میری جانب بھاگتے ہوۓ آنے والے لوگوں میں ۔جوان،بوڑھے،مرد،عورتیں،بچے سب شامل تھے!
نوجوانوں اور مردوں کی اکثریت نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور گنڈاسے اٹھا رکھے تھے جنہیں لہراتے ہوۓ مسلسل میری طرف بھاگے چلے آرہے تھے ۔
میں حیران پریشان ان لوگوں کو اپنی جانب بھاگتا ہوا دیکھ رہا تھا جنکے ارادے صاف ظہار تھے کے یہ تمام کے تمام مجھے جان سے مارنے کیلئے دھاوا بول چکے ہیں ۔
میں اب وہاں سے کہیں بھاگ بھی نہیں سکتا تھا ۔چونکہ تین جانب سے گاؤں والے مجھ پہ جھپٹنے والے تھے جبکہ چوتھی سمت ٹھاٹھیں مارتی ہوئی نہر تھی ۔
جب گاؤں والے میرے بہت قریب پہنچے تو اسی لمعے میری نظر باپو پہ پڑی جو دیوانوں کی طرح گرتا اٹھتا ہانپتا کا نپتا سب سے پہلے مجھ تک پہچنے کی کوشش کر رہاتھا تاکے کوئی شخص میرے راکھے کا وار نہ کر سکے ۔
مگر باپو کا بڑھاپا اور اسکا کمزور جسم اسکے اس اردے کے آگے آڑے آرہا تھا ۔
باپو بلند آواز میں دھاڑرہا تھا!!
فیضو بھاگ پتر بھاگ جلدی پہنچ بھاگ فیضو بھاگ ۔باپو مخطلف لوگوں کے نام لے لے کر انہیں مجھ تک پہنچنے کی ترغیب دے رہا تھا جن میں تاجا بھولا، تابا،ناجی اور دیگر بیشمار تھے،
چند لمعوں میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کے میری طرف آنے والے دو قبیلے ہیں ۔
ایک مجھے قتل کرنے آرہا ہے ۔اور دوسرا مجھے پچانے آرہا ہے ۔
اسی شور وغل میں اول مجھ تک تین لوگ پہنچے سب سے پہلے وڈیروں کی شمالی اراضی کے مزیروں میں سے بالا پہنچا جس نے اپنا تیز دھار گنڈاسہ میرے سرمیں اتارنے کیلئے لہرایا ہی تھا کے پیچھے سے بھاگ کر آنے والے اکبر بھائی نے اسی تیز رفتاری کو برقرار رکھتے ہوۓ زور کا دکھا اپنے دونوں ہاتھوں سے بالے کو دیا،
بالا مردار بھینس کی طرح چھپک کرکے نہر میں جا گرا اور ہمیشہ کیلیے نظروں سے دور دفعہ ہوگیا ساتھ اکبر بھائی بھی اپنا توازن نہ تھام سکے تھے وہ بھی تقریبا نہر میں جا چکے تھے مگر انکے پیچھے فیاض بھائی کا ہاتھ زندگی بن کر اکبر بھائی کی ٹانگوں میں پڑ گیا دونوں بغیر کوئی لمعہ ضائع کے اٹھ کھڑے ہوۓ ۔
جو لوگ مجھے بچانا چاہتے تھے وہ بھاگنے میں سر دھڑ کی بازی لگا کر مجھ تک قدرے پہلے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے
قاتلوں میں سے صرف بالا پہلے پہنچا تھا جو ساتھ ہی ساتھ اپنے انجام کو بھی پہنچ چکا تھا ۔
میرے حامیوں نے گنڈاسے تھام گر میرے گرد گھیرا ڈال لیا تھا ۔
جس کی وجہ سے منصوبہ سازوں کا پہلا منصوبہ ناکام ہوچکا تھا
اب جس کسی نے بھی مجھ تک پہنچنا تھا اسے پہلے گھیرا توڑنا تھا مگر اسکی ضرورت نہیں تھی چونکہ یہ کسی دوقبلوں کی اعلانیہ جنگ تھی نہیں معض وڈیروں کے گناہ پہ پردہ ڈالنے کیلئے میرا قتل ضروری تھا وہ جو کوئی بھی کرتا انجام اسکا بھی موت ہی ہوتا چونکہ یہ سب ایک چال تھی ۔
بالا اس کام کیلئے منتخب تھا شاید مگر نامراد ہی انجام کو پہنچ گیا ۔
اور اسکا خون بھی کسی کے ذمے نہ لگ سکا سب کی آنکھوں میں اندھ آگیا تھا اسکے اپنے بھی یہی سمجھے کے بلاوجہ اتنا تیز بھاگا کے نہر میں جا کودا !!
