میں آپ کوبتاچکاہوں کہ اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا میں ایڈوانس لے چکا ہوہمارا ایگریمنٹ سائن ہو چکا ہے ،حاشر نے بہت سخت لہجے میں اپنے والد احسان صاحب کو بتایا
تو میں بھی تمھیں صاف بتا چکا ہوں کہ اگر تم اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹے تو زویا کو چھوڑ دو اور پھر جو دل چاہے وہ کرو ،احسان صاحب بھی اسکے ہی باپ تھے جانتے تھے اسے قابو کرنا
،،،،:بابا زویا کا یہاں کیا ذکر اور میں بتا چکا ہوں آپ کو یہ میرا لاسٹ پروجیکٹ ہے اسکے بعد میں آپ کے ساتھ بزنس میں آجاؤں گا شوبز کی دنیا چھوڑ دونگا،اس بار لہجے میں بلا کی نرمی اور مٹھاس تھی حاشر کے (کیونکہ وہ سب چھوڑ سکتا تھازویا کو نہیں)
احسان صاحب،؛ نہیں تو یہ بھی کیوں جب چھوڑنا ہی ہے تو ابھی سب چھوڑو میں اب اور انتظار نہیں کر سکتا اس سال مجھے زویا کی شادی کرنی ہے بس میں اپنے مرحوم بھائی کی امانت تمھارے اس شوق کی نظر نہیں کر سکتا
بابااپکو اچانک زویا کی شادی کی جلدی کیوں ہو گئی ہے،،،،حاشر جھنجلایا
:نواز نے دوبارہ ذکر کیا ہے مجھ سےوہ اپنے بیٹے کے لئے زویا کا،،،،،،احسان صاحب نے وہ بات کی جو حاشر کو آگ لگا گئی
: بس بابا اس سے آگے آپ کچھ نہیں کہنگےاور یہ نواز انکل نہیں ہیں یہ احسن ہے وہ شاید بھول چکا ہے کہ دو سال پہلے میں نے اسکا زویا کا نام لینے پر کیا حشر کیا تھا
احسان صاحب نے ایک دم غصے سے اور بیگم احسان جو بہت دیر سے خاموش باپ اور بیٹے کی تکرار سن رہی تھیں حیرت سے اپنی اکلوتی اولاد کو دیکھا
تم نے تو کہا تھا احسن جھوٹ بول رہا ہے تم تو اپنی شوٹنگ کے لئے اسلام آباد میں تھے ،،،،،احسان صاحب چونکے
اور یہ تمھاری ماں اس نے بھی تمھارا ساتھ دیا تھا
: مجھے تو یہ ہی پتا تھا یہ،،،،مریم بی بی بھی حیرت سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بولیں،،،
،،
، حاشر نے ایک دم بیچ میں بولا،،،،
،اس وقت یہ بات نہیں کر رہے ہم لوگ ،،،
میرے لندن جانے کی بات ہو رہی ہے بابا میں آپ سے پکا وعدہ کر رہا ہوں یہ بلکل لاسٹ ہے میں اقبال صاحب سے کانٹریکٹ کر چکا ہوں انکے بہت احسان ہیں مجھ پر میں انھیں دھوکا نہیں دے سکتا یہ میری پہلی اور آخری فلم ہو گی ،،میں مر جاؤں گا زویا کے بغیر
اور یہ ڈائیلاگ بولتے ہوے وہ مریم بی بی کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا اور بس کام ہوگیا
: اللّٰہ نا کرے بس ختم کریں یہ بحث جب وہ کہہ رہا ہے یہ آخری کام ہے اور پھر جو آپ کہیں گے وہ ہی کرے گا اور احسن کیا زیادہ عزیز ہے آپ کو اپنے بیٹے سے،،،،،،،،مریم بی بی کے دل پر ہاتھ پڑا تھا اکلوتی لاڈلی اولاد کے منہ سے یہ الفاظ سن کر،،،
بس آپ کے اسی لاڈ نے بگاڑا ہے اسے بے شرمی دیکھو کیسے ماں باپ کے سامنے ڈائیلاگ بول رہا ہے یہ اسکا کوئی ڈرامہ ہو،
(احسان خان ملک کے ایک بڑے بزنس مین تھے اور بہت مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے پر حاشر نے شوبز جوائن کر کے انھیں پورے خاندان میں شرمندہ کر دیا تھا اور پھر زویا سے شادی کی ضد نے انھیں اور مشکل میں ڈال دیا تھا وہ اپنے مرحوم بھائی کی روح سے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تھےزویا جیسی شریف اور اچھی بچی کے لئے انھیں حاشر بالکل مناسب نہیں لگتا تھا)
