مبارک ہو اپکے بیٹی ہوئی ہے۔۔یہ آواز اسکی سماعتوں سے جیسی ٹکرائی اس کا چہرہ سرخ ہوگیا وہ غصے سے اسپتال کے بیڈ پر لیٹی اپنی بیوی کو گھورنے لگا جو سہم کر اسکی طرف دیکھ بھی نہیں پارہی تھی نرس نے بچی اسکی گود میں دی اس معصوم پھول جیسی بچی کو دیکھ کر بھی اسکس غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا اسنے بچی کو بیڈ پر پھینکا اور تیز تیز چلتا ہوا اسپتال سے باہر اگیا تھا گھر پہنچتے ہی وہ اپنے کمرے میں گھس گیا تھا اور انکھیں بند کرکے سوچنے لگا کےاب اسے کیا کرناہے کافی دیر کچھ سوچنے کے بعد اسنے اپنے خراب ارادوں کے ساتھ اپنی ماں کو فون کیا جو اسپتال میں ہی تھی
******
زینش اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اسکے بابا نے اسکو بہت لاڈ پیار سے رکھا تھا وہ ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے انسان تھے انہوں زینش کو بے انتہا محبت سے پالا تھا جب وہ بیس سال کی ہوئی تو انہوں نے اسکا رشتہ اپنی بہن کے بیٹے سے کردیا تھا ان کے بہنوئی کی چند سال پہلے ہی دیتھ ہوئی تھی ان کا بس ایک ہی بیٹا تھا وہ بھی پڑھا لکھا تھا لیکن غرور اور انا اسکے کردار میں سب سے زیادہ تھا زینش کے بابا نے اپنی بہن کے کہنے پر زینش کی شادی اپنے بھانجےتیمور سے کردی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس قدر سفاک دل کا انسان ہےشادی کے بعد تیمور نے زینش کو بول دیا تھا کہ اسکو ہر حال میں بیٹا چاہیے اللہ کی کرنی تھی کہ پہلا بیٹا ہوا تیمور بہت خوش ہوا اسنے زینش کے ہاتھ چوم لئے اور کہا کہ بیٹے کے بعد اسکے دل میں زینش کے لئے جگہ اور بڑھ گئی تیمور نے بہت بڑا فنکشن کیا اور بیٹے کی پیدائش پر خوب پیسہ اڑایا زینش نے اللہ کا شکر ادا کیا کے اسکا گھر بچ گیا اگلی بار پھر جب زینش کے خوش خبری ہوئی تو تیمور نے اسے بول دیا تھا کہ بیٹا ہی ہونا چاہیے اگر بیٹی ہوئی تو وہ اسکے ساتھ زینش کو بھی گھر سے نکال دے گا تیمور کے ماں اسکو سمجھاتی کے بیٹیاں تو اللہ کی ر حمت ہوتی ہیں خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اللہ بیٹی دیتا ہے مگر تیمور اپنی ماں کی بھی نہیں سنتا خدا نے اس بار بھی زینش کا گھر بسا کے رکھا تھا اور اس بار بھی اسکا بیٹا ہوا تیمور خوشی سے پاگل ہوگیا تھا اسنے پھر بہت بڑا فنکشن رکھا اور پورے خاندان کے سامنے اپنی دولت اپنے بیٹوں کے نام کردی وہ بہت خوش تھا اس نے اپنے بڑے بیٹے کا نام صائم اور چھوٹے بیٹے کا نام عزیر رکھا وہ زینش کا بہت خیال رکھتا تھا زینش جانتی تھی اتنی محبت صرف اس لئے ہے کہ اس نے بیٹے پیدا کرے ہیں اگلی بار جب زرنش نے پھر سے خوشخبری سنائی تو تیمور خوشی سے پاگل ہوگیا اس کو یقین تھا کہ اس بار بھی بیٹا ہوگا اس نے بڑھ چڑھ کر ساری تیاریاں کریں بچے کی پیدائش کے بعد کے انتظامات بھی اسنے پہلے سے کرلئے تھے وہ آفس گیا تھا کہ گھر سے کال آئی کہ زرنش کی طبیعت خراب ہورہی ہے وہ جلدی سے گھر پہنچا اور زرنش کو لے کر اسپتال گیا اسکی خوشی کا ٹھیکانا نہں تھا
******
اسنے اپنی امی کو کال کر کے زینش کو گھر لانے کے لئے کہا اسکی امی کو بھی ڈر تھا کہ تیمور غصے میں کچھ غلط نہ کردے اس لئے انہوں نے بہانہ بنایا کہ وہ کل زرنش کو گھر لائیں گی ابھی وہ ڈسجارج نہیں ہوئی ہے تیمور نے یہ سن کر فون کاٹ دیا ۔۔۔
