رات کا وقت تھا نھنی اور وٹو سونے لیٹے تھے
"اماں آج تیرے پاس ہی سو جاتا ہوں اپنے کمرے میں شمسی کے بغیر مجھے ڈر لگتا ہے"
وٹو ماں کے ساتھ والی چارپائی پر لیٹے ہوۓ بولا تھا
"لکھ دی لعنت وٹو اتنے عرصے سے تو زنانی کے زور پر ادھر سوتا تھا ؟؟؟؟"
"اماں بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔۔۔۔آپ کا جواب ٹھیک ہوا یہ بائیک آپ کی ہوئی ۔۔۔۔"
"چل وڈا آیا فہد مصطفیٰ ۔۔۔۔۔کول رکھ اپنی تین پئیوں والی سیکلی ۔۔۔"
اس بات پر وٹو نے چار پائی میں قلاباذی لگائی تھی
"وٹو ۔۔۔۔بندے دا پتر بن جا ۔۔۔۔۔آرام سے بیٹھ ۔۔۔ مجھے بچے بہت یاد آ رہے ۔۔۔۔"
"کونسے بچے اماں ؟؟؟"
وٹو ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مصروف سا لیٹے لیٹے بولا تھا
"تمہاری وہ بونی نسل ۔۔۔۔۔ان کی بات کر رہی ہوں اب اس وقت منہ نا كهلوا میرا وٹو ۔۔۔شمسی ہے نہیں۔۔۔۔اور میں نے وہ لیترول کرنی کہ تیرا اباں قبر سے بول پڑے گا "
"اماں اب اتنا بھی اگریسو مت ہو ۔۔۔۔"
"اچھا اماں ۔۔،۔وہ ناولز کے لیڈ کے کردار ؟؟؟سوری اماں نوی کی خوشی میں اس پلٹون کا ذہن سے نکل گیا تھا"
"ہاں اس چڑی چھکی کے آنے کی دیر ہے تم تو مجھے بھی بول دے گا کون ہے یہ سڑی ہوئی مائی ؟؟؟"
"کھی کھی کھی ۔،۔۔۔۔۔اماں تجھے کیسے پتہ میں یہی لقب دوں گا تجھے ؟؟؟اماں میں تو تیرا فین ہو گیا ہوں آج سے دل پڑھ لیتی ہے میری اماں ۔۔۔"
وٹو ماں کے گلے میں بانہوں کا ہار بنا کر محبت سے بولا تھا
"چل ہٹ ۔۔۔۔۔۔کوڈو کہیں کے نہیں کرتی تیری دوسری شادی ۔۔۔۔"
نهنی نے وٹو کو اٹھا کر نیچے مارا تھا
"اماں اچھا سوری ۔۔۔۔۔بتا نا کل ہی کروں گی نا بات اپنی اس بھنڈی بہن سے ؟؟؟"
وٹو نے خوشامدی انداز میں کہا تھا
"ہاں بات تو میں کرلوں وہ مان بھی جائے گی .۔۔۔آخر کماؤ پوت ہے توں میرا مگر ایک مسئلہ ہے اس شمسی اور میرے پوتوں اور پوتیوں کا کیا ہوگا ؟؟؟شمسی تو کسی صورت نہیں آنے کی ۔،۔۔۔وہ جسم سے موٹی ضرور ہے مگر عقل سے موٹی نہیں ہے ۔۔ . "
"اماں میں تھوڑے دن نوی کے ساتھ خوش رهنے کے بعد منا لاؤں گا تیری اس گینڈہ بہو کو ۔۔۔۔۔کتنا منع کیا تھا نا کر میری شادی میری مرضی کے بغیر ۔۔۔۔مگر تم نے مجھ مظلوم کی ایک بھی نا مانی ۔۔۔۔میں کتنا رویا تھا اس دن ہر قلاباذی کے ساتھ ۔۔۔۔مگر تجھے رحم نا آیا میرے قد اور اس کی گھمبیر جسامت پر ۔۔۔۔"
وٹو نے آخر اپنی جسامت کے حساب سے چھوٹی بات کی تھی
