صبح کی نرم سی دھوپ اس کے چہرے پر پڑی تو وہ لمحوں ہی میں جاگ گیا۔ مندی مندی سی آنکھیں کھول کر دیکھتا وہ کمرہ پہچاننے کی سعی کررہا تھا۔ بیشتر دفعہ آنکھیں جھپکنے کے باوجود بھی اس کے سامنے کا منظر سرخ ہی رہا۔ کہیں رُخ نے اسے نیند میں قتل تو نہیں کردیا تھا۔۔؟ اور اب وہ جوابی طور پر سرخ رنگ کی بستی میں پہنچ گیا تھا۔۔؟ وہ گھبرا کر سیدھا ہو بیٹھا۔۔ وہ کسی سرخ بستی میں نہیں پہنچا تھا۔ بلکہ اس کے چہرے پر رُخ کا سرخ دوپٹہ تھا۔ اس کے جالی دار سے اثر کے باعث اسے ساری دنیا پل بھر کو سرخ نظر آرہی تھی۔
بے اختیار ہی اسکی نگاہ رُخ کے بستر کی جانب اُٹھی تھی۔ بیڈ پر کمبل سلیقے سے لپٹا ہوا رکھا تھا اور صاف ستھرا سا بستر اسے منہ چڑا رہا تھا۔ آنکھیں مسل کر اس نے گھڑی کی جانب نگاہ گھمائ اور پھر بھک سے اڑا۔ صبح کے دس بج رہے تھے۔ دس۔۔!! وہ اتنی دیر کیسے سوتا رہا۔۔؟ سر کھجا کر اس نے اپنا رُخ ڈریسنگ روم کی جانب پھیرا تھا۔ جب وہ فریش ہو کر باہر نکلا تو دیکھا رُخ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس اپنے سیاہ ہاف بندھے بالوں پر دوپٹہ ڈال رہی تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے پل بھر کو چہرہ اسکی جانب پھیرا تھا۔ پھر بڑی بے باکی سے نزدیک چلی آئ۔ اپنی سپاٹ آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑیں۔ جانے کیوں۔۔ لیکن ارسل کو ہر گزرتے لمحے اس لڑکی سے خوف آتا جارہا تھا۔
"جو رات کو آپ نے میرے ساتھ کیا ارسل، وہ کسی بھی طرح قابلِ فراموش نہیں ہے۔ یہ مت سمجھیۓ گا کہ میں وہ سب بھول گئ ہوں۔ میں کچھ بھی نہیں بھولی ہوں۔ اور جو رات آپکا رویہ تھا، اسکی وضاحت آپ پر ادھار رہی۔ ابھی پوچھ کر میں آپکے چہرے کا یہ رنگ نہیں اُڑانا چاہتی۔ اسی لیۓ آپ مجھے اپنے اس عمل کی کیا وضاحت دینگے، یہ آپ نے طے کرنا ہے۔۔"
اسکی دھیمی سی آواز بہت سرد تھی۔ ایسے جیسے رنگ برنگی سی کہانی میں کوئ بے حد چھبتا تھا پہلو ہو۔ لیکن اب کہ ارسل نے بھی لمحے بھر کو اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
"میں آپکو۔۔ کسی بھی قسم کی۔۔ وضاحت دینے کا پابند نہیں ہوں مس لالہ رُخ۔۔!"