اگلے دن زرنش ڈرتے ڈرتے گھر میں آئی اس ٹائم تیمور سورہا تھا اسنے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر پیار سے اپنی معصوم بیٹی کو دیکھا اسکی آنکھوں میں آنسوں آگئے وہ سوچنے لگی کہ بیٹا بیٹی دینا تو اللہ کے ہاتھ میں اس میں اسکا یا اس معصوم بچی کا کیا قصور ہے اسکا دل بہت سہما ہوا تھا اسنے اپنے بیٹی کو سینے سے لگا لیا دونوں بیٹے اسکول گئے ہوئے تھے اسکا دل کسی انہونی کا احساس دلارہا تھا اتنے میں اسکی ساس جو اسکی پھوپھو بھی تھی زینش سے کہنے لگی بیٹا تم آرام کرو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے زرنش کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ اپنی ساس کے گلے لگ کر رونے لگی انہوں نے اسے دلاسا دیا مگر انکا دل اندر ہی اندر ڈر رہا تھا وہ جانتی تھی ان کے بیٹے کے دل میں بیٹی جیسی رحمت کے لئے بے انتہا نفرت ہے انہیں اپنی تر بیت پر رونا آیا انہوں نے زینش کو کمرے میں لٹا دیا اور خود ظہر کی نماذ پڑھنے لگی دونوں بچے بھی اسکول سے آگئے تھے عزیر مونٹیسوری میں اور صائم سینئر میں تھا زرنش کی آنکھ تیمور کی آواز پر کھلی جو زور زور سے چیخ رہا تھا اسنے اپنی بچی کو اٹھانے کے لئے بیڈ پر مارا مگر وہ وہاں نہیں تھی وہ تیزی سے چلتی ہوئی باہر بھاگی تیمور کے ہاتھ میں وہ بچی تھی اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہاتھا کہ وہ اس کو گھر سے نکال دے گا زرنش جا کہ اسکے پیروں میں لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ اس معصوم کا کیا قصور ہے پلیز اسکو معاف کردیں اللہ پاک نے تو اپ کے گھر میں رحمت بھیجی ہے آپ اسکو کیو دھتکار رہےہیں وہ زور زور سے رونے لگی تیمور نے زینش کا ہاتھ پکڑ کے اسے باہر کی طرف پھینکا تم بھی دفع ہوجائو اسکے ساتھ
وہ زہریلے لہجے میں بولا تیمور کی امی کمرے سے باہر آئیں تو انہوں نے زینش کو اس حالت میں دیکھا وہ جانتی تھیں کہ ان کے کسی عمل سے تیمور نہیں رکنے والا انہوں نے جاکے زینش کو آٹھایا آگر یہ دونوں بھی یہاں نہیں رہیں گی تو میں بھی انہی کے ساتھ چلی جاتی ہوں کیونکہ میں بھی ایک عورت ہی ہوں آگر میرا باپ بھی مجھے بچپن میں ایسی ماردیتا تو میں تم جیسی اولاد نہ پیدا کرتی انہوں نے روتے ہوئے کہا یہ سن کے تیمور کا غصہ تھوڑا ہلکا ہوا ٹھیک ہے یہ اس گھر میں رہ سکتی ہے مگر اس منحوس کا چہرہ نہیں دکھے مجھے کہیں بھی رکھنا مگر میرے سامنے نہیں لانا وہ اپنے لہجے کا زہر ان پر اگلتے ہوئے باہر نکل گیا زینش نے روتے ہوئے اپنی محسن کو دیکھا جس کی وجہ سے اسکا گھر ایک بار پھر بچ گیا آللہ پاک کوئی نہ کوئی وسیلہ بنا ہی دیتا ہے اس سے نا امید نہیں ہونا چاہیے آنکھوں میں آنسو بھرے اسنے اپنی معصوم سی بچی کو سینے سے لگا لیا جسے اللہ نے رحمت بنا کر بھیجا جس زات کے لئے ہمارے پیارے نبی صہ نے کہا کہ آگر میری ماں دوران نماز مجھے آواز دیتی تو میں ان کی بات سن لیتا وہ زات جو ہمارے پیارے نبی کی بیٹی کی صورت میں ان کے جگر کا ٹکڑا تھی وہ زات جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ اسلم کی بہن کی صورت میں جنہیں آپ نے کہا کے خود آنے کی تکلیف کیوں کی مجھے پیغام بھیج دیتیں میں خود سارے قیدے رہا کر دیتا وہ زات جسے بیوی کے روپ میں حضور صہ نے لاڈ پیار میں رکھا یہ رتبہ ہے عورت زات کا پھر کیوں لوگ اب تک زمانہ جہالت کی رسم ادا کر ہے ہیں کیوں بیٹا بیٹی میں فرق کرتے ہیں
*****
بیٹیاں بو جھ نہیں ہوتیں
یہ تو بہت پیاری ہوتی ہیں!
