زویا کو لگا کوئی بہت دور سے اسے آواز دے رہا ہے زویا نےگھبرا کر آنکھیں کھولیں تو مہروز کو خود پر جھکا ہوا پایا
زویا بہت اجنبی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
مہروز اسکی طبیعت پوچھ رہا تھا اسے کراچی چلنے کا بول رہا تھا
زویا اٹھو ہمیں جلدی نکلنا ہے تم چل رہی ہو سنو،،،،،
زویا کھڑی ہوگئی
نہیں اس طرح نہیں پہلے کچھ کھا لو آ ؤ ناشتہ کرو میرے ساتھ ،،،،
مہروز اسے پکڑ کے صوفے تک لایا اور ناشتہ کرانے لگا وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ بالکل چپ تھی نا رو رہی تھی نا کچھ بول رہی تھی
ائیرپورٹ سے ماموں جان کے گھر کا راستہ بھی خاموشی سے کٹا
مگر جیسے ہی گاڑی گلی میں مڑی اور زویا کو اپنا وہ گھر نظر آنے لگا جسمیں اسکا بچپن گزرا تھا تو اسکی برداشت اور ضبط جواب دے گیا پہلے آنسوؤں نے بغاوت کی اور پھر آواز نے،،،
وہ چیختے ہوئے دیوانہ وار گاڑی کا دروازہ کھول کر بھاگی اسکی ایک سینڈل گاڑی میں ہی رہے گیا تھا اور وہ ننگے پیر تھی اسنے یہ بھی نہیں دیکھا کے مہروز اور اسکا بیٹا اسکے ساتھ ہیں بھی یا نہیں بس وہ لوگوں کو ہٹا تی ہوئی گھر میں داخل ہو گئی
حاشر حاشر اٹھو دیکھو میں اگئی ہوں اب اٹھ جاؤ پلیز حاشر،،،
نادیہ جس کی خود بہت بری حالت تھی اسکو سنبھالنے آگے بڑھی
" زویا حاشر اب نہیں اٹھے گا وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلا گیا ہے "
زویا نے اسکے ہاتھ کو جھٹکا اور مریم بی کے پاس گئی
"تائی میرا یقین کریں وہ ٹھیک ہے اس نے خود بلایا ہے مجھے میں ناراض تھی نا اس سے آپ بولو اسکو یہ اب آٹھ کر بیٹھے اسکو تو نیند میں بھی میرے آنے کا پتہ چل جاتا تھا"،،،وہ انھیں رونے کا منع کرتے ہوئے کہہ رہی تھی،،،
تایا جان اور احمد تیزی سے اندر آئے کیونکہ زویا کی آواز باہر تک آرہی تھی
تایا جان نے زویا کے سر پر ہاتھ رکھا اور گلے لگانے کے لئے آگے بڑھے
زویا ان سے دور ہو گئی
"میں نے آپ سے کہا تھا نا مت کریں یہ ظلم وہ مرجائے گا میرے بغیر دیکھیں وہ اب اٹھ نہیں رہا "
احمد نے ایک زور کا تھپڑ اسکے لگایا،،،، اور کہا
ہوش کرو زویا،،،،
نادیہ اور کرن سے اسے کمرے میں لے جانے کا کہا کیونکہ لوگوں کی چیمہ گوئیاں شروع ہو چکی تھیں
اور پھر حاشر کو اسکی آخری آرام گاہ تک پہنچا دیا گیا تائی جان کو اپنا ہوش نہیں تھا ایک قیامت تھی جو گھر پر ٹوٹ چکی تھی
مہروز قبرستان سے ہی چلا گیا تھا گھر واپس نہیں آیا تھا احمد کو وہ بہت غصے میں لگا تھا رمیض چچا نے اسکا فون ملایا جو بند جا رہا تھا
مگر نیند کی دوا کی وجہ سے زویا کو کچھ ہوش نہیں تھا اپنے اوپر آنے والی اس نئی قیامت سے وہ انجان تھی
################
حاشر کو گئے چالیس دن ہو گئے تھے زویا نے خود کو بہت حد تک سنبھال لیا تھا اسکا زیادہ وقت اعیان اور تائی جان کے ساتھ گزرتا تھا تائی جان تو بس بستر سے لگ کر ہی رہے گئیں تھیں
