رامین سُن ہوئ اپنا سانولہ سا سراپا سنگھار آئینے میں تک رہی تھی۔ اسفند جیسا وجیہہ بندہ اسے کیسے پسند کرسکتا تھا۔۔؟ کہاں وہ مضبوط سا اونچا مرد اور کہاں وہ۔۔ معمولی سی شکل و صورت کی۔۔ قابلِ قبول سی لڑکی۔۔ کیا بھدا جوڑ تھا۔۔ کیا دیکھ لیا تھا ایسا اسفند نے اس میں۔۔
وہ اب اپنا ایک ایک نقش چھو کر محسوس کررہی تھی۔ پھر اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔۔ اس نے بے دردی سے اس ایک آنسو کو رگڑ ڈالا تھا۔۔ اسفند پر اس ایک لمحے میں اتنا غصہ چڑھا کہ حد نہیں۔۔ اگر وہ سامنے ہوتا تو ایک زوردار تھپڑ کھینچ مارتی اسے۔ زہر آدمی۔۔ بدتمیز۔۔ جاہل کہیں کے۔۔ گنجے کبوتر۔۔
اوکے۔۔ یہ آخری والا بہت برا تھا۔ لیکن چونکہ اس سے زیادہ کی گالیاں وہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی اسی لیۓ کفایت شعاری سے بھرپور کام لیتے ہوۓ انہی پر اکتفا کرنا ضروری سمجھا۔ بلکہ ہم میں سے بہت سے لوگ گالیاں دینا اپنے لیۓ جرم سمجھتے ہیں اسی لیۓ۔۔ ہم جیسے معصوم لوگوں کو۔۔ اپنی ہی گالیوں کی ایک لغت تیار کرنی چاہیۓ جس میں ہماری طرح کے معصوم لفظ ہوں۔۔ جنہیں بول کر شرمندگی بھی نہ ہو اور آگے والے پر اپنا غصہ بھی اتر جاۓ۔۔ گنجا کبوتر۔۔ پہاڑی بکرا۔۔ ہذیانی مرغا۔۔ اور ہاں۔۔ ہم جنگلی خر کو کیسے بھول سکتے ہیں۔۔ ہی ہی ہی۔۔
اور بھی بہت ہیں۔۔ بس انسان کو ذرا تخلیقی بننے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اور جانتے ہیں انسانی ذہن کی تخلیق کس وقت برق رفتاری سے کام کرتی ہے۔۔ جی ہاں۔۔ تب جب وہ غصے میں ہو۔۔ اور رامین اس وقت شدید غصے میں تھی۔۔ اسی لیۓ بہت اعلیٰ قسم کے القابات اسکی نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگے تھے۔۔ بھلا وہ اتنے پیارے اسفند کو گنجا کبوتر بول رہی تھی۔۔ بات تھی کوئ۔۔ چچ چچ۔۔
اس نے تھک کر اپنا ماتھا سنگھار آئینے سے ٹکایا اور آنکھیں موند گئ۔۔ اسے پتہ تھا کہ وہ اسفند کا مقابلہ کبھی نہیں کرسکتی۔۔ وہ چاہے تب بھی نہیں۔۔ اسکی سرمئ آنکھوں کی سنجیدگی انسانوں کو خائف کیا کرتی تھی۔۔ بھلا وہ نازک سی لڑکی کہاں تک اس سے لڑ سکتی تھی۔۔؟ اس سے صرف ایک ہی مقابلہ کرسکتی تھی۔۔ اور وہ تھی۔۔ لالہ رُخ۔۔ اسکے علاوہ اسفند کے سامنے کسی کا بھی بات کرنا محال تھا۔۔ اور اس ایک بات سے رامین بخوبی واقف تھی۔
***
اسی صبح وہ بالوں کو جوڑے میں باندھے کچن میں کھڑی سمیرا کے ساتھ ناشتہ بنارہی تھی۔ اس نے آف وائٹ رنگ کی لمبی قمیص زیب تن کر رکھی تھی، جسکے نیچے سے ہم رنگ پجامہ ہلکا سا جھلک رہا تھا۔ وہ ناشتہ ٹیبل پر لگا رہی تھی جب گم صم سی ناشتے کے سامنے براجمان رمشہ پر نظر پڑی۔ کالج کا سفید لباس زیب تن کیۓ۔۔ اونچی پونی میں بال سمیٹے۔۔ بالکل تیار لیکن تھکی ماندی۔۔
اس نے بغور اسے دیکھا تھا۔ پھر اسکے سامنے ناشتہ رکھ کر اسے ہلایا تو وہ کسی خیال سے جاگی۔ چونک کر اسکی جانب دیکھا اور پھر الجھ کر ناشتے کی جانب متوجہ ہوئ۔ یہ رمشہ کا انداز نہیں تھا۔ وہ کبھی اس طرح خاموش نہیں بیٹھا کرتی تھی لیکن کل سے اسکے ہونٹوں پر چپ کا تالا پڑا تھا۔ اور کسی کو یہ بات محسوس ہوئ ہو یا نہ ہوئ ہو۔۔ لیکن لالہ رُخ کو اسکی خاموشی بہت چبھی تھی۔۔ کیونکہ وہ خاموشی خوفزدہ تھی۔۔ ایسے جیسے وہ کسی بات سے ڈری ہوئ ہو۔۔ خائف ہو۔۔
اس نے ایک آخری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر سمیرا کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگی۔ ارسل تو اسکے اٹھنے سے قبل ہی آفس جا چکا تھا۔
"رامین کی شادی کب تک ہے بیٹے۔۔؟"
سمیرا بیگم نے کپ میں چاۓ انڈیلتے ہوۓ اس سے پوچھا تو وہ انکی جانب متوجہ ہوئ۔۔
"جی آنٹی اگلے ہفتے سے ہے اسکی شادی۔ تیاری وغیرہ تو مکمل ہوچکی ہے لیکن اب بھی کچھ کام رہتے ہیں۔"
اس نے پراٹھے کا نوالہ توڑ کر منہ میں رکھا تھا۔ پھر چونک کر ساتھ سے اٹھتی رمشہ کو دیکھا۔
