ارسل نے آمنہ کے پیچھے عجلت میں دوڑتے ہوۓ اس بات کو بالکل فراموش کردیا تھا کہ اسکی ایک عدد بیوی لفٹ میں تنہا اسے اس لڑکی کے پیچھے بھاگتا دیکھ چکی ہے۔ اسے ابھی صرف آمنہ کی پرواہ تھی۔۔ اسے ابھی محض اسکے آنسوؤں نے کمزور کردیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسکی کلائ تھامی تو وہ لچکتی ڈال کی مانند اسکی جانب کھنچی چلی آئ۔ اسے بے ساختہ ہی رُخ کی سخت گرفت یاد آئ تھی۔
"اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ارسل۔۔؟ اب آپ کو مجھ سے کیا سروکار ہے۔۔؟ میری زندگی کے کئ لمحات پر تو آپ قابض رہ چکے ہیں۔ کیا اب بھی آپ مجھے اپنی قید میں رکھنا چاہتے ہیں۔ تب جب آپکی بیوی آپکا، انتظار کررہی ہے۔۔!"
اور ارسل نے بے اختیار ہی اسکی کلائ چھوڑ دی تھی۔ دو قدم پیچھے ہٹا۔ پھر بہت دکھ سے آمنہ کے گرتے آنسوؤں کو دیکھا۔
"تم خود کو ایسے تکلیف دوگی تو میں اپنے آپ کو کیسے معاف کرپاؤنگا آمنہ۔۔؟"
اس کے کہنے پر وہ ایک بار پھر سے بکھر کر رونے لگی تھی۔ پھر پانی سے بھری آنکھیں اٹھائیں۔
"آپ مجھے بھول جائیں ارسل۔ مجھے لگتا ہے کہ آپکا محض ایک یہ قدم ہم دونوں کو ہر قسم کی زنجیر سے آزاد کردے گا۔ وہ آپکی بیوی ہے ارسل۔۔ اس پر آپکا حق ہے۔۔ کسی بھی عورت سے زیادہ۔۔ آپ مجھے تھام کر اسے چھوڑ دیں گے تو کیا خوش رہ پائنگے۔۔؟ کیا کبھی آپ نے کسی کا گھر اجاڑ کر کسی کو سکھ سے رہتے دیکھا ہے۔۔ ؟"
وہ اچھی تھی۔۔ اتنا ارسل کو اندازہ تھا۔۔ لیکن وہ اتنی نیک دل ہوگی۔۔ اسکا ارسل کو اندازہ ہر گز نہیں تھا۔
"آمنہ میں نے۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا تم۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں تم س۔۔"
لیکن آمنہ نے اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا تھا۔ پھر آنکھیں رگڑ کر اسے دیکھا۔ مضبوطی سے مسکرائ۔۔
"آپکی شرمندگی اس لڑکی سے آپکی جڑی زندگی کو الگ نہیں کرسکتی ارسل۔ آپکی شرمندگی میری تکلیف کو کم نہیں کرسکتی۔ آپکی شرمندگی یا پھر گلٹ کا کوئ بھی عنصر میرے لیۓ کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ اب آپ اپنی بیوی کے ہیں۔۔ بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے بھول جائیں اور اپنی نئ زندگی کا آغاز کریں۔ رہی محبت۔۔ تو وہ اکثر نظزانداز کیۓ جانے پر خاموش ہوجایا کرتی ہے۔ انسان کو بس صبر سے اپنی پیوند لگی محبت کو وقت دینا ہوتا ہے۔۔ بس۔۔!"
ارسل اپنی جگہ ہی جم سا گیا تھا۔ آمنہ کی آنکھوں میں جما گلابی سا پانی اسکے دل پر گررہا تھا۔ ان آنکھوں سے کبھی وہ وابستہ رہا تھا۔۔ بھلا وہ ان کو اتنی جلدی کیسے بھول سکتا تھا۔۔!