"ارے یہ دیکھو ۔۔۔۔کتنے میسنے ہو تم ؟؟؟تب تو شمسی کا موٹاپا دیکھ کر ایسی خوشی سے باچھیں کھل رہی تھیں جیسے بكرا عید پر قربانی کرنی ہو اس کی ۔۔۔۔اماں وہ کتنے من کی ہوگی ؟؟؟کون روز یہ بات پوچھ پوچھ کر خوش ہوتا تھا ؟؟؟ذرا بتاؤ مجھے بونے کہیں کے ۔۔۔۔"
نهنی سخت بد مزہ ہوئی تھی
"اماں ۔۔۔۔مجھے کیا پتہ تھا تب ان باتوں کا میں تو تب بچہ تھا ۔۔۔۔"
"ہاں بچہ تھا تبھی بچوں کی آدھی درجن فوج پوری کی توں نے ؟؟؟؟"
"ویسے جب توں ہر وقت شمسی کے گرد پتنگا بنا پھرتا تھا ۔۔۔لگتا تھا پکا عاشق ہے بیوی کا ۔۔۔۔میں تو تجھے پکا رن مريد سمجھی تھی ۔۔۔۔مگر توں تو بڑا پکا نکلا ۔۔۔۔واہ ۔۔۔۔امپریس کیتا ای کوڈواں ۔۔"
نهنی نے ہاتھ سے بلائیں اتارتے ہوۓ کہا تھا
"اماں ہم مرد جتنے زیادہ رن مرید شو کرتے ہیں نا خود کو ۔۔۔۔۔سمجھو اتنے ہی زیادہ تنگ ہیں بیوی سے ۔۔۔۔۔۔ہم اتنے ہی زیادہ ٹھرکی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔"
"وٹو یو مین پونڈی باز ؟؟؟"
"یس اماں آپ کا یہ جواب بھی ٹھیک ہوا ۔۔۔اب کونسا ڈبہ کھلوانا ہے ؟؟؟"
"اب اگر توں اس سنجیده ڈسکشن میں میرے کرش کا ذکر کیا تو ڈبے کا تو پتہ نہیں پر تیرا سر کھول دینا ہے میں نے وٹو "
"اماں خدا دا ناں لے ۔۔۔۔۔۔فہد مصطفیٰ توں مجھ سے دو ماہ بڑا ہے ۔۔۔۔تیرا کرش کدھر سے ہو گیا وہ ؟؟؟"
"آج لگ گیا مجھے پتہ میں تیری وجہ سے پونڈی باز ہوں ۔۔۔۔ورنہ اباں کو اللّه بخشے وہ تو پکا رن مريد تھا ۔۔۔۔"
"چھری پهير لی گردن کاٹ دی اپنی ۔۔۔۔مگر دوسری عورت کی طرف اکھ چک کے نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔"
"پتر مگر جو توں نے ابھی ابھی رن مريد مرد کی ڈیفینیشن بتائی ہے پھر تو ۔۔۔۔۔۔۔ہاۓ میں لٹی گئی ۔۔۔۔۔ٹھرکی تھا وہ بھی ؟؟؟"
"اماں مر گیا اباں اب تو بخش دے اس کو ۔۔۔۔میں بتا رہا تھا کہ کل جاؤں گا شمسی کو منانے ۔۔۔۔ویسے بھی نوی کو کوئی اعتراض نہیں اس کے ادھر رہنے پر ۔۔۔۔آجائے گی وہ ۔۔۔۔۔اس کے بھائی خود بھینسوں کے ساتھ کھلے میدان میں سوتے ہیں اسے کون پوچھے گا ادھر ۔۔۔۔بلکہ مجھے تو ڈر ہے اسے بھی کوئی اعلی نسل كی آسٹریلین بھینس ہی نا سمجھ لے هاهاهاهاها ۔۔۔۔۔"
"اماں ۔۔۔۔کی شے ہے یہ شمسی بھی ۔۔۔۔۔۔پٹ پر سلاتی تھی اپنے ۔۔۔۔۔"
وٹو غمگين ہوا تھا ۔۔۔۔
"پتر ۔۔۔ مجھے بچے بہت یاد آ رہے ۔۔۔۔۔"
"چل اماں اب تو سیڈ نا کر عوام کو فنی ناول ہے یہ ۔۔۔۔"
۔
"شمسی یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے ؟؟؟"
شمسی کے اباں نے پوچھا تھا
