"شمسی ۔۔۔۔۔شمسی ۔۔۔۔۔مائی لائف ۔۔۔۔۔ مائی ہیلدھی وائف"
وٹو صاحب جو کے جھلونگی میں بیہوشی کی حالت میں نیند پوری کر رہے تھے آہستہ آہستہ ذیرلب بڑبڑاۓ تھے ان کو جھولا جھولانے کا کام پریہان اور جیزل کو دیا گیا تھا
وٹو صاحب ہوش میں آ رہے ہیں شمسی ۔۔۔پریہان نے جيزل کو بھاگ کر بلانے بھیجا تھا
آئے دن اسٹور میں چوہے چیزیں کتر رہے تھے جن سے شمسی سخت تنگ تھی وہ چوہے کے لئے کڑیکی لگائے اس کے اس میں پھنسنے کی منتظر دروازے کے پیچھے سے چہرے پر مسکراہٹ لئے کھڑی تھی وہ ایک کڑیکی پیٹی کے نیچے بھی لگا کر آئی تھی جیزل کے بتانے پر وہ تیزی سے آٹھ منٹ میں وٹو صاحب کے پاس پہنچی تھی آج وہ دو منٹ پہلے پہنچی تھی
"چلو بچوں تم لوگ اب باہر جاؤ ۔۔۔"
شمسی نے بے شرمی کا اپنا پرانا ریکارڈ توڑ کر شرماتے ہوۓ کہا تھا جس پر وٹو صاحب جھولے میں ہی اپنا چہرہ چھپا گئے تھے
"ویسے شمسی ہمیں ناولز میں جتنا بے حیا بنایا جاتا ہے تم تو ہم سے بھی چار ہاتھ آگے ہو۔۔۔"
شاہ نے کمرے میں آکر اپنی زبان ٹھنڈی کی تھی
جس پر شمسی نے فخر سے اپنا نا موجود کالر کھینچا تھا ۔۔۔
"شاہ تم بس لوفر ہی رہنا ۔۔۔۔"
شاہ نے اپنی تعریف پر قلابازی ماری تھی اس کے دیکھا دیکھی پریہان اور جیزل بھی قلابازیاں مارتے کمرے سے باہر نکلے تھے
"میرے ریچھ ۔۔۔"
شمسی نے بے اختیار ان کو جاتے دیکھ کر کہا تھا دروازہ بند ہونے کی آواز پر شمسی وٹو کو جھولا دیتی پیار سے قریب آئی تھی
"شمسی ۔۔۔۔تم ہی میری آخری محبت ہو ۔۔۔میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر ۔۔۔۔۔بس مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔میں مرنا نہیں چاہتا "
اس بات پر فرط جزبات میں غرق پگلی شمسی نے جھولا تیز کیا تھا جس سے جھولے کا دوپٹہ پھٹا اور وٹو صاحب چارپائی کی حدود عبور کرتے ہوۓ پیٹی کے نیچے جا گھسے تھے ۔۔۔۔
وٹو صاحب ۔۔۔کچھ اور کہیے نا ۔۔۔۔بس آپ بولتے رہیں ۔۔۔۔۔"
"مجھے خود سے دور مت کرو شمسی میں مر جاؤں گا جاناں ۔۔۔"
وٹو صاحب کی آواز پیٹی کے نیچے سے برابر آئی تھی ۔۔۔
"ویسے ہی تو نہیں کہتے پھرتے سب ۔۔۔۔۔میرے پیارے وٹو ۔۔۔۔"
"کیا کہتے ہیں سب شمسی ؟؟؟"
"محبت بھول ہے جاناں"
شمسی نے اپنا ناخن صاف کرکے اس کا سرا چبا کر تھوکتے ہوۓ کہا تھا وہ دوسرے ہاتھ سے جھولا برابر ہلا رہی تھی
"کڑک"
کی آواز پر وٹو صاحب کی چیخ سنائی دی تھی پیٹی کے نیچے موجود کڑیکی نے ان کی ٹانگ پکڑ لی تھی جس پر وہ چلا کر بولے تھے
"شمسی ۔۔۔۔۔۔مائی لائف ۔۔۔۔مائی ہیلدھی وائف"
ساس کو فوری طور پر بلا یا گیا جنہوں نے گھس کر وٹو کو باہر نکالا اور پھر اس درد سے آزادی دلوائی...