دوسری جانب آمنہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ لمحے بھر کو ٹھہر گئ۔ پھر اسکی جانب اپنا سراپا پھیرا۔ بھیگی پلکوں تلے اسکے آنسو چمک رہے تھے۔
"آئندہ مجھے کبھی پہچاننے سے بھی انکار کردیجیۓ گا ارسل۔ میں اس بوجھ کو اب مزید نہیں اٹھا سکتی۔ میرا راستہ کبھی مت روکیۓ گا۔۔"
اس نے کہا اور پھر آنکھوں سے گرتے آنسوؤں کو رگڑتی وہاں سے بھاگتی چلی گئ۔ وہ اس سرد راہداری میں تنہا کھڑا رہ گیا۔ اسکی بھوری آنکھیں گہری آزردگی کی زد میں تھیں۔ پھر وہ سمجھ کر سر ہلاتا واپس پلٹا۔ اب محض اس راہداری میں گزری باتوں کی گونج تھی۔ خاموش باتیں۔ جو اب تک در و دیوار سے ٹکرا کر واپس پلٹ رہی تھیں۔
***
پچھلی نشست پر بیٹھی اب وہ خالی خالی نگاہوں سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ایک جانب ہیلمٹ بھی رکھا تھا اور رامو کاکا بہت دھیرج سے گاڑی چلا رہے تھے۔ وہ گھر میں داخل ہوئ تو دیکھا سمیرا بیگم اور دادی ساتھ بیٹھیں باتیں کررہی تھیں۔
وہ افسردہ سی مسکان لیۓ ان تک چلی آئ۔
"تم کہاں چلی گئیں تھیں بیٹا۔۔؟"
"وہ آنٹی دراصل ارسل کی فائل گھر پر رہ گئ تھی۔ بس وہی دینے گئ تھی انہیں آفس۔ رامو کاکا جارہے تھے تو سوچا میں بھی ہو آؤں۔"
اس نے انکے عین سامنے بیٹھتے ہوۓ مسکرا کر کہا تو وہ بھی سمجھ کر سر ہلانے لگی تھیں۔
"یہ ارسل آج کل آفس کے چکروں میں ٹھیک سے کھانا نہیں کھارہا لالہ رُخ۔ بچے ذرا اسکے کھانے پر توجہ دو۔ پہلے ہی وہ بہت چور ہے کھانے کا۔۔"
دادی کے کہنے پر اس نے سر ہلایا تھا۔ پھر انہیں دیکھا۔
"جی دادی۔۔ میں اب سے خیال رکھونگی انکا۔۔"
پھر وہ سمیرا کے ساتھ لگ کر کچن میں کھانا بنواتی رہی۔ اسے ابھی خود کو بے حد مصروف رکھنا تھا۔ اگر وہ فارغ ہوتی تو دل و دماغ کھولتا رہتا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ اپنا وقت سمیرا کی مدد کروانے میں لگادیتی۔ سمیرا کی طبیعت بالکل رمشہ جیسی تھی۔ ملنسار اور آسان۔۔ کوئ پیچیدہ بات یا پھر ساسوں کے عمومی رویے کے برعکس، انکا رویہ بہت پیارا تھا۔ اور شکر جو اسے کوئ شمیم آنٹی جیسی ساس نہیں مل گئ۔۔ پھر یہ تو اللہ ہی جانتا تھا کہ وہ ایسی ساس کے ساتھ کیا کرتی۔۔!
سمیرا ساتھ ساتھ اسے بتا بھی رہی تھیں کہ آج ، انکی بھائ کی بیٹیاں آنے والی ہیں۔ اسی لیۓ وہ کچن میں کھڑیں اس سمے خاص اہتمام پر توجہ دے رہی تھیں۔ جب مہمانوں کے آنے کا وقت ہوا تو انہوں نے اسے بصد اصرار فریش ہو کر کپڑے بدلنے کے لیۓ کمرے میں بھیج دیا۔ اسکا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی انہیں انکار کرنا اسے درست نہ لگا۔ وہ کمرے کی جانب پلٹی تو دیکھا کہ مغرب کا اندھیرا ہر سو پھیلنے لگا تھا۔ اس نے نہا کر ہلکی سیاہ سلک کی فراک زیب تن کی اور ابھی وہ اپنے بالوں کو بلو ڈرائ کرنے کے بعد اٹھا کر باندھ ہی رہی تھی کہ رمشہ کمرے میں داخل ہوئ۔ وہ جھجھک کر وہیں دروازے کے پاس ٹھہر گئ تھی۔ اس نے اسکا جھجھکنا دیکھا تو لمحے بھر کو اسکی جانب مڑی۔
"ارے رمشہ۔۔ آؤ ناں۔۔ وہاں کیوں کھڑی ہو۔۔؟"
وہ پاس چلی آئ۔ رُخ نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا۔ وہ اس سے بے تکلف نہیں تھی۔ شاید عمر کے فرق کے باعث رمشہ اس سے جھجھکتی تھی۔
