شمشاد؟؟؟؟
گینڈی عورت اٹھ جا ۔۔بچوں کو بھوک لگی ہے کھانا دے دے ان کو مجھے چاٹ چاٹ کر کھا جائے گے یہ تیرے پلے ۔۔۔۔
ساس صاحب اپنی شکل مزيد بگاڑ کر شمشاد(بہو)پر چڑہائی کرنے کا سنہری موقع پا کر چیخنا شروع ہوئی تھیں
شمشاد نے اپنے 150kg کے وجود کو ہلکی سی جنبش دی تھی اور 50kgکی ایک ٹانگ بمشکل ہلائی تھی جس سے سر میں موجود جوؤں میں بھی سنسنی پیدا ہوئی تھی جن کو فلحال شمشاد نے اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا
"اماں اگر 50 روٹیاں بنا دوگی آج اپنے ان چار پوتوں اور دو پوتیوں کو تو قیامت نہیں آ جائے گی ۔۔۔اتنی آسانی سے آنکھ لگی تھی میری سوچا تھا آج اپنے سابقہ خراٹوں کے سارے ریکارڈ توڑ دوں گی مگر نہیں جس کی آپ جیسی پھپھے کٹنی ساس ہو وہ کہاں دس گھنٹے سے زیادہ سو سکتا ہے"
شمشاد نے لیٹے لیٹے آنکھیں موندیں یہ جوابی حملہ کیا تھا جس پر ساس نے اپنی شکل کا ایسا زاویہ بنایا کہ اگر کوئی بچہ دیکھ لے تو اس کی ناف نکل جائے ۔۔۔
"آے ہاے آج آ لے وٹو ۔۔۔۔۔سب سب بتاؤں گی ۔۔۔"
ساس نے دھمکی دے کر شمشاد کی طرف دیکھا تھا جس کا اثر پيناڈول ایکسٹرا کی طرح فوری ہوا تھا وہ چارپائی سے اٹھنا شروع ہوئی تھی پورا آدھا گھنٹہ لگا کر شمشاد بیٹھنے میں کامیاب ہو گئی تھی چارپائی کی چی چراں کی فلگ شگاف آوازیں وہاں موجود بچوں اور ساس صاحب کے کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھیں وہ سب کانوں پر ہاتھ رکھ کر شمشاد کی طرف دیکھ رہے تھے جس کا چلنا اب زمین میں تھرتھراہٹ پیدا کرنے والا تھا بچوں نے سہم کر ایک دوسرے کو پکڑ لیا تھا
شمشاد ہمیشہ اسی دھمکی پر اٹھ جایا کرتی تھی
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی سینے پر دونوں ہاتھوں کے مکے بنا بنا کر مارتی ہوئی کچن میں گئی تھی اس نے غصے سے یہ بڑی بڑی روٹی بنانا شروع کی تھی
بچوں نے دادی کی طرف دیکھ کر تھمبز اپ اور ویکٹری کا سائن بنایا تھا جس پر دادی نے اپنے دانتوں سے پاک منہ کی نمائش کی تھی ۔۔۔
"آکر روٹی کھا لو ڈیش بچوں ۔۔۔۔۔ کھا مر لو ۔۔۔۔"
ہر بچہ خوشی سے زمین پر قلابازیاں مارتا کچن کی طرف بھاگا تھا ہر بچہ لگ بھگ 50pr kg تھا ایسا لگ رہا تھا نایاب نسل کے پانڈوں کی ریس چل رہی ہے ۔۔۔
ان کی دوڑ سے جو تیز ہوا پیدا ہوئی تھی بیچاری دادی کو اپنی چارپائی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑنا پڑا تھا بصورت ديگر ان کے ہوا میں معلق ہونے کے قوی امكان تھے ۔۔۔۔
شام کا وقت تھا کالی گھٹا چھائی ہوئی تھی تیز آندھی چلنے لگی تھی بارش کسی بھی وقت آ سکتی تھی
