میں نے باپو کے ساتھ پندرہ برس کی اس شراکت اور قربت کے دوران کئی طویل و قلیل سفر بھی کیے بہت سے ایسے مقامات سے گزر ہوا جہاں حسن و جمال کے انگنت مناظر آنکھوں کے دریچوں میں اترے ۔
مگر آج جو میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں وہ بلاشبہ ایک طَلسم تھا جسکے سحر میں اسقدر مدہوش تھا کے مجھے کوئی خبر نہیں میں کون تھا اور کس حال میں کہاں کھڑا تھا؟؟؟
میں عالم دیوانگی میں کبھی آسمانوں کے چاند کو نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہا تھا اور کبھی نشو بھابھی کے آنگن میں جلوہ افروز
خوابیدہ معصومیت اور نزاکتوں کی تمام تر رعنائیوں سے مزیّن رُخِ مہتاب کو نگاہیں جھکا جھکا کر دیکھ رہا تھا
میری نظریں آسمان کے چاند پر سے فقط بار بار پھسل رہی تھیں جبکہ زمین کے چاند میں مسلسل الجھ بھی رہی تھیں اور لگاتآر پھسل بھی رہی تھیں ۔
اچانک جیسے کسی نے کسی حسین خواب سے بیدار کیا ہو ؛
صحن کے پچھلے کونے میں لگی ہوئی مچھردانی والی چارپائی میں سے نشو بھابھی کی آواز ابھری!
راکھے،
کب آیا تُو؟
میں نے چونک کر بھابھی کی چارپائی کی طرف دیکھا، جو میری جانب سے مچھر دانی ہٹا کر پاؤں سے جوتیاں ٹٹولتے ہوۓ چارپائی سے نیچے اتر رہی تھیں،
وہ جمائی لیتے ہوۓ طول و خم آواز میں بولیں، بچیوں کو سلا رہی تھی جانے کب اپنی آنکھُ بھی لگ گئیی!
وہ اپنی چادر سرپہ لٰیتے ہوۓ کھڑی ہوکر ہلکی سی مسکراہٹ اور ہنسی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ بولیں،
راکھا بیچارہ پتہ نہیں کب کا یہاں کھڑا ہے؟میری تو آنکھ ہی لگ گئیی تھی،
وہ مجھے خالی چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولیں، بیٹھ راکھے کھڑا کیوں ہے؟ بیٹھ ادھر، خیر ہے بھابھی یہ کہتے ہوۓ میں بھی چارپائی پہ بیٹھ گیا،
نشو بھابھی سانولی کی سنہری زلفیں سمیٹ کر چارپائی پہ کرتے ہوۓ اس پہ چادر درست کر رہی تھیں کے اسی دوران میں نے ان سے پوچھا اکبر بھائی کہاں ہیں؟
وہ سانولی کی چارپائی کے کونے پہ بیٹھتے ہوۓ بولیں اکبر آیا نہیں ابھی تک اسی کا انتظار کر رہی تھی، مگر وہ ہیں کہاں بھابھی؟
میں نے بھابھی کو مخاطب کرتے ہوۓ ان سے پوچھا نہر کی زمین والے وڈیرے جمنبد کی دھان کو پانی لگانا تھا اس نے ادھر ہی گیا تھا آتا ہی ہوگا اب بھابھی نے باہر جاتے ہوۓ راستے کی طرف پلٹ کر دیکھتے ہوۓ کہا پھر ساتھ ہی میری طرف دیکھتے ہوۓ بولیں تیرا کھانا لاؤں یا اکبرے کو آنے دیگا مل کر کھاۓ گا؟
میں نے بھابھی کوبتایا نہیں بھابھی میں نے کھانا کھا لیا ہے باپو حویلی چلا گیا تھا میں یہاں سونے کو آیا ہوں
بھابھی مطمئن ہوکر بولیں چلو ٹھیک ہے آنے دے پھر اکبرے کو تھوڑا بہت جتنا کھا سکا اسکے ساتھ کھا لینا!
تنے میں اکبر بھائی بھی گارے مٹی کا بت بنے ہوۓ اندر داخل ہوۓ
بھابھی آنکھیں پھاڑ کر چیختے ہوۓ لہجے میں اکبر بھائی کی طرف دیکھتے ہوۓ بولیں،
ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ادھر دیکھیں،
او اکبرے نہر کا پانی خشک ہو گیا تھا کیا،جو اتنے دور سے گارے مٹی کا بوجھ اٹھا کر یہاں لایا ہے؟
اکبرے خدا کو مان کیا بنے گا تیرا
وہ ہنستے ہوۓ اکبر بھائی کے سر کے بالوں سے گارا نیچے گراتے ہوۓ بولیں!