"وہ۔۔ بھابھی امی آپکو۔۔۔"
"پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں کیا ہوا ہے۔۔؟ مجھ سے ایسے دور دور کیوں رہتی ہو۔۔؟"
اسکے براہ راست پوچھنے پر رمشہ کے رخسار لمحے بھر میں گلابی ہوۓ تھے۔ پھر اس نے جلدی سے سر نفی میں ہلایا۔
"نہیں بھابھی۔۔ میں۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔۔ کہ کہیں آپکو میری کوئ بات بری نہ لگ جاۓ۔۔ آپکو غصہ زیادہ آتا ہے ناں۔۔"
اوہ۔۔ تو یہ بات تھی۔۔ اس نے مسکرا کر چہرہ سنگھار آئینے کی جانب پھیرا۔ پھر ہاتھ میں تھاما برش اسکی جانب بڑھایا۔ رمشہ چونک کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
"میرے بال سلجھا دو پلیز۔۔ مجھ سے سلجھ نہیں رہے۔۔ ہاتھ دکھ گۓ ہیں میرے۔۔"
اسکے ہلکے پھلکے سے انداز پر وہ مسکراتے ہوۓ آگے بڑھ کر اسکے نرم بالوں میں برش چلانے لگی تھی۔
"اور میری بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ تم بہن ہو میری چھوٹی۔ کوئ بھی بات ہو۔۔ کوئ بھی مسئلہ ہو۔۔ مجھ سے شیئر کرنا۔ کوئ بھی تنگ کرے، بدتمیزی کرے تو اسے میرے حوالے کردینا۔ پھر میں جانوں اور وہ بندہ۔۔ اور دوسری بات۔۔ یہ سچ ہے کہ مجھے بہت غصہ آتا ہے۔۔ تم پر بھی آجاۓ گا اگر تم کچھ کریزی کروگی۔ لیکن پھر تمہیں اس مصیبت سے نکالونگی بھی میں ہی۔ اسی لیۓ اب مجھ سے ڈرنا نہیں ہے اوکے۔۔ میں تمہاری پارٹنر ان کرائم ہوں اب سے۔۔"
اس کے کہنے پر رمشہ ہنس پڑی تھی۔ اسے ہنستا دیکھ کر رُخ کا اپنا دل بھی ہلکا ہوگیا تھا۔
پھر رمشہ کچھ سوچ کر لمحے بھر کو خاموش سی ہوئ۔ اسکی جانب دیکھا جو بالوں کو کندھے پر ایک جانب ڈال رہی تھی۔
"بھابھی وہ۔۔"
"ہاں کہو۔۔"
وہ اب کندے پر سنہرے رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رہی تھی۔
"بھابھی جو لڑکیاں آرہی ہیں۔۔ ان میں سے ایک کا نام۔۔ زرتاج ہے۔۔ وہ۔۔ وہ بھائ کو۔۔"
اور اسکا دوپٹے کو ٹھیک کرتا ہاتھ لمحے بھر کو ساکت ہوا تھا۔
"وہ ارسل کو کیا۔۔؟"
"وہ بھائ کو بہت غیر آرام دہ کرتی ہیں۔"
اور اسکے تنے ابرو اگلے ہی پل ڈھیلے پڑگۓ تھے۔ اس نے سمجھ کر سر ہلایا اور پھر رمشہ کو سنگھار آئینے میں دیکھا۔۔
"آنے دو اس زرتاج کو۔۔ دیکھ لیں اسے بھی کہ وہ کس کھیت کا آلو ہے۔۔"
اور اسکی بھونڈی سی مثال پر رمشہ بے اختیار ہنس پڑی تھی۔ پھر باہر اٹھتے شور کے باعث ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔
"تم ابھی جانتی نہیں ہو اپنی بھابھی کو۔ جب جان جاؤگی تب پناہ طلب کروگی۔۔ چلو۔۔ آج دیکھ لیتے ہیں اس زرتاج محترمہ کو بھی۔۔"
کمرے سے باہر نکلتے وقت وہ اب کہ مسکرا رہی تھی۔ کیونکہ وہ لالہ رُخ تھی۔ وہ مسکرانا جانتی تھی۔۔ تب بھی جب اسے لگتا تھا کہ وہ ہرگز بھی مسکرا نہیں سکتی۔
***
اسکے سر پر اعصابی تھکن سوار تھی۔ گھر میں بھی وہ مغرب کے بعد داخل ہوا تھا۔ لیکن پھر لاؤنج میں بیٹھے مہمانوں کو دیکھتے ہی وہ ذہنی طور پر کرّاہا تھا۔ زرتاج کی پرشوق نگاہوں کو نظرانداز کرتا وہ آگے بڑھ آیا۔ پھر جھک کر خالہ کو سلام کرتا سر پر پیار لینے لگا۔
"لائیں ارسل۔۔ اپنا سوٹ کیس مجھے دیں اور آپ فریش ہوجائیں۔۔ پھر میں کھانا لگاتی ہوں آپکے لیۓ۔۔ کیونکہ باقی سب تو کھاچکے۔۔"
