شمسی برتن دھو رہی تھی جب اس کی ساس کی بہن پولی وہاں آئی تھی اس کی ساس نهنی اس کی آمد پر باغ باغ ہوئی تھی وہ پولی کو فورا کمرے میں لے گئی تھی
وہ دونوں جتنی قریب ہو کر بیٹھ گئی تھیں ایسا لگ رہا تھا دنیا پر موجود وہ آخری جگہ ہے اور اس طرح بیٹھنا مجبوری ۔۔۔
"پولی اپنی بہو کی سناؤ؟؟؟"
شمسی کی ساس سرگوشی میں بولی تھی جس کا جواب پولی نے ایک بھینکر سی شکل بنا کر دینا ضروری سمجھا تھا
اس شکل کا مطلب نهنی کو فورا سمجھ آیا تھا وہ مزيد قریب ہوئی تھی
"پھر تو ہاتھ ملاؤ ۔۔۔۔ادھر بھی یہی حال ہے"
"پوری جادوگرنی ہے یہ شمسی میرے شیر جیسے پتر کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا ہے"
"تم شمسی کو بھول جاؤ گی جب میری بہو کی کالی کرتوتیں دیکھوگی ۔۔۔ ہر وقت خوش ۔۔۔۔ہر وقت خوش گپياں میرے بیٹے کے ساتھ ۔۔۔۔اور تو اور میرا بیٹا بھی خوش رہتا ہے ۔۔۔۔۔مجال ہے جو ماں کا ذرہ برابر بھی احساس ہو کبھی ۔۔۔۔جو لڑ کے بیوی کا منہ متها پن دے ۔۔۔"
"ہاے ۔۔۔۔پولی ہم دونوں شریف بہنوں كی یہ قسمت کہاں ۔۔۔"
"یہ برتن روز شمسی ہی دھوتی ہے ؟؟"
اس کا جواب نهنی نے شکل بنا کر دینے پر اكتفا کیا تھا جس کا مطلب یس تھا
پولی کو خاص مزہ نہیں آیا تھا اس جواب کا وہ مزيد بولی تھی
"یہ گھر کتنا گندہ ہو رکھا لگتا کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی شمسی میری نیوی کا کیا ہوتا نہ رشتہ تو آج یہ گھر ہارپک کی مشہوری میں دیکھاے جانے والے لیٹرین كی طرح چمک رہا ہوتا "
پولی نے چہرے میں مزيد بل ڈال کر جھریوں میں اضافہ کر کے ہارر سے بھرپور شکل بنائی تھی ۔۔۔
بیچاری شمسی جو کب سےان کے غیبتی ماحول کو بهنگ کرنے کے ارادے سے اندر آنا چاہتا تھی آج سپیڈ معمول سے زیادہ کم تھی شاید اس کے اکسیلیٹر میں مسلہ تھا تيل ڈالنے والا تھا
وہ نیو خان بس کی طرح ڈب کھڑ ب کرتی وہاں پوہنچھی تھی
وہ پھولی سانس لئے فورا چارپائی پر ڈھیر ہوئی تھی جس سے چار پائی نے بے ساختہ "اوی میں مر گئی" کہا تھا
"آگئی میری شہزادی میں نهنی سے یہی کہہ رہی تھی بلاؤ میری شمسی کو میں اسے شاباش دوں گھر کتنا اچھے سے صاف کیا ہوا ہے"
پولی فورا بولی تھی
"خالہ جانے دو اچھی طرح جانتی ہوں یہاں کیسا ذکر ہو رہا تھا میرا زیادہ میسنی نہ بنو اب"
شمسی نے اپنا 50kg کی ران اٹھا کر چار پائی کے اپر رکھی تھی اسی وقت شاہ قلاباذی مار کر اندر آیا تھا وہ جلدی میں تھا
"شمسی پریہان مرغی کے ڈربےکے دروازے میں پھنس گئی ہے اسے آ کر باہر نکالو،مرغی نے انڈا دینا ہے وہ فوکس نہیں کر پارہی پریہان کی وجہ سے"
شاہ ایک ہی سانس میں بولا تھا
"پریہان کو ضرورت کیا تھی ادھر گھسنے کی؟؟؟"