"رمشہ ناشتہ تو ٹھیک سے کرلو بچے۔ یہ کیا۔۔ چاۓ اور آملیٹ تو جوں کا توں ہی رکھا ہوا ہے۔۔"
اسکے بولنے سے قبل ہی سمیرا بول اٹھی تھیں۔ رمشہ نے بہت بیزاریت سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"امی میرا دل بالکل بھی نہیں چاہ رہا ہے ناشتہ کرنے کا۔۔ میں کالج میں کچھ لے کر کھالونگی۔۔"
اس نے ہاتھ جھلا کر کہا اور پھر باہر کی جانب بڑھ گئ۔ ان دونوں نے ایک ساتھ ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔
"پتا نہیں اس لڑکی کو ہوتا کیا جارہا ہے۔ کل شام بھی کچن میں کھڑے کھڑے کانپنے لگ گئ تھی۔ میں نے پوچھا بھی تو کہنے لگی کہ کھانا نہیں کھایا شاید اسی لیۓ بی پی لو ہورہا ہے۔۔ کھاتی بھی نہیں ہے ٹھیک سے یہ۔۔"
انکے کہنے پر اب کہ اسکے ابرو بے اختیار ہی سکڑ گۓ تھے۔ ہاتھ میں پکڑا چاۓ کا کپ اس نے بے ساختہ ہی ٹیبل پر رکھا تھا۔
"آنٹی۔۔ کوئ آیا تھا کیا کل گھر میں۔۔؟"
اسکے پوچھنے پر سمیرا سر ہلا کر بے خبر سی بتانے لگی تھیں۔
"ہاں کل زرتاج اور اسکے بھائ آۓ تھے۔۔ کیوں۔۔؟"
انہوں نے چونک کر ایک دم پوچھا تو وہ جلدی سے مسکرائ۔
"میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی آنٹی۔ کام کی وجہ سے بھی اکثر طبیعت میں چڑچڑا پن آجاتا ہے ناں۔ شاید رمشہ بھی اسی وجہ سے ٹھیک سے کھانا نہیں کھارہی ہے۔ یا پھر ہوسکتا ہے کالج کا کام زیادہ ہو۔۔ لڑکیاں ہوجاتی ہیں ایسی چڑچڑی اور بیزار۔۔"
اس نے سکون سے کہہ کر بھاپ اڑاتا چاۓ کا کپ لبوں سے لگایا تھا۔ اڑتی بھاپ کے پار سمیرا کے چہرے پر پھیلا فکر مند سا تاثر زائل ہوگیا تھا۔ لیکن تحلیل ہوتی بھاپ کے اس پار اسکا چہرہ لمحے بھر کو تفکر سے تمتما اٹھا تھا۔ کچھ باتیں بتانے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔۔ کیونکہ کچھ باتوں کا وجود ہی مشکوک ہوا کرتا ہے۔۔ کچھ باتوں کا ہونا ہی ناگواری کا احساس دلاتا ہے۔۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں اس ناگواریت نے اسکا احاطہ بہت تیزی کے ساتھ کیا تھا۔
***
وہ شیر افگن کے ساتھ چلتا انکی کسی بات پر سنجیدگی سے گردن ہلارہا تھا۔ پھر انکے ساتھ لفٹ کے باہر رک کر کچھ بات کرنے لگا۔ وہ دونوں ابھی ابھی میٹنگ برخاست ہونے پر باہر نکلے تھے اور اب اپنے اپنے آفس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ یکایک لفٹ کے اندر قدم رکھتا ارسل افگن بری طرح چونکا تھا۔ اندر وہ بہت انداز سے تیار ہو کر کھڑی ہوئ تھی۔۔ گویا ابھی ابھی کسی فوٹو شوٹ سے فارغ ہوئ ہو۔ شیر افگن نے ایک سنجیدہ نگاہ ارسل پر ڈالی تھی اور دوسری زرتاج پر۔۔ وہ اب انہیں سلام کرنے لگی تھی۔۔ جسکا جواب انہوں نے انتہائ خشک سے انداز میں دیا تھا۔انکے اطوار دیکھ کر بھی زرتاج کی ڈھیٹ مسکراہٹ مدھم نہیں پڑی تھی۔ ارسل کو تو اس بندھی ٹائ میں اپنا حلق گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔ اس نے بے ساختہ ہی ٹائ کی ناٹ ڈھیلی کی تھی۔
لفٹ میں پھیلی بدنما اور دم گھونٹتی خاموشی نے ارسل کو اس ٹھنڈ میں بھی پسینے پسینے کردیا تھا۔ شیر افگن کی برف سی سرد مہری اچھے اچھوں کو سیدھا کردیا کرتی تھی۔۔ اور وہ تو پھر انکا اپنا بیٹھا تھا۔۔ ان سے بخوبی واقف تھا۔۔ وہ جانتا تھا کہ انہیں زرتاج ایک آنکھ نہیں بھاتی۔۔ انہیں اس جیسی بچھ بچھ جانے والی لڑکیاں ہرگز بھی ہضم نہیں ہوا کرتی تھیں۔۔
لفٹ کا دروازہ اگلے ہی پل کھلا تو ارسل کو کچھ سانس آیا۔ وہ زرتاج پر ایک بھی نگاہِ غلط ڈالے بغیر شیر کے ساتھ باہر کی جانب بڑھا تھا۔ زرتاج لفٹ کے اندر کھڑی گئ۔ پھر دروازہ بند ہونے پر مسکرائ۔۔ بہت زہریلی مسکراہٹ تھی وہ۔۔ کڑواس سے بھرپور۔۔
آہستہ سے کچھ گنگناتی ہوئ وہ اب اپنا فون نگاہوں کے سامنے کرتی کچھ نمبر ڈائل کررہی تھی۔ پھر فون کان سے لگا کر ہولے سے مسکرا کر چہرے پر گھر آتی لٹ کان کے پیچھے اڑسی۔۔
"کیا تم نے اسکی بہن کو ہراساں کیا صائم۔۔؟ اور اگر کیا بھی ہے تو ٹھیک سے کیا ہے ناں۔۔!"