مہروز نے پلٹ کر کوئی خبر نہیں لی تھی اور زویا میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود مہروز کو فون کر لیتی
######$###
زویا تائی جان کو سوپ پلا رہی تھی جب کرن نے اسکو آکر کہا کہ زارا احمد اس سے ملنے ائی ہے،،، وہ اٹھ کر باہر آگئی
اسلام وعلیکم،،،،
زویا نے زارا احمد کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا زارا کھڑی ہو گئی اور اسکے گلے لگی
آپ ملنا چاہتی تھیں مجھ سے،،،زویا نے حیرت سے زارا احمد کو دیکھتے ہوئے کہا
زارا نے کہا:
ہاں میں تمھیں کچھ بتانا چاہتی ہوں تاکہ تم حاشر کو غلط نہ سمجھو زویا حاشر نے تمھیں صرف اس بیماری کی وجہ سے ہی چھوڑا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ تم جو ساری زندگی بن ماں باپ کے رہی ہو آگے کی ذندگی بھی،،،،،،
زویا نے کہا : ،،،،
کب ہوئی اسے یہ بیماری اس نے کسی کو بتایا کیوں نہیں ،،،
لندن جانے سے بھی پہلے ہر وقت سر میں درد اور فلو رہنے کی وجہ سے اپنے ٹیسٹ کروائے تھے تو رپورٹ میں اسکے دماغ میں گلٹی آئی تھی لیکن اسے یہاں کے ڈاکٹروں اور رپورٹس پر کوئی بھروسہ نہیں تھا اسلئے جس فلم کے لئےوہ انکار کر چکا تھا اسے پھر حاصل کر لی کیونکہ وہ کچھ عرصہ لندن میں رہے کر اپنا علاج کرانا چاہتا تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسکے ماں باپ اور تم یہ صدمہ جھیلو اسلئے وہ فلم کو ایشو بنا کر لندن آگیا مگر وہ تمھیں نہیں چھوڑ سکتا تھا اسلئے تھوڑا خود غرض ہو گیااور شادی کی تاریخ پکی کر والی کہ جیتنی بھی ذندگی ہے تمھارے ساتھ گزارے گا اسوقت تک اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ اسکا ٹیومر اتنا پھیل چکا ہے
میں گواہ ہوں جب انڈیا سے اسے فلم کی آفر آئی حاشر نے صاف انکار کر دیا بلکہ وہ اب کوئی بھی نیا پروجیکٹ سائن نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے میں اس سے ناراض تھی اور اسے بیوقوف کہتی تھی
لیکن پھر اچانک اسنے فلم سائن کرنے کا اعلان کر دیا اور تمھارا فون اٹھانا بھی چھوڑ دیا میں بہت حیران ہوئی اور میں جو دل سے چاہتی تھی کے یہ فلم حاشر ضرور سائن کرے مگر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی
اس دن وہ مجھے بھی بالکل عام مرد ہی لگا کیونکہ مجھے پتہ جو نہیں تھا ،،،،
زویا نے چونک کر اسکی شکل دیکھی
:ہاں جب مجھے بھی نہیں پتہ تھا لندن میں اسکی رپورٹس بہت خراب آئی تھیں اسکا لاسٹ اسٹیج تھا اسکے پاس مشکل سے ایک دو سال ہی بچے تھے
اسلئے جب کرن کا مسیج آیا کہ تمھارے ماموں تمھارا رشتہ لے کر آنا چاہ رہے ہیں تو اس نے یہ سارا پلان بنالیا اور نا صرف فلم کی آفر قبول کی خود ہی یہ خبر بھی لیک کروادی اور اپنے بابا کو خط لکھ دیا جس میں تم سے بیزاری اور اپنے واپس نہیں آنے کا کہہ دیا
وہ چاہتا تھا کہ تم اپنے ماموں کے بیٹے سے شادی کر کے پشاور چلی جاؤ،،زارا ابھی کچھ اور بھی کہتی جب زویا نے کہا
