حروش اکیلے کمرے میں سہمی بیٹھی تھی کسی کو وہ یاد نہیں تھی اتنے میں عزیر کھانے کی پلیٹ لئے اسکے پاس آیا" حروش تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے" اس نے اسکو ہلاتے ہوئے کہا نہیں بھائی میں نہیں کھائوں گی اب دادی بھی مجھے چھوڑ کے چلی گئیں اب میرا خیال کون رکھے گا وہ رونی شکل بناتے ہوئے کہنے لگی ارے" میں ہوں نہ تیرا بھائی" میں تیرے ساتھ رہوں گا" چل اب کھانا کھا" بارہ سال کے بچے نے بڑوں کی طرح اسکو سمجھایا ایک عزیر ہی تھا اس گھر میں جس کو وہ یاد تھی اللہ نے ایک اور سہارا بنادیا تھا اس کا عزیر کے دل میں ہمدردی پیدا کرکے۔
**********
تیمور نے نرگس نام کی لڑکی سے دوسری شادی کر لی تھے وہ اسکے آفس میں ہی کام کرتئ تھی اسنے تیمور کی دولت کی وجہ سے اسکو اپنے جال میں پھنسا لیا تھا اب حروش کو ایک ظلم اور برداشت کرنا تھا وہ تھا سوتیلی ماں کا
بدترین سلوک
***
تیمور نرگس کو گھر لے آیا وہ کوئی چو بیس سال کی ماڈرن اور چالاک لڑکی تھی کندھوں تک بال کھلے ہوئے تھے پینٹ شرٹ پہن کر خوبصورت لگنے کی ناکام کوشش کی گئی تھئ
****
گھر آتے ہی اس نے صائم اور عزیر سے نرگس کا تعارف کرایا نرگس ڈارلنگ یہ دونوں میرے بیٹے میری جان ہیں یہ میرے اور تمہارے بڑھاپے کا سہارا ہیں میری آدھی جائیداد انہی کے نام ہے آج سے تم ان کی ماں ہو مجھے امید ہے تم ان کا سگی ماں سے بڑھ کر خیال رکھوگی لیکن ان کی سگی ماں نے تو ان سے پیار ہی نہیں کیا کیونکہ اسے اپنی منحوس بیٹی کے سوا کچھ نظر ہی کہاں آتا تھا آگر اس دن امی بیچ میں نہ آتی تو وہ کسی کچرے میں پڑی ہوئی ہوتی اس نے اپنی نفرت نرگس کو ظاہر کراتے ہوئے کہا اچھا تو وہ بھی یہاں رہتی ہے اس نے کچھ سوچتے ہوئے تیمور سے پوچھا ہاں مگر اس کی زمہ داری کے لئے میں نے ملازمہ رکھ لی ہے تم بس میرے بیٹوں کا خیال رکھنا آخر انہیں ہمارا سہارا بننا ہے اسنے لہجے میں خوشی بھرتے ہوئے پر جوش انداز میں کہا
*****
نرگس کی نظر تیمور کی دولت پر تھی وہ کسی بھی طرح اسکی پوری دولت حاصل کرنا چاہتی تھی اس کو بچوں سے کوئی غرض نہیں تھی وہ بس اس وقت کے انتظار میں تھی جب صائم اور عزیر سے ان کے نام کی گئی جائیداد کو اپنے نام کرنا تھا
اسکے کہنے پر تیمور نے صائم اور عزیر کو بورڈنگ میں ڈالوادیا تھا حروش پر بھی اسکے ظلم و ستم چلتے رہتے تھے لیکن چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ اس سے بچی رہتی تھی نرگس حروش پر اتنی توجہ بھی نہیں دیتی کیونکہ وہ جانتی تھی حروش کا دولت میں کوئی حصہ نہیں صائم اور عزیر کے نام تھی دولت تو!