اسکی مسکراہٹ اب بہت کاٹ دار سے تاثرات میں بدل گئ تھی۔ یوں لگتا تھا گویا اسکی نگاہوں سے آگ کی لپٹیں نکل رہی ہوں۔ وہ جو بھی لائحہ عمل طے کررہی تھی۔۔ وہ بلاشبہ بہت بھیانک تھا۔۔
دوسری جانب شیر کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھا وہ ایک فائل پر جھکا، چند اہم نکات کی نشاندہی کررہا تھا۔۔ جب شیر کی آواز پر چونکا۔۔
"یہ لڑکی ہمارے آفس میں کیا کررہی ہے ارسل۔۔؟"
انکا سرسراتا سا لہجہ اسکی ریڑھ کی ہڈی کو سنسناتا ہوا گزرا تھا۔ اس نے تھوک نگلا۔۔
"بابا م۔۔ مجھے نہیں پتا۔۔"
"تو پتا کرو۔۔ اور آئندہ مجھے یہ اس آفس میں دکھائ نہ دے۔۔ بے وقت اور بیکار جگہوں پر دکھنے والے لوگ کبھی کبھی خوشحالی کا عندیہ لے کر نہیں آتے ارسل۔۔ وہ صرف تباہی اور بربادی کے ضامن ہوا کرتے ہیں۔۔ سمجھ رہے ہو ناں تم؟"
اس نے تیزی سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ بھلا اس سے اچھا اور کون سمجھ سکتا تھا اس بات کو۔
"اور اس سے بے تکلف ہونے کی ضرورت ہرگز بھی نہیں ہے۔۔"
"میں کبھی بے تکلف نہیں ہوا بابا۔۔"
اور ایسے کہتے ہوۓ وہ پچیس نہیں پانچ سال کا لگ رہا تھا۔۔ "میں نے یہ نہیں کیا بابا۔۔ یہ تو گندے بچے کرتے ہیں ناں۔۔ میں تو اچھا بچہ ہوں ناں بابا۔۔"
اسکی شکل بالکل اسی طرح کا نقشہ کھینچے ہوۓ تھی۔ لیکن شیر کے نقوش میں پھر بھی نرمی نہ گھلی۔ انکی سرد آنکھیں سرد ہی رہیں۔
"سب کچھ تمہاری ڈھیل کی وجہ سے ہوا ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ تم کس قسم کے مرد ہو۔ ایک عورت کو ٹھیک سے جواب نہیں دینا آتا تمہیں! اگر یہ بات لالہ رُخ کو پتا چلی تو وہ بہت ہرٹ ہوگی ارسل۔۔ اور اسکے ذمے دار صرف اور صرف تم ہوگے۔"
"بابا لیکن-"
"کوئ اندھا بھی بتا سکتا ہے کہ وہ تم میں دلچسپی لیتی ہے۔۔"
اور اس بات پر اسکا چہرہ کانوں کی لوؤں تک سرخ پڑ گیا تھا۔ یہ آخر بابا کو کس نے بتادیا تھا۔ اس نے ضبط سے گہرا سانس لے کر بیچارگی سے سر اٹھایا تھا۔ پھر انہیں دیکھا۔
"میں نے بہت بار سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن۔۔"
"بس ارسل۔۔ مجھے پتا ہے کہ تم نے اسے کیسے سمجھایا ہوگا۔ میری ایک بات دھیان سے سنو۔ جب گھر بساتے ہیں ناں تب ہوا کے بہت سے سرد اور بے رحم تھپیڑے ہمارا گھر بکھیر دینے کے درپے ہوتے ہیں۔ تب ہمیں اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلنا پڑتا ہے ارسل۔۔ تب ان تھپیڑوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔۔ انہیں منہ توڑ جواب دینا پڑتا ہے۔۔ اور کئ سالوں تک بنا تھکے یہ کام بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دینا ہوتا ہے۔۔ تب جا کر کہیں گھر بستے ہیں۔۔ زندگیاں چلتی ہیں اور دو انسان اپنا گھر بچا پاتے ہیں۔ یہ صرف لالہ رُخ کے کرنے سے نہیں ہوگا۔۔ مجھے اسکا پتا ہے۔۔ وہ ڈٹ کر مقابلہ کرے گی لیکن تم جیسا بزدل انسان ضرور کہیں نا کہیں ہمت ہار جاۓ گا۔۔"
انکی آخری بات اسے کہیں بہت اندر تک زخمی کر گئ تھی۔
"آپ میرے کردار پر شک کررہے ہیں بابا۔۔!"