ہی ہی ہی ہی ہی ہی یقین نہیں آتا اکبرے تو بال بچے دار ہوگیا ہے
چونکہ تو اب بھی بچوں سے ذیادہ نادان ہے
اکبر بھائی میری طرف چور نظروں سے دیکھتے ہوۓ آنکھ مار کر زیر لب شراطاً ہنسنے لگے
بھابھی اندر سے دھوتی کرتا لیکر کوئیں کی طرف جاتے ہوۓ بولیں میں پانی بھر کر چھل چھوبی میں رکھ رہی ہوں نہا لو مرگئے ہوگے بھوک سے،جلدی کرو میں کھانا گرم کر رہی ہوں،
اکبر بھائی حسب عادت مزاقاً دیدے پھیلا کر میری طرف دیکھتے ہوۓ نشئیوں کے سے لہجے میں بولے!
راکھے لگتا ہے بہنگ مجھے ذیادہ چڑھ گئیی ہے وہ وہ وہ تت تیری بھابھی کھانا گرم کررہی ہے اور مجھے لگتا ہے وہ میرا کرتا دھوتی گلے میں ڈال کر ہیر گا رہی ہے!
مجھے کیا ہو گیا ہے ووۓ؟؟
یکلخت میرے اور بھابھی کے قہقہے فضا میں بلند ہوگئے!!!
سانولی معض صورت ہی سے حسن وجمال کا بیمثال شاہکار نہ تھی بلکہ کردار اور گفتار میں بھی لاثانی تھی وہ انتہائی خوش مزاج خندہ پیشانی سے پیش آنے والی شیریں زبان اور ملنسار دوشیزہ تھی حسن کی دولت سے مالامال ہونے کے باوجود تکبر نام کی کوئی چیز اسکی طبعیت میں شامل نہیں تھی
البتہ مرد حضرات کا ادب احترام دل و جان سے کرتی تھی مگر ہمیشہ ایک حد تک ورنہ اکثر فاصلہ رکھنے کی قائل تھی کبھی کسی سے ذیادہ گفتو شنید نہیں کرتی تھی
مجھ سے بھی اس نے دعاسلام ایک حد تک رکھی ہوئی تھی ۔
باپو نے جس روز سے سانولی کو دیکھا تھا اسی دن سے خدا جانے دل ہی دل میں کیا کیا خیالی پلاؤ پکاۓ جا رہا تھا،
پہلے نشو بھابھی سے اس نے یہ تسلی کے کے سانولی کا رشتہ کہیں طے تو نہیں ہوا؟
نشو بھابھی نے کہا چاچا کرمے، خدا کا خوف کھا!
سانولی تو ابھی کل کی بچی ہے: اس سے بڑی چار ایسی ہیں جنکا ابھی تک کہیں کوئی رشتے کا اتہ پتہ نہیں ۔
بس یہ سننا تھا کے باپو کی باچھیں کوئی دیکھتا!
میرے باپو نے زندگی میں بہت غم اٹھائے تھے،
ذرہ بھر خوشی کا احساس بھی اسکے چہرے کو قابل دید بنا دیا کرتا تھا ۔
ایک دن جب باپو سے نہ رہا گیا،تو وہ نشو بھابھی سے بڑے خوشگوار موڈ میں بولا ۔
ہے ری نشو !
جی چاچا کرمے نشو بھائی نے جواباً باپو سے پوچھا ۔
میں کہتا ہوں نشو! اللہ جنت دے میرے یار،تیرے باپو ثنااللہ کو !
جب میں تیرا رشتہ اپنے اکبرے کیلئے مانگنے گیا تھا تو اس کرمانوالے نے میری بڑی عزت رکھی مجھے خالی دروازے سے نہیں لوٹایا آہا کیا یار تھا میرا!
اب وہ تو اس دنیا میں نہیں رہا مگر میں سوچتا ہوں اگر میں اپنی بٹیا سانولی کو بھی تیرے ساتھ لے آؤں تو کیسا رہے گا؟
نشو بھابھی باپو کی ساری بات سمجھ چکی تھی!
وہ جواباً بولی چاچا!
