زویا بیٹا تم تو پشاور جا کر ہمیں بھول ہی گئی ہو(مریم بی بی کا کراچی سے فون آیا ہوا تھا)
نہیں تائی جان آپ اور تایا ابو بہت یاد آرہے ہیں پر ڈاکٹر نے اتنی دور سفر کرنے سے منع کیا ہوا ہے ،اپ لوگ آجائیں نا میں سب کو بہت یاد کر رہی ہوں ،،،،،زویا نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے مہروز اندر آیا تھا اور اشارے سے فون کا بتایا
مریم بی بی : ہاں یہاں تو سب تیار بیٹھے ہیں بس جیسے ہی وہ خوشی کا دن آیا ہم سب آئیں گے انشا اللّہ
اچھا تائی جان سب کو میرا سلام کہیے گا پھر بات کروں گی ابھی خان جی آگئے ہیں ،، اللّٰہ حافظ
مریم بی بی : اللّٰہ حافظ بیٹا
زویا نے فون رکھ کر مہروز کو دیکھا وہ کوئی کرنٹ افیئر کا پروگرام دیکھ رہا تھا
فون رکھ کر جانے لگی مہروز نے آواز دی
زوئے پلیز چائے کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی ،،،مہروز نے مسکرا کر کہا
زویا نے گردن ہلائی اورکمرے سے نکل آئی چائے بنانے رکھی اور کباب نکال کر فرائی کرے
"یہ خان صاحب آجکل بڑا مسکرانے لگے ہیں کسی نے شاید بتا دیا ہے ظالم مسکراتے ہوئے بڑا قاتل لگتا ہے"
وہ مہروز کو سوچ رہی تھی اور تعریف کا اسٹائل بھی بالکل مہروز والا ہی تھا ،،، وہ کسی کی تعریف کرتا تو ظالم اور قاتل لفظ ضرور ہوتے،،،
،،تو زویا رنگ چڑھنے لگا ہے آپ پر مہروز خان کا،،،
ٹرے لے کر کمرے میں آئی مہروز ٹی وی ہی دیکھ رہا
خان جی چائے ،،،،
مہروز نے کمرے میں چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھا اور حیرانی سے پوچھا؛ ،"،کون میں "
تو اور کون ہے کمرے میں ،،،زویا نے منہ بنا کر جواب دیا،،،
سب خیریت ہے نہ طبعیت تو ٹھیک ہے تمھاری" "خان جی" اللّٰہ یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں،،،مہروز نے مسکرا کر طنز کیا
: بی بی جان کہتی ہیں شوہر کی عزت آنکھ سے شروع ہو کر زبان پر ختم ہوتی ہے ،،،،بڑی معصومیت سے راز کی بات بتائی
: واہ میرے مولا کیا فرمابردار بیوی دی ہے
جان ہی لے لی تم نے تو ظالم ویسے محبت کے بارے میں نہیں پوچھا تم نے بی جان سے وہ کہا ں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہے ،،،،،،،،
مہروز نے شرارت سے پوچھا
یہ تو نہیں بتایا انھوں نے میں ابھی پوچھ کر آتی ہوں ،،،،،،
وہ جانے کے لئے اٹھی تو مہروز نے گھبرا کر اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا،،،،
:پاگل ہو گئی ہو کیا ،،،،،،
زویا زور زور سے ہنسنے لگی مہروز اسکی شرارت سمجھتے ہو ابھی کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ٹی وی پر بریکینگ نیوز کا میوزک سنائی دیا دونوں کی توجہ ٹی وی کی طرف ہو گئی
نیوز اینکر بول رہی تھی
"شوٹنگ کے دوران حاشر خان اور ڈائریکٹر ندیم قریشی کا جھگڑا،،،"
ندیم قریشی نے حاشر خان پر قاتلانہ حملے کا الزام لگایا ہے دونوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ زارا احمد بنی ہیں
