لندن میں حاشر کو یہ خبر مل گئی تھی سنانے والی نادیہ تھی
حاشر موبائل ہاتھ میں لئے بیٹھا تھا
زویا کی پکس کا فولڈر کھولا اسنے،،،
ایک دم تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے ہوئے مسکراہٹ چہرے پر آئی،،،،
پھر طنزیہ ہنسی ہنسا،،،،
اچھا تو جانم تمھیں لگتا ہے میں اب تمھاری زندگی کے فیصلے نہیں کر سکتا ان جھمیلوں سے فارغ ہو جاؤں پھر ایک ملاقات تو بنتی ہے "ذندگی" تم سے
اتوار کو زویا کے ماموں ممانی اور انکا بیٹا مہروز اکبر خان آگئے پشاور سے بہت سے پھل , ڈرائے فروٹ اور میٹھائی کے ساتھ زویا کارشتہ لے کر ،،،،،
اکبر خان نے بہت عاجزی سے گزارش کی کہ وہ اپنی مرحومہ بہن کی بیٹی کو اپنے گھر کی عزت بنا نا چاہتے ہیں اور یہ ان کے علاؤہ زویا کی نانی کی بھی خواہش ہے وہ اپنی نواسی کو مہروز خان کی دلہن کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہیں
اور اگر احسان صاحب کو اعتراض نہ ہو تو وہ یہ شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بی جان کی طبعیت زیادہ ٹھیک نہیں ہے ،،،،،
احسان صاحب اور رمیض صاحب نے تھوڑی پس و پیش کے بعد ہامی بھر لی
احسان صاحب کو ویسے تو سب ٹھیک ہی لگ رہا تھا پر انھیں مہروز کا رویہ کچھ عجیب سا لگا وہ حاشرسے شاید ایک دو سال ہی بڑا تھا مگر اسکے چہرے پر غصہ سنجیدگی اسکی عمر سے زیادہ تھی پھر غرور سے تنی گردن اسکے چہرے پر بہت ناگواری تھی جسے اس نے چھپانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی اور کھانا کھاتے ہی وہ جانے کے لیے اٹھ گیا جب رمیض اور احسان صاحب نے ان لوگوں کو روکنے کی درخواست کی تو اکبر خان کے کچھ بھی کہنے سے پہلے اسنے کہا
نہیں ہمارا ہوٹل میں کمرہ بک ہے اور اب اجازت دیں،،،کہتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے،،،
جاتے وقت ماموں اور ممانی نے زویا کو بہت پیار کیا مگر مہروز خان اور زویا نے ایک بار بھی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھا
## ######$
دونوں طرف شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں تھیں حاشر کو بھی خبر مل چکی تھی پر اسے تو جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا
احسان صاحب نے دبے لفظوں میں زویا کے سامنے رشتے پر اعتراض اٹھایا تھا وہ زویا کو خود سے اتنی دور بھیجنا نہیں چاہتے تھے،،، پر زویا کی خاموشی نے انھیں بالکل ہی چپ کر دیا تھا
## ######$$
پھر 25 دسمبر کو زویا کو گھر میں ہی مایوں بیٹھا دیا گیا باہر سے زیادہ کسی کو بلایا نہیں گیا تھا کیونکہ پہلے ہی خاندان میں کافی باتیں بن رہی تھیں احسان صاحب نہیں چاہتے تھے کوئی بات بھی ایسی بات ہو جائے جو زویا کے سسرال تک پہنچے اور پھر اسکے لئے مشکلات پیدا ہوں
##
زویا پیلے جوڑے میں خود بھی بلکل پیلی ہو رہی تھی ساری دلکشی ہی کھو گئی تھی اسکی وہ خود کو شیشے میں دیکھنے لگی آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے پڑ گئے تھے،،،،
