عزیر پر عشق کا بھوت سوار تھا اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ اپنا سب کچھ ماہا پر قربان کردے گا اس نے چھپ کے سے ان دو گھروں کی فائل جو تیمور نے اسکے نام کئے ہوئے تھے نکال کر ماہا کے نام کرنے کا سوچ لیا تھا
عزیر نے لاک اپ سے فائل نکال کر ماہا کے نام کردی تھی تیمور نے بچپن میں اسکے نام دو بڑے بڑے گھر کئے تھے اور صائم کے نام بھی صائم نے تو انہیں بیچ کر اپنا بزنس اسٹارٹ کرلیا تھا مگر عزیر نے ماہا کے نام کردئے تھے فائل دیکھ کر ماہا خوش ہوگئی تھی عزیر بھی اسکی خوشی میں خوش تھا۔ اب ہوگیا یقین میری محبت پر اس نے ماہا سے پوچھا ہاں میری جان اب مجھے پکا یقین ہوگیا کہ آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہیں چلیں اب مجھے ریسٹورینٹ میں ڈنر کرنا ہے اور بہت ساری شاپنگ کرنی ہے اس نے ایک اور فرماش کی تھی اس نے ماہا کو بہت ساری شاپنگ کرائی اس کو پھول بہت پسند تھے اسنے ماہا کو گلاب کے پھول کے گجرے پہنائے جس کو دیکھ ماہا کے گال سرخ ہورہے تھے اسے اس طرح دیکھ عزیر کھلکھلا کر ہنسا تھا
*****
ماہا کے نام گھر کرنے کے بعد بھی وہ عزیر سے ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھی عزیر کا دل ٹوٹ گیا تھا وہ اس سے منتیں کرتا رہتا کہ وہ اس سے بات کرلے مگر وہ اس سے بات نہیں کرتی تھی وہ دکھنے میں جتنی معصوم تھی اسکا دل اتنا ہی سیاہ تھا عزیر کی حالت بھی ان عاشقوں جیسی ہوگئی تھی جو عشق میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ ساری رات گھر نہیں آتا تھا اس کی حالت دن بہ دن غیر ہوتی جارہی تھی تیمور بھی اس سےپوچھتے رہتے مگر وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنادیتا تھا مگر حروش اسکے دکھ سے واقف تھی لیکن وہ اس کے لئے کچھ کر نہیں سکتی تھی
***
حروش کچن میں کام کرہی تھی جب اسے نرگس کے چیخنے کی آواز آئی وہ بھاگتی ہوئی باہر گئی تیمور بھی اسکی آواز سن کے آچکے تھے اسکے ہاتھ میں زیورات کے ڈبے تھے جو پچھلے دس سال میں تیمور نے نرگس کے لئے بنائے تھے تیمور میرے سارے زیورات کسی نے چوری کر لئے ہیں اسنے مصنوعی روتے ہوئے کہا ۔۔کیا کس نے چوری کرلئے تمہیں پتا ہے تم کیا کہہ رہی ہو لاکھوں روپے کا زیور تھا یہ ۔۔تیمور کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا اور کون کرے گا تمہاری اس منحوس بیٹی نے ہی کرے ہونگے اسکئ ہمیشہ نظر رہتی تھی میرے زیورات پر یہ کہہ کر اس نے حروش کے بال پکڑ لئے تھے بتا کہاں ہیں زیورات کس کو دے کر چوری کرائے بتا ورنہ جان لے لوں گی تیری ۔نرگس جانوروں کی طرح اس پر جھپٹی حروش کا دماغ بلکل خالی ہوگیا تھا اس کے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسنے کیا کیا ہے تیمور چپ چاپ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے حروش روئے جارہی تھی اس کے منہ سے خون نکلنے لگ گیا تھا جسم پر نیل پڑھ گئے تھے جب نرگس نے گرنے کی ایکٹنگ کی تیمور نے فورن اسکو پکڑ کر صوفے پر بٹھایا نرگس یار تم فکر نہیں کرو انہوں نے اسکو دلاسا دیا مجھے نہیں پتا اس لڑکی کو میرے سامنے سے دفع کردو اس سے کہو میرے زیور مجھے واپس کرے ورنہ جان لے لوں گی اسکی تیمور کھڑے ہوکر حروش کے پاس گئے اسی دن کے لئے میں چاہتا تھا تم پیدا