اسکا لہجہ اور اسکے لہجے کا کٹیلا سا تاثر رُخ کے حلق تک کو کڑوا کر گیا تھا۔ اس نے دانت جما کر ارسل افگن کو گھورا تھا۔
"اچھا۔۔"
اس نے سمجھ کر سر ہلایا۔ پھر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
"میں کون ہوں آپکی۔۔؟ بتائیں۔۔ کیا ہوں میں۔۔؟ مجھ سے کیوں رشتہ گانٹھا جب اس رشتے کو نبھانے کی جرأت نہیں تھی آپ میں۔۔؟ پٹھان کہتے ہیں آپ خود کو۔۔! ذرا سا بھی احساس نہیں ہوتا بزدلوں کی طرح غلط بیانی کرتے ہوۓ۔۔؟ میں نے تو اپنے آس پاس بستے ہر مرد کو ہمیشہ ڈٹ کر اپنے فیصلوں پر کھڑے ہوتے دیکھا ہے ارسل۔ فرقان لالہ نے ایک بیوہ سے شادی کی تھی۔۔ لوگوں نے بہت مخالفت کی لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اسفند لالہ نے اپنے دوست کا قصاص لینے کے اپنی جان لگادی تھی، ارمغان تایا نے ہمیشہ خود کو، بیوی کی موت کے بعد سینت سینت کر رکھا اور میرے بابا نے۔۔ میرے بابا نے کبھی اپنے فیصلوں کی وضاحت سے صرفِ نظر نہیں کیا۔۔ پھر آپ کونسی قسم سے ہیں مردوں کی۔۔؟"
لمحے بھر کو ارسل کا رنگ تپتے تانبے کی مانند سرخ ہوگیا تھا۔ وہ باتیں ہی ایسی تھیں۔۔ ایسی چبھتی ہوئیں۔۔ اسکی مردانگی پر واضح سا تمانچہ۔۔ کچھ شک نہیں تھا کہ یہ لڑکی جنگجوؤں کے خاندان سے تھی۔۔ اب کہ اس نے بھی اپنی بھوری آنکھوں کو اسکے سرخ و سپید چہرے پر جمایا تھا۔ پھر دھیمی سی آواز میں بولا۔۔
"وضاحت چاہیۓ آپکو۔۔؟ کیا برداشت کرپائنگی میری وضاحت کو آپ..؟"
اسکی ٹھنڈی سی سرگوشی پر رُخ لمحے بھر کو لاجواب ہوئ تھی۔
"مجھے آپ پسند نہیں ہیں لالہ رُخ۔ کسی اور کو پسند کرتا ہوں میں۔ زندگی گزارنے کے خواب تک اسکے ساتھ سجاۓ تھے میں نے۔ اب جسم آپکے ساتھ اور روح سے وابستہ رشتہ کسی اور کے ساتھ رکھ کر میں آپکو اور خود کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں آپکو اور خود کو کسی بھی قسم کی شرمندگی سے بچا رہا ہوں۔ کیا آپ اس شرمندگی سے بچنا نہیں چاہتیں۔۔؟ اگر نہیں بچنا چاہتیں تو مجھے آگاہ کردیجیے گا۔ آپکے سارے شکوے دور کردونگا میں۔۔"
اسکی بات کا مطلب سمجھ کر رُخ کی نگاہیں پتھرا گئ تھیں۔ ایک ہی لمحے میں اس نے اسے لفظوں سے کھوکھلا کردیا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اس قدر واضح بات پر ناسمجھی کا تاثر نہیں دے سکتی تھی۔ اسے زندگی میں پہلی بار، بات کرتے ہوۓ دشواری ہوئ تھی۔
"کس قدر گھٹیا ہیں آپ ارسل۔۔!"
بے بسی سے یہی نکلا تھا اس کے منہ سے۔ ارسل مسکرایا۔ پھر اسکے سامنے ہلکا سا جھکا۔ بھوری آنکھیں اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ جگمگا رہی تھیں۔
"یہ گھٹیا پن نہیں ہے لالہ رُخ۔ یہ میرے عمل کی وضاحت ہے۔ جسے سننے کی آپکی دیرینہ خواہش میں پوری کرچکا ہوں۔ اب آپکا کوئ اور سوال ہے یا میں جاؤں۔۔؟"
سفید کرتا شلوار میں اس اونچے سے بندے نے بڑے ٹھنڈے انداز میں استفسار کیا تھا۔ وہ اس کے اس قدر اعصابی تغیرات پر دنگ رہ گئ تھی۔ بابا نے بجا فرمایا تھا۔ دنیا فرقان لالہ اور اسفند لالہ کے گرد نہیں گھومتی تھی۔
"نفرت کرتا ہوں میں آپ سے۔۔"
اور اسکی اس آخری سرگوشی نے تو رُخ کا دل ہی توڑ دیا تھا۔ لیکن اگلی کوئ بھی بات سوچے بغیر وہ دانت پیستی آگے بڑھی اور اس کی دائیں کلائ تیزی سے پکڑی۔ پھر بے حد پھرتی سے اس نے اسے الماری کے دروازے کے ساتھ جمایا تھا۔ وہ اسکی ایسی حرکت پر بھونچکا رہ گیا تھا۔ اسے اس سے ایسے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ چہرہ اٹھا کر اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھا جو رُخ کی گرفت میں دبا الماری کے اوپر سختی سے جما تھا۔ اس نے حیران سی بھوری آنکھیں رُخ کی جانب پھیریں۔
"اگر میرے سامنے۔۔ کسی لڑکی کے ساتھ۔۔ فلرٹ کرنے کی کوشش بھی کی آپ نے ارسل۔۔ تو زندہ نہیں چھوڑونگی آپکو میں۔۔ ابھی مجھے جانتے نہیں ہیں آپ۔۔ میں تباہ کردونگی آپکی زندگی۔۔ اس لڑکی کی زندگی اور خود کی زندگی۔۔ لالہ رُخ کی زبان یاد رکھیۓ گا آپ۔۔ کیونکہ اسکی زبان ارسل جیسی نہیں ہے۔۔!"