تمام لوگ میرے ارد گرد جمع تھے،
کچھ مجھے کاری اور مجرم کہ رہے تھے
اور کچھ میری حقیقت جاننے کو بیتاب تھے ۔
آیا اغوا کاروں نے مجھے اور ایک ساتھ رکھا رہا یا پھر الگ الگ ۔
اور پھر ڈرامہ رچانے کیلئے ابھی ابھی ہم دونوں کو ایک ساتھ کرکے گھمسان کی فضا پیدا کی گئی تاکہ اندھے قتل میں راکھا مرتے ہوۓ وڈیروں کے تمام گناہ اپنے کفن میں لپیٹ کر مٹی میں دفن ہو جاۓ ۔
ادھر اب ایک شوروغل تھا کوئی کچھ کہ رہاتھا کوئی کچھ کہ رہا تھا اور حقیقت تو یہ تھی مجھے کچھ پتہ نہیں یہ سب کیا ہورہا ہے ۔البتہ
اکبر بھائی نے پانچ سات قسطوں میں اتنا بتا دیا تھا عین اسی روز جس روز تجھے اغوا کیا گیا تھا میرے گھر پہنچنے سے پہلے سانولی بھی اغوا ہو چکی تھی،
اور آج ہی بیے ہوش حالت میں تمہارے ساتھ مل رہی ہے
اکبر بھائی کی باتوں سے لگ رہا تھا کے وہ اصل حقیقت سے مکمل واقف ہیں ۔
ادھر باپو بھی گرتا پڑتا ہجوم میں داخل ہوگیا تھا وہ بڑی بیتابی سے میری طرف آرہا تھا
ابھی وہ مجھ سے کچھ فاصلے پہ ہی تھا کے پیچھے سے حویلی کے خادم خاص اور مشہور زمانہ بدمعاش؛
ماچھے نے بکواس کرتے میرے باپو کی کمر میں اس زور کی لات ماری کے میرا ضعیف باپو پہلے فضا میں اٹھا پھر کلابزیاں کھاتا ہوا بری طرح زمین پہ لتھڑ گیا
پہلی دو کوششوں میں تو اٹھتا اور گرتا رہا تیسری کوشش میں وہ اٹھا یانہیں مجھے نہیں معلوم ۔
چونکہ قارین!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باپو کی اسقدر توہین اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مجھے کچھ یاد نہیں رہا میں کون ہوں لوہے کا بنا ہوں یا گھاس بھوس کا میرے مدمقابل وہ کن ٹٹا ہے جس کے منہ اس حویلی کے وڈیرے بھی نہیں لگتے وہ مجھے مٹھی میں پکڑ کر مسلسل دے گا یا پٹخ پٹخ کر ہلاک کرے گا
مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کے میں کس چٹان سے ٹکرانے جارہا ہوں؟
وہ بہاولا کتا جو اپنے مالک کو بھی نوچ کھاتا ہے ۔
میں غصے اور جذبات میں غرق،
بجلی کی سی تیزی کے ساتھ،مدمعاش مانجھے پہ جھپٹا اول زور کا مکا اسکی چھاتی پہ دے مارے،
جسکی اسے تو کیا مجھے خود بھی کبھی توقع نہ تھی کے میں ایسا بھی کرسکتا ہوں ۔
مکا اسقدر طوفانی تھا کے ماچھا لڑکھڑا گیا لمعے سے بھی کم مدت میں میں نے اسکے بڑے اور کشادہ منحوس چہرے پہ تین مکے مسلسل جڑھ دیے اور قارین آگے سنیۓ !!
ماچھا مجھے پلاسٹک کا چھوٹا سا گڈا نظر آرہا تھا:
میں نے اس سوادومن ماشے کو ہاتھوں پہ اٹھا کر اپنے سر سے بلند کر لیا اور پھر زور سے زمین پہ دے پٹخا ۔
میرا غصہ اسقدر شدید تھا کے اسے چبا کر نگلنے کا دل کر رہا تھا،
میں نے اسے اوپر اٹھتے ہوۓ دیکھ کر اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر پھر اٹھا کر پٹختے کی کوشش کی مگر وہ ہڈ حرام اب سنبھل چکا تھا اور گر بھی بیتحاشہ جانتا تھا!