"شک نہیں کررہا ارسل۔۔ لیکن ایسا کوئ بھروسہ بھی نہیں کررہا تم پر۔ تم ایک کمزور اعصاب رکھنے والے ڈرپوک انسان ہو۔ جس عمر میں تمہیں ایک کڑا محافظ ہونا چاہیۓ اس عمر میں تمہاری حفاظت کرنی پڑرہی ہے مجھے۔۔ بھلا اس سے زیادہ ذلت کیا ہوسکتی ہے میرے لیۓ۔۔"
"میرا قصور نہیں ہے اس میں بابا۔۔"
اسکی آواز لرزی تھی۔ وہ پچیس سالہ مضبوط جوان تھا لیکن اسکی آواز لرز رہی تھی۔ وہ آج بھی کہیں اس تاریک بیسمینٹ میں قید تھا۔ اس اندھیر تہہ خانے میں وہ بچہ کہیں آج بھی چھپ کر رورہا تھا۔
"جو روتے ہیں ناں ارسل۔۔ ہمارے یہاں انہیں مرد نہیں سمجھا جاتا۔ عورت سمجھتے ہیں لوگ انہیں۔۔ کیا تم اتنے کمزور ہو کہ اس ذرا جتنی لڑکی سے ڈرجاؤ۔۔ نکل بھی آؤ بس اپنے اس ٹراما سے۔۔ ختم کرو اس قصے کو۔۔ کچھ نہیں ہوتا تمہارے چند سخت جملوں سے۔۔ کوئ نہیں مرتا۔۔ تم جتنا حساس ہوگے اتنا ہی یہ خوف تمہارے اندر جڑ پکڑ جاۓ گا۔۔ مرد بنو۔۔ مرد بن کر جیو۔۔"
اس نے گلابی پڑتی آنکھوں کو بمشکل جھپکایا اور پھر سر ہلاتا وہاں سے اٹھ آیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے گہرا سانس لیا تھا۔ پھر ٹائ کو مزید ڈھیلا کرتا آگے بڑھنے لگا۔ اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے اور حلق میں بہت سی گرہیں ابھرنے لگی تھیں۔ تھکے قدموں سے چلتا وہ اپنے کیبن میں چلا آیا تھا۔ پھر سر دونوں ہاتھوں میں گراۓ بیٹھا رہا۔۔ اگلے ہی پل ٹپ ٹپ آنسو اسکی آنکھوں سے گرنے لگے تھے۔
آمنہ کو دی گئ تکلیف ایک بار پھر سے کھرچنے لگی تھی۔۔
پھپھو کی اذیت نے بہت دنوں بعد آج اسکے اندر سر اٹھایا تھا۔۔
لالہ رُخ کے ساتھ ہوئ زیادتی کو سوچ کر وہ نۓ سرے سے تکلیف میں گھرنے لگا تھا۔
اس نے اس شادی کو روکنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن اسکی کوششیں رائیگاں گئ تھیں۔۔ اس نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی طرح آمنہ تکلیف سے بچ جاۓ لیکن وہ اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔۔ اس نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی طرح وہ پھپھو کے وجود سے بہتا خون روک سکے لیکن وہ۔۔ وہ تو اس میں بھی نامراد ہی رہا تھا۔
اس نے ہمیشہ سب کو ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کی کوششیں کی تھیں۔۔ اس نے انہیں حفاظت سے رکھنے کے لیۓ خود کو بہت تھکایا تھا لیکن آخر میں بزدل کون تھا۔۔؟ وہ ہی تھا۔۔ آخر میں بے غیرت اور ڈرپوک کون تھا۔۔؟ وہ ہی تھا۔۔ آخر میں عورتوں کی طرح کون رورہا تھا۔؟ وہ ہی رورہا تھا۔۔
تلخی سے ہنستے ہوۓ اس نے سر جھٹکا تھا۔ پھر آہستین سے گلابی نم سی آنکھیں صاف کیں۔ وہ نہیں دے سکتا تھا کسی کو بھی تکلیف۔۔ وہ کسی کو اذیت کا شکار کر کے چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا اور یہی۔۔ یہی اسکی کمزوری تھی۔۔ اسکی کمزوری نے اسے زندگی کے گزرتے ہر برس میں بے حد اذیت کا شکار کیا تھا۔
کہتے ہیں کہ اگر آپ مضبوط نہ بھی ہوں تب بھی خود کو فولاد ظاہر کریں۔ یہ تو کم از کم آپکو کرنا ہی چاہیۓ۔ اور وہ بھی یہی کررہا تھا لیکن وہ اس سب میں بری طرح سے شکست کا سامنہ بھی کررہا تھا۔ اسکے اوپر گزرتا ہر لمحہ بہت بھاری اور بوجھل ہوتا جارہا تھا۔۔ کاش کہ کوئ اسے سمجھ سکتا۔! اسے جانے کیوں۔۔ رُخ اس وقت بہت شدت سے یاد آئ تھی۔۔ ہاں اسے پہلی بار آمنہ نہیں بلکہ رُخ یاد آئ تھی۔۔
اور اپنے اس خیال سے بے خبر ارسل اب لالہ رُخ کی نم آنکھوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔ سر کرسی کی پشت سے ٹکاۓ۔۔ بالکل خاموشی کے ساتھ۔
وقت نے اسے گردن ترچھی کرکے بہت اداسی سے دیکھا تھا۔۔ اداس سی مسکراہٹ لیۓ۔۔