*****
حروش کی زمہ داری ایک بڑی عمر کی ملازمہ کو دی گئی تھی وہ دل کی بہت اچھی تھیں وہ حروش کا دکھ سمجھ سکتی تھیں اس لئے وہ اسکا بہت خیال رکھتی تھیں نرگس جتنا چاہتی حروش پر ظلم کرنے کا وہ اسے بچا لیتی تھی حروش انہیں دادی بولتی تھی کیونکہ وہ اسکی دادی میں ملتی جلتی تھیں تیمور ان کی عزت کرتا تھا اس لئے نرگس کا ان پر زور نہیں چلتا تھا مگر چند سال بعد ان کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا جس کی وجہ سے انہیں گائوں جانا پڑا حروش نے ان کا بہت انتظار کیا مگر وہ واپس نہیں آئیں ان کے جانے سے نرگس بہت خوش تھی
***********
[ ] وہ کچن میں کھانا بنارہی تھی جب اسے عزیر کی آواز آئی۔ حروش دیکھ میں کیا لایا ہوں ۔وہ چولہا ہلکا کرکے کچن سے باہر نکلی۔ جوڑے میں ہلکے سے کوور کئے ہوئے بال جس میں سے لٹے نکل کر اس کے چہرے پر گر رہیں تھی چہرہ گرمی اور پسینے کی وجہ سے لال ہورہا تھا۔ دکھنے میں وہ زینش کی کاپی تھی مگر خوبصورت قد کاٹھ تیمور سے ملا تھا اسنے باہر نکلل کے ایپرن اتارا
[ ] ۔عزیر بھائی کیا ہے آپ کو پتا ہے نہ ابھی نرگس آنٹی آتی ہوں گی وہ پھر سے مجھے بہت ڈانٹیں گی۔ اسنے روتی شکل بنائی۔ میک اپ سے پاک چہرے پر بے انتہا معصومیت دیکھ کر عزیر کو اپنی بہن پر پیار آیا۔ بچپن سے اب تک وہ جب بھی آتا حروش کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور لاتا تھا۔ میٹرک کے بعد سے وہ دونوں بھائی گھر آگئے تھے صائم نے پڑھائی کے ساتھ تیمور کا بزنس سنبھال لیا تھا وہ بلکل تیمور کی فطرت کا تھا
[ ] اسی سال حروش نے میٹرک کے امتحان دئے تھے اسکو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی میٹرک بھی اسنے عزیر کی سفارشوں کی وجہ سے کرلیا تھا کیونکہ عزیر کے لاڈلے ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی بات تیمور انکار نہیں کرتا تھا نرگس کی بھی اسکو کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی تیمور اور صائم میں اسکی جان بستی ہے وہ بنا کچھ حاصل کئے اس گھر سے نہیں نکلنا چاہتی تھی ورنہ نرگس تو یہی چاہتی تھی کہ اسکو پڑھانے کے بجائے گھر کا کام کرایا جائے نرگس ہر وقت گھر سے باہر رہتی اس وجہ سے حروش تھوڑا بہت اسکے ظلم سے بچ جاتی مگر کھانا پکانے سے لے کر گھر کی صفائی تک کے سارے کام حروش کے زمہ تھے
[ ] وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتی کہ بابا سے اسکا سامنہ نہ ہو آگر کبھی غلطی سے وہ تیمور کے سامنے چلی جاتی تو وہ اسکو خوب زلیل کرتا اس کو دیکھتے ہی نفرت سے منہ پھیرلیتا تھا اسکو یاد تھا بچپن میں اس نے ان سب کے ساتھ پکنک پر جانے کی بات کی تھی تو نرگس اسکو بہت مارا تھا اسکے بعد سے ہی اسنے فرمائیشیں کرنی بند کردیں تھیں وہ زیادہ بولتی بھی نہیں تھی بس عزیر تھا جو اس سے بات کرتا یا اپنی لائی ہوئی چیزوں سے آدھی حروش کو دے دیتا
[ ] ****
[ ] عزیر نے اسکے ہاتھ میں سموسوں آور چاٹ کی شاپر دی وہ دیکھ کر اسکی خوشی کی انتہا نہیں رہی
بچپن سے ہی وہ سموسے اور چاٹ شوق سے کھاتی تھی عزیر جب بھی آتا تھا لے کر آتا تھا
اسکو سب کے ساتھ کھانے کی اجازت نہیں تھی وہ رات میں لیٹ بچا ہوا کھانا کھاتی مگر پھر بھی وہ اس کوشش میں رہتی کہ تیمور اور
نرگس کو اس سے کوئی شکایت نہ ہو