اب کی بار اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ گرا لیا ۔
اب کھبی وہ میرے اوپر ہوجاتا اور کھبی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اسی لمعے جب میں نیچے تھا اور وہ اوپر اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے کسی نے گرم گرم خون کا مٹکا میرے اوپر گرا دیا ہو ۔
ماچھے کے اپنے ساتھی نے کہلاڑے کا زوردار وار کر کے اسکا سر دوحصوں میں تقسیم کر دیا تھا ۔
وار دراصل میرے حصے کا تھا ۔
مگر بدقسمتی سے ماچھا اچانک مجھے نیچے کر کے خود اپنا سر میری جگہ لے آیا ۔
اور اب آخری ہچکی لیکر بیے نوردیدے پھیلاۓ
خون میں لت پت زمین پہ مردار پڑا ہوا تھا ۔
منصوبہ یہ تھا کے جب ماچھا کرمے کی پٹائی کرے گا تو راکھا ضرور اپنے باپ کی مدد کو گھیرے سے باہر آۓ گا ۔
اور جونہی وہ اپنے زمین پہ پڑے باپ کی طرف جھکے گا
شیفہ زور کا وار اسکے سر پہ کرے گا جس سے راکھا پل بھر میں موت کی نیند سوجاۓ گا
بعد میں حویلی والے جانیں اور کرما جانے ۔
مگر کاتب تقدیر جو لکھتا ہے اپنی مرضی سے لکھتا ہے
ہمارے منصوبے وہاں کچھ نہیں کرسکتے ۔
دو آدمی میری موت کا سامان لیکر آۓ
مگر موت انہی کو اچک کر لے گئی ۔
مگر وہ بوری سے برامند ہونے والا لاوارث بچہ
اب بھی ذندہ تھا اور خداخبر کب تک ذندہ رہے گا ۔۔
مجھے میرے پروردگار نے پھر سے پچا لیا؛
میرے قتل کا کھیل فی الحال مکمل طور پہ سمٹ چکا تھا،چونکہ بہت بڑی انہونی ہوگئی تھی ۔
مارا جانے والا ماچھا، اول تو وڈیروں کا دائیاں بازو تھا ۔ وڈیرے ہمیشہ اسے نہایت ہی اہم مہیم کیلئے استعمال کیا کرتے تھے،
وڈیرے اکثر اپنے سب سے خطرناک دشمن کو اسی ہتھیار سے تلف کیا کرتے تھے ۔
دوسرے نمبر پہ ماچھا بذات خود بالائی پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک مفرور زمیندار تھا،
اس نے آٹھ برس قبل رشتے کے تنازعہ پہ اپنے سگے زمیندار تاۓ کو خنجر کا وار کر کے قتل کر دیا تھا ۔
جسکے بعد اسکا اپنے گاؤں میں رہنا محال ہوگیا تھا
اسی دوران ہندستان کی تقسیم شروع ہوگئی پاکستان اور انڈیا کی ریاستیں معرز وجود آگئیں دیکھتے ہی دیکھتے بیچ میں لکیر پڑ گئی یوں ماچھے کے قبیلے والا حصہ انڈیا میں رہ گیا جسکی وجہ سے آن کی آن میں ماچھا بہت بڑے جاگیردار سے گر کر ایک عارضی طور کا مزیرا بن کر رہ گیا تھا ۔
وہ معض نام کا مزیرا تھا ورنہ حویلی میں اسے بیشتر مرعات حاصل تھیں ۔
آج بلاشبہ ہمارے وڈیروں کی حویلی پہ بہت بڑا طوفان برپا ہوچکا تھا، جسکی بچھاڑ سے حویلی کے درو دیوار ہل کر رہ گئے تھے اور وڈیروں کے دل دھک دھک دھڑک رہے تھے ۔
ماچھے کا تعلق انتہائی خطرناک قبیلے سے تھا،
جوکے اپنی روش کی وجہ سے ۔
کن ٹُٹّوں کے نام سے مشہور تھا ۔
یہ ایک ایسا دکیانوسی اور ضدی قسم کا قبیلہ تھا جو جس کام کی ٹھان لے تو بھلے قیامت ہی کیوں نہ آجائے، عورتیں مرد بڑے بچے سب مل کر ٹوٹ پڑتے تھے ۔
یہی حال انکی دشمنی اور عداوتوں کا بھی تھا ۔
ماچھا بیشک اب سرحد پار کا رہنے والا تھا مگر اسکے لیۓ یہی بہت تھا کے وہ کن ٹُٹّا قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جنکی کمی یہاں بھی نہ تھی ۔