بیٹیوں کو بوجھ کہنے والوں کیا تمیں پتہ ہے ؟
یہ وہ رحمت ہے جسے اللہ نے تمہاری بخشش کا وسیلہ بنا کر بھیجا ہے
******
زینش نے اس بچی کا نام حر وش رکھا وہ اب تیمور کے کمرے میں نہیں رہتی تھی وہ اپنی حر کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی تھی تیمور کے ساتھ دونوں بیٹے رہتے تھے تیمور ان پر جان نثار کرتا تھا اور بیٹی کی شکل دیکھنا تک گوارا نہیں کرتا یہاں تک کو عزیر اور صائم کو بھی اس کےپاس جانے کی اجازت نہیں تھی جب تیمور گھر سے باہر ہوتا تب زینش بیٹوں کو حر وش کی طرف مائل کرتی تاکہ ان کے دل میں بھی بہن کے لئے محبت پیدا ہو مگر دونوں ہی باپ کے لاڈ پیار میں بگڑ چکے تھے وہ بھی حر وش کو تیمور کی نظر سے ہی دیکھتے زینش بھی تیمور سے دور رہتی تھی وہ اپنا سارا وقت حروش کے ساتھ ہی رہتی آخر ماں تھی وہ ***
حروش تھوڑی بڑی ہوئی تو اسکو اسکول لگانے کا سو چا گیا مگر تیمو ر نے ہر گز یہ اجازت نہیں دی کہ اسکو اسکول بھیجا جائے آخر کار منت سماجت کرکے اتنی اجازت مل ہی گئی کے اسے گورنمنٹ اسکول میں داخلہ کرادیا جائے جیسے جیسے حروش بڑی ہوتی جا رہی تھی تیمور کے لئے اسکی نفرت مزید بڑھتی جارہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروش پانچ سال کی ہو گئی تھی عزیر سات سال کا اور صائم نو سال کا
زینش نے حر وش کو سلا دیا تھا رات کے دس بج رہے تھے جب اسکا فون رنگ ہوا نمبر سے کال تھی اسنے ریسیو کری آگے سے کسی مرد کی بھاری آواز آئی آپ زینش تیمور بات کررہی ہیں اپنا نام اس طرح سن کے اس کا دل انہونی کا بتارہا تھا آپ کے پیرنٹس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے موقع پر ہی دونوں کی دیتھ ہوگئی اس کے بعد زینش کو پتا نہیں چلا کے اس آدمی نے کیا کہا کیا نہیں وہ سب سننے سے قاصر تھی اتنے میں عزیر اسکے پاس آیا جو بھوک لگنے کی وجہ سے اپنی مما کو ڈھونڈ رہا تھا زینش کو ایسے بیٹھا دیکھ وہ اسے ہلانے لگا مگر زینش پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا وہ زور زور سے دادی اور بابا کو آواز دینے لگا تیمور اور اسکی کمرے میں آئے تو دیکھا زینش کی سانسیں رک چکی تھیں بیڈ پر بیٹھی حروش کو نہیں پتا تھا اسکی مما اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گی وہ معصوم نظروں سے سب کو روتا ہوا دیکھ رہی تھی زینش کے دل کو صدمہ پہنچا تھا جو وہ برداشت نہیں کر پائی تھی اور اپنی بیٹی کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کے وہ بھی اپنے ماں باپ کے ساتھ جا چکی تھی ۔
*******
دادی نے حروش کو گود میں اٹھایا دو دن ہوگئے تھے اس نے کچھ کھا یا پیا نہیں تھا بس وہ ایک ہی بات بار بار بول رہی تھی میری مما کہاں ہے؟
*******
وقت کے ساتھ ساتھ بیٹے تو زینش کو بھول چکے تھے مگر حروش اسکو یاد کرتی رہتی تیمور تو اسکی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اسکی ساری زمہ داری دادی نے سنبھال رکھی تھی انہیں اللہ پر بھروسہ تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی تیمور کے دل میں حروش کی محبت پیدا کر دے گا *****
آج حروش کی برتھ ڈے تھی وہ پوری دس سال کی ہوگئی تھی بھائ اور باپ تو اس سے بات نہیں کرتے بس ایک دادی تھی جو اسکی پوری کائنات تھی مگر اس کو نہیں پتا تھا اس سے یہ کائنات بھی چھیننے والی ہے وہ اسکول سے خوشی خوشی گھر گئی مگر گھر پہنچتے ہی اسکی سانس رک سی گئی گھر میں بہت مہمان تھے سب رو رہے تھے وہ عزیر کے پاس جاکے رکی بھائی یہ کیا ہوا سب اسنے حیرت سے سب کی طرف دیکھا دادی اللہ میاں کے پاس چلی گئی اسنے روتے ہوئے جواب دیا اسکو یاد آیا کہ اسکئ مما بھی وہی چلی گئی تھیں اور کبھی واپسی نہیں آئیں تھی وہ اپنے کمرے میں جاکے سہمی ہوئی بیٹھ گئی وہ چھوٹی سی بچی معصوم سی جان بلکل اکیلی ہو گئی تھی