ساجد کی نظر جونہی مجھ پہ پڑی چھلانگ لگا کر گدھا گاڑی سے نیچے اتر آیا
مسکراتے ہوۓ مجھ سے مصافحہ کرکے دھیمے لہجے میں بولا ۔
اچھا ہوا آپ آگئے اللہ رکھا صاحب ملاقات ہوگئی
میرے بولنے سے قبل وہ خود ہی بولا
میں اب یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور جارہا ہوں
اس نے ایک چھوٹا سا قہقہ لگا یا اور میرے کان پہ جھک کر سرگوشی میں بولا
میں نے ایک نیا ہوٹل تلاش کر لیا ہے ۔
پھر وہ پیچھے ہٹتے ہوۓ نارمل آواز میں بولا
ہمارا گزارا اب یہاں ممکن نہیں تھا اللہ رکھا صاحب
لہذا ہم یہ محلہ چھوڑ کر جارہے ہیں
ساجد کے یہاں سے جانے کی خبر اسی کی زبانی سن کر مجھ پہ غم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے
مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا اپنا خاندان مجھ سے بچھڑ رہا ہو
ساجد کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کے مجھے ہمت ہی نہیں ہورہی تھے جو اس سے پوچھوں اب آگے کہاں جارہے ہو؟
میں نے گزشتہ ملاقات میں بخوبی اندازہ کر لیا تھا
کے ساجد میری طرف سے کسی قسم کی مدد کیلئے رضامند نہیں ہوگا
اسی لیۓ میں چلتا ہوا گدھا گاڑی کی اس سمت جا پہنچا جہاں ماں جی پاؤں پھیلاۓ بیٹھی ہوئی تھیں ۔
میں نے اول جھک کر ماں جی کے پاؤں گا بونسہ لینے کی کوشش کی مگر ماں جی نے شاید میرا ارادہ بھانپ لیا تھا انہوں نے فورا اپنے پاؤں اپنی سمت کھینچ لیۓ اور ایکدم میرا سر پکڑ کر اپنی چھاتی سے لگا لیا ۔
قارین!
ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں ماں کیا ہوتی ہے
آہ آج مجھے احساس ہوا
ماں کے لمس میں کسقدر سکون ہوتا ہے
ماں جی نے جونہی میرا سر اپنی چھاتی سے لگا مجھے ایسا لگا جیسے میری برسوں کی تھکن کو ماں نے اپنی چھاتی میں سمو لیا ہو ۔
میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کاش کاش کاش
میں اسی ماں کی گود میں سر رکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سکون کی نیند سوجاؤں اور تا حشر مجھے کوئی نہ جگاۓ
مجھے اس سے قبل ماں کے لمس کا کبھی احساس نہ ہوا تھا چونکہ میری ماں میری یاداشت سے قبل ہی چھوڑ کر موت کی وادی سے گزر چکی تھی جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آیا ۔
جب ساجد کی ماں جی نے میرا سر اپنی چھاتی سے جدا کیا اس وقت میرا تمام چہرہ آنسوؤں سے شرابور تھا اللہ جانے ایسا کیا ہوا کے بنا روۓ میرے آنسوؤں رواں دواں تھے اور انجانے میں میری ہچکی بندھ چکی تھی ۔
میرا دل کر رہا تھا کے چیخ چیخ کر اپنا سر ماں جی کے قدموں میں پٹخ پٹخ کر ماں سے کہوں
اری ماں خدا کے لیۓ!
ایک بار پہلے بھی تو مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔
ماں خدا راہ اب مجھے چھوڑ کر نہ جا ماں، میں اول تو دن رات ایک کر کے اپنی جوانی کی تمام توانائیاں خرچ کر کے تیری سیوا کروں گا ماں!
