شمسی رات ننھی کے ساتھ پلٹون سميت سوئی تھی بچوں کو اپنے پاس سویا دیکھ کر دادی پولا پولا "میرے سنڈے ہاۓ میں صدقے"
مسلسل کہہ رہی تھی
شمسی کو آج کافی دنوں بعد اپنے گھر میں سکون کی نیند آئی تھی
"آپ قد میں ضرور گٹھے ہیں وٹو صاحب مگر میرا سکون آپ کے ساتھ سے ہی ہے"
شمسی نے خراٹا روک کر شرما کر سوچا تھا
آج بچے بھی زیادہ پر سکون سوۓ تھے ۔۔۔
صبح ساس کے اٹھنے سے پہلے ہی شمسی ناشتہ بنا کر ساس کے پاس لے کر آ گئی تھی
"میری شمسی ۔۔۔۔تجھے بہت زیادہ مس کیا میں نے"
ساس کو جی جان سے اپنی صحت مند بہو پر پیار آیا تھا
"جانے دیں امی میں کتنا بھی آپ کا کرلوں آپ کی بہن کی بیٹی وہ پولی آپ کو مجھ سے زیادہ عزیز ہے,ورنہ آپ مجھے کبھی بھی جانے نا دیتیں ۔۔۔"
شمسی نے ناک کو رگڑ کر کہا تھا
"ایسی بات نہیں ہے شمسی ۔۔۔۔۔وہ تو رائیٹر نے بس کہانی میں ٹوسٹ ڈالا تھا ورنہ میں تو بہت ہی اچھی ساس ہوں"
ننھی نے دانتوں سے عاری منہ مسکرا کر دیکھایا تھا
"اچھا امی میں ایک بات بتا رہی ہوں ہاں ۔۔۔میں وٹو صاحب کو معاف کوئی نی کرنا ۔۔نا ہی کوئی کام کرنا ہے ان کا"
شمسی نے دوپٹہ مروڑ کر کہا تھا اسی وقت وٹو بنیان کے ساتھ دھوتی پہنے وہاں ٹانگیں کجھاتا آیا تھا
"امی میری چارپائی اتنے دنوں سے جھڑی نہیں ہے ساری رات مجھے چیزیں کاٹتی رہی ہیں"
وٹو بول ماں کو رہا تھا مگر نظر ہنوز شمسی پر اٹکی ہوئی تھی
شمسی اپنے دو مرلے کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کھسیانی ہنسی ہنسی تھی ۔۔۔
"اماں ۔۔۔تو بڑی دلکش لگ رہی ہے آج"
وٹو نے ماں کو جھپی ڈال کر شمسی کی طرف دیکھ کر کہا تھا شمسی کا چہرہ شرم سے براؤن ہوا تھا
"اچھا ۔۔۔۔تیرا ابا بھی ایسے ہی مجھے پٹا لیا کرتا تھا ۔۔۔۔"
ننھی نے اپنا پٹارا کھولا تھا
"میں کمرے میں جا رہا ہوں اماں مجھے آدھے سیکنڈ میں ناشتہ چاہیے ۔۔۔بس مجھے نہیں پتہ اماں"
وٹو فنکی موڈ میں اپنی ناراضگی کی دھمکی دے کر بولا تھا جس پر ننھی نے اس کی گردن میں جھانپڑ جڑا تھا
"ماں کو نستور جن سمجھ لیا ہے کیا ؟؟؟آدھے سیکنڈ میں تو وہ بھی ہاتھ کھڑے کر لے گا کوڈوے"
"اماں میں زیادہ جذباتی ہو گیا تھا اب بندہ جذباتی بھی نہیں ہو سکتا حد ہے ویسے اماں"
وٹو پير پٹخ کر جاتے ہوۓ دروازہ کی آگے ہوئی کنڈی میں جا بجا تھا جس سے اس کے سینے پر چوٹ لگی تھی شمسی اٹھ کر اس کی طرف بڑھی تھی اور پانچ منٹ پنتالیس سیکنڈ میں اس کے پاس پہنچی تھی