دروازہ بجا کر احسان صاحب کمرے میں آئے
: تایا جان آپ کیوں ائے مجھے بلا لیا ہوتا ،،،، زویا نے سر پر دوپٹہ لیتے ہوئے کہا،،،،
نہیں میرا دل چارہا تھا میں اپنی بیٹی کے ساتھ کچھ دیر اکیلے بیٹھوں کیا ابھی بھی ناراض ہے میری بیٹی مجھ سے
: تایا جان میں آپ سے ناراض ہو سکتی ہوں کیا،،
میرا آپ لوگوں کے سوا ہے کون اور آپ نے تو تایا جان ہمشہ میرے بابا سے بھی زیادہ پیار کیا ہے اتنا تو شاید میرے بابا نہیں کرتے جتنا آپ نے میرےلیے کیاہے
بیٹا تم وہاں رہے لو گی ایک چھوٹا سا شہر ہے
زویا:،،،بڑے شہر کے دکھ بہت بڑے ہیں تایا ابا رہے لونگی،،،،
احسان صاحب :پہاڑی لوگ بہت سخت جان ہوتے ہیں ان کے دل بھی سخت ہوتے ہیں بیٹا،،،،،،
زویا:،،،،ظالم تو سمندر بھی ہوتا ہے تایا ابا،،،،
مجھ سے ملنے تو ائے گی میری بیٹی احسان صاحب نے بہت حسرت سے دیکھ کر کہا ان کو ایسا لگ رہا تھا بس یہ کچھ دن ہیں انکے پاس پھر وہ زویا کو کھبی نہیں دیکھ پائیں گے اور پھر احسان صاحب ایک دم اٹھے اور زویا کے سر پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے نکلتے چلے گئے
رات سب اپنے کمروں میں سونے چلے گئے بس مریم بی بی نوکروں سے کھانا کچن میں پہنچا رہی تھیں جب انکو لگا کوئی چپکے سے انکے پیچھے آکر کھڑا ہوا ہے اور مریم بی بی کو لگا وہ کھڑے کھڑے گر جائیں گی
کسی نے انھیں اپنے مضبوط بازؤں میں لے لیا مریم بی بی رونے لگیں
لیکن انھیں یہ ڈر بھی لگا کہ کوئی گھر کا فرد یہاں نہیں آجاے اسلئے جلدی سے وہ حاشر کو کھنچتی ہوئی اسکے کمرے میں لے گیں اور دروازہ بند کیا
:اب کیوں ائے ہو حاشر یہ دیکھو یہ میرے ہاتھ میں تمھارے سامنے جوڑ رہی ہوں اب کوئی تماشہ مت کرنا مجھے بڑھاپے میں اور زلیل نہیں ہونا تمھارے باپ کے ہاتھوں ،،،،،اب کچھ بولو بھی حاشر کیا ہوا ہے اب کیا چاہتے ہو،،،،،
انھوں نے حاشر کو خود سے دور کیا جو بس انکے گلے لگا ہوا تھا بالکل چپ تھا،،
کیا اتنا برا ہوں میں کہ میری ماں کو لگتا ہے کے میں آج آیا ہو تو کچھ غلط ہی کرنے آیا ہوں،،،،
حاشر نے بہت دکھ بھری نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا
اور اسوقت مریم بی بی کی نظر بھی حاشر کے چہرے پر گئی اور وہ ایک دم پریشان ہو گئیں
:حاشر کیا ہوا ہے تمھیں طبیعت ٹھیک ہے تمھاری کتنے کمزور ہو رہے ہو،،، سب ٹھیک تو ہے نا تو خوش ہے ،،حاشر تم زویا کے بغیر رہے لوگے نا،،،،وہ جلدی جلدی بے ربط بولنے لگیں،،،
اور حاشر نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا
اف اماں بس اتنی جلدی راضی ہوگئیں ابھی تو تھوڑی ایکٹینگ اور کرنی تھی مجھے بڑے ڈائیلاگ یاد کر کے آیا تھا،،، "کاش ساری دنیا کا دل ماں جیسا ہو تو کتنا مزا آئے" ،،
مریم بی بی نے ہنستے ہوئے ایک تھپڑ اسکی کمر پر لگایا اور کہا ،،
"ماں سے ڈرامے بازی کرتا ہے اچھاابھی جاؤ حاشر زویا کو اس گھر سے رخصت ہو جانے دو میں خود تمھارے بابا سے بات کروں گی وہ معاف کر دئیں گے تمھیں پر ابھی تم چلے جاؤ "