"ہاں جی اباں جی"
"میں بشری اقبال جتنی مضبوط نہیں ہوں ۔۔۔۔اس نے اس بڑھوے کو معاف کر دیا تھا سوتن برداشت کرلی ۔۔۔۔مگر میں ہر گز نہیں کروں گی ۔۔۔۔"
شمسی نے بھری ناک سے روتے ہوۓ بولا تھا جس پر باپ نے كراہت والی شکل بنائی تھی
"پتر پہلے ناک خالی کر اپنی ۔۔۔۔۔مجھے الٹی آ جائے گی تیرے اس بونے کے چکر میں ۔۔۔"
"اباں جی ۔۔۔میں دکھی ہوں بہت"
"پتر دکھ تیرا اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر قسم سے دل خراب ہو رہا میرا ۔،۔۔۔۔۔اٹھ کر ناک پونجھ اور اپنے بچوں کو دیکھ کچن میں کچھ نہیں چھوڑا جب سے آۓ ہیں کھائی جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔ذرا دیکھ لو برتن ہی نا کھا لیں ۔۔،"
"اباں جی میں نہیں جانا واپس ۔۔۔۔جتنا مرضی تنگ ہو جائیں مجھ سے اور میرے بچوں سے ۔۔۔۔نواسے نواسیاں ہیں وہ آپ کے ۔۔۔۔۔اس کے نانا اور مامووں کا گھر ہے یہ اپنی مرضی سے کھا سکتے ہیں ۔۔۔اور کھائیں گے بھی ۔۔،۔کوئی نہیں روک سکتا میرے معصوم بچوں کو ہاں ۔۔۔میں بتا رہی ہوں اباں جی ۔۔۔میں نے وٹو جی کے ساتھ نہیں رہنا اب ۔۔۔۔"
شمسی ایک بار پھر غمگین ہوئی تھی
"پتر ۔۔۔۔۔۔وہ وٹو کر بھی لے شادی تو کچھ نہیں کم ہو جانا اس کا ۔۔۔۔۔سچ پوچھ تو اس کا مزيد کتنا کم ہوگا کچھ ۔۔۔۔نکی جی جان ۔۔۔۔دفع کر پتر شاہ رخ پتر دی گل نئی یاد تجھے ؟؟؟"
"سنو ریٹھا بڑے بڑے دیشو میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ماہا مے ۔۔۔۔۔ممممم ۔۔۔۔ "
اباں جی ۔۔۔۔آپ جو مرضی کہہ لیں میں نہیں جانا واپس ۔۔۔۔"
"شمسی ۔۔۔۔۔جلدی آؤ ۔۔۔۔ شاہ آٹے کے ڈرم میں گر گیا ہے ۔۔۔۔"
پریہان کی آواز کچن سے آئی تھی
"لے پتر کر لے بات ۔۔۔۔۔جا دیکھ اپنی پانڈہ فورس کو ۔۔۔۔ہیں یہ بچے ادھر ركهنے والے ؟؟؟؟"
اباں نے اپنا سر پکڑ لیا تھا
"جا رہی ہوں اباں مگر بتا رہی ہوں وٹو جی کا چیپٹر کلوز سمجھیں اب ۔۔۔"
"شمسی ۔۔۔۔۔غزلان نے گیس کا پائپ نکا ل دیا ہے جلدی آؤ"
"آرہی ہوں بوتی رميض راجہ نا بن۔۔۔ بند کر دے یہ لائیو کمینٹری ۔۔۔۔سب سے پہلے تیری زبان کاٹتی ہوں میں تو ٹھر جا ۔۔۔"
شمسی نے کچن کی طرف چلنا شروع کیا تھا اب دس منٹ مزيد مل گئے تھے بچوں کو کچھ مزيد کرنے کے لئے ۔۔۔"۔
"پریہان تمہیں نہلا دیا میں نے اب ایسا کرو شاہ کو بھیجو ایک وہ ہی رہ گیا ہے نہلانے والا"
شمسی نے بالٹی میں پانی برابر کرتے ہوۓ کہا تھا پریہان نے بھینس کی دم پکڑ پکڑ کر قہقہ لگاتے ہوۓ شاہ کو شمسی کا پیغام دیا تھا دور سے وہ بھینس کا بچہ ہی لگ رہا تھا