شمسی چیخی تھی جس سے پولی اور نهنی ایک دوسرے کو پکڑ کر بیٹھ گئی تھیں
"وہ کہہ رہی تھی میں وہ محسوس کرنا چاہتی ہوں جو مرغی ڈربے میں کرتی ہے"
اس بات پر شمسی اپنے دونوں ہاتھ سینے پر مارتے مارتے خاص آواز نکالی تھی۔
شام کا وقت تھا شمسی روٹیاں بنا رہی تھی جبکہ بچے کھاناکھا رہے تھے جیسے ہی روٹی بنتی مرحہ گرم گرم اپنے بہن بھائیوں کے آگے رکھ دیتی وہ ایک ایک نیوالہ کھا کر اس کا خاتمہ کردیتے ۔۔۔
شمسی پچھلے ایک گھنٹے سے لگاتار یہ کام کر رہی تھی مگر بچے تھے کے رج ہی نہیں رہے تھے آخر وہ تنگ آ کر چیخی تھی
"لوگوں کے بچے دو فرائیز سے ہی نو ماما نو ماما کرتے ہیں ایک تم لوگ ہو جو دس دس روٹیاں کھا کر بھی ابھی تک توے كی طرف دیکھ رہے ہو،کیسے بچے ہو تم لوگ ؟؟؟"
"شمسی زیادہ بھاؤ نہ کھاؤ کبھی خود کو دیکھا ہے ؟؟؟ جب تم ان دو فرائیز کھانے والے بچے کی ماما جیسی سنگل پسلی نہیں ہو تو ہم کیوں پیٹ بھر کر نا کھانا کھائیں؟؟"
شمسی کی ساس نهنی جو کب سے چھابی لئے اپنی باری کی منتظر تھی فورا بولی تھی
"لے ۔۔۔۔۔۔آۓ ھاۓ شمسی ۔۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہے توں ان معصوم بچوں کو ؟؟؟ ان کا باپ اللّه لمبی زندگی دے ابھی مرا نہیں ہے ۔۔۔اللّه کے فضل سے میرا وٹو زندہ ہے ابھی ۔۔۔کماؤ پوت ہے وہ کماؤ پوت ۔۔۔۔۔"
ساس نے دانتوں سے عاری منہ سے پولا پولا کماؤ پوت کہا تھا جس سے شمسی کو کچیچی چڑی تھی
"اماں تیرا وٹو محظ تیرے کوڈستان کا شہزادہ ہے بس!!! تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے وہ کسی ادارے میں ايم- ڈی ہو"
"شمسی چل مجھے بھی روٹی دے دیں یہ دیو کے بچے نہیں رجنے آج میرے پیٹ میں بل پڑ گئے ہیں بھوک سے"
بیچاری ساس پیٹ دبا کر تڑپ کر گویا ہوئی تھی
"دیتی ہوں دیتی ہوں مرحہ اب کی روٹی اپنی دادی کو دینا اس کے بعد والی پانچ تم خود کھانا اور اس کے بعد جو گیارہ روٹیاں پکے گی ان میں ایک وٹو صاحب کو دینا میری چھوڑ کر"
"یہ لو اب یہ والی اپنی دادی کو ڈال دو میرا مطلب ہے دے دو"
شمسی مذاق کے انداز میں ہنسی تھی
"ہاں ہاں ۔۔یہی اوقات رہ گئی ہے میری آج کرتی ہوں بات وٹو سے"
اس بات پر شمسی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہ روٹی چھوڑ کر فورا ساس کے پاس آنا چاہتی تھی مگر پھر بھی پانچ منٹ لگ گئے ساس نے اس وقت کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور روٹی کھا کر پلیٹ چاٹی اور یہ جا وہ جا ۔۔۔۔
وہ دلبرداشتہ سی بچوں کے پاس آ کر بیٹھی تھی
"شمسی اداس کیوں ہو ؟؟؟"
"دیکھا نہیں تم لوگوں نے اس بوڑھی شیطان کو اب وہ وٹو صاحب کو ایک کی دو لگا کر بتاۓ گی ۔۔۔۔"
شمسی نے ایک پاؤ ہونٹ میں وائبریشین پیدا کی تھی جس کا مطلب تھا وہ رونے والی ہے