اور اگر معزور ہوگیا تو بھیک مانگ کر تیری مرادیں پوری کروں گا مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں تجھے تجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کا جوٹا نہیں کھانے دونگا
ماں اس کائینات کے تھکے ہارے غموں کے چور کو جو سکون تیری گود میں سر رکھنے سے ملتا ہے دنیا کے کسی بچھونے میں ایسا سکون نہیں ماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں میں جہاں بھر کی خاک چھان چکا ہوں اور اب تو سب کچھ ہار چکا ہوں
یا تو ہمیشہ مجھے ہر شب اپنی گود میں سر رکھ کر سونے دے
یا پھر ماں ایسی دعا دے دے
کے اس گمنام مسافت کے مسافر کے زندگی کے سفر کو کنارہ مل جاۓ
ایسا کنارہ کے دنیا کی مشقتوں دکھوں غموں سے آزاد ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گمنام ہوجاؤں ۔
یہ تمام الفاظ معض میرے دل میں مچل رہے تھے
میں انہیں زبان پہ لاتا بھی تو کیسے لاتا
کون میرے جملوں کا اعتبار کرتا
کس کو میرے جذبات کا احساس ہوتا
کون ہوتا جو مجھ زمانے کے بدنصیب کو ایک بار پھر گود لیتا ۔
میں کسی فلم یاڈرامے کا کردار تو تھا نہیں کے ایک دم ماں جی مجھے اپنا بیٹا بنانے کا اعلان کر دیتں اور میرے من کی تمام مرادیں پوری ہوجاتیں ۔
میں نے ہچکیوں اور آنسوؤں کے عالم میں ہی خود کو سمٹتے ہوۓ ماں جی کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا
جو شاید میرے آنسو دیکھ کر یاپھر اپنی خصوصی صفت ممتا کی نظر سے میرے دل کے گھاؤ دیکھ چکی تھیں
اس وقت مسلسل اپنے آنچل سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں ۔
میں نے رقم والا رومال نکال کر ماں جی کے قدموں میں رکھتے ہوۓ کہا!
ماں جی یہ میرا چھوٹا بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساجد میری بات نہیں مان رہا
مگر آآ آپ تو میری ماں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بار قارین میری چیخ نکل گئی ۔
ساجد کا چہرہ سرخ ہو کر اپنی ہی گود کی طرف جھک گیا
ماں جی نے بھی رونے کیلئے اپنا چہرہ آنچل میں چھپا لیا ۔
میں نے دوبارہ ہمت کر کے ماں جی سے کہا
یہ کچھ رقم ہے ماں جی
یہ یہ آپ رکھ لیں
میرے ان چھوٹے بہین بھائیوں کے کام آۓ گی ۔
ماں جی کبھی میری طرف اور کبھی ساجد کی طرف جلدی جلدی دیکھتے ہوۓ بولیں نہیں نہیں بیٹا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اتنے میں ساجد نے بھی اپنے لب کھولے ۔
ساجد بھی کوئی پتھر کا بنا ہوا نہیں تھا میرے آنسوؤں اور دکھی لہجے کے آگے ہار مان چکا تھا
اس نے جو جو اصول بناۓ ہوۓ تھے انہیں میرے آنسو اور جذبات بہا کر لے گئے تھے ۔
چہرہ اٹھا کر اپنے سامنے دیکھتا ہوا کسی انجان سی مسکراہٹ سے بولا
رکھ لیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رکھ لیں مجھے چھوٹا بھائی کہ رہا ہے
میرا بڑابھائی ہے ماں ۔
بہت انمول منصب ہے اسکا مجبور ہوں ماں
لاج رکھنا پڑے گی اس رشتے کی
ساجد اسقدر جذباتی ہوگیا کود کر گدھا گاڑی پہ سوار ہوا اور مجھ سے چہرہ چھپاتے ہوۓ کوچوان سے بولا
چلو نکلیں باباجی جلدی کرو
کوچوان بھی چلنے کیلئے شاید بہت بیتاب تھا فورا وہاں سے چل پڑا