"تم نے نہا لیا ؟؟"
وہ پھر سے بھینس کی دم پکڑ کر خوش ہو کر بولا تھا
"ہاں ۔۔۔۔خالا کو تنگ کرنا بند کرو شمسی کو آج کل ہر وقت وٹو صاحب پر غصہ آیا رہتا ہے نکل ہم سب پر جاتا ہے اب جلدی جاؤ ۔۔۔۔"
پریہان نے بالوں میں كنگی کرتے ہوۓ شاہ کو موقعے کی نزاكت کا احساس دلايا تھا
شاہ نے شمسی کی طرف رخ کر کے قلابازی ماری تھی
شمسی غسل خانے میں بیٹھی سوچوں میں گم تھی شاہ نے شمسی سے پوچھنے کی بجاۓ اس کی نظر کا تعاقب کیا تھا جہاں شمسی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وٹو تولیہ لپیٹے صحن میں بیٹھا تھا اور شمسی اس کے سر میں مالش کر رہی تھی
"شمسی ۔۔۔۔۔تم بہت اچھی ہو ۔۔۔۔۔"
اس بات پر شمسی کی مالش میں تیزی آئی تھی ۔۔۔
"وٹو ۔۔۔۔آپ بھی بہت اچھے ہیں ۔۔۔"
شمسی کے چہرے میں حیا کے سارے رنگ نمودار ہوۓ تھے ۔۔۔
"شمسی ؟؟؟؟"
شاہ نے شمسی كے خیال کا محور توڑا تھا
"شمسی ۔۔۔۔تم سیڈ کیوں ہوتی ہو ؟؟؟سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔"
شاہ نے شمسی کی گود میں بیٹھ کر اس کو تسلی دی تھی
"ویسے شمسی برا نا مناؤ تو ایک بات کہہ ہی دوں آج لگے ہاتھوں ؟؟"
شمسی نے سوالیہ نظر سے گود میں بیٹھے شاہ کو دیکھا تھا
"وٹو بھی کوئی چیز ہے یاد کرنے والی هاهاهاهاهاها ۔۔۔۔۔"
اس بات پر شمسی نے شاہ کو آنکھیں دکھاکر اس پر پانی کا مگا الٹایا تھا
شمسی بچوں کو نہلانے کے بعد خود بھی نہا کر اب صحن میں بیٹھی بال سکھا رہی تھی جب اس کی بھابی جو کچھ دنوں کے لئے اپنے میکے گئی تھی دروازے سے اندر آئی تھی وہ شمسی اور اس کی پانڈہ فورس کو دیکھ کر پير پٹختی اپنے کمرے میں گئی تھی
"یہ ہتھنی یہاں کیا کر رہی ہے؟؟؟؟"
وہ اندر بیٹھے شمسی کے بھائی سے مخاطب ہو کر بولی تھی
"ارے بہن ہے وہ میری تکلیف میں اور کدھر جائے گی؟؟؟"
وہ سینا تان کر بولا تھا اس کی بیوی سعدیہ جو اپنی چادر اتارکر رکھنے والی تھی اب دوبارہ اوڑھ کر بولی تھی
"اچھا تو جب تک یہ یہاں ہے میں نہیں رکوں گی جب یہ چلی جائے تو آ جانا مجھے لینے"
وہ پیر پٹخ کر جن قدموں آئی تھی انہی پر واپس لوٹ گئی تھی
"میں نہیں رکوں گی،بڑی آئی"
وہ اس کی نقل اتار کر دوبارہ اپنے دودھ کے حساب میں مصروف ہوگیا تھا
شمسی اپنی بھابھی کی آواز سن چکی تھی ۔۔۔
"وٹو تیری تو ایسی كی تیسی"
"غیرت گئی تيل لینے،ساڈا حق ایھتے رکھ"