کیا تم نے کبھی کسی لڑکی کو اس قدر جرأت مند اور بے خوف دیکھا ہے۔۔؟ نہیں ناں۔۔ ارسل نے بھی نہیں دیکھا تھا۔ اسی لیۓ اسکے بے حد جارہانہ سے رویے پر وہ آنکھیں پھیلاۓ اسکے تپتی سیاہ آنکھوں کو تک رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے اس نے رُخ کو اپنا ہاتھ جھٹکتے دیکھا تھا۔ وہ پیچھے ہٹی، سر پر جما دوپٹہ درست کیا اور پلٹ کر دروازہ پار کرتی کمرے سے نکل گئ۔ ارسل نے بے یقینی سے اپنی سرخ کلائ دیکھی۔ اس دھان پان سی لڑکی کی گرفت بہت پروفیشنل اور منجھی ہوئ تھی۔ تو کیا وہ لڑنا بھی جانتی تھی۔۔! اور اگلے ہی پل وہ سر دونوں ہاتھوں میں گراتا بیڈ پر دھم سے بیٹھا تھا۔ اسے اب اندازہ ہوا تھا کہ اسکے مقابلے پر کون تھا۔۔! وہ لالہ رُخ تھی۔۔ وہ آمنہ نہیں تھی جو رو دھو کر اسے دو چار کوسنے دیتی بھول جاتی۔۔ اسے اب پتہ چلا تھا کہ وہ شیر افگن کو کیوں پسند آئ تھی۔۔
***
"ہمیں آپی کو مارشل آرٹس نہیں سکھانا چاہیۓ تھا۔۔"
آئینے کے سامنے کھڑے رامش نے فکر مندی سے کہا تھا۔ پیچھے بیٹھا جنید، اسکی بات پر البتہ جھنجھلایا تھا۔
"تم تیار ہورہے ہو یا پھر مزید کوئ فضول بات کرنی ہے تم نے۔۔؟"
"جنید میں سیریس ہوں یار۔۔"
اب کہ وہ واقعی ماتھے پر فکر کی بہت سی لکیریں لیۓ اسکی جانب پلٹا تھا۔ جنید نے گہرا سانس لے کر ٹائ کی گرہ گردن کے گرد باندھی تھی۔ پھر اٹھ کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگا۔ ساتھ ساتھ لاپرواہی سے تیز تیز بولنے بھی لگا تھا وہ۔۔
"تمہیں لگتا ہے کہ آپی کوئ چھوٹی بچی ہیں۔۔! انہیں پتہ ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔ تم اپنے چھوٹے سے دماغ پر زیادہ بوجھ مت ڈالو اور جلدی سے تیار ہوجاؤ۔ آپی بہت سمجھدار ہیں۔۔ سب اچھے سے ہینڈل کرلیں گی۔ اور انہوں نے مارشل آرٹس اسی لیۓ نہیں سیکھا تھا کہ وہ ہر کسی کو مارتی، ڈراتی پھریں۔ وہ انہوں نے اپنی حفاظت کے لیۓ سیکھا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ خود کو اچھے سے پروٹیکٹ کرنا جانتی ہیں۔"
اسکی بات پر اگرچہ رامش کو تسلی نہیں ہوئ تھی لیکن وہ پھر بھی نیم رضا مند سا سر ہلا گیا تھا۔ اسے ارسل کا تو نہیں پتہ تھا لیکن اسے اپنی بہن کے مزاج کا بخوبی اندازہ تھا۔ اور یہ اسکا اندازہ ہی تھا جو اسے رُخ کی جانب سے خوفزدہ کررہا تھا۔