ساجد نے نہ تو الوداعی مصافحہ مجھ سے کیا اور نہ میری طرف دیکھا
البتہ ماں جی اور چھوٹے بچے نظروں سے اوجھل ہونے تک پلٹ پلٹ کر میری طرف دیکھتے رہے ۔ ۔ ۔
گدھا گاڑی میری نظروں سے اوجھل ہوگئی میں بڑی دیر تک اسی گلی میں خاموش مجسمہ بنا کھڑا رہا
ماں جی نے میرا سر جو چھاتی سے لگایا تھا
رہ رہ کر انکی حدت محسوس ہو رہی تھی ۔
میں بلآخر وہاں سے پلٹا اور پھر سے اسی ہوٹل کی جانب جانے لگا جہاں ہمیشہ کھانا کھا یا کرتا تھا
ہوٹل کا سٹاف اسکا مالک فقیر محمد تمام کے تمام لوگ مجھ سے اسقدرمانوس ہو چکے تھے کے اب اگر میں کسی وجہ سے ہوٹل نہ جاسکوں تو سمیت مالک کے پورا سٹاف میرا پتہ کرنے میرے کواٹر پہنچ جایا کرتے تھے،
لہذا اس صورتحال سے بچنے لیۓ مجھے ہرحال ہوٹل جانا پڑتا تھا
کھانا وغیرہ کھا کر اپنے کمرے میں جا پہنچا ۔
آج مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرے وجود سے منوں بوجھ اتر گیا ہو ۔
"""""""""""""""""""""""""""""
زندگی اپنی مقصوص رفتار کے ساتھ گزرتی چلی گئی اس سفر میں مجھے اس نے بہت سوں سے ملا یا اور بہت سوں سے بچھوڑا
شب و روز بنا توقف کے گزرتے چلے گئے
یوں میرے چیدہ چیدہ بالوں پہ سفیدی اتر آئی تھی ماسٹر صاحب کی منشی جی کی اللہ مغفرت کرے انہوں نے میرا شناختی کارڈ بناتے ہوۓ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جو میرے حق میں بہتر تھیں
انہوں نے شناختی کارڈ یہ میری تاریخ پیدائش دس برس اضافی لکھائی تاکہ اللہ رکھا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس قابل ہو کے اپنے پاؤں کے سہارے چل پھر سکے ۔
مجھے اپنے محکمے کی جانب سے ریٹائرمنٹ مل چکی تھی میں نے پچیس برس کی ملازمت میں کوئی چھٹی نہیں کی تھی جسکی وجہ سے محکمے نے نہائت دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ مجھے تین برس قبل ہی پنشن جاری کردی
مگر پچھلے پانچ برس سے میں دل کے عارضے میں بھی مبتلا تھا ۔
شناختی کارڈ کے لحاظ سے اب میری عمر باون برس بن رہی تھی جبکہ کے باپو کے اعداد شمار کے متابق تقریبا چالیس برس کے لگ بگ تھی ۔
ریٹائرمنٹ کے دوران پنشن میں ملنے والی رقم سے میں نے ایک عدد دوکمروں کچن باتھ اور ڈیوڑی پہ مشتمل ذاتی فلیٹ خرید لیا
مگر اب دل کی بیماری میں آۓ روز اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا
میں ریٹائرمنٹ کے بعد اب لشمی چوک میں چھوٹی سی دوکان کراۓ پہ لیکر اکیلا بنا کسی ملازم کے گرمیوں میں دہی بھلے اور سردیوں میں چکن سوپ لگاتا تھا
اپنے اخراجات نکال کر باقی تمام رقم یتیم خانے کے بچوں کے نام کر دیا کرتا تھا
لیکن کچھ روز سے دل کی تکلیف میں شدت آچکی تھی جسکی وجہ سے دوکان لگا تار بند تھی ۔
اسی دوران ایک رات مجھے دل کا شدید اٹیک ہوا اور میں اگے روز سہپر تک تن تنہا اپنے بستر پہ بےہوش پڑا رہا
عین سہ پہر کے وقت میرے چند مقامی طور پہ جاننے والے
گلزار شفیق دوسرا شفیق اور رمضان گپ شپ کی غرض سے میرے فلیٹ پہ آۓ مجھے اس حال میں دیکھ کر فورا ڈاکٹر کو بلا لاۓ ڈاکٹر نے عارضی طور پہ تو معاملے کو سنبھال لیا مگر مجھے تفصلی بتانے لگا کے اللہ رکھے اب معاملہ میرے ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔
تمھیں اب شدید اٹیک آنا شروع ہو گئے ہیں ۔
کسی ایک اٹیک سے تمھاری جان جاسکتی ہے
تم نے ہمیشہ نیک زندگی گزاری ہے
لہذا میرا تجھے نیک مشورہ ہے آخر پہ آکر خودکشی کا ارتکاب نہ کرو فی الفور اپنے دل کا آپریش کرواؤ
ڈاکٹر سلیمان نے مجھے تمام تفصیل بتادی
بیس سے پچیس ہزار روپے آپریشن کا خرچ آۓ گا
اور اپنے ملک میں فی الحال چند ہسپتال تھے جن میں دل کا آپریشن کیا جاتا تھا اور وہ بھی نجی ہسپتال تھے جن سے سرکار کا کوئی تحلق نہیں تھا
بقول ڈاکٹر کے مجھے چھتیس گھنٹوں کے اندر اندر آپریشن کروانا تھا
جبکہ میرے پاس رقم موجود نہ تھی
اگر میرے پاس کچھ تھا تو ایک فلیٹ تھا جو دوبرس قبل میں نے چونتیس ہزار کا خریدا تھا اپنی تنخواہ کی جمع رقم اور بیس ہزار پنشن سے
اپنے شہر میں جو ہسپتال تھا وہ صدر میں تھا
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق مجھے جلد سے جلد وہاں آپریشن کیلئے جانا تھا
وقت بہت کم تھا فلیٹ بھی ایکدم نہیں بک سکتا تھا
لہذا اگلی شام میں نے اپنے فلیٹ کے کاغذات ساتھ رکھے اور ٹیکسی کے ذریعے صدر جا پہنچا
ٹیکسی والے نے عظیم اشان جدید طرز کی رحمٰن ہاسپٹل کے گیٹ پہ مجھے اتارا
سیکورٹی گارڈ کے کیبن سے ایک سیکیورٹی گارڈ جسکی عمر تقریباً بتیس چونتیس برس ہوئی ہوگی مجھے دیکھتے ہی بھاگتا ہوا میری جانب آیا مجھ سے بڑی گرمجوشی سے گلے ملا ۔
میں نے اسے اسقدر ملنسار تصور کرتے ہوۓ فوراً اس پہ اعتماد کر لیا
اول بغور کیبن کو دیکھا
کیبن میں اس سیکیورٹی گارڈ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا
میں نے بڑی رازداری سے سیکورٹی گارڈ سے کہا
بھائی میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کیبن کی طرف جاتے ہوۓ بولا
ضرور ضرور کرو ایک نہیں بلکہ دوچار باتیں کرو
ساتھ ہی اس نے زور کا قہقہ لگا یا
کیبن میں جاکر میں نے اسے تمام تر صورتحال سے آگاہ
کیا صاحب آپریشن جلد کروانا ہے ۔
نقدرقم کا کوئی بندوبست نہیں
لاوارث ہوں لہذا میری کوئی گارینٹی دینے والا بھی نہیں ۔
اپنے ساتھ جائیداد کے کاغذات لایا ہوں
کیا ان سے میرا آپریشن ہو جاۓ گا ؟
میں نے فائیل اسکے ہاتھوں میں پکڑاتے ہوۓ
شرمیلے لہجے میں پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیکیورٹی گارڈ نے میرے ہاتھ سے فائیل لی کچھ دیر اوراق پلٹ پلٹ کر پڑھتا رہا پھر فائیل سمیٹ کر مجھے دیتے ہوۓ بولا کچھ کہ نہیں سکتا بھائی
آپ اندر جائیں منیجر سے بات کرے دیکھیں شاید وہ لوگ اس پہ آمادہ ہو بھی جائیں ۔
میں نے ایک بار پھر اس سے کہا
دراصل ڈاکٹروں نے ایمرجینسی آپریشن کا کہ دیا ورنہ میں فلیٹ فروخت کرکے رقم ساتھ لیکر آتا لیکن اب میرے پاس اتنا وقت نہیں جو فلیٹ فروخت کر کے رقم کا بندوبست کر سکوں۔
سیکیورٹی گارڈ اثبات میں سر ہلا ہلا کر میری بات کی تائید کرتا رہا ۔
میں نے اس سے سوالیہ لہجے میں کہا
اگر منیجر مان جاۓ تو یقیناً ان لوگوں کا اس میں فائیدہ ہے فلیٹ بیش قیمت ہے آپریشن کے اخراجات کے مقابلے میں!