شاہ،پریہان،غزلان،جیزل اور باقی جو بھی ہو سارے جلدی آؤ وٹو کے گھر ہلا بولنا ہے ۔۔۔شمسی نے باآواز بلند سب کو پکار کر کہا تھا
وہ کسی فوج کے سپاہی كی طرح دستہ بن کر شمسی کے ساتھ چل پڑے تھے
۔**************
"چلو بندر بن کر دکھاؤ"
نوی شرما کر بولی تھی جس پر وٹو قربان ہو کر اب خود کو دونوں ہاتھوں سے کجھا کر دکھا رہا تھا نهنی بیٹھی یہ بندر کلی کا تماشہ دیکھ رہی تھی
"دور فٹے منہ تیرا کوڈواں ۔۔۔۔۔۔لاکھ دی لعنت ۔۔۔۔تم اتنے گر جاؤ گے ۔۔۔۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔۔۔۔ایک چھپکلی کے لئے اتنا پاگل ہو گئے ہو ۔۔۔۔"
نهنی دور بیٹھی کبھی کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کرتی کبھی لعنتیں بھیج کر دل ٹھنڈہ کرتی ۔۔۔
اتنے میں شمسی خاص آواز نکال کر دروازے پر آئی تھی۔۔کوڈو بھاگ کر دروازے کے پیچھے چھپ گیا تھا جبکہ نوی نهنی کی پناہ میں آ گئی تھی
"چل نگوڑی میرے پاس نا آں ابھی نظر آئی ہوں میں تجھے ؟؟؟"
نهنی نے نوی کو خود سے الگ کرتے ہوۓ ناراضگی سے کہا تھا
"خالہ وہ ۔۔۔۔۔"
"چل بھاگ میری شمسی آ گئی ہے میدان میں ہے جمالو ۔۔۔۔"
نهنی لوڈی ڈالتی ہوئی شمسی کے پاس آئی تھی شمسی سے ساس کو گود میں اٹھا کر پیار کیا تھا
بہت یاد کیا تمہیں میں نے تمہیں شمسی"
نهنی نے پولی سی زبان میں کہا تھا
"میں نے بھی"
شمسی نے ساس کو چوم کر کہا تھا
وٹو سمجھ گیا تھا نهنی کا شمسی کی گود میں چڑھنے کا مطلب ۔۔۔۔نوی کا چیپٹر کلوز ۔۔۔۔"
نوی درمیان میں کھڑی تھی جبکہ اس کے ارد گرد سارے بچے قلابازی مار مار کر اسے ہراساں کر رہے تھے
وہ سہمی سے وٹو کی طرف دیکھ رہی تھی جو ٹوکری کے نیچے سے نکل کر باہر آ کر زور سے کھانسا تھا بچوں نے اب اپنی قلاباذی کا محور وٹو کو بنایا تھا
"وٹو جی ۔۔۔۔"
نوی وٹو کا ہاتھ پکڑ کر بولی تھی
"کوئی وٹو شٹو نہیں ۔۔۔چلو ۔۔۔باجی اپنے گھر جاؤ"
وٹو نے ازلی مردانہ پینترہ اپنایا تھا
"باجی؟؟؟؟؟"
"ہاں ۔۔۔۔تم کیا سمجھی تھی میں اپنی چار من كی بیوی چھوڑ کر تم دو کلو کی لڑکی سے شادی رچا لوں گا ؟؟؟"
"چلو میری گھر کی صحت مند جنت واپس آ چکی ہے ۔۔۔۔تم اپنے دل سے میرا خیال نوچ کر اکھاڑ پھینکو ۔۔۔۔۔بھول جاؤ مجھے ۔۔۔ بھول جاؤ مجھے ایک خوبصورت خواب سمجھ کر
وٹو دیوار پکڑ کر خود کو صبیحہ خانم سمجھ کر جذبات میں آ کر بول رہا تھا
نوی روتی ہوئی وہاں سے چلی گئی تھی ۔۔۔
جبکہ وٹو اب شمسی کی طرف بے شرم سا دیکھ رہا تھا
جس پر شمسی نے اسے دونوں ہاتھوں سے منہ چڑھایا تھا ۔۔۔
۔************