***
دوسری جانب افغان کے لاؤنج میں بیٹھے رامش، جنید اور گل کسی بات پر قہقہ لگا کر ہنس پڑے تھے۔ اسی وقت لاؤنج میں اسفند داخل ہوا تو ان تینوں کے بلند ہوتے قہقے ساکت ہوگۓ۔۔ ہشش۔۔ لالہ آگۓ ہیں۔۔ اب ذرا تمیز سے ہنسیں۔۔ وہ کیسے بھلا۔۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر۔۔ ہلکا سا ہی ہی ہی۔۔ اور بس۔۔
وہ تینوں بھی اگلے ہی پل سیدھے ہوۓ تھے۔ اس نے یہاں وہاں فاطمہ کو تلاشا اور پھر اگلے ہی پل اوپر کو جاتے زینوں کی جانب بڑھ گیا۔ اوپر سے اترتی بے خبر رامین سے اسکی مڈبھیڑ ہوئ تھی۔ وہ ریشمی دوپٹے کو بمشکل سر پر جماتی ساتھ سے نکلنے ہی لگی تھی کہ اسفند کی آواز پر رک گئ۔
"مامی کہاں ہیں۔۔؟"
رامین کے ابرو خواہ مخواہ ہی خفگی سے اکھٹے ہوۓ تھے۔ اسفند نے لبوں پر ابھرتی مسکراہٹ جلدی سے سمیٹی تھی۔
"وہ برابر میں خالدہ خالہ کے گھر گئ ہیں۔۔"
اس نے کہہ کر نیچے اترنے کے لیۓ پر تولے لیکن وہ ایک بار پھر اسے روک گیا۔
"میرا ایک کام کردیں گی آپ۔۔؟"
جناب۔۔ لاؤنج میں بیٹھے تینوں ہی بے ساختہ کھنکھارے تھے۔ اسفند کی ایک نگاہ پر جلدی سے چہرے دوسری طرف کو پھیر گۓ۔ جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔۔ ناں ناں۔۔
"مجھے میری ایک کتاب ڈھونڈ دینگی آپ۔۔؟ میں نے مامی کو دی تھی۔ لیکن انہوں نے پتا نہیں کہاں رکھ دی ہے۔ مجھے مل نہیں رہی۔"
اسکا مطالبہ ان تینوں نے بھی بخوبی سن لیا تھا اسی لیۓ جنید کی حسِ ظرافت پھڑکی تھی۔
"شادی سے ایک ہفتہ پہلے کونسا کتاب پڑھ کر لالہ کو ارسطو بن جانا ہے! بچو۔۔ سب بہانے ہیں رامین آپی سے باتیں کرنے کے۔۔"
اسکی سرگوشی پر گل اور رامش کھی کھی کرنے لگے تھے۔ دوسری جانب رامین نے جھنجھلا کر اسفند کی جانب دیکھا تھا۔ جیسے کہہ رہی ہو۔۔ "میں کتاب ڈھونڈنے والی لگتی ہوں آپکو۔۔!"
"کونسی کتاب ہے۔۔؟ اور اتنی بھی کیا لاپرواہی کے آپ سے ایک کتاب بھی نہ سنبھل سکی۔ چاچی کو وہ کتاب دے دی۔۔ ان سے تو اپنا آپ نہیں سنبھلتا اس عمر میں۔۔ آپکی کتابیں کہاں سنبھالتی پھریں گی وہ۔۔"
کہاں کا غصہ کہاں اتر رہا تھا۔۔ نہیں بلکہ ٹھیک جگہ ہی اتر رہا تھا۔
"ایک کتاب ہی تو کھوئ ہے۔۔"
اسفند کی مدھم سی آواز پر رامین کو اور ہی غصہ آیا تھا۔ یہ گنجا کبوتر۔۔!
"اچھا۔۔ پھر خیر ہے۔۔ ایک کتاب ہی تو کھوئ ہے۔۔ آپ جب تک کوئ اور کتاب پڑھ لیں۔۔ "
اس نے اب کہ صاف جواب دیا تھا۔ پھر "ہونہہ" کر کے زینے اترنے لگی۔
"پتا نہیں وہ کون تھا جو ایک کتاب کے نہ ملنے پر رورہا تھا۔ کیا آپ اسے جانتی ہیں۔۔؟"
اور زینے سے اگلا قدم اتارتی رامین ٹھہر ہی تو گئ تھی۔ لائبریری میں پھیلی وہ مدھم زرد رات جیسے اگلے ہی پل ہر جانب تحلیل ہو کر بکھرنے لگی تھی۔ اسفند جانتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ اسفند کو معلوم تھا کہ وہ کس جانب اشارہ کررہا تھا۔ رامین ایک جھٹکے سے اسکی جانب مڑی تھی۔ اسفند نے گردن ہلکی سی ترچھی کی تھی۔ پھر ہولے سے بولا۔۔
"مجھے بس یہ یاد نہیں آرہا کہ وہ لاپرواہ تھا کون جو اس رات اپنی کتاب کے نہ ملنے پر رورہا تھا۔ مجھے بس اس لاپرواہ سے ایک بات کہنی تھی۔۔"
وہ دو زینے اتر کر اس سے ایک زینے کے فاصلے پر رک گیا تھا۔ رامین سانس روکے تک رہی تھی اسے۔ اسکی سرمئ آنکھوں میں ہلکورے لیتی نرمی کے ساتھ گھلی ہلکی سی شرارت نے اسے الگ ہی رنگ دے دیا تھا۔
"وہ ایک کتاب کے کھوجانے پر رونے والی لڑکی، اپنی ذات کے کھوجانے کا سودا کرنے چلی تھی۔ زیادتی کررہی تھی وہ۔۔ پھر زیادتی روکنے والے کو ڈانٹ بھی رہی تھی۔۔ ظلم نہیں۔۔؟"
