لندن ائیرپورٹ پر اترنے کےبعد حاشر بے چینی سےنظر ادھر ادھر گھوما نے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو
کیا ہوا حاشر کسی کو ڈھونڈ رہے ہو کوئی آنے والا ہے کیا ،اسکے ساتھی ایکٹر جمشید شاہ نے اس سے پوچھا
نہیں یار پاکستان فون کرنا ہے،،، ،حاشر نے کہا
تو ابھی ہوٹل چلتے ہیں نہ کر لینا اور اپنا موبائل بھی،،،،
اتنے میں حاشر کو اپنی مطلوبہ چیز نظر اگئی اور وہ ابھی آیا کہتے ہوئے تیزی سے فون بوتھ کی طرف بڑھا
پاکستان میں اس وقت رات کے تین بج رہے تھے
پہلی ہی بیل پر زویا نے،،،،
ہیلو کہا،،،
ہاں میں پہنچ گیا ہو اب تم بھی سو جاؤ،،،،،
:ہاں میں سو ہی رہی تھی تمھارے فون سے ہی آنکھ کھول گئی ،،زویا جلدی سے بولی
حاشر ہنستے ہوئے،،،،
اوہ سوری میرے فون سے تمھاری نیند خراب ہوئی چلو اب تم دوبارہ سو جاؤ
نہیں اب میں نماز پڑھ کر ہی سوؤں گی نیند تو ویسے بھی تم نے اڑا دی ہے،،،،
اوکے چلو تم نے آج قبول تو کیا کہ میں نے تمھاری نیندیں اڑا دی ہیں،،،،جملے کو اپنے انداز سے لیا
: اف حاشر باتوں سے اپنی مرضی کے معنی نکالنا کوئی تم سے سیکھے،،،،،،وہ ہنسی
اور دل توڑنا اور جھوٹ بولنا کوئی تم سے ،،حاشر نے فورا حساب برابر کیا
مما کو صبح فون کرونگا اللّٰہ حافظ اور اب سوجانا رونا نہیں،،، پلیز اپنا خیال رکھنا
زویا : تم بھی ،،،اللّٰہ حافظ
########
صبح سب گھر والے ناشتہ کر رہے تھے تو تائی جان نے احسان صاحب سے پوچھا،! ،،،
حاشر لندن پہنچ گیا ہو گا فون آیا کوئی اسکا ،،،،
سب کی نظر ایک دم زویا پر گئی جس نے اور ذیادہ آپنی گردن پلیٹ پر جھکا لی تھی،،،،،
آہستہ سے بولی ،،،،
جی تائی جان رات ساڑھے تین بجے آیا تھا اسنے کہا آپ کی نیند ڈسٹرب نہیں کر رہا ،، تو میں صبح آپ کو بتا دوں
اللّٰہ کا کرم ہے خیر سے پہنچ گیا کتنا خیال ہے میرے بیٹے کو میری نیند کا،،،مریم بی بی نے شکر کرتے ہوئے کہا،،
ویسے زویا تم اتنی رات کو کیوں جاگ رہی تھیں،،،،،
شاریہ بیگم جو احسان صاحب کے چھوٹے بھائی رمیض کی بیوی اور احمد اور کرن کی اماں تھیں طنزیہ لہجے میں زویا سے پوچھا
خیر ہمیں کیا ویسے تمھیں رات کو نہیں تو صبح بھابھی کو بتا دینا چاہیے تھا،،،،،
رمیض صاحب جو کافی دیر سے اپنی بیگم کو آنکھیں دیکھا رہے تھے غصے سے بولے،،،،،
اگر آپ کا تبصرہ ہو گیا ہو تو ایک کپ گرم چائے لادیں
اور شازیہ بیگم پاؤں پٹختی کچن میں چلی گئیں
شازیہ بیگم کو بالکل پسند نہیں تھی زویا کیونکہ حاشر کا جھکاؤ انھیں آگ لگاتا تھا ان کی بھی دو بیٹیاں تھیں اور حاشر جیسا خوبصورت اور اکلوتا صاحب جائیداد لڑکا ،،، وہ اس لئے ہی زویا پر طنز کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں
###########
رات کو احسان صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے تھے جب مریم بی بی انکے لیے چائے لائیں ,,, کیا سوچ رہے ہیں آپ،،،،،
احسان صاحب نے چونک کر اپنی بیوی کو دیکھا
" ہوں ہاں وہ مجھے صبح شازیہ کا رویہ زویا سے کچھ اچھا نہیں لگا "
تو اسلئے ہی تو کہہ رہی ہو ں آپ دونوں کی شادی کا باقاعدہ اعلان کر دیں اور دسمبر میں حاشر کے آتے ہی شادی کر دیں 20 دسمبر تک وہ واپس بھی آ جائے گا ،،،مریم بی بی نے جلدی سے کہا
پہلے تم اپنے لاڈلے کو آنے دو ابھی کسی شور شرابے کی ضرورت نہیں ہے،،،وہ دو ٹوک لہجے میں بولے
آپ کو ابھی بھی حاشر ہر یقین نہیں ہے،، کیا وہ زویا کے ساتھ کچھ غلط کر سکتا ہے،،،،
مریم نے افسوس سے کہا
مجھے اس شوبز کی دنیا پر یقین نہیں ہےجو ان روشنیوں میں ایک بار کھو جائے وہ راستہ بھول جاتے ہیں واپسی کا،،،شہرت کا نشہ بہت خطرناک ہوتا ہے مریم،،،،
اللہ نہ کرے آپ میرا دل ہولہ رہے ہیں وہ سب چھوڑ دے گا اور میں شادی کی تیاریاں شروع کر رہی ہوں