اب اسکرین پر کلپ بھی چل رہا تھا جس میں حاشر نے ندیم قریشی کو زمین پر گرایا ہوا تھا اور وہ اسے لاتوں اور گھونسوں سے مار رہا تھا
زویا کی نظر ضرور اسکرین پر تھی مگر وہ خود ماضی میں گم تھی جہاں حاشر ایسے ہی نواز انکل کے بیٹے کو مار رہا تھا وجہ تنازع وہ خود تھی پر الزام وہی تھا جو آج زرا احمد پر لگا تھا
زویا نے مہروز کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھنچا ،،،،،مہروز نے حیرت سے زویا کا انداز دیکھا،،اور ہاتھ دوبارہ پکڑا،،،،
،نیوزاینکر بول رہا تھا،،
ندیم خان نے زارا احمد اور حاشر خان کے درمیان ناجائز تعلقات کا الزام لگایا ہے
زویا نے مہروز خان کے ہاتھ سے دوبارہ اپنا ہاتھ کھینچا اور غصے سے کہا
بکواس کر رہا ہے یہ،، چینج کریں آپ چینل یہ لوگ تو شروع سے ہی اسکے پیچھے لگے ہیں گھٹیا انسان،، کمینے،،،
مہروز جو پہلے ہی اسکے ہاتھ چھڑانے پر اسے دیکھ رہا تھا اب یہ باتیں سن کر بولا ،،،،،
کیا پاگل ہو گئی ہو کس زبان میں بات کر رہی اور یہ فلمی ایکٹر تو ہوتے ہی گھٹیا ہیں انکے لئے یہ کونسی بڑی بات ہے ان کا کوئی دین ایمان نہیں ،،،
تم خود ہو گئے گھٹیا خاندان کے تمھاری ہمت کیسے ،،ہوئی،،،،،
اور اسکا جملہ مہروز نے پورا نہیں ہونے دیا اسکی گردن دبوچ کر بولا،،
اپنے ہاتھوں سے ذندہ قبر میں گاڑھ دونگا اگر اب زبان سے ایک لفظ بھی نکالا ،،،،،
زویا کی درد سے آنکھیں باہر آنے لگی اسکا دم گھٹ رہا تھا جس حالت میں وہ ان دنوں تھی اسے لگا اسکا سانس رک جائے گا
مہروز کو بھی شاید اسکی طعبیت کا ہی خیال آیا تھا اپنے ہاتھ اسکی گردن سے ہٹائےاور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا
زویا کا سانس بہت پھول رہا تھا اس سے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا مگر وہ اپنے حواس میں نہیں تھی چلا کر بولی،،،،،،،،،،
: بولوں گی دس دفعہ بولوں گی اب کہو تم کچھ بھی حاشر کو جنگلی جانور ،،،،،اپنی گردن کو سہلاتے ہوئے کہا
مہروز نے بہت حیرت سے زویا کی طرف دیکھا اور کمرے سے ہی نکلتا چلا گیا
زویا حال میں واپس آئی
ہائے اللّٰہ یہ کیا ہوگیا
زویا کو احساس ہوا کہ وہ کیا کر چکی ہے تو تیزی سے دروازے کی طرف بھاگی ممانی جان نے زویا کو اس حال میں بھاگتے دیکھا تو جلدی سے پکڑا
زویا زویا کیا ہوا ہے اللّٰہ رحم ابھی کچھ ہو جاتا تو حالت دیکھو اپنی،،،،
ممانی خان جی کو روکیں وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے ہیں
اور ممانی جان نے اپنا سر پکڑ لیا
توبہ ہے زویا بس اتنی سی بات پر تم بھاگ رہی تھیں حد ہے اور یہ تمھارے خان جی کا موڈ ٹھیک ہی کب ہوتا ہے جو تم ڈر رہی ہو اور جائے گا کہاں اجائے گا رات تک جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو شاباش،،،،
پر زویا جانتی تھی یہ اتنی معمولی بات نہیں تھی اور پھر ایسا ہی ہوا مہروز نے اسکی طرف دیکھنا بھی چھوڑ دیا اول تو گھر آتا ہی نہیں بس اپنے ڈیرے پر ہی رہتا اور کبھی آنا بھی پڑتا تو زویا کی طرف نظر بھی نہیں کرتا زویا اسکے آگے پیجھے پھرتی مگر وہ تو دوبارہ پتھر ہو گیا تھا