وہ مسکرایا تھا۔۔ بہت ہلکے سے۔۔ اسی پل داخلی دروازے سے فاطمہ داخل ہوئیں تو رامین جلدی سے پلٹ کر سرخ چہرہ لیۓ ، دوسری جانب بنے اپنے پورشن کی طرف بڑھ گئ۔ فاطمہ نے پہلے اسے جاتے دیکھا پھر سوالیہ نگاہوں نے اسفند کا سامنہ کیا۔ وہ مسکراتا ہوا ان کے عین سامنے آرکا تھا۔ فاطمہ اسکی مسکراہٹ سمجھتی تھیں اسی لیۓ چپکے سے وہ خود بھی متبسم ہوئ تھیں۔
"مامی مجھے کام تھا آپ سے۔۔۔"
"ہاں کہو۔۔"
" میرے دوست کے گھر والوں کو دعوت دینے کے لیۓ انکے گاؤں جانا ہے۔ چلیں گی ناں آپ۔۔؟"
اس نے پوچھا تو فاطمہ نے سر اثبات میں ہلایا۔ پھر اس سے وقت اور جگہ پوچھنے لگیں۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھنے لگا تو رامش کے سوال پر رک گیا۔
"آپکی تو کتاب کھو گئ تھی ناں لالہ۔۔"
کچھ سوچ کر وہ اگلے ہی لمحے مسکرایا تھا۔ پھر بے نیازی سے کندھے اچکاۓ۔۔
"میری نہیں۔۔ کسی اور کی کتاب کھوئ تھی۔۔ شاید مل گئ ہو اب تک۔۔میں اتنا لاپرواہ نہیں۔۔ چلتا ہوں مامی۔۔"
اسکی ذومعنی بات کو وہ تینوں نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ناں ہی فاطمہ سمجھ سکتی تھی۔۔ بلکہ اسکی اس بات کو زینوں کے اس پار کھڑی لڑکی سمجھ رہی تھی۔ وہ آگے بڑھتے ہوۓ لمحے بھر کو رکا۔۔ پھر چہرہ گھما کر زینوں کی جانب دیکھا جہاں وہ سن ہوئ کھڑی تھی۔۔ ایک پل کے لیۓ ان دونوں کی نگاہیں ملی تھیں۔۔ اور اس ایک نگاہ میں وہ اسے بہت سے راز سونپ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ رامین سے کھڑا ہونا محال ہونے لگا تھا۔۔ اسکے جیسے رگو پے میں وہ دو سرمئ نگاہیں حلول کر گئ تھیں۔۔ اس نے بمشکل گہرا سانس لیا اور پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھ آئ۔۔ یہ اسفند۔۔ کون تھا یہ اسفند۔۔! کیا تھا یہ اسفند۔۔!
***
شام کی سیاہی پھیلی تو بھاری پردے گرادیۓ گۓ۔ سردیوں کی سوغاتیں ہر جانب بکھرنے لگیں اور زرد قمقمے روشن کردیۓ گۓ۔ رُخ نے مسکرا کر دادی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔۔ پھر اندر داخل ہوگئ۔ دادی اپنی مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر جاۓ نماز پر ہی براجمان تسبیح کے دانے گرا رہی تھیں۔ اسے آتا دیکھ کر مسکرادیں۔۔
وہ پاس چلی آئ۔۔ پھر انکے ساتھ دبیز قالین پر بیٹھ گئ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اسے پیار کیا تھا۔
"آپ آج کمرے سے باہر ہی نہیں آئیں دادی۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے ناں آپکی۔۔؟"
اسکی متفکر سی سرگوشی پر وہ جھریوں زدہ چہرہ لیۓ مسکرائ تھیں۔ ایسے بچوں کی طرح مسکراتی ہوئیں وہ بہت پیاری لگتی تھیں۔ رُخ کو ہمیشہ ان پر بے طرح پیار آیا کرتا تھا۔۔
"بس آج کچھ طبیعت بوجھل سی ہورہی تھی۔ اسی لیۓ باہر آنے کا دل نہیں کیا۔۔ ویسے بھی بوڑھوں کا کیا ہے۔۔ ایک جانب بھی پڑے رہیں تو گھر کے نظامِ زندگی میں کیا فرق پڑتا ہے۔۔"
انہوں نے تسبیح چوم کر نگاہوں سے لگائ تھی۔ پھر کچھ پڑھ کر رُخ پر پھونکا۔ وہ مسکرا کر انکے قریب ہوئ تھی۔ پھر گھنگھور سیاہ پلکیں جھپکا کر انہیں دیکھا۔
"دادی میں یہاں لیٹ جاؤں۔۔؟"
انکی گود کی جانب اشارہ کیا تو وہ نحال ہی ہوگئیں۔ جیسے انہیں ارسل پیارا تھا ویسے ہی انہیں رُخ بھی بہت پیاری تھی۔ انہوں نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسے اپنی گود میں لٹایا تھا۔۔ پھر اسکے چہرے پر گھر آتی لٹ کو پرے کر کے اسکی صبیح پیشانی چومی۔ لالہ رُخ آپ ہی آپ مسکرانے لگی تھی۔۔
"دادی۔۔ مجھے آپ سے ارسل کے بارے میں کچھ بات کرنی تھی۔۔"
اس نے آہستہ سے کہا تو اسکی وہ جانب چہرہ جھکا کر دیکھنے لگیں۔
"نازنین پھپھو کے انتقال کے بعد ارسل کو کیا ہوگیا تھا دادی۔۔؟"
اسکی بات سن کر وہ بری طرح چونکی تھیں۔ پھر اسکی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو رُخ نے گہرا سانس بھرا۔