نہ ہو اسی لئے مجھے بیٹی زات سے نفرت ہے جو صرف ایک بوجھ کی طرح ہےکاش میں تمہیں بچپن میں ہی مار دیتا انہوں نے نفرت سے اسکی طرف دیکھا بابا آپ میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا ہے اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا بس ختم کرو یہ ناٹک ایک دن کا ٹائم دے رہا ہوں اقرار کرلو کے تم نے ہی زیور چرائے ہیں ورنہ میں تمہیں پولیس کے حوالے کردوں گا یہ کہہ کر وہ نرگس کو اٹھا کر کمرے میں لے گئے زیور نرگس نے ہی چوری کرے تھے اور وہ ان کو بیچ چکی تھی سارے زیوروں کئ کل کل قیمت ستر لاکھ تھی اسنے حروش پر بڑے آرام سے الزام لگایا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اسکا باپ اسکا کبھی یقین نہیں کرے گا حروش کافی دیر درد سے تڑپتی رہی جب اسکی تھوڑی ہمت ہوئی ہو وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دی
*****
حروش کمرے میں جاکر رونے لگی زخموں پر مرہم لگانے والا کوئی نہیں تھا اللہ پاک بس اب مجھ میں ہمت نہیں رہی سب برداشت کرنے کی مجھے پتا ہے صبر کرنے والے کے ساتھ آپ خود ہیں مگر میرے ساتھ تو ہمیشہ غلط ہوا ہے آپ اپنے بندے کو اتنی آزمائش دیتے ہیں جتنی وہ برداشت کرسکے میرے مالک میری آزمائش بھی ختم کردے میں تھک چکی ہوں وہ زور زور سے رونے لگی روتے روتے اسکی آنکھ لگ گئی تھی
***
اسکی آنکھ کھلی تو تو گیارہ بج رہے تھے گھر میں کوئی نہیں تھا اسکا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا اسنے تیمور کے کمرے میں دیکھا وہ دونوں گھر میں نہیں تھے وہ اسکے کمرے میں گئی اور سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولے کچھ ڈھونڈنے لگی اسکے ہاتھ میں اسکی مطلوبہ چیز آچکی تھی اسکی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر ایک درد بھری گہری مسکراہٹ تھی
****
وہ صبح سے نیچے نہیں آئی تھی نرگس خوش تھی اسکو لگا حروش کمرے میں ڈر کر بیٹھی ہے اسے ماہا سے کچھ کام تھا اسنے اپنی بہن کے گھر جانے کی تیاری کی اس کے نکلتے ہی عزیر گھر میں آیا تھا ۔مام آپ کہاں جارہی ہیں اس نے تھکے ہوئے لہجے سے پوچھا۔ وہ میں ماہا کے گھر جاری ہوں نرگس نے ماہا کے نام پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ماہا کا نام سنتے ہی عزیر کے چہرے پر درد آیا تھا جو دیکھ کر نرگس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی
****
ریان گھر میں داخل ہوا تو عزیر صوفے پر بیٹھا موبائل یوذ کررہا تھا ریان کو دیکھتے ہی اسنے سلام کیا اسلام و علیکم ریان بھائی کیا حال ہیں وعلیکم سلام میں ٹھیک ہوں تم بتائو ریان نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا بس بھائی اسنے یہ بولتے ہی درد اپنے اندر محسوس کیا تھا اسے ماہا کا دیا ہوا درد یاد آیا تھا اور سنائیں کیسے آنا ہوا کافی ٹائم بعد نظر آئے ہیں عزیر نے ریان سے پوچھا ہمم یار کام تو مجھے تھا مگر میں اپنے مام ڈیڈ کے ساتھ آئوٹ اوف کنٹری تھا کل ہی آیا ہوں اس لئے آج یہاں آگیا مجھے حروش سے کچھ بات کرنی ہے تم پلیز اسے بلا لائو عزیر جانتا تھا کہ ریان حروش سے محبت کرتا ہے وہ سمجھ سکتا تھا محبت کا دکھ وہ اٹھ کر حروش کے کمرے کی طرف گیا