پریہان،مرحہ، شاہ،نبراس،جیزل اور غزلان۔۔۔۔۔ شمشاد نے ایک ہی سانس میں اپنی گینڈہ فورس کو پکارہ تھا
"آخری بار پوچھ رہی ہوں تم لوگوں نے آج سونا ہے کہ نہیں ؟؟؟"
"سارا دن روٹیاں پکا پکا کر میری نازک ہاتھوں میں درد ہو جاتا ہے اس وقت تھوڑا سا وقت ملتا ہے تم وہ آپس میں دنگل لگا کر گزار دیتے ہو ۔۔۔اب سو جاؤ ورنہ میں کالی دھوتی والے بابے کو بلا لوں گی وہ سالم کھا جائے گا تم سب کو غڑوچ کر کے ۔۔ "
شمشاد بچوں کو دھمکا رہی تھی جس پر بچے سہم کر اثبات میں سر ہلا رہے تھے شمشاد کے دو کلو میٹر پر محیط چہرے پر چمک نمایاں تھی
"شمسی؟؟؟؟"
غزلان ہمت کر کے بولا تھا جس پر شمشاد نے اس کی طرف خون خوار نظروں سے دیکھا تھا
"شمسی تم ہمیں روز جلدی کیوں سلاتی ہو خود تم وٹو صاحب کے ساتھ رات گئے تک خوش گپیاں کرتی اکثر پائی جاتی ہو پھر ہمیں کیوں نہیں آپس میں کھیلنے دیتی ؟؟؟"
"کیا ہمارے سینے میں دل نہیں ہے ماں ۔۔۔۔"
اس بات پر ساس صاحبہ نے دل ہی دل میں اپنے ہاتھی کے بچے کو داد سے نوازا تھا اور شمسی اس بات پر مسڑ بین کی طرح منہ پر ہاتھ رکھ کر کھی کھی کر کے ہنسی تھی
"سڑتے رہو گے تم اور تمہاری دادی مجھ سے اور وٹو صاحب سے اب سونا ہے کہ بلاؤں بابے کو ؟؟؟"
بچے اب خوفزدہ ہو کر کسی گوشت کے ڈھیر کی طرح ڈھیر ہو گئے تھے شمسی ساس کے پاس آکر بیٹھی تھی
"شمسی موسم خراب ہے وٹو ابھی تک نہیں آیا"
"اماں آجائیں گے میں ذرا بن سنور لوں ۔۔"
شمشاد نے 5kg کے چہرے پر جوؤں کی سلائڈ(لٹ)
کو گھوماتے ہوۓ شرما کر کہا تھا جس پر ساس کا دل جل کر خاکستر ہوا تھا
"یا اللّه میرا شی جوان پُتر جلد از جلد گھر واپس آ جائے"
اسی وقت دروازے پر کوئی چیز زور سے ٹکڑائی تھی
لگتا ہے وہ آگئے ہیں شمشاد نے اپنے ایک ایک پاؤ کے ہونٹوں کو لال لپ سٹیک سے رنگتے ہوۓ خوشی سے کہا تھا وہ باوجود کوشش کے بھی دس منٹ سے پہلے دروازے پر نہیں پہنچ پائی تھی ۔۔۔
"میرا وٹو ۔۔۔۔۔۔میری زندگی ۔۔۔"
مگر دوسری طرف سے مکمل خاموشی تھی وہ وٹو کے ہمراہ اندر آئی تھی
"یہ اس وقت کس کا بچہ اٹھا لائی ہو بہو؟؟؟"
"آپ کا بیٹا ہے اماں بارش اور تیز آندھی میں بیہوش ہو گیا ہے۔۔۔لگتا ہے آج ہوا نے ڈراپ کیا ہے ان کو گھر وہ تین فٹی وٹو صاحب کو اپنے ایک پٹ پر بیٹھا کر ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی مگر بے سُدھ۔۔۔۔
اس دوران ساس جیسی شکلیں بنا رہی تھی شمسی کا دل کر رہا تھا اس کے سر پہ آگ لگا کر مشعل بنا کر کسی سیاہ غار کو روشنی بخش دے ۔۔۔