مہروز کہیں جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا زویا اسکے پاس ہی کھڑی تھی مگر مہروز اسکی طرف نظر اٹھا نا بھی بھول چکا تھا اسنے پرفیوم خود پر اسپرے کیا اور بوتل ڈریسنگ پر پھینکی پھر کمرے سے جانے لگا
جب زویا تیزی سے اسکے سامنے آگئی اور دروازے پر ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی
خان جی بس کر دیں پلیز مجھ سے غلطی ہوگئی مجھ سے آپ کی ناراضگی اب برداشت نہیں ہو رہی،،،وہ روتے ہوئے بولی،،
راستہ چھوڑو دیر ہو رہی ہے مجھے،،،،وہ غرایا
نہیں ہٹوں گی میں پہلے آپ کہیں آپ نے مجھے معاف کیا،،،ضدی لہجے میں کہا
مہروز نے کچھ بھی کہنے کے بجائے اسے دروازے سے کھینچ کر ہٹایا اور تیزی سے کمرے سے نکلتا چلا گیا،،زویا وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی،،
زویا کی جان پر بن آئی تھی وہ جو مہروز خان کی محبت کی عادی ہو گئی تھی اب یہ بے اعتنائی برداشت نہیں کر پارہی تھی اسنے کہیں پڑھا تھا عادت محبت سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے اور آج اسے یقین آگیا تھا اسے نا اب حاشر کی پرواہ تھی نا دوسرا کوئی خیال وہ بس مہروز کو منانا چاہتی تھی ،،،،
#######
زویا کی طبیعت صبح سے بہت خراب تھی مہروز آج رات بھی گھر نہیں آیا تھا اسنے لیٹے لیٹے ہی مہروز کا بےشکن بستر دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گئی اسکے سلیپر نظر نہیں آرہے تھے زویا نے پہلے بیٹھے بیٹھے ہی پاؤں سے سلیپر نکالنے کی کوشش کی جب نہیں نکلے تو جھک کر نکالنے لگی
مہروز نے کمرے میں آ کر اسکی حالت دیکھی تو بھاگ کر اسکے پاس آیا اور بیڈ پر اسکو بیٹھا کر گھورنے لگا
زویا کا سانس پھول رہا تھا اسنے پھولی ہوئی سانسوں سے ہی بتایا
تو زویا کی آنکھوں نے دنیا کا سب سےحیرت ناک نظارہ دیکھا اسکے شوہر نے زمین پر بیٹھ کر اسکے سلیپر نکالے اور پھر بیٹھے بیٹھے ہی اسکے پیروں میں ڈال دیئے
زویا کی آنکھوں سے آنسو نکلےاور وہ مہروز کا ہاتھ پکڑ کر اس پر اپنا ماتھا ٹکا کر زور زور سے رونے لگی
مہروز بس اتنا ہی برداشت کر سکتا تھا اپنا دوسرا ہاتھ زویا کے سر پر رکھا اور کہا ،،،،، اچھا اب چپ کرو طبعیت خراب ہو جائے گی زوئےکیا بول رہا ہوں میں چپ کرو،،،،،
مہروز نے ہاتھ سے اسکے چہرے پر آئے بال ہٹائے اور آنسوں صاف کئے
زویا نے تیزی سے اپنا سر اٹھایا اور روتے ہوئے ہی مسکرائی کہیں پھر وہ ناراض ہو کر نہ چلا جائے اور شیشے میں مہروز اور خود کو دیکھ کر مسکرائی تو مہروز نے اسکی طرف دیکھا ،،،،
زویا نے آنکھوں سے شیشے کی طرف اشارہ کیا
زویا بیڈ پر بیٹھی تھی اور مہروز اسکے پیروں میں زمین پر ،،،
اونچی ناک والا مہروز ایک دم کھڑا ہو گیا اور جانے لگا
زویا نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا اور ہنسنے لگی
تمھیں پاگل خانے میں ہونا چاہئے کارٹون ہو پوری اور وہ خود بھی ہسنے لگا
ظالم لڑکی پاگل کردیا ہے تم نے مجھے بھی،،،دونوں کی ہنسی اس کمرے میں کافی عرصے بعد گونجی تھی،،،،
اسی شام زویا کے گھر ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا
کراچی سے سب آئے تھے تائی جان نے اسکے میکے کا مان رکھا تھا وہ اسکے سسرال کے لئے بہت سے گفٹ اور بچے کے لئے بہت سارے کپڑے اور کھلونے لائی تھیں سب زویا کو گھیر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ لالائی نے کھانا لگنےکی اطلاع دی
سب کھانے کے کمرے میں جانے لگے بس کرن اسکے پاس بیٹھ گئی،،،
کرن تم بھی کھانا کھا لو جا کر
ہمم ہاں بس میں جارہی ہوں وہ دراصل عا نیہ تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی بیل دی ہے میں نے وہ فون کرے گی
تو تم سیل یہاں رکھ جاؤ میں بات کر لونگی،،،، عانیہ ان دونوں کی مشترکہ دوست تھی
تھوڑی ہی دیر میں بیل بجی اور عانیہ کا نمبر لکھا نظر آنے لگا
زویا نے مسکراتے ہوئے فون اٹھایا ،:،،،،،
ہاں جی آگئی آپ کو ہماری یاد،،،،،
زویا کی ہنسی ایک دم سامنے والے کی آواز پر سمٹی
"تمھیں بھولا ہی کب ہوں"
دوسری طرف حاشر تھا
زویا تمھیں میری قسم فون مت رکھنا،،،،،،،حکم دینے والے لہجے میں آج منت تھی،،،
تمھیں لگتا ہے ابھی بھی اس قسم میں اتنی طاقت ہے،،،،،،
زویا نے اسکا مذاق اڑاتے لہجے میں پوچھا
اور اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی اگر بات کرنی تھی تو ایسے ہی کر لیتے ،،،
: کیا تم بات کر لیتی ،،،،حیرانی سے پوچھا
کیوں نہیں ویسے بھی میں آج بہت خوش ہوں دیکھونا تم نے میرے بیٹے کی مبارک باد دینا ہوگی اسلئے ہی فون کیا ہوگا آخر بڑے ماموں ہو اسکے ،،،،اگ لگاتے لہجے میں کہا
ہاہاہاہا اف زویا ہاہاہا توبہ استغفار
شرم کرو استغفر اللّٰہ،،ہاہاہا
تمھیں پتا ہے آج کتنے دن بعد ہنسا ہوں میں
ہاہاہاہاماموں اف کیا بول رہی ہو یار چندا تم آج بھی اتنی ہی معصوم ہو پاگل ہاہاہا،، وہ پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا
اور زویا جس نے اسکا دل جلانے کے لئے یہ کہا تھا بد مزا ہو گئی ادھر حاشر کہہ رہا تھا
ایسا کرو میں دو دن بعد کراچی آرہا ہوں تم میرے بھانجے کو لے کر کراچی آجاؤ میں اپنے بھانجے اور اسکی ماں کو جی بھر کے پیار کرنا اور دیکھنا چاہتا ہوں،،ہنسی روک کر کہا
بھول ہے تمھاری کے میں اب کبھی کراچی آؤنگی میں تمھاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی،،،نفرت سے اسے باور کرایا،،
زویا تم کراچی بھی آؤ گی اور میرے لیے ہی،،،،
آ ؤ گی یہ وعدہ ہے حاشر خان کا
زویا اسکو کوئی جواب دیتی اس سے پہلے مہروز کمرے میں آکر بیڈ پر ڈھیر ہو گیا،،،،،
زویا نے آہستہ سے فون نیچے رکھ دیا وہ ایک دم ڈر گئی تھی اور فون بند کرنا بھول گئی
کہاں تھے صبح سے خان جی میں آپ کو یاد کر رہی تھی،،،،بہت لاڈ سے کہا
اوہ ہو مجھے کیا پتہ تھا میری جان مجھے یاد کر رہی ہے ظالم جان لے لو گی تم ایسی باتوں سے اپنے خان کی،،،،
اور بس دوسری طرف حاشر کی برداشت ختم ہو گئی اسنے فون دیوار پر کھنچ کر مارا اور پورے کمرے میں طوفان آگیا