یار انیقہ لا دو نا ۔۔ عروہ مسلسل انیقہ کو بولی جا رہی تھی۔۔
یار عروہ میں کیسے لا دو شہناز آپی ڈانٹیں گٸ۔۔
ایک دم جویریہ ان کی بات کاٹتے ہوٸے بولی۔۔۔۔۔
یار ایک ترکیب ہے۔۔
کونسی ترکیب عروہ خوشی سی بولی۔۔۔
لیکن پہلے یہ تو بتاٶ ایک ہی دن میں تمہیں ولید سے پیار ہو گیا۔۔۔
جویریہ نے اپنا پرس ٹیبل پر رکھتے ہوٸے کہا۔۔
شٹ اپ !
عروہ أگ بگولہ ہوتی ہوٸی بولی۔۔۔
یار ہر بات پر پیار لو وغیرہ نہیں ہوتا۔۔
انسانیت بھی ہوتی ہے ۔۔۔
ہمیں غریبوں کا ساتھ بھی دینا چاہیے ۔۔۔
عروہ بولتی ہی جا رہی تھی۔۔۔
انیقہ درمیان میں بول پڑی یار عروہ بس بھی کرو تم تو شروع ہی ہو گٸ۔۔۔
یار عروہ بس کی بات نہیں ہے ۔۔۔
دیکھو ہم سب لڑکیاں ہیں انہوں نے خیر خیریت سے ہمیں ناران پہنچایا۔۔۔
یار ہم لوگوں کے گھر جو ملازم ہوتے ہیں نوکر ہوتے ہیں کبھی ہم لوگوں نے سوچا کہ وہ ہمارے گھر ہمارا کام کر کے تنخواہ لیتے ہیں ۔۔۔۔
ہم انہیں دس پندرہ ہزار تنخواہ جو دیتے ہیں انہوں نے اس تنخواہ پر اپنے بیوی بچوں کے اخراجات گھر کے اخراجات چلانے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
ہم اگر جتنے روز کے خرچ کرتے ہیں انہوں نے پورا مہینہ چلانا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار عروہ بس بھی کرو تم تو شروع ہی ہو گٸ ۔۔۔
اب ہمارے سارا ٹرپ کا مزاہ خراب کرو گٸ چھوڑو سب کو۔ اب انجواٸے کرو ۔۔۔
تمہاری ساری انسانیت آج ہی نظر آٸی۔۔۔
انیقہ نے منہ بناتے ہوٸے کہا۔۔
۔ویسے مجھے لگتا ہے تمیں ولید سے پیار ہو گیا ہے ہمارے سامنے ہمدردی جتلا رہی ہو۔
۔
عروہ میں تمہارے ساتھ ہوں میں شہناز آپی سے ولید کا نمبر لا کر دیتی ہوں ۔۔۔۔ یہ بول کر جویریہ دروازے سے باہر نکل گٸ۔۔۔
جویریہ شہناز آپی کے روم میں گٸی ۔
شہناز آپی نے اسے دیکھ کر رات کے کھانے کا بول دیا کہ سب لڑکیوں کو ادھر بلاٶ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
آ آ آ آپی وہ وہ وہ ۔۔۔۔۔۔ جویریہ کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولوں کیا نا بولوں۔۔
۔۔۔۔۔
شہناز آپی اس کی پرشانی کو پڑھتے ہوٸے بولی کوٸی کام ہے یا کچھ چاہیے جویریہ تو بتاٶ۔
۔۔
نہیں آپی کچھ نہیں چاٸیے ۔
آ آ آ آپی وہ میرا۔۔
جویریہ جھجھکتے ہوٸے بولی ۔جویریہ کا ابھی جملہ مکمل نہیں ہوا تھا ۔۔۔
کہ شہناز آپی اٹھ کھری ہوٸی تمہیں میں نے بولا کہ جا کہ باقیوں لڑکیوں کو بُلا کے لاٶ ۔
جی آپی میں ان ک بُلا کے لاتی ہوں ۔
آپی میرا بیگ گاڑی میں رہ گیا ۔
زرا ڈراٸیور کا نمبر دینا میں اسٸے فون کر کے بیگ منگوا لوں۔۔
اس بار جویریہ بغیر ہچکچاٸے بولی۔
تم جاٶ میں فون کر کے اُس سے منگوا لوں گی اور ساتھ ہی شہناز آپی نے اپنے پرس سے موباٸل نکالا
جویریہ بوکھلا گٸ کہ اب میں کیا کہوں ۔شہناز آپی اس فون کریں گی اور وہ بولے گا ادھر کوٸی بیگ نہیں ہے ۔
آپی مجھے دیں میں خود بات کر کے اُسے بتاتی ہوں اُس کو نہیں ملے گا اُسے کیا پتا میری کونسی سِیٹ تھی
۔
جویریہ نے ایک بار اور اپنی کوشش سے نمبر لینے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی ناکامی کے ساتھ بیستی بھی کرواٸی ۔
او لڑکی تم۔لڑکیوں کو سمجھ نہیں آتی ۔
میں منگوا لوں گی پرس وہ تلاش کر لیں گے بیگ کو ۔اب تم جاٶ۔
جویریہ باہر نکل گٸ باقی لڑکیوں کو بُلانے کے لیے ۔۔
ادھر شنہاز آپی نے ولید کا نمبر ملایا اور بولی کہ آپ کی گاڑی میں ہماری ایک لڑکی کا بیگ رہ گیا تھا اگر دور نہیں گے تو ہمیں لا دو ۔۔۔
جی میڈیم میں چیک کر کے بتاتا ہوں ولید نے بول کر کال بند کر دی۔۔
ادھر جویریہ سب کو بُلا کر واپس آ چکی تھی سب لڑکیاں اب شنہاز آپی کے روم میں تھی ۔
شام کے چھے بج چکے تھے اور تھکاوٹ بھی سفر کی وجہ سے بہت تھی ۔
رات کا کھانا کھا کر سونا بھی تھا کیونکہ صبح پانج بجے جھیل سیف الملوک کی طرف جانا تھا ۔
جلدی اس لیے وہاں جھیل سیف الملوک کا صبح سورج نلکتے وقت کا نظارہ بہت ہی پیارا ہوتا ہے ۔
سورج کی پہلی کرن کے پڑھتے ہی اور ہر تھوڑی دیر بعد رنگ بدلتا نظارہ ہی بہت پیارا لگتا ہے ۔
میں تین دفعہ جھیل سیف الملوک اور وہاں کے آس پاس کی کافی جھیلز گھوم پِھر کے آیا ہوں وہاں جھیل سیف الملوک کے چاروں اطراف پہاڑ ہیں ۔۔
ان پہاڑوں کی وجہ سے سورج کی کِرنیں جب پہاڑوں پر پڑھتی ان کا عکس جھیل میں پڑتا ہے اور پہاڑوں کا اپنا عکس بھی پڑھتا ہے
___________________________________________