
"کسی نے قتل کردیا تھا انکو۔۔"
اف۔۔ ہر جانب جیسے سرخی سی پھیلنے لگی تھی۔ وہ آنکھیں میچ کر یکدم پیچھے ہوئ تھی۔ اسے جیسے سانس نہیں آرہا تھا۔۔
"بابا کے زمینی مسائل کے باعث انکے دشمنوں نے پھپھو کو نشانہ بنایا اور انہیں قتل کردیا۔۔ پھر کیس چلتا رہا۔۔ قصاص لیا جاتا رہا۔۔ پھپھو واپس نہیں آئیں بس۔۔"
آخر میں وہ مسکرایا تھا۔۔ وہ ارسل تھا ناں۔۔ وہ مسکرا سکتا تھا۔۔ اس نے گہرے گہرے سانس لے کر دل پر جمی کثافت جیسے باہر نکالی تھی۔
"بہت بری طرح ٹرماٹائز ہوگیا تھا میں۔ کئ دنوں تک ہاپسٹل میں داخل رہا۔ اور پھر میں ہر ساۓ سے خوفزدہ رہنے لگا۔۔ مجھے بندوقوں سے خوف آنے لگا۔۔ مجھے فائر کی آواز پر دورہ پڑ جاتا تھا۔۔ کئ کئ دنوں تک بیسمنٹ میں چھپ کر روتا رہا تھا میں لیکن پھر ۔۔ پھر سب ٹھیک ہوگیا۔۔ زندگی اپنی جگہ واپس آگئ۔۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری تکلیف۔۔ تم اپنے تایا سے بہت مانوس ہو۔۔ ان سے بہت گہرا رشتہ ہے تمہارا اسی لیۓ اس طرح انہیں دیکھ کر ہرٹ ہونا نارمل ہے تمہارے لیۓ۔۔بٹ تم خوش نصیب ہو۔ تمہارے تایا تمہارے پاس ہیں۔ تم انکے لیۓ بہت کچھ کرسکتی ہو۔۔ اور جو تم کرسکتی ہو وہ تمہیں کرنا چاہیۓ۔۔ "
وہ خاموشی سے دیکھتی رہی تھی اسے۔ جبھی وہ اتنا ڈرتا تھا۔۔ یہ ماضی تھا اسکا۔۔ بھلا وہ خوفزدہ کیوں نہ رہتا۔۔
"آپ اسی لیۓ ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔۔؟"
اسکے پوچھنے پر وہ سر کھجاتا ہنسا تھا۔ پھر گردن اثبات میں ہلائ۔
"اسی لیۓ میں تمہارے اسفند اور فرقان لالہ جتنا بہادر نہیں ہوں۔ میں ڈر جاتا ہوں۔۔ ایک پھپھو کو کھودینے کے خوف نے مجھے ہر اس چیز سے خوفزدیا کردیا جسے میں کھوسکتا ہوں۔ میں شاید حساس بھی اسی لیۓ ہوں۔۔ مجھے لوگوں کے کھو جانے سے ڈر لگتا ہے۔"
اس نے کبھی اتنا پیارا انسان نہیں دیکھا تھا۔
"اب تم سوجاؤ۔ اور ٹینشن نہیں لو۔ سب اچھا ہوگا۔ اگر تایا یاد آرہے ہیں تو میں لے جاؤنگا تمہیں صبح۔۔ بات کرلینا ان سے۔۔ بات کرلینے سے ہر مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔"
وہ اٹھا اور جیسے ہی لیمپ کی لائٹ آف کرتا پلٹنے لگا، رُخ نے اسکے کرتے کی آہستین تھام لی۔ وہ چونک کر اسکی طرف مڑا۔
"تھینکس ارسل۔۔ آپ اچھے ہیں۔۔"
وہ ہنسا تھا۔ پھر سر اثبات میں ہلاتا اپنے صوفے کی جانب بڑھ آیا۔ رُخ نے بھی آہستہ سے اپنا سر تکیۓ سے ٹکایا اور سونے لیٹ گئ۔۔ لیکن اب نیند آنکھوں سے بہت دور تھی۔۔ ارسل کی ہنسی۔۔ ارسل کی آنکھوں۔۔ اور اسکی باتوں نے رُخ کی نیند بہت چپکے سے چرالی تھی۔ پگھلتی رات کی تاریکی میں دل روشن ہونے لگے تھے اور زندگی۔۔ اپنے انداز سے چلنے لگی تھی۔
***
دن کی واضح روشنی میں افغان کے لاؤنج میں بہت سے مرد براجمان تھے۔۔ رامین کے سسرالیوں کی جانب سے رشتے کا انکار آچکا تھا۔ سب ختم ہوگیا تھا۔ سانسیں رک رک کر آتی تھیں اور دل تھا کہ دھڑکنا بھول گیا تھا۔ رامین ویران آنکھیں لیۓ فرقان لالہ کے ساتھ بیٹھی ہوئ تھی اور ارمغان سر دونوں ہاتھوں میں گراۓ بمشکل خود کو ڈھے جانے سے روکے ہوۓ تھے۔۔ بس وہی نظر نہیں آرہا تھا کہ جسکی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹا تھا۔۔ رامش اور جنید، گل کے ساتھ کچن میں کھڑے باہر کے سنجیدہ سے ماحول سے خوفزدہ تھے۔
"اسفند لالہ کہاں ہیں۔۔؟"
رامش نے ہلکی سی آواز میں پوچھا تو جنید نے لاعلمی کے باعث کندھے اچکادیۓ۔
"کیا ہمیں رُخ آپی کو بتادینا چاہیۓ۔۔"
اس نے ایک بار پھر پوچھا لیکن گل کی جانب سے اسے کندھے پر ایک دھپ پڑی تھی۔
"پاگل ہو کیا۔۔ اسے کیوں پریشان کررہے ہو بتا کر۔ پہلے ہی یہاں سب پریشان ہیں کیا یہ کافی نہیں ہے۔۔"
ابھی انکی بحث چل ہی رہی تھی کہ داخلی دروازے سے اسفند داخل ہوا۔ سیاہ جینز پر بھوری جیکٹ پہنے۔۔ فریش سا۔۔ وہ آ کر ارمغان کے عین سامنے پنجوں کے بل بیٹھا تھا۔ سب نے ایک ساتھ ہی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
"اسفند۔۔ مجھے کوئ با۔۔"
"میں رامین سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ماموں۔۔"
اور ارمغان کی بات تو منہ میں ہی رہ گئ تھی۔ فرقان جو پیچھے ہو کر بیٹھے تھے اگلے ہی پل سیدھے ہو بیٹھے۔۔ فاطمہ اور افغان نے بے یقینی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔ کچن سے جھانکتے رامش، جنید اور گل اپنی جگہ جم سے گۓ تھے۔ اور رامین۔۔ وہ پتھر کی ہوئ لاؤنج کے صوفے پر بیٹھی ساکت ہوگئ تھی۔۔
"اسفند۔۔ دماغ درست ہے تمہارا۔۔ کیا کہہ رہے ہو یہ۔۔!!"
سب سے پہلی دھاڑ فرقان کی جانب سے موصول ہوئ تھی۔ اس نے انتہائ سکون سے چہرہ موڑ کر انہیں دیکھا تھا۔ پھر مسکرا کر ارمغان کی طرف دیکھا جو ساکت سے بیٹھے تھے۔
"ماموں۔۔ آپکو مجھ جیسا داماد اس پورے شہر میں تو کیا اس پوری دنیا میں نہیں ملے گا۔۔ کیا ہوا جو رامین کا رشتہ وہاں نہیں ہوسکا۔۔ وہ لوگ قابل نہیں تھے اسکے۔۔ لیکن میں اپنے گھر کی عزت رکھنا چاہتا ہوں ماموں۔۔ میں بہت عزت کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں رامین سے۔۔"
کیا کبھی تم نے اتنا سعادت مند بچہ دیکھا ہے۔۔ ؟ نہیں ناں۔۔ اس سعادت مند بچے نے بہت بری طرح فرقان کا دماغ گھمادیا تھا۔ انکا بس چلتا تو اسے بھگو بھگو کر مارتے۔۔ یہ خر۔۔!