تو سانولی کو لاۓ یا نہ لاۓ مگر میری بھی کان کھول کر سن لے،
میں بھی اپنے دیور راکھے کیلئے اول تو سانولی کو لاؤں گی ورنہ وہ دلہن لاؤں گی جس کے آگے سانولی بھی ماند پڑ جاۓ؛
بس اس روز سے باپو کی دنیا ہی بدل گئیی ۔
باپو کی زندگی میں ایک ہلچل سی آگئی کبھی جاکر سنارے کے پاس بیٹھا رہتا،کبھی پورے محلے والی عورتوں کو دلہن کے قیمتی قیمتی خوبصورت سوٹ لا کر دکھاتا پھرتا ،
یہ دیکھیں میں نے اپنے پتر اللہ رکھے کی ووٹی کیلئے آج یہ سوٹ لیا اور اندر سے پکا اتنا میرا باپو لاکھ پوچھنے پہ بھی بس اتنا کہتا!
امید پہ دنیا قائم ہے آخر کوئی نہ کوئ ہوگی تو سہی میرے راکھے کی قسمت میں بس جو کوئی بھی ہوگی یہ سارے سوٹ اسی کے ہیں:
قارین گرامی؛ دنیا میں انسان پیدا ہی مرنے کیلئے ہوتا ہے میں بھی بلآخر ایک دن اس زندگی کے قفس سے آزاد ہوجاؤں گا لیکن میرے قارین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں
مرتے دم تک اپنے محروم مجبور باپو کی وہ ردناک ھچکیاں اور وہ مسلسل گرنے آنسو نہیں بھول پاؤں گا جس دن وہ میرے لیۓ سحرا سہرا لیکر آیا تھا ۔
اپنے محلے داروں کو دکھاتے ہوۓ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکا!
اور یہ کہتے ہوۓ بیے تحاشہ رویا
وہ بولا زندگی میں کھبی کوئی خوشی کا لمعہ نہیں دیکھا!
افسوس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس ایک بار اپنے ۔ ۔ ۔ ۔
راکھے کے ماتھے پہ سہرا سجا ہوا دیکھ لوں!
بس اتنا کہ کر نہ صرف اپنے سامنے موجود عورتیں مرد آب دیدہ کر دیے بلکہ گھر کے در و دیوار بھی اس نے رلا دییے!
ادھر سانولی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تھا!
زمینداروں کے سب سے بگڑے ہوۓ اوباش،شرابی،بدکار،درندہ صفت لٹیرے قاتل بھائی کاجے کی ہوس بھری نظر سانولی کے حسن و جمال پہ پڑ گئیی تھی اور اس نے سانولی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کا ارادہ اپنے ناپاک دل میں پکا کر لیا تھا!
اور اب اسے عملی جامہ پہنانے کا جال بھی بن چکا تھا ۔ ۔
وڈیروں کے خاندان میں میں بڑے اور سر کردہ
پانچ بھائی تھے جن میں سے کسی اک میں بھی انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی،
مگر ان پانچوں میں سے سب سے چھوٹے بھائی سے ایک نمبر بڑا جو تھا کانجو جس کا اصل نام برکت تھا انتہائی درندہ صفت پرلے درجے کا کماش شرابی زانی اور قاتل تھا ۔
ایک دن سانولی اپنی ہم عمر سہیلیوں کے ساتھ نہر پہ سیرو تفریح کی غرض سے گیئ ۔اسی لمعے اس شیطان کا نجو اپنے حواریوں کے ہمراہ کہیں سے لوٹ کر آرہا تھا کے راستے میں اپنی چلتی ہوئی سانولی پہ اسکی نظر کانجے کی پڑ گئی،
کانجو کی بگی درمیان میں تھی ایک بگی اسکے آگے اور تین اس کی بگی کے پیچھے آرہی تھیں اور بڑی تعداد میں لفنگے گھوڑوں پہ بھی سوار تھے ۔
سانولی اور اسکی سہیلیاں پیٹھ پھیر کر راستے کے کنارے کھڑی ہوگئی تھیں تاکہ حویلی والوں کا قافلہ گزر سکے ۔جبکہ کانجا پیٹھ پھرے لوگ تو درکنار سات لباسوں میں بھی انسان کو دیکھنے کا ماہر تھا ۔
سانولی کو دیکھتے ہی کانجے نے اپنے کوچوان کو بگھی روکنے کا اشارہ کیا،
کانجے کی بگی لڑکیوں کے پاس سے گزر کر خاصی آگے جاچکی تھی جونہی اسکی بگی رکی ساتھ پچھلی بگیاں اور گھڑ سوار بھی رک گئے
اگلی بگی بھی تھوڑے فاصلے پہ جاکر رک گئی،
کانجو نے اول انتہائی سست رفتار سے اپنی بگی پر سے پیچھے مڑ کر ان لڑکیوں کے بیچ کھڑی سانولی کی طرف دیکھا جو بدستور تمام لڑکیاں پیٹھ پھرے کھڑی تھیں،
کانجا کچھ دیر اسی طرح دیکھتا رہا پھر پلٹ کر بگی سے نیچے اترنے لگا ایک دم پانچ سات مسٹنڈے گھوڑوں سے نیچے کود کر اسکے قدموں میں آگئے کانجو کو احترام کے ساتھ بگی سے نیچے اتارنے کیلئے ۔
کانجا بڑے ہی تکبر کے ساتھ بگی سے نیچے اترا پھر اپنا لباس درست کرتا ہوا ان لڑکیوں کی طرف دھیرے قدموں کے ساتھ چل پڑا،
وہ جب عین لڑکیوں کے پاس جاکر کھڑا ہوا تب تمام لڑکیوں نے حیرت سے پیچھے پلٹ کر دیکھا
سانولی نے بھی پلٹ کر دیکھا کانجو منحوس مسکراہٹ کے ساتھ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا،
کانجو مسلسل ہوس بھری نظروں کے ساتھ سانولی کو تاڑتے ہوئے بولا باقی سب چھوکریاں تو اپنے پنڈ کی لگتی ہیں!