میں ماچھے کےدو حصوں میں تقسیم سر کے خون میں لت پت تھا
میرے مہربان مجھے کھڑا کر کے میرے گرد ایک بار پھر گھیرا ڈال چکے تھے
باپو آسنوں بہاتا ہوا مسلسل میرے چہرے کے بوسے لے رہاتھا ۔
ماچھے کے قتل کی وجہ سے ماحول بلکل بدل چکا تھا
ماچھے کی خبر حویلی پہنچ چکی تھی،جبکہ حویلی والوں نے اپنے خصوصی نمائیندے کے ذریعے یہ احکمات جاری کر دیے تھے کے ماچھے کی لاش فوراً حویلی پہنچائی جاۓ جبکہ راکھے کے ہاتھوں سانولی کی ہونے والی بیے حرمتی کا فیصلہ بھی حویلی ہی کرے گی
منصوبہ یہ بنایا گیا تھا کے
جونہی گاؤں والے راکھے کو سانولی کے ساتھ نہر کے دھانے پہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے،
اسکے فوراً بعد مقرر شدہ تین قاتلوں
ماچھا_بالا یا پھر شیفہ
ان میں سے جس کی بھی پہنچ پہلے ان دونوں تک ہوگئی وہ پہلے وار کرکے راکھے کو قتل کرے گا پھر ساتھ ہی ساتھ جب لوگوں کی توجہ راکھے کی طرف ہوگی فوراً رازداری کے ساتھ سانولی کو بھی نہر میں گرا دیا جاۓ گا ۔
مگر مارنے والوں سے بچانے والا لازوال ہے
مارنے والے مرگۓ تھے ایک جو ابھی ذندہ تھا اس نے بھی بھرے گاؤں کے سامنے ماچھے کو قتل کر کے اپنے لیۓ پھانسی کا پھندا تیار کر لیا تھا ۔
اور دوسرے دو بھی انجام کو پہنچ چکے تھے
جبکہ میں اور سانولی اب بھی ذندہ تھے ۔
وڈیروں نے اول باپو اور اکبر بھائی کو حویلی خفیہ میٹنگ کیلئے طلب کیا ۔
میں اگرچہ باپو کی جان تھا مگر اکبر بھائی نے بھی مجھے اولاد کی طرح پالا تھا
بلکہ یوں کہوں کے وہ سانولی سے بھی ذیادہ مجھ سے پیار کرتے تھے تو قارین؛بے جا نہ ہوگا ۔
حویلی والوں نے صاف لفظوں میں اکبر بھائی اور باپو سے کہ دیا کے آپ لوگ تمام تر صورتحال سے واقف ہیں
مانا ہمارے بدبخت بھائی کانجو کی من مانیاں ہمارے لیۓ وبال جان رہتی ہیں مگر پھر بھی حویلی کی عزت آبرو کی خاطر
سانولی اور راکھے کو مرنا ہوگا
وگرنہ تم دونوں بھی اپنے انجام کیلئے تیار ہو جاؤ
باپو نے ان شیطانوں کے قدموں میں گر کر گریازاری کی اور میری جان بخشی مانگی
وڈیروں کی بھی یہی مرضی تھی اب میرے اور سانولی کے مرنے سے ان کام بنتا نہیں تھا بلکہ الٹا بگڑتا تھا ۔
البتہ انہوں نے بڑی چالاکی سے باپو اور اکبر بھائی کو مجبور کیا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے پہ آمادہ بھی کر لیا
انکی شرط یہ تھی کے یہ دونوں صرف اس صورت میں بچ سکتے ہیں کے اول تمام گاؤں والوں کے سامنے یہ بیان دیں کے راکھے نے ہی سانولی کو اغوا کیا بدکاری کی نیت سے اور سانولی بھی یہی بیان دے کے راکھے نے اپنے ساتھوں سے مل کر مجھے اغوا کر کے میری عزت بھی لوٹ لی ۔
اسکے بعد راتوں رات دونوں کو گاؤں سے دور کہیں بھیج دیا جاۓ ورنہ دونوں کا انجام موت ہوگی
باپو نے میرے پاس آکر دنیا کی گوئی بات نہیں کی
بس اپنی پگڑی اتار کر میرے پاؤں میں ڈال دی اور تمام تر احوال مجھے بتا کر ہمیشہ کیلئے جدائی کی سوغات مانگ لی
قارین اس تفصیل کے بیاں سے بلکل قاصر ہوں کے کسطرح میں نے اور سانولی نے گاؤں والوں کے سامنے جھوٹے بیان ریکارڈ کراۓ
البتہ اگرچہ حویلی والوں کی تسلی ہوگئی تھی
لیکن گاؤں کا کوئی فرد ہمارے بیان سے متفق نہیں تھا ۔