سچ ہی تو کہتے ہیں ماں جیسا کوئی نہیں ۔۔۔
ساس نے شمسی کی اس حرکت پر ایک لیٹیسٹ شکل بنائی تھی ۔۔۔
جس پر شمسی کا دل کیا آج ساس کو دروازے کے اوپر ڈنڈے کے ساتھ باندھ کر نظر بٹو کا کام لے لے ۔۔۔
شمسی کے سر کے اوپر یک بلبلا بنا تھا جس میں اس نے ساس کو اس گھر کے گیٹ کے اوپر ڈنڈے سے بندھے یہاں وہاں دیکھتے ہوۓ دیکھا تھا ۔۔۔
شمسی کا بلند قہقہ کمرے میں گونجا تھا جس سے کمرے میں جو وبال مچا تھا بچے کمرے سے باہر قلابازیاں مارتے نکل گئے تھے ساس نے کمرے کا دروازہ پکڑ کر خود کو باہر نکلنے سے بچایا تھا جبکہ وٹو صاحب اس بار خود پیٹی کے نیچے بھاگ کر گھسے تھے ۔۔۔۔اور ایک بار پھر
"کڑک"
کی آواز کمرے میں گونجی تھی ۔۔۔۔
"اماں ؟؟؟"
"ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سونے دے نہ شمسی ۔۔۔"
"اماں بچے اسکول چلے گئے ہیں اور وٹو صاحب کام پر میں نے گھر کا کوئی بھی کام نہیں کیا نا ہی میں نے کرنا ہے کیوں کہ میں ہڈ حرام ہوں اور فلحال میں جلدی میں ہوں بہت"
شمسی نے ساس کے چہرے کے تاثرات دیکھے بغیر ہی دروازے کا رخ کیا تھا ساس جانتی تھی دس منٹ سے پہلے یہ دروازے تک نہیں پہنچے گی وہ 9منٹ اونگنے کے بعد اگلے 30سیکنڈ میں شمسی کے آگے جا کھڑی ہوئی تھیں
"کیا اماں سفيد کپڑوں میں پہلے ہی بہت خاص لگ رہی ہو اوپر سے اس طرح بدروح کی طرح اچانک سامنے آگئی ہو تراہ نکال دیا ہے مجھ نازک حسینہ کا ۔۔ "
شمسی نے دل پر ہاتھ رکھ لیا تھا
"دیکھا پھر میرا کمال شمسی ۔۔۔۔۔ڈونٹ انڈر ایسٹیمیٹ دا پاور آف ساس"
"اچھا اماں اب جانے دو ہٹو آگے سے کھمبہ کیوں بن گئی ہو ؟؟ سامنے جو گھر بن رہا ہے ادھر ٹرالا اینٹیں چھوڑنے آیا ہے میں نے لفٹ لینی ہے اس سے جلدی میں ہوں"
وہ آٹے کاخالی گٹو بغل گیر کرتے ہوۓ ساس کو ہلکی سی پھونک مار کر پیچھے کرتی ہوئی بولی تھی
"مگر شمسی میری بچی توں اس بھاری وجود کا بوجھ لئے جا کدھر رہی ہے میں وٹو کو کیا منہ دیکھاؤں گی اگر توں مر گئی تو ؟؟"
اس بات پر شمسی کا موڈ بگڑا تھا
"اماں ٹیلر کے پاس جا رہی ہوں میرا ناپ بدل گیا ہے وہ ٹھیک کروانے اور میں کیوں مرنے لگی اس صحت مند جوانی میں بھلا ؟؟؟
"جن کی عمر ہو گئی ہے وہ مریں نہ۔۔"
"کیا ہو گیا اب ناپ کو ابھی دو دن پہلے تو دے کر آئی تھی تم ؟؟"
"اماں نظر نہیں آتا ڈائٹنگ پر ہوں دو دن سے پتلی ہو گئی ہوں"
شمسی نے ہاتھ کا ڈولہ بنا کر کہا تھا
"اماں ہو گئی ہوں نہ سلم اینڈ سمارٹ ؟؟؟"
"کھی کھی کھی ۔۔۔۔"
ساس منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تھی
"ہاں ہاں چل جا میرا پتر ٹرالا سٹارٹ کر لیا ہے انہوں نے"
"اوکے اماں جلدی آجاؤں گی"
وہ کہہ کر نکلی تھی
"موٹی ۔۔۔۔۔موٹی ۔۔۔۔۔مو۔ ۔۔۔۔۔۔۔ٹی ۔۔۔۔۔۔بھینس کہیں کی ۔۔۔۔بلکه بھینسوں كی بھینس ۔۔۔۔ہاں یہ صحیح رہے گا"
ساس نے مرحہ کے بناے ہوۓ سٹاپو پر ٹاپتے ہوۓ اس بات سے چسسسسس لی تھی ۔۔
ساس پورے گھر میں گدا ڈالتی تصور میں خود کو ہیمامالنی سمجھ رہی تھی ۔۔۔
پتہ نہیں ریمورٹ کہاں رکھ دیتے ہیں یہ بلڈوزری کے بچے"
وہ ہم كلامی میں گویا ہوئی تھیں آخر کافی تردد کے بعد وہ مل گیا تھا ساس نے خوشی سے کمر پر دوپٹہ باندھا تھا اپنا من پسند گانا لگاتی ہوں
"آکھ لڑی بدو بدی ۔۔۔۔۔۔موقع ملے کدی کدی ۔۔۔۔۔کل نئی کسی نے ویکھی ۔۔۔۔۔مزہ لائی آج دا ۔۔۔آے ہاے ۔۔۔"
وہ اس گانے پر جھومتی پھر رہی تھیں جب غزلان اندر قلابازی مار کر آیا تھا جس پر دادی نے فوری گانا بند كیا تھا ۔۔۔
"دادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"اے کم چنگے نئی ۔۔۔۔"
غزلان نے لال آنکھوں سے سر نفی میں ہلاتے کہا تھا
"نہیں پتر وہ میں ۔۔۔۔"
"توں اتنے غصے میں ہے کہ آنکھیں ہی لال کر لی ہیں"
"دادی زیادہ امپرس نہ ہو ۔۔۔۔یہ آنکھیں غیرت سے لال ہر گز نہیں ہوئی ۔۔۔"
"پھر ؟؟"
"مجھے ماسٹر جی نے کلاس سے مار کر باہر نکال دیا ہے"
غزلان بیگ اتار کر اب رونے بیٹھ گیا تھا
"مگر کیوں ؟؟؟"
دادی کو تسلی ہوئی تھی
"میں بچوں کا لنچ کھاتا پکڑا گیا ہوں"
غزلان نے معصومیت سے شکایت کی تھی جس پر دادی نے اس کی بلائیں لی تھیں