پر یہ چھوکری مجھے کوئی اپنے پنڈ کی مہمان لگتی ہے!!!!
وہ ایک ہاتھ مونچھوں کو حسب عادت تاؤ دیتے ہوۓ اور دوسرے ہاتھ سے سانولی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اپنے ساتھوں سے پوچھنے لگا!
تین چار لوگ یک زبان بولے
جی جی سرکار:
کوٹ لٹھو خان سے آئی ہوئی چھوری ہے،
اپنے اکبرے کی ووٹی نشو کی بہین ہے ۔
کانجو کچھ دیر سانولی کو ہوس بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر جلد ہی بگی پہ سوار ہونے کیلئے پلٹ گیا!
چونکہ ذیادہ دیر وہاں ٹھہرنا وڈیرا اصولوں کے خلاف تھا ۔۔
کانجو اب سانولی کیلئے بہت بیتاب تھا
ادھر میرا باپو بھی تین چار روز سے بہت کھویا کھویا سا نظر آرہا تھا
میں اپنے باپو کی رگ رگ سے واقف تھا اکثر پریشان ہوجایا کرتا تھا مگر تھوڑی دیر بعد ہی ردعمل کے طور پہ خوشی کا بھی کوئی عنصر ڈھونڈ لیا کرتا تھا؛
مگر پچھلے چند روز سے باپو ہر پچھلے روز سے ذیادہ پریشان نظر آتا جا رہا تھا ۔
ایک شب باپو ہانپتا ہوا حویلی سے گھر آیا اور گھبرائ ہوئی آواز میں مجھ سے بولا
پتر راکھے بھاگ کے جامیراپتر!
اکبرے کو بلا کر میرے پاس لے آ۔
اول تو گھر پہ ہی ہوگا ورنہ جہاں کہیں بھی ہوا لازمی اسے میرے پاس لانا
جا جا میرا پتر
میں باپو سے پوچھنے لگا کیا کیا وجہ ہے باپو،
پریشان کیوں ہے؟
مگر باپو سخت بیقراری سے بولا،
پتر سب بتا دونگا تو پہلے جلدی سے اکبرے کو لے آ۔
میں سمجھ گیا تھا بہت ضروری کوئی بات ہے باپو کی پریشانی کے آثار ہی بتا رہے تھے ۔
میں بھاگتا دوڑتا اکبر بھائی کے گھر جا پہنچا اتفاق سے وہ مجھے گھر کے باہر ہی مل گیۓ میں نے کوئی لمعہ ضائع کیے بغیر اکبر بھائی سے باپو کی کیفیت کا ذکر کر دیا ۔
اکبر بھائی بھی لگتا ہے کسی ان دیکھے معاملے سے واقف تھے جس کا علم مجھے نہیں تھا البتہ انہیں اور باپو کو معلوم تھا ۔
اکبر بھائی تیز تیز قدموں کے ساتھ میرے ساتھ چلتے ہوۓ باپو کے پاس پہنچ گۓ ۔
باپو کی باتوں اور اکبر بھائی کے رویے سے صاف ظاہر ہورہا تھا کے زیربعث معاملے کا دونوں کو بخوبی علم ہے ۔
باپو بولا اکبرے پانی سر سے چڑھ گیا ہے،
اس وقت بھی وڈیرے نے لاتوں مکوں سے سخت مارا مجھے،
باپو اکثر مجھے ادھر ادھر بھیج کر حویلی کے متحلقہ امور پہ اپنے ساتھوں سے تبادلہ خیال کیا کرتا تھا ۔
آج جب میں نے اسکی زبانی سنا کے میرے باپو کو حویلی میں مار بھی پڑتی ہے تو میرے تن بدن پہ جیسے بجلیاں کڑک گئی ہوں ۔
میرا حال اپنی جگہ مگر باپو نے اکبر بھائی کو صاف صاف بتا دیا کے کیسے ہی کیوں نہ ہو راتوں رات کسی بھی طرح سانولی کو واپس گاؤں بھیجو!