اس نے وٹو کو اٹھا کر جھلونگی میں ڈال کر چپ کروایا تھا ۔۔
وہ اب بھی اس سے بری طرح خفا تھی ۔۔۔وہ بولی اب بھی نہیں تھی ۔۔۔
وٹو اپنے ہاتھ ایک سینے اور دوسرا آنکھوں پر رکھ کر شمسی کو دیکھ رہا تھا شمسی نے دل ہی دل میں اپنی اہمیت پر اللّه کا شکر ادا کیا تھا
"شمسی ۔۔۔جلدی سے ہمیں ناشتہ دے دو ورنہ ہم سے برا کوئی بھی نہیں ہوگا،اور قانون نے آپ کو چاروں طرف سے جو گھیر لیا ہے میں وہ بھی بہت اچھی طرح دیکھ رہا ہوں"
"ہممممم ۔۔۔"
شاہ خود کو غنڈہ سمجھ کر وٹو صاحب کو دیکھ کر قلاباذی مار کر بولا تھا
"چل پتر ۔۔۔خبردار جو تم نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش بھی کی ہو تو ۔۔۔"
وٹو نے شاہ کو ڈانٹ کر کہا تھا جس پر شاہ نے وٹو کو ایک تیز جھولا دیا تھا ۔۔۔
شمسی اٹھ کر شرماتے ہوۓ کچن کی طرف گئی تھی جب تک سارے بچے ہاتھ منہ دھو کر چارپائی پر بیٹھتے شمسی بھی کچن میں پہنچ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
اب بچے ناشتہ کر رہے تھے وٹو دروازے میں کھڑا ایک ٹانگ ہلاتا شمسی کو تاڑ رہا تھا ننھی نے اس کو دیکھ کر آڑھے ہاتھوں لیا تھا
"چل یہ اوچھی حرکتیں چھوڑ دے وٹو ۔۔۔بچے بھی ساتھ ہی گئے تھے ان کو تو مجال ہے جو تم نے پوچھا ہو ؟؟؟"
"اماں ۔۔۔شمسی کو کہو نہ ۔۔۔مجھ سے بات کرے ۔۔۔"
وٹو نے ماں کی خوشامد کی تھی
"اچھا تم ایسا کرو بازار سے شمسی کے لئے کوئی تحفہ لے کر آؤ ۔۔۔ایسے نہیں بات کرنا بنتا اس کا بچو ۔۔۔۔۔آخر نوں کس کی ہے ۔۔۔"
ننھی نے فخر سے کہا تھا
"اماں پر کیا لاؤں ؟؟؟"
"میری مانو تو پہیے لا دے ۔۔شمسی ان پر آسانی سے پورے گھر میں فراٹے بھرتی یہ شوووووں ۔۔۔۔وہ شووووووں کرتی پھرے گی ۔۔۔وقت بھی بچ جایا کرے گا اس کا ۔۔۔۔اور ہو سکے تو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جا کر اس کے موٹاپے کا کوئی علاج کروا ۔۔۔۔دیکھ تو اب تو سانڈوں میں بھی سانڈ لگنے لگی ہے"
ننھی نے مخلصانہ مشورہ دیا تھا
"اچھا اماں ۔۔۔اپنی بہو کو بول مجھے ناشتہ دے"
وٹو کمرے کی طرف جا رہا تھا ننھی غصے سے بولی تھی
"جب ادھر سب کر رہے ہیں ناشتہ ۔۔۔لگا ہوا ناشتہ چھوڑ کر یہ توں کمرے میں کدھر جا رہا ہے ؟؟؟"
ننھی نے وٹو کے ارمانوں پر پانی کا ڈرم ڈالا تھا وہ دھوتی سنبهالتا بچوں کے ساتھ آ بیٹھا تھا ۔۔۔