اسکے میٹھے سے دھیمے لہجے پر جہاں ارسل نے اسے آنکھیں پوری کھول کر دیکھا تھا وہیں رمشہ نے اپنی ہنسی دبائ تھی۔ زرتاج نے تلملا کر پہلو بدلا۔ وہ اسے حیرت سے تکتا کمرے کی جانب مڑا تو وہ بھی اسکے ساتھ ہی کمرے تک آئ۔ ساتھ ساتھ وہ مسکرا کر اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی کررہی تھی۔
"آپ ٹھیک ہیں رُخ۔۔؟"
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے پوچھا تو رُخ نے اسکا سوٹ کیس بیڈ پر رکھا اور اسکی جانب پلٹی۔ پھر خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا۔ وہ بے ساختہ ہی دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔ وہ اسکے قریب آئ تھی۔۔ پھر اسے بازو سے جکڑ کر مزید اپنے قریب کیا تو وہ چھوٹے بچوں کی طرح اپنی آنکھیں بند کرگیا۔
"اگر۔۔ کوئ لڑکی پریشان کررہی تھی تو بتانا چاہیۓ تھا ناں ارسل۔۔! میں دیکھتی ہوں اس چڑیل کو ابھی۔۔ دیکھ کیسے رہی تھی آپکو۔۔ بے باک نظروں سے۔۔ یاد رکھیں ارسل۔۔"
ارسل نے ایک آنکھ کھول کر اسکا تپتا چہرہ دیکھا تھا۔
"ایسی نظروں سے صرف آپکو میں دیکھ سکتی ہوں۔۔ اور کوئ دیکھے گا تو وہ بچے گا نہیں میرے ہاتھوں سے۔۔"
اس نے اسکا بازو چھوڑا اور باہر کی جانب بڑھ گئ۔ ارسل نے دل پر ہاتھ رکھ کر گہرا سانس لیا تھا۔ خدایا۔۔ یہ لڑکی پاگل ہے۔۔! یہ مجھے بھی پاگل کردیگی۔ ابھی تو آمنہ کا غصہ نکالا نہیں ہے محترمہ نے۔۔ پتہ نہیں میرا آگے کیا بننے والا ہے۔۔!
اس نے پریشانی سے اپنا اترا چہرہ آئینے میں دیکھا اور پھر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
***
وہ کچن کی جانب چلا آیا تھا۔ پھر خاموشی سے کرسی کھینچ بیٹھا۔ وہ اب مسکرا کر اسکے سامنے کھانا لگا رہی تھی۔ ارسل نے اسکی مسکراہٹ دیکھ کر سر دھنا تھا۔ پھر کھانے کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ زرتاج کچن میں چلی آئ۔ وہ اک ادا سے اسکے برابر رکھی کرسی پر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ رُخ کی آواز پر ٹھہر گئ۔
"زرتاج۔۔ یہ میری جگہ ہے۔۔ پلیز آپ ذرا دوسری کرسی پر بیٹھیں۔۔ "
ایک دم ہی کچن میں آکورڈ سی خاموشی پھیل گئ تھی۔ جس سے لالہ رُخ کو تو خیر سے کوئ فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی کبھی ارسل حیران ہوتا تھا کہ وہ اعصابی طور پر کس قدر مضبوط اور مستحکم تھی۔ کوئ اسے گڑبڑا نہیں سکتا تھا۔ اور وہ یہ بات بخوبی جانتی تھی۔
دوسری جانب زرتاج کا چہرہ لمحوں ہی میں سرخ ہوا تھا۔ لیکن پھر بمشکل لبوں پر مسکراہٹ سجاۓ وہ برابر رکھی کرسی پر جا بیٹھی۔ ارسل نے ماحول کو ہلکا پھلکا کرنے کے لیۓ زرتاج کو مسکرا کر کھانے کی پیشکش کی تھی۔
"نہیں ارسل آپ کھائیں۔ میں تو ابھی کھا کر فارغ ہوئ ہوں۔۔"
مسکرا کر ہلکی سی آواز میں کہتی وہ لالہ ر ُخ کو اس سمے زہر جیسی لگی تھی۔ وہ اس کے عین سامنے بیٹھی تھی۔ ٹھنڈی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئ۔
"بس ویسے ہی آپ سے ملنا تھا تو یہاں آگئ۔ اور لالہ رُخ۔۔ کیسی چل رہی ہے آپکی ازدواجی زندگی۔۔؟ ارسل کے ساتھ تو بہت خوش ہونگی آپ۔ ظاہر سی بات ہے اب اتنے دھیمے مزاج کے اچھے سے انسان کے ساتھ تو ہر لڑکی چل جاتی ہے۔۔!"
وہ محظوظ سی بولی تو ارسل سے نوالہ نگلنا مشکل ہوا۔ یہ کس کو چھیڑ دیا تھا اس نے!