بقول باپو کے کانجو لگا تار باپو پہ پریشر ڈال رہا تھا کے سانولی کو کسی طرح حویلی پہچاؤ مگر باپو سانولی کو حویلی پہچانے کے بجاۓ اس کے آگے ڈھال بنا ہوا تھا ۔
اور اس بات کا علم پورے کا پورا اکبر بھائی کو بھی تھا ۔
اکبر بھائی پریشانی کی حالت میں گھر واپس چل دیے ادھر باپو بھی واپس حویلی کا راستہ ناپنے ہی والا تھا کے میں دلبرداشتہ ہوکر بولا ۔
باپو سانولی کوئی تیرے چاچے کی پتر ہے؟
دفعہ کر نا، جانے دے اسے جہنم کے تھلے!
کیوں وڈیروں سے ماریں کھاتا ہے باپو؟؟؟
باپو ایک جھٹکے سے میری طرف پلٹا،
اس نے غصے میں غرق ہاتھ میں اٹھایا ہوا ٹہڑامہیڑا ڈنڈا مجھ پہ تانا ضرور بس مارا نہیں میرے سر پہ
غصے میں دھاڑتے ہوۓ بولا غیرت کر غیرت؛
کم عقل بیےغیرت کل جب تیری ووٹی بن جاۓ گی تب بھی اسے حویلی وڈیروں کی سیوا کےلیے بھیجے گا بیغیرت کمینے؟
او میں کہتا ہوں لکھ لعنت تجھ پہ نامرادا ۔ ۔ ۔ ۔ !
باپو اسی غصے کی حالت میں دروازے پٹختا ہو تیز تیز قدموں کے ساتھ دروازہ کھلا چھوڑ کر حویلی کی طرف نکل گیا ۔
آج زندگی میں پہلی بار باپو نے مجھے غصہ کیا تھا
مگر میں باپو کے غصے کو بھول کر صرف اسکے ان الفاظ میں الجھ گیا جن کا اظہار اس نے اکبر بھائی سے کیا تھا کے وڈیرے نے مکوں اور لاتوں سے مارا ہے ۔
میں انہی خیالوں میں الجھا ہوا تھا کے کسی نے پیچھے سے ڈنڈے کا زور کا وار سرکے پچھلے حصے میں کیا اور لمعے بھر میں بیے ہوش ہوگیا ۔ ۔ ۔
ڈنڈا سر میں لگنے کے ساتھ ہی میں دنیا و ما فیہا ہے سے بیخبر ہوگیا جس وقت مجھے ہوش آیا تو میں نے خود کو کسی اجنبی مقام پہ پرانے دور کے کھنڈر نما مکان کی بوسیدہ دیواروں کے ایک کمرے کے اینٹوں سے بنے فرش پہ پایا،
میرے ہاتھ پاؤں رسیوں سے بندھے ہوۓ تھے جبکہ منہ پہ پٹی بندھی ہوئی تھی ۔
میں نے سرگھما کر اپنے اردگرد کے ماحول کا بغور جائیزہ لیا ۔
پرانے دور کا بلندوبالا دیواروں کا یہ مکان جسکی تعمیر کی تاریخ شاید صدیوں پہ محیط تھی جس کمرے میں میں پڑا ہوا تھا اسکے چاروں کونوں میں چراغ دان رکھنے کی کھپیں بنی ہوئی تھیں
ان چراغدانوں کی دیواروں پہ اب بھی دھوئیں کی سیاہی اور کناروں سے ٹپکے ہوۓ تیل کے نشانات واضع طور پہ نظر آرہے تھے،
اسکی اینٹوں سے بنی ہوئی بلند و بالا دیواریں جنکی اونچائی کم از کم پندرہ فٹ ہوئی ہوگی ۔ان میں کوئی کھڑکی موجود نہیں تھی فقط تین عدد روشندان تھے وہ بھی انتہائی بلندی پہ انسان کی پہنچ سے دور ۔
لکڑی کے دوپٹھ والا ایک بھاری بھرکم دروازہ تھا جو یقیناً باہر سے بند تھا ۔
رشندانوں سے اندر آنے والی روشنی سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کے باہر کم ازکم سہ پہر کا وقت ہوگا ۔
وقت کا کسی حد تک تو اندازہ ہو رہا تھا مگر یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کے میں کتنے دنوں سے یہاں ہوں اور مزید کب تک یہاں رہوں گا؟
آیا مجھے اسطرح باندھ کر مرنے کیلئے کسی نے چھوڑا ہے یا مجھے زندہ رکھ کر مجھ سے کوئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
مجھے آخر کس نے اور کیوں یرغمال بنایا؟؟؟
بیے تحاشہ سوالات تھے جو میرے ذہن میں محو گردش تھے،
مجھے بس اتنا معلوم تھا کے باپو کے جاتے ہی کسی نے میرے سر پہ ڈنڈے کا زوردار وار کیا تھا اس کے بعد کیا کچھ ہوا مجھے اس کا کوئی علم نہیں ۔
مجھے شدید پیاس لگی ہوئی تھی جبکہ منہ پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور ہاتھ پاؤں پیچھے کی طرف آپس میں ملا کر باندھے گئے تھے تاکہ کسی قسم کی حرکت نہ کر سکوں ۔
بڑی دیر تک میں مخطلف سوچوں میں گم رہآ مگر ابھی تک کسی نتیجے کو نہیں پہنچ پایا تھا کے آخر یہ سب میرے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔
ادھر روشندانوں سے اندازہ ہورہا تھا کے رات نے ایک بار پھر کائنات کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے ۔
بڑی دیر بعد رات کی تاریکی میں کمرے کے روشندانوں کے ذریعے مدھم مدھم روشنی کا ایر سا محسوس ہونے لگا جوبدستور بڑھتی جا رہی تھی یوں رشنی کے تیز ہونے کے ساتھ ساتھ چند لوگوں کے بھاری بھرکم قدموں کی گہری سی آہٹ بھی سنائی دینے لگی تھی جو دھیرے دھیرے بڑھتی جاری تھی صاف ظاہر ہو رہا تھا کے کچھ لوگ میری جانب آرہے ہیں ۔اب قدموں کی آواز کے ساتھ ساتھ مردانہ آوازیں بھی میری سماعتوں سے ٹکرانے لگی تھیں،
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ لالٹینیں لیئے میرا دروازہ کھول رہے تھے وہ آپس میں خوش گپیاں کر رہے تھے اور قہقہے لگا لگا کر ہنس بھی رہے تھے ۔
ان میں سے ایک مجھے نگی گالی دیتے ہوۓ دوسرے کا نام لیکر بولا شیدے جلدی کر وہ بہین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۔ننگی گال) اب تک مرہی نہ گیا ہو!
جلدی کھولو دروازہ ۔۔۔۔۔
ساتھ ہی دھڑم سے دروازہ ۔
وہ تیز تیز قدموں کے ساتھ میرے پاس پہنچے میں نے خود کو اوندھے منہ کرلیا تھا ان میں سے ایک نے پھر بیے ہودہ گال دیتے ہوۓ لات مار کر مجھے سیدھا کیا مرگیا یا ذندہ ہے؟
لالٹین قریب کر کے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوۓ بولا شمے ہوش میں آگیا ہے،نہیں مرا کھول اسکا منہ ۔
میرے منہ کی پٹی کھول دی گئی وہ چار لوگ تھے چاروں نے منہ پہ نقاب کر رکھے تھے ۔
میں نے منہ پر سے پٹی اترتے ہی بڑی عاجزی سے پوچھا
یار خدا کیلئے بتاؤ میرے ساتھ یہ کیا کر رہے ہو اور کیوں کر رہے ہو میرا قصور کک کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے پہلے کے میں اپنا جملہ مکمل کرتا میری بائیں جانب کھڑے اغواء کار نے گھما کر ایک زوردار تھپڑ میرے بائیں گال پہ دے مارا،
جسکی بدولت میری آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے اور بائیاں کان چووووووووووں چووووووووووں کرنے لگا
اگر فوراً تھوکنے کی اجازت دے دیتے تو تھوڑا بہت خون بھی تھوکتا چونکہ منہ میں نمکیات بخوبی محسوس ہورہے تھے ۔
اس جلاد نے دوبارہ تھپڑ دکھاتے ہوۓ سر جھٹک کر کہا اب پھر بول کے دکھا!