"کیا آپکو بھروسہ نہیں مجھ پر ماموں۔۔؟"
اس نے انکی جانب چھائ گہری خاموشی دیکھ کر بہت سکون سے پوچھا تھا۔ لیکن پھر اگلے ہی پل وہ ساکت رہ گیا۔۔ وہ اسے اٹھا کر خود سے لگا رہے تھے۔۔ وہ شاید رو بھی رہے تھے۔۔ یکدم ہی لاؤنج میں زندگی سی دوڑ گئ تھی۔ فرقان نے گہرا سانس لیا تھا۔۔ اس اسفند کے بچے کو تو وہ بعد میں دیکھنے والے تھے۔۔ اب افغان بھی اٹھ کر اسے گلے لگارہے تھے۔ جنید، رامش اور گل خوشی سے تمتماتے چہرے لیۓ رامین کی جانب بڑھے تھے۔ فاطمہ اب روتی ہوئیں رامین کو ساتھ لگارہی تھیں۔ انہوں نے بہت تکلیف دیکھی تھی رامین کے رشتے کو لے کر۔۔ اب اس تکلیف کا ازالہ ہورہا تھا۔ ازالہ ہونے جارہا تھا۔۔ بھلا وہ خوش کیوں نہ ہوتے۔۔
"لیکن انہوں نے اچانک ایسے انکار کیوں کردیا رشتے سے۔۔؟"
جب سب لاؤنج میں ایک ساتھ بیٹھے تو رامش نے پوچھا۔ اسفند نے بہت معصومیت سے کندھے اچکاۓ تھے۔ جیسے اسے کیا پتہ۔۔ اسے کیا پتہ ہوسکتا تھا بھلا۔۔ ابھی تو اس جیسا معصوم کوئ تھا ہی نہیں اس روۓ زمین پر۔۔
رامین فاطمہ کے ساتھ اٹھ کر جاچکی تھی اور سب مرد حضرات کو گل چاۓ پیش کررہی تھی۔ آج انکے چہروں سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔
"میری بیٹی کو بہت خوش رکھنا اسفند۔۔ وہ بالکل پھولوں جیسی ہے۔ میں اسے تمہیں سونپ رہا ہوں۔۔ بہت جلدی میں سونپ رہا ہوں لیکن میرا دل کہتا ہے کہ تم ہی اسکے لیۓ بہترین انتخاب تھے۔۔ تم ہی لائق تھے اسکے۔۔"
ارمغان نے کہہ کر اسے ایک بار پھر سے گلے لگایا تو وہ آسودگی سے مسکرادیا تھا۔ اسے خود بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ اسے اتنی جلدی اس رشتے کے لیۓ قبول کرلیا جاۓ گا۔۔
جب محفل برخاست ہوئ تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔ فرقان بھی اجازت لیتے اسکے پیچھے ہی آۓ تھے۔ پھر انیکسی کا دروازہ بند کرتے ہی وہ کھولتے ہوۓ اسکی جانب مڑے تھے۔
"کیا تھا یہ سب۔۔؟ اور کیا کیا ہے تم نے جاوید کے ساتھ۔۔؟"
"میں نے کیا کیا ہے۔۔؟ اس نے انکار کردیا رشتے سے بس۔۔ "
کندھے اچکا کر مزے سے کہا تو فرقان کا دل کیا اپنا سر دیوار میں مارلیں۔
"جیسے مجھے تو پتہ ہی نہیں ہے کہ تم نے اسکے ساتھ کیا کیا ہوگا۔۔ باز آجاؤ تم اسفند۔۔"
"جب پتہ ہے تو پھر پوچھ کیوں رہے ہیں۔۔؟ مجھے اس مسئلے سے ایسے ہی ڈیل کرنا تھا۔۔ "
وہ اگلے ہی پل اسکے قریب چلے آۓ تھے۔ پھر غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔ ہلکا سا مسکراۓ۔۔ وہ پانی کی بوتل منہ کو لگاۓ ہی ان سے کندھے اچکا کر پوچھنے لگا تھا "کیا۔۔؟"
"رامین کو پسند کرتے تھے تم۔۔۔ نہیں۔۔؟"
اور اگلے ہی پل۔۔ پانی اسکے منہ سے ابلا تھا۔ اس نے کھانستے ہوۓ بے یقین سے سر اٹھا کر فرقان کی جانب دیکھا۔۔
"لیونے (پاگل) انسان۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے مجھے پتہ نہیں چلے گا۔"
"لیکن آپکو کیسے۔۔؟"
"چل چل۔۔ اب زیادہ بن مت۔۔ شادی ہے اگلے ہفتے تمہاری۔۔ تیاری کرلو۔۔ اور ہاں۔۔ اگر رامین کو ذرا بھی تکلیف ہوئ تو سانول کا اگلا ہدف تم ہوگے۔۔"
اسے بے یقین انیکسی میں چھوڑ کر وہ باہر کی جانب بڑھے تو اس نے جھرجھری لے کر آہستین سے منہ صاف کیا۔ پھر مسکرادیا۔۔ یہ لالہ کو کس نے بتادیا۔۔! اب کوئ اسے کیا بتاتا کہ لالہ اسکا باپ تھا۔۔
***