دونوں کی تیاری مجھے ہی کرنی ہے اور صرف چھ مہینے ہی تو باقی ہیں،،،،انھوں نے ہول کر دل پر ہاتھ رکھا پتا نہیں کسی گھبراہٹ تھی،،،،
ٹھیک ہے پر ہر چیز زویا کی پسند کی ہو ،،،،
احسان صاحب نے کہا
مریم بی بی نے گردن تائید میں ہلائی،،،،
: ظاہر ہے،،اور شازیہ کی آپ فکر نہ کریں میں اسکو بھی سیدھا کرتی ہوں
# ####,
حاشر لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ رہا تھا کانوں میں ھیڈ فون لگے تھےدروازے سے اسکی پیٹھ تھی جب زویا دبے پاؤں اسکے کمرے میں آئی اور خاموشی سے کھڑی ہوگئی،،،
چندا اگر پیچھے سے میرا دیدار ہو گیا ہو تو چہرہ آگے گھوما سکتا ہوں ،،،،،حاشر نے بڑی معصوم سی شکل بنا کر کہا
حاشر تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں ہوں ،،،،زویا مسکرائی
اب اگر میں سچ کہونگا تو تم شرما کر بھاگ جاؤ گی تو بس اتنا کہہ دیتا ہوں کہ
" تیری خوشبو سے پہچان لیتا ہوں"
ویسے کس لے آئی ہیں آپ وہ بھی رات کے ایک بجے ،،،،
، میں کافی شریف ہوں پر ،،،سامنے جب ایسی قیامت کھڑی ہو تو اچھے اچھے زاہدوں کا ایمان,,,,
وہ شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا
میں جا رہی ہوں تم کرتے رہو اپنی بکواس ،،،،،،
حاشر اچھا نا بتاؤ کیا بات ہے ،،حاشرنے اسکا ہاتھ پکڑا
کچھ نہیں بس میں یہ میگزین دیکھ رہی تھی تم نے فلم سائن کرلی نا ،،،،
یہ تو میں تمھیں پہلے ہی بتا چکا ہوں اور یہ خبر اس میگزین میں تو آئی ہی نہیں ہے اصل بات کرو زویا کیا پریشانی ہے تمھیں،،،،،
نہیں وہ میں وہ سب مطلب شازیہ چیچی اور میری فرینڈز،،،،،،،،زویا سے کہا ہی نہیں جارہا تھا
میرے اور زرا احمد کے بیچ کچھ نہیں ہے اوریہ جھوٹی خبروں پر دھیان دینا چھوڑ دو کوئی کیا کہہ رہا ہے مجھے اس کی کوئی پروا نہیں ہے تم کیا سوچتی ہو یہ اہم ہے میرے لئے اب بولو کیا ہوا،،،،،،
حاشر نے میگزین نے کر ہاتھ سے دور پھینکا،،،
تم مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے حاشر,,,,,ہر وقت اتنی حسین لڑکیاں اور اب تو فلمی دنیا وہاں کا ماحول،،،،،
وہ سب رنگینیاں،،،،وہ ڈر کر اسے دیکھ رہی تھی
تمھارا ان سب سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ان حسیناؤں کی جہاں تک بات ہے تو
یہ تو ہے مسئلہ پر کیا کروں یار بچپن سے ایک چڑیل کے چنگل میں ایسا پھنسا ہوں کے کوئی حسین چہرہ دل کو بھاتا ہی نہیں،،،
اور زویا جو اس اظہار ہر آسمان پر پہنچ گئی تھی دھڑم سے نیچے گری"
اچھا میں چڑیل ہو ں اور وہ حسین پریاں چھوڑو میرا ہاتھ اور مرو تم "
ہاہاہاہاہاہا مر ہی تو چکا ہوں تم پر اور آج تو پتہ ہے ان لال کپڑوں میں کیسی لگ رہی ہو،،،،
حاشر نے اسے خود سے تھوڑا قریب کیا
زویا کی دھڑکنیں تک رک گئیں اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لی
حاشر نے اسکے کان میں کہا
بالکل اسٹرنگ کی بوتل اور پتہ ہے میرا دل کیا کر رہاہے
زویا نے پٹ سے آنکھیں کھول دئیں
اور میرا دل کر رہا ہے پی لوں ،،،،،
زویا نے اسکو دھکا دیا اور دروازے کے پاس آکر بولی،،،،،،
سب ٹھیک کہتے ہیں تم آوارہ اور بدمعاش لڑکے ہو اور میری توبہ جو اب کھبی تمھارے کمرے میں آؤں ،،،،
ہاہاہاہاہاہا حاشر کے قہقہے نے دور تک اسکا پیچھا کیا،،،
زویا بھی ایک دم سے ہنسی،،،مگر وہ کمرے میں اکیلی تھی
وہ بیٹھے بیٹھے اس دشمن جاں کے خیالوں میں گم تھی جس نے ایک مہینے سے کوئی فون نہیں کیا تھا بس روز ایک مسیج کر دیتا تھا کے بہت مصروف ہوں دن رات کا کوئی حساب نہیں بس کام کام,,,,
اور وہ سارا دن میں کتنی بار یہ میسیج پڑھتی تھی
زویا کو انجانے سے وہم ستانے لگے تھے اتنے دن تو وہ کبھی اس سے بات کرے بغیر نہیں رہا تھا