شمسی نے اچار کی کی ایک پھانک نکال کر وٹو کے پراٹھے پر رکھی تھی جس پر وٹو شرما کر اتنا ٹوسٹ ہوا کہ وہ چارپائی سے نیچے لُڑک گیا جب تک
وہ اوپر آتا غزلان وہ پھاڑی ہاتھ میں پکڑے چوس رہا تھا ۔۔۔
وٹو نے امید بھری نظروں سے شمسی کو دیکھا تھا جو بنا اچار دیے کچن کی طرف موڑ کاٹ چکی تھی ۔۔۔اب اس کا واپس آنا اتنا ہی نا ممکن تھا جتنا نواز شریف کا پاکستان آنا ۔۔۔۔
وٹو اب خالی پراٹھا چاۓ کے ساتھ کھا رہا تھا ۔۔۔سب بچوں کو چھابی کپ اور پلیٹیں چاٹتا دیکھ وٹو نے آخری چانس کے طور پر کچن کا رخ کیا تھا جہاں شمسی بیٹھی برتن دھو رہی تھی ۔۔۔
وہ شمسی کے کندھے پر جا کر دونوں پاؤں آگے لٹکا کر بیٹھ گیا تھا شمسی کا شرما شرما کر برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔
۔************۔
آج ہفتہ ہوگیا تھا شمسی نا ہی وٹوسے بولی نا ہی اس کے کمرے میں گئی ۔۔۔
وٹو سخت پریشان تھا یہی وجہ تھی کہ اب وہ روٹین سے زیادہ قلابازیاں مارنے لگا تھا ۔۔
اس کے دوست اس کے اس بدلاؤ سے بہت تنگ تھے ۔۔۔وہ بریک ٹائم میں کھانا آرڈر کرتے وٹو قلابازیاں مار مار بار بار کھانے کی ٹیبل سے خود کشی کی کوشش کرتا ۔۔
آخر انہوں نے باس سے کہہ کر اسے چند دن كی چھٹی پر بھیج دیا تھا
وٹو کی شیو کافی بڑھ چکی تھی وہ قلاباذی مار کر دروازے سے اندر آیا تھا شمسی بچوں کی چڈیاں سینے کے لئیے مشین لے کر بیٹھی تھی ننھی سلی ہوئی چڈیوں میں آلاسٹک ڈال رہی تھی ۔۔۔۔
وٹو نے نم آنکھوں سے شمسی کو دیکھا تھا مگر شمسی نے اس کو دیکھ کر چَڈی کے ناپ پر فوکس کیا تھا
"اماں یہ چَڈی تو کافی بڑی نہیں کاٹ دی آپ نے ؟؟؟"
شمسی نے چَڈی کو ہاتھ میں پھیلا کر اس کے آڑ سے وٹو کو دیکھا تھا
"شمسی یہ اس بےوفا وٹو کی ہے"
ننھی نے بے وفا اتنا نرم کہا تھا ایک پل کو شمسی کا دل کیا وہ ننھی کے منہ میں گھس جائے ۔۔۔اور اس کو چمی کر لے ۔۔۔
وٹو اپنج شرٹ کے بٹن بے دردی سے کھول کر اندر آ گیا تھا
شمسی نے سکھ کا سانس لیا تھا
"ہاں میں نے بھی پیار کیا ہے ۔،۔۔۔۔ہم یار ہیں تمہارے دلدار ہیں تمہارے ہم سے ملا کرو ۔۔۔۔ہم سے ملا کرو ۔۔۔۔کوئی شکوہ اگر ہو ۔۔۔۔ہم سے گلہ کرو پر تم ملا کرو ۔،۔۔۔
ہاں میں نے بھی پیار کیا ہے ۔۔۔۔"
وٹو کے کمرے سے بلند آواز میں اس گانے کی آواز آئی تھی ۔۔۔
وہ خود جالی دار کھڑکی میں کھڑا نم آنکھوں سے شمسی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