"مجھے ارسل نے بتایا تھا دادی۔۔ وہ انکی وجہ سے کافی ڈسٹرب رہے تھے۔۔"
دادی نے ایک بہت سرد آہ بھری تھی۔ جوان خوبصورت بیٹی کا دکھ آج بھی کہیں دل کو اندر تک زخمی کردیا کرتا تھا۔ انہوں نے آنکھوں میں جمع ہوتی نمی کو انگلی کے پوروں پر چنتے اداسی سے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
"نازنین سے بہت مانوس تھا ارسل۔ اسکے بغیر جیسے ادھورا تھا وہ۔۔ کسی کے ساتھ نہیں بنتی تھی لیکن نازنین میں جان تھی اسکی۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پہننا اوڑھنا اور پڑھنا لکھنا۔۔ غرض یہ کہ ہر چیز نازنین سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی تھی ارسل کی۔۔ پھر جب۔۔"
انکی آواز اس آخری جملے پر کانپی تھی۔ رُخ کا دل گھٹنے لگا تھا۔ اسکی آنکھیں بہت تیزی سے اداسی کی گرفت میں آنے لگی تھیں۔
"پھر جب وہ۔۔ وہ مرگئ تو ارسل کی زندگی گویا ختم ہی ہوگئ۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کسی بند کنویں میں قید ہوگیا ہو۔۔ سانس تک نہیں آتا تھا اسے۔۔ اس قدر نازنین کا غم اسے توڑ گیا تھا۔۔ کافی عرصے تک اسکی ذہنی حالت درست نہیں رہی تھی۔ اسے چیزیں یاد نہیں رہتی تھیں۔۔ بیٹھے بیٹھے باتیں کرنا بھول جاتا تھا۔۔ کتنے وقت تک خوابوں سے خوفزدہ ہو کر اٹھا تھا وہ۔۔ آج بھی یقین ہے مجھے کہ ان خوابوں نے پیچھا نہیں چھوڑا ہوگا اسکا۔۔ اپنی پھپھی کا خون میں لت پت جسم دیکھ کر، اسے مٹی کے نیچے دفن ہوتا دیکھ کر، اسکے گداز سے وجود کو سرد پڑتا دیکھ کر۔۔ ارسل کے اندر خوف نے بسیرا کرلیا۔ وہ ہر اس بات سے خوفزدہ ہونے لگا جو کسی کو تکلیف پہنچانے کا باعث بنیں۔۔ اس نے عام بچوں کی طرح لڑنا چھوڑدیا۔۔ ہر وہ کھیل کھیلنا چھوڑ دیا جو کسی بھی طرح کے جھگڑے کو دعوت دیتا ہو۔۔"
دادی کے آنسو اسکے چہرے پر گر رہے تھے اور اسکے اپنے آنسو دادی کے لباس میں جذب ہورہے تھے۔
"شیر بہت غصہ ہوتا تھا اس پر۔ وہ بزدل ہوگیا تھا ناں رُخ اور پٹھانوں میں تو بزدلی کو گناہِ عظیم تسلیم کیا جاتا ہے۔۔ پھر یوں ہوا کہ اس نے باپ کے سامنے۔۔ بلکہ کسی کے بھی سامنے رونا ترک کردیا۔ ہمیں لگا وہ ٹھیک ہوگیا ہے۔۔ ہمیں لگا کہ وہ زندگی کی جانب پلٹ رہا ہے لیکن ایسا نہیں تھا لالہ رُخ۔۔"
دادی کی سانس بتاتے بتاتے اکھڑنے لگی تھی۔
"ایک دن پھر میں نے اسے تاریک تہہ خانے میں چھپ کر روتے دیکھا۔ وہ گھٹنوں کو سینے سے لگاۓ بلک بلک کر رورہا تھا۔۔ اس دن مجھے پتا چل گیا کہ وہ تو آگے بڑھا ہی نہیں تھا۔۔ بس اس نے اپنی کمزوری پر خول چڑھالیا تھا۔۔ جیسے ہم زیوارت پر سونے کا پانی چڑھا کر خود کو۔۔ سب کو دھوکہ دیتے ہیں ناں رُخ۔۔ اسی طرح۔۔ وہ خود کو۔۔ ہم سب کو۔۔ نازنین کو دھوکہ دینا سیکھ گیا تھا۔۔ اس نے اپنا خوف ڈھکنا سیکھ لیا۔۔ اس نے بہت کچھ خود میں قید کیۓ رکھا ہے بچے۔۔ مجھے ثابت یقین ہے کہ وہ آج بھی اس خوف کے زیرِ اثر بہت کچھ برداشت کررہا ہوگا۔۔ بتاتا نہیں ہے وہ الگ بات ہے۔۔ لیکن ارسل آج بھی اسی تہہ خانے میں بند ہے بیٹے۔۔ "
انہوں نے تھک کر سانس لیتے ہوۓ اپنی آنکھیں صاف کی تھیں۔ پھر چہرہ جھکا کر رُخ کو دیکھا تو مسکرادیں۔ وہ اب اٹھ کر دادی کا گیلا چہرہ صاف کررہی تھی۔
"ارسل کا بہت خیال رکھا کرو رُخ۔ میرا پوتا بہت نازک ہے۔۔ جلدی ڈر جاتا ہے۔۔ گھبرا جاتا ہے۔۔ اسکی اس کمزوری کے باعث اس سے کبھی نفرت نہ کرنا۔۔"
اس نے انکا ہاتھ دبا کر انہیں یقین دہانی کروائ تھی کہ اسکا بہت خیال رکھے گی۔
"اچھا کھانا کھائنگی آپ۔۔؟ میں رمشہ کو بھی بلانے جارہی ہوں۔ صبح سے کمرے میں گھسی بیٹھی پتا نہیں کیا کررہی ہے۔۔ اور سونے پر سہاگہ آنٹی میری امی کی طرف گئ ہوئیں ہیں تو وہ محترمہ بالکل بھی باہر نہیں نکل رہی۔۔"