***
ولیمے کی تقریب کے بعد وہ لاؤنج ہی میں شیر افگن، دادی اور سمیرا بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئ تھی۔ شیر اس سے چھوٹے موٹے سوالات کررہے تھے، جن کا وہ مختصر لیکن تسلی بخش جواب دے رہی تھی۔
"آگے پڑھائ کیوں جاری نہیں رکھی تم نے۔۔؟"
سمیرا بیگم نے اسکا پیارا سا چہرہ نظروں کی گرفت میں لے کر پوچھا تھا۔ وہ ہلکا سا مسکرائ۔۔
"بس آنٹی۔۔ مجھے پڑھائ کا شوق نہیں تھا تو بابا نے بھی زیادہ زور دینا ضروری نہیں سمجھا۔۔"
اسکی بات پر دادی مسکرائ تھیں۔ اسکے خالص پشتو لہجے پر بے حد پیار آیا تھا انہیں۔
"پڑھائ کے علاوہ کن چیزوں میں دلچسپی ہے تمہیں۔۔؟"
"کسی خاص چیز میں تو نہیں آنٹی لیکن میں پڑھائ چھوڑنے کے بعد بھی کافی عرصے تک اپنے مارشل آرٹس اسکول کے ساتھ منسلک رہی ہوں۔ بچپن سے بابا کے ساتھ چینی فلمیں دیکھ دیکھ کر یہی شوق تھا میرا۔۔ کہ کسی دن مارشل آرٹسٹ بن کر خود کا خواب پورا کرسکوں۔۔ پھر بابا کو بھی اس بات پر اعتراض نہیں تھا سو میں نے کافی سال تک اس پریکٹس کو جاری رکھا۔۔"
شیر افگن زیر لب مسکراۓ تھے۔ پھر زینے اترتے ارسل کی جانب فخر سے دیکھا۔ (میں نہ کہتا تھا یہ لڑکی ہیرا ہے) والی نظریں تھیں وہ۔ اس نے کوفت زدہ سی سانس خارج کی تھی پھر غیر محسوس طریقے سے اپنی کلائ کمر کے پیچھے کی۔ رُخ نے اس پر ایک نگاہ ڈالی تھی۔
"ماں میں ذرا باہر جارہا ہوں۔ رات دیر تک واپس آؤنگا۔ آپ پلیز اپنی دوا وقت پر لے لیجیۓ گا۔"
اس نے ہلکے پھلکے سے لہجے میں کہا تو سمیرا سمیت سب نے یکبارگی اسکی جانب دیکھا۔ سب کے چہروں پر بے ساختہ سی ابھرتی ناسمجھی کو اس نے دیکھا تو پل بھر کو زبان لڑکھڑا سی گئ۔
"می۔۔ میں واپس آجاؤنگا جلدی۔۔"
"یہ کونسا وقت ہے باہر جانے کا۔۔؟ تھک چکے ہو تم بھی اور رُخ بھی۔ اب تم اس وقت باہر جاؤگے تو وہ تمہارے انتظار میں سوکھتی ہی رہے گی۔ ابھی جاؤ کمرے میں اپنے۔ آرام کرو۔۔ شادی کی تھکن چہرے سے ٹپک رہی ہے تمہارے۔۔"
شیر افگن نے نرمی سے کہتے کہتے اسکے اترے چہرے کو شادی کی تھکن سے تشبیہ دی تو اسکا دل کیا وہیں بال نوچ لے اپنے۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ تھکن کس چیز کی تھی۔۔؟
"بیٹے سہی کہہ رہے ہیں تمہارے بابا۔ جاؤ آرام کرو جا کر اور یہ بچی بھی دیکھو کس قدر تھک گئ ہے۔"
سمیرا نے رُخ کے بیچارے سے چہرے کی جانب دیکھ کر کہا تو ارسل نے ایک تیر نگاہ اس پر ڈالی۔ ابھی اسے اپنی کلائ کی بے حرمتی بھولی نہیں تھی۔
"کیوں نہ ہم رُخ سے ہی پوچھ لیں کہ وہ مجھے جانے دینا چاہتی ہے یا نہیں۔۔؟"
اس نے زبردستی مسکراہٹ لبوں پر چپکا کر سب کا رُخ اسکی جانب پھیرا تھا۔ وہ اسکے براہِ راست سے استفسار پر ہرگز بھی نہیں گھبرائ تھی۔ بلکہ لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر، سیاہ آنکھوں کو معصومیت سے جھپکا کر کہنے لگی۔
"سب ٹھیک کہہ رہے ہیں ارسل۔ آپکو آرام کرنا چاہیۓ۔ اس طرح صحت خراب کرلیں گے آپ اپنی۔"
اور وہ جو اسکے کسی کرارہ سے جواب کا منتظر تھا ، اسکے یوں بازی پلٹنے پر بھک سے اڑا۔ چہرے پر سجی مسکراہٹ لمحوں ہی میں غائب ہوئ تھی۔ لاؤنج میں سب نے رُخ کے جواب کو سراہا تھا۔
"چلو بیٹا۔۔ اب تم بھی سوجاؤ۔۔ بہت تھک گئ ہو۔۔"
ارسل تو دھم دھم کرتا کمرے کی جانب واپس پلٹ آیا تھا۔ رُخ کو واپس پلٹنے میں کچھ وقت لگا۔ وہ جیسے ہی واپس آئ، تو دیکھا وہ سخت غصے میں درمیان میں آۓ پردے کے ساتھ کشتی لڑ رہا تھا۔ اسکی ہنسی بے ساختہ ابھری تھی۔ اسکی ہلکی سی قلقاری ہی تھی جسکے باعث وہ اسکی جانب پلٹا تھا۔ پھر دانت پیس کر اسے دیکھا۔ وہ اسکے یوں غصہ غصہ چہرے سے محظوظ ہوئ تھی۔ کیونکہ وہ غصے میں بھی بچوں جیسا لگتا تھا۔
"کیا۔۔ کیا تھا یہ نیچے۔۔؟"
اسکی اٹکتی زبان سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے تیز تیز بولنا نہیں آتا۔ اسے تو غصہ کرنا ہی نہیں آتا تھا۔ اور اس لالہ رُخ نے ایک ہی دن میں کیا حال کردیا تھا اسکا۔۔!
"کیا۔۔؟"
اور لالہ رُخ کو تو عادت تھی، تباہکاریاں کرنے کے بعد انجان بننے کی۔
"تم وہ روپ میرے گھر والوں کو بھی دکھاؤ ناں جو صبح تم نے مجھے دکھایا تھا۔ انہیں بھی بتاؤ ناں ذرا کہ کیسی لڑاکا اور آفت کی پرکالہ والی طبیعت پائ ہے تم نے۔۔!"
"تم۔۔! آپ نے مجھے "تم" کہا۔۔! کس کی اجازت سے آپ مجھے "تم" کہہ رہے ہیں۔۔؟"
اسے ساری بات میں صرف اس بیکار سے "تم" پر اعتراض ہوا تھا۔ ارسل نے اب کہ واضح طور پر اپنے بال نوچے تھے۔
"لالہ رُخ تم میری برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہو اب۔"
"آپکی برداشت بھی تو آپکی طرح چڑیا جتنی ہے۔۔"
اس نے ذرا سا بھی متاثر ہوۓ بغیر ہاتھ جھلّا کر اسے پرے ہٹنے کو کہا تھا۔
"تم نے مجھے چڑیا کہا۔ ۔؟"
وہ گھوم کر اسکے سامنے آیا تھا۔
"ہاں تو ظاہر ہے۔ اب آپکو شیر تو کہنے سے رہی۔ دیکھیں ذرا اپنے کان۔۔ بالکل کسی میمنے کی مانند سرخ ہورہے ہیں۔۔"
میمنہ۔۔ او گاڈ۔۔ میمنہ۔۔!