مجھے اسی رات باپو نے خود سے جدا کردیا تھا
مگر سانولی کا نمبر اگلی صبح تھا۔ ۔
رات خاصی گہری ہو چکی تھی ریل گاڑی مسلسل تیسرے روز بھی چھوٹے چھوٹے سٹاپس کرتی اور آگے بڑھتی جارہی تھی ۔
رات کے اس پہر دسویں رات کا چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا،
گاڑی اب کسی ریگستان سے گزر رہی تھی میں مسلسل اپنی سیٹ والی کھڑکی سے دور دور تک سناٹوں میں گم صم خاموش ریگزاروں کا نظارہ کر رہا تھا جنکی ویران اور بیاباں وسعتیں میرے دل کی شاید ہمنواہی کر رہی تھیں ۔
ریل گاڑی کے اندر کا ماحول کچھ اسطرح کا تھا کے
ہارے والے ڈبے میں تمام لوگوں کے اپنے اپنے گروپس تھے اگر کوئی تنہا تھا تو وہ صرف میں ہی تھا
میں جب سے ریل پہ سوار ہوا تھا
میں نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا
معض سخت گرمی کی وجہ سے جب زوروں کی پیاس لگتی تھی تو کسی کے ہاتھوں سے پانی لیکر پی لیتا تھا بس ۔
آج گاڑی میں ہمارا تیسرا دن تھا مجھے مسلسل کچھ بھی کھاتے پیتے ہوۓ نہ دیکھ کر میرے سامنے بیٹھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بیالیس سال انگریز فوج کے صرف سپاہی ہی رہنے والے بابا رجب کی فیملی والوں نے مختصر سے تعارف کے بعد مجھے بھی اپنے گروپ میں شامل کر لیا
میں نے انہیں واضع بتایا بھی کے میرے پاس خریداری کیلئے رقم موجود ہے مگر اپنی طبعیت ہی نہیں کرتی کچھ کھانے پینے کو
لیکن انہوں نے زبردستی مجھے اپنے ساتھ شامل کر لیا ان کے ہمراہ خواتین بچے اور نوجوان سب لوگ موجود تھے ۔
پچھلے سٹاپ سے زبیر اور فاروق دونوں رات کا کھانا خرید لاۓ تھے چونکہ گاڑی کے اندر ملنے والا کھانا مہنگا اور غیر معیاری تھا لہذا جو لوگ پھرتیلے تھے وہ دس منٹ کے دورانیے میں گاڑی سے اتر کر اسٹیشن سے اپنا من پسند کھانا لے آیا کرتے تھے ۔
اس وقت گاڑی کے فرش اور سیٹوں پرتھ وغیرہ پہ جابجا مخطلف ٹولیاں اپنے اپنے دسترخوان بچھا چکیں تھیں،
گاڑی کے اندر بھی کھانا فروخت کرنے والے زور و شور کے ساتھ اُدھر سے ادھر ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر آوازیں لگا لگا کر کھانا بیچ رہے تھے ۔
ہمارے گروپ کا دستر خوان بھی گاڑی کے فرش پہ لگ چکا تھا ۔
چھوڑ کر بابا رجب کو سب لوگوں کو دسترخوان پہ مدعو کیا گیا مجھے بھی زبردستی زبیر اور فاروق دونوں بازو پکڑ کر دسترخوان پہ لے آۓ ۔
بھلا ہو ان کا بلاشبہ کوئی سلجھی ہوئ فیملی تھی نہ ہی انہوں نے مجھے تنہا چھوڑا اور نہ ہی میری حقیقت کی کھوج نکالی بس مختصر تعارف میرا پوچھ لیا کہاں تک جاؤ گے؟
اور اپنے بارے میں بتا دیا کے ہم حیدرآباد تک جائیں گے ۔
بابا رجب کے متحلق معلوم ہوا کے واقعی وہ برطانوی فوج کے سپاہی تھے ۔
مگر اب وہ ایب نارمل تھے کسی حد تک اپنے دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے
ایسا معض انکے ساتھ ہی نہیں ہوا تھا
بلکہ اس فوج سے جتنے بھی ہندستانی ریٹائرڈ ہوتے تھے ہندو، مسلم ،سکھ، بدمت سب کے سب نیم پاگل ہو جایا کرتے تھے
سو بابا رجب رجب بھی انہی میں سے ایک تھے ۔
بابا رجب کو انکے پوتے زبیر نے انکا کھانا سیٹ پہ ہی پہنچا یا
باقی ہم سب نے مل کر کھانا کھایا ۔!!!
حیدر آباد پہنچ کر میرے وہ عارضی ہمسفر انتہائی ملنساری کے بعد گاڑی سے اتر گئے مجھے ابھی مزید چند گھنٹوں کا سفر درپیش تھا ۔
بل آخر میں بھی اپنی اجنبی منزل کو رات آٹھ بجے پہنچ گیا وہاں سے اب مجھے کیماڑی شوکت خان محلے جانا تھا جو کے ذیادہ دور نہ تھا پوچھ پوچھ کر کیماڑی جانے والے تانگے تک پہنچ ہی گیا
پونے گھنٹے میں ہی تانگے نے مجھے کیماڑی پہنچا دیا
وہاں سے لوگوں سے راہنمائی لیکر شوکت محلے میں میمن گلی میں اس مکان تک پہنچا جہاں منشی طارق صاحب رہتے تھے باپو نے ایک رقعہ میرے ہاتھوں ہی لکھوا کر منشی طارق صاحب کے نام بھیجا تھا،
اور قارین منشی طارق صاحب ہی میرے بچپن کے استاد بھی تھے ۔
وڈیروں نے لوگوں کے بچوں کو تعلیم دینے کی پاداش میں منشی جی پہ عرصہ حیات تنگ کر رکھی تھی جسکی وجہ سے آخر کار منشی جی نے پنجاب کو خیرآباد کہ کر کوئٹہ کو اہل و عیال کے ہمراہ ہجرت کر لی تھی جبکہ کراچی معض بندرگاہ پہ منشی کا کام کرتے تھے اور یہاں کیماڑی دیگر چند دوستوں کے ہمراہ مل کر تین کمروں کا مکان لے رکھا تھا دن کو اپنے اپنے کاموں پہ چلے جاتے تھے رات کو واپس آکر باری باری کھانا تیار کرتے اور میہنے بعد مجموعی خرچہ سب پہ تقسیم کر لیتے یوں ان پردیسیوں کا بھلا وقت گزر رہا تھا ۔
میں تقریبا راتدس بجے منشی جی کے مکان پہ پہنچ گیا تھا ان کے کچھ پارٹنر مکان پہ پہنچ چکے تھے البتہ منشی جی کے متحلق معلوم ہوا تھا کے وہ ہمیشہ رات گیارہ بجے ڈیرے پہنچتے ہیں ۔
تقریبا گیارہ بجے ہی مین گیٹ پہ دستک ہوئی شفع محمد جو مجھ سے گپ شپ لگا رہے تھے مسکرا کر مجھ سے بولے لو اللہ رکھا تمھارے منشی جی شاید آگئے ۔
ڈیوڑی میں تین لوگ اپنے اپنے کپڑے دھو رہے تھے ان میں سے کسی نے گیٹ کھولا منشی جی اپنی سائیکل دونوں ہاتھوں سے دہکیلتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ ۔
سائیکل سٹینڈ پہ کھڑی کرکے وہاں موجود تمام لوگوں سے سلام خیر مصافحہ کرکے
سائیکل کے ہنڈل سے اپنی فائیلز کا ٹاٹ سے بنا تھیلا اتار کر ہماری جانب آنے لگے
میں بھی کافی عرصے بعد انہیں دیکھ رہا تھا منشی جی کی نظر جونہی میرے اوپر پڑی ۔چند لمعوں کیلئے جیسے وہ سکتے میں آگئے ہوں پھر
بیتحاشہ خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ بلند آواز میں بولے،
آۓ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آۓ آۓ او راکھے بیٹا تو!
یہاں کیسے اوۓ پُت او واہ بئ واہ یہ تو کمال ہوگیا اوۓ،
منشی جی مجھے گلے لگانے کے بعد
کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولے بیٹھو راکھے پُتر ۔
خود بھی میرے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیۓ
پھر مجھ سے بولے کب پہنچے؟
میرا یار کرما کیسا؟
بڑی بات ہے وہ تو تیرے بنا ایک لمعہ بھی نہیں رہ سکتا تھا پھر کیسے تجھے کراچی مجھ سے ملنے بھیج دیا اس نے؟
منشی جی کے کسی سوال کا جواب میرے بس میں نہیں تھا
میں نے فورا باپو کی جانب سے لکھا ہوا خط انکے ہاتھوں میں تھمایا اور بڑی مشکل سے صرف اتنا کہ سکا
یہ یہ باپو نے چٹھی بھیجی ہے آپکو!
منشی جی نے فورا میرے ہاتھ سے خط لیا اور بیقراری سے اسے پڑھنے کیلئے
انہوں نے جیب سے عینک نکالی اور اپنی میز پہ نصب بجلی کے لیمنپ کی روشنی میں خط پڑھنے لگے
خط مکمل پڑھنے کے بعد جب منشی جی نے سراوپر اٹھایا تو،
انکی آنکھوں سے بہنے والے آنسو انکے رخساروں کو روند کر دامن میں پوست ہورہے تھے ۔۔۔۔
منشی جی اپنا چشمہ اتار کر رومال سے بار بار آنسو صاف کرتے ہوۓ ساتھ ساتھ ناک بھی شوں شوں کے ساتھ اندر کو کھینچتے رہے
اسکے بعد خط فولڈ کرکے اپنی مٹھی میں پکڑے اسی مٹھی کا انگوٹھا دانتوں میں دبا کر اپنے سامنے والی دیوار پہ نظریں ٹکا کر کسی گہری سوچ میں گُم ہوگئے ۔
بڑی دیر بعد سر جھٹک کر خیالوں سے بیدار ہونے کی کوشش کر رہے ہوں جیسے
اپنا دائیاں ہاتھ پورے چہرے پہ پھیر کر ٹھوڑی پکڑ کر
ایک مرتبہ انہوں نے پھر فولڈ شدہ خط کو بغور دیکھا
پھر بڑے دکھی انداز سے نفی میں سر ہلاکر خط اپنے کوٹ کی جییب میں ڈال کر
گلے کی ٹائی کو ڈھیلا کرتے ہوۓ طویل سانس لیکر بولے
کچھ لوگ جنم دن ہی سے بدنصیب ہوتے ہیں،
میرا غریب خانہ بدوش یار کرم الدین بھی انہی میں سے ہے ۔
وہ ایک بار پھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ درد بھری لرزتی آواز میں بولے
مم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرا یار کرما کب کا مرچکا ہوتا آ اب اسکی زندگی کے کوئی آثار باقی نہ تھے سب کچھ گنوا بیٹھا تھا!
