اب زمانہ بدل چکا تھا ارضِِ پاک کی پچاسویں سالگرہ بھی ہوچکی تھی
ہرقسم کا سفر اب بہت سہل ہوچکا تھا ۔
میرے ان چھوٹے بہین بھائیوں نے مل کر اپنی ذاتی فوکسی کار خرید رکھی تھی ہم لوگ قافلے کی صورت میں ہسپتال کے پارکنگ ایریا میں آۓ وہاں ساجد کی ذاتی فوکسی کے علاوہ ایک عدد ٹیکسی بھی روکی گئی تھی
ڈاکٹر ثمینہ ڈاکٹر کرن
ساجد ماں جی ۔۔۔ سانولی کے علاوہ ساجد کے محلے داروں میں سے بھی کچھ لوگ مجھے وصول کرنے آۓ ہوۓ تھے
مجھے ذاتی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بٹھایا گیا اسی کی پچھلی سیٹوں پہ کرن ثمینہ او سانولی کے علاوہ محلے دار خاتون بیٹھ گئیں
دوسری گاڑی پہ ماں جی
اور دیگر لوگ سوار ہوگیئے بیس منٹ کے سفر کے بعد ہم صدر میں ہی محلہ درانی میں داخل ہوگیئے
مشرق کی طرف سے تیسری گلی کے پانچویں نمبر کا تین منزلہ بڑا مکان تھا جو ساجد نے خرید رکھا تھا
وہ دور نہایت ہی اچھا دور تھا لوگوں کے دلوں میں نیک جزبات ہوا کرتے تھے ایک دوسرے کی ہمدردی تھی ملنساری تھی ۔
ہمارے وہاں پہنچنے پہ اس کشادہ گلی میں بہت سے لوگ جمع ہوگیئے جنہیں میرے متحلق غائبانہ تعارف ہو ہوچکا تھا البتہ میرے لئیے ذیادہ تر لوگ اجنبی تھے
چند لوگوں کو ہسپتال میں اپنی عیادت کے دوران دیکھا تھا ۔
ہم لوگ مختصر سے وقت میں گلی میں موجود لوگوں سے ملتے رہے بعداازاں مکان کے اندر داخل ہوگیئے ۔
پہلی منزل اپنے استعمال میں رکھتے ہوۓ اوپر کی دونوں منزلیں کراۓ پہ لگی ہوئی تھیں
ان لوگوں نے ایک عدد کمرہ میرے لئیے مقصوص کر دیا تھا ساجد نے ہسپتال میں تین مختلف ادوار میں فوٹو گرافر بلا کر میری تصاویر بنوائیں تھیں
اس کمرے کے چاروں کونوں میں دیواروں پہ میری مختلف پوز کی تصاویر آویزاں تھیں
ہر تصویر پہ حروف میں میرا تعارف لکھا گیا تھا
بڑابھائی اللہ رکھا
میرے اس کمرے میں تمام اشیا ترتیب سے رکھی گیئ تھیں جس دوران میں ہسپتال میں داخل تھا
ساجد نے مجھ سے میرے ذاتی فلیٹ کی چابیاں لی تھیں
آج میں دیکھ رہا تھا میرے فلیٹ کا تمام سامان یہاں منتقل ہوچکا تھا
کچھ عرصہ قبل ساجد نے مجھے یہ تو بتایا تھا کے دہی بھلے کی دوکان کا حساب چکتا کرکے سامان اٹھا لیا ہے اور دوکان مالکان کے حوالے کردی ہے مگر اس نے یہ نہیں بتایا تھا کے فلیٹ کا سامان اٹھا کر فلیٹ کا کیا کیا ہے ۔
کمرے میں موجود سامان میں سے جب میری نظریں باپو کے صندوق پہ پڑیں
میرا غم ایک بار پھر تازہ ہوگیا
بیے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔
کمرے میں میں اکیلا نہیں تھا بلکہ ایک ہجوم تھا لگاتار محلے دار میری عیادت کو آجا رہے تھے
ساجد درحقیقت جہاں بھر کا کامیاب ترین شخص شاید اس لئیے تھا کے اس کا دماغ پراسرار طور پہ بہت تیزی سے چلتا تھا ۔
اس نے جب میری یہ کیفیت دیکھی تو بڑے سکون سے چلتا ہوا اس صندوق کے پاس پہنچا اسے اٹھا کر کمرے سے باہر لے گیا
اس نے اچھا ہی کیا تھا
فلیٹ میں بھی میں نے یہ صندوق چارپائی کے نیچے رکھا رہتا تھا ڈبل بیڈ کی چادر سنگل سی چارپائی پہ ڈالی رہتی تھی تاکہ صندوق چھپا رہے کئ کئ ماہ چارپائی کے نیچے جھاڑو نہیں لگاتا تھا تاکہ صندوق پہ نظر نہ پڑ جاۓ
شہر کا اپنادستور تھا مغرب تک لوگ میری عیادت کو آتے رہے مغرب کے بعد پھر کوئی نہ آیا
مدتوں بعد گھر کے ماحول میں رہتے ہوۓ مجھے عجیب قسم کا سکون سا محسوس ہورہا تھا
رات کو تمام گھر والے میرے کمرے میں موجود تھے ثمینہ کرن خالد بھی گھر آچکے تھے
بڑی دیر تک خوش گپیاں جاری رہیں
میں بیڈ پہ نیم دراز تھا بڑا صوفہ میرے سامنے تھا دو عدد سنگل صوفے میرے بیڈ کے دائیں بائیں رکھے ہوۓ تھے جن پہ کرن اور ثمینہ بیٹھی ہوئی تھیں میرے بیڈ کے کونے پہ ڈاکٹر خالد بیٹھا مسکرا مسکرا کر سب کی باتیں سن رہا تھا سامنے والے بڑے صوفے پہ سانولی اور ماں جی بیٹھی ہوئی تھیں
قارین عمریں گزر چکی تھیں
چاندنی میرے بالوں پہ بھی اتر چکی تھی اور سانولی کے بال چونکہ سنہری تھے اور سنہری بال جلد سفید ہوجاتے ہیں لہذا اسکے تمام کے تمام بال سفید ہوچکے تھے
مگر سانولی کے چہرے کے نکھار اسکی آنکھوں کی کشش اسکے ہونٹوں کی قدرتی سرخ رنگت میں نکتے کا فرق بھی نہیں آیا تھا
جسقدر مصائیب و آلام سے وہ گزری تھی اگر اسکی جگہ کوئی اور ہوتی تو اسکے چہرے کی جھریاں چیخ چیخ کر اس پہ بیتے ہر ظلم کی داستانیں بیان کرتیں
اسیدوران ساجد عشاء کی نماز پڑھ کر ہمارے کمرے میں داخل ہوا مسکراتے ہوۓ بولا
ہاں جی؟ کیا سازشیں ہو رہی تھیں میرے خلاف؟؟؟
سمیت میرے سب کے قہقہے فضا میں بلند ہوۓ
وہ اپنا آپ صوفے پہ بلکل سانولی کے ساتھ گراتے ہوۓ بیٹھا اول دھبک دھبک تین چار مکے اسکی کمر پہ جڑھ کر آگے سے ہوکر جھانکتے ہوۓ بولا
او او سرکاراں یہ کیا ہو رہا ہے؟
نہ یہ بتائیں!
آپ نے اس سے پہلے کوئی اللہ رکھا کبھی نہیں دیکھا؟؟؟
او خدا کو منو باجی سر کار!
بازار بھرا پڑا ہے اللہ رکھوں سے ۔
ایک سے بڑھ کر ایک اللہ رکھا آیا ہوا ہے ۔
چائنہ کا اللہ رکھا الگ جاپانی اللہ رکھا الگ روسی اللہ رکھا الگ ۔ جرمن اللہ رکھا الگ بلوچی سندھی سرحدی ہر طرح کے اللہ رکھے جگہ جگہ پڑے ہوۓ ہیں
آپکو ایک ہمارا اللہ رکھا ہی ملا ہے تاڑنے کیلئے؟؟؟
کمرے میں موجود تمام احباب کے نہ تھمنے والے قہقہے گھونج اٹھے مگر ساجد مسلسل سنجیدہ صورت میں سب کو ہنساتا چلا جارہا تھا خود ہنسنا دور کی بات مسکرا بھی نہیں رہا تھا
ادھر بڑی
مشکل سے قہقوں کچھ کمی آئی تھی کے وہ نئے سرے سے بولا
میری پگلی بہین اگر آپ دلگی شلگی کے چکر میں ہیں تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ نفی میں مسلسل سر ہلاتے ہوۓ دونوں ہاتھوں سے اشارہ کر کے بولا
نہ نہ بپھا کوٹن جی پُہل جائیں!
دلگی اُس کے ساتھ جا کر یں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اپنی چھاتی پیٹتے ہوۓ بولا ۔ ۔ ۔!
جس کے پنجرے میں دل ہو
میری طرف اشارہ کرکے آپ ان پہ بھرونسا کر رہی ہیں؟
وہ بڑی بڑی آنکھیں نکال کر سانولی کو گھور کر بولا
چہلی ہیں آپ ۔
پھر اسی طرح دونوں ہاتھ اور سر نفی میں ہلاتے ہوۓ بولا
کوئی دل شل نہیں ہے انکے پنجرے میں اللہ پاک کی قسم!
ماں جی ہنستے ہستے اچانک سنجیدہ ہونے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ بولیں
اُف توبہ کر پتر اوۓ ابھی نماز پڑھ کر آیا ہے اور ۔ ۔ ۔قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بول رہا ہے ۔ ۔ ۔ :-
وہ صوفے سے اٹھ کر ماں جی کے سامنے بدمعاشوں کی طرح ٹیڑھا میڑھا سا ہوکر کھڑا ہوگیا ماں جی کی طرف غضبناک آنکھوں سے دیکھتے ہوۓ آستینیں چھڑھا کر ماں جی پہ جھپٹ پڑا
انہیں دائیں بائیں جھنجھوڑتے ہوۓ بولا
چھوڑھاؤ اوۓ کوئی اس بڑھیا کو میرے ہاتھوں سے
او بڑھیا ۔ ۔ ۔ ۔او بڑھیا باز آجا ورنہ نا! تیرا گلا دبا کر کلیجے نکال کر تیری ہتھیلی پہ رکھ دوں گا!
وہ ماں جی کو چھوڑ کر انہی کے ساتھ بیٹھ کر ہاتھ جہاڑتے ہوۓ بولا
ماں جی ماں جی ماں جی!!!!
آپ کیوں نہیں مانتیں؟
او اللہ قسم
میرے سامنے ڈاکٹروں نے انہیں چیر پھاڑ کر انکی بوٹی بوٹی کرکے دل نکال کر میرے سامنے پتہ نہیں کہاں پھینک دیا !
وہ تو شکر ہے میرے پاس وہ پتھر تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ جس سے میرے پردادا چٹنی کوٹ کر کھا یا کرتے تھے ۔
میں نے ڈاکٹروں سے کہا بڑے نکمے لوگ ہو
میرے بھائی کا دل نکال کر پتہ نہیں کہاں رکھ کر بھول گئے ہو
چلو یہ لو یہ پتھر ہی ڈال دو دل کی جگہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا
ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا
ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا
قارئین کبھی اسقدر کھل کر ہنسنے کا مو قع نہیں ملا تھا مگر آج ساجد نے اتنا ہنسایا اتنا ہنسایا کے اب پیٹ میں بل پڑ رہے تھے ۔
بڑی دیر تک ہنسنے ہنسانے کی باتیں ہوتی رہیں
پھر فرداًفرداً سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کیلئے چلے گئے ۔
آخر پہ ماں جی سانولی کو بھی ہمراہ اپنے میں سونے کیلئے لے گئیں ۔
ساجد آکر میرے پاس بیٹھ گیا
وہ مجھ سے بولا
بھائی جی میں نے اپنی اس عمر میں بہت کچھ دیکھا ہرقسم کے دکھ اُٹھاۓ طرح طرح کی تکلیفیں جھیلیں
مگر کبھی آنسو نہیں بھاۓ
پہلی بار اُس روز آپ سے لپٹ کر رویا تھا
اور شاید وہی آخری بار بھی تھی!!!
بھائی آپ کا یوں بار بار آنسو بہانا مجھے اچھا نہیں لگتا ۔
دنیا میں ایسا کونسا انسان ہے جسکے سینے میں دل نہیں؟
کون سا ایسا فرد ہے جسے غم نہیں؟
بھائی جان
کوئی بھی سلامت نہیں
مگر ہر کوئی روتا نہیں
اللہ کا شکر ادا کریں بھائی جس نے ہمیشہ آپکی حفاظت بھی کی اور گُناہوں سے بھی بچاۓ رکھا!!
اب ضرورت اس بات کی ہے کے آئیندہ جو زندگی بچ گئی ہے ہم نے ماضی کو بھولا کر اسکے متحلق سوچنا ہے ۔
اس نے صاف لفظوں میں سانولی کے متحلق بھی اشارہ کر دیا تھا اب آپ نے اسکے بارے میں بھی سوچنا ہے!
وہ جو کچھ بھی ہے ہم سے بہتر آپ اُسے جانتے ہیں
آپ دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔
نہ اسکی دیکھ بھال لائیک آپ سے بہتر ہے اور نہ آپ کو اس کی نظر سے دیکھنے والا کوئی دوسرا ہے
رہی بات مستقبل کی تو بھائی اب جو کچھ بھی ہے یہی خاندان آپکا اور آپ اسکے ہیں مجھے بڑے بھائی کی ضرورت تھی وہ آپ نے پوری کر دی آپ کو چھوٹے بہین بھائیوں کی ضرورت تھی وہ ہم نے پوری کردی
اب پتہ ہے بھائی جان؟؟؟
ماں جی کو ایک عدد بہو کی ضرورت ہے
وہ وہ سانولی پوری کر ے گی
جانتے ہیں کیسے؟
بھائی جان
مجھے منہ بولے بہین بھائیوں میں آۓ ہوۓ تقریباً پانچ ماہ ہوچکے تھے اس دوران ساجد نے مجھے اپنے محلے کے چھوٹے مگر پررونق بازار میں چھوٹے پیمانے پہ کریانے کی دوکان لگا دی صبح نماز کے بعد دوکان کھولتا تھا
ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ماں جی دوکان پہ ہی پہنچا دیا کرتیں جبکہ رات کا کھانا ہم سب ایک ساتھ مل بیٹھ کر کھایا کرتے
ساجد زمانے کی ٹھکریں کھا کھا کر انمول ہوچکا تھا
انہی دنوں میں ہمارے محلے میں ایک عدد اچھا مکان ڈبل سٹوری چالیس ہزار کا بک رہا تھا
چونکہ یہ لوگ بنگالی تھے اور بنگال کب کا پاکستان سے الگ ہوچکا تھا اب اول تو ان لوگوں نے پاکستان کے شہر کراچی میں ہی سیٹ ہونے کی کوشش کی مگر جونہی ملک میں انسانی حقوق کی بنیادوں پہ یہاں پاکستان میں رہ جانے والے بنگالیوں کو یہ اختیار دیا کے آپ میں سے جو لوگ اپنے نئے ملک بنگلہ دیش جانا چاہیں
وہ بلا روک ٹوک ایک مقصوص مدت کے اندر اندر جاسکتے ہیں
اس وقت بہت سے بنگالیوں نے اپنی جائیدادیں فروخت کرکے بنگال جانا شروع کردیا اب چونکہ پہلے تین مرتبہ اس مقصوص مددت کا دورانیہ بڑھایا جا چکا تھا اور یہ آخری موقع تھا جس کے چند دن باقی رہ گئے تھے
میرا فلیٹ جہاں تھا وہاں کی مانگ ذیادہ تھی ساجد سے کئی لوگوں نے اچھی رقم کے عوض فلیٹ طلب کیا مگر اس نے آمادگی ظاہر نہیں کی
جونہی اس مکان کو فروخت کرنے کی خبر اسے لگی ساجد نے فوراً جاکر اسکے مالکوں کو بیانہ پکڑا کر چند روز کی مہلت لے لی
اگلے چند ہی دنوں میں اس نے میرا لشمی والا فلیٹ پورے چالیس ہزار میں بیچ دیا پھر مجھے اس مکان کے مالکان کے ہمراہ عدالت لے گیا وہاں تمام عدالتی کاروائی کروا کر اس نے یہ مکان میرے نام کروا دیا ۔
اب جو معاملہ پورے خاندان کے سامنے زیر غور تھا وہ میرا اور سانولی کا تھا ۔
آخرکار ایک رات یہ بعث بھی بلآخر ایک عجیب انداز سے چھڑ ہی گئی ۔
رات دس بجے ثمینہ کرن اور خالد گھر پہنچے
ساجد بھی گاڑی گیراج کھڑی کرکے انکے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا ۔
اب حسبِ معمول کھانا لگنا تھا
لیکن ساجد نے اعلان کر دیا
امی! آپ اپنا پورا خاندان لے کر اپنے بڑے بیٹے(اللہ رکھے)کے کمرے میں جائیں ۔
میں تھوڑی دیر تک وہاں آپ لوگوں سے ملنے آؤں گا ۔
پورے کا پورا خاندان اسکے چہرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا آخر معاملہ کیا ہے
اور آج ساجد اتنے غصے میں کیوں ہے؟؟؟
ایک دم سب کی مسکراہٹیں سنجیدگی میں بدل گئیں ماحول پہ یک سر سناٹا سا چھا گیا
ہر کوئی جہاں تھا وہیں کھڑا اسکے چہرے کی طرف دیکھتا رہ گیا!!!
اسی خاموشی کے دوران
ساجد غصے سے دھاڑا!
اب کھڑے کھڑے میرا منہ کیا تاڑ رہے ہیں سب؟
وہ اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر بولا !!
میرے منہ پہ کچھ لکھا ہے جسکی تلاوت سب بڑے ادب سے کر رہے ہو؟؟
جس وقت وہ دھاڑا تھا اس دوران ماں جی سانولی سمیت کرن ثمینہ سب کسی حدتک بھدک گئے تھے اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بھی ڈرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
ثمینہ کسی نامعلوم منزل کی طرف بھاگتے بھاگتے واپس پلٹی ۔ شرمندگی اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ناکام سا غصہ دکھاتے ہوۓ بولی
بھائی آہستہ بولیں ڈرا کر سانس ہی نکال دی ہے
اچھی بھلی گاڑی چلاکر ہمارے ساتھ آۓ ہیں یہ اچانک آپ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ساجد نے پھر اچانک بڑے غصے میں ہاتھ کے اشارے سے ثمینہ کو خاموش کر دیا
وہ میرے کمرے کی طرف اشارہ کرکے بولا
جیسا میں کہ رہا ہوں ویسا کرو شرافت سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!
سب ایک دوسرے کی طرف عاجز سی نظروں سے دیکھ کر ماں جی کی قیادت میں میرے کمرے کی طرف چل پڑے ماں جی کے بعد دوسرا عاجز مسکین میں تھا جو انکے پیچھے پیچھے جان بخشی کے سفر پہ تھا اور میرے پیچھے پورا قافلہ
جوشاید مجھے اور ماں جی کو پلانگنے کے درپہ تھا سب سے آخر پہ سانولی تھے جسے ساجد نے جھبٹ کر بازو سے پکڑ لیا اور ساتھ سخت غصے سے بولا
ارے تُو کہاں جارہی ہے میری بٹکو؟؟؟
اے لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
چور سے پہلے بھاگے گٹھڑی!!!
ارے تو ادھر بیٹھ فطنے کی جڑ ۔۔۔۔ !