میں نے نفی میں سر ہلا نہیں مرشد نہیں بولوں گا
یہ الفاظ میں نے دل میں کہے تھے ۔منہ سے بولنے کی ہمت اب نہیں تھی،
میں مارپیٹ سے سخت ڈرتا تھا یہ سب کیا دھرا میرے باپو کا تھا ۔
خود تو اس نے کھبی گھور کر بھی میری طرف نہیں دیکھا تھا
اگر خدا کا بندہ میرے ہم عمروں کو ہی کھلا چھوڑ دیتا ہلکی پھلکی پھینٹی کھاتے کھاتے آج کچھ تو عادی ہوا ہوتا
ان لوگوں نے میرے ہاتھ پاؤں کھول دیے جس نے تھپڑ مارا تھا وہ شیدے سے بولا شیدے کھانا اور پانی کا مشکیزہ ادھر لے آ ۔
میں کہنے ہی والا تھا پانی پلاؤ مگر اچانک جلاد کا تھپڑ یاد آگیا لہذا بلکل خاموش رہا ۔
بحرحال جلاد نے خود اول پانی کا کٹورا بھرا مجھے پکڑا کر بولا یہ لے دھیرے دھیرے پینا کہیں گرہ دیکر مر ہی نہ جانا!
میں نے لرزتے ہوۓ دونوں ہاتھوں سے پانی کا کٹورا تھام کر غٹ غٹ سارے کا سارا پی لیا،
اسکے بعد سرید نما کھانا میرے آگے رکھا گیا شدید بھوک نے جان لبوں پہ لا رکھی تھی میں بھی دل و جان سے اس پہ ٹوٹ پڑا!!!!
کھانا ختم ہوتے ہی باہر جانے کی حاجت ہورہی تھی مگر تھپڑ کے ڈر سے بول رہا تھا
مگر بھلا ہو اس تھپڑ مار جلاد کا اس نے اپنے دو ساتھیوں کو آرڈر کیا ۔
لے جاؤ اسے پچھلے کھیت میں رفع حاجت کر لے
دونوں نے اپنے اپنے گنڈاسے مضبوطی سے تھامے ایک میرے آگے اور دوسرا پیچھے چلنے لگا ۔
مجھے ڈنڈا مارکر بیے ہوش کرتے ہوۓ کسی نامعلوم مقام پہ منتقل کر دیا گیا تھا جبکہ جس دوران میں اور اکبر بھائی باپو کے پاس تھے اسی دوران کچھ مسلح لوگ اکبر بھائی کے گھر دہاوا بولتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ بقول نشو بھابھی کے ان لوگوں نے بیک وقت نشو بھابھی اور سانولی کو دبوچ لیا نشو بھابھی کے منہ پہ پٹی باندھ کر سانولی کی زبان بھی بند کرچکے تھے ان دونوں کو چیخنے چلانے کی ذرہ بھر مہلت نہ مل سکی تقریناً آٹھ دس لوگ تھے ۔سب کے سب نقاب پوش!
واردات کے دوران ایک دوسرے سے کہ رہے تھے آرام سے دیکھ بھال کے اٹھانا اپنے یار راکھے کی معشوقہ کو ہمارے یار راکھے نے زندگی میں ایک ہی کام ہمارے سپرد کیا ہے،
ہم راکھے اپنے یار کی خاطر ایک لڑکی اٹھانا تو کیا اپنی جان بھی دینے کو حاضر ہیں ۔
وہ لوگ بھابھی کو میرے متحلق گمراہ کرتے ہوۓ سانولی کو اٹھا کر لے گۓ جبکہ نشو بھابھی کو رسیاں ڈال کر چارپائی کے ساتھ باندھ کر چلے گئے!
ادھر اکبر بھائی جب گھر پہنچے تو منظر بدل چکا تھا
اکبر بھائی نے سب سے پہلے نشو بھابھی کو رسیوں سے آزاد کرایا پھر انہی کے بیان پہ غیر یقینی کی کیفیت سے بھاگتے دوڑتے ہمارے گھر پہنچے مگر وہاں اپنے گھر مجھے نہ پاکر انہیں بھی نشو بھابھی کی بات کا اب مکمل یقین ہوچکا تھا!