اسکے جگر میں سس سا سات زخم تھے
جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں میں نے خود اپنے دل کی نگاہوں سے اس کے سینے کے اندر دیکھے تھے!
دو مم ماں باپ کے
دو بہنوں کے اور تین اپنے کڑیل جوان چھوٹے بھائیوں کے!!!!
منشی جی بڑی اذیت اور ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک لفظ ادا کر رہے تھے اور بعض الفاظ پہ انکی زبان لڑکھڑا جاتی تھی!
اب کی بار انکے منہ سے چیخ نکل گئی
یہ کہتے ہوۓ
مم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں جب گاؤں بختو حویلی سے رخصت ہوا ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تت تو مجھ سے کہنے لگا!
منشی جی!
میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں اپنے ۔ ۔ ۔ ۔رر ۔ ۔ ۔ ۔راکھے کی شادی پہ آپکو ضرور بلاؤں گا ۔
منشی جی آنسوؤں میں شرابور بین کرتے ہوۓ بولے
او اور آج مجھے منتی لکھ کر بھیج رہا ہے
منشی جی!
راکھا راکھا میری محبت میں دیوانہ ہو کر ضرور واپس آنے کی کوشش کرے گا ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آُپکو اس غریب کرمے کی دوستی کا واسطہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آپ آپ اسے واپس میری طرف ہر گز نہ آنے دیجئے گا ۔
اس موضوع پہ مزید بات کرنا اب منشی جی کے بس میں نہیں رہا تھا ۔
انہوں نے ایک بار پھر مجھے اپنے ساتھ کھڑے کرتے ہوۓ مجھے اپنی چھاتی سے لگا کر روتے ہوۓ کہا!
راکھے میرے بیٹے اب تو نے ہی میرے عہد کا پاس رکھنا ہے ۔
تیرا باپو سچ کہتا ہے اب تیرا واپس جانا تیرے اور تیرے باپو دونوں کیلئے جان لیوا ہے ۔
پتر جی کبھی بھول کر بھی ایسی حرکت نہ کر بیٹھنا ۔
تین ماہ تک میں منشی جی کے ساۓ تلے رہا اس دوران منشی جی نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروءکار لاتے ہوۓ میرا شناختی کارڈ بھی باپو کی ولدیت کے ہمراہ بنوا دیا اور ہاتھوں ہاتھ سوئی گیس کے محکمے میں پلمبر کی مستقل نوکری بھی دلوا دی ۔
میرا دفتر لشمی میں تھا آنے جانے میں بہت دشواری کا اکثر سامنا رہا کرتا تھا لہذا گزشتہ کچھ عرصہ سے محکمے کی طرف سے الاٹ شدہ کواٹر میں ہی سکونت اختیار کر لی تھی ۔کھبی کبھی منشی جی میرے ہاں آکر مجھ سے ملاقات کر لیا کرتے تھے اور جب مجھے وقت مل جاتا تو میں خود انکے ہاں جاکر انکا دیدار کر لیا کرتا تھا!