:ماں میں جانے کے لیے ہی آیا ہوں کل دبئی جارہا ہوں سنیل کپور کی فلم سائن کرنے کچھ ضروری چیزیں ہیں میری وہ لینے آیا ہوں،،
ہاں تو لو میں بیٹھی ہوں یہاں،،،،،،
مریم بی بی یہ کہہ کر وہیں بیٹھ گئیں
چلیں ٹھیک ہے آپ یہاں بیٹھ کر مجھ سے ساری رات باتیں کریں،،،، یہ کہتے ہوئے حاشر نے اپنا سر مریم بی بی کی گود میں رکھ دیا،،،
کیونکہ ماں میں صبح جاؤنگا اس ٹائم کوئی ٹیکسی نہیں ملے گی اور گاڑی نکالی اپنی تو سب کو شک ہوجا ئے گا کہ گاڑی کہاں گئی ویسے اماں با با سوگئے ہیں کیا
مریم بی بی: اوہ ہو اگر انکی آنکھ کھلی اور مجھے کمرے میں نہیں دیکھا تو اف اچھا تم دیکھو کمرے سے باہر نہیں نکلنا میں صبح تمھارے بابا کو کمرے سے باہر نہیں آنے دونگی تم جلدی چلے جانا ،،،،
مریم بی بی اسکے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں
یہ دیکھے بغیر کے حاشر نیچے منہ کئے ہنس رہا ہے #########
تھوڑی دیر بعد
حاشر کچن میں چائے بنا رہا تھا کہ اسے آہٹ محسوس ہوئی اور اسکے ہونٹ مسکرا اٹھے اسے یقین تھا وہ آئے گی
بالکل ویسے ہی جیسے زویا کو یقین تھا کہ اسکی شادی سے پہلے ایک بار وہ ضرور آئے گا ،،،،
زویا کچن کے دروازے پر حاشر سے پیٹھ کرے کھڑی تھی کیونکہ وہ اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی
اور حاشر چولہے کی طرف منہ کر کے کھڑا تھا جانتا تھا اگر اسکا چہرہ دیکھ لیا تو واپس نہیں جا پائے گا ،،،
اب کیوں ائے ہو میرا تما شہ دیکھنے ،،،وہ کرلائی تھی،،،
نہیں تمھیں آخری بار سننے کوئی بددعا کوئی گلہ بہت سی گالیاں،،،،،حاشر نے چولہے کی آنچ کم کی،،،
لیکن مجھے کچھ بھی نہیں سنانا،،،، زویا نے زور سے اپنی آنکھیں بند کیں وہ آج اسکے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی
حاشر نے کہا ،:،،،
تو کیا تم نے مجھے معاف کر دیا زویا
حاشر ابھی تو میں خود کو معاف نہیں کر پائی ہوں تمھیں کیسے کر دوں ،،،،وہ سختی سے بولی،،،
میں کل دبئی جارہا ہوں فلم سائن کرنے ،،،،حاشر نے بتایا
زویا ایک دم ہنسی،،،،،،
کتنا حسین اتفاق ہے کل میں بھی سائن کر کے ہمشہ کے لئے اس گھر سے جا رہی ہوں
ایک بات کہوں مانو گے،، تم فلم آٹھ بجے سے پہلے سائن کرنا،،،
حاشر:نے حیرت سے کہا،،،،،، کیوں
کیونکہ مجھ پر بے وفائی کا کوئی الزام نہیں آئے ،،،زویا نے کہا
میں تمھیں شادی کے گفٹ میں وہ فلیٹ دینا چاہتا ہوں جو ہم نے،،،،،
مجھے اب اسکی ضرورت نہیں ہے اور پھر میں کیا بتاؤں گی اپنے شوہر کو کس چیز کی قیمت چکائی ہے میرے پرانے عاشق نے،،،
زویا ،،،،حاشر نے چیخ کر اسے روکا
حاشر بس میرا اور تماشہ مت بناؤ اورایک دن رہے گیا ہے عزت سے گزارنے دو قسم کھاتی ہوں کبھی واپس نہیں آنا تمھارے شہر میں ،،،،،
حاشر ایک دم اسکے سامنے آیااور کہا
زویا دوبارہ یہ الفاظ مت کہنا میری محبت کو گالی مت دو جارہا ہوں میں تمھارا تماشہ لگاؤں گا زویا میں ،،،، کیسے کہہ سکتی ہو تم اورجانا ہی تھا مجھے جا رہا ہوں مگر میری محبت،،،،،،
حاشر تمھارے منہ سے تو اب لفظ محبت بھی گالی ہی لگا ہے مجھے،،،،،،، زویا نے کہا