ہو نہ ہو راکھا اپنے دوستوں سے مل کر ہاتھ دکھا گیا بلاشبہ نشو بھابھی اور اکبر بھائی اپنی خلوص بھری میری پرورش پہ آج ماتم کر رہے تھے انہوں نے کھبی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا جس آستین کے سانپ کو ہم اپنی آغوش میں بٹھا کر دودھ پلا رہے ہیں وہ ایک نہ ایک دن ہماری عزت کو بھی ڈھنس لے گا!!!!!
اکبر بھائی مارے مارے حویلی باپو کے پاس جا پہنچے ۔
تمام صورتحال باپو سے کہ ڈالی میرے متحلق بھی بتا دیا ۔
مگر باپو ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرا باپو قارین میرے باپو نے صاف انکار کر دیا کے میرا راکھا مرتے دم تک ایسا نہیں کر سکتا!
اکبرے میرے پتر تو حویلی کے رازوں سے واقف نہیں تو ابھی بچہ ہے ۔
مجھ سے پوچھ جس نے اپنی نسلیں بلی چڑھا دی ہیں اس حویلی کے شیطان کے چرنوں میں ۔
اکبرے میرے پتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آج میرا لخت جگر میرا راکھا بھی بلی چڑھ گیا اکبرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرا راکھا بھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔باپو اپنا سینہ پیٹتے ہوۓ میرا نام لے لے کر بین کرنے لگا_
ادھر مسلسل دس روز تک میں اس کھنڈر میں قید رہا آخری رات صبح سے بہت دیر قبل ان لوگوں نے دوبارہ میری آنکھوں پہ پٹیاں باندھیں اور اندھیرے میں ہی خود بھی گھوڑوں پہ سوار ہوگۓ اور مجھے بھی ایک گھوڑے پہ سوار کر کے کسی سمت چل پڑے کم ازکم تین گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد انہوں نے گھوڑے روک لیے ۔مجھے گھوڑے سے نیچے اتار کر میری آنکھوں کے سامنے سے پٹی اتار دی گئی
وہی جلاد بو لا اسی نہر کا کنارہ پکڑ کر آگے آگے چلتے جاؤ سیدھے اپنے گاؤں پہنچ جاؤ گے یہاں سے ذیادہ دور نہیں تمہارا گاؤں ۔
دل میں اگرچہ بے تحاشہ سوالات تھے پوچھنے کو
مجھے کیوں اغوا کیا اور اب چھوڑ کیوں دیا وغیرہ وغیرہ ۔مگر ہمت کس کی لاتا؟
وہ لوگ مجھے وہاں چھوڑ کر صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں سرپٹ گھوڑے دوڑاتے ہوۓ واپس پیچھے کی سمت نظروں سے اوجھل ہو گۓ ۔
میں وہاں سے سکھ کا سانس لیتے ہوۓ اپنے گاؤں کی جانب چل پڑا رہ رہ کے باپو کا خیال آرہا تھا میرا باپو میرے صدمے میں کہیں مرہی نہ گیا ہو ۔
میں اب اپنے گاؤں کے زمیندار جمنبد سرکار کی زمین میں پہنچ چکا تھا ۔
میں باپو کے خیالوں میں غرق تیز تیز قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہاتھا کے اچانک میری نظر نہر کے بلکل کنارے بے ہوش پڑی سانولی کے اوپر پڑی وہ اگر صوتر بھر بھی حرکت کرتی تو سیدھی نہر میں جا گرتی ۔
مجھے یہ اندازہ بھی نہیں تھا سانولی یہاں مردہ حالت میں پڑی ہے یا ابھی ذندہ ہے ۔میں نے انتہائی پھرتی سے پہلے اسے نہر کے دہانے سے گھسیٹ کر قدرے پیچھے کیا پھر کان لگا کر اسکے دل کی دھڑکن سنی جو چل رہی تھی میں نے اندازہ لگا
سانولی ابھی زندہ تھی مگر سب کچھ گنواچکی تھی ادھر میں اسے اپنی بانہوں میں سمیٹنے کی کوشش میں مگن تھا کے ادھر فضا کچھ لوگوں کے شور سے گھونج اٹھی ۔
ارے بچاؤ بچاؤ ارے کوئی روکو اسے
او دوڑو بئ دوڑو
او راکھا کسی لڑکی کو نہر میں پھنک رہا ہے!
اوۓ راکھے ۔ ۔ ۔ راکھے رک جا راکھے رک جا ارے بھاگو روکو اسے!!!!!
میں پلٹ کر کیا دیکھتا ہو ں!!!
پورا گاؤں ہاتھوں میں گنڈاسے اٹھاۓ میری جانب بھاگا چلا آرہا تھا ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●