زویا احسان صاحب کے مرحوم بھائی کی بیٹی تھی بہت چھوٹی تھی جب ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے تھے تایا تائی نے ہی پالا تھا،،،
حاشر خان زویا پر اپنا حق سمجھتا تھا اور زویا بھی اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں کرتی تھی
حاشر خان زویا کی پوری کائنات تھا،،،
حاشر بہت غصے سے کمرے سے نکلا اور راستے میں پڑی ہر چیز کو اپنی ٹھوکر سے اڑاتا اپنے بیڈ روم میں آیا اور بیڈ پر گر گیا،،،،
انکھوں پر ہاتھ رکھے وہ کسی گہری سوچ میں تھا
غصے سے دماغ کی نسیں کھنچی ہوئی تھیں،،،،
اچانک اسکے اعصاب ڈھیلے ہوئے اور چہرے پر نرم سی مسکراہٹ نے اسکے چہرے کو اور خوبصورت بنادیا
"اگر دیدار مکمل ہو گیا ہو تو میں آنکھوں سے ہاتھ ہٹا لوں تاکہ میری آنکھیں بھی سیراب ہو جائیں"
حاشر نے ویسے ہی آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے کہا
زویا ایک دم جانے کے لئے مڑی تو حاشر نے بیڈ سے چھلانگ لگا کر اسکا ہاتھ کھینچا اور اسے دروازے کے ساتھ لگا دیا
" اب بھاگ کہاں رہی ہو " کیا لگا تھا میں سو رہا ہوں"،حاشر نے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
زویا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوے غصے سے کہا ،،،،،
: تم بس یہ بندروں والی حرکتیں کرناحاشر یہ ذندگی ہے کوئی ڈرامہ نہیں تم کیوں میرا تماشہ بنا رہے ہو،،،،،
تماشہ میں بنا رہا ہوں یا وہ تمھارے تایا جان دی گریٹ مین بنا رہے ہیں،،،،، حاشر نے اسکا چہرہ اونچا کرتے ہوئے غصے سے پوچھا
کیا بکواس کی ہے ابھی تم نے سارے گھر میں آواز گونج رہی تھی تمھاری ،تمھیں شرم ہے،،،،وہ گھور کر بولی،،
حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا:،،،
تو کیا ہوا,,اور یہ شرم شرم کے چکر میں تمھیں کسی اور کے ساتھ رخصت ہونے دوں تو سورج میں بے شرم ہی ٹھیک ہوں ،،،،
حاشر میں کسی سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہی ہوں سب میرا مذاق اڑاتے ہیں ،،،،وہ جھنجلا کر بولی
چندا اسے مذاق کرنا کہتے ہیں،،،،پیار سے اسکا چہرہ اونچا کیا،،،،
تم نے پھر مجھے اس نام سے پکارا میں نے منع،،،،،،،زویا کا موڈ ایک دم بگڑا
تو کیا جان یا سویٹ ہارٹ بولا کروں شرماؤ گی تو نہیں،،حاشر ہنسا تھا
مان لو تایا جان کی بات اور سب کچھ چھوڑو اور شادی کر لو مجھ سے پھر جو دل چاہے وہ بولنا،،،،،،زویا نے تھک کر کہا جانتی تھی ڈھیٹ ہے
آوہو دل خوش کر دیا تم نے،،،تمھیں تومجھ سے بھی زیادہ جلدی ہے
چلو پھر بابا سے بولو میرے جانے سے پہلے ہماری شادی کر دیں،،،، حاشر اسکا ہاتھ کھنچتے ہوئے کمرے سے باہر لے آیا
زویا نے اسے روکا اور چیخی
حاشر کیا پاگل پن ہے یہ تم بہت بے شرم اور بدتمیز ہو گئے ہو
ابھی کی کہاں ہے میں نے بدتمیزی ابھی تو،،،،،،
کرتے رہو اپنی بکواس میں جارہی ہوں،،،وہ جانے کے لئے مڑی،،،
اچھا سنو پلیز ایک کپ چائے بنا دو اور ساتھ کوئی سر درد کی گولی بھی دے دو بابا سے دماغ کھپایا ہے،،،،حاشر نے سر پکڑ کے کہا