"تم اپنی زبان درست کرو لڑکی۔۔!"
"آپ اپنا رویہ درست کریں پہلے۔۔"
"میری مرضی میں جیسے بھی رہوں۔ تم ہوتی کون ہو مجھے بولنے والی۔۔"
تمیز دار سے ارسل کی برداشت اب ختم ہوتی جارہی تھی۔ وہ جس نے کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی، آج وہ ذرا جتنی لڑکی۔۔ اوہ خدا معافی۔۔ آج وہ لڑکی اسکا ضبط آزما رہی تھی۔
"میں آپکی بیوی ہوتی ہوں ارسل افگن۔ اور بیویاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی مارتی دھاڑتی اور اٹھا اٹھا کر پٹخنے والیں۔۔"
"کچھ خدا کا خوف کرلو تم۔ کوئ اس طرح بات کرتا ہے اپنے شوہر سے۔۔؟"
اس نے اسے شرم دلانے کی بالکل آخری کوشش کی تھی۔ لالہ نے اسے خونخوار آنکھوں سے گھورا تھا۔
"شوہر۔۔ مطلب بھی پتہ ہے آپکو اس لفظ کا۔۔ ایسے ہوتے ہیں شوہر۔۔ جو شادی کی پہلی رات ہی اپنی بیوی کو کہتے ہیں کہ میرے بستر سے اترو۔۔ کیا ایسے ہوتے ہیں شوہر کہ شادی کی پہلی صبح اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ وہ ان سے نفرت کرتے ہیں۔۔ کیا ایسے ہوتے ہیں شوہر جو کسی اور عورت کا یوں منہ بھر کر ذکر اپنی بیوی کے سامنے کردیں۔۔"
"ہاں تو اگر یہی کام شوہر چھپ کر کریں تب بھی تکلیف سب سے زیادہ آپ بیویوں کو ہی ہوتی ہے۔۔"
دھت تیری کی۔۔۔!
"اچھا۔۔ زیادہ ہی بولنا آگیا ہے آپکو۔۔ رکیں۔۔ میں ابھی شیر بابا کو بلا کر لاتی ہوں۔۔ ساری غنڈہ گردی ابھی کہ ابھی سر کے بل نکل جاۓ گی۔۔"
ابھی وہ دروازے کی جانب بڑھنے ہی لگی تھی کہ دروازہ کھٹکھٹاۓ جانے کی آواز پر رک سی گئ۔ ارسل نے جلدی سے اسے اپنے پیچھے کیا تھا۔ پھر دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ رمشہ فکر مند سی باہر کھڑی تھی۔
"بھائ۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں۔۔؟ آپکے کمرے سے آوازیں آرہی ہیں۔۔"
"آوازیں۔۔ کیسی آوازیں۔۔؟ نہیں نہیں کوئ آواز نہیں یہاں تو۔۔"
اسکے عجلت سے کہنے پر بھی رمشہ نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
"بھائ میں نے خود سنی ہیں آوازیں۔۔ ایسے جیسے کوئ لڑ رہا ہو۔۔"
اور اسکی بات سن کر وہ بھک سے اڑا تھا۔ پھر تیزی سے بولا۔
"ارے نہیں۔۔ وہ تو میں اور لالہ رُخ زور زور سے ہنس رہے تھے۔۔ کیوں لالہ رُخ۔۔"
وہ زبردستی ہنستا ہوا اندر پلٹا تو دیکھا وہ ڈریسنگ روم کا دروازہ "ٹھاہ" سے بند کرتی اندر جارہی تھی۔ دروازہ زور سے دے مارنے کی آواز پر رمشہ نے چونک کر اسکی جانب دیکھا۔۔
"بھائ۔۔ بھابھی کیا غصے میں ہیں۔۔؟"
"نہیں وہ غصے میں نہیں۔۔ بس ذرا سا ناراض ہے مجھ سے۔۔"
اسکے کہنے پر رمشہ نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تھا۔
"خیر ذرا سا تو ناراض نہیں لگ رہیں وہ۔ یوں لگ رہا ہے ڈریسنگ روم سے نکلتے ہی شوٹ کریں گی آپکو۔۔ خیال رکھیۓ گا بھائ۔۔"