"اس کا تو آج میں سر پولا کرتی ہوں کل پہلا روزہ ہے اور اس کو دیکھو کوئی پوچھ دس نہیں کی ،کے کیا کیا لانا ہے ۔۔۔۔ابھی آتی شمسی میں"
ننھی ایک سیکنڈ میں وٹو کے پاس کمرے میں گئی تھی جہاں وٹو پنکھے سے ساتھ رسی لٹکا رہا تھا
"وٹو ۔۔۔۔کوڈو۔۔۔۔۔میں ہنگر لا کر کا دیتی ہوں اس کے ساتھ لٹکو ۔۔۔"
ننھی نے چپل اتار کر اس سے وٹو کی خوب درگت بنائی تھی ۔۔
"امی آپ کیا کرنے آئی ہیں ؟؟؟ناول ختم ہورہا ہے مجال ہے تو کوئی ایک سین بھی میرا رومینٹک شمسی کے ساتھ ہونے دیا ہو ۔۔۔بس فوراً آ جاتی ہیں آپ ۔۔۔۔۔اپنی بہو کو بھیجیں ۔۔۔۔ان کا سین تھا یہ ۔۔ "
وٹو نے چپل ماں سے چھینتے ہوۓ کہا تھا
"اچھا ۔۔۔۔ وٹو ۔۔۔رمضان کا سودا لانے والا ہے میں لسٹ بنواتی ہوں شمسی سے پھر جا کے لے آؤ"
"عجیب قسم کی امی ہیں اپ بھی ویسے امی بیٹا تمہارا "پھاہ” لینے كی تیاری میں ہے اور تم مجھے سودے كی لسٹ مرتے مرتے بھی تهما رہی ہو ۔۔۔۔جیسے میں مر کے قبرستان نہیں کسی سپر سٹور جا رہا ہوں"
وٹو نے دیوداس کی طرح دھوتی ٹھیک کرتے ہوۓ دکھ سے کہا تھا
"وہ تیرا ذاتی معاملہ ہے کوڈوے،رن مرید ۔۔۔چل نس"
"اگر رسی لمبی ہے تو کینچی پیٹی کے چھاڑ کے نیچے پڑی ہے ۔۔۔کل غزلان نے شاہ کا تھوڑا سا کان کاٹ دیا تھا تب سے شاہ کا زندگی کا مقصد کینچی ڈھونڈ کر اپنا بدلہ پورا کرنا ہے ۔۔ بس اسی سے چھپائی ہے ۔۔۔"
"جا اماں ۔۔۔۔۔جا ۔۔۔۔اس تن فٹی وٹو کو اکیلا چھوڑ دے ۔۔۔"
وٹو نے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا
"جا رہی ہوں ہنہہ ۔۔۔۔"
ننھی جا چکی تھی اب وہ شمسی سے لسٹ بنوارہی تھی
دو من آٹا
دس کلو نمک
دو من آلو
ایک من پیاز
ایک من بیسن
آدھا من لال مرچ پسی ہوئی
بیس کلو ہلدی
ایک کارٹن کیچیپ
اماں بس ؟؟؟
شمسی نے ننھی کو فائنل چیزیں گنوائی تھیں ۔۔
"ایسا کر ۔۔۔۔ایک سالم بھینس کا گوشت اور ایک پورا پینجرہ مرغی بھی لکھ دے لگے ہاتھوں ہاتھ شمسی ۔۔۔بچوں افطاری پھر رج کے کر لیا کریں گے ۔۔۔"
ننھی نے گویا دادی ہونے کا فرض نبھایا تھا
"یہ ۔۔۔۔۔۔۔لکھ دیا اماں ۔۔"
شمسی نے لسٹ ننھی کو پکڑائی تھی
ننھی کمرے میں گئی جہاں سے اس کی چیخ سنائی دی تھی شمسی پریشانی میں پانچ منٹ اور بھی ایڈ کر لیتی تھی اٹھنے میں ۔۔۔
اس نے کسی ہیروئن کی طرح اپنی پچاس کلو کی ٹانگ چارپائی سے نیچے رکھی تھی ۔۔۔
وہ باوجود کوشش کے بھی پندرا منٹ سے پہلے کمرے میں نہیں جا پائی تھی ۔۔۔