حاشر کیا پھر درد ہے سر میں تم ریسٹ کرو ڈاکٹر کو کیوں نہیں دیکھاتے ہو اچھا جاؤ تم لیٹو میں ابھی چائے،،،،،زویا ایک دم سے پریشان ہوئی
اب ایسے کرو گی تو بندہ تو پٹری سے اترے گا پھر کہتی ہو میں بے شرم ہوگیا ہوں،،،جان لے لوگی گی کسی دن ان اداؤں سے،،،،
،حاشر نے زویا کا ہاتھ پکڑا ہی تھا کہ احمد ،نادیہ اور کرن نے ایک ساتھ کمرے میں انٹری دی
کون سی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے یہاں،،،،
سوری ہمیں پتہ نہیں تھا،،،، کرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا
کیا ہے یار بابا اور یہ محترمہ کم ولن کا کردار کرتی ہیں جو تم سب بھی آگئے،،حاشر بد مزا ہوا
تو حاشر تم کیری اون نا ہم کون سا دیکھ رہے ہیں ،نادیہ نے بڑی معصومیت سے کہا
اور وہ سب ہنسنے لگے
یہ کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کے یہ ان سب کی ساتھ میں آخری ہنسی ہے,,,,,
احمد ،کرن ،نادیہ ،حاشر کے منجھلے چچا کے بچے تھے اور سب ایک ہی گھر میں رہتے تھے
پھر وہ ہی ہوا جیسا حاشر نے چاہا وہ زویا کو اس سارے معاملے میں گھسیٹ لایا بابا سے اجازت صرف زویا ہی دلا سکتی تھی
جس رات اسکی فلائٹ تھی وہ سارا دن باہر گزار کر شام میں گھر آیا تھابہت خوش تھا زویا جسکے آنسوؤں ہی نہیں رک رہے تھے وہ سارے گھر سے چھپی بیٹھی تھی
حاشر اپنے کمرے میں آیا اسکا سارا سامان پیک رکھا تھا
اسے چیک کرنے کی بھی ضرورت نہیں تھی جانتا تھا زویا نے ایک ایک ضرورت کی چیز رکھی ہوگی حاشر کے کام وہ کچھ ایسے ہی لگن سے کرتی تھی
وہ باتھ لے کر اب جانے کے لئے مکمل تیار تھا پر اسے زویا کا انتظار تھا
جب زویا اسکے روم میں آئی
کہاں تھیں یار ایک گھنٹے سے انتظار کر رہا ہوں اب تو میں تمھارے کمرے میں آنے والا تھا
میں بھی سارا دن انتظار کر رہی تھی کہاں تھے تم آج کا دن بھی گھر پر نہیں گزار سکتے تھے ،،،اسکی آنکھیں رو رو کر سوجھ گئی تھیں
تم روتی رہی ہو سارا دن یار زویا اسطرح نہیں کرو صرف چھ مہینے کی بات ہے ،،حاشر نے اسکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے قریب کیا
باہر سے سب گھر والوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تھی
میں لیٹ ہو رہا ہوں زویا ،،،میں اس طرح نہیں جا سکتا تم جانتی ہو،،،وہ اسے چپ کرواتے ہوئے بولا،،،
تو جاؤ اللّٰہ حافظ ،،،وہ اس سے دور ہوئی
میں ایسے نہیں جاسکتا تمھارا آنسو مجھے کمزور کر رہے ہیں ،،،روتے ہوئے رخصت نہیں کرو ،،،،
زویا نے اپنا چہرہ صاف کیا مسکرانے کی کوشش کی،،،
ایئرپورٹ نہیں چلو گی ،،،،حاشر نے اداسی سے پوچھا کچھ دیر والی خوشی اب نہیں تھی
نہیں اور اب تم جاؤ میں تھوڑی دیر تمھارے کمرے میں ہی رہنا چاہتی ہوں،،،،وہ کمرا ٹھیک کرتے ہوئے بولی جو حاشر تیار ہونے میں ہوتا بگاڑ چکا تھا
شوق سے جناب ویسے کاش یہ جملہ کبھی میرے کمرے میں ہوتے ہوئے بھی کہہ دیا ہوتا،،وہ زویا کو گلے لگاتے ہو بولا
اللّٰہ حافظ اپنا خیال رکھنا تیزی سے کمرے سے نکلا
اور پھر حاشر لندن چلا گیا پر اپنی بات منوا کر واپس آتے ہی اسکی شادی زویا سے ہوگی