: نہیں ایسا نہیں ہے اسے ماموں کا تو پتہ بھی نہیں تھا اور وہ احسن سے میری شادی ،،،،،،،،
زارا ایک دم ہنسی
ہاں اسلئے ہی اس نے خط میں احسن کا نام لکھا کیونکہ وہ جانتا تھا تم اب اسکی بات نہیں مانو گی اور فوراً اپنے ماموں کے بیٹے کے لئے ہاں کر دو گی
اور زویا کو یاد آیا کیسے بھرے کمرے میں سب کے سامنے کہا تھا
تایا جان احسن سے نہیں آپ ماموں جان کو ہاں کر دیں اب آپ کا بیٹا میری ذندگی کا فیصلہ نہیں کر سکتا اور شادی 27 دسمبر کو ہی ہو گی
ایک دم اسے زارا کی آواز حال میں واپس لے آئی
وہ تمھیں خوش رکھنے کے لئے جب خود پر اتنا بڑا ظلم کر سکتا تھا تو تم کیسے سوچ سکتی ہو کہ وہ احسن جیسے انسان سے تمھاری شادی ہونے دیتا لیکن وہ یہ بات اپنے بابا کو نہیں سمجھا سکتا تھا اسلئے تمھارے زریعے اس نے کہلوا دیا جیسے ہمشہ کرتا تھا اپنی ہر بات منوانے کے لئے تمھیں اگے
کچھ پوچھنا جاتی ہو زویا ،،،زارا نے کہا
آپ کو کب پتہ چلا کہ حاشر،،،،،زویا سے بات نہیں مکمل کی گئی وہ اسکی بیماری کا نام بھی منہ پر نہیں لا سکی،،،
:جس دن تم اپنے شوہر سے محبت کا اظہار کر رہی تھیں اسے یہ بتا رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر نظر نہ آئے تو تمھاری کیا حالت ہوتی ہے،،،،
زارا نے جتاتی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھا
زویا کو یاد آ گیا وہ کس دن کی بات کر رہی ہے
:بہت ٹوٹ گیا تھا وہ بہت رویا تھا اس دن اور اپنے سارے غم میرے کندھے پر سر رکھ کے بہا دئیےتھے
بس پھر اس نے واپسی کا سفر شروع کر دیا کام شوبز سب چھوڑ دیا شاید وہ اپنی موت سے پہلے ہی مر گیا تھا,,,,,,,
زارا چلی گئی تھی ،،،زویا نے آنسوں کو بہنے دیا یہ کیا کردیا تم نے حاشر کیوں ،،،
########
بھابھی کیا کہا پھر مہروز نے کب آرہا ہے شازیہ چچی نے مریم بی بی سے کہا
مریم بی بی ,,: احسان صاحب بتا رہے تھے وہ کہیں دوسرے شہر گیا ہوا ہے زمینوں کا کوئی مسئلہ ہے اکبر بھائی سے بات ہوئی تھی
بھابھی آپ کو نہیں لگتا وہ لوگ بہانا بنا رہے ہیں وہ اس دن کاجو گیا ہے تو پلٹ کر نہیں آیا نا کوئی فون ہی کیا ہے زویا کو پھر اکبر بھائی اور بھابھی بھی سوئم میں آئے اور اسی دن واپس چلے گئے
میں نے کہا ہے احسان سے اگر وہ نہیں آتا تو زویا کو وہ خود چھوڑ آئیں خدا نخواستہ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو سمجھائیں گے ان لوگوں کو اس بچی کی ذندگی اس طرح تو برباد نہیں ہونے دے سکتے،،،،، مریم بی بی رونے لگی تھیں
########
زویا اپنے کمرے میں بیٹھی یہ سب آوازیں سن رہی تھی مگر وہ کیا کر سکتی تھی وہ جانتی تھی وہ اپنا اعتبار کھو چکی ہے مہروز اب شاید کبھی اس پر بھروسہ نہیں کرے گا
########$##
زویا عصر کی نماز پڑھ کر لان میں آگئی اعیان کو کرسی پر بیٹھا دیا اور خود آسمان کو دیکھنے لگی تھوڑی دیر میں کرن نے فون لا کر اسکے ہاتھ میں دیا
ھیلو ،:زویا نے فون کان پر لگایا
اسلام وعلیکم ،،مہروز نے سلام کیا
زویا کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا پھنس گیا
زویا : میں گھر انا چاہتی ہوں
مہروز: میں تمھیں لینے آنا چاہ رہا تھا
دونوں نے ایک ساتھ کہا
مہروز: کل
زویا ؛ کب
پھر دونوں نے ایک ساتھ کہا
زویا میں آنے سے پہلے تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جو کچھ سنا وہ سب بھولنا ممکن نہیں ہے میرے لئے اسلئے ہی میں چلا گیا تھا ،،،وہ بہت سنجیدہ تھا،
زویا :پھر خان جی اب کیا ہوا
مگر میں نے سوچا اس سب میں میرے بیٹے کا کیا قصور ہے
زویا نے کچھ بولنا چاہ،،، خان جی،،،،،،،،
مہروز : ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی زویا
تم تین سال سے میرے ساتھ ہو اور مجھے پورا اعتماد ہے تم پر ایک شوہر سے زیادہ اپنی بیوی کو کوئی نہیں جان سکتا مگر میں نے کہا نا مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا لو گوں کی نظروں اور انکے سوالوں سے بچ کر میں چلا گیا تھا کبھی نا لوٹ کر آنے کے لئے لیکن میں اعیان کے لئے اپنے اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہوں تم سوچ لو
ہو سکتا ہے کبھی غصے میں میری زبان سے یا میرے عمل سے کچھ ایسا ہو جائے جس سے تمھیں تکلیف ہو برداشت کر پاؤ گی،،،
اور ایک وعدہ اور کرنا ہو گا اپنا غم اور آنسو کراچی ہی چھوڑ آنا یہاں کسی کو کچھ نہیں پتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی کچھ جانے ایک تایازاد بھائی کی موت کا جتنا غم تم نے منانا تھا منا لیا
میں اپنا کندھا نہیں دونگا تمھیں ،،،،،،،نا مجھے اپنا گھر مقبرہ بنانا ہے،،،،کیا انداز تھا طنز کرنے کا
زویا کو آج نجانے کتنے دن بعد ہنسی آئی تھی جو اسنے بڑی مشکل سے قابو کی کیونکہ مہروز خان کی آواز سے پتا چل رہا تھا وہ بہت غصے میں ہےاسکا دماغ بہت گھوما ہوا لگ رہا تھا
زویا:خان جی میں کچھ بھی نہیں بولوں گی کیونکہ شاید آپ کو یقین نہ آئےمیں جانتی ہوں میرے الفاظ اب اعتبار کے قابل نہیں ہیں لیکن میں اپنے عمل سے ظاہر کروں گئی کہ آپ اور آپ کا گھر میرے لئے دنیا میں سب سے ذیادہ اہم ہے ایک گھر کی ضرورت مجھے سب سے ذیادہ ہے
ایک مضبوط گھر کی بنیاد میں ہی ڈالوں گی آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں۔ ہوگی،،،
اور خاں جی سن کر اعیان نے بابا بابا کہنا شروع کر دیا
مہروز: میری بات کراؤ اعیان سے،،،، اسی رعب سے کہا گیا زویا نے فون اعیان کو پکڑا دیا
اب وہ باپ بیٹا بات کر رہے تھے
زویا کھل کر مسکرائی،،
زویا نے آسمان پر نظر کی شام ڈھل کر رات میں بدل چکی تھی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ جلد ایک نئی روشن صبح آنے والی ہے
حا شر کو وہ بھول تو نہیں سکتی تھی پر اپنے دل کے کسی بہت اندر چھپا چکی تھی
ختم شد