شمسی تم آخر کیوں ڈرتی ہو اس تین فٹی وٹو سے جو بمشکل 35kg کا ہوگا ۔۔۔"
نبراس نے ماں کی ڈھارس باندھی تھی
"وٹو صاحب کہتے ہیں میں تمہارے لئے الٹا لٹک کر بندر بن کر خارش کر سکتا ہوں مگر میری ماں کو کچھ غلط نہیں کہنا جس دن میری ماں کا دل دکھایا اسی دن دوسری شادی کر لوں گا اپنی کرنانی خالہ کی بیٹی نوی سے"
"ویسے شمسی ہے وہ ٹیٹ پیس"
شاہ نے لوفر رهنے کی روایت قائم رکھتے ہوۓ ڈکار مارتے ہوۓ کہا تھا
"شاہ میں تمہیں سوئی مار کر تمہاری ساری ہوا نکال دوں گی پھر پھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وووووو ۔۔۔ کرتے آسمان میں کہیں دور پڑے ہو گے ۔۔ "
شمسی نے شاہ کو موٹی موٹی ٹانگوں سے پکڑ کر الٹا لٹکایا تھا جس سے اس میں گدگدی کا فوارہ چھوٹا تھا
اب سارے بچے روٹی سے لبالب پیٹ پکڑے قہقے لگا رہے تھے جبکہ شمسی پریشان سی دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی
اتنے میں وٹو صاحب اندر آے تھے آج حسب معمول انہوں نے آتے ہی بچوں کو الٹی قلاباذی کا مظاہرہ نہیں کر کے دکھایا تھا وہ خاموش سے اندر چلے گئے تھے یہ دیکھ کر شمسی کا ماتھا ٹنکا تھا
"بچوں تم لوگ سو جاؤ میں ذرا باقی کی روٹی پکا کر وٹو صاحب کو دیکھ لوں"
بچے آج کم کھانا کھانے کی وجہ سے كمزوری محسوس کر رہے تھے وہ آج پيدل ہی اپنے کمرے کی طرف غول کی شکل لائن بنا کر چل پڑے تھے شمسی نے بچوں كی گنتی پوری کی اور اندر جانے دیا ۔۔۔
وہ روٹی پکا کر اندر گئی جہاں وٹو ماں کے گوڈے سے لگ کر بیٹھا شمسی کو گھور رہا تھا شمسی پھيكی سی مسکراہٹ سجاۓ اس کے پاس گئی تھی
"وٹو صاحب آجائیں کھانا کھاتے ہیں .۔۔۔"
"نہیں کھانا میں کوئی کھانا شانا ۔۔۔"
وٹو اپنی طرف سے چیخ کر بولا تھا شمسی کو وٹو کے اس غصے پر جی جان سے غصہ آیا تھا اس کا دل کیا تھا اس وٹو کو پمبیری بنا کر اتنا گھوماۓ اتنا گھوماۓ کے اس کو اپنی فسادی ماں بھول جائے مگر وہ یہ صرف سوچ ہی سکتی تھی ۔۔۔۔
"آپ کمرے میں تو چلیں میرے وٹو"
شمسی نے آنکھ مار کر وٹو کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر آج وٹو پہلے والا وٹو نہیں رہا تھا ۔۔۔جو سونے سے پہلے شمسی کی ٹانگیں دبانا اپنا پیدائشی فرض سمجھتا تھا ۔۔۔
وہ بدل چکا تھا
شمسی کی ساس نهنی جو کہ صرف سائز میں نهنی تھی اندر سے پوری تھی وہ آج اپنی تمام شکلوں کو سلائڈ شو میں دیکھا رہی تھی
اس كی شکل بار بار بدل رہی تھی بس کسی خوفناک فلم کی موسیقی کی کمی تھی ۔۔۔۔
شمسی نے وٹو کو ایک ہاتھ میں اٹھایا اور وہ خاص آواز نکالتی
ہوئی اپنے کمرے میں لے گئی ۔۔۔
ساس کے اندر کوئی چیز چھن سے ٹوٹی تھی مگر وہ نظر انداز کر کے رضائی اوڑھ کر سو گئی تھی ۔۔۔