وہ آہستہ سے کہہ کر پلٹی تو ارسل نے دروازہ بند کردیا۔ پھر دروازے کے ساتھ لگ کر ہی گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ یہ زندگی کیا سے کیا ہوگئ تھی چند ایک دنوں میں۔۔! اسے اب سچ میں رونا آرہا تھا۔
وہ ڈریسنگ روم سے نکل کر آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال سلجھانے لگی تھی۔ ارسل کی نگاہ لمحے بھر کو اسکے سیاہ لمبے بالوں میں الجھی تھی۔ کمرے میں پھیلی خاموشی نے عجیب سی کثافت پیدا کردی تھی۔ وہ صوفے پر جا کر بے بسی سے بیٹھ گیا تھا۔ پھر سر دونوں ہاتھوں میں گرالیا۔ رُخ نے اسکی جانب دیکھے بغیر بستر کی جانب قدم بڑھاۓ پھر اسکے جھکے سر کو دیکھ کر لمحے بھر کے لیۓ رکی۔ جانے کیوں اسے اس میمنے پر ترس آیا تھا۔
"یہ ہاتھ پر کیا ہوا ہے آپکے۔۔؟"
اور وہ لڑتی بھڑکتی لڑکی اب اسکے سر پر کھڑی فکر مندی سے پوچھ رہی تھی۔ اس نے چونک کر چہرہ اٹھایا۔
"کچھ نہیں۔۔"
"مجھے دیکھنے دیں۔۔"
وہ اسکا ہاتھ لینے کے لیۓ ہلکا سا جھکی تو اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ رُخ نے اپنا سیاہ ارتکاز اس پر جمایا تھا۔
"مجھے ہاتھوں کو گھما کر بہت اچھے سے قابو کرنا آتا ہے ارسل افگن۔۔ اسی لیۓ میرے ساتھ یہ ڈرامے مت کریں اور مجھے دیکھنے دیں کیا ہوا ہے آپکو۔۔"
وہ دھمکی نہیں تھی۔۔ ارسل جانتا تھا کہ وہ دھمکی نہیں تھی۔۔
"مجھے تم سے کوئ لینا دینا نہیں ہے رُخ۔۔ پلیز تم جاؤ یہاں سے۔۔"
اس نے تھک کر کہا تھا۔ اور اب کہ وہ لب بھینچ کر بالکل سیدھی ہوگئ تھی۔ پھر سنگھار آئینے پر رکھےچھوٹے سے بینڈج کو اسکی مٹھی میں زبردستی لا کر تھمایا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔ اسکے بعد، ایک دفعہ بھی اسکی جانب دیکھے بغیر اس نے بستر سنبھالا اور کمبل حسبِ عادت سر تک تان لیا۔ اس نے اپنی مٹھی میں رکھی بینڈج کو دیکھا پھر ہلکے سے مسکراتے ہوۓ اسے ہاتھ پر باندھنے لگا۔ اگلے ہی پل اس نے چہرہ اٹھا کر رُخ کی جانب دیکھا تھا۔ وہ کمبل ہٹاۓ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتا پا کر غڑاپ سے اندر گھس گئ۔
وہ دو بہت مختلف انسان زندگی کی بندھی ڈور کو ساتھ لیۓ چلنے لگے تھے۔ کیا ہوا جو ایک خونخوار اور دوسرا بکری کا چھوٹا سا بچہ تھا۔ جن کے رشتے آسمانِ دنیا پر طے کردیۓ جائیں۔۔ زمین پر بسنے والے لوگ ان فیصلوں کو نہیں بدل سکتے۔۔ یہ تبدیلی انسانوں کے ہاتھ میں رکھی ہی نہیں گئ تھی۔۔ انسان کے ہاتھ میں تو محض کوشش رکھی گئ تھی۔ وہ بھی کوشش کرکے اس غیر آرام دہ سے صوفے پر لیٹ گیا تھا۔ پھر آنکھوں پر بازو رکھ کر گہرا سانس لیا۔ زندگی کبھی یوں بھی ہوسکتی تھی۔۔ ارسل افگن نے ہرگز نہیں سوچا تھا۔۔
***