وہ اب تیز تیز بولتی اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی تو دادی نے ایک آسودہ سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے جاتے دیکھا۔ کیا ہوا جو انکا پوتا اتنا مضبوط نہیں تھا۔۔؟ جتنی مضبوط اور طاقتور رُخ تھی۔۔ انہیں یقین تھا کہ وہ اسے ضرور بالضرور ٹھیک کردے گی۔ ہاں۔۔ ضرور ہی۔۔
***
وہ باہر آئ اور پھر کچن کی سمت بڑھ گئ۔۔ یکایک اندر سے آتی دبی دبی چیخ کی آواز پر وہ ٹھٹھک کر رکی تھی۔۔ پھر ایک جھٹکے سے کچن کے اندر چلی آئ۔۔
ایک سوکھا سا لڑکا، رمشہ کے انتہائ قریب کھڑا کوئ سرگوشی کررہا تھا۔ اور رمشہ انتہائ خوفزدہ ہوئ، آنسوؤں سے رورہی تھی۔ اس کی نگاہیں اگلے ہی پل سپاٹ ہوئ تھیں۔۔ کنپٹی میں دوڑتا لہو جیسے ابل پڑا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اسکی شرٹ پیچھے سے جکڑی اور اسے اپنی طرف گھسیٹا۔ اگلے ہی پل ایک زوردار گھونسا اس نے لڑکے کے جبڑے پر مارا تو وہ لڑکھڑا کر پیچھے کی جانب لڑھکا۔
وہ اس بے وقت کی آفتاد پر بری طرح گھبرایا تھا۔ رمشہ بھاگ کر اسکے پاس آئ تھی۔ اس نے لہو رنگ آنکھوں سے لڑکے کو دیکھا۔۔ یوں جیسے اسے چیر پھاڑ دے گی۔ پھر آگے بڑھ کر اسکے پیٹ میں گھٹنا پوری قوت سے مارا تو وہ تکلیف سے بل کھاتا زمین پر گر پڑا۔
"ہمت کیسے ہوئ تمہاری میرے گھر میں قدم رکھنے کی۔۔ اور پھر رمشہ کو ہراساں کرنے کی۔۔!"
وہ اس پر جھکی پھر اسے گریبان سے جکڑ کر گھسیٹتی ہوئ لاؤنج میں لے کر آئ۔۔ اسکے بازوؤں میں جیسے جنوں بھوتوں کی سی طاقت بھر گئ تھی۔ لڑکے نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن رُخ کی پروفیشنل گرفت سے چھٹکارا پانا آسان نہیں تھا۔۔
لاؤنج سے گھسیٹ کر داخلی دروازے تک وہ اسے مارتی ہوئ لے کر گئ تھی۔ ساتھ ساتھ وہ اس پر خالص پشتو میں گرج بھی رہی تھی۔۔ انسان غصے میں ہو تو اپنی مادری زبان میں ہی کلام کیا کرتا ہے۔۔ وہ بھی اس پر گالیوں برسات کرتی اس پر پوری طرح سے حاوی ہوچکی تھی۔
ایک رامین تھی کہ جسے ڈھنگ سے ایک گالی دینے بھی نہیں آتی تھی اور ایک رُخ تھی۔۔جس نے خود سے عہد باندھ رکھا تھا کہ وہ اس زمین میں دفن تو ہوجاۓ گی لیکن کبھی ظلم برداشت نہیں کرے گی۔۔!
رامو کاکا شور سن کر داخلی دروازے کی جانب دوڑتے ہوۓ آۓ تھے۔ دادی بھی گھبرا کر کمرے سے باہر نکل آئ تھیں۔ پھر اسے لڑکے کو مارتے دیکھ کر اپنی ہی جگہ ٹھہر گئیں۔۔ رامو کاکا بھی پھٹی آنکھوں سے اسکے چلتے ہاتھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کسی لڑکی کو اس طرح لڑتے اور اتنے سخت الفاظ کا استعمال کرتے نہیں دیکھا تھا۔
لڑکے نے ایک دو دفعہ اسے مارنے کے لیۓ ہاتھ اٹھایا لیکن وہ ہر دفعہ اتنی پھرتی سے اسکا وار روکتی تھی کہ وہ مزید بوکھلا جاتا تھا۔ اسے گھر سے لات مار کر باہر پھینکنے کے بعد وہ اندر کی جانب مڑی تو رمشہ بے ساختہ ہی بھاگتی ہوئ اسکے قریب آئ اور پھر اس سے چمٹ گئ۔ اس نے اپنے سرخ پڑتے ہاتھوں سے اسکی پیٹ تھپتپائ تھی۔ پھر اسے خود سے الگ کیا۔۔ اسکا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔۔ اس نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر مضبوطی سے کھڑا کر رکھا تھا۔
"یہ لڑکا کون تھا رمشہ۔۔؟"
اور رمشہ ایک بار پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
"میں نے پوچھا یہ کون تھا۔۔؟"
اسکی آواز طیش سے بلند ہوئ تھی۔ رمشہ نے آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
"ز۔۔ زرتاج۔۔ کا بھائ تھا وہ۔۔"
اور رُخ کی پیشانی پر پڑا ہر بل ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ لب اگلے ہی پل بھنچ گۓ تھے اور ابرو تن گۓ تھے۔۔ زرتاج۔۔ استا دا مخ!
اس نے اپنے دانت پیسے تھے۔۔
***