ساجد کے ان الفاظ کے ساتھ ہی ہر کسی کے دل کی ڈھڑکنیں بے ترتیب سی ہوگئی تھیں
کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا آخر معاملہ کیا ہے؟؟؟
ساجد کو اچانک کون سا راز ہاتھ لگ گیا جس پہ اسقدر وحشی ہوگیا کے جس ماں کا وہ کلمہ پڑتا تھا اسے بھی اس نے آگے دھر لیا
ادھر میں بھی ہمیشہ سے نادیدہ گناہوں کی سزا بھگت بھگت کر فی الوقت اس نئے سانحے پہ ادھ موا ہوچکا تھا
سب میرے کمرے میں آکر سہمے ہوۓ بچوں کی طرح ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھتے اور نظریں چراتے ہوۓ خاموش بیٹھے تھے
ماں جی ہمت کرکے کچھ بولنے ہی والی تھیں کے ساجد اسی جاہ و جلال کے ساتھ میرے کمرے میں داخل ہوا ۔
میرے علاوہ سب نےاپنی اپنی جگہ سے ہٹ کر اسے بیٹھنے کی جگہ دی وہ بغیر شکریہ ادا کئے کرن والے صوفے پہ بیٹھ گیا ۔
کرن کچھ دیر کھڑی رہی ساجد نے جونہی نظریں اُٹھا کر اسکی طرف دیکھا کود کر میرے بیڈ کے کنارے سہمی ہوئی بیٹھ گئی
اس دوران میں کچھ وظائف کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر مارے خوف کے اس وقت سب بھول گئے تھے
تمام لوگ نگاہیں جھکاۓ بیٹھے ہوۓ تھے کے اچانک ساجد کی آواز نے سکوت کو توڑا
ایک لمعے کیلئے سب کی نگاہیں اسکے چہرے کی طرف اٹھیں اور پھر فوراً ہی اپنی اپنی حدود میں سمٹ آئیں ۔
وہ بولا ۔
ماں جی میں!
میں آپ سے ایک بات کرنے آپ کے ہاں آیا ہوں!!!
اب تمام لوگ اسکے چہرے کی طرف غور سے دیکھنے لگے چونکہ اب اسکا لہجہ بہت نرم تھا
وہ پھر بولا!
بات دراصل یہ ہے بڑی بی!
جس گھر کے آنگن میں بیری کا درخت ہو تو وہاں لامحالہ پتھر آتے ہی ہیں!!!
بڑی بی بات مجھے نہیں آپکو مجھ سے کرنی چاہئیے تھی!
مگر مگر آپ لوگوں کو عقل کون دے؟
ہم سب نے چونک کر ساجد کی طرف دیکھا ۔
وہ کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر روانگی سے بولا
میرے آنگن میں بھی ایک لاکھ چوبیس ہزار تین سو پندرہ لوگ اس سے پہلے آچکے ہیں ۔
رشتے کیلئے!
چونکہ میری بہین سانولی ایک بار بوڑھی ہوکر دوبار جوان پھر بوڑھی ہونے جارہی ہے!!!
وہ بات کو جاری رکھتے ہوۓ بولا!
یہی حال بڑی بی آپکے سب سے بڑے بیٹے اللہ رکھے کا ہے
چند ماہ پہلے ہی سنا ہے وہ ورکشاپ(ہسپتال)سے اوّرحال ہوکر آیا ہے نئیے سپئیر پارٹس کے ساتھ!!!
اب آپ بتائیں بڑی بی!
آپ لوگ اپنے بیٹے کی بارات لیکر کب میرے ہاں آرہی ہیں’؟؟؟؟؟؟
یکلخت کمرے کی فضا بلند و بالا قہقہوں سے گھونج اُٹھی
ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا ہاہاہاہاہا
کرن اور ثمینہ
ساجد کو صوفے پہ لنمبا ڈال کر مسلسل تکیوں سے پیٹ رہی تھیں جبکہ ماں جی باری باری
کرن اور ثمینہ کو پکڑ پکڑ کر پیچھے ہٹاتیں
مگر وہ لگا تار ماں جی سے چھوٹ کر دوبارہ ساجد پہ پل پڑتیں
ساجد لگا تار ہاتھ جوڑ جوڑ کر ان سے رحم کی بھیک مانگ رہاتھا ۔ ۔ ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●