صائم اور عزیر نرگس کو مما بولتے تھے مگر حروش کو اس کی بھی اجازت نہیں تھی
اللہ آزمائش دیتا ہے تو ہمت بھی دیتا ہے حروش کو بھی اللہ نے ہمت دے رکھی تھی
۔۔۔۔****
تم یہاں بیٹھی مزے کرہی ہو کچھ پرواہ ہے تمہارا باپ آتا ہوگا وہ گھر میں گھسی ہی تھی حروش اور عزیر کو ساتھ بیٹھے دیکھا تو اسکا خون کھول گیا نہیں آنٹی میں نے کھانا بنالیا بس روٹی پکانی رہ گئی ہے اسنے ڈرتے ہوئے جواب دیا اور کچن میں چلی گئی
***
کچن میں آتے ہی اس نے اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے اسکے سارے کام کرنے کے باوجود نرگس اس سے ایسا رویہ رکھتی اور تیمور جس نے سترہ سال سے اپنی بیٹی سے پیار سے بات نہیں کی تھی اسکے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اسکا قصور کیا ہے اسنے انگلیوں سے اپنے گال کو رگڑتے ہوئے آنسو صاف کئے
عزیر پانی پینے کچن میں آیا تھا اس نے حروش کی طرف دیکھا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ روئی ہے وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھی نرگس کے پاس گیا ۔
مام آپ کیوں غصہ کرتی رہتی ہیں حروش پر اسکے لہجہ میں سختی تھی۔ اوہو اب اس دو ٹکے کی لڑکی کے لئے تم مجھ سے زبان چلائو گے آنے دو تمہارے باپ کو بتاتی ہوں وہ غراتی ہو ئی اپنے کمرے میں چلی گئی عزیر تمہیں تو دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کروں گی اور اس لڑکی کو بھی بتائوں گی بہت پر نکل گئے بس بہت برداشت کرلیا میں نے تم لوگوں کو اسنے کچھ سوچتے ہوئے اپنا فون اٹھایا اور کال ملانے لگئ
۔۔۔۔****
رات کو سب کے کھانے کے بعد اسنے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی عزیر باہر گیا ہوا تھا تیمور اور نرگس اپنے کمرے میں تھے وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے آپ کو گھور رہی تھی مس حروش یو نو !تم اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو تم ایک دن بہت آگے جائوگی پھر دیکھنا تمہارے بابا تم سے بھی پیار سے بات کریں گے۔ اسنے چہکتے ہوئے اپنے آپ سے کہا اسکی آنکھوں میں آنسو تھے وہ اپنی بات پر زور زور سے ہنسنے لگی تیمور اور نرگس اس وقت اسکے کمرے کے باہر سے گزر رہے تھے انہوں نے اسکی ہنسی کی آواز سنی۔ دیکھا میں نے کہا تھا نہ اس حروش کے لچھن ٹھیک نہیں ہے اب دیکھ لیں اپنے کمرے میں اپنے یار کو بٹھا رکھا ہے اتنا بڑا گھر ہے ہمیں کیا پتا کون آتاہے کون جاتا ہے مگر آپ تو میری بات مانتے ہی کہاں اور عزیر کو تو اس بے حیا لڑکی سے فالتو کی محبت ہے نرگس نے تیمور کو بھڑکایا نرگس کی بات سنتے ہی تیمور حروش کے کمرے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوا حروش بیڈ پر آنکھیں بند کرکے بیٹھی تھی تیمور کو دیکھ اسنے بوکھلا کے آنکھیں کھولیں تیمور کو لگا کوئی کھڑکی سے باہر گیا ہے اس نے حروش کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور اسے بال پکڑ کر گھسیٹتا ہوا گھر سے باہر نکل دیا وہ روتے ہوئے اپنی بے گناہی بتا رہی تھی مگر تیمور پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑھ رہا تھا نرگس کیونکہ عزیر کی اسکی حمایت کرنے کی وجہ سے بھڑکی ہوئی تھی اسنے تیمور کو بھڑکانے میں کوئی قصر نہیں چھوڑی تھی
حروش گھر کے باہر بیٹھی رو رہی تھی جب کسی نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا