ہاں تو کیوں یاد کر رہی تھیں ظلمی ،،،،،مہروز نے مسکراتے ہوئے زویا سے کہا
وہ میں نے آپ کو سوری اور thank you کہنا تھا زویا نے آہستہ آواز میں کہا،،،،
سوری اور thank you کیوں بھئی خیریت ہے ویسے کسی کو یاد کرنے کے بعد مس یو اور love you کہا جاتا ہے پر چلو خیر ہے آپ کی تو ہر ادا ہی الگ ہے،،،،
وہ لیٹے لیٹے ہی مسکرا کر بولا،،،
:میں اپنی اس دن کی حرکت پر شرمندہ ہوں مجھے وہ الفاظ نہیں کہنے چاہیے تھے بس پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا آپ مجھے معاف کر دیں پلیز ،،زویا نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا
وہ بہت سخت الفاظ تھے اور اگر میں اسوقت گھر سے نہیں چلا جاتا تو شاید اپنا سب سے بڑا نقصان کر چکا ہوتا
پلیز آپ مجھے معاف ::::::
بس زویا ،،مہروز نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی
جو ہوا بھول جاؤ مجھے بھی وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا جومیں نے کیا اور ویسے بھی تم نے مجھے اتنا پیارا تحفہ دیا ہے کہ تمھاری ساری غلطیاں معاف کرنے کا دل چاہ رہا ہے ،،،،،
مہروز نے زویا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا
نادیہ کمرے میں آئی،: سوری وہ میں ،،،،،
مہروز نے زویا کے ہاتھ چھوڑے اور اٹھ کر بیٹھ گیا
نادیہ جو کمرے سے جارہی تھی اسکو آواز دی
نہیں بھائی آپ آرام کریں میں جارہی ہوں،،،نادیہ جلدی سے بولی
آپ بیٹھو اپنی بہن کے پاس بیٹا میں ویسے بھی جا ہی رہا تھا اور مہروز کمرے سے نکل گیا
نادیہ نے اپنا رکا ہوا سانس بحال کیا
اف زویا مہروز بھائی میری تو جان نکل جاتی ہے تم کیسے رہتی ہو انکے ساتھ،،کہیں ناراض تو نہیں ہوگئے ،،،،،
اسنے زویا کی طرف دیکھا جو ہنس رہی تھی
یہ تمھارے دانت کیوں نکل رہے ہیں ############
زارا احمد حاشر کو بلانے اسکے کمرے میں آئی تھی کیونکہ انکی شوٹنگ آج ختم ہو گئی تھی اور پورا کروو آج پکنک کے موڈ میں تھا مگر کمرے میں آکر وہ حیران رہے گئی کوئی چیز کمرے کی جگہ پر نہیں تھی ایسا لگتا تھا کمرے میں بھونچال آیا ہے
وہ تیزی سے حاشر کی طرف بڑھی جو زمین پر بیٹھا تھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام رکھا تھا
حاشر یہ کیا کیا ہے تم نے اگر کوئی اور روم میں آ جاتا پہلے ہی تم ابھی میڈیا کے نشانے پر ہو کتنی مشکل سے تمھیں ملک سے باہر شوٹنگ کی اجازت ملی تھی کسی کو اگر پتہ چل گیا تو جانتے ہو کیا ہوگا ،،،زارا نے اسکے کندھے کو ہلا یا
حاشر تم سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں
اسنے مجھے بھلا دیا زارا صرف ایک سال میں وہ کیسے کر سکتی ہے ایسا،،،،وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا
کس نے حاشر کس کی بات کر رہے ہو پاکستان میں سب ٹھیک ہے ،،،،زارا نے پوچھا
وہ اس بلیڈی،،،،،،،گالی سے اظہار محبت کر رہی تھی اور وہ اسکا شوہر وہ اسے پتہ ہے کیا بول رہا تھا
حاشر زویا تمھاری زندگی سے نکل چکی ہے ،،زارانے کہا
نہیں نکلی ہے وہ،،،،، حاشر اتنی زور سے دھاڑا کے زارا کو لگا اسکے کان کے پردے پھٹ جائیں گے
زارا : آہستہ حاشر ،،،،
: وہ کیسے کر سکتی ہے زارا ایسا ،،،،،
حاشر زارا کی کوئی بات سن نہیں رہا تھا
ٹھیک ہے میں نے اس سے شادی نہیں کی پر وہ میری محبت ہے وہ کیسے بھول گئی ،،،،حاشر نے زویا کو کندھوں سے پکڑا
زارا کو وہ ٹھیک نہیں۔ لگا اسکی سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے
وہ حاشر کو پانی پلانے کے لیے بیڈ کیے پاس آئی اور گلاس میں پانی نکالنے لگی اسکی نظر بیڈ کے پاس بکھری شیشوں اور پیکٹ پر پڑی اور گلاس اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا
وہ تیزی سے حاشر کی طرف آئی
یہ کیا ہے حاشر ،،،،،، زارا نے حاشر کو جھنجوڑ ڈالا
حاشر کب سے کب سے استعمال کر رہے ہو تم یہ سب یہ کیا ہے حاشر ،،،حاشر،،،
زارا نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکی کو روکا
حاشر کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے اور تھوڑی دیر میں ہی اسنے بچوں کی طرح زور زور سے رونا شروع کر دیا
زارا اسکے برابر میں زمین پر ہی بیٹھ گئی اور حاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھا حاشر کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا اور حاشر کو بہت بڑا سہارا مل گیا وہ اسکے کندھے سے لگا اپنے پتہ نہیں کون سے غم رونے لگا ،،، زارا اسکی کمر تھپتھپاتی رہی،،،
میں مر جاؤں گا زارا یہ میں نے کیا کر دیا میں نہیں دیکھ سکتا اسے کسی کے بھی ساتھ وہ کیسے بھول گئی وہ وہ میں نہیں رہے سکتا اسکے بغیر کیا کر بیٹھا ہوں میری سانس رک رہی ہے زارا میرا سر پھٹ رہا ہے
زارا اسکو چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگی تھی
########
سب لوگ زویا کے کمرے میں بیٹھے تھے کرن زویا سے بات کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ فون والی بات پر اس سے ناراض ہو گئی تھی
زویا بیٹا تم یہاں خوش ہو نہ مہروز کے ساتھ ،،مریم بی بی نے پوچھا زویا سے تھا مگر جواب ایک دم شازیہ چچی نے دیا
بھابھی اسکو دیکھ کر ہی پتہ چل رہا ہے یہ یہاں بہت خوش ہے دیکھا نہیں آپ نے ساس اور میاں نے کیسا ہاتھ کا چھلا بنا کر رکھا ہوا ہے اور ایک احسان بھائی ہیں کے اسکی وجہ سے بچارے حاشر کو گھر بدر کیا ہوا ہے اور اس بچے کو اس منحوس اداکارہ کے گھر رہنا پڑتا ہے
نادیہ اور احمد نے ماں کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ شازیہ تھیں چپ ہونا انھوں نے سیکھا ہی نہیں تھا
لو تو کیا میں غلط کہہ رہی ہوں ابھی پچھلے دنوں اسی بات پر کتنا بڑا مسئلہ ہوا تھا میڈیا نے کیسی کیسی خبریں چلائی تھیں پولیس کیس بن گیا تھا ضمانت پر چھوڑا کر تو وہ ڈرامے والے اسے شوٹنگ پر لے کر گئے ہیں
مما بس اب چپ ہو جائیں کہاں، بیٹھی ہیں یہ تو دیکھ لیا کریں،،،،احمد غصے سے بولا
زویا نے انکو افسوس سے دیکھا بعض لوگ کبھی نہیں بدلتے
زویا نے تائی جان سے کہا
میں یہاں بہت خوش ہوں تائی جان مہروز مجھ سے بہت محبت کرتا ہے پلیز آپ تایا جان کو میری طرف سے کہیں کے وہ حاشر کو گھر بلا لیں میرا نصیب یہاں تھا یہ اللّٰہ کا فیصلہ تھا اور میرے اللّٰہ نے مجھے بہت بہت اچھا اجر دیا ہے میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے
مریم بی بی نے اسکو گلے لگا لیا
#########
حاشر اپنی سارے ٹیم ممبر کے ساتھ ہوٹل کے ڈائنیگ ہال میں بیٹھاٹیبل بجاکر گانے گا رہا تھا اور مذاق کر رہا تھا جب زارا احمد ہال میں آئی وہ حاشر کو دیکھنے لگی
جس کے چہرے سے ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ کمرے میں کیا کر رہا تھا مگر اسکی آنکھیں بغاوت کر رہی تھیں وہ ہنستی آنکھیں چپ تھیں
حاشر کی زارا سے نظر ملی تو حاشر نے اپنی دو انگلیوں کو ہونٹوں پر رکھ کر اسے فلائنگ کس کا اشارہ کیا اور آنکھ ماری
سب لوگوں نے زارا کو دیکھا اور اوووووو کی آواز نکالی
زارا نے دو انگلیاں اٹھائیں اور ہاتھ کی گن بنا کر گولی مارنے کا اشارہ کیا تو حاشر اور سب زور زور سے ہنسنے لگے
##########
زویا جیسے لگتا تھا کہ اس شہر میں وقت نہیں گزرتا اب اسے وقت ہی نہیں ملتا تھا مہروز اور اعیان اسکی کل کائنات تھے
کراچی سے نادیہ کی شادی کا کارڈ آیا تھا مہروز نے اس سے کہا اگر وہ جانا چاہتی ہے تو وہ چھوڑ آئے گا پر اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اعیان کو اکیلے نہیں سنبھال سکتی اور پھر بی بی جان کی طبعیت بھی ان دنوں بہت خراب تھی
ایک دن مہروز نے اسے بتایا کہ حاشر نے شوبز چھوڑ دی ہے اسنے ٹی وی پر آکر کہا ہے کہ وہ صرف اپنے ادھورےپروجیکٹ پورے کرے گا
پر زویا نے مہروز کو یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ایک دفعہ پہلے بھی اس شخص کی وجہ سے مہروز اس سے ناراض ہو چکا ہے اور زویا نے وہ دن بہت اذیت میں گزارے تھے اسلئے وہ اب اسکی کوئی بات نہیں کرے گا ،ادھر حاشر خان نے شوبز کو بالکل ہی خدا خافظ کہہ دیا
زویا کی دنیا بس یہ گھر اسکا شوہر اور بیٹا تھا اسے باہر کیا ہو رہا ہے اس میں دلچسپی نہیں تھی وہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی
#######
زویا کی شادی کو تین سال ہونے والے تھے بی جان کے انتقال کو چھ مہینے ہوگئے تھے
######
کافی دنوں سے تایا جان کے گھر سے کسی کا فون نہیں آیا تھا وہ تو اب کراچی فون کرتی ہی نہیں تھی جب سے اسے پتا چلا تھا کہ حاشر اب گھر اگیا ہے
#$#
زویا عشاء کی نماز پڑھ کر بیٹھی تھی جب مہروز آیا
اس نے اعیان کو گود میں اٹھا لیا جو اب چلنے لگا تھا زویا نے اس سے کھانے کا پوچھااور کھانا لینے چلی گئی
کھانا کھانے کے بعد مہروز نے کہا
زوئے کیا ہوا ہے تم نے کھانا بھی نہیں کھایا طبیعت ٹھیک ہے تمھاری
بس پتا نہیں آج دل بہت گھبرا رہا ہے ،،،وہ آہستہ سے بولی
چلو کہیں باہر چلتے ہیں ،،،مہروز نے اسکا ہاتھ نرمی سے پکڑ کر سہلایا،،،
کچھ دیر سونا چاہتی ہوں بس اعیان کو سلا دوں ،،،،اس نے اعیان کو دیکھتے ہوئے کہا
تم اعیان کی فکر مت کرو ہم باپ بیٹا باہر جا رہے ہیں تم آرام سے سو جاؤ،،،،،
اور زویا سونے لیٹ گئی پتہ نہیں کیوں آج اسکو بہت رونا آرہا تھا اسے سب بہت یاد آرہے تھے ابھی خان جی آجائیں تو کراچی فون کروں گی بہت دن ہوگئے وہاں سے کسی نے فون نہیں کیا اور وہ یہ سوچتے ہوئے سو گئی
مہروز جب کمرے میں آیا وہ بے خبر سو رہی تھی اس نے آہستہ سے اعیان کو لیٹا یا اور خود بھی لائٹ اوف کر کے سونے لیٹ گیا
####
زویا تم آگئیں میں کب سے بلا رہا تھا ،،،حاشر نے ہاتھ بڑھایا،،،
حاشر تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے میرے آنے کا
حاشر ہلکے سے ہنس گیا
تم نہیں سمجھو گی چندا
حاشر تمھیں کیا ہوا ہے تم بیمار ہو
ہاں زویا میں بہت تکلیف میں ہوں ،بیمار ہوں میں بہت دیر کر دی آنے میں
حاشر حاشر
زویا کی آنکھ کھل گئی وہ خواب میں ڈر کر اٹھی تھی دور کہیں سے فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی وہ آہستہ سے بیڈ سے نیچے اتری اور نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئی
نماز سے فارغ ہو کر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے پھر اسنے ڈرتے ڈرتے "حاشر "کا نام لیا آنکھوں میں ایک سیلاب آگیا وہ اللّٰہ سے اسکے لئے معافی مانگتی رہی زندگی ہدایت اور پتہ نہیں کیا کیا زویا نے پورے تین سال بعد اس شخص کے لئے دعا کی تھی جو پہلے اسکی ہر دعا میں شامل تھا
اے اللّٰہ میں نے حاشر کو معاف کر دیا آپ بھی اسے معاف کر دیں اسے بہت سارا سکون دے دیں اسے کوئی تکلیف چھو کر بھی نہیں گزرے،،،، وہ وہیں جائے نماز پر سو گئی
کہیں فون کی بیل ہو رہی تھی جب زویا کی آنکھ کھلی اسنے مہروز کو کسی سے بات کرتے دیکھا وہ تیزی سے اٹھ کر اسکے پاس آئی
جب تک مہروز فون بند کر چکا تھا پر اسکا چہرہ کسی بری خبر کی تصدیق کر رہا تھا اور زویا تیزی سے کمرے سے باہر جانے لگی
زویا بات سنو ادھر آؤ ،،،مہروز نے اپنی آواز پر قابو پاتے ہوئے کہا
بس خان جی میں آپ کا ناشتہ بنا کر لاتی ہوں،،،
وہ بھاگ کر کمرے سے نکل جانا چاھتی تھی
زوئے،،سب کام چھوڑو اور میرے پاس آکر بیٹھو،،،،نرمی سے کہا
جی بس آتی ہوں اعیان کے لئے فیڈر بنا لاؤں،،،،،
وہ دروازہ کھول چکی تھی
جب مہروز کو اسنے کہتے سنا
"زوئے،حاشر کی ڈیتھ ہو گئی ہے ہمیں کراچی جانا ہے"
زویا کے قدم تو کیا سانسیں بھی رک گئی
اسے برین ٹیومر تھا اسکے قریبی دوستوں کے علاؤہ کسی کو یہ خبر پتہ نہیں تھی اسنے اپنے گھر والوں سے بھی یہ خبر چھپائی ،،،،،،،،،،، زوئے،،زویا مہروز کی آواز سے پوری حویلی لرز اٹھی تھی زویا زمین پر بے ہوش پڑی تھی
وہ آئے تو کہنا مسافر تو گیا