مجھے نوکری پہ لگے سات ماہ ہوچکے تھے جبکہ باپو سے بچھڑے دس ماہ ہوچکے تھے،
مگر قارین کوئی لمعہ ایسا نہ تھا جب باپو کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے نہ ہوتا ۔
میں اکثر منشی جی سے مل کر اپنا دکھ کسی حد تک برداشت کے قابل کرلیا کرتا تھا مگر
پچھلے تین ماہ سے ان سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا ۔
ایک دن منشی جی سخت پریشانی کی حالت میں میرے پاس آۓ اور انہوں نے واضع طور پہ مجھے خود سے الگ کرنے کی وجہ بتائی،
انکا کہنا تھا کے وڈیروں کو کسی طرح مجھ پہ شک ہو گیا ہے کے راکھے کا مجھ سے رابطہ بھی ہے اور میں اسے تحفظ بھی دے رہا ہوں ۔وقطی طور پہ میں نے تجھ سے بلکل لاتعلقی ظاہر کی ہے مگر آج سے حقیقت میں لاتحلق ہو رہا ہوں تم سے ۔
اپنی تو خیر ہے راکھے بہت زندگی جی چکا ہوں مگر میں نہیں چاہتا مجھے سیڑھی بنا کر کوئی خطرہ تجھ تک پہنچ جاۓ ۔
لہذا آج سے میری اور تمھاری ملاقات کبھی نہیں ہوسکے گی ۔
اس روز سے لیکر آج تک میں نے پھر کبھی منشی جی کو نہیں دیکھا ۔
ایک رات شدید گرمی کے دنوں کی بات ہے میرے کواٹر کے دروازے پہ کسی نے دستک دی
اکثر فیلڈ میں میرے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں سے کوئی نہ کوئی میرے پاس آکر رات دیر تک گپ شپ لگاۓ رکھتا تھا میں سمجھا انہی میں سے کوئی ہوگا
میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا
دروزے پہ
ہمارے گاؤں کے محلے دار رفیق بابے کا داماد ابراہیم کھڑا تھا مجھے جیسے کل کائینات مل گئی ہو یکلخت اپنے کسی جاننے والے کو دیکھ کر مارے خوشی کے میرے بدن پہ کپکپی سی طاری ہوگئی
اول میں ابراہیم بھائی کے گلے سے چپک گیا پھر انہیں اندر کمرے میں لے آیا
انکے ہاتھ میں ایک ٹین کی چادر سے بنا ہوادرمیانے سائیز کا بکسہ بھی تھا میں نے انکے ہاتھ سے لیا اور انکو ساتھ لیکر اندر آگیا ۔
ابراہیم بھائی ہمارے گاؤں سے کوسوں دور ایک گاؤں گے رہائشی تھے انہوں نے ہمارے گاؤں ہمارے محلے سے شادی کر رکھی تھی جبکہ خود حیدرآباد کسی مل میں کام کرتے تھے ۔
میں نے بڑی حیرت سے پوچھا ابراہیم بھائی آپ کو میرا پتہ کیسے مل گیا
انہوں نے مسکراتے ہوۓ مختصراً بتایا کے منشی جی نے ایک بار دیا تھا پاس آنے سے منع کرتے ہوۓ صرف دور سے نظر رکھنے کا کہ کر
منشی جی کا نام لیکر ابراہیم بھائی کے چہرے پہ کسی حد تک اداسی بھی چھلکی تھی مگر میں بیقراری کے عالم میں نظر انداز کر گیا تھا ۔
میں اپنی تمام روداد سنانے لگا تھا مگر ابراہیم بھائی نے بات کو سمیٹتے کہ دیا کے مجھے سب علم ہے منشی جی نے سب کچھ مجھے بتا دیا تھا ۔
میں نے اگلا ورق پلٹتے ہوۓ ابراہیم بھائی سے پوچھا بھائی آپ گاؤں کب جائیں گے؟
وہ مسکراتے ہوۓ بولے شاید جلد ہی جاؤں گا
وہ فوراً بولے کیوں؟
میں نے بڑی حسرت سے کہا،
بھیا لازمی مجھ سے مل کر جائیے گا میں
اپنے باپو کیلئے کچھ رقم اور دھوتی کرتا بھیجوں گا
ابراہیم بھائی کے چہرے کا رنگ یکلخت سرخ سا ہوا اور اپنا چہرہ دائیں بائیں مجھ سے چھپانے کی کوشش کرنے لگے ۔وہ فوراً دبی ہوئی آواز میں بولے
راکھے ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں گاؤں سے ہی پرسوں حیدرآباد پہنچا ہوں اور یہ صندوق چاچے کرمے نے ہی تمھارے لیئے بھیجا ہے ۔ ۔!!!
میں سخت بیتابی سے بولا بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بھائ ابراہیم بھائی
کیا حال تھا میرے باپو کا؟
وہ مجھے یاد کر کے تنگ تو نہیں ہوتا نا؟
اسے اسے اب حویلی والے میرے جرم میں تنگ تو نہیں کرتے بھائی؟
وہ میرے بغیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ا ابراہیم بھائی جو میرے سامنے والی چارپائی پہ بیٹھے ہوۓ تھے ایک چیخ مار کر کھڑے ہوۓ مجھ پہ جھپٹ کر مجھے اپنی بانہوں میں گھیر کر مجھے چھاتی سے چپکا کر روتے ہوۓ بولے
راکھے راکھے تیرا باپو اب اس دنیا میں نہیں رہا ۔!
نہیں رہا راکھے تیرا باپو نہیں رہا ۔ ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●