****
وہ دونوں اسپتال میں بیٹھے تھے جب ڈاکٹر ان کے پاس آئے ۔سوری ہم نے بہت کوشش کی انہیں بچا سکیں مگر وہ کومہ میں چلی گئی ہیں یہ بھی ایک معجزہ ہے ورنہ انہوں نے کافی تعداد میں نیند کی گولیاں کھالیں تھیں جس کو کھائے ہوئے بھی پندرہ گھنٹے ہو چکے ہیں ایسا کرنے کے بعد انسان کا زندہ رہنا بہت مشکل ہوتا ہے ڈاکٹر کی بات سنتے ہی ریان کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے وہ تو شکر تھا کہ وہ حروش سے ملنے چلا گیا تھا ورنہ وہ وہیں پڑی مر جاتی حروش کے دکھ کا اسے احساس ہو چکا تھا وہ کن حالات سے گزری ہے اسے سب عزیر نے بتادیا تھا اسنے آنسو صاف کئے اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا
***
نرگس نے تیمور کو مزید بھڑکادیا تھا اسکا کہنا تھا کہ حروش نے آپنے جرم کو مانتے ہوئے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے تم فکر مت کرو وہ مری نہیں ہے کبھی نہ کبھی تو کومے سے باہر آئے گی نہ اس کا حساب میں تب لے لوں گا تیمور کے دل میں ابھی بھی اپنی بیٹی کے لئے رحم نہیں آیا تھا
****
نرگس کو پتا چلا کہ ریان حروش سے ملنے آیا تھا تو اسنے ریان کو یہ کہانی سنادی کہ حروش کسی سے بہت محبت کرتی تھی اور حروش نے اسکو گھر کے سارے زیور چوری کرکے دے دئے تھے وہ لڑکا اسکو دھوکا دے کر بھاگ گیا جس کی وجہ سے حروش نے خود کشی کرنے کی کوشس کی ہے ریان نے سوچ لیا تھا کہ آگر حروش کے دل میں کوئی اور ہے تو وہ اسکے پیچھے اب کبھی نہیں آئے گا
"چھ ماہ بعد"
اسکی آنکھ کھلی تو خود کو اسپتال کے بیڈ پر پایا آس پاس کافی ڈاکٹرز تھے اسکو کچھ خاص یاد نہیں تھا بس اسکو وہ رات یاد تھی جب اس نے تھک کر اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنے کا سوچا تھا اسکو لگا وہ لمبے عرصے سے سورہی تھی اس نے اپنے آس پاس دیکھا ۔۔ مبارک ہو مس حروش چھ مہینے بعد آپکو حوش آیا ہے ہمیں امید نہیں تھی کہ آپ جلد حوش میں آئیں گی ڈاکٹر نے حیرت سے اسکو بتایا تھا مجھ۔مجھے کیا ہوا تھا اس کے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ بیڈ پر سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگی جب ایک نرس نے آکر اسکو پکڑا مس حروش آپ مکمل ٹھیک نہیں ہوئی ہیں آپ کو آرام کی ضرورت ہے ڈاکٹر نے نرم لہجے میں کہا اسکے ساتھ ہی نرس نے اسکو انجیکشن لگادیا انجیکشن لگتے ہی وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی تھی ۔
****
دو دن بعد حروش کے گھر کال کردی گئی تھی حروش کی دیکھ بھال کے لئے ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی جو چھ ماہ سے اسکے ساتھ تھی حروش کو ڈسچارج کردیاگیا تھا
*****
تیمور اسے ہوسپٹل لینے آئے تھے انکی نظریں جھکی ہوئیں تھی وہ ان کے ساتھ ہوسپٹل سے واپس گھر آئی تھی گھر پہنچتے ہی اسکو جھٹکا سا لگا تھا گھر کی حالت بلکل بدلی سی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی وہاں رہتا ہی نہیں وہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی عزیر اپنے کمرے میں ہے جائو اس سے مل آئو تیمور نے آہستہ سے بولا اور کچن کی طرف چلے گئے بابا آپ کیوں کچن میں جارہے ہیں نرگس آنٹی کہاں ہے نرگس کا نام لیتے ہی اسکو پھر وہی بات یاد آگئی تھی اسنے ڈرتے ڈرتے تیمور سے پوچھا اتنے سال میں یہ پہلی بار تھا جب اسکے بابا نے اس سے بات کی تھی وہ اب اس گھر میں نہیں ہے تم جلدی سے عزیر کے پاس جائو اسنے مجھے کہا تھا جیسی تم آجائو تو تمہیں اسکے پاس ملنے بھج دوں حروش اسکے کمرے کی جانب چلنے لگی بہت نواب ہوگیئے ہے عزیر بھائی خود کیوں نہیں آئے مجھے لینے اگر اتنی ہی میری یاد آرہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں عزیر سے ناراض ہوتے ہوئے تیز تیز قدم بڑھانے لگی
****
اسنے جیسی عزیر کے کمرے کا دروازہ کھولا تھا حیرت سے اسکی آنکھیں پھٹی رہ گئیں تھیں کمرے کی حالت بلکل غیر تھی ایسا لگ رہا تھا برسو ںسے صفائی نہیں ہوئی عزیر بیڈ پر پائوں پہلائے بیٹھاتھا اسکے آدھے جسم پر موٹی سی چادر تھی سائیڈ ٹیبل پر قرآن پاک رکھا تھا عزیر کی حالت بھی بلکل غیر تھی حروش نے انکے پاس جاکر سلام کیا اسنے بہت پیار سے اپنی معصوم بہن کو دیکھا تھا وعلیکم سلام اسنے کرسی کی طرف اشارہ کرکے اسکو بیٹھنے کا کہا حروش اس کے پاس رکھی چئیر پر بیٹھ گئی بھائی یہ سب کیا ہوگیا آپ کی کیا حالت ہوگئی ہے اتنے کمزور ہوگئے ہیں گھر کی حالت بھی عجیب ہوگئی ہے نرگس آنٹی کہاں ہیں ؟ اسنے ایک سانس میں بہت سارے سوال عزیر سے پوچھے نرگس آنٹی کو ڈیڈ نے ڈیورس دے دی ہے اس نے اداس لہجے سے کہا تمہارے کومے میں جاتے ہی بابا کا بزنس میں نقصان ہوگیا تھا ان کی فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی جس کی وجہ سے بہت سے مزدور زخمی ہوئے سب جل کے راکھ ہوگیا تھا کچھ بھی نہ بچا تھا مزدوروں کے علاج کے لئے بھئ بابا نے سارا پیسہ ان کو دے دیا بابا کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ دوبارہ بزنس شروع کرسکیں اس لئے انہوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ پارٹنر شپ کرنے کا سوچا اور بینک سے کروڑوں کا لون لے کر اپنے دوست کے ساتھ ملادیا چونکہ بابا نے کوئی کاغزات نہیں بنائے تھے انہوں نے اپنے دوست پر اندھا بھروسہ کیا تھا اس لئے بابا کے دوست مکر گئے کہ بابا نے کوئی پیسے انہیں نہیں دئیے بابا نے پولیس میں بھی کمپلین کی تھی مگر کوئی ثبوت نہیں تھا اس لئے کوئی کچھ نہ کرسکا بابا بلکل کنگال ہوگئے تھے ان کے پاس وہ پیسہ ختم ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مام ان کے ساتھ رہتی اس لئے انہوں نے بابا سے عکیحدگی کرلی یہ کہہ کر اس نے سر جھکالیا اتنا سب کچھ ہوگیا مجھے پتا ہی نہیں ہے صرف چھ مہہینوں میں کایا پلٹ گئی تھی تو اب گھر کون دیکھتا ہے اسنے حیرت سے پوچھا کوئی نہیں بابا کے کچھ پیسے بینک میں پڑے ہیں جو ابھی تک چل رہے ہیں روز بابا اس سے کھانا لے آتے ہیں اور ہم دونوں مل کر کھا لیتے ہیں تمہاری بہت یاد آتی تھی یہ گھر بلکل ویران ہوگیا تھا اب تم آگئی نہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا اس کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے جو حروش سے برداشت نہیں ہوئے تھے اس نے فورن سے بات بدلی تھی چلیں اب میں آئی ہوں نہ تو اب سب کچھ ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کام کرنا پڑے گا اس لئے ابھی آپ یہاں سے اٹھیں میں پہلے یہاں کی صفائی کروں گی پھر پورے گھر کی کروں گی اسنے بچوں کی طرح بولا تھا نہیں حروش میں نہیں اٹھ سکتا عزیر کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے کیوں نہیں اٹھ سکتے جلدی سے اٹھیں بھئی یہ کہتے ہوئے اسنے اس کے اوپر سے چادر اٹھائی حروش کو اپنی آنکھوں پر ہقین نہیں آرہا تھا اس کی آنکھوں میں آنسو بھر کر باہر نکلنے لگے اس نے اپنے منہ پر اپناہاتھ رکھا اور وہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ ماہا ملک چھوڑ کر جا چکی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت دکھی تھا وہ پوری رات اپنی بائیک ادھر ادھر بھگا رہا تھا جب سامنے سے ٹرک آیا تھا اور اسکا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس حادثے میں اسکی دونوں ٹانگیں ضائع ہوگئیں تھیں
*****
وہ کافی دیر وہی بیٹھ کر روتی رہی پھر عزیر نے اسکو دلاسا دیا بھائی آپ کی دیکھ بھال کون کرتا ہے اس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے پوچھا ادھر آئو میرے پاس یہاں اکے بیٹھو اسنے حروش کو اپنے پاس بلایا چلو چپ ہو جائو تمہارے بھائی کے نصیب میں یہی تھا بابا رکھتے ہیں میرا خیال وہی مجھے کھانا کھلاتے ہیں وہی مجھے پانی دیتے ہیں اور وہ سوتے بھی میرے ساتھ ہی ہیں جس عمر میں مجھے ان کا سہارا بننا تھا اس عمر میں وہ میرا سہارا بنے ہوئے ہیں میں بلکل محتاج ہوگیا ہوں اس کی آنکھوں سے آنسوں نکلنے لگے بھائی آپ روئیں نہیں میں ہونہ آپکے ساتھ اسنے بھیگی سی آواز میں عزیر کو دلاسہ دیا اتنے میں ہی تیمور کھانے کی ٹرے لئے کمرے میں آئے حروش نے اپنے بابا کو پہلی بار ایسے دیکھا تھا وہ بیڈ پر بیٹھ گئے ان کو دیکھتے ہی حروش باہر جانے لگی تیمور نے اسےآواز دے کر روکا ہمارے ساتھ کھانا کھالو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیے کھانے لے لئے انہوں نے نظریں نیچے رکھتے ہوئے کہا تھا بھلے ہی تیمور کے گناھوں کی سزا اسے مل رہی تھئ مگر حروش کا دل بری طرح تڑپ رہا تھا اپنے بھائی اور باپ کو اس طرح دیکھ کے ۔
صرف چھ ماہ میں اللہ نے اس نے اسکی زندگی بدل دی تھی بے شک وہ خدا ہر چیز پر قادر ہے اسکے ایک کن کی دیر ہوتی ہے اور قسمت بدل دی جاتی ہے
*****
تیمور کے پاس کوئی کام نہیں تھا ان کی بچی کچی دولت بھی ختم ہوئی جارہی تھی انہوں نے کافی لوگوں سے کام کا کہا مگر ان کی عمر دیکھ کر کوئی بھی انہیں جاب نہیں دے رہا تھا انہوں نے صائم کو بھی کال کی تھی مگر اسنے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ اسکی بھی اب فیملی بننے والی ہے وہ اب واپس پاکستان نہیں آسکتا کچھ رقم اسنے تیمور کو بھیج کر اپنا فرض پورا کردیا تھا
*****
حروش نے پورے گھر کی صفائی کی تھی ابھی بھی اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی مگر اسنے پورے دل و جان سے گھر کی حالت ٹھیک کی تھی عزیر کا بھی وہ پورا خیال رکھتی تھی وہ ویل چئیر پر ہی رہتا تھا حروش اسکو اسکی محتاجگی کا بلکل محسوس ہونے نہیں دیتی تھی تیمور کا سر جھک چکا تھا وہ بیٹی جس سے وہ اتنی نفرت کرتا وہی بیٹی اسکا سہارا بن گئی تھی اسکو اپنا ماضی یاد آیا تھا کہ کس طرح وہ حروش کو دھتکار تا تھا مگر وہ ایک بیٹی تھی اور کائنات میں سب سے زیادہ ایک بیٹی اپنے باپ سے محبت کرتی ہے
****
تیمور کام ڈھونڈنے کے لئے باہر نکلے ہوئے تھے جب ان کا پرانا دوست جو جیولر تھا وہ ان کو ملا سلام دعا کے بعد اس نے تیمور سے کہا کہ بھابھی کو بولیئے گا کہ جیولری کے نیو ڈیزائن آئے ہوئے ہیں ۔وہ اب میرے ساتھ نہیں رہتی ہم نے علیحدگی کرلی ہے تیمور نے سنجیدہ سے انداز میں کہا ۔مگر کیوں اور چھ ماہ پہلے تو بھابھی میرے پاس آئیں تھی اپنی کسی بھانجی کے ساتھ بہت ساری جیولری خریدنے اور بیچنے اس نے حیرت سے کہا اس کی بات سن کے تیمور کے سمجھ آگیا تھا کہ وہ کس جیولری کی بات کر ہا ہے وہ وہاں سے اٹھ کر گھر آگیا گھر آتے ہی اس کی نظر حروش پر پڑی تھی اس نے اپنی پیاری سی بیٹی کو دیکھا تھا وہ شرمندہ تھا بہت شرمندہ ۔
****
تیمور کو بینک کی طرف سے نوٹس آنے لگے تھے مگر اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنا قرض چکا دے اس نے اپنا گھر بیچ کر بینک کا سارا قرضہ ادا کردیا تھا اور کسی سستی جگہ پر ایک گھر خرید لیا تھا وہ عزیر اور حروش کو کے کر وہاں آگئے تھے انہوں نے صائم سے رابطہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر اس سے کوئی رابطہ نہ ہوا ۔
****
تیمور کو ایک ساتھ ہی بہت سارے صدمے ملے تھے جس کی وجہ سے اس کی حالت دن بہ دن خراب ہونے لگی تھی سارے پیسے ختم ہو چکے تھے تیمور کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا
****
حروش سب دیکھ بہت پریشان تھی وہ اللہ سے دعا مانگتی تھی کہ اسکو اتنی ہمت دے کہ وہ اپنے بابا کی بیٹی بن کر ہی ان کا بیٹوں سے بھی زیادہ خیال رکھے۔تیمور اب حروش سے بات چیت کرنے لگے تھے مگر وہ ان سے بات کرنے میں ڈرتی تھی عزیر بھی ہر وقت قرآن پاک پڑھتا رہتا تھا
****
صبح اٹھ کر تیمو ر کچن میں گئے مصالحوں کے ڈبے بھی خالی تھے گھر میں آٹا بھی نہیں تھا وہ اٹھ کر باہر چلے گئے کہ کچھ کام ڈھونڈیں گے گلی کے کونے تک پہنچ کر ہی ان کو چکر آئے تھے اور وہ وہی گر گئے تھے گلی کے کچھ لوگ انہیں اٹھا کر گھر لے کر آئے حروش انہیں اس طرح دیکھ کر ڈر گئی تھی اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ ڈاکٹر کو بلالے اس نے گھر کا سارا کام کرا اور اپنی چادر پہن کر باہر نکل گئی۔
****۔
وہ ایک اسکول میں گئی تھی جو اسئ علاقے میں تھا اسنے صرف میٹرک ہی کیا تھا مگر وہ اردو میں بہت اچھی تھی اسے اسکول میں پرائمری کلاسس میں اردو کا سبجیکٹ پڑھانے کے لئے دیا گیا تھا وہاں کی میڈم دل کی اچھی تھی حروش نے ان کو اپنے حالات کے بارے میں بتایا انہوں نے حروش سے اسکے گھر کا پتا لیا اور اسکو کچھ پیسے ایڈوانس کے طور پر دے دئے اس نے اسی دن سے وہاں پڑھانا شروع کردیا تھا وہاں کی سیلری اتنی نہیں تھی کہ گھر کا پورا ہوسکے مگر حروش نے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے اسے بھی غنیمت جانا تھا
*****
آدھے دن بعد وہ پڑھا کر گھر واپس آنے لگی وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے ڈرتی تھی مگر حالات کا یہی تقاضہ تھا وہ واپسی آتے ہوئے ان پیسوں سے آٹا اور دال اور کچھ ضروری چیزیں لیتے آئی
***
وہ گھر آئی تھی تیمور اور عزیر اسی کا انتظار کرہے تھے اسکے ہاتھ میں سامان دیکھ کر تیمور کو بے بسی کا احساس ہوا تھا حروش تم کہا گئی تھی عزیر نے ویل چئیر پر بیٹھے ہی اس سے پوچھا بھائی مجھے اسکول میں جاب مل گئی ہے وہاں کی تنخواہ اتنی تو ہے کہ ہم دو وقت کی روٹی کھالیں وہ معصومیت سے کہہ کر کچن میں چلی گئی تھی تیمور کا سر جھک گیا تھا
*****