"بالکل۔۔ ارسل کا مزاج بہت اچھا ہے۔ ہر لڑکی چل سکتی ہے ان کے ساتھ۔ بس وہ نہیں چل سکتیں جو دوسروں کے شوہر حضرات پر ڈورے ڈالتی ہوں۔"
اور بے اختیار ہی ارسل کے گلے میں پھندا لگ گیا تھا۔ لیکن وہاں اسکی پرواہ کسی کو بھی نہیں تھی۔ اسکا جواب سن کر زرتاج لمحے بھر کو ہنسی تھی۔
"آپکو تو برا ہی لگ گیا۔ میں تو ویسے ہی ایک بات کہہ رہی تھی۔"
ابھی اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اس لڑکی کی طبیعت درست کردیتی، لیکن اسی وقت ارسل درمیان میں بول پڑا۔
"ایسی بات نہیں ہے زرتاج۔ لالہ رُخ کا مزاج بھی بہت اچھا ہے۔ انکی شادی اگر کسی سے بھی ہوتی تو وہ خوش رہتا۔ کسی کے کردار پر ایسے بات نہیں کرتے۔ ہم انسان ہیں۔ ہم میں خامیاں نہیں ہونگی تو ہم انسان نہیں کہلائیں گے۔ اسی لیۓ میں امید کرتا ہوں کہ اگلی دفعہ آپ کوئ بھی ایسی بات نہیں کرینگی جو لالہ رُخ کو یا پھر مجھے ناگوار گزرے۔"
اس نے کہا اور آہستہ سے کرسی گھسیٹتا اٹھ کھڑا ہوا۔ رُخ بالکل چپ ہوئ دروازے کو دیکھے گئ کہ جس سے گزر کر وہ ابھی ابھی گیا تھا۔ اسکی ایک وضاحت نے رُخ کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بٹھا دیا تھا۔ ہاں۔۔ اسے اب سمجھ آرہا تھا۔۔ کہ اسکے پیچھے اتنی لڑکیاں کیوں پاگل تھیں۔۔ اسے سمجھ آرہا تھا کہ وہ سب کے دل کو اپنی ان نرم باتوں سے کیسے نرم کردیا کرتا تھا۔ رُخ نے ہمیشہ سوچا تھا کہ اگر بات نہیں بن رہی تو مار پیٹ کر یا پھر چیخ چلا کر بات منوانی ہے۔۔ لیکن ارسل ایسا نہیں تھا۔ وہ نرمی سے بات کر کے بھی بہت مسائل حل کرنا جانتا تھا۔ اسی لیۓ تو شاید وہ ارسل تھا۔ اس سے بالکل الگ۔۔ اس سے بالکل مختلف۔۔ یوں۔۔ گویا عکس ہو۔۔ لیکن ایک جانب سے الٹا۔۔
***
مہمان رخصت ہوچلے تو وہ رمشہ کے ساتھ مل کر کچن سمیٹتی رہی۔ ارسل کی اس ایک بات کے بعد وہ بالکل خاموش ہوکر رہ گئ تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ صبح والے واقعے کا غصہ وہ اس پر اب کیسے نکالے گی۔ فارغ ہونے کے بعد وہ کمرے کی جانب چلی آئ۔ ارسل آرام دہ سے سرمئ کرتا شلوار میں ملبوس راکنگ چیئر پر جھول رہا تھا۔ اسے اندر آتا دیکھ کر لمحے بھر کو رک سا گیا۔ اس نے ارسل کی جانب دیکھے بغیر بالکنی کا دروازہ کھولا اور پھر فضا میں موجود واضح خنکی کے باوجود بھی وہ بالکنی کے ساتھ لگی کرسی پر آ بیٹھی تھی۔
سیاہ بالوں کو اس نے ایک جانب کندھے پر ڈالا اور پھر آرام دہ سی کرسی پر پیچھے ہو کر بیٹھی۔ پیر سامنے پھیلا لیۓ۔ سیاہ نگاہیں اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ افق پر ابھرے بہت سے تارے اس سمے موتیوں کی مانند جگمگا رہے تھے۔ ایک سرسراتا ہوا جھونکا اسے چھو کر گزرا تو وہ ایک پل کو ٹھٹھر سی گئ۔ ابھی وہ دونوں ہاتھ باندھتی سکڑ سمٹ کر بیٹھ ہی رہی تھی کہ ارسل کو اپنے برابر کھڑا دیکھ کر چونکی۔
وہ شال اسکی جانب بڑھاۓ کھڑا تھا۔ اس کے ابرو بے اختیار ہی تن گۓ تھے۔ پھر غصہ غصہ سا چہرہ سامنے پھیر لیا۔ اس کی انہی اچھائیوں کی وجہ سے آج وہ اتنا ہرٹ ہوئ تھی۔
ارسل نے سمجھتے ہوۓ شال سامنے چھوٹے سے ٹیبل پر ڈالی اور پھر اسکے ساتھ ہی رکھی کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔
"ارسل پلیز ابھی مجھ۔۔"
"کھانا کھایا آپ نے۔۔؟"
اس نے نرمی سے اسکی بات کاٹ کر پوچھا تو وہ لب بھینچ کر رہ گئ۔ خنک سی ہوا میں ارسل کے بال ماتھے پر اڑ کر گررہے تھے۔ سرخ کانوں والا میمنہ بہت نرمی سے جھانسی کی رانی کو دیکھ رہا تھا۔ اور جانتے ہیں کیا۔۔ جھانسی کی رانی ان نگاہوں سے پگھلنے لگی تھی۔
"کھا چکی ہوں میں۔۔"
اسکے جواب پر وہ سر ہلاتا سیدھا ہو بیٹھا۔ چند پل کے لیۓ دونوں کے درمیان مبھم سی خاموشی پھیل گئ تھی۔ رُخ غصہ تھی اور ارسل اداس۔۔
"جو کچھ آج ہوا۔۔ ان سب کے لیۓ میں معذرت خواہ ہوں۔۔"
کچھ دیر بعد بہت ہلکے سے بولا تھا وہ۔ اس نے ایک جھٹکے سے چہرہ اسکی جانب پھیرا تھا۔ پھر دانت پیسے۔
"یہ سب جو کچھ ہورہا ہے ناں ارسل۔ یہ سب آپکی وجہ سے ہورہا ہے۔"
اسکے تڑاخ سے کہنے پر ارسل نے لمحے بھر کو حیرت سے آنکھیں پھیلائ تھیں۔
"اب میں نے کیا کیا ہے یار۔۔؟"
"کیا کیا ہے آپ نے۔۔! کیا ضرورت ہے اتنا اچھا بننے کی؟ کیا ضرورت ہے یہ بھوری سی معصوم آنکھوں سے دیکھنے کی۔۔ ؟ کیا ضرورت ہے اتنا دھیما رہنے کی۔؟کیا ضرورت ہے گھبرا کر پیچھے ہٹنے کی۔۔ ؟ ان سب باتوں نے دماغ خراب کیا ہے لڑکیوں کا۔۔ ان سب باتوں کی وجہ سے اب میں تکلیف میں ہوں۔ اور یہ سب آپ نے کیا ہے۔ آپکی وجہ سے ہرٹ ہوئ ہوں میں۔ "
اور وہ حیرت سے منہ کھولے اسکی تیزی سے چلتی زبان سن رہا تھا۔ پھر ہنس دیا۔ رخ نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
"ہنس کیوں رہے ہیں اب آپ۔۔؟"
"مجھے کبھی کسی نے نہیں بتایا کہ میں اتنا اچھا ہوں۔۔"
اس نے ہنسی دبا کر رُخ کی تپتی آنکھیں دیکھی تھیں۔
"یہ میں نے آپکی خامیاں بیان کی ہیں۔ کبھی کسی لڑکے کو ایسا نہیں ہونا چاہیۓ۔ اتنا ڈرپوک اور بزدل۔ لڑکوں کو تو بہت رعب دار اور دبنگ ہونا چاہیۓ۔ اتنا اکھڑ ہونا چاہیۓ کہ کوئ لڑکی انکی اجازت کے بغیر ان سے بات تک نہ کرپاۓ لیکن آپ ارسل۔۔ آپ نے تو ہر ایک کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ہر کسی کو خود تک آنے کی اجازت دے رکھی ہے آپ نے۔ مجھے بتائیں پھر مجھے غصہ نہیں آۓ گا۔۔ آپ میرے ہیں اب سے۔۔ سمجھے آپ۔۔"
اسکا انداز آخر میں وارننگ لیۓ ہوۓ تھا۔ ارسل کی آنکھیں لمحے بھر کو خوفزدہ ہوئ تھیں۔ پھر وہ بے ساختہ ہی پیچھے ہوا۔
"اگر مجھے ڈر لگتا ہے یا پھر مجھے اکھڑ ہونا نہیں آتا تو اس میں میرا کوئ قصور نہیں ہے لالہ رُخ۔ کوئ میری وجہ سے تکلیف میں ہوگا تو میں یہ کیسے برداشت کرسکتا ہوں۔۔"
اور اب رُخ کو اسکی باتوں پر بہت غصہ آرہا تھا۔
"اف ہے ارسل اف۔۔ مجھے زہر لگتے ہیں آپ۔۔"
اس نے چڑ کر کہا تو اس نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
"تو آپ مجھے کونسا اتنی اچھی لگتی ہیں۔۔؟"
اسکی بات پر لالہ رُخ کا منہ کھل گیا تھا۔ پھر اس نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا۔
"آپ بھی مجھے کوئ "حور پرا" نہیں لگتے ہیں۔ مجھے ایسے کسی لڑکے میں دلچسپی نہیں جو ایک کاکروچ سے ڈر جاتا ہو۔۔"
اسکی بات پر ارسل اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ "حور پرا" خدایا۔۔ "حور پرا۔۔!"
"تو۔۔ تو کیا ہوا اگر۔۔ اگر میں کاکروچ سے ڈرتا ہوں تو۔ ڈر تو کسی کو بھی لگ سکتا ہے۔۔ لیکن ایسے میں آپ خود کو مت بھولیں۔ آپ نے جو آتے ہی کسی قبضہ مافیہ کی طرح میرے بستر پر قبضہ کیا ہے۔ اسکا کیا۔۔؟ جانتی بھی ہیں ، اس صوفے پر سوتے ہوۓ میری کمر میں کتنا درد ہوتا ہے۔ صبح اٹھتا ہوں تو لگتا ہے گویا میں ستر سال کا بوڑھا ہوگیا ہوں۔۔ اور۔۔ اور یہ سب آپکی وجہ سے ہوا ہے۔ "
اچھا جی۔۔ اب کہ رُخ بھی اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ پھر اسے دیکھا۔
"میری وجہ سے ہوا ہے۔ اور جو رات بھر میں آپکے خرّاٹوں کی وجہ سے سو نہیں پاتی۔۔ اسکا حساب کون دے گا۔۔ چپڑ گنجو۔۔!"
اب کہ ارسل کا منہ پورا کھل گیا تھا۔ بھوری آنکھیں حیرت سے پھیل کر باہر آنے کو تھیں۔
"کوئ اپنے شوہر کو چپڑ گنجو کہتا ہے لالہ رُخ۔۔"
بہت بے یقینی سے یہی نکلا تھا اس کے منہ سے۔ اسے تو اب اپنے شوہر ہونے پر شک سا ہونے لگا تھا۔ وہ تو یہ معاملہ ٹھنڈا کرنے آیا تھا لیکن رُخ کو ہمیشہ لڑنے کی پڑی رہتی تھی۔ ٹھیک ہے۔۔ ایسا تھا تو پھر ایسے ہی سہی۔۔
"بالکل ٹھیک کہا ہے میں نے جو بھی کہا ہے۔ وہ شکر کہ ان سب لڑکیوں کی جان بچ گئ آپ جیسے بزدل انسان سے۔ مجھے دیکھیں۔۔ میں کیا خواب دیکھتی تھی کہ شوہر کی آغوش میں اس دنیا کی ساری نفرتیں بھلا دنگی مگر شوہر۔۔!"
وہ جو ڈرامائ انداز میں پچھلی صدی کی ہیروئین بنی اپنے دل پر پھاہے رکھ رہی تھی کہ یکدم آخر میں اس پر دھاڑی۔
"شوہر جی تو ایسے مل گۓ ہیں کہ جنہیں خود کسی آغوش کی ضرورت ہے۔۔!"
وہ اس پر "دھاڑ" کر اندر کمرے کی جانب بڑھی اور پھر ابھی ارسل کچھ منہ کھولے کہنے ہی لگا تھا کہ ایک کشن اڑتا ہوا آکر اس کے منہ پر لگا۔ وہ بھی جلدی سے جھکا اور کشن اٹھا کر لالہ رُخ کی پشت پر نشانہ لگایا۔ وہ بے یقینی سے اسکی جانب مڑی تھی۔
"آپ نے مجھے کشن مارا۔۔!"