سیکیورٹی گارڈ قدرے بیزاری ظاہر کرتے ہوۓ حتمی انداز میں بولا ۔
ارے بھیا! آپ سے کہا نا مینجر سے بات کرکے دیکھ لیں سب معلوم ہوجاۓ گا
اب یہاں ہم دونوں کے خیالی پلاؤ پکانے سے بات تو نہیں بنتی
سیکیورٹی گارڈ کے اس لہجے سے مجھے کچھ شرمندگی سی ہوئی میں شرمندہ سی مسکراہٹ سے بولا جی جی آپ نے درست کہا
مجھے منیجر سے ہی بات کرنی چاہیۓ
سکیورٹی گارڈ نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوۓ کہا
منیجر سے آپ نے اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرنا کے سیکیورٹی گارڈ سے میری اس فائیل اور آپریشن کے متحلق کوئی بات ہوئی تھی
مگر آپ نے اس سے بات ضرور کرنی ہے
کے میرے پاس نقد رقم نہیں جائیداد کے عوض آپریشن کریں
اگر وہ نہ مانا تو مجھے ملے بنا واپس نہ جاۓ گا ۔
میں وہاں سے نکل کر ہسپتال کے گیٹ کی جانب جاتے ہوۓ سیکیورٹی گارڈ کے بارے میں سوچنے لگا عجیب قسم کا آدمی تھا کبھی بیزار لگتا تھا اور کبھی یوں لگتا تھا دنیا میں صرف ایک وہی ہے جو میرا ہمدرد ہے
میں ہسپتال کے اندر داخل ہو گیا ریسپشن والی خاتون سے پرچی بنوائی اس نے ساتھ ایک ٹوکن بھی دیا جو کے منیجر سے ملنے کیلئے نمبر کے حساب سے تھا ۔
میں ٹوکن لیکر منجر کے کبن کے باہر لگی ہوئی نشستوں میں سے ایک کرسی پہ بیٹھنے ہی والا تھا کے ایک لڑکی نے میرے ہاتھ سے ٹوکن لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوۓ کہا
سر ٹوکن مجھے دیں اور آپ جائیں اندر منجر صاحب کے پاس آپکی باری ہے ۔
اسکا کہنا درست تھا چونکہ اس وقت اس انتظار گاہ میں میں اکیلا تھا
میں فوراً دروازے سے اندر داخل ہوگیا
ایک ادھیڑ عمر کا کلین شیوڈ زبردست شخصیت کا حامل آدمی تھا
اس نے کھڑے ہوکر مجھ سے مصافحہ کیا مجھے اپنے سامنے میز کی دوسری جانب کی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ خود بھی اپنی نشست پہ بیٹھ گیا
پھر انتہائی نرم لہجے میں بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔
جی سر آپ کا کیا مسلہ ہے
میں نے اول اسے بتایا کے ڈاکٹرز نے دل کا آپریشن بتا
وہ غور سے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوۓ اظہار کرتے زبان سے تِک ۔ ۔ ۔تِک تِک کی آوازیں نکال کر رجسٹر کھولتے ہوۓ بولا!
بھائی کا نام؟
میں نے بتایا
اللہ رکھا
والد کانام؟
کرم الدیں ۔
عمر؟
میں نے وضاحت کرتے ہوۓ اسے بتایا
سر شناختی کارڈ کے حساب سے اڑسٹھ برس ہے
جبکہ اصل عمر تقریبا
چھپن برس ہے
مینجر مسکراتے ہوۓ بولا ہمیں میڈیکل کیلئے آپکی اصل عمر درکار ہے شناختی کارڈ کی نہیں ۔
اس نے دیگر تمام احوال قلم بند کرکے مجھ سے ڈاکٹروں کی رپوٹس طلب کیں میں نے وہ تمام بھی اسکے حوالے کردیں ۔
وہ انہیں بغیر چیک کیئے دوسرے دراز میں ڈالتے ہوۓ بولا
انہیں ڈاکٹرز خود چیک کریں گے
اب اس نے ایک طویل پرچہ لکھا
اسے میرے سامنے رکھ کر ایک کونے پہ پنسل کا نشان لگاتے ہو بولا یہاں دستخط کر دیں پلیز
میں نے وہاں دستخط کردیا ۔
وہ فائیل اپنی جانب کھینچ کر مجھ سے بولا
اب آپ تیس ہزار کی رقم میرے پاس جمع کروا دیں
پچیس ہزار تو آپکا لازمی لگے گا البتہ بقایا پانچ ہزار میں سے اگر اضافی خرچہ ہوا تو ہوا
ورنہ آپکو واپس لوٹا دیئے جائیں گے
قارین بہت مشکل مرحلہ تھا میرے لیۓ
میں نے تمام صورتحال منیجر کو بتا کر جائداد کے کاغذات اسکے حوالے کر دیئے
وہ مجھ سے کاغذات لیکر غیرتسلی سے انداز میں بولا
سر اللہ رکھا صاحب
یہاں دراصل نقد رقم درکار ہوتی ہے
بحرحال میں ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کرتا ہوں
آپ یہاں اپنے لواحقین کے نام درج کروائیں
میں نے اسے مختصر اور جامع جواب دیا
میجر صاحب!
میرے ورثا میں ایک ہی نام لکھ دیں
منجر نے قلم چلانے کیلئے صفحے پہ رکھی اور بولا
جی لکھوائیں
میں نے دل کی اتھا گہرائیوں سے کہا!
لکھیں اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منجرنے لکھا اللہ ساتھ جی آگے؟
اسکا خیال تھا ممکن ہے اسکا کوئی بھائی ہو گا
اللہ دتہ ۔ اللہ وسایا وغیرہ
مگر میں خاموش رہا
وہ بولا سر پورا نام لکھوائیں
میں نے کہا میرے وارث کا پورا نام یہی ہے مینیجر صاحب!!!!
اللہ کے سوا میرا اس دنیا میں کوئی وارث نہیں!
مینجر نے چونک کر میری طرف دیکھا
ایکدم اسکا چہرہ جذبات سے سرخ ہوگیا ۔
وہ بولا
او نو !
بڑی دیر تک پن کا پچھلا حصہ دانتوں میں دباۓ کچھ سوچتا رہا ۔
پھر مجھے باہر انتظار میں بٹھا کر میرے جائیداد کے کاغذات
اور ڈاکٹرز رپوٹس لیکر ڈاکٹر روم چلا گیا
تقریبا پندرہ منٹ بعد ایک نرس میرے پاس آئ
مجھ سے نہائت شائستگی کے ساتھ بولی
سر آپ اللہ رکھا صاحب ہیں؟
جی سسٹر!
میں نے فورا جواب دیا
سر آپ کو ڈاکٹر صاحب نے بلایا ہے
یہ کہ کر وہ میرے آگے آگے ڈاکٹر روم کی طرف چل دی
مجھے پھر سے دل میں شدید تکلیف محسوس ہو رہی تھی
میں بڑی دقت کے ساتھ چلتا ہوا ڈاکٹر روم میں پہنچا ۔جہاں
دولیڈیز ڈاکٹرز اور ایک جنٹس ڈاکٹر
مینجر کے ہمراہ ایک میز کے گرد کرسیوں پہ بیٹھے میری رپوٹس پہ جھکے ہوۓ تھے ۔
تینوں نوعمر سرجن میرے احترام میں کھڑے ہوگئے
ڈاکٹر نے میرے ساتھ مصافحہ کیا جبکہ لیڈیز ڈاکٹرز نے بطور آداب معض مسکراتے ہوۓ سر جھکا یا مجھے کونے میں ایک صوفے پہ بٹھایا گیا
ڈاکٹر نے شکائت کے سے لہجے میں مجھے کہا سر اللہ رکھا صاحب آپ انتہائی لاپرواہ ہیں سر
اتنی تکلیف رکھنے کے باوجود آپ نے خود پہ توجہ نہیں دی!
اس نے نرس سے کہا سسٹر جلدی سے انکے بلڈ سمپل لیکر لباٹری کروائیں پلیز!
اسکے بعد مجھ سے بولا
سر آپکی فائیل پہ بطور وارث ڈاکٹر ثمینہ اور ڈاکٹر کرن سائن کر رہی ہیں اچھا
میں نے دونوں لیڈیز ڈاکٹرز کی طرف شکریہ کی نگاہ سے دیکھا
دونوں نے باری باری منیجر کے سامنے رکھی ہوئی فائیل پہ دستخط کیا پھر ڈاکٹر ثمینہ منیجر کو مخاطب کرکے بولی
بھائی اللہ رکھا صاحب
ہمارے بڑے بھائی ہیں
لہذا ہم دونوں ان کی وارثہ ہیں
میری آنکھوں سے آنسوؤں کے گرم گرم قطرے پلکوں کوپھلانگ کر رخساروں کو روندتے ہوۓ دامن میں گرنے لگے
ڈاکٹر خالد نے منیجر سے پوچھا
میری فیس کے علاوہ کل کتنا خرچ ہے اللہ رکھا صاحب کے آپریشن کا
منیجر نے کہا سر بیس ہزار
ڈاکٹر اپنی دراز سے چیک بک نکال کر اس پہ سائین کرتے ہوۓ بولا
یہ پانچ ہزار میری طرف سے انکے اخراجات میں جمع کر لیں
ڈاکٹر ثمینہ بولیں
پانچ ہزار میری طرف سے میں تھوڑی دیر تک پانچ ہزار کا چیک آپکو دیتی ہوں
ڈاکٹر کرن نے کہا مینجر میرے تین ہزار آپکے پاس جمع ہیں دو ہزار ابھی منگواکر دیتی ہوں پانچ ہزار میرا بھی کاؤنٹ کر لیں
ڈاکٹر خالد مسکراتے ہوۓ میری طرف دیکھ کر بولا
اب صرف پانچ ہزار آپکےذمے باقی ہے آپ صحت یاب ہوکر جمع کروا دیجئے گا
میرے پاس الفاظ نہیں تھے جو ان لوگوں کا شکریہ ادا کرتا بلکل خاموش گردن جھکاۓ اپنے دامن میں ٹپکے ہوۓ آنسوؤں کا تکتا رہا ۔
ڈاکٹر خالد بھرپور قہقہ لگا کر میری جائیداد کی فائیل مجھے دکھاتے ہوۓ بولا
اب یہ آپکی جائیداد کے کاغذات آپکے ورثا کے حوالے کیے جاتے ۔
ڈاکٹر کرن نے لپک کر ڈاکٹر خالد کے ہاتھوں سے میری فائیل اچک لی اسی دوران میز پہ رکھے ہوۓ فو ن سیٹ کی گھنٹی بجنے لگی
ڈاکٹر خالد نے فون اٹھایا اور بڑے مودبانہ انداز میں بولتا رہا
جی اچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جی بہتر ۔ ۔ ۔ ۔جی بہتر ۔ ۔ ۔ ۔جی اچھا
پھر بولا جی ان کا آپریشن آج بہت ضروری کرنا ہے پہلے بھی یہ بہت دیر کر چکے ہیں
میں نے انکا بلڈ لبارٹری بھجویا ہے آدھ گھنٹے تک رپورٹ مل جاۓ گی
ہم نے انکی رپوٹس کا مکمل جائیزہ لے لیا ہے آپریشن جلد از جلد ضروری ہے ۔
کجھ دیر جی جی کے بعد
رسیور رکھ کر مینجر سے بولا
آپ براۓ مہربانی میرا چیک واپس کریں
سر نے انکے آپریش کے تمام اخراجات اپنے زمہ لے لئے ہیں
وہ ابھی آپکے آفیس میں رقم جمع کروا دیں گے اسکے ساتھ ہی میرے علاوہ تمام افراد کے قہقہے کمرے کی معدود فضا میں بلند ہوۓ
میں ویٹنگ روم میں پچھلے تین گھنٹوں سے موجود تھا
اسی دوران ایک نرس میرے پاس آئی اور بولی
سر آپ اللہ رکھا صاحب؟
میں نے کہا جی وہ اپنی فائیل میں دیکھتے ہوۓ بولی سر رات دوبجے آپ کا آپریشن ہے پلیز آپ نے اس دوران کھانا پینا کچھ نہیں ۔میں نے اثبات میں سر ہلا کر کہا جی اچھا!!!
رات پونے دوبجے میرا لباس تبدیل کروا دیا گیا
مجھے سٹریچر پہ لٹا کر آپریش تھٹر لے جا یا گیا
ڈاکٹر ثمینہ نے ایک ٹشو سے میری ناک کیا صاف کی کے میں دنیا و مافیہا سے بیخبر ہو گیا
ایگ جھٹکے سے میرا دماغ اندھیروں میں ڈوب گیا
پھر مجھے کچھ ہوش نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●