حاشر اسکے پاس سے نکلتا چلا گیا
زویا کچن میں اکیلی کھڑی رہے گئی،،،،
" تو تم چلے گئے حاشر ہمشہ کے لئے بس اتنی ہی تھی تمھاری محبت" میں نے تو تمھارے شوق سے بھی سمجھوتہ کر لیا تھا
پر میں تو تمھاری شاید پسند بھی نہیں تھی،،،،،
زویا نے اسکا کپ اٹھایا جس میں چائے ابھی ہلکی گرم تھی زویا کپ لے کر کچن کے اسٹول پر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں میں کپ کو جکڑ لیا ,,,,آنسو جو لگا تھا ختم ہو چکے ہیں پھر آگئے تھے یہ شخص روح میں بستا تھا،،،،
زویا تم اسوقت کچن میں کیا کر رہی ہو،،، ،شازیہ چچی نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے حیرت سے پوچھا ::
فجر کی اذان کی آواز آرہی تھی،،،،
زویا ؛: چچی سر میں درد تھا تو اپنے لئے چائے بنانے آئی تھی
زویا تم مایوں بیٹھ چکی ہو اس وقت تمھیں اپنے کمرے سے نہیں نکلنا چاہیے تھا پتہ ہےمایوں کی دلہن میں ایک عجیب سی خوشبو ہوتی ہے اسلئے اکیلے رات کو باہر نہیں آتے جن عاشق ہو جاتے ہیں،،،،،،
شازیہ بیگم نے بات تو بہت سنجیدہ کی تھی مگر زویا جو تھوڑی دیر پہلے جن سے ملاقات کر چکی تھی زور زور سے ہنسنے لگی آنسوں بھری آنکھوں سے اسکا قہقہہ شازیہ بیگم کی بھی جان نکال لے گیا وہ تیزی سے زویا کی طرف بڑھیں اسکو گلے لگا کر کہا؛:
کیا ہوا ہے زویا اور دیکھو تمھاری چائے بھی ٹھنڈی ہوگئی ہے اپنے کمرے میں جاؤ میں دوسری چائے بنا کر لاتی ہوں تمھارے لئے،،،، شازیہ بیگم نے اس سے کپ لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا ،
زویا نے کپ انکی پہنچ سے دور کیا اور انکے کان کے پاس آکر بولی
" چچی یہ بہت اسپیشل چائے ہے میرے عاشق جن نے بنائی ہے اور کپ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی" ٫٫٫
شازیہ بیگم نے افسوس سے اسے دیکھا
"اللّٰہ کیا ہوگا اس بچی کا یہ تو بالکل ہی پاگل ہو گئی ہے"
######
27 دسمبر
وہ دن آگیا جسکے لئے زویا نے بہت دعا کی تھی کہ نا آئے زویا نے خود کو دلہن کے روپ میں دیکھا وہ بہت حسین لگ رہی تھی شیشے میں دیکھتے ہوئے اس نے آخری بار حاشر کو مخاطب کیا؛::؛
مجھے کھو کر بہت پچھتائے گا تو"""
" یہ جان لے میں بھی تیری خواہشوں میں سے ہوں
########
دبئی کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس ہو رہی ہے جہاں حاشر اور سنیل کپور نے باضبطہ ایک ساتھ کام کرنے کا اعلان کیا اور پھر حاشر نے کچھ پیپر سائن کئے ::
موت سے کب انکار ہے ہمیں
ہاں ذندگی بھی پیاری ہے
فیصلوں سے جوئے میں
میں نے ایک شام ہاری ہے
وہ دونوں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا رہے تھے نیوز رپوڑٹر حاشر سے سوال کر رہے تھے اور وہ مسکراتے ہوئے سب کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا
####
ادھر پاکستان میں زویا کے ایک اقرار سے وہ زویا مہروز خان بن کر میلوں دور چلی آئی تھی پیچھے مڑ کر کھبی نہیں آنے کے لئے
لیکن وہ غلط سوچ رہی تھی اسکو کراچی واپس آنا تھا