اندر کا منظر دیکھ کر شمسی کے پیروں میں سے زمین نکلی تھی ۔۔۔
وٹو رسی گلے میں ڈالے بیہوش پڑا تھا
ننھی اسے مسلسل چپیڑیں مار کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی
"تیرے ہوتے اماں مر لیا میں نے۔۔۔؟؟۔،رسی سے بچ گیا ہوں مگر تو نے ان تھپڑوں سےضرور مار دینا ہے مجھے "
وٹو غصے سے اٹھ کر کمرے سے باہر آ گیا تھا
وہ جاتے جاتے روتی ہوئی شمسی کو دیکھ چکا تھا
صحن میں جاتے ہی اس كی نظر نوی پر پڑی تھی جو حسب عادت گولا گنڈہ بن کر آئی تھی
"کیا ہوا میرے وٹو جی کو ؟؟؟؟جانو نے تھانا تھایا ہے؟؟؟"
نوی کو لوہا گرم لگا تھا
"جانو تھانا تھائے یا زہر پھانک لے ۔ نن اوف یور بزنس مس نوی"
وٹو نے سارا غصہ بیچاری نوی پر نکالا تھا
"تم جیسی عورتوں کی وجہ سے ہم شریف مردوں کے گھر خراب ہوتے ہیں ۔۔۔۔"
وٹو نے قلاباذی مار کر کہا تھا
"جب جانتی ہو چھ چھ بچوں کا باپ ہوں پھر کیا یہاں آم لینے آتی ہو تم آخر شرم و حیا ہے کہ نہیں ؟؟؟؟"
نوی کا رنگ اڑ گیا تھا
"پہلے ہی میری شمسی مجھ سے بات نہیں کررہی اوپر سے تم پھر آ گئی ؟؟؟؟"
وٹو چینخا تھا اس کی آواز پر شمسی بھی باہر آ چکی تھی اسے رج کے اپنی آخری محبت وٹو پر پیار آیا تھا
نوی پیر پٹختی جا چکی تھی
وٹو اپنے کمرے میں جا چکا تھا شمسی نے ننھی کی طرف دیکھا تھا
"جا میری دھی ۔۔۔میں نہیں آتی۔۔۔۔ کر لو تسی وی بغیرتی۔۔۔۔۔۔،تڑوڑ دوؤ لوکاں دے ریکارڈ "
ننھی کی اس بات میں چھپی ہاں کو شمسی نے فورا سمجھ لیا تھا وہ دوسرے گیر پر اندر اپنی خاص آواز نکالتی جا رہی تھی ۔۔۔
وٹو جی خوشی سے قلابازیوں پر زور دیئے ہوۓ تھے اس سے پہلے کے شمسی اندر جاتی سارے بچے اسکول سے آچکے تھے ننھی نے ازلی ساس پونا نبهاتے ہوۓ اس بار سارے بچوں کو اندر بھیج دیا تھا ۔۔۔
اب بچے باپ کے ساتھ باندر کِلا کھیلنے کی فرمائش کررہے تھے ۔۔۔
جس پر وٹو نے شمسی کی طرف دیکھا تھا جس نے اثبات میں شرما کر سر ہلا دیا تھا ۔۔۔
شمسی لسٹ میں آدھا کلو چوہا مار دوائی ایڈ کرنے باہر آئی تھی کیوں کہ ان کی دیکھا دیکھی چوہے بھی زیادہ دوائی کھانے لگے تھے ۔۔۔
صبح پہلا روزہ تھا شمسی کو سحری کی تیاری بھی تو کرنی تھی وہ تین تھال آٹا گوندنے بیٹھ گئی تھی ۔۔۔
"You are my everything wto jee"
شمسی نے آہستہ سے کہہ کر حیا کے سارے رنگ سمیٹ لیے تھے ۔۔۔
ختم شد ۔۔۔
۔***********