"آپ نے پہلے شروع کیا تھا۔۔"
لیکن اب وہ جھک کر کشن اٹھا چکی تھی اور جواباً ارسل نے بھی صوفے سے ایک کشن اچک لیا تھا۔ پھر تو کمرے میں وہ طوفان اٹھا کہ الامان۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو کشن ماررہے تھے، کھینچا تانی میں کشن کا استر پھٹا تو روئ کے بہت سے گالے اڑ کر کمرے کی فضا میں بکھرنے لگے۔ یوں لگتا تھا گویا آسمان سے سفید برف گررہی ہو۔ ارسل کا سرمئ کرتا نرم سی روئ سے ڈھک چکا تھا اور لالہ رُخ کے کھلے سیاہ بالوں میں بھی بہت سے روئ کے گالے اٹکے ہوۓ تھے۔ لیکن وہاں پرواہ کسے تھی۔ وہ اب بیڈ پر چڑھی ارسل کے سر پر تکیہ ماررہی تھی اور ہمارا "چپڑ گنجو" اپنے سر پر تکیہ رکھے خود کا بچاؤ کررہا تھا۔
"بہت مار لگنی چاہیۓ آپکی۔۔"
وہ ساتھ ساتھ کہتی جارہی تھی۔
"چھوڑیں۔۔ چھوڑیں مجھے۔۔ جنگلی۔۔ جنگلی ہیں آپ۔۔"
وہ اب اس کے ہاتھ سے تکیہ لے کر اسے مارتا کہہ رہا تھا۔ اگلے ہی پل دروازہ بجنے کی آواز آئ تو وہ دونوں ساکت ہوگۓ۔ لیکن پھر اس سے ہی اگلے پل بہت بھیانک آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا۔ شیر افگن چند لمحے تو فضا میں اڑتے روئ کے گالوں کے باعث دوسری جانب دیکھ ہی نہیں پاۓ تھے۔ لیکن پھر جیسے ہی کمرے کا منظر ان پر واضح ہوا، وہ حق دق۔۔ لق و دق صحرا میں بھٹک سے گۓ۔ ارسل کے ہاتھ میں تکیہ تھا۔۔ وہ اسے اپنے سر کے اوپر اٹھاۓ رُخ کو مارنے ہی والا تھا۔۔ اور رُخ کی ناک میں روئ کا ایک گالہ اٹکا ہوا تھا۔۔ ساتھ بالوں پر بھی بہت سی سفیدی واضح تھی۔۔
اگلے ہی لمحے شیر افگن نے دروازہ دوبارہ بند کردیا تھا۔ کچھ لمحے سب کچھ ساکت رہا اور پھر یکدم دم ہی وہ دونوں ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر ہنس پڑے۔ شیر افگن کان کی لوؤں کو چھوتے زینے اتر رہے تھے۔ ان کا چہرہ سرخ ہونے کے بجاۓ۔۔ نیلا ہورہا تھا۔۔ شاید ہرا۔۔ یا شاید پیلا۔۔
وہ اب ہنستے ہوۓ ایک ساتھ ہی بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاتے بیٹھ گۓ تھے۔ ارسل نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپایا ہوا تھا اور رُخ نے ہنستے ہوۓ، آگے بڑھ کر روئ کا گالہ اٹھایا۔۔ پھر اسے ارسل کے بالوں پر کسی کلپ کی طرح سجا کر لگانے لگی۔ وہ اب گردن پیچھے پھینکتا ہنستا جارہا تھا۔ اسے یاد نہیں کہ وہ اس طرح آخری دفعہ کب ہنسا تھا۔
"پاگل ہیں آپ قسم سے۔۔"
اس نے رُخ کی جانب چہرہ پھیر کر کہا تھا۔ پھر اسکی ناک میں اٹکی روئ کو دیکھ کر ایک بار پھر ہنس پڑا۔
"اس پاگل دنیا میں۔۔ تھوڑا سا پاگل ہونا پڑتا ہے۔۔"
نیچے شیر افگن جیسے ہی کمرے میں داخل ہوۓ تو سمیرا حیرت سے ان کی جانب پلٹی۔
"کیا ہوا۔۔؟ ارسل تو اوپر ہی تھا۔۔ "
"سمیرا مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔۔"
وہ منہ ہی منہ میں چند لفظ بدبداۓ تو سمیرا پاس چلی آئیں۔۔
"کیا کہہ رہے ہیں۔۔؟ ارسل سو گیا کیا۔۔؟"
انکے پوچھنے پر شیر نے ایک بار پھر سر جھٹکا تھا۔ پھر نفی میں سر ہلاتے بستر تک چلے آۓ۔
"میرا خیال ہے ابھی سوجاتے ہیں۔ میں کل بات کرلونگا اس سے۔۔"
اوپر کمرے میں وہ دونوں اب تک گردن پیچھے پھینکے ہنستے جارہے تھے۔ زلزلے کے بعد کا منظر پیش کرتا کمرہ ان دونوں کو پاگلوں کی طرح ہنستا ہوا دیکھ رہا تھا۔
کچھ کردار ہوتے ہیں۔۔ کہ جن کا ساتھ آپکو ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔ وہ معاملات کو اچھے سے سلجھانا نہیں جانتے۔۔ ان میں صبر کی بھی بہت کمی ہوتی ہے۔۔ لیکن وہ پھر بھی آپ کو اچھے لگنے لگتے ہیں۔۔ رُخ۔۔ ارسل کے لیۓ ایک ایسا ہی کردار تھی۔۔
اور کچھ کردار ارسل جیسے بھی ہوتے ہیں۔۔ سہم جانے والے، معصوم لیکن باشعور۔۔ صبر و تحمل کے ساتھ معاملات کو لے کر چلنے والے۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔۔ لیکن پھر بھی وہ دونوں ایک دوسرے کو ڈھانپنے لگے تھے کہ وہ۔۔ لباس تھے۔۔ ایک دوسرے کا۔۔!
***